شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اس دورۂ علوم الحدیث میں چونکہ تمام مکاتبِ فکر اور مختلف مدارس کے طلبہ اور علماء آئے ہیں اور یہ نہایت خوشی کا پہلو ہے کہ الحمدللہ تعالیٰ ملک میں کوئی ایسی جگہ بھی ہے جہاں سارے اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ دورۂ علوم الحدیث میں اس انداز میں ایک جگہ جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مسالک میں اختلافات، الگ مدارس و مکاتبِ فکر، الگ سلاسل و دارالعلوم اور اساتذہ کے طرق الگ ہونے کے باوجود علم الحدیث سب کا ایک ہے، کوئی کتاب مختلف نہیں ہے، کوئی ایک امام اور عالم مختلف نہیں ہے۔ اس لئے اس بات کو تاکیداً کہہ رہا ہوں کہ جسے حدیث کے باب میں جس نوعیت کا بھی اشکال، ابہام اور مغالطہ ہے، وہ بڑی توجہ سے سنے تاکہ اپنے مغالطوں اور ابہامات کا ساتھ ساتھ ازالہ کرتا چلا جائے۔ اس میں کوئی مسلکی اختلاف کی چیزیں نہیں ہیں، یہ اصول کی چیزیں ہیں۔ یہ ابحاث اگر صحیح پڑھائی نہیں گئیں یا اُن کی تفصیل نہیں بتائی گئی یا تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ملا تو اس مغالطے کے اسباب ہیں۔ ان ہی مغالطوں اور ابہامات کو دور کرنے کے لئے اس دورئہ علوم الحدیث کا اہتمام کیا گیا ہے۔
حدیثِ صحیح اور اُس سے متعلقہ ضروری مباحث کے بیان سے قبل میں چاہتا ہوں کہ بتوفیقِ الٰہی حدیث کی جملہ انواع کا ایک خلاصہ ایک اچھے نظم کے ساتھ بیان کردوں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتب شرح نخبۃ الفکر، نزہۃ النظر اور النکت میں، امام ابن الصلاح کے مقدمہ میں، حافظ العراقی کی النکت میں، امام زرکشی کی النکت میں، امام سخاوی کی فتح المغیث میں، امام نووی کی التقریب میں اور امام سیوطی کی التدریب میں اقسامِ حدیث کے بیان میں دو اسلوب اختیار کئے گئے ہیں۔ میں اُن دونوں اسالیب کو جمع کر کے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی چار اقسام ہیں:
حدیث کی یہ تقسیم پہلی بار حافظ ابن حجر عسقلانی نے کی ہے اور اس حوالے سے ایک جدت پیدا کی۔ اُن سے پہلے یہ تقسیم نہیں تھی۔ علماء کے ہاں ابن صلاح ہی مشہور ہیں کہ انہوں نے یہ تقسیم بیان کی جبکہ ایسا نہیں ہے، اُن سے پہلے تین اقسام بیان ہوچکی تھیں۔
تعدادِ رواۃ کے اعتبار سے حدیث کی اس تقسیم کی تفصیل میں بیان نہیں کروں گا، وہ چیزیں چھوڑ دوں گا جو عام طور پر آپ مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں:
حدیثِ متواتر مباحثِ محدثین میں سے نہیں ہے۔ حدیثِ متواتر کی بحث مباحثِ اصولیین و فقہاء میں شامل ہے، وہ اسے اپنی بحث میں لاتے ہیں۔ اسے مباحثِ محدثین میں لانے کی یہ جدت حافظ ابن حجر عسقلانی نے پیدا کی، ان سے پہلے کسی محدث نے اس کو بیان نہیں کیا۔
دیگر محدثین کا حدیثِ متواتر کو اپنی مباحث میں شامل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب حدیث متواتر ہو گئی تو اُس سے علمِ یقینی حاصل ہوگیا اور اب وہ خبر ظنی نہ رہی بلکہ قطعی ہوگئی اور اُس سے حاصل ہونے والا علم علمِ یقینی بن گیا۔ جب وہ خبر علمِ یقینی اور علمِ قطعی دے رہی ہے تو اُس پر جرح و تعدیل کیسے ہو سکتی ہے؟ علماء اور محدثین تو جرح و تعدیل سے بحث کرتے ہیں کہ راوی کیسا ہے۔۔۔؟ سند میں اتصال ہے یا نہیں۔۔۔؟ سند منقطع تو نہیں ہے۔۔۔؟ راوی کا ضبط و حفظ کیسا ہے۔۔۔؟ شذوذ تو نہیں ہے۔۔۔؟ کوئی علتِ قادحہ تو نہیں ہے۔۔۔؟ گویا محدثین اِن اوصاف یا علل یا رواۃ اور سند کے احوال سے بحث کرتے ہیں اور اس بحث کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ اس حدیث کو مقبول سمجھا جائے یا مردود سمجھا جائے۔۔۔؟ مقبول ہے یا مطعون ہے۔۔۔؟ اس پر عمل کریں یا نہ کریں۔۔۔؟ الغرض اس حکم تک پہنچنے کے لئے محدثین، ائمہ جرح و تعدیل اور علماء مصطلحات الحدیث بحث کرتے ہیں۔
لیکن جب ہم نے کسی حدیث کو متواتر کہہ دیا اور اُس میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو متواتر کے لیے مقرر اور معین ہیں تو اب نہ اس حدیث کے اتصال کے پرکھنے کی ضرورت رہی، نہ اس میں انقطاع رہا، نہ ارسال رہا، نہ معضل رہی، نہ معلل رہی اور نہ منقطع رہی، نہ مرسل رہی اور نہ اُس میں کوئی ضبط کا مسئلہ رہا۔ اب اس حدیث میں یہ چیزیں زیرِ بحث ہی نہیں آنی، اس لیے کہ زیرِ بحث آنے کا تعلق قبول یا عدمِ قبول سے ہے اور جب متواتر ہونے کی وجہ سے اسے قرآن کی طرح قطعیت حاصل ہو چکی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا علم ظنی نہیں رہا بلکہ علمِ یقینی ہو گیا ہے تو علمِ یقینی حاصل ہو جانے کے بعد اب اس پر جرح و تعدیل، اس کے رجال اور سند کی پرکھ کی کوئی حاجت نہیں۔ اس لئے حدیثِ متواتر محدثین کے مباحث میں شامل ہی نہیں ہے۔
عام طور پر طلبہ کو پڑھاتے ہوئے اساتذ و علماء یہی بتاتے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی سے پہلے حدیثِ متواتر اور مشہور کی تقسیم نہیں تھی، اُنہوں نے جدت پیدا کی۔ مباحثِ محدثین میں اس بحث کے شامل نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ نہیں بتاتے۔ جس طرح آپ سنتے، پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو ہم بھی آپ کے اساتذہ سے بہت اونچے درجے کے اساتذہ سے پڑھے ہیں، جو اپنے وقت کے ائمہ تھے، انہوں نے بھی ہمیں یہ نہیں پڑھایا۔ اس لئے میں نے اس کی تصریح کو ضروری خیال کیا کہ محدثین کے مباحث میں حدیثِ متواتر کی بحث اس لیے شامل نہیں کہ جس غرض سے محدث بحث کرتا ہے، اُس غرض کا اطلاق ہی حدیثِ متواتر پر نہیں ہوتا۔
حدیثِ مشہور، حدیثِ عزیز اور حدیثِ غریب عند المحدثین اخبارِ آحاد (خبر واحد) ہیں۔ محدثین یہ تقسیم نہیں کرتے۔ متواتر، مشہور، عزیز اور غریب میں سے ہر ایک کا حکم چونکہ الگ الگ ہے، اس لیے فقہاء کو اس تقسیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ محدثین ان تینوں اقسام کو متواتر کے بعد آحاد میں لے لیتے ہیں۔
خبرِ واحد کے حوالے سے محدثین کی بحث ہے کہ اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ قبول اور رد کے اعتبار سے خبر آحاد کی دو اقسام ہیں:
جس حدیث میں قبولیت کی شرائط پوری ہوں، اُسے خبرِ مقبول کہتے ہیں اور جس حدیث میں قبولیت کی شرائط میں کمی بیشی ہو، اُسے خبرِ مردود کہتے ہیں۔
علم الحدیث میں جب کسی حدیث کے لیے لفظِ مردود استعمال ہوگا تو اُس سے باطل، مکذوب اور موضوع مراد نہیں ہوگا۔ یعنی المختلق، المصنوع، الموضوع، المکذوب یہ چاروں چیزیں اُس حدیث سے مراد نہیں ہوں گی۔ مردود، مقبول کے مقابل میں ہے کہ جس میں قبولیت اور عمل کرنے کی شرائط میں کمی ہو، خواہ ایک شرط کم ہو یا زیادہ شرائط کم ہوں۔ ہر طرح کی کمی کو بیان کرنے کے لئے ایک ہی لفظ ’’المردود‘‘ استعمال ہوتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ کتبِ حدیث، کتبِ جرح و تعدیل اور اصولِ حدیث کی کسی بھی کتاب میں یہ لفظ استعمال ہو کہ فلاں حدیث مردود ہے تو وہ شخص جاہل ہو گا جو کسی خبر کے بارے میں ’’مردود‘‘ پڑھ کر یہ کہے کہ ’’دیکھو یہ حدیث مردود ہے لہذا باطل اور ناقابلِ قبول ہے‘‘۔ یہ پنجابی والا مردود نہیں ہے بلکہ یہ علم الحدیث کی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح میں ایسی حدیث بھی شامل ہے جو اصلاً ضعیف تھی اور بعض قرائن کی وجہ سے مقبول ہوگئی، لہذا اب وہ مردود نہ رہی۔ حدیث کی سند کی اصل ماہیت کی وجہ سے مقبول اور مردود کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ میں نے کئی بار سوچا کہ کاش اس کے لئے کوئی اور بہتر لفظ محدثین نے استعمال کیا ہوتا تاکہ نہ یہ مغالطہ پیدا ہوتا اور نہ مغالطے کا ازالہ کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ مگر ایک تقسیم کتابوں میں ہوگئی اور اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، صدیوں بعد اب لفظ بدلنے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا، لہٰذا مفہوم سمجھنا چاہیے۔
جس طرح لفظِ مردود سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح ’’غیر صحیح‘‘ بھی ایسی ہی اصطلاح ہے جس سے عامۃ الناس میں مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً: اگر کسی حدیث کے بارے میں لکھا جاتا ہے: ھذا حدیث غیر صحیح (یہ حدیث غیر صحیح ہے) تو حدیث کو غیر صحیح کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ موضوع ہے یا یہ باطل ہے۔ حتیٰ کہ ’’غیر صحیح‘‘ کہہ کر بھی اسے مردود نہیں کہہ سکتے۔
غیرِ صحیح کا مطلب یہ ہے کہ صحت کی جو مقررہ شرائط ہیں، وہ اس حدیث میں بتمام و کمال پوری نہیں ہوئیں۔ لہذا تھوڑی سی کمی کے ساتھ وہ حدیث حسن، حسن لذاتہٖ یا حسن لغیرہٖ ہے۔ وہ حدیث ضعیف میں سے ہے لیکن تعددِ طرق کے ساتھ وہ درجہ حسن تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ لہذا اسباب اور قرائن کی وجہ سے اس کے درجات کا تعین ہوتا ہے۔ جس طرح غیر صحیح کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باطل یا موضوع ہے، اسی طرح المقبول کے مقابلے میں المردود کا مطلب قطعی طور پر ’’موضوع‘‘ نہیں ہے۔ موضوع اُس ’’مردود‘‘ میں سے ایک قسم ہے اور اُس سے اوپر حدیث کی کئی اقسام ہیں۔
اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ جیسے ہم کسی کے لیے یہ لفظ بولتے ہیں کہ یہ مریض ہے اور یہ صحت مند ہے۔ اب جس کو نزلہ و زکام ہے، اُس کو بھی مریض کہیں گے؛ جس کو کھانسی، بلغم، Infection ہے، اسے بھی مریض ہی کہیں گے؛ جس کو Hepatitis C ہوگیا، اُس کو بھی مریض کہیں گے؛ جس کے گردے جواب دے گئے، Dialysis ہو رہا ہے، اُس کو بھی مریض ہی کہیں گے؛ جسے Cancer ہوگیا، اسے بھی مریض کہیں گے؛ جو قریب المرگ ہے اُسے بھی مریض کہیں گے اور جس کی روح نے ابھی پرواز نہیں کی اور وہ حالتِ نزع میں ہے، اُسے بھی مریض کہیں گے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کہاں ایک معمولی سا زکام اور کہاں آخری درجے کا Cancer مگر لفظ سب پر ایک ہی استعمال ہو گا کہ یہ مریض ہے۔
ہمیں فرق کرنا ہو گا کہ اس کے مرض کا درجہ کیا ہے؟ اس کے مرض کی قسم کیا ہے؟ ہر ایک کا الگ الگ حکم ہو گا۔ TB والا بھی مریض ہے اور خارش والا بھی مریض ہے۔ گلے میں خراش والا بھی مریض ہے اور سر درد والا بھی مریض ہے۔
پس جس طرح لفظِ مریض بہت سارے درجاتِ مرض کو شامل ہے، اسی طرح ’’مردود‘‘ اور ’’غیر صحیح‘‘ بھی عام لفظ ہیں جو بہت سارے درجات کو محیط ہیں۔ ان میں ایک قسم ایسی ہے جو قطعی مردود ہے، جسے موضوع کہتے ہیں، اسے چھوڑ کر حدیث کی باقی جتنی اقسام ہیں، اُن کے اندر کوئی نہ کوئی ارتقاء ہو سکتا ہے جو قبولیت کا باعث بن سکتا ہے۔
مریض کا مطلب یہ نہیں کہ اب یہ شفایاب نہیں ہو سکتا۔ مریض کو دوائی دی تو وہ شفا یاب ہوگیا، پہلے وہ مریض تھا لیکن اب نہ رہا۔ اسی طرح حدیث ضعیف تھی مگر اب اعلیٰ سند کی صورت میں اس کی دوائی ملی تو اُس کا درجہ بلند ہوا اور وہ حدیث حسن ہوگئی۔ مزید اسناد اور طرق کی صورت میں اُس کو اور دوائی ملی تو مزید تقویت ملی جس سے وہ حدیث صحیح کے زمرے میں چلی گئی۔ مریض تھا مگر ڈاکٹر کے علاج سے وہ شفایاب اور صحیح ہوگیا۔ اس طرح حدیث ضعیف تھی مگر اب صحیح ہے۔ ضعیف تھی مگر اب حسن ہے۔ مردود تھی مگر اب مقبول ہو گئی ہے۔
اصطلاحاتِ حدیث میں لفظِ مردود کی اس وضاحت کا مقصود یہ اشکال دور کرنا ہے کہ اگر کبھی عملی طور پر زندگی میں کسی کے ساتھ بات چیت ہو تو کوئی ہمیں لفظوں کے ساتھ دھوکا نہ دے سکے۔ ہم حدیث بیان کریں تو دوسرا کہے کہ ’’دیکھو لکھا ہوا ہے کہ یہ مردود ہے‘‘، کسی نے کہا کہ یہ غیر صحیح ہے، ’’یہ صحیح نہیں ہے‘‘۔ یاد رکھیں! غیر صحیح اور مردود ایسے الفاظ نہیں ہیں جن سے ترک کرنے کی قطعیت آ جائے۔
بعض لوگوں کو یہ مغالطہ بھی ہے کہ جس حدیث کے بارے میں طبیعت میں آ جائے کہ اسے قبول نہیں کرنا تو کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ خبر واحد ہے‘‘۔ یاد رکھیں! لفظ خبرِ واحد پر ایک ایسا شخص اعتراض کرے گا جو اس فنِ حدیث کو جاننے والا نہیں، جس کے پاس اس فن کا علم نہیں ہے، اُس نے اسے پڑھا نہیں اور نہ ہی اسے سمجھایا گیا ہے۔ یاد رکھ لیں! کثرت کے ساتھ تقریباً 99% تمام احادیثِ صحیحہ خبرِ واحد ہیں یعنی ہر حدیثِ صحیح بالعموم خبرِ واحد ہوتی ہے۔
محدثین کے ہاں خبرِ مشہور نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ امام عسقلانی نے یہ تقسیم ضرور کی ہے مگر جب محدثین اس علم کا اطلاق کرتے ہیں اور اسانید پر بحث کرتے ہیں، جرح و تعدیل کرتے ہیں اور حدیث کے قبول اور عدمِ قبول کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُس میں محدثین کے ہاں خبرِ مشہور اور خبرِ عزیز کی بحث نہیں آتی، یہ بحث فقہاء کے ہاں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر ائمہ نے حدیثِ صحیح اور حدیثِ حسن کی تقسیم خبرِ واحد کے تحت ہی کی ہے۔
وہ خبر واحد جو مقبول ہے، اس کی چار اقسام ہیں:
وہ حدیث جس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں وہ صحیح لذاتہ ہے:
یہ پانچ شرائطِ صحت ہیں، جن احادیث میں یہ پانچوں شرائط بتمام و کمال پائی جائیں، وہ حدیث صحیح لذاتہ ہے۔
وہ حدیث جو اپنی ذات میں خارجی مدد کے بغیر حسن تھی مگر دیگر طرق، شواہد اور متابعات کے ملنے سے وہ حدیث حسن ترقی پا کر حدیث صحیح بن گئی۔ اُس کو حدیث صحیح لغیرہ کہیں گے۔
حدیث صحیح لغیرہ اصل میں حدیثِ حسن ہوتی ہے۔ اس حدیث کا رتبہ اور درجہ چونکہ کئی اور شواہد، متابعات اور مددگار روایتوں اور اسناد کی مدد سے بلند ہو جاتا ہے، اس لیے یہ حسن لذاتہ کے بجائے صحیح لغیرہ ہو جاتی ہے اور یہ حدیث ترقی پاکر حسن سے صحیح لغیرہ ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ صحیح کا Title لگ جاتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھ لیں کہ جب محدث کسی حدیث پر حکم لگائے گا (جس طرح ترمذی، ابوداؤد، نسائی یا دیگر کتب حدیث میں حدیث پر حکم لگایا جاتا ہے) تو وہ صحیح لذاتہ یا صحیح لغیرہ کا حکم اصلاً نہیں لگائے گا بلکہ جب اُس پر بحث کرے گا تو فرق کرنے کے لئے یہ ٹائٹل ساتھ لگادے گا۔ جب کوئی حدیث صحیح ہو گئی تو لکھ دے گا: ہذا حدیث صحیح۔ لہذا جب کوئی حدیث حسن ہو کر شواہد و متابعات کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ گئی تو اس کا صحیح بننا چونکہ شواہد و متابعات کی وجہ سے ہے، اس لیے اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مگر باہر کی مدد کی وجہ سے صحیح ہوئی، اس لیے صحیح لغیرہ ہوگئی۔
حسن لذاتہ کے اندر حدیثِ صحیح کی ایک شرط کے سواء بقیہ تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ حدیثِ صحیح اور حدیثِ حسن میں فرق راوی کا تام الضبط نہ ہونا ہے۔ حدیث حسن لذاتہ میں راوی تام الضبط نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ راوی ضابط نہیں ہوتا، بلکہ راوی ضابط و ثقہ ہوتاہے مگر تام الضبط نہیں ہوتا جبکہ حدیث صحیح کے درجے میں جانے کے لئے تام الضبط کی شرط ہے، بس اتنے معمولی سے فرق کی بنیاد پر وہ حدیث صحیح نہیں کہلا سکی، ورنہ ساری کی ساری صفات اُس کی حدیثِ صحیح کی ہیں۔ حدیثِ صحیح کی شرطِ ضبط میں معمولی سی کمی کی بناء پر وہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔
گویا حسن لذاتہ کی دو قسمیں ہیں:
یہ حدیث اصل میں ضعیف ہوتی ہے مگر اس کا ضعف خفیف ہوتا ہے۔ جیسے کہ میں نے مثال سے واضح کیا تھا کہ نزلہ، زکام، کھانسی، پیٹ درد اور اس طرح کی چھوٹی چیزیں خفیف ضعف ہوتا ہے، اگر دوائی ملے تو یہ امراض دور ہوجاتے ہیں اور مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حدیثِ ضعیف کو شواہد اور متابعات ملتے ہیں تو وہ حدیث ضعیف نہیں رہتی، ضعف کم ہوجاتا ہے اور وہ حدیث ترقی پا کر حدیثِ حسن بن جاتی ہے۔ جب حدیث حسن بنتی ہے تو چونکہ شواہد، متابعات اور خارج کی مدد سے بنی، اس لئے اسے حدیث حسن لغیرہ کہتے ہیں۔
بالکل اُسی طرح جیسے حدیث حسن لذاتہ تھی مگر باہر سے شواہد و متابعات کی مدد کی وجہ سے ترقی پا کر صحیح بنی، اس لئے اُس کو صحیح لغیرہ کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ اسی طرح حدیث ضعیف تھی، اُس کو شواہد، متابعات اور تعددِ طرق کی مدد ملی، اُس خارجی مدد کے باعث وہ ضعیف نہ رہی بلکہ ترقی پا کر حسن ہوگئی۔ یہ حدیث حسن ہے مگر جس طریقے سے حسن بنی اُس کی وجہ سے اُس کو حسن لغیرہ کا نام دے دیا گیا۔
خبرِ واحد کی عمل کے اعتبار سے درج ذیل تقسیم کی گئی ہے کہ یہ حدیث معمول بہٖ ہو گی یا نہیں؟ اُس پر عمل کیا جائے گا کہ نہیں؟
وہ مقبول خبر واحد جو معمول بہٖ ہے (جس پر عمل کیا جائے گا) اُس کی درج ذیل اقسام ہیں:
وہ مقبول خبرِ واحد جس پر عمل چھوڑ دیا جائے گا وہ غیر معمول بہٖ ہے۔ یہ حدیث مقبول ہے اور عین ممکن ہے کہ اپنے درجہ میں صحیح ہو مگر غیر معمول بہٖ ہوگئی ہے۔ کسی حدیث کا صحیح ہونا، اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ یہ معمول بہٖ بھی ہے۔ مثلاً: حدیث صحیح ہے مگر منسوخ ہے۔ ناسخ بھی حدیثِ صحیح ہے اور منسوخ بھی حدیث صحیح تھی۔ صحیح بخاری ومسلم میں متفق علیہ کئی احادیث ایسی ہیں جن پر عمل نہیں کیا جاتا، اس لیے وہ منسوخ ہیں۔ یہ متفق علیہ اور اصح درجے کی حدیثیں ہیں مگر معمول بہٖ نہیں ہیں کیونکہ اُن کی ناسخ احادیث موجود ہیں۔ اسی طرح مرجوع اور متوقف فیہ بھی خبر واحد مقبول ہیں مگر غیرمعمول بہٖ ہیں۔
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved