شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ تعالیٰ نے شب معراج حضور علیہ السلام کو بہت سے فضائل، بہت سی بزرگیاں، بہت سی نوازشیں اور بہت سی عنائتیں فرمائیں۔ ان تمام نشانیوں اور نعمتوں سے سب سے بڑی نعمت جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا کی گئی وہ دیدار الہی تھا اور بہت سے معجزات اور امتیازات حضور علیہ السلام کو عطا ہوئے مگر دیگر انبیاء علیم السلام کو انکی شان، ان کی بساط، ان کے درجے، ان کے رتبے کے مطابق عطا کئے گئے تھے اور وہ سارے مراتب اور فضائل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ اقدس میں یکجا کر دیئے اور جمع بھی یوں کئے گئے، اُن میں سے ہر فضیلت اپنے رتبہ اور مقام کے اعتبار سے بھی حضور علیہ السلام کی ذات میں منتہائے کمال کو پہنچے۔ مگر رؤیت باری تعالیٰ کا شرف، دیدار الہی کا شرف یہ صرف حضور علیہ السلام کے لیے خاص تھا۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔
(النجم، 53: 11)
میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دل نے اسے جھٹلایا نہیں، دل نے اس کی تصدیق کر دی۔ یہ ترجمہ کہ کیسے تصدیق کی؟ یہ تفسیر طلب مسئلہ ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اللہ کے دیدار سے شرف یاب ہونا اس مسئلے پر صحابہ کرام سے لے کر آئمہ کرام تک اور علماء کرام کی آراء، اقوال اور نکتہ ہائے نظر مختلف رہے ہیں اس پر بحثیں بھی ہوئیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلاشک و شبہ اللہ پاک کو دیکھا ہے اور وہ قول جس میں تھا کہ اللہ کو نہیں دیکھا اس کا مفہوم یہ لیا کہ اس دنیا میں نہیں دیکھا۔ اس میں نفی شب معراج کی نہیں ہے۔ بلکہ عمومی قول ہے اس دنیا میں جو آنکھیں ہیں وہ اللہ پاک کے دیدار کی طاقت نہیں رکھتیں۔
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ز وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج.
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیںاور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
(الانعام، 6: 103)
یہاں نہیں دیکھا سے مراد اس دنیا میں نہیں دیکھا اور جو اثبات کیا کہ اللہ پاک کو دیکھا اس سے مراد لیا کہ شب معراج جب
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰیo
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔
(النجم، 53: 8۔9)
جب ان منزلوں پر حضور علیہ السلام کو سرفراز کر دیا گیا ساری مسافتوں، فاصلوں کو ہٹا دیا گیا اور قربت اور وصال میں کمال تک پہنچا۔ تو وہاں حجابات اٹھا دیئے گئے اور حضور علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنا جلوہ عطا کر دیا۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور بہت سے صحابہ کرام کا قول ہے مگر امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اللہ کے دیدار سے شرف یاب ہونے کی بات آئی تو آپ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے اللہ کو دیکھا ہے، یہ ان کی اس مسئلے پر پختگی، شرح صدر اور یقین اور پختگی کا عالم ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ نے فرمایا:
رای رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم رای ربه رای ربه رای ربه.
ہاں حضور علیہ السلام نے اللہ کا دیدار کیا بار بار فرمایا۔ حتی کہ یہ فرماتے فرماتے ان کا سانس رک گیا یعنی بار بار ان کلمات کو دہراتے رہے۔ سانس ختم ہونے تک۔ مقصد کیا ہوا کہ ان حضرات کو اس مسئلے پر اتنا پختہ یقین تھا کہ وہ پوری قطعیت کے ساتھ اس کو بیان کرتے۔
حضور علیہ السلام نے اللہ کا دیدار کیا ہے اور بعضوں نے کہا کہ آنکھوں سے نہیں دل سے دیدار کیا۔ بعضوں نے کہا دل اور آنکھوں دونوں سے دیدار کیا۔ یہ مختلف اقوال ہیں انہیں اگر یکجا کرکے ساروں کو ایک بنا کر سمجھا جائے تو ایک صورت تطبیق کی بھی ہے کہ آنکھوں سے بھی دیکھا اور دل سے بھی دیکھا اور یہ کہنا کہ آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ دل سے دیکھا اور قرآن کا کہنا کہ دل نے اسے نہیں جھٹلایا۔ واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کی روشنی میں سمجھنا آسان ہے جب سیدنا موسی علیہ السلام نے طور پر اللہ رب العزت کے حضور عرض کیا۔
رَبِّ اَرِنِیْ.
اے اللہ! مجھے اپنا آپ دکھا، اس پر اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا:
لَنْ تَرٰنِیْ.
اے موسی تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔
(الاعراف، 7: 143)
اس بات کی نفی نہیں کہ مجھے دیکھا نہیں جاسکتا۔ مجھے کوئی دیکھ نہیںسکتا یہ نہیں فرمایا: فرمایا لَنْ تَرٰنِیْ اے موسی تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اس جواب کے اندر ایک وضاحت پوشیدہ ہے اور اس نفی کے اندر ایک اثبات پوشیدہ ہے کہ تم نہیں دیکھ سکتے مراد یہ ہے کہ اے موسی مجھے دیکھا تو جا سکتا ہے اور میرا جلوہ حسن ممکن ہے کوئی آنکھ اگر تاب نظارہ رکھتی ہو، تو میرا جلوہ دیکھ تو سکتی ہے مگر اے موسی یہ کام تیرے لئے مشکل ہے اگر بات یہاں ختم ہو جاتی پھر بھی اسکی ایک حد تھی مگر اس سے آگے جو واقعہ پیش آیا یہ ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:
وَلٰـکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ.
مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے۔
(الاعراف، 7: 143)
یعنی اے موسی علیہ السلام ! ہم ایسا کرتے ہیں اپنی تجلی اس پہاڑ پر ڈالتے ہیں اور تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ اگر یہ پہاڑ ہماری تجلی برداشت کر گیا۔ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم مجھے دیکھ لو گے۔ تجلی کہتے ہیں ظاہر ہونے کو، اپنے جلوہ حسن کو ظاہر کرنا۔ فرمایا:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ج
پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ انوار سے) اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ ( علیہ السلام ) بے ہوش ہوکر گرپڑا۔
(الاعراف، 7: 143)
اب دو سوال پیدا ہوئے۔ تین چیزوں میں اللہ پاک نے اپنا ظہور فرمایا:
1۔ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ اللہ پاک نے اپنے جلوہ حسن کو ظاہر فرمایا۔
2۔ دوسری بات جَعَلَهٗ دَکًّا پہاڑ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ اسے جذب کرسکتا۔ وہ برداشت نہ کرسکا اور جل اٹھا، ریزہ ریزہ ہوگیا۔ دو باتیں ہوگئیں۔ وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا اگر اس جلوہ حسن کے ظہور کا کوئی حصہ موسی علیہ السلام پر پڑا نہ ہو تو آپ کے لئے بے ہوش ہو جانے اور گر پڑنے کا کیا معنی؟ جو اثر پہاڑ پر ہوا وہی اثر حضرت موسی علیہ السلام پر ہوا فرق یہ تھا پہاڑ پر براہ راست ظہور ہوا وہ جل اٹھا، موسی علیہ السلام نے انعکاسی ظہور کا اثر لیا وہ بے ہوش ہوگئے۔قرآن مجید نے فرمایا تھا:
فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ.
اگریہ قائم رہا اے موسی تم مجھے دیکھ لو گے۔
(الاعراف، 7: 143)
جیسے سورج کا ظہور آئینے پر ہو اور آئینے میں وہ سورج چمکنے لگے اور کوئی آئینے کو دیکھے تو اس نے سورج کو دیکھ لیا۔ اگر اس کا شیشہ ٹوٹ جائے، چور چور ہو جائے پھر نہیں دیکھا جاسکے گا کہ اب آئینہ مظہر نہ رہا۔ چور چور ہوگیا، ٹوٹ گیا جب اپنی حالت پر قائم نہ رہا۔ تو مظہر نہ ہو سکا، اگر اپنی حالت پر برقرار رہا تو سورج اس میں چمک اٹھا اور دیکھنے والے نے اس آئینہ میں سورج کو دیکھ لیا۔ اس پہاڑ کو اللہ جل مجدہ نے آئینے کی مثل بنایا۔
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔
(النجم، 53: 11)
یعنی دل نے اسے جھٹلایا نہیں، اب اس مقام کی تشریح اس واقعہ سے کرتے ہیں کہ تاکہ تطبیق ہو جائے آنکھیں براہ راست لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ دیکھ نہیں سکتیں ۔اب وہ سارے اقول جمع کر رہے ہیں۔ بے شک آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مگر دکھائے جانے کا اہتمام تو کیا۔ یہ نفی رؤ یت کی بالعین کہ آنکھیں ادراک نہیں کرسکتیں۔ باوجود اس کے آنکھیں دیکھ نہیں سکتی تھیں مگر اس نظارہ حسن کی ایک صورت تو پیدا کی تھی۔ یہ مظہریت کی طریق پر حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا دیدار کرا دیا جو وہ دیکھ نہ سکے، نہ برداشت کرسکے۔
حضور علیہ الصلوۃ السلام کے بارے میں فرمایا:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بشریت کی تھیں اور دل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا عرش الہی سے بھی بلند و بالا تھا۔ اس مقام پر اللہ پاک نے چاہا کہ اپنے محبوب کو دیدار سے نوازا جائے وہاں تو اہتمام یوں کیا تھا کہ طور کو مظہر بنایا تھا۔ اس پر اپنا جلوہ کیا۔
اب یہاں نہ تو کوئی پہاڑ تھا اور نہ کسی پہاڑ کی حاجت و ضرورت۔ فرمایا: تیرے دل کو اپنی جلوہ گاہ بناتے ہیں ان آنکھوں نے نظر اُٹھائی دیکھا مگر نور ایک حجاب تھا فرمایا نورمیری آنکھوں نے دیکھا۔ مگر وہ نور ہی نور تھا۔ اس نور سے آگے کیسے دیکھتا؟ آنکھوں کے سامنے تو نور حجاب تھا مگر قلب اطہر کے لئے کوئی حجاب نہ تھا۔ حضور علیہ السلام کے دل اطہر کو اللہ پاک نے اپنی جلوہ گاہ بنا دیا اور وہ عمل جو صفاتی تجلی کے اعتبار سے طور پر جلوہ ذات ملا تھا۔ جلوہ صفات تھا، وہ اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام اللہ پاک کے صفاتی مظہر ہوتے ہیں، اولیائے کرام اللہ پاک کے اسمائی مظہر ہوتے ہیں، ساری مخلوق اللہ کی افعالی مظہر ہے۔ تنہا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی ذات کے مظہر ہیں۔ حضور کی شان مظہریت میں اللہ کے اسماء افعال اور ذات کی مظہریت بھی شامل ہے۔ قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے اپنا مظہر بنایا۔ فرمایا محبوب ہم اپنا جلوہ تیرے دل میں اتارتے ہیں۔
جیسے ہم نے حضرت موسی سے کہا تھا کہ جب ہم جلوہ اتاریں گے پہاڑ پر اگر پہاڑ برقرار رہا تو وہ میرا مظہر بن جائے گا۔ تم اگر برقرار رہے تم مجھے دیکھ لوگے اسی طرح محبوب! ہم تیرے قلب اطہر میں اپنی ذات کا جلوہ اتارتے ہیں فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ اگر تیرا دل میری ذات کے جلوے پر برقرار رہا اور اس نے میرے جلوہ ذات کو اپنے اندر سمو لیا اور میرے جلوے کا مظہر بن گیا۔ وہ آنکھیں جو میرے جلوے کو براہ راست نہیں دیکھ سکتیں۔تیرے دل کو دیکھ کر پھر مجھے دیکھ سکیں گئیں۔
آئینہ دل میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
مزید فرمایا:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo
(النجم، 53: 17)
آنکھ نہ بھٹکی اور نہ بے راہ ہوئی نہ حد سے بڑھی، تیرے دل کو اپنی جلوہ گاہ بناتے ہیں اپنی ذات کا جلوہ حسن تیرے دل میں چمکاتے ہیں ۔اے محبوب! اب تیری آنکھیں تیرے دل کو دیکھیں گئی میں نظر آ جاؤنگا۔
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo
(النجم، 53: 11)
آنکھوں نے دیکھا کہ جلوہ ذات الہی ہے شاہد کسی کو خیال ہوتا کہ جو آنکھوں نے دیکھا وہ اللہ کا جلوہ تھا یا نہ تھا۔ تو دل نے تصدیق کر دی۔ یہی اس کی ذات کا جلوہ ہے۔ آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دل نے جھٹلایا نہیں۔ یہ ہے فرق کہ طور برداشت نہیں کرسکا تھا۔ قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برداشت کر گیا۔ وہ جلوہ صفات کو برداشت نہ کرسکا اور یہ جلوہ ذات کو برداشت کر گیا۔ اللہ نے برداشت کی طاقت عطا فرمائی جب جلوہ ذات کو برداشت فرمایا تو وہ مظہر ہوگیا۔ حضور علیہ السلام کی آنکھوں نے بھی دیکھا اور دل نے بھی دیکھا۔ دل نے یوں دیکھا کہ خود جلوہ گاہ بن گیا اور آنکھیں پھر سیر ہو کر تکتی رہیں۔ خدا جانے کتنی دیر تک تکتی رہیں تو آنکھوں نے بھی دیکھا، دل نے بھی دیکھا۔ اب موسی علیہ السلام کی بھی ایک تشنگی باقی تھی۔ فسوف ترانی والی، پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا تھا اور جلوہ کیا تھا۔ شعاع کی انعکاس کا اثر جو پڑا تھا۔ مگر برداشت نہ کرسکے مگر تشنگی باقی تھی۔ کاش طور قائم رہتا وہ مظہر بن جاتا۔ نہ طور برقرار رہا او رنہ موسی علیہ السلام کا ہوش برقرار رہا۔ جب ہوش میں آئے عرض کیا مولا!
اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ.
بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔
(الاحقاف، 46: 15)
میں اپنے سے تائب ہوتا ہوں مگر آرزو کی تشنگی تو باقی تھی بلکہ بڑھ گئی تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کہتے ہیں کہ اس واقع کے بعد تشنگی اور بڑھ گئی۔ توبہ توکر دی، یہ ادب بارگاہ الہی تھا مگر وہ جو لذت تھوڑی سی بے ہوشگی میں ملی تھی۔ اس نے تو اندر آگ لگا دی تھی۔ دیکھا نہ تھا، خالی آرزو تھی۔ اس واقعے کے بعد تو حضرت موسی علیہ السلام کی آرزو میں شدت آگئی۔ انتظار کرتے رہے، شب معراج آگئی۔ پلٹے عرض کی مولا! طور تو جلوہ گاہ نہیں بن سکا تھا۔ جل گیا تھا۔ تیرا محبوب تو جلوہ گاہ بن گیا ہے۔
فرمایا: اے موسی! لو ہم محبوب کو پچاس نمازیں دے دیتے ہیں تم راستے میں کھڑے ہو جاؤ، معلوم ہے آخر رہ جانی پانچ ہیں۔ مگر موسی تو بھی محبوب نبی ہے۔ تیری تشنگی باقی تھی۔ آج اس تشنگی کو بھی بجھا دیتے ہیں۔ راستے میں کھڑا ہو جا۔ میرا محبوب آئے گا۔ پوچھنا کتنی نمازیں لائے ہو۔ وہ فرمائیں گے پچاس تو انہیں کہنا کہ کہ محبوب کی امت اتنا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی۔ کم کروا لائیں۔ بعض کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے نو مرتبہ التجا کی، ہر بات کی التجا پوری کرتے ہیں۔ طور برداشت نہ کرسکا اور میرا محبوب برداشت کرکے آ رہا ہے۔ حتی کہ اس کا سراپا میرے حسن ذات کا جلوہ گاہ بن گیا۔ جتنی بار دعا کی تھی ہر ہر دعا کے عوض ایک بار دیدار نصیب ہوا لوگ کہتے ہیں کہ آقا نے اللہ کو نہ دیکھا۔ بھئی دیکھنا تو بعد کی بات ہے وہ تو نہ صرف دیکھ کر آئے بلکہ دیکھنے والوں کو دکھا کر بھی آئے۔ خود بھی دیکھ کر آئے اور حضرت موسی علیہ السلام کو اپنے اندر سے دکھا بھی گئے۔ حضور مظہر کامل ہوگئے:
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَo
اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔
(الذاریات، 51: 21)
اس آیت کے مظہر اتم شب معراج حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہوئے اور پھر آقا کو یہ شان دائمی نصیب ہوگئی اس لیے نیچے آئے تو فرمایا:
من رآنی فقد رأی الحق .
جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا۔
(هندی، کنزل العمال، 15، 163، الرقم: 41475)
طور اگر چند لمحوں کے لیے برقرار رہتا۔ تو چند لمحوں کی جلوہ گاہ بنتا مگر آقا علیہ السلام برقرار ہوئے عمر بھر کی جلوہ گاہ بن گئے اور آج تک آقا دو جہاں اللہ کے حسن ذات کی جلوہ گاہ ہیں۔ فرمایا: من رانی فقد راہ الحق ’’مجھے دیکھو میرے اندر حق کا جلوہ نظر آتا ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالی حضور کے فیضان سے ہمیں اور حضور کی پوری امت کو خصوصی رحمت و برکت عطا فرمائے۔
مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved