خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
حدیثِ ضعیف کی حجیت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کچھ اشکالات موجود ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ائمہ و محدثین کے اقوال کی روشنی میں حدیثِ ضعیف کی حجیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس ضمن میں پیدا ہونے والے جملہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہوسکے۔
1۔ امام ابن الصلاح نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں حدیث ضعیف کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
کل حدیث لم تجتمع فیه صفات الحدیث الصحیح ولا صفات الحدیث الحسن فهو ضعیف.
(ابن الصلاح، المقدمة)
ہر وہ حدیث جس میں حدیث صحیح اور حدیث حسن کی تمام شرائط جمع نہ ہوں، اُسے حدیث ضعیف کہتے ہیں۔
یعنی اگر حدیثِ صحیح یا حدیثِ حسن کی شرائط پوری ہونے میں تھوڑی سی بھی کمی رہ جائے تو وہ حدیث ضعیف کہلائے گی۔
حدیث ضعیف کی یہی تعریف امام نووی نے التقریب میں کی ہے۔
2۔ علامہ سیوطی نے التدریب میں، امام سخاوی نے فتح المغیث میں اور دیگر ائمہ و محدثین نے اپنی کتب میں حدیث ضعیف کی یہ تعریف کی:
وهو ما لم تجتمع فیه صفات الحدیث الحسن.
’’جس میں حدیث حسن کی صفات (بتمام و کمال) موجود نہ ہوں، وہ حدیثِ ضعیف ہے‘‘۔
امام ابن الصلاح نے حدیث ضعیف کی تعریف میں حدیث صحیح کا ذکر بھی کیا تھا جبکہ مذکورہ تعریف میں ائمہ نے حدیث صحیح کا نام لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی، بلکہ صرف حدیث حسن کا نام لیا، اس لیے کہ حدیث حسن کا درجہ حدیث صحیح کے بعد ہے۔
3۔ امام زین الدین العراقی نے التقیید والایضاح (جو ابن الصلاح کے مقدمہ پر النکت ہے) میں لکھا ہے:
وأما الضعیف فهو ما لم یبلغ مرتبة الحسن.
ضعیف اُس کو کہتے ہیں جو (حدیث نبوی ہے مگر) مرتبہ حسن تک نہیں پہنچی۔
4۔ علامہ ذہبی اپنی کتا ب الموقظۃ میں بیان کرتے ہیں:
ما نقص عن درجة الحسن قلیلا فهو ضعیف.
وہ حدیث جو درجہ حسن سے تھوڑی سی بھی نیچے رہ جائے، وہ ضعیف ہے۔
5۔ علامہ ذہبی الموقظۃ میں حدیث ضعیف کی تعریف کرنے کے بعد بڑی ہی نفیس بات فرماتے ہیں:
فآخر مراتب الحسن هي أوّل مراتب الضعیف.
(ذهبی، الموقظة)
مراتب اور درجات میں سے حدیث حسن کا سب سے آخری درجہ، حدیث ضعیف کا سب سے اُونچا درجہ ہے۔
یعنی حدیث حسن کے آخری درجے اور حدیث ضعیف کے سب سے پہلے درجے پر ان دونوں اقسام حدیث کی حدود مل جاتی ہیں۔ اس طرح اس درجے پر حسن اور ضعیف احادیث ایک ہوجاتی ہیں۔
6۔ امام منذری حدیث ضعیف کے مقام و مرتبہ پر بحث کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ
الحدیث الضعیف هو أدنیٰ حالا من الصحیح و الحسن.
(منذري، الترغیب والترهیب، مقدمة)
حدیث ضعیف وہ ہوتی ہے جو حالِ اسناد میں صحیح اور حسن کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے۔
مذکورہ تعریفات میں سے کسی ایک تعریف میں بھی ایسی بات نہیں کہی گئی اور نہ ہی گنجائش بنتی ہے کہ حدیث ضعیف کو رد کر دیا جائے۔ حدیث ضعیف کی مذکورہ تعریفات اُن ائمہ کی ہیں جن سے علم حدیث دنیا میں فروغ پایا اور جن میں سے ہر ایک معتمد اور معتبر ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی بھی امام حدیث نے حدیث کی اقسام میں ’’موضوع‘‘ کو شمار ہی نہیں کیا اور نہ ہی کسی امام نے ’’موضوع‘‘ کو بیان کرنے کی اجازت دی بلکہ موضوع کو المکذوب، المختلق، المصنوع یعنی جھوٹی بات، جعلی اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ جبکہ ضعیف حدیث کو نہ صرف ہر امام نے اقسامِ حدیث میں شمار کیا بلکہ ہر امام نے احادیث ضعیفہ روایت بھی کی ہیں۔
حتی کہ امام بخاری نے بھی اپنی کتاب الأدب المفرد میں احادیث ضعیفہ روایت کی ہیں۔ امام بخاری کے ہاں حدیث ضعیف کی روایت کرنا جائز ہے۔ ۔
امام بخاری کی الجامع الصحیح کے علاوہ دیگر کتب حدیث بھی ہیں جن میں ضعیف احادیث روایت کی گئی ہیں۔ صرف الجامع الصحیح میں ضعیف احادیث نہیں ہیں، اس لیے کہ اس کتاب کے لیے انہوں نے جو شرائط مرتب فرمائیں، ان ہی کے مطابق احادیث اس میں لائے۔
مثلاً: رفع الیدین في الصلاۃ (نماز میں رفع یدین کرنا) کے عنوان سے امام بخاری نے اپنے رسالہ میں احادیث ضعیفہ کو بیان کیا ہے اور اپنے مذہب کو ان ضعیف احادیث سے ثابت کیا ہے۔
اسی طرح جزء القراء ۃ خلف الإمام (امام کے پیچھے قرات کرنا) کے عنوان سے آپ کی کتاب میں ضعیف احادیث موجود ہیں اور ان ضعیف احادیث سے بھی امام بخاری نے اپنے مذہب کو ثابت کیا ہے۔
اس بات کو ایک سادہ مثال سے سمجھتے ہیں: جس طرح ہر سکول یا پولیس اور فوج کا ایک یونیفارم ہے، جس کی پابندی ایک طالب علم، ایک پولیس والے یا فوجی پر ضروری ہے۔ اس یونیفارم کے بغیر طالب علم سکول میں داخل نہیں ہوسکتا اور فوجی یا پولیس والا اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتا۔ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا سکول بند ہو جانے اور شام کے اوقات میں بھی طالب علم پر یا فوجی پر یہ شرط رہے گی کہ اُس یونیفارم کے بغیر وہ کھیلنے بھی نہیں جا سکتا اور اُسے گھر میں بھی اسی یونیفارم کو پہنے رکھنا ہوگا؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا، بلکہ یونیفارم کی پابندی ایک خاص وقت کے لیے ہوتی ہے۔ جب سکول یا دفتری اوقات بدلے تو لباس بھی بدل گیا۔
اسی طرح امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی دو کتابوں کے لیے جو شرائط مقرر کیں تو ان شرائط کے تحت گویا وہ کہہ رہے تھے کہ ہماری ان دو کتابوں میں کوئی حدیث ان شرائط کے بغیر درج نہیں ہوئیں۔ ہاں البتہ جب میں فاتحہ خلف الامام لکھوں گا تو اس میں ضعیف احادیث کو بھی درج کر دوں گا، اس لیے کہ میں ضعیف احادیث کو حدیث مانتا ہوں حتی کہ ضعیف احادیث سے استدلال کرنا میرا مذہب ہے۔ اگر حدیث ضعیف کلیتاً رد کئے جانے والی ہوتی تو امام بخاری اسے اپنی کسی بھی کتاب میں نہ لیتے اور نہ اسے اپنا مذہب بناتے۔
امام بخاری کے مذہب میں ضعفاء سے روایت کرنا اور حدیث ضعیف سے احتجاج و استدلال کرنا جائزہے۔ انہوں نے اپنی کتاب الادب المفرد میں ضعیف حدیث کی بناء پر باب بھی قائم کئے ہیں۔ ضعیف حدیث سے ادب اور شریعت کا وہ مسئلہ بیان کرنا جس میں قوی سند سے حدیث موجود نہ ہو، جائز ہے۔
الادب المفرد میں امام بخاری کی روایت کردہ احادیث میں سے بطورِ مثال چند ضعیف راویوں کا ذکر ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
ان تمام ضعیف راویوں سے امام بخاری نے الادب المفرد میں فضائلِ اعمال، آداب، ترغیب و ترہیب اور دوسرے طرق کو تقویت دینے کے لیے احادیث بیان کی ہیں۔
سعودی عرب کے ایک سلفی عالم علامہ البانی ہیں، اُنہوں نے ہر کتاب کے اُوپر تصحیح کی ہے۔ امام بخاری کی کتابوں پر بھی تصحیح کی ہے۔ ’’الادب المفرد‘‘ کی تصحیح ’’صحیح الادب المفرد‘‘ کے نام سے کی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے الادب المفرد میں جو احادیث صحیح ہیں، صرف اُن کو لے کر نئی کتاب بنا دی ہے اور وہ احادیث جو ضیعف ہیں، اُن کو نکال دیا ہے۔
علامہ البانی کا یہ اقدام ناجائز ہے۔ اس لیے کہ اپنے اس طرزِ عمل سے کیا وہ امام بخاری کے بھی استاد بننے لگے ہیں۔۔۔؟ کیا امام بخاری کو معلوم نہیں تھا کہ میں الادب المفرد میں ضعیف احادیث درج کررہا ہوں اور یہ رواۃ ضعیف ہیں۔۔۔؟۔؟
یاد رکھیں! امام بخاری نے اِن احادیث کو ضعیف جان کر انہیں جامع الصحیح میں نہیں لیا مگر اپنی کتاب الادب المفرد میں لیا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ ان دونوں کتب کے لیے خود الگ الگ شرائط مقرر فرما رہے ہیں۔ الجامع الصحیح کی شرائط الگ ہیں اور الادب المفرد کی شرائط الگ ہیں۔ جب انھوں نے الادب المفرد میں یہ شرط مقرر ہی نہیں کی کہ میں اس میں صرف صحیح سند سے حدیث درج کروں گا تو آپ کون ہوتے ہیں اس طرح کی شرط مقرر کرنے والے کہ ’’الادب المفرد‘‘ کو ’’صحیح الادب المفرد‘‘ کا نام دے کر صرف صحیح احادیث درج کریں اور ضعیف احادیث کو نکال دیں۔۔۔؟ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ جسے امام بخاری جائز سمجھیں، آپ اسے نکال کر ایک نئی کتاب وضع کر دیں۔۔۔؟
علامہ البانی کا یہ طرزِ عمل امام بخاری کے اوپر ایک تہمت لگانا ہے، اُن کے درجے کو کم کرنا ہے اور گویا طلبہ کے ذہن میں یہ بات ڈالنا ہے کہ امام بخاری کو معلوم نہیں تھا، اس لیے انہوں نے ضعیف روایات کو درج کردیا۔ میں اُن سے بڑا استاد ہوں، میں نے وہ ضعیف احادیث نکال دی ہیں۔ اس عمل سے علامہ البانی نے فن ِحدیث اور علم ِحدیث کے خلاف کیا۔
الادب المفرد چونکہ فضائل اور ترغیب و ترہیب پر ہے، اس لیے اس میں امام بخاری نے احادیث ضعیفہ سے سند لینا جائز سمجھا ہے اور ضعیف احادیث پر ابواب بھی قائم کئے۔ امام بخاری کے پاس الادب المفرد میں درج ابواب کے حوالے سے کوئی اور حدیث سند ِصحیح کے ساتھ دستیاب نہ تھی، ایک ہی حدیث تھی لہذا اسی کو درج کیا اور اسی پر باب قائم کیا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب امام کوئی باب قائم کرتا ہے تو یہ اُس کا مذہب ہوتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ حدیث ضعیف سے حجت قائم کر رہا ہے اور استدلال کر رہا ہے، تب ہی تو ضعیف حدیث کی بنیاد پر باب قائم کیا۔ علامہ البانی نے امام بخاری کے تراجم الباب بھی نکال دیے اور اس طرح کرکے گویا اس کتاب سے امام بخاری کا مذہب بھی نکال دیا۔ یہ کوئی عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ ہر ایک کتاب کے قواعد الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہاں اگر صحیح بخاری میں کوئی ضعیف ملے تو آپ اعتراض کریں، اس لئے کہ اس کو الصحیح کہا اور اس کے لئے امام بخاری نے الگ شرائط مقرر کی ہیں۔ جبکہ الادب المفرد کو امام بخاری نے صحیح کا نام اس لیے نہ دیا تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ حدیث ضعیف پھینکنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ وہ بھی قبول کیے جانے کے قابل اور عمل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اگر حدیث ضعیف سے آداب، فضائلِ اعمال، ترغیب، قصص، زہد، رقائق کے مسائل اور حسنِ خُلق کے مسائل ثابت ہو رہے ہوں تو جمیع معاملات میں ائمہ ضعیف احادیث کو لیتے تھے اور اُن سے مسائل اخذ کرتے تھے۔ ہاں البتہ یہ خیال رہے کہ عقیدہ، حلال و حرام کے احکام اور فرائض و واجبات حدیثِ ضعیف سے نہیں لیتے۔
حدیث ضعیف کے حوالے سے امام بخاری کا یہ مذہب اس قاعدہ و کلیہ کی بناء پر ہے کہ:
ضعف الإسناد لا یقضي ضعف المتن.
سند کا ضعیف ہونا اُس حدیث کے متن کو ضعیف نہیں کرتا۔
یعنی جب بھی کسی حدیث کو ضعیف کہا جائے گا تو اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں مگر اس کا متن ضعیف نہیں۔ ممکن ہے اس مضمون کی حدیث کسی اور طریق اور صحیح سند کے ساتھ موجود ہو۔ لہذا جب کسی حدیث کے بارے یہ الفاظ آتے ہیں کہ ھذا حدیث ضعیف، تو اس کا مطلب ہے: بھذا الاسناد، اس سند کے ساتھ ضعیف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے طریق سے صحیح ہو۔ اس لئے تمام علماء و ائمہ حدیث ضعیف حدیث کو آداب، قصص، تذکیر، ترغیب و ترہیب، فضائل اعمال کے لیے قبول بھی کرتے اور عمل بھی کرتے۔ ائمہ ان ابواب میں سند میں لچک، آسانی اور نرمی رکھتے اور زیادہ سختی نہیں کرتے تھے۔ یعنی حدیث ضعیف کو قبول بھی کرتے اور اُس کے لیے سند کی نرمی اور لچک کی شرائط رکھتے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved