شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
مرتبہ: نازیہ عبدالستار
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو بطور رول ماڈل پیش کرنے کا ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ چودہ، پندرہ صدیاں گزر گئیں کیوں انسانیت اتنے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس ایک شخصیت کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ کیوں پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود ہم حضور علیہ السلام ہی کی اطاعت و اتباع کرتے ہیں؟ اور آپ ہی سے کمال درجے کی محبت اور تعظیم کرتے ہیں؟ اس موضوع میں انہیں سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی امت پر یہ فرض عائد کر دیا ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چار طرح کا تعلق رکھیں تب ایمان کامل ہو گا ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی کمزور رہ گیا تو ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ کامل ایمان کا تقاضا ہے کہ چاروں طریقے سے بیک وقت حضور علیہ السلام سے جڑ جائے اور آقا علیہ السلام کی ذات اقدس سے بے پناہ محبت کی جائے، یہ ایمان کی تعریف ہے اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوگا۔ دوسرا اطاعت جو کچھ حضور علیہ السلام نے فرمایا اس کی تعمیل کی جائے۔ تیسری اتباع جو کچھ حضور علیہ السلام نے کیا اس کی پیروی کی جائے اور چوتھا تعظیم۔ آقا علیہ السلام کا کمال درجے میں ادب اور تعظیم، تکریم کی جائے کہ اللہ رب العزت کے بعد کائنات میں اتنا ادب اور اتنی تعظیم کسی اور کے لیے نہ ہو۔ النبی أولیٰ بالمؤمنین من أنفسهم اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مومن وہ ہیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر ان سے محبت کریں۔ پھر فرمایا گیا من یطع الرسول فقد أطاع الله جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کر لے اس نے گویا صرف رسول کی ہی اطاعت نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر لی۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت الٰہی بنا دیا۔ تیسری آیت قل إن کنتم تحبون الله فاتبعونی اگر اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پہ چلو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ و سیرت میں عملاً ڈھل جاؤ۔ فرمایا: فالذین آمنوا به و غزروه اس میں فرمایا کہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ ادب اور تعظیم کا رشتہ رکھو، حد سے بڑھ کر ادب کرو۔ قرآن مجید نے چاروں نوعیت کے تعلق کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے بیان کر دیا پھر ان کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ کسی سے محبت، اطاعت اور کسی کی تعظیم کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اس وقت تک کوئی محبت نہیں کرتا جب تک وہ محبوب جس سے محبت کرنا چاہ رہا ہے۔ اس کا حسن و جمال دل کو موہ نہ لے، اس کے چہرے، زلفوں، رنگت، اس کے سراپا حسن پر، اس کے اٹھنے بیٹھنے پر، اس کے چلنے پھرنے، اس کی آنکھوں، اس کے رخسار سے نگاہ ہٹنے کا نام نہ لے جب تک اس کے حسن و جمال میں اتنی کشش نہ ہو۔ اس وقت تک کوئی کسی سے ٹوٹ کر محبت نہیں کرتا تو محبت کمال درجے کا حسن و جمال مانگتی ہے۔
اگر وہ ظاہری طور پر حسین تو ہے مگر بڑا بد مزاج اور بد اخلاق، جھوٹا اور مکار اور ظالم ہے تو محبت کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے یا وہ عقلمند نہیں ہے، بے وقوف ہے، حسن تو ہے مگر عقل کوئی نہیں، شکل ہے اگر اس کی دانش ہی پوری نہیں ہے تو محبت نہیںہوگی۔
اب دوسرا تقاضا اطاعت ہے اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے اس کے ہر حکم ہدایات کو ماننا، کسی کے احکام کو دل و جان سے اس وقت تک نہیں مان سکتے جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو،اس کے کہنے میں افادیت ہے۔
اگر کسی شخص کو پندرہ سو سال گزر گئے ہیں آج بھی اگر آپ ان کی اطاعت کریں گے تو اس یقین، ایمان اور اعتماد کے ساتھ کریں گے کہ جو بات انہوں نے فرمائی تھی وہی بات آج بھی حق ہے جس طرح عہد ابو بکرؓ و عمرؓ میں حق تھی۔
کیونکہ ان کا علم اتنا مضبوط، وسیع، کامل اور محیط ہے کہ جس جہت سے انہوں نے جو بات کہی وہ پندرہ سو سال تو کیا پندرہ لاکھ سال بھی گزر جائیں، انسانی عقل کبھی بھی اسے غلط ثابت نہیں کر سکے گی۔ ہمیشہ وہ بات سچ رہے گی۔ سائنس، فلسفہ، اکنامکس، علم سیاسیات، معاشرتی اقدارترقی کر جائیں۔ جتنی انسانی عقل پرواز کرتی چلی جائے جب انسانی عقل اور علم و فکر اپنے عروج پر پہنچ کر جو بات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی اس کی دہلیز پہ سجدہ ریز ہوجائے گی۔
جب اتنا پختہ اعتماد ہوتا ہے کسی شخصیت کے بارے میں تو تب اس کی اطاعت آنکھیں بند کر کے کرتے ہیں۔
تو پھر کہیں گے کہ ہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی قیامت تک واجب الاطاعت ہیں اور آقا علیہ السلام کے سوا کوئی اتنی عظیم مطلق اطاعت کا حقدار نہیں ہے، اب تیسرا تعلق اتباع ہے۔ اتباع سے مراد جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا، آپ کی سنت، آپ کی سیرت مبارکہ، عبادات کا معاملہ، لوگوں، بچوں، بیوی، عزیز و اقارب، دوستوں، دشمنوں سے، جانوروں سے، گھر کے اندر اور باہر جو بھی عمل آپ نے کیے وہ ہمارے لیے اسوہ کامل ہیں۔ آپ کا اسوئہ حسنہ، سیرت طیبہ اتنی اکمل ہے کہ اس جیسا ماڈل دنیا میں کوئی اور شخص نہ دے سکے۔
اگر یہ چیز ہو جائے تو پھر انسان پیروی کرتا ہے اور چوتھا پہلو تعظیم کا ہے۔ تو تعظیم تب ہوتی ہے اگر یہ یقین ہو کہ ان کے پاس، روحانی مقام و مرتبہ سب سے اونچا ہے۔ ان کے فضائل، کرامات، معجزات، روحانی تصرفات سب سے بلند ہیں اور کوئی دنیا اور قیامت میں ان کا ہمسر اور برابر نہیں اگر کسی کی عظمت کا تصور ذہن اور دل میں اتنا بیٹھ جائے تو پھر آدمی کا سر تعظیم سے جھک جاتا ہے۔
آقا علیہ السلام سے پہلے انبیاء جو دنیا میں آتے تھے وہ ایک قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے سو اگر وہ اپنے نبی سے محبت، اطاعت، اتباع اور تعظیم کرتے تھے تو ان کا ایک زمانہ تھا، جب آقا علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو زمان و مکان کی حدود ختم کر دی گئیں کسی ایک قوم کے لیے آقا علیہ السلام نہیں آئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قل یاأیھا الناس إنی رسول الله إلیکم جمیعا.
آپ فرما دیجئے اے بنی آدم میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔
سو جب تک انسانیت آتی رہے گی۔ آقا علیہ السلام ہی سب کے رسول رہیں گے۔
صحیح مسلم میں ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’و أرسلت إلی الخلق کافة و ختم بها النبیون‘ میں اللہ کی ساری مخلوق کا نبی بن کے آیا ہوں۔ اور میری آمد پر نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ جب تک یہ کائنات آباد ہے تب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا جھنڈا لہرائے گا اور جب کائنات ختم ہو جائے گی تو قیامت کے دن بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا سورج طلوع ہو گا۔
چونکہ قیامت کے دن لواء الحمد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہو گا، آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک کل رسول اور نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے چل رہے ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آقا علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی وجہ سے ہر دور کے لوگوں پر واجب ہوگیا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں تو گویا مطلب یہ ہوا کہ پندرہ سو سال میں آج تک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سا کوئی اور حسین نہیں ہوا کہ کوئی کسی اور سے محبت کر سکے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد نہ بہت اونچا تھا، نہ دارز نہ پست تھا بلکہ درمیانہ قد مگر مائل بہ طول تھا، بال مبارک نہ بہت کنڈل والے تھے، تھوڑے گنگھریالے تھے، بہت سیدھے بھی نہ تھے، جسم اقدس نہ بھاری تھا نہ بہت ہی دبلا پتلا، چہرہ مبارک نہ بہت لمبا تھا نہ بالکل گول، گولائی مائل تھا۔ رنگ آقا علیہ السلام کا سفید تھا جس میں گلاب کی سرخی ملا دی گئی ہوں۔ رنگ ایسا تھا کہ جیسے چاندی میں سونا ملا دیا گیا ہو۔ چشمان مقدس بڑی اور سیاہ تھیں، پلکیں دراز تھیں، جوڑوں کی ہڈیاں مضبوط تھیں، کندھے آقا علیہ السلام کے چوڑے تھے، پرُ گوشت تھے ہڈیاں نظر نہیں آتی تھیں۔ بدن مبارک پر بال نہ تھے، سینہ مبارک سے ناف مبارک تک ہلکی لکیر تھی اور پورا جسم خوبصورت تھا اور ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے مورتی کو چاندی سے ڈھال دیا ہے۔ اور جو حضور علیہ السلام کو دیکھ لیتا وہ یہ بے ساختہ پکار اٹھتا کہ خدا کی قسم ایسا حسیں نہ پہلے کبھی کائنات میں تھا نہ بعد میں ہو گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: ’’آپ کا چہرہ چودہویں رات کے چہرے کی طرح چمکتا تھا جب پسینہ آتا تھا تو پسینے کے قطرے یوں لگتے تھے جیسے سفید چمکتے ہوئے موتی گر رہے ہیں اور جب خوشی کی حالت ہوتی تو چہرہ اقدس سے نور کی شعائیں نکلتی کہ چاند بھی ماند پڑ جاتا‘‘۔
جب تک حضور کے ایسے حسن پر ایمان نہ رکھا جائے اس وقت تک وہ شخص مومن نہیں ہوتا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے لیے جتنی تشبیہات دی گئی ہیں یہ ساری سمجھانے کے لیے دی گئی ہیں اور یہ آقا علیہ السلام کے حسن کا ایک جزو تھا، جسے اللہ پاک نے انسانی کائنات پر ظاہر کیا اگر سارا حسن ظاہر کر دیا جاتا تو ائمہ کہتے ہیں خدا کی قسم، خدا کا عرش بھی پگھل جائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی فکر، فہم کو اتنی کاملیت تھی کہ آقا علیہ السلام جیسا دانا، عاقل، صاحب فکر اور پختہ فہم، فلاسفر، سائنسدان، لیڈر انسانی تاریخ میں پہلے کبھی پیدا ہوا تھا نہ ہوا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی قوی رائے تھی کہ سب کتابوں میں یہ درج تھا کہ ساری کائنات میں انسانوں کو جو عقل دی گئی اگر وہ ساری عقل جمع کر لی جائے تو حضور علیہ السلام کی عقل و دانش کے مقابلے میں وہ ریت کے ایک ذرے کا ادنیٰ سا ٹکڑا بھی نہیں بنتی، جتنی عقل، دانش، فہم، ادراک، معرفت آقا علیہ السلام کو اللہ نے عطا کی۔ آقا علیہ السلام ساری مخلوقات کے لیے رسول تھے۔ لہذا اطاعت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ براہ راست اپنی مخلوق سے ہم کلام ہوتے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائنات کی ساری زبانیں عطا کی گئیں جس سے ہمکلام ہوتے اسی کی زبان میں بولتے۔ پندرہ صدیوں میں کوئی شخص ایسا ہے کہ وہ دنیا کے جس ملک اور خطے کے کسی شخص سے بھی کلام کرے تو اسی کی زبان میں بولے یہ قدرت ہر زبان پہ صرف تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھی۔
کتب حدیث میں آتا ہے آقا علیہ السلام کے وصال سے تین دن پہلے ایک وفد افریقہ سے آیا اور ایک وفد سندھ سے گیا۔ ہندوستان سے جو موجودہ پاکستان ہے۔ دونوں وفد آقا علیہ السلام سے ملے اور تاجدار کائنات نے دونوں کے ساتھ گفتگو کی۔ افریقہ والوں سے افریقہ کی زبان میں بات کر رہے تھے اور ہندوستان سندھ سے آنے والوں کے ساتھ سندھ کی زبان میں بات کر رہے تھے اور آقا علیہ السلام نے ان سے پوچھا سندھ سے آئے ہو؟ کہا جی ہاں۔ تم افریقہ سے آئے ہو؟ جی ہاں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بتایا اچھے وقت آ گئے تین دن بعد میرا وصال ہونے والا ہے۔
کس انسٹی ٹیوٹ سے تاجدار کائنات نے یہ زبانیں سیکھیں؟ زبانوں پر مہارت، خداداد صلاحیت تھی۔ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جنات بھی آتے تھے اور سورۃ جن کی پہلی آیات میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جنات کا آنا، رہنمائی لینا، اسلام قبول کرنا، ہدایت لینا اور واپس اپنی قوم میں جانا بیان ہوا ہے۔
آقا علیہ السلام نے جن سے اس کی زبان میں پوچھا۔ ’’بتاؤ اے جن، کس قبیلے سے ہو؟ اس نے کہا میں ابلیس کا پڑپوتا ہوں، آقا علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے اور تمہارے پڑ دادا ابلیس کے درمیان صرف دو واسطے ہیں، تمہارا باپ اور ایک تمہارا دادا؟ اس نے کہا جی ہاں، آقا علیہ السلام نے پوچھا۔ اپنی عمر کا حال بتاؤ۔ اس نے کہا کہ جب قابیل نے حضرت ہابیل کو شہید کیا تھا، تو میں چھوٹا سا بچہ تھا، مجھے وہ واقعہ یاد ہے اس نے کہا کہ میں پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لے آیا اور جب انہیں آگ میں ڈالا گیا وہ منظر دیکھا، میں آگ بجھانے کی کوشش کرتا تھا پھر اس کے بعد سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لایا پھر اس کے بعد سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام پر ایمان لایا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی بارگاہ میں آیا ہوں، میرے پاس ایک پیغام ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کیا؟ اس نے کہا: کہ جب میں عیسیٰ علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھتا تھا، تو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: کہ میرے بعد سب نبیوں کے سردار آنے والے ہیں، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تُو زندہ ہو گا اور جب تُو اُن کی بارگاہ میں جائے تو میرا عاجزانہ سلام پیش کرنا۔ آقا عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سلام کہلوا بھیجا ہے۔ یہ سلام سن کر آقا علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا ہام بن ہیم تم پر بھی اور میرے بھائی عیسیٰ پر بھی سلام ہو۔
جب ساری بات ہو چکی اس کے بعد آقا علیہ السلام نے پوچھا تمہاری کوئی حاجت ہے؟ اُس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ پر ایمان لایا ہوں مجھے قرآن پڑھا دیجئے۔ آقا علیہ السلام نے قرآن کی دس سورتیں اس کو پڑھا دیں‘‘۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کے نبی تھے، سب پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت واجب تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو شجر و حجر، حیوانات کے لیے بھی رحمت ہیں، آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جانور آتے اپنی پریشانی پیش کرتے۔ امام ابو داؤد نے روایت کیا:
’’ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں اونٹ آیا، جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو اونٹ رو پڑا اور آقا علیہ السلام نے اس سے گفتگو کی کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا کہ اس کا مالک اسے بھوکا رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصاری کو بلایا اور فرمایا: اونٹ نے تیری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لیتے ہو‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو درختوں سے بھی کلام کرتے تھے۔ لوگ آتے اور کہتے کہ کون گواہی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں؟ آپ درخت کو حکم دیتے ہیں کہ اے درخت آ جا میری رسالت کے گواہی دے۔ درخت زمین کا سینہ چیرتے ہوئے اوپر نیچے سجدہ کرتے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آ کر گرتے اور أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أنک محمد رسول الله کہتے۔
آقا علیہ السلام نے آج کے دور کی سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کی بات کی۔ تو اس کا مطلب ہے اُن کی نگاہ کائنات کے ہر زمانے پر تھی۔
حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سٹیج پر کھڑے ہوئے اور کائنات کی ابتداء سے لے کرقیامت تک ساری کائنات کی تاریخ کے واقعات اور احوال ہمیں بیان کر دئیے۔ جس کو جتنا یاد رہا یاد رہا جو بھول گیا بھول گیا۔
آقا علیہ السلام کی وسعت علم کو دیکھئے ساری تاریخ نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںہے۔
جب علم اور نظر اتنی وسیع ہو ا تب ہی وہ رسول کائنات انسانی کی پوری رہنمائی کر سکتا ہے، یہ تو ماضی کی بات تھی۔ مستقبل میں آج ٹیکنالوجی کا وہ دور جس میں گاڑیوں پہ سفر کرتے ہیں، پندرہ سو سال قبل اونٹ، گھوڑا اور گدھا یہ سواریاں تھیں۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’لوگو! میری امت کے زمانوں میں آخر میں ایک دور آئے گا جب یہ اونٹ، گدھے اور گھوڑے یہ سواریاں نہیں ہوں گی، ان کی جگہ بڑی بڑی سواریاں، جن کی بڑی بڑی سیٹیں ہوں گی، ان پر لوگ بیٹھ بھی سکیں گے سو بھی سکیں گے‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے کہا خدا کی قسم آقا علیہ السلام اس وقت تک ہم سے جدا نہیں ہوئے جب تک ہمیں آنے والے تمام حالات و واقعات بیان نہ فرمادیئے ہوں۔ یہاـں تک کہ صحابہ فرماتے ہیں خدا کی قسم ہمیں حضور علیہ السلام نے یہ علم بھی بتا دیا کہ پرندے جب ہوا میں اڑتے ہیں تو ان کے اڑنے کا اصول کیا ہے؟
ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کنز العمال میں ہے کہ ’’آقا علیہ السلام نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک وقت کی اکائیاں آپس میں سمٹ کر قریب نہ آ جائیں جب تک لوگ چاند پر نہیں جائیں گے اور سیارے اس زمین کی فضا سے نکل کر اوپر سیارگان فلکی کی فضا میں نہیں جائیں گے‘‘۔
جہازوں کے سفرمیں اور سیاروں کے سفر میں کہ ایک سیارہ چلتا ہے اور چوبیس گھنٹے پوری زمین کا مدار کا چکر لگاتا ہے اسی ایک ہی وقت میں رہتا ہے۔ زماں کی اکائیاں سکڑ جاتی ہیں اور مکاں کی اکائیاں سکڑ جاتی ہیں۔ فرمایا: قیامت کے آنے سے پہلے زماں اور مکاں کی اکائیاں قریب آ جائیں گی۔ آج ہر گھر میں ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر ہے، کی پیڈ ہے اور ہر شخص گھر میں بیٹھے ٹچ کر کے پوری دنیا کا انٹرنیٹ کھول کر سارا علم لے لیتا ہے۔
امام دارمی سنن میں روایت کرتے ہیں ’’آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے میں علم کو اتنا پھیلا دوں گا کہ مرد، عورت، آزاد لوگ، غلام حتی کہ بڑے تو بڑے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں بھی علم آ جائے گا‘‘۔
چھوٹے چھوٹے بچے آج انٹرنیٹ کھول کے علم حاصل کرتے ہیں۔ جو چیز آج سے پچاس سال قبل آپ تصور نہیں کر سکتے تھے وہ پندرہ سو سال قبل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو بتا دی ہے کہ گھر گھر میں علم پہنچا دوں گا۔
تو آقا علیہ السلام نے کمپیوٹرز، آئی پیڈز، ڈی وی ڈیز، سی ڈیز کی خبر دی کہ گھر گھر پہنچ جائیں گے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ ’’ایک روز انصار کی دو بچیاں دف لے کر میرے گھر آئیں اور انصار کی جرأت اور شجاعت کے ترانے گا رہی تھیں اور دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں حضور لیٹے ہوئے تھے، سن رہے تھے ابو بکر صدیق آئے انہوں نے ان کو ڈانٹا کہ رسول اللہ کے گھر میں یہ شیطان کے باجے؟ جب یہ بات کہی آقا علیہ السلام نے چہرے سے چادر ہٹا دی اور آپ نے فرمایا: ابو بکر ان بچیوں کو نہ ڈانٹو ہر قوم کی عید ہوتی ہے یہ ہمارے عید کے لیے دن ہیں ان کو گا لینے دو۔ یہ آقا علیہ السلام کی لبرل ازم ہے۔
حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں: ’’چھوٹے چھوٹے بچے حضور کی مجلس میں آ کے بیٹھ جاتے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ چھوٹی عمر کے چھوٹے بچے تھے وہ حضور کے دائیں جانب بیٹھ گئے، کسی نے دودھ کا پیالہ پیش کیا بائیں طرف ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ بیٹھے تھے آپ کا طریقہ تھا کہ دائیں جانب سے شروع کرتے، آپ نے دودھ پیا اب چاہتے تھے کہ ابو بکر و عمر کو دیں وہ سینئر ہیں مگر دائیں طرف چھوٹا بچہ بیٹھا تھا تو آقا علیہ السلام نے اصول نہیں توڑا۔ بچے کا دل بھی نہیں توڑا۔ پوچھا اے بیٹے! کیا مجھے اجازت دیتے ہو کہ یہ دودھ بچا ہوا پہلے میں بزرگوں کو پیش کر دوں؟ تو چھوٹے بچے نے کہا آقا آپ کا بچا ہوا دودھ ہے یہ قربانی میں نہیں دے سکتا یہ خود پیوں گا، جب یہ کہا تو بڑوں کو چھوڑ دیا اور پیالہ چھوٹے بچے کو عطا کر دیا یہ بچوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
یعنی ایک طرف انسانوں، عورتوں اور بچوں پر شفقت دوسری طرف جانوروں کے حقوق۔ دنیا کی کوئی گورنمنٹ جس امن اور ماڈریشن کی بات کرتی ہیں تاجدار کائنات نے وہ پیغام پندرہ صدیاں پہلے دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انسانیت چودہ سو سال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved