ڈاکٹر نعیم انور نعمانی
اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی قرآن حکیم ہے۔ قرآن مجید اللہ کی وحدانیت و توحید کی شہادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی زندہ گواہی ہے اور اسلام کی حقانیت اور صداقت پر حجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذمہ داریوں کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ.
’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘۔
(النحل، 16: 44)
لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ کے کلمات نے رسول اللہ کی شان، اول مفسرِ قرآن ہونے کو بیان کیا ہے اور مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ کے کلمات نے تاریخِ تفسیر و مفسرین کو بیان کردیا ہے۔ بلاشبہ قرآن کی تفسیر کی سعادت ایک عظیم نعمت ہے، اس کے لیے انتخاب اللہ کی بارگاہ سے عظیم عطیہ ہے۔
عصرِ حاضر میں علمِ تفسیر میں بڑے بڑے جلیل القدر نام ہمارے سامنے آتے ہیں، ان ہی میں سے اس دور میں علمِ تفسیر میں امت کے افق پر ایک بہت بڑا، مستند اور معتبر نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے۔ اس نام کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ علم و تحقیق کے باب میں یہ نام بذاتِ خود اس دور میں ایک حوالہ بن چکا ہے۔ اپنے اور پرائے سب جانتے ہیں کہ ان کاکوئی قول بغیر دلیل تحریر و تقریر اور خلافِ حقیقت اور کوئی تحریر بغیر ثبوت کے نہیں ہے۔
حفاظتِ قرآن کے آثار میں سے یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ اولین کے علوم کو آخرین کے وجودوں میں جاری کرتا رہتا ہے۔ پہلے لوگوں کی اچھائیوں کا کسی کو وارث بناتا ہے، اسلاف کی ثقاہت کو بعد والوں میں کسی کی زبان کی حقیقت بنادیتا ہے، پہلے لوگوں کی قلم کے کمالات کو کسی بعد والے کے قلم میں بھی جاری کردیتا ہے، پہلے مفسرین پر عطا کے رنگ کو بعد والوں پر بھی ایک بارش کی طرح برسادیتا ہے، زمانوں کا تقدم و تاخر ہمارے لیے ہے مگر اس کی شانِ تخلیق اور شانِ عطا تو سارے زمانوں کے لیے یکساں ہے۔
اس تناظر میں جب ہم شیخ الاسلام کی شخصیت کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی ذات میں ہمیں اسلاف مفسرین کی صفات کی جھلک نظر آتی ہے۔
شیخ الاسلام نے بھی اپنی تمام تر تصانیف و تالیفات اور خطابات و محاضرات کو بدعات سے مبرّا رکھا ہے اور جہاں جہاں مذہبی و مسلکی کشمکش کی بنا پر اسلام کی مسلّمہ اقدار پر بدعات اور شرک کے تصورات کو چسپاں کردیا گیا تھا، آپ نے اس سلسلے میں ان ہی موضوعات پر الگ الگ تصانیف لکھ کر امت کے سوادِ اعظم کے بارے میں پائے جانے والے عوامی و گروہی اور مسلکی مخالفت کی بنا پر جاری کردہ فتاویٰ کا ردّ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ امت کا کوئی بھی طبقہ کبھی دانستہ اور نادانستہ نہ ارتکابِ شرک کرسکتا ہے اور نہ ہی بدعتِ سیئہ کو اپنا سکتا ہے۔ اس بنا پر امت کے کسی بھی طبقے کو کافر و مشرک قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی بلا ثبوت اور محض مسلکی مخالفت کی بنا پر کسی کو بدعتی قرار دیا جائے۔
امام بغوی آیاتِ قرآنیہ کی توضیح احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے کرتے ہیں امورِ دین کا انحصار اور مدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی احادیث پر رکھتے ہیں اور احادیث کو معتبر ائمہ کی کتب سے اخذ کرتے ہیں، منکر اور ضعیف احادیث سے احتراز کرتے ہیں۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 262)
امام بغوی کے اس وصف سے بھی شیخ الاسلام کو نسبت اور تعلق ہے۔ آپ کے نزدیک بھی قرآنِ مجید کی سب سے بڑی تفسیر خود قرآن ہی ہے۔ قرآن کے بعد اس کی اعلیٰ اور ارفع ترین تفسیر حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں جتنا کام آپ نے احادیث کا کیا ہے اگر اس سارے کو سامنے رکھا جائے تو اپنے کام کے معیار اور تدوین کے اعتبار سے بخاریٔ عصر کے لقب کے آپ ہی مستحقِ اول نظر آتے ہیں۔ تاریخِ احادیث میں ایک منفرد کام آپ نے عصرِ حاضر میں کیا ہے۔ اس کی عملی مثال یہ ہے کہ آپ احادیث کے 150 کے قریب متعدد مجموعہ جات اور اربعینات کو تخریج و تحقیق کے ساتھ منصہ شہود پر لائے ہیں۔
آپ کو المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز کے مصنف و مفسرِ قرآن قاضی ابوالحمد عبدالحق بن غالب بن عطیہ اندلسی سے بھی اشتراکِ صفات کی نسبت حاصل ہے۔ قاضی ابوالحمد کے دادا عطیہ بہت بڑے عالم اور فاضل شخصیت تھے اور خود امام ابن عطیہ بھی امام، حافظ الحدیث اور جلیل القدر عالم تھے۔ ابنِ عطیہ کو ذہانت و فطانت اور حسنِ فہم میں عدیم النظیر کمالات حاصل تھے۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 266)
یہی نسبت اور مشابہت شیخ الاسلام کو بھی اپنی ذات اور اپنے والدِ گرامی الشیخ فریدالدین قادریؒ کے اعتبار سے حاصل ہے۔ آپ کے والدِ گرامی نے بھی اہلِ عرب و عجم سے سارے علوم حاصل کرکے کسی اور کو پڑھانے کی بجائے سارے زمانے کو پڑھانے کے لیے اپنے لختِ جگر کو پڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ شیخ الاسلام یہ روحانی ذمہ داری ایک ظاہری منصب داری سے بڑھ کر ادا کررہے ہیں۔ ابنِ عطیہ اپنی تفسیر میں جملہ تفاسیرِ قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے ان کا ملخص یعنی نچوڑ پیش کرتے ہیں اور اس میں ثقہ مواد کو ہی ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے اپنی تفسیر میں کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ یہی چیز تفسیر منہاج القرآن میں بھی نظر آتی ہے جو کہ اسلاف کی تفاسیر کی آئینہ دار بھی ہے اور اس کی ہر بات زمانے کی ثقاہت اور اہل علم کے معیارِ صحت پر پوری اترتی ہے۔
اسی طرح تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر) کے ساتھ بھی بعض صفات میں اشتراک ہے۔ جیسا کہ ابنِ کثیر کو دوسری تفاسیر سے اس اعتبار سے سبقت حاصل ہے کہ یہ تفسیر القرآن بالقرآن کے اعتبار سے سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ آیات کے باہم مقارنہ کے ساتھ آیات کے مطالب کھل کر واضح ہوجاتے ہیں۔ تفسیر منہاج القرآن میں بھی اسی اسلوب کو ترجیح دی گئی ہے۔ آیاتِ احکام میں ابن کثیر مختلف مسالک اور مذاہب کے اقوال نقل کرتے ہیں مگر ان سب کے باوجود حدِ اعتدال کو نظر انداز نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے تجاوز کرتے ہیں۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 269)
تفسیر منہاج القرآن میں بھی شیخ الاسلام کا یہی اسلوب احکامِ شرعیہ اور مسائلِ فروعیہ کے باب میں ہے۔ دلائل و براہین کے ساتھ کسی بھی مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے حدِ اعتدال کو ہرگز نہیں چھوڑتے۔
اسی طرح آپ کو الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن کے مصنف امام ثعالبیؒ کے ساتھ بھی صفاتِ تفسیر میں مشارکت حاصل ہے۔ امام ثعالبیؒ کا امتیازی وصف یہ تھا کہ آپ جب بولتے تو اہلِ زمانہ اور اہلِ علم آپ کی بات پر خاموش ہوجاتے تھے اور حق کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے موقف کو مان لیتے تھے۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 274)
اس خوبی سے باری تعالیٰ نے شیخ الاسلام کو بھی خوب نوازا ہے۔ اہلِ علم کا اجتماع ہو یا اہلِ سیاست کا اکٹھ ہو، آپ نے جب بھی بولا ہے تو سارے زمانے نے پھر آپ ہی کو سنا اور آپ کے بول کو ہی بولا اور تسلیم کیا ہے۔ علم کی دنیا میں دلیل کے ساتھ آپ کو کوئی جھکا نہ سکا۔ ایک ہی مسئلے پر آپ نے دلائل کے انبار لگادیئے ہیں۔ یہی عظمت آپ کے بقول آپ کے شیخ قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علائوالدین القادری الگیلانیؒ کو باری تعالیٰ نے بے حد درجہ عطا کی تھی اور یہی کمال آپ کے والدِ گرامی شیخ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی ذاتِ اقدس میں بھی پایا جاتا تھا۔ علم کے باب میں علمی برتری دلیل کی ہوتی ہے اور یہی دلیل عقل کو فتح کرتی ہے۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 277)
اگر ہم امام جلال الدین سیوطی کو شیخ الاسلام کی ذات میں تلاش کریں تو ان کے کچھ آثار و صفات آپ کی ذات میں جھلکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ امام سیوطی پانچ سو سے زائد کتب کے مصنف اور مؤلف تھے۔ آپ کی یہ کتب شرق تا غرب آپ کی زندگی میں ہی پھیل گئی تھیں اور عوام الناس میں آپ کی کتب کو بے پناہ شرف و قبولیت میسر آئی۔ امام جلال الدین سیوطی سرعتِ تحریر و تصنیف میں بھی عدیم النظیر تھے۔ آپ کے شاگرد علامہ دائودی بیان کرتے ہیں کہ میرا چشم دید واقعہ ہے کہ استادِ گرامی ایک دن میں تین بڑے اجزاء بآسانی رقم کردیتے تھے۔
امام جلال الدین سیوطی کی یہ صفاتِ منفردہ عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کی ذات میں اس طرح موجزن ہیں کہ آپ تصنیف وتالیف کی دنیا میں ایک ہزار کتب کے مصنف و مؤلف بن چکے ہیں۔ جس میں سے 596 کتب زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں اور ہر سال تیزی سے نئی کتب آرہی ہیں۔ یہ کتب ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ان کی زندگی میں ہی شرق تا غرب پھیل چکی ہیں۔ لوگوں میں ان کتب کی بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی پر شہادت ان کے ایڈیشن در ایڈیشن تیزی سے آنا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال قرآنی انسائیکلو پیڈیا ہے جس کی مانگ اس قدر ہے کہ اس کی ہر اشاعت کی ایڈوانس بکنگ ہوچکی ہوتی ہے، ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہورہے ہیں مگر مانگ پھر بھی پوری نہیں ہورہی۔ جہاں تک آپ کی تحریر میں سرعتِ رفتار کی خوبی کا تعلق ہے تو آپ کے ایک تلمیذ ہونے کی بنا پر اس خوبی کے بھی بے شمار مظاہر کا مشاہدہ کرچکا ہوں، کئی کتابیں آپ نے اپنے ہوائی سفروں میں مکمل کی ہیں، کئی صرف چند دنوں میں مکمل کی ہیں۔ جب آپ تصنیف و تالیف کے لیے پاکستان سے کینیڈا تشریف لے گئے تاکہ یکسوئی سے تصنیف و تالیف کا کام مکمل کرسکیں توسب سے پہلے آپ نے عرفان القرآن کے آخری چند پاروں کا ترجمہ مکمل کیا اور تقریباً 5 دنوں میں آپ ایک پارے کا ترجمہ مکمل کرتے تھے۔
شیخ الاسلام اپنی بات بیان کرنے اور سمجھانے میں امام فخرالدین رازی کے ساتھ مشابہت کی نسبت رکھتے ہیں۔ امام فخرالدین رازی اپنے زمانے کے بہترین مقرر اور واعظ تھے۔ عربی اور فارسی زبان کے خطیب بے مثل تھے۔ ان کا وعظ سامعین پر وجد کی کیفیت طاری کردیتا۔ آپ نے متعدد اور لازوال تصانیف چھوڑی ہیں۔
(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 314)
ان صفاتِ مذکورہ کو جب ہم شیخ الاسلام کی ذات میں دیکھتے ہیں تو آپ اپنے زمانے کے ہر میدان میں خطیبِ بے مثال نظر آتے ہیں، عربی، انگریزی اور اردو میں ان کے خطابات زمانے سے اپنی بے پناہ پذیرائی اور مقبولیت کی مہر تصدیق ثبت کراچکے ہیں۔ عربی زبان کے مرکز جامعۃ الازہر میں آپ عربی شیوخ و اساتذہ کو اپنی عربی دانی اور علم و تحقیق کے ذریعے متاثر کرچکے ہیں۔ جبکہ انگریزی زبان میں اظہارِ خیال کے حوالے سے یورپی ممالک کے ایوانِ علم اس پر گواہ و شاہد ہیں اور اردو زبان میں فنِ خطابت کے کمالات پر برصغیر کا سارا خطہ آپ کا معترف ہے۔
امام بیضاوی بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم، زاہد اور مناظر تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب تفسیرِ بیضاوی میں تفسیر اور تاویل دونوں کو جمع کیا ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش بڑا دلکش اور جاذبِ نظر ہے۔ اس میں بعض عبارات نہایت دقیق اور عمیق ہیں، آپ کی تفسیر آبِ زر سے تابندہ و درخشندہ ہوگئی ہے اور نصف النہار کی طرح معروف و مشہور ہوگئی ہے۔ آپ نے جمیع علوم و فنون میں شہسواری کے جوہر دکھائے ہیں۔
(تفسیر ومفسرین، ص: 323)
شیخ الاسلام اپنی ذات میں امام بیضاوی کی صفات کو بھی مرتکز کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کی تحریرات اور بیانات میں سلاست اور روانی کا پہلو آپ کو مقررین و مصنفین کی صف میں امتیازی مقام عطا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بھی اپنے زمانے میں بحرالعلوم کی صفت سے نوازا ہے اور آپ نے بھی اپنی تحریر و تقریر میں جملہ علوم میں شہسواری کی ہے، جس پر آپ کی تصانیف اور لیکچرز گواہ و شاہد ہیں۔
شیخ الاسلام کو اپنی طبیعت میں لطافت اور خوش مزاجی میں امام خازن کے ساتھ بھی نسبتِ اشتراک حاصل ہے۔ اسی طرح ابوحیان اندلسی کے ساتھ اشتراکِ صفات کی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ ابوحیان اندلسی ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے، روایات سننے اور سنانے میں مشغول دکھائی دیتے، ان کی تصانیف ان کی زندگی میں ہر سو پھیل گئی تھیں۔
یہی عادت اور عمل شیخ الاسلام میں بدرجہ کمال پایا جاتا ہے۔ آپ اپنی بیماری اور تکلیف میں بھی اپنے مطالعہ اور تحریر و تصنیف میں مصروف رہتے ہیں، اس عمل سے ناغہ اور لاتعلقی مصروفیات کی کثرت کی بنا پر بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگر ہم صاحبِ روح المعانی علامہ آلوسی کی ذات کو دیکھیں تو وہ اپنے عصر اور عہد میں منقولات اور معقولات کے جامع تھے۔ آپ پر ہر وقت یہ دھن سوار رہتی تھی کہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہیں۔ تیرہ سال کی عمر میں ہی تدریس و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ بہت سے لوگ آپ سے مستفید ہونے لگے، دور و نزدیک سے بے شمار طلبہ آنے لگے۔ نثر نویسی اور قوتِ تحریر میں آپ منفرد تھے۔ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن نے میری سپرد کردہ امانت میں کبھی خیانت نہیں کی اور میں نے اپنی قوتِ تفکر و تدبر کو جب بھی بلایا ہے تو اس نے میری ہر مشکل کی عقدہ کشائی کی ہے۔ علم و فضل کی کثرت کی بنا پر ان میں اعتدال و توازن پایا جاتا تھا۔
علامہ آلوسی کی صفات سے شیخ الاسلام کی شخصیت نے بھی اکتساب کیا ہے۔ آپ کو باری تعالیٰ نے جامع المنقولات اور معقولات بنایا ہے۔ ان دونوں صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے آپ نے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف اہلِ زمانہ سے کرایا ہے۔ آپ کی تحریری سرگرمیاں آپ کے کیریئر کے آغاز سے ہی نظر آتی ہیں اور اس کے ساتھ تقریری مصروفیات بھی اوائل شباب میں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے اپنے زمانے کے چیلنجز کو اپنے ذہنِ رسا پر پیش کیا تو اس نے بڑے بڑے چیلنجز کا حل اپنی پوری قوت و استعداد کے ساتھ دے کر اہلِ زمانہ کو خاموش کرایا ہے۔ صرف دو واقعات سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے:
ایک قوی چیلنج بلا سود بنکاری کا آیا تو آپ نے قومی معیشت دانوں کو 1991ء میں بلا سود بنکاری کا عبوری خاکہ پیش کرکے مطمئن کردیا، جس کے نتیجے میں آج پاکستان میں بڑے پیمانے پر بلا سود بنکاری کا نظام رائج ہوچکا ہے۔
اسی طرح بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہوا تو آپ نے عالمی سطح پر اس کا حل 2010ء میں دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف مبسوط فتویٰ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ آپ نے اپنے فکرو عمل میں ہمیشہ اعتدال و توازن کا اظہار کیا ہے اور دنیا آپ کو ایک ماڈرن اور معتدل شخصیت کے طور پر جانتی ہے۔
قرآنِ حکیم کی متنوع تفسیری خوبیوں کے تناظر میں جب ہم آپ کی ذات و شخصیت کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے امام جلال الدین سیوطی کی بات آتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسی ہمہ گیر تفسیر تحریر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جو تمام ضروری علوم کی جامع ہوگی۔ اس میں تمام عقلی اقوال، بلاغی نکات، اعراب و لغات اور استنباطات و اشارات ہوں گے۔ وہ تفسیر ایسی جامع ہوگی جو اپنے قارئین کو دیگر تفاسیر سے بالکل بے نیاز کردے گی، اس تفسیر کا نام میں نے مجمع البحرین و مطلع البدرین رکھا ہے اور میری کتاب الاتقان اسی تفسیر کا مقدمہ ہے۔
(الاتقان، ج: 2، ص: 190)
امام جلال الدین سیوطی کا یہ قول ہمیں شیخ الاسلام کی تفسیر منہاج القرآن کی بابت بھی ایسی توقعات سے وابستہ کرتا ہے۔ منہاج القرآن کے رفقاء اور آپ کے چاہنے والے عام مسلمانوں کی یہی آرزو ہے کہ یہ تفسیر تمام تفاسیر سے منفرد اور سب کی جامع ہو۔ اس تفسیر منہاج القرآن کا مقدمہ پڑھ لیں تو الاتقان کی طرح یہ بھی اس تفسیر کی خوبیوں سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ تفسیر منہاج القرآن کے مقدمے کو دیکھیں تو اس میں فقط لفظِ قرآن کی تشریح ہی قرآنِ حکیم کے عظمت و رفعت کے ان گنت پہلوئوں کو ہمارے سامنے اجاگر کرتی ہے۔
شیخ الاسلام کی قلم سے تفسیری کمالات اس مقدمۂ تفسیر میں اس طرح سامنے آتے ہیں کہ انسانی عقل اس کی تحقیقی گہرائی پر حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔
تفسیر منہاج القرآن کا مقدمہ ہمارے سامنے قرآن کی عظمتوں اور رفعتوں کے بے شمار ابواب وا کردیتا ہے۔ ایک باب کے اندر بے شمار ابواب ہمارے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ قدم قدم پر انسان قرآن کی عظمتوں کا اعتراف کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی رفعتوں کو سرتسلیم خم کرکے مانتا چلا جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے بہترین فہم اور حق و باطل کے درمیان امتیاز اور مکمل فرقان کا ذریعہ صرف قرآن ہے۔ عصرِ حاضر میں انسانیت قرآن ہی کے ذریعے خوف و حزن سے نجات پاسکتی ہے اور ہر خوف و حزن سے ماوراء ہوسکتی ہے۔ قرآن کو جس جس رخ سے دیکھیں یہ روشن ہی روشن ہے۔ یہ روشن انسانی زندگی کا لائحہ عمل ہے، یہ روشن راستہ بھی ہے اور روشن منزل بھی ہے۔ اس روشن کتاب کی آیات اپنی تلاوت، اپنے فہم اور ابلاغِ معنی میں جب شیخ الاسلام کی زبان و قلم سے ادا ہوتی ہیں تو بقول اقبال وہ ایسے قاریِ قرآں نظر آتے ہیں کہ:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved