ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
قسط: 1
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 7 تا 9 اکتوبر 2017ء کو منعقدہ سہ روزہ دورئہ علوم الحدیث کی پہلی مجلس کا آغاز قاضی عیاضؒ کی اصول الحدیث میں شہرۂ آفاق کتاب الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ وتقیید السماع کے خطبہ میں سے تبرکاً چند کلمات پڑھ کر کیا۔ خطبہ کے بعد انہوں نے جملہ شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث کی غرض و غایت اور منہج و اسلوب پر روشنی ڈالی۔
شیخ الاسلام نے فرمایا: میں اس سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث میں شرکت کرنے والے علوم الدین بالخصوص علوم الحدیث کے ہزار ہا شیوخ، اساتذہ، علمائ، ائمہ، خطبائ، مبلغین، داعیین اور معلمات و طالبات کو خوش آمدید کہتا ہوں جو پاکستان بھر سے تشریف لائے ہیں۔ اس سہ روزہ علمی دورہ میں آپ نے حصولِ علوم الحدیث کے لیے الرحلۃ العلمیۃ یعنی علمی ہجرت کی ہے اور اس مجالست، مذاکرت اور سماع میں شریک ہو رہے ہیں۔
اللہ رب العزت کی توفیق اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے اس سہ روزہ مذاکرہ و دورئہ علوم الحدیث میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ مصطلحات الحدیث، اقسام الحدیث، احکام الحدیث، کتب الحدیث، علم الجرح والتعدیل، صحیح اور ضعیف حدیث کے مصادر و مراتب اور تخریج کے اصول و ضوابط اور شرائط ذکر کریں گے۔ اس دوران خاص طور پر حدیثِ صحیح، حدیثِ حسن اور حدیثِ ضعیف سے متعلق اُن منتخب ابحاث کو بھی ذکر کریں گے جو عام طور پر مدارس میں درس و تدریس کے دوران زیر بحث نہیں آتیں اور اُن کے بارے میں اشکالات اور ابہامات برقرار رہتے ہیں۔ اسی بناء پر علمی نتائج اخذ کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے اور علمی مغالطے لاحق ہوتے ہیں جس سے اُس کے ثمرات حاصل نہیں ہوپاتے اور علمی سطح پر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ مباحث جو ہمارے نصابات میں شامل ہیں، جامعات و مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں اور اکثر ہمارے مطالعہ میں رہتی ہیں، اس دورہ میں وہ ابحاث ہمارا موضوع نہیں ہوں گی۔ تاہم کسی موضوع کی توضیح، تصریح اور تفصیل کے لیے ان کے بیان کی ضرورت محسوس ہوئی تو اجمالاً ان کا تذکرہ کریں گے۔
اس سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث میں تمام دروس علوم الحدیث کی اُمہات الکتب اور اصل مصادر و مآخذ کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں میری علوم الحدیث پر مرتب کردہ درج ذیل 7 کتب پر مشتمل ہوں گے:
مذکورہ بالا کتب یکے بعد دیگرے چھپ کر منظر عام پر آرہی ہیں۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد شیخ الاسلام نے علوم الحدیث پر اپنے پہلے درس کا آغاز درج ذیل چند بنیادی اصطلاحات کے بیان سے فرمایا:
علم الحدیث یا علوم الحدیث ان دونوں اصطلاحات کے استعمال میں معنوی فرق نہیں ہے۔ ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن ابراہیم السنجاری المصری (المعروف ابن الاکفانی) اپنی کتاب إرشاد القاصد إلی أسنی المقاصد میں بیان کرتے ہیں کہ علم الحدیث کے دو حصے ہیں: ایک حصہ روایت کے ساتھ خاص ہے اور دوسرا حصہ درایت کے ساتھ خاص ہے:
1. عِلْمُ الْحَدِیثِ الْخَاصُّ بِالرِّوَایَةِ: عِلْمٌ یَشْتَمِلُ عَلَی نَقْلِ أَقْوَالِ النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَفْعَالِهِ، وَرِوَایَتِهَا، وَضَبْطِهَا، وَتَحْرِیرِ أَلْفَاظِهَا.
علم الحدیث کا ایک حصہ روایت کے ساتھ خاص ہے۔ یہ علم حضور علیہ السلام کے اقوال، افعال اور تقریرات کو روایت کرنے، اُن کو ضبط کرنے اور اُن کے الفاظ کو متن اور سند کے ساتھ نقل کرنے کے علم پر مشتمل ہے۔
2۔ وَعِلْمُ الْحَدِیثِ الْخَاصُّ بِالدِّرَایَةِ: عِلْمٌ یُعْرَفُ مِنْهُ حَقِیقَةُ الرِّوَایَةِ؛ وَشُرُوطُهَا، وَأَنْوَاعُهَا، وَأَحْکَامُهَا. وَحَالُ الرُّوَاةِ، وَشُرُوطُهُمْ، وَأَصْنَافُ الْمَرْوِیَّاتِ، وَمَا یَتَعَلَّقُ بِهَا.
وہ علم حدیث جو درایت سے متعلق خاص ہے، اس میں روایت کی حقیقت، اُس کی شرائط، اقسام اور اُس سے منتج ہونے والے احکام کو جانا جاتا ہے۔ نیز راویوں کے احوال، اُن کی شرائط، اُن کی مرویات کی اصناف اور اس سے متعلقہ دیگر احکام سے بحث کی جاتی ہے۔
i۔ لغت میں لفظِ حدیث کا ایک اطلاق ’’جدید‘‘ پر ہوتا ہے۔ اس اطلاق کی رُو سے یہ قرآن مجید کے مقابل ہے یعنی قرآن مجید ’’قدیم‘‘ ہے اور حدیث ’’جدید‘‘ ہے۔
امام جلال الدین سیوطی نے تدریب الراوی میں لکھا ہے کہ
مَا یُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَکَأَنَّهُ أُرِیدَ بِهِ مُقَابَلَةُ الْقُرْآنِ لِأَنَّهُ قَدِیمٌ.
(سیوطی، تدریب الراوی)
ii۔ حدیث کا دوسرا لغوی معنی خبر ہے۔ اس معنی کی رُو سے اس کا مطلب ہے کہ جو حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ گویا لفظِ حدیث ضد القدیم بھی ہے اور منقول عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے۔ یہ دونوں معانی اس کے لغوی مفہوم میں شامل ہیں۔
iii۔ قرآن مجید میں بھی لفظِ ’’حدیث‘‘ کا استعمال موجود ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ ﷲ حَدِیْثًا.
’’اور اللہ سے بات میں زیادہ سچا کون ہے۔‘‘
(النسائ، 4: ۸۷)
دوسرے مقام پر لفظ ’’احادیث‘‘ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فَجَعَلْنٰـهُمْ اَحَادِیْثَ.
’’ہم نے انہیں(عِبرت کے) فسانے بنا دیا۔‘‘
(السباء، 34: 19)
حدیث کی اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے:
وهو ما أُضِیفَ إلی رسولِ ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم قولًا أو فعلًا أو تقریرًا.
’’وہ خبر، روایت اور بات جس کی اضافت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف قولاً، فعلاً یا تقریراً کی جائے۔‘‘
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی قول مبارک یا فعل مبارک یا کوئی عمل اور بات جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کو برقرار رکھا، اِن تینوں صورتوںکو حدیث کہا جاتا ہے۔
حدیث کی تعریف میں یہ تین چیزیں (قول، فعل اور تقریر) معروف ہیں لیکن بعض علماء نے حدیث کے اصطلاحی معنی میں اس امر کا اضافہ کیا ہے: ’’اَوْ صِفَۃٌ‘‘ کہ آقا علیہ السلام کی صفت کا بیان بھی حدیث ہی کہلائے گا۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی صفت بیان نہیں فرمائی، تاہم اس صفت کا بیان بھی حدیث ہی ہے۔
فالمراد منه: وصفٌ خِلْقِیٌّ أو خُلُقِیٌّ.
اس صفت سے مراد وصفِ خِلقی بھی ہے اور وصفِ خُلقی بھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خِلقت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ مبارک کا بیان بھی حدیث کہلائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کا ذکر بھی حدیث شمار کیا جائے گا، کیونکہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی روایت ہیں۔
کتبِ حدیث میں ائمہ حدیث نے بیان کیا ہے کہ حدیث کا مضمون ’’ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔ اہلِ علم کے اس کلام میں حدیث کے مضمون کی تعریف میں دو باتیں ہیں:
مگر میں اس پر تعلیقاً کہنا چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں فرق نہیں ہے۔قرآن مجید میں ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ.
’’اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)۔‘‘
(آل عمران، 3: 144)
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور کچھ نہیں ہے مگر سراپا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ حضور علیہ السلام کی ساری ذاتِ اقدس ہی سراپا رسالت ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے جو مروی ہوگا، وہ بحیثیتِ رسول تصور کیا جائے گا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خِلقی اور خُلقی دونوں طرح کے وصف کا بیان بھی حدیث میں شامل ہے۔
کان رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أحسن الناس وجهاً وأحسنهم خَلقاً، لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلحاظِ صورت و اخلاق لوگوں میں سب سے حسین تھے، نہ تو زیادہ دراز قد تھے اور نہ ہی پست قد۔‘‘
(بخاري، الصحیح)، (مسلم، الصحیح)
حضرت براء بن عازبؓ کا یہ فرمان حدیث ہو گئی کیونکہ اس میں وصفِ خِلقی کا ذکر ہے۔
کان أجود الناس وکان أشجع الناس.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑھ کر سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔‘‘
(بخاري، الصحیح)، (مسلم، الصحیح)
یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود و سخا کا بیان ہے۔ وصفِ خُلقی کے بیان کی وجہ سے یہ بھی حدیث ہے۔
حدیث کی تعریف میں بعض اہلِ علم کی طرف سے یہ اضافہ بھی کیا گیا ہے:
وقِیلَ: رُؤْیَا أیضًا، یَعنِی ما یَرَاهُ النبیُّ صلی الله علیه وآله وسلم فی المَنَامِ.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رؤیا (خواب) بھی حدیث ہیں۔ یعنی حضور علیہ السلام کے خواب (dream) کا بیان بھی حدیث ہے۔ یعنی جو حضور علیہ السلام نے خواب دیکھا وہ بھی حدیث ہے۔ اس حوالے سے محدثین نے لکھا ہے کہ:
وہذا لَا یَبقَی رُؤْیَا بَلْ یکونُ حدیثًا لتَحدیْثِهِ بِهِ.
’’پہلے وہ خواب تھا مگر اب وہ خواب نہ رہا کیونکہ حضور علیہ السلام نے اسے بیان فرمادیا۔‘‘
گویا جب اسے بیان فرما دیا تو اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول میں شمار ہوگیا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بیان نہ فرماتے تو کسی کو علم ہی نہ ہوتا کہ آقا علیہ السلام کو کوئی خواب آیا تھا۔ حضور علیہ السلام کا خواب ہمارے علم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کرنے سے آیا، لہذا وہ عن طریق التحدیث بھی حدیث کے مضمون میں شامل ہوگیا۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ پس جس خواب کو وحی کا درجہ حاصل ہے، اُس کو اصطلاحاً حدیث کا درجہ کیوں نہیں حاصل ہو گا۔
وَبَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ الْبَارِحَةَ إِذْ أُتِیتُ بِمَفَاتِیحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ حَتَّی وُضِعَتْ فِی یَدِی.
’’میں نیند میں تھا (یعنی سویا ہوا تھا) کہ مجھے زمین کے خزانوں کی ساری کنجیاں عطاکر دی گئیں یہاں تک کہ انہیں میرے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب التعبیر)
اب کوئی مسلمان سارے زمین کے خزانوں کی کنجیاں حضور علیہ السلام کو عطا کرنے کے حوالے سے یہ کہہ کر شک وارد نہیں کر سکتا کہ یہ خواب ہے، لہذا ایسا نہیں ہوا۔ اس شک کی جڑ ہی اس امر سے ختم ہوکر رہ جاتی ہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہے اور یہ حق ہے۔ آقا علیہ السلام نے خواب میں جو کچھ دیکھا وہ بیان فرمایا۔ یہ اُسی طرح حق ہے جیسے بیداری میں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، وہ وحی اور حق ہوتا ہے۔ بیداری میں ارشاد اور خواب کے بیان میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اس خواب کے بیان میں یہ اضافہ ہے کہ اُس سے قبل من جانب اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ دکھایا اور سنایا گیا، آپ سامع بھی بنے اور ناظر بھی بنے اور پھر ہمارے لئے قائل بھی بنے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَإِذَا أَنَا بِرَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی أَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَبِّ. قَالَ: فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْـمَلَأُ الْأَعْلَی؟ قُلْتُ: لاَ أَدْرِی رَبِّ. قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: فَرَأَیْتُهُ وَضَعَ کَفَّهُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلَّی لِی کُلُّ شَئٍ وَعَرَفْتُ.
’’میں نے اپنے رب تعالیٰ کو انتہائی اچھی صورت میں دیکھا۔ اس نے فرمایا: یا محمد۔ میں نے عرض کیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: عالم بالا کے فرشتے کس بارے میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: باری تعالیٰ مجھے معلوم نہیں۔ یہ بات اللہ نے تین مرتبہ پوچھی اور ہر مرتبہ میں نے یہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے اپنا دستِ قدرت (اپنی شان کے مطابق) میرے شانوں کے درمیان رکھ دیا، یہاں تک کہ دستِ الوہیت کا فیض میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا۔ پس کائنات کی ہر چیز میرے اوپر روشن ہو گئی اور میں نے ہر شے کو پہچان لیا۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فعلمت ما بین السماوات وما في السماوات والأرض.
’’جو کچھ آسمانوں کے درمیان تھا اور جو کچھ زمین اور آسمان میں تھا، میں اُس کو جان گیا۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فعلمت ما بین المشرق والمغرب.
’’میں نے مشرق و مغرب کے درمیان جو کچھ تھا، سب جان لیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے علم کا نور دے کر کائناتِ ارض و سماء یعنی تحت الثریٰ سے عرش معلٰی تک ہر چیز حضور علیہ السلام پر روشن اور واضح کردی۔ یہ ایک طویل حدیثِ مبارک ہے۔ اس حدیث میں متعدد تعلیمات کا بیان ہے اور یہ سب رؤیا (خواب) کے بیان کے ذریعے ہی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا اور فرمایا ہے:
هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
امام ترمذی مزید کہتے ہیں:
سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِیْلَ (أَی البخاری) عَنْ هَذَا الْـحَدِیْثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.
’’میں نے اپنے شیخ امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
نہ صرف آقا علیہ السلام کا خواب بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرکات و سکنات کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، پیتے اور تکلم کیسے فرماتے؟ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ افعال بھی حدیث کا موضوع ہیں کیونکہ اُس سے شریعت تشکیل پاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک لطیف بات کہوں کہ قرآن اصلاً نہیں صدوراً (صادر ہونے میں) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے نکلا ہے، لہذا یہ بھی حضور علیہ السلام کا قول ہے مگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
(النجم، 53: 3۔4)
آیتِ مبارک میں مذکور ’’هُوَ‘‘ ضمیر کے بارے میں ائمہ تفسیر نے دو مرجع بیان کئے ہیں:
امام رازی کی تفسیر کبیر، امام قرطبی کی الجامع لاحکام القرآن سمیت دیگر کتب تفسیر نے اس سے بحث کی گئی ہے۔ آقا علیہ السلام اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے، ’’هُوَ‘‘ کا مرجع نُطق ہے، یعنی جو لفظ حضور علیہ السلام کی زبان سے نکلتا ہے، وہ صرف وحی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے۔ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے صادر ہوا گویا قرآن کے قرآن ہونے پر سند بھی حضور علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے صادر ہوئی کیونکہ اُس کا سماع امت کو براهِ راست جبرائیل امین سے حاصل نہیں ہے بلکہ قرآن کا سماع بھی عن طریق رسول اللہ ہمیں ہوا۔
هُوَ کلام ﷲ تعالیٰ عن طریق فم الرسول صلی الله علیه وآله وسلم.
مراد یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے ہم نے سنا تو جان لیا اور ہمیں معرفت ہو گئی کہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے۔
جب قرآن کے اللہ کا کلام ہونے پر ایمان ہم حضور علیہ السلام کی زبان سے سُن کر لائے تو پھر باقی چیزیں جو قرآن سے نچلے درجے کی ہیں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہوا، وہ وحی الٰہی کیوں نہیں ہوگا؟ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو حرکات و سکنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہوئیں، وہ سب حدیث کے موضوع میں شامل ہیں۔
پس ہم پر حدیث کا ایک وسیع مفہوم واضح ہوگیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول، فعل، تقریر، وصف (خِلقی و خُلقی) اور خواب کو حدیث کہا جاتا ہے اور یہ تمام حدیث کے موضوعات ہیں۔
میں نے وصفِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رئویا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصریح اس لئے کر دی کہ پہلی تین چیزیں (قول، فعل، تقریر) معروف ہیں اور باقی دو چیزوں کا لوگوں کو اتنا علم نہیں ہے جتنا پہلی تین چیزوں کا ہے۔
حدیث کے لغوی و اصطلاحی فہم کے بعد ایک اور اصطلاح ’’سنت‘‘ کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔ سنت اور حدیث کو بعض علماء مختلف معانی دیتے ہیں اور بعض علماء حدیث کے نزدیک یہ دونوں مترادف ہیں۔ اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اصطلاحات باہم مترادف ہیں۔ علمائے اصول ’’سنت‘‘ کا ایک معنی اپنے انداز سے بیان کرتے ہیں۔۔۔ علمائے فقہ اپنے انداز سے معنی لیتے ہیں۔۔۔ محدثین اپنی تعریف بیان کر کے حدیث کے مترادف کہتے ہیں۔۔۔ اور علم الکلام کے ماہرین علم العقائد اور اصول الدین پر ’’سنت‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں۔ اس طرح ’’سنت‘‘ کے الگ الگ اطلاقات ہیں۔ گویا جیسا جس علم کا موضوع ہے، اُس کے مطابق اہلِ علم اس کے قواعد اور اصطلاحات وضع کرتے ہیں۔
علم الحدیث میں ’’اثر اور خبر‘‘ بھی دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں:
مثلاً: امام طحاوی کی کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ ہے۔ اس میں وہ احادیثِ مرفوعہ، مقطوعہ اور موقوفہ بھی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح امام محمد بن حسن شیبانی کی کتاب ’’الآثار‘‘ ہے۔ امام ابن جریر طبری کی کتاب ’’تہذیب الآثار‘‘ ہے۔ اسی طرح حدیث پر بہت سی کتابیں ہیں جن میں ائمہ ’’اثر‘‘ اور ’’آثار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
محدثین کے ہاں جرح و تعدیل کے ذریعے حدیث کے صحیح، حسن یا ضعیف ہونے کا جو حکم لگایا جاتا ہے، اس میں متن بالعموم زیر بحث نہیں آتا، سوائے یہ کہ علم اور فن کی ضروریات میں سے کوئی خاص حاجت اور وجہ پیدا ہو۔ علوم الحدیث میں محدثین کی ساری بحث خواہ اس کا تعلق علم الرجال اور علم الجرح والتعدیل سے ہو یا علم مصطلحات الحدیث سے، وہ صرف سند سے متعلق ہوتی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب سند، اسناد اور متن کی وضاحت کرتے ہیں:
محدث اور امام ’’حَدَّثَنَا‘‘ سے جو روایت شروع کرتا ہے اور صحابی تک یا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اسماء کا ایک پورا تسلسل بیان کرتا ہے، اس کو سند کہتے ہیں۔
الطریق الموصلۃ إلی المتن. أی أسماء رواتہ مُرَتَّبَتاً.
وہ طریق یا زنجیر جو متن تک پہنچادیتی ہے، سند کہلاتی ہے۔ یعنی راویوں کے ناموں کا جو طریق ہے، اُس کو سند کہتے ہیں۔
سند اور اسناد مفہوماً مترادف ہیں۔ محدثین نے سند اور اسناد کے لفظ کو ایک ہی معنی کے طور پر استعمال کیا ہے۔
حکایةُ طریقِ المَتْنِ.
متن کے طریق (یعنی سند) کے بیان کو اسناد کہتے ہیں۔
جس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے باعتبار سند صحیح قرار دیا جارہا ہے نہ کہ باعتبار متن صحیح کہا جارہا ہے۔ اسی طرح جس حدیث کو ’’حسن‘‘ یا ’’ضعیف‘‘ کہا جائے تو اُس کی سند کے اعتبار سے اسے حسن یا حدیثِ ضعیف کہا جائے گا۔ کسی حدیث کے متن کے اعتبار سے اس پر ’’صحیح‘‘، ’’حسن‘‘ یا ’’ضعیف‘‘ کا حکم نہیں لگایا جاتا۔ اسی لئے محدثین کے ہاں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک حدیث اپنی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے مگر متن کے اعتبار سے صحیح ہے۔ اس لئے کہ جب کسی حدیث پر ’’ضعیف‘‘، ’’حسن‘‘ یا ’’صحیح‘‘ کا حکم لگاتے ہیں تو اس کے متن کو دیکھے بغیر فقط سند پر یہ حکم لگاتے ہیں، اس لئے کہ ممکن ہے کہ وہی حدیث کسی دوسرے طریق اور قوی سند سے روایت کی گئی ہو اور اس دوسرے طریق کی وجہ سے وہ صحیح ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہا جائے گا فلاں حدیث اس سند کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے یا یہ حدیث اس اسناد کی وجہ سے ’’حسن‘‘ ہے یا اس اسناد کی وجہ سے ’’صحیح‘‘ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کسی حدیث کے اسناد پر ضعف کا حکم لگانا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اس حدیث کا مضمون اور متن بھی ضعیف ہے۔ لہذا اُس کے دیگر طرق کو بھی دیکھنا ہو گا۔
متن کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ:
هُو أَلفاظُ الحدیثِ التی تَتَقَوَّمُ بِهَا المَعَانِی.
’’متن حدیث کے وہ الفاظ ہیں جن کے ذریعے معانی قائم ہوتے ہیں۔‘‘
(طیبی، الخلاصة) (ابن جماعة، المنهل الروي)
امام سیوطی نے التدریب میں کہا:
هُوَ مَا یَنْتَهِی إِلَیْهِ غَایَةُ السَّنَدِ مِنَ الْکَلَامِ.
’’متن وہ مضمون ہے جہاں سند کی غایت ختم ہوتی ہے اور حضور علیہ السلام کے کلام کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔‘‘
گویا متن وہ مضمون ہے جو ان الفاظ کے بعد شروع ہوتا ہے، مثلاً: عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ عن أنس ابن مالک قال: قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ رأیت النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یفعل ھکذا۔۔۔ سمعت عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یقول۔۔۔
ان بنیادی اصطلاحات کی وضاحت کے بعد اب ہم اقسام الحدیث کا تذکرہ کریں گے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2020ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved