ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
ایک صحابی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا: ام المومنین! ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیں۔ آپؓ اس سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں:
أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟
آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ کے بارے میں پوچھنے والے! پہلے یہ تو بتاؤ کہ کیا تونے قرآن نہیں پڑھا؟
کان خلقه القرآن.
اخلاقِ مصطفی ہی تو قرآن ہے۔
(أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 6: 91، الرقم: 24645)
یعنی جو کچھ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے وہ خلقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تو ہے۔ اگر قرآن مجید کو پڑھنا چاہتے ہو تو اس کے الفاظ کو پڑھو اور اگر قرآن میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اُسے کامل صورت میں دیکھنا چاہتے ہو تو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھو۔
قرآن مجید میں جابجا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خَلق اور خُلق کے تذکرے موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور، زلفِ عنبریں، نگاہ مبارک، سینہ اطہر، ہاتھ مبارک حتی کہ آپ کی پوری زندگی کی قسم کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ آپ کے تحمل و برداشت، رفق، استقامت، صبر، شکر، سخاوت اور دیگر اوصاف و اخلاق عالیہ کا ذکر بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہر سورت، ہر آیت اور ہر حرف کا ایک ظاہر بھی ہے اور ایک باطن بھی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خُلقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ جو باطنِ قرآن تک پہنچا اُسے باطنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت مل گئی اور جو ظاہرِ قرآن تک پہنچا وہ ظاہرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت سے شناسا ہوگیا۔ اسی طرح جو حقیقتِ قرآن تک پہنچا اُسے حقیقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مل گئی اور جو نورِ قرآن تک پہنچا، اُسے نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مل گئی۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرفِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اعلان نبوت سے قبل محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات، اوصاف، اخلاق، شمائل، خصائص اور محبوب کی اداؤں کو دنیا کو دکھایا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کوئی نہیں اور پھر بالآخر اس ذات و کردار کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پیش کیا۔
اعلان نبوت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے اُن 40 سالوں کو کفارِ مکہ کے سامنے بطورِ دلیل بیان کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے درمیان رہ کر گزارے۔ ارشاد فرمایا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.
’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔
(یونس،10: 16)
یعنی اگر تمہیں میری اس 40 سالہ زندگی میں سے کسی ایک بھی لمحہ پر کوئی اعتراض و شک ہو تو بے شک میری اس دعوت کو قبول نہ کرو لیکن اگر تمہیں میری گزشتہ 40 سال کی زندگی میں کوئی اشکال اور شک و شبہ کی گرد بھی نظر نہ آئے تو پھر جان لو کہ میں تمہیں جس اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دے رہا ہوں، میری یہ دعوت حق ہے اور اُس کی وحدانیت و الوہیت پر سب سے بڑی دلیل میری ذات ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اعمال، اخلاق، احوال اور اقوال کیا تھے، جس بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ نہ صرف توحید کی دلیل قرار پائی بلکہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ کے تحت تا قیامت اسوہ حسنہ بھی قرار دی گئی۔ ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ہی اخلاق کی ایک جھلک ایک ایسی تفصیلی روایت سے پیش کی جارہی ہے، جو درج ذیل کتب حدیث میں روایت کی گئی ہے:
ان کتب کے علاوہ بھی کئی کتب احادیث میں اس روایت کا ذکر آیا ہے۔ اس موقع پر اِن تمام کتب سے جملہ اخلاقِ عالیہ کے بیان پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ یہاں پیش کرتا ہوں تاکہ ہم بھی اِن کی خوشبو کو سونگھ سکیں اور اپنے قلب و روح میں اس خوشبو کو بساتے ہوئے اس سے اپنے اقوال، اعمال اور احوال کی بہتری کا سامان لے سکیں۔ اس لیے کہ اگر ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، اِن اخلاق کا لباس یا ان کا رنگ اپنے سیرت و کردار پر چڑھا لیتے ہیں تو اسی میں ہماری دنیاوی و اُخروی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
ایک دفعہ سیدنا حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام نے ابی ھالہ کے بیٹے حضرت ابن ابی ہالہ جو رشتے میں آپ کے ماموں تھے، ان سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اور احوال کے متعلق پوچھا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق، اعمال اور احوال بتائیں تاکہ میں انہیں اپنے دل کے آئینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلوں۔ تو انہوں نے آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ کو تفصیل سے بیان کیا۔
حضرت امام حسن مجتبیٰؓ کے سوال پر حضرت ابن ابی ھالہ نے فرمایا:
11. کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم دَائِمَ الْبِشْرِ
آقا علیہ السلام کشادہ اور کھلتے ہوئے چہرے والے تھے۔
غور کریں کہ راوی نے بات بھی صورتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع کی کہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑا ایسا تھا کہ ان جیسا کوئی نہ تھا۔
2. سَهْلَ الْخُلُقِ
حضور ہمیشہ خوش خُلق اور نرم خُو تھے۔
یعنی بڑی نرم گفتگو فرمانے والے تھے،کبھی تُرش اور سخت بات نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن سے ہم جتنا سیکھ لیں، اتنا ہی ہمارے لیے زادِ راہ ہے۔
3. لَیْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِیظٍ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تند خو تھے اور نہ سخت دل۔
یعنی پیکرِ رحمت، پیکرِ عفت، پیکرِ شفقت، پیکرِ عفو ودرگز، پیکرِ کرم ہی کرم تھے۔
4. وَلَا صَخَّابٍ، وَلَا فَحَّاشٍ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ترش انداز سے آواز بلند کرتے تھے اور نہ بدکلامی فرماتے تھے۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی خطاب فرماتے تھے تو بڑے خوبصورت انداز سے خوش کلامی فرماتے تھے۔ اسی لیے تو اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.
(آل عمران، 3: 159)
’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
عشقِ الہٰی کی شراب پلانے والا بڑا خوش خُلق ہے، وہ کہتا ہے کہ پیتے بھی جاؤ اور تمہاری خیر بھی ہو۔ یہ وہ کریم اور لجپال ہے کہ کوئی در پر آجائے تو پیالے بھر بھر کے بھی دیتے ہیں اور ساتھ خیر کی دعائیں بھی دیتے ہیں۔
5. وَلَا عَیَّابٍ وَلَا مُشَاحٍّ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ عیب جو تھے اور نہ بخیل تھے ۔
6. یَتَغَافَلُ عَمَّا لَا یَشْتَهِی
جس چیز کو پسند نہیں فرماتے تھے تو اس پر جھگڑا نہیں فرماتے تھے، بس صرف ِ نظر سے کام لیتے تھے۔
یعنی اس پر سے نگاهِ مبارک بڑے پیار اور آرام سے ہٹا لیتے تھے تاکہ اسے محسوس بھی نہ ہو اور اُس سے کوئی جھگڑا بھی نہ ہو۔
7. وَلَا یُؤْیِسُ مِنْهُ رَاجِیْهِ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عطا کی امید رکھنے والا کبھی خالی جھولی نہیں جاتا تھا۔ یعنی کوئی کافر، کوئی مشرک، کوئی دشمن ہی کیوں نہ آجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے اس کی سوچ سے زیادہ عطا فرمادیتے تھے۔
8. وَلَا یَخِیْبُ فِیْهِ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے کوئی ناامید ہوکر نہیں جاتا تھا۔
9. لَا یَتَکَلَّمُ إِلَّا فِیمَا رَجَا ثَوَابَهُ.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف وہی کلام فرماتے تھے جس میں خیر ہی خیر ہوتی تھی۔
یعنی کلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبنی بَر خیر تھا۔ ذہن میں رکھ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ حقیقی وہ ہی ہیں جو اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہوجاتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں فنا تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
صحابہؓ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو:
وَإِذَا تَکَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُه، کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِهِمُ الطَّیْرُ
جب آقا علیہ السلام گفتگوفرماتے تھے تو صحابہ کرام اپنی نظروں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جھکا دیتے تھے، ایسے لگتا تھا کہ جیسے اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں اور اگر انہوں نے معمولی سی بھی حرکت کی تو خطرہ ہے کہ اُڑ جائیں گے۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ پیکرِ ادب بن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھتے تھے۔
فَإِذَا سَکَتَ تَکَلَّمُوْا وَلَا یَتَنَازَعُونَ عِنْدَهُ الْحَدِیثَ.
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو جاتے تو پھر صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنے کی اجازت لیتے اور جب اہلِ مجلس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں آپس میں بھی گفتگو کرتے تو جھگڑا نہ کرتے۔
یعنی صحابہ نے یہ بھی اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا تھا۔
10. حَدِیثُهُمْ عِنْدَهُ حَدِیْثُ أَوَّلِهِمْ
گفتگو فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح پہلے شخص پر توجہ دیتے تھے اور اس کی بات کو سنتے تھے، وہی توجہ آخری شخص پر بھی ہوتی تھی اور اس کو بھی اسی طرح توجہ سے سنتے۔
کوئی غریب، فقیر یا کوئی غلام بھی بولتا تواِتنی توجہ سے سنتے جیسے کوئی سردار بول رہا ہے۔یہ بھی کمالِ اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔
11. وَلَا یَقْطَعُ عَلَی أَحَدٍ حَدِیْثَهُ حَتَّی یَجُوْزَ فَیَقْطَعُهُ بِنَهْیٍ أَوْ قِیَامٍ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی کسی شخص کی گفتگو کو نہ کاٹتے تھے اور نہ ٹوکتے تھے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حد سے تجاوز کرنے لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کو پیار سے روک دیتے یا خاموشی کے ساتھ مجلس سے اُٹھ کر تشریف لے جاتے اور وہ شخص خود سمجھ لیتا کہ شاید میں نے حد سے تجاوز کیا۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک خوبصورت حدیث روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانے لگا۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ خندہ پیشانی سے سنتے رہے اور اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اُس نے پھر تہمت لگائی، آپ خاموش رہے حتی کہ اس کی ہر تہمت پر آپؓ نے جواب نہیں دیا اور خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے سر نیچے جھکا لیتے۔ اُن کی یہ کیفیت دیکھ کر آقا علیہ السلام مسکراتے رہے۔ جب اس شخص نے پانچویں دفعہ تہمت لگائی تو پھر سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اُس شخص کو جواب دے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جیسے ہی اسے جواب دیا تو آقا علیہ السلام اس مجلس سے اُٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی مجلس چھوڑی دی اور آقا علیہ السلام کے پیچھے چلے گئے اور عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہوگئی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے تشریف لے آئے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر جب تک تو خاموش تھا اور اپنا جواب خود نہیں دیتا تھا تو تیرے دفاع میں اللہ رب العزت نے اپنا فرشتہ بھیجاتھا، جب وہ شخص تہمت لگاتا تھا تو خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ تیری طرف سے اسے جواب دے رہا ہوتا تھا۔ میں اس صورتِ حال میں خد ا کا شکر ادا کر رہا ہوتا تھا کہ اے مولیٰ! تیرا شکر ہے کہ تونے ابو بکر کے لیے اپنا فرشتہ بھیجا اور فرشتے کا جواب سن کر مسکرا رہا تھا۔ جیسے ہی تونے خود ا پنا جواب دینا شروع کر دیا تو فرشتہ واپس چلا گیا۔ پس جب فرشتہ چلا گیا تو میں بھی اس مجلس سے اُٹھ گیا۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 436، رقم: 9622)
درج بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہمیں اپنے اخلاق و کردار پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی کہ اس حوالے سے ہمارا طرزِ عمل کیا ہے۔
12. کَانَ لَایَتَکَلَّمُ فِی غَیْرِ حَاجَةٍ. وَیَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ.کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیْثًا لَوْ عَدَّهُ الْعَادُّ لَأَحْصَاهُ.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا ضرورت کوئی گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو مبارک بھی بامعنیٰ و بامقصد ہوتی تھی اور ہمیشہ جو بھی فرماتے تھے وہ جوامع الکلم ہی ہوتے تھے۔ جب آقا علیہ السلام گفتگو فرماتے تھے تو آپ اِس انداز سے گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ گننا چاہتا تو وہ ایک ایک لفظ گن سکتا تھا یعنی اِس ٹھہراؤ سے گفتگو فرماتے تھے۔
13۔ دیگر کتبِ حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کرنے کی کیفیت یوں بیان کی گئی:
کَانَ کَلَامُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم کَلَامًا فَصْلًا، یَفْهَمُهُ کُلُّ مَنْ سَمِعَهُ.
(أبو داود فی السنن، کتاب الأدب، باب الهدی فی الکلام، 4: 260، الرقم: 4838)
آقا علیہ السلام کا کلام، کلامِ فصل تھا۔ یعنی اِتنا ٹھہراؤ، ترتیل اورٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ مجلس کے آخر میں بیٹھا ہوا شخص بھی اُسی طرح سنتا تھا جس طرح آگے بیٹھا ہوا شخص سنتا تھا۔
14. کَانَ فِی کَلَامِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم تَرْتِیلٌ أَوْ تَرْسِیلٌ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں ٹھہراؤ بھی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاف صاف لفظوں کے ساتھ کلام فرماتے تھے۔
(أبو داؤد فی السنن، کتاب الأدب، باب الهدی فی الکلام، 4: 260، الرقم: 4838)
15. لَیْسَ بِالْجَافِی. وَلَا الْمُهِیْنُ. یَضْحَکُ مِمَّا یَضْحَکُونَ مِنْهُ.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ سخت دل تھے اور نہ سخت طبع تھے بلکہ بہت شفیق اور رقیق القلب تھے۔ آقا علیہ السلام ایسی دلجوئی فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ کرام اگر کسی بات پر ہنستے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی دلجوئی میں مسکرا پڑتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اجنبی ہیں اور حضور ہمارے ساتھ نہیں۔
16. وَیَتَعَجَّبُ مِمَّا یَتَعَجَّبُونَ مِنْہُ
اور جس بات پر لوگوں کو تعجب ہوتا تھا تو میرے محبوب متعجب ہو کر اپنے انداز مبارک سے احساس دلاتے تھے کہ مجھے بھی اُس پر اُسی طرح تعجب ہوا ہے۔
17. وَیَقُول: إِذَا رَأَیْتُمْ طَالِبَ حَاجَۃٍ یَطْلُبُهَا فَأَرْفِدُوْهُ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اخلاق یہ ہے کہ جب کسی حاجت مند کو اپنے در پر دیکھو تو اُس کی حاجت روائی میں دیر مت کیا کرو، کیونکہ اُس کو انتظار کروانااچھی بات نہیں ہے۔جو دے سکتے ہو دے دیا کرو مگر یہ مت کہا کرو کہ کل آجانا، پھر آجانا۔
18. وَلَا یَقْبَلُ الثَّنَاءَ إِلَّا مِنْ مُکَافِیئٍ
آقا علیہ السلام اپنی مجلس میں کسی ایسے کو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتا، پسند نہیں فرماتے تھے اور اگر کوئی ضد کرکے تعریف کر دیتا تھا تو خاموش ہو جاتے تھے۔
19. کَانَ یَبْدَأُ مَنْ لَقِیَ بِالسَّلَامِ
جب بھی کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کہیں تشریف لے جاتے تو سلام کرنے میں خود پہل فرماتے۔
اگر ہم اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں تو ہم تو چودھری بن جاتے ہیں کہ اُس نے سلام نہیں کیا، اُس نے مڑ کر نہیں دیکھا، اُس نے مصافحہ نہیں کیا تو میں کیوں اس کی طرف جاؤں، وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ ہم اس طرح کے جملے بولتے ہیں۔ کاش کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر دیکھا ہوتا۔
20. وَکَانَ یُؤَاخِی بَیْنَ أَصْحَابِهِ
صحابہ کرامؓ میں سے اگر دو بھائی آپس میں لڑ پڑتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے درمیان دوستی کرواتے تھے۔
(مسلم فی الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب مؤاخاۃ النبی صلی الله علیه وآله وسلم بین أصحابه صلی الله علیه وآله وسلم، 4: 1960، الرقم: 2528)
اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ لڑنے والوں کے درمیان صلح کرواؤ مگر ہمارے اخلاق کا یہ عالم ہے کہ ہم لڑواتے ہیں اور جوڑنے کی بجائے توڑتے ہیں۔
21. کَانَ نَظَرُهُ إِلَی الْأَرْضِ أَطْوَلَ مِنْ نَظَرِهِ إِلَی السَّمَاءِ
زیادہ تر آقا علیہ السلام کی نگاهِ اقدس زمین کی طرف رہتی تھی، آسمان کی طرف بہت کم نظر اُٹھاتے تھے۔
معلوم ہوا کہ نگاہوں کو جھکا کر رکھنا بھی خُلق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
22. کَانَ إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِیْعًا
جب آقا علیہ السلام کسی کی طرف متوجہ ہوتے توجسم مبارک کے تمام اعضاء کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے۔
اس حوالے سے اگر ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہماری آنکھیں ایک طرف ہوتی ہیں تو چہرہ دوسری طرف ہوتا ہے، ہاتھ اِدھر ہوتا ہے اور چل اُدھر رہے ہوتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں ہے۔
23. لَیْسَتْ لَهُ رَاحَۃٌ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت مشقت میں رہتے۔ہر وقت کچھ نہ کچھ فرماتے رہتے یا عمل کرتے رہتے تھے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی فارغ وقت گزارتے ہی نہ تھے۔
24. کَانَ یُعَظِّمُ النِّعْمَۃَ، وَإِنْ دَقَّتْ
اگر کوئی احسان کرتا تو حضورs اُس کے احسان کا بدلہ بڑھا کر چکاتے تھے۔
25. لَا یَذُمُّ مِنْهَا شَیْئًا
اور اگر کوئی غلطی کر دیتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی مذمت نہ کرتے۔
یعنی اس کی غلطی کو بار بار بیان نہ کرتے بلکہ ہمیشہ اُس کی بھلائی کو بیان کرتے۔
26. إِذَا أَشَارَ أَشَارَ بِکَفِّهِ کُلِّهَا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کی طرف اشارہ کرتے توپورے دستِ اقدس سے مکمل اشارہ فرماتے اور ادھورے انداز میں اشارہ بھی نہیں فرماتے تھے۔
27. وَإِذَا فَرِحَ غَضَّ طَرْفَهُ
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خوش ہوتے تو علامت یہ ہوتی کہ اپنی نگاہ مبارک جھکا لیتے۔
28. (فَکَانَ) یُکْرِمُ کَرِیْمَ کُلِّ قَوْمٍ، وَیُوَلِّیْهِ عَلَیْهِمْ
جب بھی کسی قوم کا کوئی معزز شخص آتا تو آقا علیہ السلام اُس کی تکریم اُس کے رتبہ کے مطابق کرتے اور اگر وہ مسلمانوں میں شامل ہو جاتا تواپنی قوم میں بھی اُسے اُسی طرح سردار بناتے جیسے وہ اپنی قوم میں تھا۔
29. وَ(کَانَ) یُحَسِّنُ الْحَسَنَ ویُقَوِّیهِ، وَیُقَبِّحُ الْقَبِیْحَ وَیُوَهِنُهُ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھی بات کی تحسین فرماتے تھے اور بُری بات کی بُرائی سے خبردار کرتے تھے۔
30. (کَانَ) لِکُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہر کیفیت کا جواب اور ہر مشکل کا انتظام پہلے سے موجود ہوتا۔
یعنی جب بھی کوئی پریشان حال ہوتا اور بارگاهِ نبوت میں اپنی مشکل اور پریشانی پیش کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس کا حل عطا فرماتے۔ کائنات میں کوئی ایسی شے ہی نہ تھی جس کا حل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نہ ہوتا۔
31. مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ حِلْمٍ وَحَیَاءٍ وَصَبْرٍ وَأَمَانَۃٍ
حضور علیہ السلام کی مجلس حلم، بردباری، حیا، صبر اور امانت داری کی مجلس ہوا کرتی تھی۔
32. کَانَ أَعْفَّ النَّاسِ، کَانَ أَکْرَمَ النَّاسِ، کَانَ أَصْبَرَ النَّاسِ، کَانَ أَحْلَمَ النَّاسِ، کَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ، کَانَ أَجْوَدَ و کَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ عفت والے، سب سے زیادہ عزت وتکریم کرنے والے، سب سے زیادہ صبر کرنے والے، سب سے زیادہ حلیم الطبع، سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ سخاوت، شجاعت اور بہادری کا پیکر تھے۔
(البخاری فی الصحیح، کتاب الاب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکره من البخل، 5: 2244، الرقم: 5686)
33. کَانَ یُوْصِی بِأَهْلِ الْعِلْمِ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ علم کی تکریم کے بارے میں ہمیشہ تلقین فرمایا کرتے تھے۔
(الترمذی فی السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاستیصاء بمن یطلب العلم، 5: 50، الرقم: 2650)
34. وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ خَوْفًا عَلَی أُمَّتِهِ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اُمت کے حوالے سے سب سے زیادہ خائف رہنے والے تھے۔
(مسلم فی الصحیح، کتاب الإیمان، باب دعاء النبی صلی الله علیه وآله وسلم لأمته وبکائه شفقة علیهم، 1: 191، الرقم: 202)
35. کَانَ یُحِبُّ التَّوَاضُعَ وَکَانَ یَذُمُّ الْفَخْرَ وَالْعُجْبَ، وَکَانَ یُحَذِّرُ مِنْ عَاقِبَۃِ الْبَغْیِ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ عاجزی اور انکساری کو پسند فرمانے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فخر اور تفاخر کی سب سے زیادہ مذمت کرنے والے اور عجب، کبریائی اور تکبر سے بچنے والے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادتی کرنیوالے شخص کو سب سے زیادہ عاقبت سے بچانے والے تھے۔
(مسلم فی الصحیح، 4: 2198، الرقم: 2865)
36. کَانَ یَعُوْدُ الْمَرْضَی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریضوں کی عیادت فرمایا کرتے تھے۔
(الترمذی فی السنن، کتاب الطب، 4: 412، الرقم: 2088)
37. کَانَ یَذْهَبُ إِلَی الْمَرِیْضِ مَاشِیًا
اگر کوئی مریض ہو جاتا تو پیدل چل کر اُس کی تیمارداری کو تشریف لے جاتے۔
(ابن ماجه فی السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عیادة المریض، 1: 462، الرقم: 1436)
38. وإذا کره شیئا عرف فی وجهه
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شے سے کراہت فرماتے تو اس کا اقرار زبان اقدس سے نہ فرماتے بلکہ ہم اُسی وقت چہرہ اقدس سے سمجھ لیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں آیا۔
39. کَانَ یُجِیْبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ
اگر کوئی غلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دیتا تو اس کی دعوت کو قبول فرماتے۔
(الترمذی فی السنن، کتاب الجنائز، باب آخر، 3: 337، الرقم: 1017)
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تو امیروں کی دعوتیں ڈھونڈتے ہیں، جہاں اچھے کھانے لگے ہوں اور مرغن خوراکیں ہوں۔ کسی غریب کی طرف سے دعوت آ جائے تو ہم کہتے ہیں کہ ٹائم نہیں۔ کسی امیر کی طرف سے دعوت آجائے تو ہر طرح کی مصروفیت کینسل کرکے چلے جاتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق یہ ہیں کہ غریبوں کی دعوت پر پہلے جایا کرتے تھے۔
40. کَانَ یَعْطِفُ عَلَی الأَمَۃِ وَیَمْشِی مَعَهَا
اگر کوئی غلام، لونڈی اور بوڑھی خاتون آجاتی تو اُس کی حاجت روائی کے لیے خود اس کے ساتھ پیدل چل پڑتے۔
(البخاری فی الصحیح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5: 2255، الرقم: 5724)
کان فی عقلها شیئ
(مسلم، الصحیح، 4: 1812، رقم: 2326)
اس بوڑھی خاتون کی عقل میں کوئی خرابی تھی یا وہ مریضہ تھی۔
اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن پکڑ کر عرض کیا: مجھے آپ سے کوئی بات کرنی ہے۔فرمایا: بتاؤ! کیا کہنا ہے؟ کہنے لگی: یہاں نہیں، مسجد سے باہر جا کر بات کرنی ہے۔ اس نے اس تیزی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑا کہ آقا علیہ السلام کو نعلین مبارک پہننے کا وقت بھی نہیں ملا اور آپ ننگے پاؤں اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے گئے اور وہ بوڑھی اور مجنوں مائی پورے شہرِ مدینہ کی گلیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلاتی گئی۔ اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان جائیں کہ حضور بغیر شکوہ کے چلتے جا رہے ہیں۔ ایک جگہ پر جا کر وہ رک گئی اور اپنی حاجت بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بس یہ چاہیے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے بوڑھی مائی!یہ تو مجھ سے وہاں مانگ لیتی تو میں وہاں دے دیتا، یہاں مجھے لاکر بتانے کی کیا ضرورت تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بات سن کر مسکرا پڑے اور اسے جو چاہئے تھا، وہ اسے دے دیا اور فرمایا کہ اب خوش ہوجا۔ گویا کسی کی حاجت روائی میں اپنا وقت صرف کر کے اس کے چہرے پر مسکراہٹ لانا بھی اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
41. کَانَ یُعَاوِنُ أَهْلَهُ فِی الْبَیْتِ
اپنے اہل خانہ کی اپنے دستِ اقدس سے معاونت فرماتے تھے۔
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، 5: 2291، الرقم: 5850)
یعنی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ یہ بھی اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ مگر ہم اسے عار سمجھتے ہیں۔
42. کَانَ أَرْحَمَ النَّاسِ بِالصِّغَارِ وَکَانَ یَمْسَحُ بِیَدِهِ الشَّرِیْفَۃِ عَلَی خَدِّ الصَّبِیِّ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوٹے بچوں پر زیادہ کرم اور شفقت فرمانے والے اور جو بھی بچہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے گال پر دست شفقت رکھ کر کرم فرماتے تھے۔
(البخاری فی الصحیح، کتاب الجنائز، باب قول النبی صلی الله علیه وآله وسلم إنا بک لمحزونون، 1: 429، الرقم: 1241)
وہ صحابہ جو چھوٹے بچے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی محبت و شفقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم یہ ہے کہ وہ بچے بھی بال نہیں کٹواتے تھے اور نہ وہ کسی کا ہاتھ اپنی گالوں پر لگنے دیتے تھے، اس لیے کہ ان کے گال اور بالوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مَس فرمایا ہے۔
یہ اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ’’اوئے کاکا اُتھے جا‘‘،یہ کہہ کہ بچے کو بھگا دیتے ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بچے بڑی عزت پاتے تھے، انہیں عزت و تکریم دے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا ہے کہ بچوں کا مقام کیا ہے۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اخلاقِ عالیہ کے اندر ہمارے لیے پیغام یہ ہے کہ ہم بھی اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُسوہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زیور پہن لیں۔۔۔ ان اوصاف حمیدہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیں۔۔۔ اخلاق کے یہ جھومر اپنے ماتھے کی زینت بنا لیں۔۔۔ اس لیے کہ اصلِ ایمان یہی ہے۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمات کا نچوڑ بھی یہی ہے۔ اگر ہمیں وہ کچھ نہ مل سکا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر ہم حضوری والے نہیں۔ اگر زندگیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا عکس نہ مل سکا تو سمجھ لوکہ کچھ بھی نہیں ملا۔ اگر کچھ نہ کچھ مل گیا ہلکا سا پر تو بھی مل گیا تو پھر نہ صرف حضوری والے ہوجائیں گے بلکہ حضور والے بن جائیں گے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اخلاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ بنائیں۔ شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کا بھی یہی پیغام ہے۔ شیخ الاسلام نے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے پوری زندگی وقف کر دی کہ نوجوانو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و کردار کو اپنی زندگیوں کاا وڑھنا بچھونا بنا لو۔
یاد رکھیں! عشق اور محبت کی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں محبوب کی کوئی جھلک نظر آئے۔ محبِ صادق وہ ہوتا ہے کہ جس کے اَخلاق و کردار میں محبوب کی اداؤں کی کوئی جھلک نظر آئے۔ عاشقِ خالص وہ ہوتا ہے کہ جس کے الفاظ اور زندگی کے ہر ہر ورق پر اپنے محبوب علیہ السلام کے اُسوہ حسنہ اور قدوۃ حسنہ کی کوئی جھلک ضرور نظر آئے۔۔۔ عاملِ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہوتا ہے کہ جس کے عمل، کردار اور اخلاق میں اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی جھلک ضرور نظر آئے۔۔۔ حضور علیہ السلام کا حقیقی امتی وہ ہوتا ہے جس کے وجود سے آقا علیہ السلام کی سیرت کی مہک اور خوشبو ملے۔ اگر کسی دعوے دار کی زندگی میں حضور کے اخلاق، احوال، اعمال کی جھلک میں سے کسی ایک جھلک کی خوشبو بھی نہ نظر آئے تو سمجھ لیں کہ وہ عاشق اپنے عشق میں سچا نہیں اور وہ دعوے دار اپنے دعوے میں سچا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کے نور سے اپنے سیرت و کردار کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved