خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ط وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا.
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین)کی مدد کرو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) الله کی صبح و شام تسبیح کرو‘‘۔
(الفتح، 48: 8۔ 9)
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں سے پہلی آیت میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار شانیں بیان فرمائی ہیں:
ان چاروں شانوں میں اللہ رب العزت نے اس امر کا اظہار فرمایا ہے کہ اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بےشک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک اپنی اُمت کے جمیع اعمال اور احوال کا گواہی دینے والا بنایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کا مشاہدہ فرمائیں اور آپ کو اُن کے تمام اعمال واحوال کی خبر رہے جس کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن ان کے بارے گواہی دے سکیں۔ پھر امت میں سے جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کرکے ایمان اور اطاعت کی راہ پر آجائیں گے، ایسے لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشخبری سنانے والا بنایا اور جنہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو رد کر دیا اور نافرمان ہوگئے، ایسے لوگوں کے لیے آپ کو آخرت کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنایا ہے۔
اگلی آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان چار شانوں کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمانے کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے امتِ مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے چار احکامات صادر فرمائے:
پہلا حکم یہ دیا کہ تمہارے پاس میرے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہد، مبشر اور نذیر کی شان کے ساتھ مبعوث ہوکر اس لیے آئے ہیں تاکہ تم سب اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔
اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار شانوں کے ساتھ مبعوث کرنے کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے دوسرا حکم یہ دیا کہ اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ تعظیم کے ساتھ مدد ونصرت کرو۔ یعنی جب دشمن اور مخالف اِن کی ذات اور دین اسلام پر طعن کریں، ان کی اور دین کی بے ادبی و گستاخی کریں تو تمہارے اندر اِن کا ادب، تعظیم اور تکریم اِس کمال درجے کی ہو کہ تم اِن کی عظمت، شان اور ناموس کے تحفظ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ اور اس مدد و نصرت کے پہلو میں اِن کی محبت، تعظیم اور تکریم کا جذبہ کار فرما ہو۔
یہاں اس امر کی وضاحت کرتا چلوں کہ مدد کی دو اقسام ہیں:
1۔ عمومی مدد وہ ہے جو انسان ہر ایک کی کرتا ہے مثلاً: ہم صلہ رحمی یا محتاجی کی وجہ سے کسی مسکین، کمزور، حاجت مند، رشتہ داروں، یتیموں، پڑوسیوں، دوستوں، بھائیوں اور ہر اس شخص کی مدد کرتے ہیں جس کا ہم پر حق ہے۔ یہ مدد محض مدد ہے یعنی کسی کو طاقت مہیا کرنے، کسی کو ظلم سے بچانے، کسی کا محض دفاع کرنے یا کسی کو اس کا حق دلانے کے لیے ہے۔ یہ مدد ایک reinforcement ہے۔
2۔ دوسری مدد خاص مدد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وَتُعَزِّرُوْهُ کے ذریعے جس خاص مدد کا حکم دیا جارہا ہے، اِس مدد سے مراد وہ عمومی، مجرد اور مطلق مدد نہیں جو ہم ہر کمزور و بے بس یا رشتہ داروں، حق داروں اور سوسائٹی کے دیگر لوگوں کی کرتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے مراد وہ مدد ہے جو کمال درجے کی تعظیم کے جذبے سے اُبھرے۔ یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام اور اکرام و تعظیم ہمارے دل میں اِتنی زیادہ ہو کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اٹھایا جانے والا کوئی قدم برداشت نہ کر سکیں۔ کوئی شخص اگر ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی بے ادبی و گستاخی پر مبنی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب کے مطابق نہیں ہے تو ہمارے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، تعظیم، تکریم کا جذبہ اِتنا زیادہ ہو کہ اُس جذبۂ محبت و تعظیم کی وجہ سے ہم میدان میں آجائیں اور نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کریں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعداء سے لڑائی بھی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم میں اپنی جان بھی قربان کریں۔ اگر اِس محبت وتعظیم کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی مدد ہو تو وَتُعَزِّرُوْهُ کے حکمِ خداوندی پر صحیح معنی میں عمل درآمد ہوتا ہے۔
گویا ایک مدد وہ ہے جس کا تصور اس لفظ کو سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں آتاہے، وہ مدد یہاں مقصود نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس اِس مدد کے تصور سے بلند ہے۔ یہاں وہ مدد مراد ہے جس میں جذبۂ محبت وتعظیم کے نتیجے میں انسان اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں تیسرا حکم اللہ رب العزت نے یہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ بے حد تعظیم وتکریم بجا لاؤ۔ یہ حکم دو مرتبہ دیا۔ وَتُعَزِّرُوْهُ میں بھی مدد کے ساتھ تعظیم و تکریم کا پہلو تھا یعنی اس مدد کی اصل، بنیاد، سبب اور محرک ادب اور تعظیم ہی ہے۔ اب وَتُعَزِّرُوْهُ کے بعد وَتُوَقِّرُوْهُ فرماکر حد سے بڑھ کر توقیر و تعظیم اور اُن کی عظمت کے ڈنکے بجانے کا دوبارہ حکم دیا جارہا ہے کہ حد سے بڑھ کر یعنی مبالغے کی حد تک اُن کی تعظیم کرو۔
اس آیت میں چوتھا حکم اللہ رب العزت نے اپنی ذات کے متعلق دیا کہ صبح و شام اس ربِ کائنات کی تسبیح بجا لاؤ۔
مذکورہ آیت کریمہ میں جو چار حکم آئے ہیں، ان میں سے پہلا حکم لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ یہ حکم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے لیے مشترک ہے کہ اللہ پر بھی ایمان لاؤ اور اللہ کے رسول پر بھی ایمان لاؤ۔ دوسرا حکم وَتُعَزِّرُوْهُ کے ذریعے دیا کہ محبت وتعظیم کی وجہ سے اُن کی مدد کرو۔ یہ دوسرا حکم صرف حضور علیہ السلام کے لیے خاص ہے۔ تیسرا حکم وَتُوَقِّرُوْهُ کے ذریعے دیا کہ حد سے بڑھ کر میرے محبوب کا ادب اور تعظیم وتکریم بجا لاؤ۔ یہ تیسرا حکم بھی صرف آقا علیہ السلام کے لیے خاص ہے۔ وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَۃً وَاَصِیلًا کے ذریعے چوتھا حکم دیا صبح وشام اللہ کی تسبیح کرو۔ یہ حکم صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔
اگر ان چار احکام کی درجہ بندی کریں تو ان میں اللہ نے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ ایک حکم اللہ نے اپنی ذات کے لیے خاص کیا ہے اور وہ حکم یہ ہے کہ صبح وشام میری نماز، میری تسبیح کرو، میرا ذکر کرو، میری عظمت بیان کرو۔ جبکہ اس آیت میں دو حکم اللہ نے صرف اپنے محبوب کے لیے خاص کیے جو آقا علیہ السلام کے حقو ق ہیں یعنی تُعَزِّرُوْهُ اور تُوَقِّرُوْهُ اور آیت مبارکہ میں مذکور چوتھا حکم اپنے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مشترک کیا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو۔ پس اِن آیات کی ترتیب پورے دین کے اندر احکام کی اہمیت کا عکس ہے ۔
ائمہ کرام نے تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ کے کئی معانی بیان کے ہیں، ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں درج ہے:
حضرت ابن عباس ؓ نے وَتُعَزِّرُوْهُ کا معنی یہ بیان کیا ہے: أَی تُجَلِّلُوْهُ: یہ جلال سے ہے، جیسے ہم اللہ رب العزت کے نام کے ساتھ جل جلالہ کہتے ہیں کہ اُس کا جلال اور عظمت بڑی بلند ہے۔ اسی طرح فرمایاکہ آقا علیہ السلام کی عظمت کو نہ صرف بہت بلند و بالا سمجھو بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کا عقیدہ بھی رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سب سے بلند و بالا ہے۔
وَ تُعَزِّرُوْهُ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ
اَیْ تُبَالِغُوْا فِی تَعْظِیْمِہِ.
(القاضی عیاض فی الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، 512)
یعنی حضور علیہ السلام کی تعظیم میں مبالغہ کرو۔ حد سے زیادہ تعظیم کرو اور آقا علیہ السلام کی بڑائی بیان کرو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آقا علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑائی عطا کی ہے اور وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کے الفاظ کے ذریعے اس کا اعلان بھی فرمادیا کہ ہم نے آپ کا ذکر آپ کی خاطر بلند کر دیا، اب جبکہ آقا علیہ السلام کے ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان کی بلندی اللہ نے عطا کردی تو اُمت کو حکم دینا کہ وتعزروہ و توقروہ کے ذریعے امتی کو حکم دینے کا کیا مطلب ہے؟ اُمتی تو خود چھوٹا ہے، وہ آقا علیہ السلام کو کیا بڑاکرے گا، آقا علیہ السلام کو تو اُن کے رب نے بڑا کر دیا۔ امتی آقا علیہ السلام کی کیا بڑائی بیان کرے گا ان کی بڑائی تو اللہ نے بیان کردی۔ کیا اُمتی بڑائی اور عظمت کے کوئی نئے پہلو لا سکتا ہے جو اللہ نے (معاذ اللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا نہیں فرمائے؟ جب اللہ نے آپ کے لیے آپ کے ذکر، شان، مرتبے اور منصب کو بلند کردیا تو اب اس بلندی کے بعد کیا کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ کوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑائی اور بلندی بیان کرے گا؟
اس سوال کے جواب کے لیے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کو سامنے رکھ کر وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کے معنی کو سمجھیں۔ اللہ رب العزت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو ساری کائنات میں بلند ترین بنا چکے اور یہ رفعتِ مطلقہ ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو پہلے انبیاء اور رُسلf کے ذکر کے مقابلے میں بلند کردیا یاملائکہ سے زیادہ بلندکردیا یاعرش سے بلند کردیا یا تمام بلندیوں سے بلند کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی بلندی کا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا اور اُس کو کسی کے ساتھ متعلق نہیں کیا۔ جب علی الاطلاق بلندی کہا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا ہوں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری خلق کا منتہاء ہیں۔ مخلوق کی جتنی بلندیاں تھیں، وہ ساری میرے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے آگے پستیاں بن گئیں اور میں نے اپنے محبوب کو اُس مقام منتہاء پر پہنچا دیاکہ خلق میں اُس سے اوپر کوئی تصور نہیں ہے۔ اُس سے اوپر صرف مقامِ اُلوہیت ہے۔ پس وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ میں اس بات کا حکم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان کو بلند و بالا کرکے بیان کرو۔
سیدنا امام جعفر الصادق وَتُعَزِّرُوْهُ کی شرح کرتے ہوئے اس کا ایک معنی یہ بیان کرتے ہیں:
اَیْ تُعَزِّزُوْهُ
یعنی اُن کو سب سے عزیز جانو۔
عزیز کا معنٰی ’’غالب‘‘ ہے یعنی اِتنا بلند اور ہر چیز پر اتنا غالب کہ کوئی اُس کے قریب بھی نہ جاسکے، اس کی مثل کوئی شے نہ ہو۔ اِتنا بلند وبالا کہ انسان کا وہم وخیال بھی وہاں نہ جا سکے، انسان اُس کی عظمت کی مثال نہ دے سکے، انسان کا تصور اُس کا احاطہ نہ کرسکے اور اُس عظمت کی حقیقت کا کوئی تصور نہ کر سکے۔ گویا انسان کی عقل جہاں بے بس ہوجائے اُس سے بھی اونچا جانو۔ یعنی آقا علیہ السلام کی اِتنی تعظیم کرو، اُن کی عظمت اِتنی مانو کہ انسان کی عقل جواب دے جائے اور وہ کہے کہ میری عقل میں نہیں آتا۔
بہت سے لوگ بعض اوقات آقا علیہ السلام کی شان کے بیان کے حوالے سے پریشان ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہماری عقل میں نہیں آتا۔ ان لوگوں کو یہی تو سمجھانا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے اظہار و بیان کو اتنا ہی تو بلند کرنے کا حکم ہے جو عقل میں نہ آسکے۔ یہی تو آقا علیہ السلام کی شان کی عظمت ہے۔
اگر ہماری عقل میں آجائے تو اِس کا مطلب ہے کہ عقل کی حدوں کے اندر آگیا اور جو بلندی عقل کی حد کے اندر ہے وہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ سے خارج ہے۔ انسان کی عقل جس کا احاطہ کرسکے، جس چیز کو سمجھ سکے تو وہ سمجھ ایک حد ہے۔ اگر ہم کسی چیز کو سمجھتے ہیں تو اس سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عقل اور فہم کو اتنی استعداد و صلاحیت ہے، تب ہی اُس کو سمجھ رہی ہے اور اُس بات کا احاطہ کر رہی ہے۔ جو چیز عقل میں آسکے اور عقل نے اس کا احاطہ کرلیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی بلندی کے تصور پر عقل غالب آگئی۔ کوئی چیز ہماری عقل کی پرواز کے اندر رہی تو عقل سمجھ لے گی اور عقل جس کو نہ سمجھ سکے، وہی تو مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
پس وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کا معنیٰ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی عظمت کو اِتنا جانو کہ انسانی عقل جواب دے جائے اور انسان کہے کہ نہیں، یہ ممکن نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ممکن ہے تو پھر اس پر وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر اُس بلندی کو محدود کرنا یا اس پر مطلع ہونا ممکن جانے تو وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک کی شان میں کمی رہ جاتی ہے۔ جب رفعتِ مطلقہ ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اِتنا بلند کر دیا کہ اِس کی بلندی کا تصور عقلِ انسانی بھی نہیں کر سکتی۔ پس آقا علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کو اِتنا اونچا جانو کہ عقلِ عادی، فہمِ عادی اور انسان کے تصورات و تخیلات سب ہار جائیں اور فہم، عقل، ادراک، تصور، فلسفہ، سائنس اور انسانی صلاحیتیں جھک جائیں تو اُس سے اوپر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو جانیں۔
اگر آقا علیہ السلام کی شان اس انداز سے مانیں اور بیان کریں گے تو اُس کے اندر وَتُعَزِّرُوْهُ کا معنی آئے گا جس کا تذکرہ امام جعفر الصادق نے فرمایا۔ بس ایک چیز کا خیال رکھنا ہے کہ حضور کو مخلوق سمجھیں، خالق نہ بنائیں اور نہ سمجھیں۔ آقا علیہ السلام کو خالق سمجھنا کفر و شرک ہوگا۔ آقا علیہ السلام اللہ کا بندہ رہیں مگر اس بندگی کی شان کے ساتھ انہیں اِتنا بلند کر دیں کہ ہر شخص کی عقل، فہم اور ادراک نیچے رہ جائے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان جو آپ بیان کرتے ہیں، وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی، یہ سمجھ سے ماوراء ہے۔ پس تُعَزِّرُوْهُ کا معنی ہے ’’سمجھ سے ماوراء شان کا اظہار‘‘۔
وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کا ایک معنی وَتُعَظِّمُوْہٗ بھی ہے۔ یہ لفظ تعظیم سے ہے اور لفظ تعظیم ’’عظیم‘‘ سے ہے۔ جیسے تُعَزِّرُوْهُ اللہ کی صفت ’’العزیز‘‘ سے ہے یعنی اللہ کی صفت عزیز کی جھلک حضور میں دیکھو، اسی طرح وَتُعَظِّمُوْہٗ اللہ کے اسم ’’العظیم‘‘ سے ہے یعنی اُس عظیم کی عظمت کی جھلک آقا علیہ السلام کے اندر دیکھو۔ ہم رکوع میں سجان ربی العظیم کے الفاظ کے ذریعے اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ پس عظیم کا معنیٰ یہ ہے کہ:
الذی جاوز قدره وجل عن حدود العقول.
جس کی قدر، عزت اور منصب عقل کی حدوں سے آگے نکل جائے اُسے ’’عظیم‘‘ کہتے ہیں۔
(لسان العرب، 12: 409)
پس حضور علیہ السلام کے لیے فرمایا: کہ تُعَظِّمُوْہٗ یعنی انہیں اِتنا باعظمت جانو کہ اُس کی کیفیت، حد اور مثال نہ معلوم ہو سکے۔ پس اللہ کی صفت ’’العزیز‘‘ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے حکم تُعَزِّرُوْهُ...اس طرح اللہ کی صفت ’’العظیم‘‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے حکم وَتُعَظِّمُوْہٗ بنیادی طور پر ایک تصور ہے، صرف دائرے الگ ہیں۔ وہ دائرہ خالقیت میں ہے اور یہ دائر ہ خلق میں ہے۔ وہ عظمت خالق ہونے کی شان کے لائق ہے اور یہ عظمت مخلوق ہونے کی شان کے لائق ہے۔
تُعَظِّمُوْہٗ کو ایک اور لفظ سے سمجھیں۔ ’’عظم‘‘ ہڈی کو کہتے ہیں اور اِس کی جمع عظام ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:
فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًا.
(مومنون، 23: 14)
’’پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے‘‘۔
تُعَظِّمُوْہٗ کہ حضور کو تعظیم دو، اِس کا مفہوم ’’عظم‘‘ (ہڈی) کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہڈی کی اہمیت پر غور کریں۔ ہمارے جسم میں دماغ سے لے کے نیچے تک ریڑھ کی ہڈی ہے، اسی طرح پورے جسم میں جابجا ہڈیوں کا ایک مکمل نظام ہے جو جال کی صورت پھیلا ہوا ہے۔ ہمارا پورا جسم ہڈیوں کے سہارے کھڑا ہے۔ بندے کی ہڈیاں جتنی طاقتور اور مضبوط ہوں گی، بندہ بھی اتنا ہی مضبوط و طاقتور رہتا ہے۔ سو سال عمر بھی ہو جائے تو سیدھا چلتا ہے لیکن اگر ہڈیاں کمزور ہو جائیں تو بندہ کمزور ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت نے انسانی جسم کی طاقت ہڈیوں کے جال میں رکھی ہے اور ہڈیوں کے ساتھ پورا جسم قائم ہے۔
اس معنیٰ کی رُو سے وَتُعَظِّمُوْہٗ کا معنی یہ ہے کہ ایمان وعقیدے کے جسم میں حضور علیہ السلام کی عظمت اِس طرح جانو جس طرح انسانی جسم کے اندر ہڈیوں کا کردار ہوتا ہے۔ جس طرح ہڈیوں کی مضبوطی سے جسم قائم دائم رہتاہے اورجسم کے اندر کے اعضاء کی بھی حفاظت ہوتی ہے، اِسی طرح آقا علیہ السلام کے ادب، تعظیم، تکریم اور بیانِ شان کے عقیدے سے ایمان مضبوط رہتا ہے۔ وہ عقیدہ جس میں آقا علیہ السلام کی عظمت، ادب اور تعظیم وتکریم جتنا مضبوط اور طاقتور ہوگا، عقیدے اور ایمان کا وہ جسم اتنا ہی طاقتور ہوگا۔ جس میں تعظیم و تکریم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضبوط ہے، ایسا عقیدہ و ایمان کبھی کمزور نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ سلامت و مضبوط رہے گا اور اس کے وسیلہ سے دین کے جسم کے سارے اعضاء محفوظ رہیں گے۔ گویا دین، ایمان، عقیدے میں قوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عظمت کے عقیدے کی وجہ سے ہے۔ آقا علیہ السلام کی عظمت اور تعظیم جتنی زیادہ بڑھ کر ہوگی، اُتنی دین و ایمان کی حفاظت ہوگی۔
امام ابن عطیہ نے تُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کا معنی بیان کیا کہ وَتُکَبِّرُوْہٗ: آقا علیہ السلام کو بہت بڑا جانو۔
اللہ اکبر کے الفاظ میں اللہ کی تکبیر کا اظہار مرتبہ خالقیت میں ہے جبکہ مخلوق کے مرتبے میں وَتُکَبِّرُوْہٗ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکبیر کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہرشے سے بڑا جاننے کا حکم ہے۔ عقل بھی ایک شے ہے، لہذا عقل سے بھی بڑا جانو، اپنے علم، اپنی سوچ، اپنی بحث اور اپنے مناظروں سے بڑا جانو۔ لوگ آقا علیہ السلام کی شان پرمناظرے کرنے لگ جاتے ہیں، انہیں اللہ کے حضور توبہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ ہم حضور کے مقام کا تعین نہیں کر سکتے۔ اپنی بحثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو نہ لے کر آؤ۔ مناظرہ اُس پر کیا جاتا ہے جس کا تعین ہو، جس کی حقیقت اور تہہ تک ہم پہنچ سکیں، جس کا ادراک اور احاطہ ممکن ہو۔
بحثیں دماغ اورعقل کی صلاحیت کے مطابق چلتی ہیں۔ جو آدمی کسی پربحث کرتا ہے، اِس کا مطلب ہے کہ وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ میری عقل، میرا فہم، میرا علم، میری سوجھ بوجھ اِس بات کی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے کہ اِس کا مرتبہ یہ ہے اور یہ نہیں۔ جبکہ اللہ اور اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو ہستیاں ایسی ہیں کہ جن کی حقیقت کا ادراک عقل نہیں کرسکتی۔ اس لیے یہ ہستیاں کبھی بحث کا موضوع نہ ہوں۔ انسانی بحث عقل کے احاطے کے ساتھ ہے اور عقل پست ہے اور مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس سے کئی بلند ہے۔ لہذا نہ کبھی اللہ کی ذات پر بحث کریں اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام ومنصب پہ بحث کیا کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذات، مقام، شان کو انسانی علم، فہم، ادراک، معرفت، علوم، فنون، تصورات اور تخیلات سے بڑا جانیں۔ آقا علیہ السلام کا مرتبہ تو وہ ہے کہ جہاں ہر چیز نیچے رہ جاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑائی کے اظہار میں صرف ایک شرط ہے کہ رسول کو نہ خدا کہہ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں، اس سے بندہ ایمان سے نکل جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبود اور خالق نہیں ہیں۔ اُلوہیت اور ربوبیت کے خواص چھوڑ کر باقی ہر شے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑا جانیں۔ اگر اس معنی میں بڑا جانیں گے تو یہی حکم وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کے ذریعے امت کو دیا جارہا ہے۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب مذکورہ آیت (الفتح: 9) اُتری تو آقا علیہ السلام صحابہ کرام سے مخاطب ہوئے اورفرمایا:
ماذا کم؟
(تفسیر ثعلبی، 9: 44)
کیا تم سمجھے ہو کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے؟
صحابہ نے عرض کیا: یار سول اللہ! آپ کی تعظیم کس طرح کرنی ہے اور آپ کی تعظیم کا حق کیسے بجا لانا ہے؟ آپ کی توقیر کس طرح کرنی ہے اور آپ کی توقیر کا حق کیسے بجالانا ہے؟ اللہ اور اللہ کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ اِس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَتُعَظِّمُوْہٗ وَتُفَخِّمُوْہٗ.
(تفسیر ثعلبی، 9: 44)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’عظم‘‘ اور ’’فخم‘‘ کے الفاظ ادا فرمائے۔ تُعَظِّمُوْہٗ پر ہم بات کرچکے ہیں۔ یہاں تُفَخِّمُوْہٗ کا معنی سمجھتے ہیں:
جب ہر چیز اپنی حدسے بڑھ جاتی ہے تو لغت عرب میں اُس کے لیے ’’فخم‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً بکریاں، جانور، درخت، پھل عام معمول سے بڑھ جائیں حتی کہ اگر جسم کا وزن حد سے زیادہ بڑھ جائے تو اُس کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اس لغوی معنی کے اعتبار سے ’’تُفَخِّمُوْہٗ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ حد سے بڑھ کرعظمت جانو۔ جس نے آقا علیہ السلام کی تعظیم وتکریم حد میں رہ کر کی، اس نے اللہ کے اِس فرمان کی نافرمانی کی اور جو حد سے آگے نکل گیا، اُس نے قرآن مجید کے اس فرمان کی تعمیل کی۔ اس لیے کہ اگر حد میں رہے تو اِس کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور مقام و مرتبہ کا احاطہ کرلیا۔
میں نے اپنی ساری زندگی جب سے دعوت و تربیت کا سلسلہ شروع کیا، عرصہ 40 سال سے یہی بات سمجھائی ہے کہ ہر ایک سے تعلق اور تعظیم و تکریم میں حد میں رہو، مگر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، عزت، تکریم، ادب اور تعظیم کا وقت آئے تو یہ مقام وہ ہے جہاں حدوں کو چھوڑ دو اور حدوں سے آگے نکل جاؤ۔
جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج اپنے پاس بلایا تو انہیں حدوں سے نکال کر ملاقات کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حد اور نبی کریم علیہ السلام کے لیے کوئی حد نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ نے بلایا مگر حدمیں رکھ کر بلایا۔ مقامِ ملاقات کوہِ طور ٹھہرا، پہلے 30 دن اور بعد ازاں 10 دن کا اضافہ کرکے 40 دن انتظار کروایا یعنی زمان و مکاں کی حد میں رکھا اور پھر جب اپنا جلوہ کروایا تو اس کی بھی حد رکھی کہ براہِ راست جلوہ نہ دکھایا بلکہ کوہِ طور پر تجلی فرمائی اور اس حد میں رکھی گئی تجلی کی بھی موسیٰ علیہ السلام تاب نہ لاسکے اور بے ہوش ہوگئے۔ مگر جب آقا علیہ السلام کو جلوہ کرانا مقصود تھا تو زمین و آسمان کی تمام حدوں کو ختم کردیا یہاں تک کہ عالمِ مکان کی حد سدرۃ المنتہیٰ جہاں عالمِ خلق کی حد ختم ہو جاتی ہے، اس حد کو بھی ختم فرمادیا۔ یہاں جبرائیل کی حد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جبرائیل بھی مخلوق ہیں مگر حد کے اندر رہنے والے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اللہ کی مخلوق ہیں مگر آپ کے لیے اللہ نے حدوں کو ختم کر دیا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حد سے ماوراء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ مکان کی حد سے نکل گئے، لامکان میں گئے اور وہاں جا کر قاب قوسین کا مقام آیا اور پھر اس سے بھی بڑھ کر او ادنیٰ کی قربت عطا فرماکر ہر حد کو ختم کردیا۔ پس حضور علیہ السلام کی شان، محبت، تعظیم، تکریم، ادب، عظمت اِسی طرح حد سے ماوراء جانو۔ اگر حد کے اندر رکھو گے تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، توقیر، تکریم، تفخیم اور تکبیر نہیں ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ حد اور حد سے ماوراء کا تصور کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو عقل میں آجائے وہ حد ہے اور جو عقل میں نہ آئے، وہ حد سے ماورآء ہے۔ اللہ تعالیٰ نبوت ورسالت کی تصدیق کے لیے اپنی قدرت کا جو اشارہ عطا فرماتا ہے، اُس کو معجزہ کہتے ہیں یعنی وہ امر جسے عقل سمجھنے سے عاجز آجائے۔ اگر عقل اُس کے سارے پراسس کو سمجھ لے تو وہ معجزہ نہیں رہتا۔ اُنگلی کے اشارہ سے آسمان پر چاند کے ٹکڑے ہونا، یہ معجزہ ہے کہ عقل سمجھ نہیں سکتی کہ کیسے ہو گیا...؟ درخت کواشارہ کریں تو وہ زمین کا سینہ چاک کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آکر سجدہ ریز ہوجائے، عقل نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔؟ کنکریوں کو اشارہ کریں وہ کلمہ پڑھنے لگ جائیں، عقل کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے ہوگیا...؟ پہاڑ کے قریب سے گزریں تو وہ صلوۃ وسلام کہے، عقل کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔؟ عیسیٰ علیہ السلام مردے کو بلائیں تو زندہ ہو کر بول پڑے، مادر زاد اندھے کو مس کریں تو وہ بینا ہو جائے۔ یہ تمام معجزات ہیں، اس لیے کہ عقل انہیں سمجھ نہیں سکتی کہ یہ بغیر طریق کے کیسے ہو گیا؟ پس معجزہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی نبوت ورسالت کو سچا ثابت کرنے کے لیے اُس کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے۔
جس طرح معجزہ کو سمجھنے میں عقل عاجز ہے، اسی طرح ان تمام معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بھی سمجھنے سے عقل عاجز ہے۔ آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس سے بڑا کوئی معجزہ نہیں۔ آقا علیہ السلام کا وجودِ اقدس خود تمام معجزوں سے بڑا معجزہ ہے، جن کی خاطر سارے معجزات آئے۔ یعنی روح اورجسم کے ساتھ عالمِ مکان سے نکل کر لامکاں پر چلنے جانا۔ کیا اِس سے بڑا معجزہ کوئی ہے؟ جب حضور علیہ السلام کی ذات خود بہت بڑا معجزہ ہے تو وہ عقل کی سمجھ میں کیسے آسکتے ہیں۔ جو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے بطور معجزہ صادر ہوتی ہیں، وہ عقل میں نہیں آتیںتو آپ خود عقل میں کیسے آسکتے ہیں۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان عقل میں کیسے آسکتی ہے...؟ آپ کا مقام ومرتبہ عقل میں کیسے آسکتا ہے...؟
صحابہ کرامؓ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و ادب بجا لاتے تو وہ اس مذکورہ تعظیم و ادب کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر رہتے۔ صحابہ کرامؓ کے ایک ایک عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حد سے ماورآء تعلقِ محبت و تعظیم اور شان و مقام کی معرفت کا اظہار ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کے احکامِ خداوندی کے عین مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و مقام اور شان کا اظہار کرتے اور آپ سے محبت و عقیدت رکھتے۔ اس سلسلہ میں ذیل میں چند واقعات درج کیے جاتے ہیں:
صحیح بخاری اور دیگر بہت سی کتب حدیث میں مروی ہے کہ حجۃ الوادع کے موقع پر عیدالاضحیٰ کے خطبہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
أتدرون أی یوم هذا؟
کیا تم جانتے ہو کہ آج کون سا دن ہے؟
سادہ سی بات ہے کہ سب صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ آج 10 ذوالحجہ ہے اور قربانی کا دن ہے مگر کسی صحابی نے یہ نہ کہا بلکہ جواب دیا: اللہ ورسولہ أعلم: اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے۔
معلوم ہونے کے باوجود آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے عدمِ علم کا اظہار کرنا، اگر اِس طرح کا ادب، تعظیم اور تکریم ہو تو ایمان ہوتا ہے۔ ایسا ادب، تعظیم، تکریم، عقیدہ، ایک ذوقِ ایمانی پیدا کر دیتا ہے۔ ایک طرزِ عمل، طرزِ فکر اورایک behavior دے دیتا ہے۔ امتِ مسلمہ اُسbehavior سے عملاً ادب اور تعظیم کا سلیقہ سیکھے۔ اگر صحابہ کرامؓ عرض کر دیتے کہ آج قربانی کا دن ہے تو اِس میں کیا قباحت تھی؟ کوئی قباحت نہ تھی، حقیقت کا اظہار تھا، مگر صحابہؓ نے ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کیا۔
معلوم ہوا کہ ادب میں حقیقت جانتے ہوئے بھی بیان کر دینا لازمی نہیں ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا رکھیں، اپنے آپ کو لاعلم جانیں، عاجزی کریں، تواضع کریں، انکساری کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اونچا رکھیں۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے اس جواب اللہ ورسولہ اعلم پر آقا علیہ السلام ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگئے:
حتی ظننا أنه سیسمیه بغیر اسمه.
یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ذو الحجہ کے مہینے کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔
یعنی صحابہ کرامؓ کو یہ گمان ہورہا ہے کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ ذوالحجہ کو محرم یا شوال یا شعبان یا کوئی اور نام دینا چاہ رہے ہیں۔ اس سے صحابہ کا عقیدہ معلوم ہورہا ہے کہ وہ مہینہ جس کا نام قرآن میں آیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہیں تو قرآن میں مذکورہ کسی بھی چیز اور حکم کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یعنی آقا علیہ السلام کی تعظیم میں ان کا عقیدہ عقل کی حدوں سے اِتنا ماوراء تھا کہ آقا علیہ السلام کچھ بھی فرما سکتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی شانِ اقدس اور عظمت کے لیے صحابہ کرام کے ذہن میں کوئی شرط اور حد نہیں تھی۔
پھر آقا علیہ السلام نے خود فرمایا:
ألیس ذو الحجۃ؟ کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟
تب ہم نے عرض کیا: بلی: ہاں یارسو ل اللہ، وہی ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
أی بلد هذا؟
یہ شہر کونسا شہر ہے؟
تمام صحابہ کرامؓ کو معلوم ہے کہ مکہ معظمہ کا شہر ہے اور مکہ کا یہ نام بھی قرآن نے رکھا ہے مگر کسی نے عرض نہیں کی کہ یارسول اللہ یہ مکہ ہے بلکہ ہر ایک کی زبان پر بس یہی تھا کہ:
اللہ ورسوله أعلم.
اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر پھر خاموش ہوئے۔
یہ خاموشی کیا تھی؟ دراصل آقا علیہ السلام صحابہ کرامؓ کے ادب کی تعریف کر رہے تھے کہ صحابہ سمجھ گئے ہیں کہ مرتبۂ رسول کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، تکریم اور توقیر کا درجہ کیا ہے؟
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہوگئے تو راوی کہتے ہیں کہ
حتی ظننا أنه سیسمیه بغیر اسمه.
ہم نے سمجھا کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔ یعنی صحابہ کرام اس لیے نہ بولے کہ پتہ نہیں، یار کا منشا کیا ہے؟معلوم نہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال اور خواہش کیا ہے؟ کہیں ہم ایسا لفظ نہ بول بیٹھیں جو حضور کی منشا کے مطابق نہ ہو۔ لہذا وہ خاموش رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ألیست بالبلدة الحرام.
کیا یہ بلد حرام نہیں ہے؟
ہم نے کہا: جی ہاں! یار سول اللہ یہ بلد حرام ہے۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی عظمت کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عقلوں سے ماوراء سمجھتے تھے کہ عقلیں حضور کی ذات، مقام اور عظمت و شان کااحاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
صلح حدیبیہ کے موقعہ پرآقا علیہ السلام نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا تو اہلِ مکہ نے حضرت عثمان غنیؓ کو طوافِ کعبہ کرنے کی پیشکش کی کہ آپ کو طواف کرنے کی اجازت ہے، آپ کعبۃ اللہ کا طواف کرلیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 6 سال کے بعد مکہ آئے تھے، کعبۃ اللہ جس کو دیکھنے کے لیے مومن کی آنکھیں ترس جاتی ہیں، وہ سامنے موجود تھا اور آپ کعبہ کے صحن میں کھڑے ہیں۔ کفار مکہ نے طواف کی خود اجازت دے دی ہے مگر سیدنا عثمان غنی نے انکار کر دیا اور فرمایا:
ما کنت لأطوف به حتی یطوف به رسول الله.
(بیهقی، السنن الکبری، 9: 221، رقم: 18588)
میں اِس کعبے کا طواف اس وقت نہیں کروں گا، جب تک حضور علیہ السلام کعبے کا طواف نہ کرلیں۔
صحابہ کرام کی نظروں میں آقا علیہ السلام کی عظمت، ادب، تعظیم، تکریم، اجلال کا تصور اِتنا بلند تھا کہ عقلوں کو اُس کے اندر دم مارنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ عقل، فہم، تصورات اور تخیلات سے ماوراء عظمتِ رسول ان کے ہاں تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا آقا علیہ السلام نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منع کرکے بھیجا تھا، یا قرآن نے انہیں منع کیا تھا یا کوئی حدیث پاک اور تعلیمات تھیں کہ حضور کے بغیر طواف نہ کرنا؟ جب ایسا نہ تھا تو پھر حضرت عثمان غنیؓ نے یہ ادب اور یہ اُصول کہاں سے لیا...؟ ان کے پاس یہ ادب، اصول اور حدوں سے ماورآء ہوکر تعظیم و تکریم کرنے کا عقیدہ کہاں سے آیا تھا...؟ پس آقا کی اتنی تعظیم وتکریم کی جائے کہ کوئی حد نہ رہے، اس لیے کہ جب حکم آگیا کہ حدوں سے بڑھ کر ادب کرو تو پھر صرف شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو، ادب اُلوہیت کے خلاف نہ ہو، توحید کے خلاف نہ ہو، اسلام اور ایمان کے بنیادی عقیدہ پر ضرب نہ آئے بس اِس حد کو قائم رکھ لیں اور باقی ساری حدیں توڑ دیں۔
صحابہ کرام کے ہاں آقا علیہ السلام کی عظمت کا عقیدہ یہ تھا کہ اُس میں کوئی حد اُن کے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ حضرت أم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا معمول یہ تھا کہ جب آقا علیہ السلام کا وصال ہو گیا تو مسجد نبوی میں اگر کوئی تعمیر کا کام ہوتا تھا تو اُس تعمیر کے دوران اگر کبھی کوئی کیل لگانا پڑ جاتا تھا، تو کیل لگانے کی تھوڑی سے آواز سے بھی آپؓ منع فرماتیں کہ خبر دار! اِس آواز سے آقا علیہ السلام کو تکلیف ہو رہی ہے۔ یعنی مسجد کے اندر صحابہ کرام کو کیل تک لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ اُس کی آواز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل آرہا ہے۔
آقا علیہ السلام سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب، تعظیم وتکریم اِس درجے کی ہو تو ایمان، عقیدہ اور اسلام قائم و دائم اور محفوظ رہتا ہے۔
افسوس! ہم آج ایک ایسے دور میں ہیں کہ جس دور میں روحانی قدریں ختم ہو گئی ہیں۔ روحانی قدروں کے ختم ہونے کی وجہ سے ہم بہت سی چیزوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارا کلچر تبدیل ہو گیا اور جب کلچر تبدیل ہوتا ہے تو نفسیات اور ذہن کے سوچنے کے انداز بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کلچر تبدیل ہونے سے ہمارے تصور کلیئر نہیں ہوتے اور نہ ہمیں اُن کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس ہمیں ان تصورات پر تعجب ہوتا ہے۔ کفر اور الحاد پر مبنی کلچر نے ایمانی، روحانی، اخلاقی اور اعلیٰ قدروں کے تصور اور تصورات کو اختیار کرنے اور اُنہیں سمجھنے سے بھی ہمیں دور کر دیا ہے۔
آج اِس مادی کلچر کے سبب ادب اور تعظیم وتکریم کا پہلو ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے۔ اللہ کا ادب، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب، اللہ کے دین، قرآن، کعبۃ اللہ، روضہ رسول، مدینہ طیبہ، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، اولیاء وصالحین، والدین، مشائخ، بزرگوں الغرض سارے آداب ہماری زندگی کے تصور سے نکل گئے ہیں۔ ہماری زندگی ادب سے خالی ہوگئی اور ہم ادب سے شنا سا نہیں رہے۔
یاد رکھیں! ادب کے چار درجے ہیں جن پر پورے دین کی عمارت قائم ہے:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول کے ادب کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے اُسے بھی اپنا ادب کرکے بیان کیا ہے تاکہ لوگ اللہ کے ادب اور اللہ کے نبی کے ادب کی اہمیت میں فرق نہ کریں۔
اکابر کے ادب سے مراد اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، اولیاء و صالحین، ماں باپ، اساتذہ، مشائخ کا ادب ہے۔
پوری مخلوق کے ادب سے مراد اپنے جیسوں اور چھوٹوں کا ادب ہے۔
گویا سارا دین ادب کے اِن چار درجوں پر قائم ہے، اگر زندگی سے ادب نکل جائے تو دین نہیں بچتا۔
ہم دنیا کے جس بھی کونے میں ہوں اور کعبۃ اللہ ہم سے خواہ ہزاروں کلومیٹر دور ہی کیوں نہ ہو اور ہمیں نظر بھی نہ آرہا ہو لیکن اللہ رب العزت نے نماز کے لیے اُس کعبے کی سمت کو مقرر کردیاتاکہ اللہ کے گھر کا ادب قائم ہو۔ ورنہ اللہ کی عبادت کسی سمت کی محتاج نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللہِ .
(البقرۃ، 2: 115)
’’پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے) ‘‘۔
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ.
(البقرة، 2: 115)
’’اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے ‘‘۔
یعنی مشرق مغرب اللہ کا ہے، جدھر مرضی منہ کرکے عبادت کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اللہ کی عبادت کسی سمت کی محتاج نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ کی عبادت کسی سمت کی محتاج نہیں ہے تو ہمیں کیوں پابند کر دیا ہے کہ ہم قبلہ رخ منہ کرکے کھڑے ہوں تو نماز ہوتی ہے۔ اِدھر اُدھر، دائیں بائیں پھر جائیں تو نماز ہی نہیں ہوتی حالانکہ کعبہ تو ہمیں مکانی دوری کی بناء نظر ہی نہیں آرہا ہے تو ہمیں سمت کا پابند کیوں کیا ہے؟
ایسا اس لیے ہے کہ یہ اللہ کے گھر کا ادب ہے۔ اللہ نے نماز کو بھی ادب کے ساتھ جوڑ دیا ہے تاکہ اُس سمت کا ادب ہو۔ اسی طرح ہم کعبۃ اللہ کی سمت کی طرف ٹانگیں کرکے سوتے نہیں ہیں، اس طرف منہ کرکے تھوکتے نہیں، رفع حاجت کے وقت اس طرف پیٹھ یا منہ کرکے نہیں بیٹھتے۔ یہ سب اُس سمت کا ادب ہے حالانکہ کعبہ ہم سے ہزار ہا میل دور ہے مگر ہم یہ تمام آداب بجا لاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے گھر مسجد میں داخل ہوں تو بایاں قدم پہلے نہیں رکھتے بلکہ دائیں قد م سے داخل ہوتے ہیں، اس لیے کہ اللہ کے گھر میں داخل ہورہے ہیں۔
اسی طرح حج سارا ادب ہے، کعبۃ اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی، حجر اسود کا بوسہ، مقام ابراہیم پر نوافل، اِن تمام مناسک کے پیچھے اصل ادب ہی کارفرما ہے۔ اگر ان مناسک کو اللہ اور اہل اللہ کی نسبت نہ ہو تو کون اِن پتھروں کو تعظیم دیتا؟ کون ان کا طواف کرتا اور کون صفا ومروہ پر چکر لگاتا؟ حتی کہ اللہ نے اس ادب کے حوالے سے فرمایا:
ذٰلِکَ وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.
(الحج، 22: 32)
’’یہی (حکم) ہے اور جو شخص الله کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو الله یا الله والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)‘‘۔
دوسرے مقام پر شعائر اللہ کی وضاحت میں فرمایا:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللہِ.
(البقرة، 2: 158)
’’بے شک صفا اور مروہ الله کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔
ساری دنیا پہاڑوں سے بھری پڑی ہے توپھر یہ صفا و مروہ ہی اللہ کی نشانیاں کیسے ہیں؟ کیا اللہ یہاں رہتا ہے؟ نہیں۔ کیا یہاں اللہ کا نزول ہوتا ہے؟ نہیں۔ یہاں نہ اللہ کا قیام، نہ اللہ کا گزر، نہ اللہ کا مقام تو پھر اللہ کی ذات کا ان سے کیا تعلق ہے؟ اصل میں اللہ کے نیک بندوں کا تعلق ان مقامات سے ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت ہاجرہf یہاں قیام پذیر ہوئے۔ اللہ کے محبوب اور مکرم بندوں کی نسبت نے اِن پہاڑوں کو اللہ کے شعائر بنا دیا اور اِن شعائر کی تعظیم کو اللہ نے دلوں کا تقویٰ و عبادت بنا دیا اور حج اور عمرہ کا حصہ بنا دیا۔
یہ تمام مثالیں دینے کا مقصد اس تصور کو واضح کرنا ہے کہ دین اور ایمان کا اپنا ایک کلچر اور اپنی ایک سائیکی ہے۔ دین اورایمان کا کلچر ادب اور تعظیم و تکریم پر قائم ہے۔ سارا دین ادب کے کلچر پر قائم ہے۔ جس دین اور عقیدے سے ادب، تعظیم وتکریم نکل گئی، وہ دین، دین نہ رہا۔ خواہ وہ ادب اللہ کا ادب تھا یا اللہ کے رسول کا ادب تھا یاصحابہ، اہل بیت، اولیاء وصالحین یا اللہ کی باقی مخلوق کا ادب تھا جو ہمارے جیسی یا ہم سے چھوٹی بڑی تھی۔ افسوس! ہماری زندگیوں سے ادب نکل گیا ہے اور آج ہم ادب کی اہمیت سے بھی شناسا نہیں رہے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں، اور یوں آداب بجا لانا ہمیں اجنبی اور عجیب محسوس ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ تحریک منہاج القرآن نے آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے اسی عقیدہ کو مضبوط ومستحکم کیا ہے۔ آج کے دور میں جب یہ اقدار اور تصورات ختم ہوگئے ہیں، اِن کا ادراک ختم ہوگیا ہے تو منہاج القرآن نے ادب و تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عقیدہ اُس دور میں زندہ کیا ہے جو صدیوں قبل آقا علیہ السلام کی تعظیم وتکریم کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا عقیدہ اور تصورتھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِس تحریک کو یہ شان اور اعزاز دیا ہے اور یہ اعزاز و شان بلاشبہ ہمارا طرۂ امتیاز اور خصوصیت ہے۔
ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2020ءCopyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved