شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
حدیث مبارک کے دو حصے ہوتے ہیں:
راویوں کے ناموں کا سلسلہ سند کہلاتا ہے اور سند کے بعد والا حصہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر پر مشتمل ہوتا ہے، متن کہلاتا ہے۔ حدیث کے باب میں سند کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سند کی جانچ پڑتال اور جرح و تعدیل ضروری ہوتی ہے تاکہ کوئی شخص آقا علیہ السلام کی طرف جھوٹی بات منسوب نہ کر سکے یا دین میں غلط چیزوں کو داخل نہ کر سکے۔ سند کی اسی اہمیت کے پیش نظرِ ائمہ نے اسناد کو دین قرار دیا ہے۔ سند میں ایک ایک راوی کو پرکھا جاتا ہے۔ حدیث نبوی میں ملاوٹ قبول نہیں، اس لیے سند کی جانچ پرکھ کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے سنار زیور بنانے کے لئے سونا پرکھتا ہے اور اسے کٹھالی میں ڈال کر بھٹی میں رکھتا ہے کہ اس میں کتنا سونا ہے اور کتنی ملاوٹ ہے۔ کسی بھی دور میں کوئی شخص اپنے مذہب کو ثابت کرنے، اپنی رائے کو تقویت دینے یا امت میں فتنہ و انتشار پیدا کرنے کے لئے مختلف ناموں سے چیزیں گھڑ کر حضور کی طرف منسوب نہ کر دے، اس امر کو روکنے کے لیے سند میں موجود ایک ایک راوی کو پرکھا جاتا ہے۔
امام محمد بن سیرینؒ، امام عبداللہ بن مبارکؒ اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ جب صحابہ اور تابعین کا دور تھا تو ہم حدیث نبوی ہر ایک سے لے لیتے تھے، سند نہیں پوچھتے تھے کیونکہ بیان کرنے والا الصحابۃ کلھم عدول کے مصداق ہر کوئی عادل اور سچا ہوتا تھا یعنی کوئی صحابی آقا علیہ السلام پر جھوٹ نہیں بول سکتا تھا اور جلیل القدر تابعین کا مرتبہ بھی یہی تھا۔ ہمیں ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ یہ معلوم کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کس نے روایت کیا ہے۔ کیونکہ ناممکن تھا کہ کوئی آقا علیہ السلام کی طرف غلط بات منسوب کرے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سن چکے تھے کہ
من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار.
(بخاري، کتاب الجنائز، الصحیح، باب ما یکره من النیاحة علی المیت، 1: 434، رقم: 1229)
جس نے میرے اوپر جان بوجھ کے جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکا نا جہنم میں تیا ر کر لے۔
لیکن جب امت میں فتنوں کا آغاز ہوا تو ائمہ حدیث نے حفاظتِ حدیث کے پیشِ نظر سند کا آغاز کیا۔ امت میں سب سے پہلا فتنہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوارج کی صورت میں رونما ہوا۔ بعد ازاں مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دوسرا فتنہ جنگ صفین میں پیدا ہوا، جب خارجی باقاعدہ ایک نئے عنوان کے ساتھ وجود میں آئے اور ایک دوسرے کے خلاف تہمتیں اور کفر کے فتوے شروع ہو گئے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بھی تکفیر کی اور اس طرح امت میں دھڑے بن گئے۔ کچھ خوارج بنے اور کچھ شیعانِ علی کے نام سے ظاہر ہوئے۔ پھر اکسٹھ (61) ہجری میں واقعہ کربلا پیش آیا اور امام عالی مقام امامِ حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار علیہم السلام شہید ہوئے۔ بنو امیہ کے لوگ اہل بیت اطہار علیہم السلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح یزید کی قیادت میں قریش کے بدمعاش، چھوکرے اور لونڈوں کی حکومت ایک اور فتنہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
جب پے در پے فتنوں کا آغاز ہوا تو تابعین اور اتباع التابعین نے اہتمام کر لیا کہ اب کسی سے حدیث سنو تو اُسے اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک یہ جانچ پڑتال نہ کر لو کہ اُس نے یہ حدیث کس سے سنی ہے۔ پس یہ ’’کس سے سنی ہے‘‘ کو جانچنے اور معلوم کرنے کے عمل سے سند کا اہتمام کیا گیا تاکہ کوئی شخص اپنے مذہب، مسلک، رائے اور ایک دوسرے کے خلاف عداوت و تعصب کے لیے کوئی بات گھڑ کر کسی صحابی کی طرف یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منسوب نہ کر سکے۔
پس حدیث کو قبول کرنے کی بنیاد اسناد پر رکھی گئی اور متن کی طرف توجہ کو مؤخر کیا گیا۔ یعنی پہلے اس جانب توجہ مبذول کی گئی کہ یہ پتہ چلے کہ روایت کس نے کیا۔
باب بیان أن الإسناد من الدین وأن الروایة لا تکون إلا عن الثقات.
(مسلم، الصحیح، 1: 14)
اسناد دین کا حصہ ہے اور روایت ثقہ علمائ، مشائخ اور ائمہ کے بغیر نہیں ہونی چاہئے۔
لم یکونوا یسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنة قالوا سموا لنا رجالکم.
(مسلم، الصحیح، 1: 15)
اس سے مراد ہے کہ فتنہ سے پہلے اسناد کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے، سب سچے لوگ تھے۔ جب زمانہ بدل گیا، سچوں کے زمانے میں جھوٹے بھی ساتھ آ گئے۔ مخلص کے ساتھ ملاوٹی بھی آ گئے تو ہم پوچھتے تھے کہ ہمیں پہلے اپنے رجال بتاؤ کہ تم نے کس سند سے یہ حدیث لی ہے ؟
فانظروا عمن تأخذون دینکم.
(مسلم، الصحیح، 1: 14 مقدمه)
دیکھو تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو۔
یعنی دین کا مفہوم تمہارے پاس کیا ہے اور کیا نہیں؟ یہ بعدکی بات ہے، پہلے یہ دیکھو کہ تمہارا استاد اور شیخ کون ہے؟ تم نے یہ دین، علم اور یہ بات کس سے لی ہے؟ اگر وہ سچا، عادل، ضابط، متقی ہے اور اس میں فسق، فجور، حافظے کی کمی، جھوٹ، غفلت اور خطا نہیں ہے تو پھر اس کی بات بھی ثقہ اور معتبر ہوگی۔ اس طرح سند کی ضرورت پیش آئی اور دین کا مدار سند پر رکھا گیا۔
قرآن مجید سے بھی سند کی اہمیت واضح ہوتی ہے، اس کے لیے درج ذیل دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1۔ سند اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے براہ راست انسانوں کو اپنی بات روایت نہیں کی بلکہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سند کے ذریعے ہم تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ یعنی:
أخبر الله تبارک وتعالیٰ حبیبه صلی الله علیه وآله وسلم ورسوله ونبیه وهو أخبرنا عن الله تبارک وتعالیٰ.
یعنی اللہ نے خبر دی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی طرف سے ہمیں خبر دی۔
پس نبیوں کی بعثت سند قائم کرنے کی بنیاد ہے۔
2۔ اللہ رب العزت کے فرمان: قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌ میں لفظ قُلْ میں سند ہے۔ بات اللہ کی توحید اور وحدانیت کی ہے، اللہ براہِ راست بھی فرماسکتا تھا کہ اللّٰہ احد (اللہ ایک ہے) مگر ایسا نہ کیا بلکہ یہ اسلوب اختیار کیا کہ میرے حبیب! بات میری ہے مگر آپ بتادیں کہ میں ایک ہوں۔ اس آیت مبارکہ میں اللهُ اَحَدٌ (اللہ ایک ہے) متن ہے اور قُلْ (تم کہہ دو) سند ہے۔
3۔ آقا علیہ السلام نے کفار مکہ کو اللہ کی توحید کی دعوت دی اور شرک کو ترک کرنے کا حکم دیا۔ کفار نے پوچھا کہ ہم نے اللہ کو دیکھا نہیں تو اسے کیسے مان لیں؟ فرمایا: میں راوی ہوں، میں تمہیں خبر دے رہا ہوں کہ اللہ ایک ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ راوی ثقہ ہے تو انہوں نے اس ثقہ راوی پر اعتماد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ایک ہونا مان لیا۔
4۔ کفارِ مکہ میں سے کئی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کیسے مان لیں؟ فرمایا: میری ثقاہت کی بنیاد مان لو، اس لیے کہ میں ثقہ ہوں۔ فرمایا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo
بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
(یونس، 10: 16)
یعنی میری زندگی کے 40 سال دیکھو، میں نے اگر 40 سال میں کبھی جھوٹ نہیں بولا تو اب بھی جھوٹ نہیں بول رہا۔ میری 40 سال کی زندگی میں تمہیں کہیں خطا، ثقاہت کے خلاف، فسق، غفلت، کذب اور رد کئے جانے کے قابل کوئی بات بھی نظر نہیں آئے گی۔ میں تو جب معصوم بچہ تھا، جس عمر میں کچھ ہوش نہیں ہوتا، تب بھی میرا ستر ننگا نہیں ہوتا تھا۔
پس اللہ کا ایک ہونا آقا علیہ السلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ اور اپنی ذات کی سند کے اصح الاسانید ہونے سے منوایا۔
5۔ سورۃ فاتحہ میں اللہ کے حضور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کے الفاظ کی صورت میں مومن کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْo
سیدھا راستہ اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا۔
باری تعالیٰ! ہم نے ہدایت صراطِ مستقیم کی مانگی مگر تو نے اپنے بندوں کے پیچھے چلا دیا۔ فرمایا: اس لیے کہ نیک بندوں کے بغیر ہدایت مل ہی نہیں سکتی۔ یہ صحیح سند ہے، اسے قبول کرو۔
اور اس حکم کے معاً بعد فرمایا:
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
یعنی جو غضب یافتہ اور گمراہ ہیں، یہ مثلِ موضوع ہوگئے، اُن کو ترک کرو اور سندِ صحیح اور حسن کے ساتھ چلو۔ اچھے لوگوں کے پیچھے چلو۔ گویا اللہ نے اپنا دین بھی خیرالرجال کے ساتھ مشروط اور مقرون کر دیا ہے۔
6۔ اللہ نے انبیا کرام علیہم السلام کو سند بنایا اور ان کے ذریعے دین عطا فرمایا:
7۔ بعد ازاں جب آقا علیہ السلام نے دین دیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سند بنایا اور وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ کے ذریعے واضح فرمادیا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ’’تمہیں اللہ نے سکھایا‘‘ بلکہ سکھانے والے میرے رسول ہیں۔ تمہیں اللہ نے براہِ راست نہیں سکھایا، لہذا جن کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا، اب وہ باقی تمام امت کے لیے سند ہیں۔
پس اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم دیا۔۔۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو علم دیا۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تابعین کو علم دیا۔۔۔ تابعین نے اتباع التابعین کو علم دیا۔۔۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سند کی وہ سنت جو اللہ نے قائم کی تھی، اُس پر پورا دین قائم ہوا۔
یاد رکھیں! علم سند کے ساتھ ہوتا ہے اور بے سند علم رات کے اندھیرے میں ہاتھ مارنا ہے۔ اندھیرے میں ہاتھ میں سانپ آ جائے اور ہم سمجھیں کہ رسی ہے، تو یہ عمل ہماری موت کا سبب بن جائے گا۔ اسی طرح سند اور تحقیق و تنقیح کے بغیر علم لیں گے تو ممکن ہے کہ وہ سانپ ہو اور ہمیں ڈس لے، جس سے ہمارا عقیدہ خراب ہو جائے اور ایمان مر جائے۔ لہٰذا دن کی روشنی میں علم لینا چاہئے اور دن کی روشنی سند کے ساتھ آتی ہے۔
حدیث ضعیف کی حجیت اور سند کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر متعدد ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں ابواب قائم کیے ہیں، ان میں سے چند حوالہ جات درج ذیل ہیں:
الغرض اکابر ائمہ کی کتب کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس اصول پر باب بنائے اور نصوص و روایات لکھی ہیں کہ حدیث ضعیف نہ صرف قبول ہے بلکہ اُس پر عمل بھی ہوتا ہے مگر اُس کی روایت میں لچک اور نرمی اختیار کی جاتی ہے۔ اگر حدیث ضعیف کو کلیتاً رد کر دیا جاتا تو اُس کی روایت میں نرمی کا اُصول وضع نہ ہوتا۔
1۔ امام عبد الرحمٰن بن مھدیؒ اکابر ائمہ میں سے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے زمانہ کے ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم نے ان کے طریق سے احادیث لی ہیں۔ یہ فن حدیث میں امام تھے۔ آپ حدیث ضعیف کی حجیت کے حوالے سے فرماتے تھے:
إذا روینا عن النبي صلی الله علیه وآله وسلم في الحلال والحرام والأحکام شددنا فی الأسانید وانتقدنا الرجال، وإذا روینا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب والمباحات والدعوات تساهلنا في الأسانید.
(الزرکشی، النکت علی مقدمة ابن الصلاح، 2: 308) (السخاوی، فتح المغیث، 1: 350)
جب ہم حلال اور حرام کے مسئلے کو روایت کرتے تو ہم سند کی بڑی سختی کرتے اور راویوں میں بڑی تنقید کرتے اور جب ہم فضائل اور ثواب کے امور پر حدیث کو روایت کرتے تو اسانید میں نرمی کرتے تھے اور رجال اور رواۃ میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔
2۔ امام سفیان ثوریؒ رجال میں فرق کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
لا تأخذوا هذا العلم في الحلال والحرام إلا من الرؤساء المشھورین بالعلم الذین یعرفون الزیادة والنقصان. فلا بأس بما سوی ذلک من المشایخ.
(ابن عدي، الکامل، 1: 257) (خطیب بغدادی، الکفایة، ص: 133)
جب حلال اور حرام کا معاملہ ہو تو صرف اُن لوگو ں سے روایت قبول کرو (علم لو) جو اپنے علم، ضبط، عدالت اور مقام میں مشہور ہیں اور جو الفاظ کی کمی بیشی (زیادہ، کمی) کو سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی معاملات ہوں تو تمام مشائخ سے لے لیا کرو۔
3۔ امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اپنی مجلس میں ایک امام سے ایک حدیث روایت کی تو ایک شخص نے کہا:
هذا رجل ضعیف. یہ راوی ضعیف ہے۔
قال: یحتمل أن یروی عنه هذا القدر.
آپ نے فرمایا: میں جس مو ضوع میں اس سے روایت کر رہا ہوں، اس قدر اس سے روایت کرنا جائز ہے۔
یعنی ضعیف ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اُس سے روایت نہ کیا جا ئے۔ گویا ائمہ حدیث میں سے کسی ایک کا بھی یہ مذہب نہیں رہا۔ ضعیف راوی سے مسائلِ ثواب، مسا ئلِ عقاب، مسائلِ ترغیب و ترہیب اور فضائل میں روایت کرنا جائز ہے۔
پوچھا گیا: مثل أي شيء کان؟ کس شے میں ایسے ضعیف راویوں سے روایت لینا جائز ہے؟
قال: في أدب، في موعظة، في زهد، أو نحو هذا.
(ابن ابی حاتم الرازی، الجرح والتعدیل، 2: 30)
انہوں نے کہا: اگر زہد، فضیلت، ادب، نصیحت اور تربیت کا معاملہ ہو اُس میں ضعیف رواۃ سے لینا جا ئز ہے۔
4۔ امام سفیان بن عیینہؒ نے ایک راوی بقیۃ کے بارے میں فرمایا:
لا تسمعوا من بقیة ما کان في سنة واسمعوا منه ماکان فی ثواب وغیره.
یعنی اُن سے سما ع نہ کیا کرو، وہ ضعیف ہے لیکن اگر ثواب اور فضائل کا معا ملہ ہو پھر اُس کی روایت کو لے لیا کرو۔ حلال و حرام کا معاملہ ہو تو اس کی روایت نہ لیا کرو۔
(خطیب بغدادی، الکفایة، ص: 134)
سنۃ سے مراد عقیدہ ہے یعنی عقیدہ کی بات ہو، اصول کے مسائل و احکام ہوں تو ضعفاء سے نہ لیں لیکن اگر فضائلِ اعمال کے مسائل ہوں تو ضعفاء سے لے لیں۔
5۔ امام احمد بن حنبلؒ اپنے زمانے کے جملہ ائمہ و محدثین کے طریقے کے متعلق فرماتے ہیں کہ
إذا روینا عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم في الحلال والحرام والسنن والأحکام تشددنا في الأسانید. وإذا روینا عن النبیؐ في فضائل الاعمال... تساهلنا فی الاسانید.
(خطیب بغدادی، الکفایه، ص: 134)
مراد یہ ہے کہ سب کا یہ طریق تھا اور ہے کہ جب ہم حلال و حرام اور سنن و احکام میں روایت کرتے یعنی جس روایت میں دین کے احکام و عقائد کے متعلق کوئی بات کہی گئی ہوتی تو پھر ہم سند میں بڑی سختی کرتے ہیں اور اگر ثواب اور فضائل کا معا ملہ ہو تو اسناد میں نرمی کرتے ہیں۔
گویا امام احمد بن حنبلؒ نہ صرف اپنا بلکہ امام شافعی، امام مالک، عبدالرحمن بن مہدی، امام محمد بن حسن، قاضی ابو یوسف، وکیع بن الجراح، عبداللہ بن مبارک، امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ و محدثین کے متعلق بتا دیا کہ ہم سب حلال و حرام اور احکام و عقائد سے متعلقہ احادیث کی پرکھ میں بڑی سختی کرتے ہیں، جرح و تعدیل میں شدت اختیا کرتے ہیں لیکن اگر اعمال کی فضیلت اور ثواب کے معاملات میں روایت کریں، جس میں الگ سے کوئی حکمِ شریعت وضع نہ ہو رہا ہو تو پھر ہم اسانید میں اور راویوں میں نرمی اور لچک سے کام لیتے ہیں۔
حدیث ضعیف کے حوالے سے مذکورہ تمام گفتگو اس ضمن میں ابھی صرف ایک باب ہے اس موضوع پر مزید عظیم الشان علمی ابحاث ہیں، جن پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی نشست میں ہوگی۔ میں امید کرتا ہوں کہ حدیث ضعیف کے حوالے سے مذکورہ گفتگو سے بھی الحمدللہ تعالیٰ بہت سے دروازے کھلے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات سمجھنے کی قو فیق دے اور علم کی وقعت اور قدرومنزلت ہمارے دل و دماغ میں راسخ فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved