شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَاط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘
(بنی اسرائیل، 18: 1)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کے تین مراحل ہیں:
عرب دنیا معراج کے ان سارے مراحل کو مانتی ہے اور اس کا عقیدہ رکھتی ہے مگر وہاں اس کے لیے معروف، مروّج اور متداول لفظ ’’اسرٰی‘‘ ہے۔ وہ اسے ’’لیلۃ الاسرٰی‘‘ کہہ کر مناتے ہیں۔ ہمارے ہاں اور گردو نواح کے خطوں میں ’’لیلۃ المعراج‘‘ زیادہ معروف ہے۔
اس تیسرے مرحلہ کا انکار کرنا حق اور صواب سے ہٹ جانا ہے۔ یعنی بندہ صحتِ عقیدہ یا عقیدہ میں خیر کے پہلو سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے کے انکار سے بندہ نہ کافر ہوتا ہے اورنہ صریح گمراہ ہوتا ہے۔
اس بات کو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک ہی بات کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ایک ہی ٹھپا (مہر) ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہر جگہ اسی کو لگاتے چلے جاتے ہیں۔ ہم تفریق نہیں کرتے جبکہ علم حسبِ مرتبہ تفریق کرنے اور ہر چیزکی تفصیل کرنے کا نام ہے۔ لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کس مرحلہ کے انکار سے بندہ کافر ہوجاتا ہے، کس مرحلہ کے انکار سے بندہ ضال اور گمراہ ہوجاتا ہے اور کس مرحلہ کے انکار سے بندہ صواب (صحتِ عقیدہ) سے محروم ہوتا ہے۔
مذکورہ تمام بات معروف ہے اور علمی شغف رکھنے والے لوگ اس سے آگاہ ہیں مگر اب معجزہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ ایسے پہلو اور دلائل بیان کروں گا جو نئے ہیں اور اس سے پہلے بیان نہیں کئے:
مذکورہ تینوں مراحل پر مشتمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سارا سفرِ معراج جسد مع الروح ہے یعنی سارا سفرِمعراج جسم اقدس کے ساتھ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جسمِ اقدس کے ساتھ سفر فرمایا ہو اور کچھ حصہ جسمِ اقدس کے بغیر روحِ مبارک کے ساتھ سفر کیا ہو۔ سفرِ معراج کے کچھ حصے کو فقط جسم اور کچھ حصے کو فقط مع الروح بلا جسد مان کر اس سفر کے ٹکڑے نہیں کیے جاسکتے۔
اگر کوئی کہے کہ سفرِ معراج فقط روحانی ہے تو یہ بات یاد رکھ لیں کہ روحانی معراج سے اُن کی مراد منامی معراج یعنی خواب کی معراج ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو سوئے اور خواب میں معراج کیا۔ سفرِ معراج روحانی یا منامی نہیں ہے، اس لیے کہ اگر معراج کو فقط روحانی و منامی مان لیں تو یہ معجزہ ہی نہ رہا ور اس بات کا کلیتاً انکار ہوگیا جس کا دعویٰ اللہ تعالیٰ نے سبحن الذی اسرٰی کے الفاظ کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ اس لیے کہ معراج کو روحانی و منامی مان لینے سے یہ اللہ کا ایسا دعویٰ بن گیا کہ جس دعویٰ کی (استغفراللّٰہ العظیم) کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔
سبحن الذی اسرٰی بعبدہ کے الفاظ کے ساتھ اس سفرِ معراج کا ذکر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ فرض کریں کہ اگر یہ سفر روحانی اور منامی تھا تو اللہ رب العزت کی ذات تو ہزاروں اولیاء کرام کو خواب میں اعلیٰ بلندیوں تک لے جاتی ہے تو اس سفر میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخصیص کیا ہوئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ہزاروں اولیاء ایسے ہوئے اور ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں خواب میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور کبھی آسمانوں تک کا سفرکرایا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفرِ معراج بھی اگر خواب میں ہے تو پھر یہ سفر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخصیص نہ رہی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخصیص نہ رہی تو یہ معجزہ نہ رہا اور جب یہ سفرِ معراج معجزہ نہ رہا تو اللہ تعالیٰ کا کلام غیر ضروری بن گیا، دعویٰ بغیر بنیاد کے بن گیا، قرآن میں اس کا ورود غیر متعلقہ ہوگیا اور سورۃ النجم کی آیات کا کوئی تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہی نہ رہا۔
اس موقع پر یہ بحث نہیں کررہے کہ سورۃ النجم کی آیات میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا مراد ہے یا جبریل امین کو دیکھنا مراد ہے۔۔۔؟ ثم دنٰی فتدلٰی سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور جبریل امین کی ذات مراد ہے۔۔۔؟ علماء کے ہاں یہ ہی بحث ہوتی ہے، ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ ان آیات میں اشارہ خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو یا جبریل امین کی طرف ہو، اگر سب کچھ خواب میں ہوا ہے تو یہ معجزہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خواب تو آتے رہتے ہیں۔ عام مومنین کو بھی خواب آتے ہیں، صلحاء کو ان سے زیادہ سچے خواب آتے ہیں اور اولیاء کو صلحاء سے بھی زیادہ سچے خواب آتے ہیں، پھر اولیاء کاملین، مقربین، صدیقین کو سب سے بڑھ کر سچے خواب آتے ہیں۔ ان ہستیوں کو خوابوں میں اللہ تعالیٰ اور جبریل امین کی بھی زیارت ہوتی ہے اور خواب میں وہ آسمانوں اور جنت تک کی سیر کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کو اگر روحانی و منامی معراج تسلیم کر لیں تو یہ معجزہ کا ہی انکار ہوگیا جبکہ اس سفرِ معراج کے بیان کا آغاز اللہ نے ’’سبحن‘‘ کے لفظ سے کیا ہے اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ اس وقت بیان فرماتا ہے جب کوئی بڑا کام ہو۔
عام زندگی میں ہم لوگ بھی معمول اور عادت کی چیزوں کے منعقد ہونے پر ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً: اگر کوئی شخص پانی پئے، کھانا کھائے یا کوئی خواب دیکھے یا کوئی قاری قرآن عام لہجہ میں تلاوتِ قرآن کرے تو سننے اور دیکھنے والے سبحان اللہ نہیں کہتے، اس لیے کہ اگر کوئی کام مطابقِ عادت ہو تو اس پر سبحان اللہ نہیں کہا جاتا۔ ہاں اگرکوئی قاری قرآن خاص لہجہ اور انداز میں اعلیٰ تجوید کے ساتھ قرات کرے تو لوگ سبحان اللہ کہتے ہیں۔ سبحان اللہ اس کام پر کہتے ہیںجس بات پر تعجب ہو، جو بات یا کام عادت، انسانی طاقت، صلاحیت، استعداد اور قوت سے بڑھ کر ہو۔ کوئی ایسا انوکھا و نرالا کام ہو کہ جسے کوئی اور نہ کرسکتا ہو، ایسے میں کوئی ایسا کام کردکھائے تو اس پر انسان کلماتِ تحسین بولتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کو بیان کرتے ہوئے جب اللہ رب العزت نے سبحان الذی اسرٰی بعبدہ کے کلمات بیان فرمائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات ہر شک و شبہ، اعتراض، کمزوری اور نقص سے پاک ہے، جو چیز تم سوچ بھی نہیں سکتے، اللہ تعالیٰ نے وہ چیز اپنے محبوب کے لیے کر دکھائی۔ اس ساری گفتگو سے واضح ہوا کہ اگر معراج کو روحانی و منامی تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کی حیثیت معجزہ کی نہیں رہتی۔
معراج کے روحانی و منامی ہونے سے متعلق پیدا ہونے والے اشکال کے ازالہ کے بعد اب معجزۂ معراج کو ایک اور پہلو سے بیان کرتے ہیں۔ یہ بات کسی نے کہی نہیں ہے، صرف ایک امکانی بات کررہا ہوں۔ علماء و ائمہ میں سے اس امکان کو کسی نے بیان نہیں کیا مگر ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں آئے اور وہ اس بات کو بیان کردے۔ اس لیے اس بات کے ذریعے پیدا کیے جانے والے اشکال کا بھی پہلے ہی ازالہ کیے دیتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب کا واقعہ نہیں تھا بلکہ فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح معراج پر گئی ہے، جسم نہیں گیا تو یہ بات بے عقلی کی ہے۔ اس لیے کہ ایسا کہنے والا گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس رات ایک وقت ایسا آیا کہ جسمِ اقدس آرام فرما تھا اور جسم سے روح نکل گئی تھی۔ جب روح نکل جائے تو اس کیفیت کو موت کہتے ہیں۔ ایسا کہنے یا سوچنے والا معراج کا موضوع بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معاذ اللّٰہ موت وارد کررہا ہے۔ اگر روح نکل جائے اور جسم وہیں رہے تو یہ موت کی کیفیت ہوئی اور اس کیفیت پر سبحان الذی کے الفاظ استعمال کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔
یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنے کے برعکس ہے۔ اسلام کی 1200 سال کی تاریخ میں ائمہ، محدثین، علمائ، متکلمین، فقہاء اور اصول دین و عقیدہ کے اکابرین میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی کہ جسم مکہ معظمہ میں ہی رہا اور جبریل امین روح کو سفر پر لے گئے اور یہ روح ہی قاب قوسین او ادنٰی تک گئی۔ یہ نہ صرف نامعقول اور نادانی کی بات ہے بلکہ عقلاً و نقلاً غلط اور بے بنیاد بات ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سفرِ معراج سے واپسی کے بعد اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ میں نے آج رات خواب میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر کیا ہے اور معراج کیا ہے تو کیا اس بات پر ابوجہل کو اعتراض کرنے، کفارو مشرکین کا صحنِ کعبہ میں اکٹھ کرنے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔؟ نہیں، اس لیے کہ خواب تو کسی کو بھی کسی بھی چیز کا آسکتا ہے۔ پس منامی معراج پر اعتراض و انکار اور تصدیق و تکذیب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، 1: 156، رقم: 182)
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو خواب بتائے کہ میں خواب میں فلاں جگہ گیا تو کیا کوئی اس سے اس جگہ کی جزئیات کے بارے میں بھی پوچھتا ہے کہ بتائو فلاں عمارت یا جگہ کے کتنے دروازے اور کتنی کھڑکیاں ہیں۔۔۔؟ کیا کوئی خواب سنانے والے سے سفر کے احوال بھی پوچھتا ہے کہ تم نے اس سفر کے دوران کتنے قافلے آتے جاتے دیکھے۔۔۔؟ اگر کوئی کسی کو خواب سنائے تو اس سے کوئی سوال کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔
پس ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شبِ معراج کے بعد صبح جب اس سفر کو بیان کیا تو خواب کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ حالتِ بیداری میں جسم کے ساتھ معراج پرجانے کی حقیقت کو بیان کیا تھا، تب ہی تو کفار میں ایک زلزلہ بپا ہوا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیسی بات کردی؟ ایک ہی رات میں یہ یہاں سے وہاں تک کیسے ہوکر آگئے؟
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفرِ معراج جسم کے ساتھ ہوا اور مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی اور قاب قوسین او ادنٰی تک کا سفر روح کا سفر ہے، جسمانی معراج نہیں تو معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ مؤقف رکھنے والے سے سوال کیا جائے گا کہ اگر مسجدِ اقصیٰ تک جسم کے ساتھ گئے اور اس سے اوپر روح گئی تو پھر جسم کہاں چھوڑ گئے۔۔۔؟ جسمِ اقدس حرمِ کعبہ میں چھوڑ گئے یا بیت المقدس پر رہ گیا۔۔۔؟ اگر یہ کہیں کہ جسمِ اقدس حرمِ کعبہ میں چھوڑ گئے تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ تک بھی جسمِ اقدس کے ساتھ نہیں گئے اور اگر کہیں کہ مسجدِ اقصیٰ تک جسم کے ساتھ گئے، اوپر روح کے ساتھ گئے تو پھر مسجدِ اقصیٰ میں جسم کہاں چھوڑا۔۔۔؟ روح کب پلٹی اور جسم میں دوبارہ کب آئی۔۔۔؟ اس عرصہ میں جسم زندہ رہا یا وفات پاگئے۔۔۔؟
اگر جسم مسجدِ اقصیٰ سے اوپر نہیں جارہا تو وہاں سے فقط روح کو لے جانے کی ضرورت کیا تھی۔۔۔؟ کیا جسمِ اطہر القدس پر رہا یا براق پر مکہ مکرمہ واپس آگیا۔۔۔؟ اگر جسم براق پر واپس آگیا تو روح مبارک کس چیز پر اوپر گئی۔۔۔؟ اگر روح کو براق لے گیا تو جسم مکہ مکرمہ کیسے واپس آیا۔۔۔؟ گویا یہ بات کرنے والوں نے مسجدِ اقصیٰ پر لے جاکر روح کو جسم سے جدا کردیا۔ لہذا یہ مفروضہ بھی غیر معقول و غیر منقول ہے۔ اس مفروضہ میں بھی کوئی جان اور دلیل نہیں ہے۔
پس ثابت ہوا کہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منامی کہنے کا بھی کوئی جواز نہیں اور نہ اس امر کا جواز ہے کہ جسم وہیں رہا اور فقط روح معراج پر گئی۔ اسی طرح اس امر کا بھی جواز نہیں کہ آدھا سفر جسم و روح کے ساتھ ہوا اور آدھا سفر فقط روح کے ساتھ ہوا۔ ان تینوں امکانات میں سے کوئی امکان قابلِ قبول نہیں۔
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اصل مذہبِ جمہور یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سارا سفرِ معراج مسجدِ حرام سے لے کر قاب قوسین او ادنٰی تک جسم و روح کے ساتھ اکٹھا ہے۔
سوال پید اہوسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کے لیے براق لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں کئی ایک حکمتیں کارفرما ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
براق کا لانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج جسم و روح کے ساتھ ہورہا ہے۔ سواری اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی سوار ہوکر جارہا ہے۔ اگر فقط روح نے سفر کرنا تھا تو اس کے لیے براق لانے کی کیا ضرورت تھی؟ روح تو براق سے زیادہ نورانی ہے، اس کو براق کی کیا ضرورت ہے۔ براق کا لایا جانا بذاتِ خود اس بات کا پیغام اور اعلان ہے کہ یہ فقط روح کا یا منامی سفر نہیں ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسدِ مبارک سمیت بنفسِ نفیس سفرِ معراج کے لیے تشریف لے جارہے ہیں۔
براق لانے کی دوسری حکمت یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ عالمِ اسباب ہے اور اس دنیا میں جو کوئی سفر کرتا ہے، وہ سواری پر سفر کرتا ہے، لہذا اس عالم اسباب (دنیا) کے طور طریقے کو قائم رکھنے کے لیے براق لایا گیا تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسباب کے ساتھ سفر کیا۔ اگر سفر آسمانوں سے ہوتا تو شاید براق نہ لایا جاتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر کی ہیئت و شکل کو عالمِ اسباب کے طریقوں سے مطابقت و موافقت دینے کے لیے براق لایا گیا۔
سفرِ معراج کے لیے براق لانے میں کار فرما ایک حکمت یہ بھی ہے کہ امت کے وہ اولیاء جو اپنی روحانی طاقت پر بغیر سواری کے سفرکرسکتے ہیں، انہیں بھی درس دے دیا جائے کہ بغیر سواری کے اڑتے پھرنے میں بلند رتبہ نہیں بلکہ سواری پر جانے میں بلند رتبہ ہے۔ تدبیر کو چھوڑنا بلند مقام نہیں ہے بلکہ تدبیر کی سنت کے مطابق چلنا بلند رتبہ ہے۔ اولیائ، صلحائ، مومنین و متقین کو پیغام دینا مقصود ہے کہ تدابیر کو ترک کرکے پرواز کرنا یا پرواز کی خواہش رکھنا سنتِ محمدی کے خلاف ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر تدبیر اور سبب کے بغیر سفر کرنے کی طاقت کائنات میں اور کون رکھ سکتا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود جانے کی طاقت رکھتے ہیں، تدبیر و سبب کی حاجت نہیں لیکن پھر بھی تدبیر و سبب کو اختیار کیا۔
اگر تدبیر و سبب کی حاجت ہوتی تو انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے کون سی تدبیر و سبب اختیار کیا تھا۔۔۔؟ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تدبیر و سبب کے محتاج ہوتے تو ڈوبے سورج کو پلٹانے میں کیا سبب اختیار کیا تھا۔۔۔؟ جب درختوں کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور وہ خود ہی اپنی جڑوں کو زمین سے اکھاڑتے ہوئے چلے آئے اور قدموں میں سجدہ ریز ہوگئے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کون سی تدبیر و سبب کو اختیار کیا۔۔۔؟ اسی طرح پتھروں کا کلمہ پڑھنا اور مُردوں کا زندہ ہوجانا بغیر تدبیر و اسباب کے ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیکڑوں معجزات بغیر تدابیر و اسباب کے ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس ہستی کو اتنی بڑی طاقت عطا کررکھی ہو کہ وہ بلا تدبیر و اسباب سب کچھ کرسکتی ہو تو وہ ہستی اللہ کی بارگاہ کی طرف سفر کرتے ہوئے اگر تدبیر و سبب کو ترک نہ کریں بلکہ براق پر سوار ہوکر جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اولیاء و صلحاء کا تدبیر و سبب کو ترک کرنا کون سی بڑائی و بلندی کی بات ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی انگلیوں میں سے پانی کے چشمے جاری ہوسکتے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے لیے پانی کے چشمے جاری فرمائے تو وہ اپنی انگلیوں سے نہیں بلکہ عصا کو پتھر پر مار کر چشمے جاری فرمائے کیونکہ چشمے زمین اور پتھروں ہی سے جاری ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہ کام کیا جو ظاہراً ہوا کرتا ہے، پانی کا جاری ہونا معجزہ نہیں بلکہ آپ علیہ السلام کے عصا کے لگنے سے چشمے جاری ہونا معجزہ ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے 100 گنا زیادہ عظیم ہے۔ عصا لگنے سے پانی جاری ہونا معجزہ مگر زمین سے چشمے پھوٹنا عادت ہے۔ ادھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگلیوں سے چشمے جاری کیے، پانی کا اس طرح جاری ہونا معجزہ ہے، اس لیے کہ انگلیوں سے کبھی چشمے جاری نہیں ہوا کرتے۔ چشمہ موسیٰ علیہ السلام نے بھی جاری کیا مگر وہاں سے جاری کیا جہاں سے جاری ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی چشمے جاری کیے مگر زمین سے جاری نہیں کیے بلکہ جب ضرورت پڑی، اپنی انگلیوں سے جاری کردیئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معجزہ میں بھی سنتِ تدبیر جاری رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ پانی کی ضرورت پڑنے پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے ہوا میں انگلیاں کردی ہوں اور چشمے جاری ہوگئے ہوں۔ ہوا یہی ہے کہ انگلیوں سے چشمے جاری ہوئے لیکن اس طریقے سے جاری نہیں کیے بلکہ جب ضرورت پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہ کچھ پانی منگواتے اور فرماتے کہ جس کے پاس جس قدر بھی پانی ہے، ایک، دو چُلو یا چند قطرے، وہ لے آئے۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، 3: 1310، رقم: 3383)
اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تھوڑا سا بھی پانی نہ ہوتا تو خالی پیالہ یا برتن ہی طلب فرماتے اور پھر اس برتن میں ہاتھ مبارک ڈالتے تاکہ ایک پردہ ہوجائے، ہاتھ کو چھپادیتے اور پھر چشمے جاری فرمادیتے۔ محض ہاتھ کو ہوا میں رکھ کر چشمے جاری نہ کرتے تاکہ کوئی جادوگری بھی نہ سمجھے اور ہاتھ پیالے میں اس لیے رکھا تاکہ کوئی اسے بلا تدبیر بھی نہ سمجھے۔ یعنی وہ تھوڑا سا پانی جو چند قطرے یا ایک، دو چُلو ہوتا، اس میں ہاتھ ڈبوکر دریا بنادیتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ ایک پوٹلی میں موجود چند کھجوریں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور تک 25 سال ہم کھاتے رہے مگر ختم نہیں ہوئیں۔
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معجزہ کے اظہار میں کبھی چند قطرے پانی کی صورت میں اور کبھی چند کھجوروں کی صورت میں تدبیر بھی اختیار فرماتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس معجزہ سے پانی یا کھجوروں کی تخلیق ہوتی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی شکل تکثیر کی رکھتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی اور کھجوریں پیدا کرتے مگر شکل ایسی دکھاتے کہ جیسے زیادہ فرمارہے ہیں۔
جس طرح ان مذکورہ معجزات میں تدبیر اختیار فرمائی، اسی طرح معرا ج کے موقع پر براق کے استعمال کی حکمت بھی تدبیر و اسباب کو اختیار کرنے کا درس دینا ہے تاکہ تدبیر کا استعمال سنت ثابت ہوجائے۔ معراج سے بڑا معجزہ اور کیا ہوگا، یہ آخری حد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی بارگاہ تک ہو آئے، اس معجزہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تدبیر کی صورت کو ترک نہیں کیا بلکہ برقرار رکھا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج پر اپنے جسمِ اقدس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران پہلا پڑائو (Stop over) مسجدِ اقصیٰ پر ہوا ہے، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر رکے ہیں اور پھر یہاں سے اگلی منزل کو روانہ ہوئے ہیں۔ اس پڑائو میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقتدی بنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء کی جماعت کی امامت فرمائی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس موقع پر جملہ انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی طور پر وہاں موجود تھے۔۔۔؟ اگر وہ اصل جسموں کے ساتھ وہاں تھے تو کیا ان کی قبریں اس وقت خالی تھیں۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کسی حدیث اور روایت سے ثابت نہیں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام شبِ معراج اپنے جسموں کے ساتھ مسجدِ اقصیٰ میں موجود تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے مبارک اجساد کے ساتھ اپنی قبروں سے نکل آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے مسجدِ اقصیٰ میں کھڑے تھے۔ پھر سوال یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام وہاں کسی صورت میں موجود تھے؟ اس کے جواب میں دو امکان ہیں:
انبیاء کرام علیہم السلام خواہ مثالی جسم کے ساتھ مسجدِ اقصیٰ میں کھڑے تھے یا اُن کی مجرد ارواح موجود تھیں، دنوں صورتوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس ارواح مسجدِ اقصیٰ میں موجود تھیں جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کررہی تھیں جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف روح نہیں بلکہ جسم مع الروح وہاں پر موجود تھے۔ یعنی ارواحِ انبیاء کی امامت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسدِ مبارک کے ساتھ کروا رہے ہیں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ امام، مقتدیوں سے اعلیٰ و ارفع ہوتا ہے۔ امامت ارفعیت و افضلیت سے ہوتی ہے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت جسمِ مبارک کے ساتھ کروا رہے ہیں اور مقتدی انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح ہیں تو اس سے یہ نکتہ میں نے بتوفیقِ الہٰی اخذ کیا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم بھی انبیاء علیہم السلام کی ارواح سے افضل، اعلیٰ، زیادہ منور اور لطیف ہے۔ اس لیے انبیاء علیہم السلام کی مقدس ارواح مقتدی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسمِ اقدس کے ساتھ امام ہیں۔ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ بشری کو اتنی نورانیت دی ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح کے نور سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
یاد رکھ لیں! روح مادی شے نہیں بلکہ نور ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ارواح نوروں سے افضل نور یعنی نور علی نور ہوتی ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح جو اعلیٰ درجہ کا نور ہیں، اُن کی امامت آقا علیہ السلام کا پیکرِ بشری کروائے تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت بھی انبیاء علیہم السلام کی نورانیت سے اعلیٰ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مبارک کو اتنی لطافت و نورانیت حاصل ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس ارواح بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لیے آقا علیہ السلام اس قابل ہوئے کہ جسدِ مبارک کے ساتھ اُن کی مقدس ارواح کو امامت کروارہے ہیں۔
مزید یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کروانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ بھی ہے کہ اولین و آخرین تمام انبیاء و رسل علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و امامت میں نماز پڑھیں۔
انبیاء کرام کی امامت کروانے کے امر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس اور پیکرِ بشریت کی ہئیت و حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔ وہ جسمِ اقدس جو انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح سے بھی بلند ہے، اس پیکرِ بشری کا اپنا حال کیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن و سنت کی نصوص، تشریحات، تاویلات، سلف صالحین، ائمہ، اولیاء اور اکابر علماء کی تصریحات سے جو کچھ میں نے اخذ کیا، اس سے میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں۔ اس نتیجہ کو بیان کرنے سے قبل یہ سن لیں کہ یہ بات میں نے کہیں پڑھی نہیں، پڑھی ہوتی تو میں اُن ائمہ کو نقل کرتا کہ انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے۔ اس لیے اس نتیجہ کو اخذ کرنے میں اگر کوئی غلطی ہے تو اُسے میری طرف ہی منسوب کریں اور اگر اس میں صحت و اچھائی ہے تو اُن اکابر ائمہ و اولیاء کی طرف منسوب کریں جن سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور جن کو ہم پڑھتے اور خیرات لیتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس بشریت اور نورانیت دونوں کا مرقع تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس فقط بشری پیکر نہیں تھا بلکہ بشری پیکر کے ساتھ ساتھ مرقع نور بھی تھا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کے بشری خواص بھی تھے اور جسمِ اقدس کے نورانی خواص بھی تھے۔ مثلاً:
اس طرح کی بیسیوں مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور فضائل میں موجود ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس بشریت اور نورانیت کا مرقع تھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد شانیں ہیں، ان شانوں میں بشریت، نورانیت اور حقانیت کی شانیں بھی ہیں۔ بشریت کی شان جسمِ اطہر سے متعلق ہے۔۔۔ نورانیت کی شان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے متعلق ہے۔۔۔ اور حقانیت و مظہریت کی شان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت سے متعلق ہے۔ یہ موضوع الگ ہے، اس حوالے سے میرے بیسیوں خطابات ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان شانوںکا بیان الگ بات ہے اور جو بات اب کہہ رہا ہوں، وہ الگ اور نئی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو شانیں بشریت اور نورانیت دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس میں جمع تھیں۔ سوچیے کہ اگر بشریت اور نورانیت کی شانیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کے مقام کا عالم کیا ہوگا؟
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام سفرِ معراج جسمِ اقدس کے ساتھ ہوا مگر سفر کے تینوں مراحل میں ہر ایک مرحلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ایک ایک حصے کے لیے خاص تھا کہ اس مرحلہ میں اس حصے کو معراج پر پہنچایا جائے:
انسانی جسم جب روحانی معراج کی طرف جاتا ہے تو کم کھاتا، کم سوتا، کم بولتا ہے، جسم میں لطافت و پاکیزگی آنے لگتی ہے، جسم کے شہوانی حصے کمزور اور مغلوب ہونے لگتے ہیں، الغرض جسم کی جملہ طلب و ضروریات میں کمی آنے لگتی ہے اور جسم اُن سے بے نیاز ہونے لگتا ہے۔ جب جسم جملہ قسم کی طلب و ضروریات کی محتاجی سے نکلنے لگے تو سمجھیں کہ جسم اپنے روحانی معراج کی طرف جارہا ہے۔
اسی طرح قلب کے اچھے برے خواص ہیں دل اگر برے خواص سے نکلنے لگے اور توکل، یقین، محبتِ الہٰی کی طرف جانے لگے تو جان لیں کہ اسی انسانی زندگی میں اس کے دل کا سفرِ معراج شروع ہوگیا ہے۔
اسی طرح روح جو عالمِ جبروت سے متعلق ہے، اس کی خوراک اللہ کی قربت و معرفت ہے۔ جب روح میں اللہ تعالیٰ کی معرفت و قربت بڑھنے لگے تو سمجھ لیں کہ روح معراج کی طرف جارہی ہے۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ جیسے جیسے مراحلِ معراج بدلتے گئے، ویسے ویسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت و ذات مبارکہ کے ہر ہر گوشے کے معراج اپنے کمال کو پہنچتے گئے۔
اس معراج میں جب قاب قوسین او ادنٰی کا مقام آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی معیتِ خاصہ میں جا پہنچے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معیتِ خاصہ کی ہیئت و شکل کیا ہوگی؟
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ہر ایک بندے کے قریب ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ.
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔
(ق: 16)
اللہ تعالیٰ تو ایک عام انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو اپنے محبوبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی قربت کا عالم کیا ہوگا؟ وہ رب جو ہر وقت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتا ہے، غارِ ثور میں بھی تھے تو قرآن مجید میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے خود فرمایا تھا:
اِنَّ اللهَ مَعَنَا.
’’بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
(التوبة، 9: 40)
جب اللہ ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی جدا ہوا ہی نہیں، وہ تو اپنے بندگانِ مومنین سے جدا نہیں ہوتا تو اپنے انبیاء و مرسلین سے جدا کیسے ہوگا؟ جب اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے قریب تھا تو وہ کون سی قربت تھی کہ جس کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں گئے۔۔۔؟ اگر ’’وہاں‘‘ بھی یہی قربت تھی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین پر میسر تھی تو یہ قربت لینے کے لیے قاب قوسین پر جانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اگر ’’وہاں‘‘ کی قربت کا معنی ’’یہاں‘‘ کی قربت سے الگ نہیں ہے تو پھر سفرِ معراج بیکار و بے معنی ہوجاتا ہے۔
حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو زمین پر موجود اپنے ذاکرین کا ہم مجلس و ہم نشین ہوتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس کی ہم نشینی کا عالم کیا ہوگا۔۔۔ وہ رب جو ’’یہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم نشین ہے تو ’’وہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سی ہم نشینی لینے گئے۔۔۔؟ جو ’’یہاں‘‘ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتا اور دیکھتا ہے، ’’وہاں‘‘ کون سی چیز سننے اور دیکھنے کے لیے گئے؟
اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے، اس کی قربت و ہم نشینی، ہم مجلسی، مددو نصرت اور معیت معنوی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی قربتِ معنوی اور عنایات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ’’یہاں‘‘ ہیں، اگر معراج کے موقع پر بھی ہونے والی عنایات اور قربت سے مراد یہی لینا ہے تو پھر جبریل امین کو بھیج کر بالخصوص ’’وہاں‘‘ کیوں بلایا گیا؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟
پس یہ ماننا ہوگا اور اس کو مانے بغیر چارہ ہی نہیں ہے کہ کوئی وہ اچھوتی، انوکھی، نرالی اور منفرد قربت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قاب قوسین او ادنٰی تک لے گیا۔ اگر اُس کی قربت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’وہاں‘‘ گئے تو وہ قربت ’’یہاں‘‘ کی قربت سے جدا تھی۔۔۔ اگر ہم نشینی کے لیے گئے تو ’’وہ‘‘ ہم نشینی، اس دنیا کی ہم نشینی سے جدا تھی۔۔۔ اگر دیدار کے لیے گئے تو وہ دیدار اس دنیا کی قلبی رؤیت سے جدا تھا۔۔۔ اگر اس کے ساتھ، اس کے سامنے بیٹھ کر ہم کلام ہونے گئے تو وہ کلام تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز اس دنیا میں بھی قرآن کی تلاوت کی صورت میں کرتے تھے، اس لیے ’’وہ‘‘ ہم کلامی اس دنیا کی ہم کلامی سے جدا تھی۔
اگر ’’یہاں‘‘ اور ’’وہاں‘‘ کو ایک جیسا بنادینا ہے تو معراج بے مقصد ہوجاتی ہے۔ لہذا سب کچھ جو ’’وہاں‘‘ ملا، وہ ’’یہاں‘‘ کے حصے میں نہیں تھا۔ اگر سب کچھ وہی ہوتا جو معنوی عنایات کی صورت میں اس دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملتا تھا، تو پھر معراج کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اس کو تحصیلِ حاصل کہتے ہیں، لہذا معراج پر خاص عنایات دینا مقصود تھا، اسی لیے وہاں بلایا گیا۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’وہاں‘‘ بلاکر جن مقامات، حال اور عطائوں سے نوازنا تھا، اگر وہ سب کچھ ’’یہاں‘‘ ہوتا تو ’’وہاں‘‘ بلایا نہ جاتا۔ سو وہ ’’یہاں‘‘ نہ تھا، اس لیے ’’وہاں‘‘ بلایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ’’وہاں‘‘ سے پلٹے اور ’’یہاں‘‘ آئے تو ہمارے لیے یہ ساری کائنات ’’یہاں‘‘ رہی مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے یہ ’’یہاں‘‘ بھی ’’وہاں‘‘ بن گیا۔ معراج پر جانے سے پہلے یہ ’’یہاں‘‘ تھا اور قاب قوسین ’’وہاں‘‘ تھا لیکن جب پلٹ کر آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر جاتے ’’وہاں‘‘ ساتھ رہتا۔ واپس آنے کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال یہ ہوگیا تھا کہ جہاں رہتے پھر وہ ’’یہاں‘‘ نہ رہتے بلکہ ’’وہاں‘‘ ان کے ساتھ رہتا اور پھر تادمِ وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ’’وہاں‘‘ کے ساتھ رہے۔
اللہ رب العزت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کے تصدق سے ہمیں بھی ’’وہاں‘‘ کا حصہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved