محمد حسن جنجوعہ، ایم فل سکالر
پاکستان میں تعلیم زوال و انحطاط کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ ہمارا فرسودہ نظام تعلیم ہے۔ ہم اگر سکول، کالج اور یونیورسٹی ایجوکیشن کے تعلیمی ثمرات کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں نہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار نظر آتی ہیں اور نہ ہی ان میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی تعبیر کے مطابق ’’عقابی روح‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ مزید یہ کہ نونہالان وطن کی ملک وملت سے نظریاتی وابستگی کی صورت حال بھی خوش کن نہیں ہے۔ ایک طرف یہ دلخراش صورت حال ہے تو دوسری طرف دینی مدارس کا نظام تعلیم بھی مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ میں بھی عربی اور فارسی کتب سے گریز جبکہ اردو کتب، خلاصوں اور گائیڈوں کا افسوسناک رجحان سامنے آرہا ہے جس کی وجہ سے مدارس کے فاضلین میں بھی ماضی کے علماء والی ثقاہت دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ تیز ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جینے والے اکثر وبیشترمذہبی اسکالرز فکری طور پر صدیوں پہلے کے زمانے میں زندگی گزارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض دینی مدارس سے شدت پسندی کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
ایسے حالات میں عالم اسلام کے عظیم اسکالر، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے امت مسلمہ کو ایک ایسا تعلیمی نظام دیا ہے جس میں ایک طرف تو علمی ثقاہت ہے تو دوسری طرف عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ نصاب دینی اور عصری تعلیم کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں طلبہ وطالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت اور فکری بصیرت میں وسعت کی بھی ضمانت موجود ہے۔ آپ کا دیا ہوا نظام تعلیم فقط نظریات تک محدود نہیں بلکہ تیس سالوں سے عملی طور پر طلبہ وطالبات کو تعلیم، اخلاق اور بصیرت سے آراستہ کر رہا ہے۔
میں یہ بات عملی تجربے سے گزرنے کے بعد کہہ رہاہوں۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ میٹرک کے بعد میرے دل میں حفظِ قرآن کا شوق پیدا ہوا مگر میرے اہل خانہ نے میری ایک نہ مانی کیونکہ ہمارے عزیزوں میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ز کی ایک بڑی تعدادموجود تھی، خود میرے تین بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔ لہٰذا گھر والوں کے دبائو پر میں نے "لیہ کالج آف سائنس میں ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
ایف ایس سی کے بعد میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ میں دینی تعلیم حاصل کروں اور عصری تعلیم بھی جاری رکھوں تاکہ میں پہلے خود اسلام کا اصلی اور صاف و شفاف چہرہ دیکھوں اور پھر لوگوں کے سامنے بھی اسلام کے حوالے سے ایک صحیح تصور پیش کروں، لیکن جب میں نے اپنے اہل خانہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو وہ سب یک دم بپھر گئے جیسے مجھ سے کوئی بہت بڑا جرم سر زد ہوگیا ہو۔ انہوں نے کہا: اگر آگے تعلیم جاری رکھنی ہے تو ڈاکٹر بنو۔ میرے دوست اور فیملی کے دوسرے لوگ بھی مجھ سے ناراض ہوکر دینی تعلیم کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھانے لگے، جن میں وقتی طور پرمیں خودبھی الجھ کر رہ گیا، لیکن میںاللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے مطالبے پر ڈٹا رہا۔ اپنے والد گرامی کے دوستوں اور اپنے اساتذہء کرام سے بھی مشورہ کیا جن میں سے کچھ نے میرے مطالبے کی حمایت کی لیکن کچھ نے مجھے دینی تعلیم کے بجائے فقط عصری تعلیم جاری رکھنے کے لیے کہا۔
اس دوران میں پاکستان میں موجود دینی مدارس کو چیک کرنے کے لیے بھی جانے لگا۔ سب سے پہلے میں لاہور کے ایک دینی مدرسہ میں گیا، وہاں کے طلباء اور اساتذہ سے ملا، لیکن چونکہ میں ایک اچھے کالج کا طالبعلم رہ چکا تھا اس لیے مجھے وہاں کا ماحول اچھانہیں لگا۔ علاوہ ازیں مجھے وہاں پر اسلام کو جدید نظروفکر سے دیکھنے والے لوگ بھی کم ہی نظر آئے، پھر دیگر چند مدارس میں بھی گیا لیکن مجھے وہاں بھی اپنی دلی مراد نہ ملی۔
میں نے اپنے لیے دینی درسگاہ کی تلاش کے دوران مختلف اسلامی سکالرز کو بھی سننا شروع کیا۔ میں ان کے آڈیو، ویڈیو خطابات سننے لگا۔ مختلف سکالرز کو سنتے ہوئے جب میں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری صاحب کے خطابات سنے تو مجھے یوں لگا کہ مجھے میری منزل مل گئی ہے۔ میں نے انگریزی میں اسلام اور سائنس پر آپ کے لیکچرز سنے۔ پھر عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتحادِ ملت اور اسلامی مسائل کا جدید تقاضوں کے مطابق حل اور ایسے ہی دیگر بہت سے موضوعات پر میں نے آپ کے تقریباََ ایک سو خطابات سنے۔ بعد ازاں شیخ الاسلام کی انقلابی فکر اور کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے دینی و عصری تعلیم پر محیط نصابِ تعلیم سے متاثر ہوکر کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔
کالج آف شریعہ کے ماحول کو میں نے اپنی سوچ سے بھی کہیں بڑھ کر بہتر پایا۔ یہاں کے لوگوں میں اخلاص، محبت، پیار، شفقت، اخلاق اور ایسے روحانی اوصاف ہیں جو مجھے کسی اور ادارے میں نظر نہیں آئے تھے۔ یہ کالج تحریک منہاج القرآن کے عظیم تعلیمی منصوبے کا حصہ ہے جس کی بنیاد 18 ستمبر 1986ء کو علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے مرکز لاہور میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی صورت میں رکھی گئی۔ بعد ازاں کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے نام سے اس ادارے کا لاہو بورڈ سے الحاق ہوا اور اب یہ کالج منہاج یونیورسٹی لاہور (Chartered by Govt of Punjab Act XII of 2000) کا اولین کالج ہے۔ اس کالج میں علوم شریعہ اور عصریہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ امتیازی نظم و نسق اور اخلاقی و روحانی تربیت کا منفرد اہتمام کیا جاتا ہے۔
نوجوان نسل کی قرآن و حدیث، فقہ اور دیگر علوم شریعہ کے تحقیقی مطالعہ کے ذریعے دور حاضر کے مسائل اور تقاضوں کے مطابق تربیت کی جاتی ہے۔ نسل نو کی علمی و عملی، فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی تربیت کا اہتمام کرنا اس کالج کا طرہ امتیاز ہے۔ یہاں طلبہ کو تنگ نظری، تعصب، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کی محدود سوچ سے بالا تر کر کے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ امت کے عالم گیر اتحاد کے لیے اہم کردار ادا کر سکیں۔ یہاں طلبہ کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کیا جاتا ہے تاکہ وہ جدید پڑھے لکھے نوجوان ذہن کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کر سکیں اور کسی بھی شعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
کالج ہذا میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ان طلبہ کو احکام شریعت کی پابندی، نماز پنجگانہ، نماز تہجد، محافل ذکر و نعت، ہمہ وقت باوضو رہنے اور اپنے خیالات و افکار کو پاکیزہ رکھنے کی ترغیب، ہر ماہ ایام بیض کے روزوں کا اہتمام، ماہانہ شب بیداری اور سالانہ اجتماعی اعتکاف میں شرکت کرواکر اِن کی روحانی و اخلاقی تربیت کا سامان بہم پہنچایا جاتا ہے۔
یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو کبھی کبھی میں اپنے تصور میں لاتا تھا، یہ ساری چیزیں میرے خوابوں کا حصہ تھیں جنہیں کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز نے عملی جا مہ پہنا دیا اور اس طرح مجھے میرے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علامہ محمد اقبال اپنے عہد میں ایک طرف لارڈ میکالے کا دیا ہوا نظام تعلیم دیکھ کر غمگین ہوتے تھے تو دوسری طر ف اپنے عہد سے کٹے ہوئے دینی تعلیم کے نظام کو دیکھ کر افسردہ ہوجاتے۔ انہوں نے درج ذیل کلمات میں اپنے عہد کے حالات کا تجزیہ کیا:
’’اسلام کے لیے اس ملک میں نازک زمانہ آرہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میں کریں۔ علماء میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے بھی ڈرتا ہے۔ صوفیاء اسلام سے بے پرواہ اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یا فتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے، مگر ان کا کوئی بے غرض رہنما نہیں ہے۔‘‘
اقبال نے دینی اور عصری تعلیم کو یکجا کرنے کی ایک کوشش بھی کی تھی جوکامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رود میں لکھتے ہیں:
’’اسلامی علوم کے احیاء اور تعلیمات کی وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق تعبیر کے سلسلے میں اقبال کی بہت سی تمناؤں میں سے ایک تمنا یہ بھی تھی کہ کسی مسلم یونیورسٹی کے اندر یا کسی پر سکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں بہترین دل و دماغ کے مسلم نوجوان خالص اسلامی ماحول میں ریاضیات، طبیعیات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کر کے علوم جدیدہ کا علوم قدیمہ سے تعلق دریافت کر سکیں اور یوں نہ صرف ان میں جدید مذہبی، سیاسی، اقتصادی، قانونی، علمی و سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدار کر دیا جائے بلکہ ان میں مسلمانان عالم کی ہر شعبے میں صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی پیدا ہوجائے گی۔ اس خواہش کا اظہار اقبال نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبۂ علوم اسلامیہ کی تشکیل کے زمانے میں کیا تھا اور اپنا ایک منصوبہ بھی نوٹ کی صورت میں تحریر کر کے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی خدمت میں بھیجا تھا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہوا۔ ‘‘
علامہ اقبال اس ناکامی کے باوجود مایوس نہ ہوئے بلکہ احباب کے سامنے اپنا یہ احساس پیش کرتے رہے اور بالآخر انہیں مجوزہ ادارے کے لئے قطعہء زمین بھی حاصل ہوگیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال فرماتے ہیں:
’’بہر حال ایک درد مند اور مخلص مسلم زمیندار چوہدری نیاز علی خان کو خیال آیا کہ موضع جمال پورنزد پٹھان کوٹ میں خدمت دین کے لیے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ اقبال نے ان کے سامنے اپنے دیرینہ اسکیم کا ذکر کیا۔ چنانچہ 1936ء میں انہوں نے ایک قطعہ اراضی تعلیم قرآن کے لیے وقف کر دیا اور اس میں ضروری عمارات یعنی مسجد، مکتب، کتب خانہ، دار الاقامت، رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر شروع کر دی۔‘‘
علامہ اقبال کا جذبہ کیاتھا، اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’ جنوری 1937ء کے اوائل میں جب مصری علماء کا وفد لاہور پہنچا اور اقبال سے ملا تو وفد کی اس خواہش کے اظہار پر کہ وہ ہندوستان کے اسلامی اداروں کی مناسب طریق پر امداد کر نا چاہتے ہیں۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ اس کا ایک طریق یہ ہے کہ وہ جامعہ الازہر کی طرف سے کوئی استاد مقرر کردیں۔ اس سلسلہ میں آخر کار طے پایا کہ مصطفیٰ المراغی کو ایک خط اقبال کی طرف سے لکھا جائے اور انہیں اس ادارے کی خاطر ایک ایسا روشن خیال اور قابل مصری عالم اپنے خرچ سے مقرر کر نے کے لیے فرمائش کی جائے جو انگریزی خواں بھی ہو اور حالات حاضرہ یا علوم جدیدہ سے خوب واقفیت بھی رکھتا ہو۔ ‘‘
چنانچہ اقبال کے ان خیالات کو عربی کے سانچے میں ڈھال کراس وقت کے شیخ الازہر کو عربی میںایک خط تحریر کیا گیا اور بالآخر 15 گست 1937ء کو عربی میں تحریر کردہ یہی خط اقبال کے نام سے شیخ الازہر شیخ مصطفی المراغی کو ارسال کیا گیا۔ خط کا مندرجہ ذیل حصہ قابل توجہ ہے:
’’ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیا د رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا اور ان شاء اللہ اسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اونچی حیثیت حاصل ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کر دیں جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو، جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں اور ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شور و شغب سے دور ایک دار الاقامت بنا دیں جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے اور اس میں ہم ان کے لیے ایک لائبریری ترتیب دیں جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتب موجود ہوں جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزید برآں ان کے لیے ایک کامل اور صالح رہبر کا تقرر کیا جائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرت تامہ حاصل ہواور جو دنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو تاکہ وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح سمجھا سکے اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاسیات کے شعبوں میں فکر اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انہیں مدد دے سکے تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور قلم سے اسلامی تمدن کے احیاء کے لیے کوشاں ہو سکیں۔ آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ازراہ کرم ایک روشن دماغ مصری عالم کو جامعہ الازہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوست فرمائیں تاکہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔ لازم ہے کہ یہ شخص علوم شرعیہ نیز تاریخ و تمدن اسلامی میں کامل دسترس رکھتا ہو اور یہ بھی لازم ہے کہ اسے انگریزی زبان پرقدرت حاصل ہو۔‘‘
شیخ مصطفی المراغی کے جوابی مکتوب مورخہ 21 اگست 1937ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ الازہر میں اقبال کے حسب منشا کوئی ایسا مصری عالم نہ تھا، جسے جامعہ الازہر کی طرف سے ہندوستان روانہ کیا جا سکتا۔
مگر افسوس کہ علامہ اقبال کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی اور وہ اپنی یہ آرزو دل میں لئے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی توفیق سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ العالی نے عصر حاضر کے ملکی اور عالمی تقاضوں کے مطابق جو نظام تعلیم امت مسلمہ کو دیا ہے، وہ تیس سال سے ایسے افراد کار تیار کررہا ہے جوعلامہ اقبال اور شیخ الاسلام کے خوابوں کی تعبیر ہیں اور وہ اس وقت دنیا بھر میںمعتدل اسلامی فکر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔دینی اور عصری تعلیم کا یہ مرکز جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے نام سے لاہور میں مصروف عمل ہے اور شیخ الاسلام نے اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا ہے۔ اس ادارے کی ملک میں اور دنیا بھر میں شاخیں علم، شعور اور آگہی کے چراغ جلا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر کے 100 ممالک میں پھیلے ہوئے منہاج القرآن اسلامک سنٹرز بھی شیخ الاسلام کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ملکی سطح پر فروغ تعلیم اورشعور و آگہی کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ رجسٹرڈ ادارہ ہے جوملک کے تمام صوبوں (بشمول آزاد کشمیر) میں سرگرمِ عمل ہے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی قومی و ملی مفادات کے پیش نظر طلبہ و طالبات کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیراہتمام چلنے والا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس کا آغاز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1994ء میں کیا۔ اس سوسائٹی کے قیا م کے مقاصد میں سے سب سے اہم مقصد قوم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں معاشرے کا ایک اہم رکن بنانا ہے جو ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکے۔
چیئرمین منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ڈاکٹر حسین محی الدین قادری MES کے قیام کے مقاصد کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ہمارا مقصد تعلیم کو ذریعہ تجارت بنانا ہرگز نہیں بلکہ ہم اس کو انسان سازی اور قوم سازی کے لیے ہتھیار تصور کرتے ہیں۔بہت سارے ایسے ادارے ہیںجو تعلیم کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔ان کے مقاصد کی فہرست میں ہی افراد سازی اور قوم سازی شامل ہی نہیں۔پاکستا ن کی پسماندگی کے پیچھے حکومتوں کی تعلیم اور نظام تعلیم کی طرف عدم توجہی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جن میں تعلیم کا بجٹ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اس پر ستم یہ کہ یہ واحد ملک ہے جو اس ملک کے حکمرانوں کی کوئی دلچسپی نہیں۔ محدود وسائل کے باوجو د MES کے کام میں تسلسل اور پسماندہ طبقوں میں MES کی خدمات قابل داد ہیں۔ MES کوئی بزنس آرگنائزیشن نہیں جو سالانہ کرڑوں روپے کا منافع کماتی ہے، بلکہ اس کی کمائی پاکستان کے وہ غریب طلبہ ہیں جو تعلیم سے آراستہ ہو کر کر عزت دارانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
منھاج سکول سسٹم کے نصاب کے حوالے سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں کسی بھی نصاب کے دولازمی فکری ستون ہونے چاہییں اور وہ ہیں اسلامیت اور پاکستانیت ہیں۔منھاج سکول سسٹم کا نصاب ان دونوں پہلوؤں پر بھر پور توجہ کئے ہوئے ہے۔جبکہ ایم ای ایس کے نصا ب میں نصابی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ زور انہی دو پر ہے۔شیخ الاسلام کی جد جہد کو بھی دو حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اولاً قوم کی اسلامیت پختہ کی اور اب پاکستانیت پر کام کر رہے ہیں۔ایم ای ایس کا اسلامیات کا نصاب اسلامیت کے فروغ کا آئینہ دار ہے، یہ واحد سسٹم ہے جس میں قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ بطورسبجیکٹ پڑھایا جا رہا ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اورحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتِ خاص سے نونہالانِ وطن کو مثبت سوچ فراہم کرکے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ شیخ الاسلام نے جب اس تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا اُس وقت حکومتی سطح پر فروغ تعلیم اور شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے اقدامات کافی نہ تھے اور نہ ہی پرائیویٹ سطح پر کسی NGO یا تنظیم نے اس طرف قدم اٹھایا۔ ان حالات میں شیخ الاسلام نے تعلیم و تربیت کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے اس تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ملکی سطح پر 650 سے زائد تعلیمی ادارے(انگلش و اردو میڈیم) نئی نسل میں فروغِ تعلیم، بیداری شعور اور فکری و نظریاتی تربیت کے ساتھ قومی ترقی میں اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ جن میں بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ افراد کو معاشرے کا اہم رکن بنانے کے لیے اخلاقی، روحانی، سائنسی، طبی اور پیشہ وارانہ رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
MES اپنے مقاصد کے اعتبار سے ہمہ جہتی پلیٹ فارم ہے جو بیک وقت فروغ علم، تربیت قوم، تربیت اساتذہ، نصاب کی تشکیل اور غیر تجارتی بنیادوں پر ملک بھر کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ ان سکولز میں بچوں کو غیر تجارتی بنیادوں پر تعلیم کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ ایم ای ایس کے تمام سکولز میں بچوں کی کردار سازی اور تربیت پر خاص زور دیا جاتا ہے اور انہیں امن، برداشت، رواداری، اعتدال پسندی، دوسرں سے حسن سلوک اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ ایم ای ایس کے سکولز میں داخلہ بلا استثنائے رنگ و نسل صوبہ و زبان اور مسلک و مذہب ہوتا ہے۔ یہاں قائد اعظم اور علامہ اقبال اور مشاہیر پاکستان کے نظریہء زندگی کی تعلیم دی جاتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قابل تقلید سیرت مطہرہ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق، احترام انسانیت، خدمت قوم اور قوموں کی برادری میں عظمت و ترقی کی تعلیمات عام کی جاتی ہیں۔
MES اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ یہ اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت کے ایک جامع پروگرام پر بھی عمل پیرا ہے اور ہر سال ملک کے مختلف اضلاع میں اساتذہ کے لئے تدریسی تربیت کے سیکڑوں کیمپ منعقد کرتی ہے، جہاں ملک کے معروف تعلیمی اداروں سے وابستہ ٹرینرز اساتذہ کو موثر طریقہ ہائے تدریس پر عملی سرگرمی سے اساتذہ کو گزارتے ہیں۔ایم ای ایس نے 140 کتب پر مشتمل اپنا نصاب تعلیم تشکیل دیا ہے جو ملک بھر کے علاوہ جنوبی افریقہ اور یورپ کے چنیدہ سکولز میں پڑھایا جا رہا ہے۔
منہاج ایجوکیشن بور ڈ منہا ج سکول کے 650 کیمپسز کے 100,000 سے بیشتر طلبہ و طالبات کے لیے سال میں مرکزی سطح پر معمول کے 3 امتحانات، چاروں صوبوں میں طلبہ و طالبات کے لیے مقابلے کا امتحان، اس امتحان میں میرٹ پر آنے والے 150محنتی طلبہ و طالبات کے لئے ہر سال کیش ایوارڈ کی صورت میں ڈاکٹر فریدالدین سکالر شپ کا دیا جانا منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کو ایک واضح امتیاز عطا کرتا ہے۔
اللہ کریم امت مسلمہ کے سروں پر شیخ الاسلام مدظلہ کا سایہ تادیر سلامت رکھے اور آپ کے قائم کردہ ان اداروں سے عالم اسلام کو فیضیاب فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2019ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved