محمد فاروق رانا، ڈائریکٹر، فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
اَہلِ سنت کے بنیادی عقائد میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و کمالات پر ایمان رکھنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیتِ اطہار اور اولیاء عظام سے محبت و تکریم بھی اہلِ سنت کے شعائر میں سے ہے۔ شومیٔ قسمت! آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اہلِ بیتِ اطہار کی محبت کو اہلِ سنت کے عقائد میں باعثِ نزاع بنایا جا رہا ہے۔ اِن حالات میں ذواتِ مقدسہ کی محبتوں کو از سرِ نو اجاگر کرنا اور ان کے فضائل و کمالات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرنا نہ صرف وقت کا تقاضا بلکہ ایمان کا جزوِ لا ینفک ہے۔ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اُمتِ مسلمہ کو درپیش دیگر مسائل کی طرح مرورِ زمانہ کے سبب پنپنے والے باطل عقائد کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے قرآن و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات کی روشنی میں دلائل سے اُمت میں اصلاح کا یہ مجددانہ کردار بھی بحسن و خوبی سرانجام دیا ہے۔ یہ باطل عقائد اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و کمالات، اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء عظام کے متعلق ہیں۔ انہوں نے جہاں عقیدۂ توحید، عقیدۂ رسالت، تکریمِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر عقائد کو ان سے متعلقہ حقیقی تعلیمات کی روشنی میں بیان فرمایا، وہیں اپنی جاوداں تصانیف اور فکر انگیز خطابات سے شرق تا غرب اَہلِ بیتِ اَطہار کے متعلق باطل عقائد کا بھی قلع قمع کیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نزدیک اَہلِ بیتِ اَطہار سے محبت رکھنا عقیدۂ اَہلِ سنت کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔ وہ شخص اَہلِ سنت ہی نہیں، جس کا دل اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت و مودت سے خالی ہے۔ اَہلِ سنت کی شناخت حُب و تکریمِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و اَہلِ بیت علیہم السلام ہے۔ محبت کے یہ دونوں دھارے مَرَجَ الْبَحْرَیْن کے مصداق مل کر حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لامتناہی سمندر بناتے ہیں۔ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبتِ اَہلِ بیت علیہم السلام کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ شیخ الاسلام حُبِّ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام سے سرشار ہو کر ہمیشہ فرماتے ہیں کہ ’’میں تو اَہلِ بیتِ اَطہار کے ٹکڑوں پر پلنے والا سگ ہوں۔‘‘ ان کا یہ معمول ہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے قبل جنت البقیع میں سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور دیگر اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے مبارک مقامات کی طرف رُخ کر کے عرض کرتے ہیں:
’’اے اَہلِ بیتِ رسول! آپ کا سگ آپ کے دَر پر آیا ہے۔ آپ اپنے بابا جان سے عرض کر دیں کہ حضور! کچھ ٹکڑے اسے ڈال دیں، اس کا آنا قبول فرما لیں۔‘‘
اس ایک معمول سے ہی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اَہلِ بیتِ نبوت سے نسبت اور ان کے احترام کا اندازہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ شیخ الاسلام نے اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی مقدس بارگاہوں میں حاضری کے محبت و عقیدت بھرے اس معمول کو صرف اپنی ہی زندگی کا حصہ نہیں بنایا بلکہ تحریک کے ہر رفیق اور کارکن کو بھی اِسی ادب و احترام کا سبق دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام کی فکر اور تعلیمات سے آشنا رفقاء و کارکنانِ تحریک کو جب بھی زیارتِ حرمینِ شریفین کی سعادت نصیب ہوتی ہے، وہ بھی آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری سے قبل انہی ذواتِ مقدسہ سے سفارش کے متمنی ہو کر اِن کے در پر حاضری دیتے ہیں اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں دامنِ خیرات کو پھیلانے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر ذکر کرتا چلوں کہ اِنہی تعلیمات و اَفکار اور شیخ الاسلام کی صحبتوں کا اثر ہے کہ دسمبر 2017ء میں جب راقم کو زیارتِ حرمین شریفین اور عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی تو مدینہ منورہ میں پہلے اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی بارگاہ میں حاضری پیش کی اور وہاں سے اِذن لے کر بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معصیات اور گناہوں کی بخشش کی التجاء لے کر حاضر ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی معمول کا ہمیشہ عامل بنائے رکھے۔ آمین۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ: ’’فی زمانہ حُبِّ اَہلِ بیت خارجیت کی زد میں آچکی ہے۔ لوگ اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ شیعہ کہلائے جانے کی تہمت کے خوف سے ذکرِ امام حسین علیہ السلام کی مجالس کا اہتمام کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور ان مجالس کے اہتمام میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت کو صرف شیعیت کے ساتھ خاص کرنا تہمت ہے، اس لیے کہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ صرف کسی ایک مسلک کی پہچان نہیں بلکہ ہر مسلمان کی اُخروی نجات اور حفاظتِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَیْتِي مَثَلُ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ، مَنْ رَکِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ.
’’میرے اَہلِ بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہی ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘
المستدرک للحاکم، 3: 163، الرقم: 4720؛ مسند بزار، 9: 343، الرقم: 3900، المعجم الأوسط للطبرانی، 6: 85، الرقم: 5870
اُمت میں ایسے فتنے بپا کرنے والے، جھوٹے فتوے لگانے والے، شر انگیزی کرنے والے، لوگوں کے عقائد کو طرح طرح کے حملوں سے منتشر کرنے والے اور راہِ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں۔ خارجی فکر تو تسلسل سے ہر صدی میں موجود رہی ہے۔ آج جن لوگوں نے مسلمانوں اور اُمتِ مسلمہ کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں، وہ یہی خارجی ہیں جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ یہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبتِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے خلاف ایک محاذ ہے۔ یہ خارجی فکر اَہلِ سنت و جماعت کو فقط حُبّ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تک محصور کر رہی ہے جب کہ حُبِّ اَہلِ بیت علیہم السلام اور حُبِّ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں کو جمع کرنا اَہلِ سنت و جماعت کے ہاں ایمان تھا اور ہے۔ دونوں کو جمع رکھنا ہی اَہلِ سنت کا امتیاز اور تشخص تھا اور ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس پُر فتن اور غیرمتوازن دور میں حُبِّ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَہلِ بیتِ نسب (وہ رشتے دار جو نسب کی وجہ سے بنتے ہیں، مثلاً چچا، پھوپھی وغیرہم)، اَہلِ بیتِ مسکن (وہ رشتے دار جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں، مثلاً اَزواجِ مطہرات) اور اَہلِ بیتِ ولادت (اس سے مراد بیٹے، بیٹیاں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَولادِ اَطہار شامل ہے) کے فضائل کے بارے میں سیکڑوں پُر مغز خطابات کیے اور کئی مؤقر کتب تحریر کی ہیں۔
ذیل میں موضوعِ زیر بحث کی مناسبت سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اُن کتب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے، جو انہوں نے ’فضائل و مناقبِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام ‘ کے موضوع پر تصنیف و تالیف کی ہیں۔ نیز اِس موضوع پر ہونے والے بعض خطابات کا اِجمالی خاکہ بھی دیاجارہا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اب تک اُردو، عربی اور انگریزی زبان میں فضائل و مناقبِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے موضوع پر درج ذیل بتیس (32) کتب تحریر کی ہیں جو ان کی جانب سے اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی بارگاہ میں ایک پرخلوص نذرانہ ہے:
اَلْإِجَابَة فِي مَنَاقِبِ الْقَرَابَة علیهم السلام کے نام سے موسوم یہ کتاب اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے فضائل و مناقب پر مستند احادیث کا مجموعہ ہے اور عظمتِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام پر ایک عدیم النظیر تالیف ہے۔ اِس سے محبت و مودّتِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ کے متعلق اَخیارِ اُمت اور اکابر اَسلاف کے عقیدہ صحیحہ کی بھی بہترین ترجمانی کرتی ہے۔ مزید برآں فرقہ وارانہ رجحانات کے تدارک کے لیے اِنتہائی مؤثر کتاب ہونے کی بنا پر اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے بھی کارگر ہے۔ اس میں عربی متون مع اِعراب، ترجمہ اور تحقیق و تخریج کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کتاب میں مستند دلائل و براہین کی روشنی میں نہایت جامع اور پرکشش اُسلوب میں رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَہلِ بیتِ اَطہار اور قرابت داران علیہم السلام کی طہارت و پاکیزگی اورمقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی شان میں نازل ہونے والی مختلف آیاتِ مبارکہ اور ان کے اطلاق پر مختلف اقوال کا تفصیلی بیان بھی اس کتاب کی زینت ہے۔ مختلف نصوص اور اقوال کی روشنی میں اَہلِ بیت کے مفہوم پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام سے مراد اُمہات المومنین اور اَہلِ کساء یعنی فاتحِ خیبر سیدنا علی، سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہراء اور نوجوانانِ جنت کے سردار حضرات حسنین کریمین علیہم السلام ہی ہیں۔ نیز اس تصنیف میں عظمتِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اَئمہ سلف صالحین کی اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام سے حد درجہ محبت اور وارفتگی کی کیفیات بھی اِحاطہ تحریر میں لائی گئی ہیں۔ ان کیفیات کو تحریر کرنے کا مقصدِ سعید یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے درمیان اُستوار محبت، الفت، عقیدت اور باہمی اِحترام سے آگہی حاصل ہو اور اس حوالے سے پھیلائی گئی ذہنی پراگندگی اور بدعقیدگی کا اِزالہ کیا جا سکے۔ کتاب کے آخر میں اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام اور قرابت دارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر منتخب احادیث کو جامع انداز سے مرتب کیا گیا ہے۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تعلقات کے حوالے سے یہ ایک فقید المثال کتاب ہے۔
شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل و مناقب اور رِفعت و شان پر بڑی کثرت کے ساتھ کتبِ احادیث و سیر اور آثارِ صحابہ میں روایات مذکور ہیں، جو آپ کی شان کے علو اور ممتاز و منفرد خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب رضی الله عنه کے عنوان سے شیخ الاسلام کی اس کتاب میں حوالہ جات و تخریج کے ساتھ ایک سو ستاسی (187) منتخب احادیثِ مبارکہ کو مع اُردو ترجمہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں اِس قدر حسین انداز میں بیان کیاگیا ہے کہ آپ کی جلیل القدر عظمت و شان کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہا۔ یہ کتاب حضور نبی اکرم علیہ السلام کے فرامین - ’جس کا میں مولا ہوں اس کاعلی مولا ہے‘ اور ’جو اسے دوست رکھے گا اللہ اسے دوست رکھے گا اور جو اس سے عداوت رکھے گا اللہ اس سے عداوت رکھے گا‘ - کا عملی اِظہار و بیان ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحرِ علم و معرفت سے جو علوم و معارِف، حقائق و اَسرار اور غوامض و دقائق مولاے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو نصیب ہوئے، وہ انہی کا حصہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رِفعت علمی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا.
(میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے)۔
اَلْقَوْلُ الْقَیِّم فِي بَابِ مَدِیْنَةِ الْعِلْم علیه السلام کے عنوان سے موسوم اس کتاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فقط اسی ایک حدیثِ مبارک کی مختلف اسانید و طُرُق، رُواۃ اور صحت پر تفصیلی بحث کی ہے، جس سے نہ صرف اِس حدیثِ مبارک کی اِستنادی حیثیت عیاں ہوتی ہے بلکہ سیدنا علی علیہ السلام کی وُسعتِ علمی اور حکمت و معرفت کے بحرِ بیکراں کا اِدراک بھی ہوتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے منفرد اِعزاز اور شخصی اِمتیاز کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی علیه السلام.
تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔
اس کتاب میں صرف اس ایک حدیثِ مبارک کی ایک سو اٹھا ئیس (128) مختلف اسانید اور طُرُق مع اُردو ترجمہ درج کی گئی ہیں، جن سے اس حدیث کی شہرت و مقبولیت اور اِعتبار و حجیت پر روشنی پڑتی ہے۔
مذکورہ مبارک عنوان والی یہ تالیف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا مخدومہ کائنات سیدہ فاطمتہ الزہرا علیہا السلام کی بارگاہِ مقدسہ میں ایک عاجزانہ نذرانہ ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیثِ مبارک میں اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام کو سارے جہانوں کی تمام خواتین کی سردار قرار دیا ہے۔ یوں اس تالیف میں درج بالا حدیثِ مبارک کو تریسٹھ (63) مختلف طُرُق کو یک جا کر کے ایک گل دستے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں مخدومہ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام کے بارے میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنِّي‘ کو مختلف طرق کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِس حدیثِ مبارک کو روایت کرنے والے محدثین کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ یہ مختصر کتاب اپنے اندر تاریخی اہمیت سموئے ہوئے ہے۔
حضرات حسنین کریمین علیہما السلام کی ذواتِ مبارکہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وہ شہزادے ہیں جنہیں پہلی غذا کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن نصیب ہوا۔ یہ وہ مبارک نام ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی جانب سے منتخب کیا۔ یہ نام ان سے پہلے اس کائنات میں کسی اور کے نہیں رکھے گئے تھے۔ یہ وہ معزز سوار ہیں جنہیں راکبِ دوشِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کے لیے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے طویل کیے۔ جب رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے اَہلِ حق کو ان کی عظمت، فضیلت اور رتبے کی انتہا دکھانا چاہی تو ارشاد فرما دیا:
اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّة.
حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ تالیف جنت میں انہی شہزادوں کی سیادت کے حوالے سے ہے۔ اس تالیف میں رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیثِ مبارک کوایک سو ایک (101) مختلف طُرُق کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اَلْقَوْلُ السَّوِيِّ فِي رَدِّ الشَّمْسِ لِعَلِيِّ علیه السلام کے عنوان سے لکھی گئی اِس کتاب میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لیے سورج کے پلٹائے جانے کے واقعے پر اِنتہائی شرح و بسط کے ساتھ تحقیق کی ہے اور اس موضوع پر کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ اس کتاب کے آغاز میں ردِ شمس کے حوالے سے وارِد ہونے والی مختلف روایات مفصل تحقیق و تخریج کے ساتھ جمع کی گئی ہیں۔ اِس کے بعد محدثین کرام کے ہاں حدیثِ ردّ شمس کے اِستناد اور حجیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے اِس حدیث کے راویوں کی فہرست بھی درج کی ہے۔ اِس کتاب میں صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی سے نہیں بلکہ اپنی اپنی تالیفات میں اِس حدیث کو روایت کرنے والے اَئمہ و محدثین کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ بعد ازاں اِس حدیثِ مبارک کے طُرُق کی تحقیق اور اس کے راویوں کا حال بھی بیان کیا ہے۔ آخرِ کتاب میں اِس حدیث کی اُنیس (19) اَسانید پر مفصل تحقیق درج کرتے ہوئے اِس کے رُواۃ پر جرح و تعدیل کی گئی ہے۔ یوں اس حدیثِ مبارک کی استنادی حیثیت کو واضح کیا ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔
بعض لوگ اِس حدیثِ مبارک کی ثقاہت اور سند پر اِعتراضات کرکے اسے ضعیف یا موضوع ثابت کرنے کی سعیِ لاحاصل کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اِس غلط فہمی کے اِزالے کے لیے اَلْکِفَایَة فِي حَدِیْثِ الْوِلَایَة تحریر کی۔ اِس کتاب میں یہ حدیثِ مبارک اُردو ترجمہ کے ساتھ 153 مختلف اسانید و طُرُق سے بیان کی ہے۔ انہوں نے ان کے رُواۃ اور صحت پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ان 153 طُرُق میں سے اکثر صحیح یا حسن ہیں۔ اِس حدیث پر کی جانے والی نقد و جرح کا اُصولِ حدیث کے مطابق محاکمہ بھی کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ’حدیثِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ ‘ کو روایت کرنے والے اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسماے گرامی بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث ان چند احادیثِ مبارکہ میں سے ہے جنہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے۔
اِس تصنیف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی وارث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقامِ ولایت کا تذکرہ ہے۔ سیدنا علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت و نیابت کا اعلانِ غدیر، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر جماعت میں کیا، اس کتاب کا اصل موضوع ہے۔ یہ ایک حدیثِ مبارک باون (52) مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے۔ اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلافتِ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ولایتِ سیدنا علی علیہ السلام کے بلا فصل ہونے پر نادر مقدمہ بھی اِس کتاب کو اِس موضوع پر لکھی جانے والی دیگر کتب سے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔
اس تالیف میں مخدومہ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کو چالیس فصول میں بیان کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شہزادیِ کونین کا مقام دنیوی و اُخروی زندگی میں کس قدر بے مثال رفعتوں کا آئینہ دار ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اس لختِ جگر سے کس قدر والہانہ انداز سے محبت فرماتے تھے۔
یہ کتاب نوجوانانِ جنت کے سردار حسنین کریمین علیہما السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل چالیس فصول میں ایک سو پینتیس (135) احادیث مبارکہ کا مجموعہ ہے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان شہزادگانِ اَہلِ بیت سے کس قدر محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت کو اپنی محبت اور ان سے عداوت کو اپنی عداوت قرار دیا ہے۔ دونوں شہزادے شبیہانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وارثانِ اَوصافِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
ذِکْرُ مَشْهَدِ الْحُسَیْن علیه السلام مِنْ أَحَادِیْثِ جَدِّ الْحُسَیْن صلی الله علیه وآله وسلم کے عنوان سے اس منفرد کاوش میں سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس درد ناک موضوع سے متعلق احادیث مبارکہ اور آثار کو ائمہ و محدثین کی تعلیقات و تصریحات اور واقعاتی ترتیب کے ساتھ منظم کیا گیا ہے۔ اس پر مستزاد سبطِ رسول علیہ السلام کی شہادت کا پس منظر اور ان کی اوائل عمری ہی میں شہادت کی پیشین گوئیاں بھی درج کی گئی ہیں۔ بعد ازاں جگرگوشہ بتول علیہ السلام کے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور مکہ معظمہ سے کوفہ کے سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد قافلہ حسینی کا دریاے فرات کے کنارے پڑاؤ اور کرب و بلا کی تپتی ریت پر تین دن کی پیاس اور بھوک سے نڈھال بہتر (72) مردانِ حق کا تاریخِ انسانیت کی عظیم اور بے مثل ایثار و قربانی کا بیان ہے۔ آخر میں شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعدرونما ہونے والے واقعات کو ترتیب کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس تاریخی کتاب میں موضوع سے متعلقہ ایک سو بائیس (122) روایات درج کی گئی ہیں، جب کہ ائمہ و محدثین کی تصریحات و توضیحات اس کے علاوہ ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران درد و سوز کی کیفیات بھی نصیب ہوں گی اور گناہوں کی سیاہی دھونے کے لیے اشکوں کی برسات بھی۔ اِن شاءاللہ۔
یہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد سے متعلق انتہائی اہم اور دلچسپ کتاب ہے۔ امام مہدی علیہ السلام وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی آمد سے دنیا پر قانونِ الٰہی کی حکمرانی ہوگی۔ اس کتاب میں امام مہدی سے متعلق ان سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں جو ہمارے معاشرے میں زبان زدِ عام ہیں، مثلاً: امام مہدی کی آمد کی کیا علامات ہیں؟ ان کا ظہور کس جگہ ہوگا؟ وہ کب آئیں گے؟ وہ کون لوگ ہوں گے جو ان کا ساتھ دیں گے؟ ان کی فتح و غلبے کی کیا برکات ہوں گی؟
الغرض! اس محققہ کتاب میں اس کی مکمل تفصیل درج ہے۔ علاوہ ازیں ولایتِ امام مہدی پر نادر مقدمہ بھی کتاب کی زینت ہے۔
اس اربعین میں مولاے کائنات سیدنا علی، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا، امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین علیہم السلام کے فضائل و مناقب کو صرف ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ کی احادیث کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ بنیادی احادیث اکتالیس (41) ہیں، لیکن مختلف موضوعات کے تحت کل اکاون (51) احادیث اِس نادِر کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔
اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت و اتباع نصوصِ شرعیہ سے ثابت ہے۔ اُم الکتاب قرآنِ مجید نے اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی مودّت کو اَجرِ رسالت قرار دے کر ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار احادیث میں اپنے اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی فضیلت و عظمت اور شان و شوکت بیان فرمائی ہے۔ اِنہی فرامین مبارکہ میں سے ایک ’حدیثِ ثقلین‘ بھی ہے۔ ثقلین سے مراد ہے: دو انتہائی قیمتی چیزیں یعنی قرآن مجید اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ بے شک میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری میری عترت ہے۔ جب تک تم ان کی محبت اور اتباع کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، تب تک گم راہ نہیں ہو سکتے۔ گویا دنیا و آخرت میں کامیابی اور ہدایت کا ذریعہ رجوع الی القرآن اور تمسکِ اَہل بیت علیہم السلام کو قرار دیا گیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ایمان افروز حدیثِ مبارک کو اکتالیس (41) مختلف طرق سے بیان کیا ہے۔ گویا یہ اکتالیس (41) بیش قدر جواہر سے آراستہ نور کے ہالہ پر مبنی ایک روحانی اور نورانی مالا ہے۔ کتاب کے آخر میں قارئین کی آسانی کے لیے نفس مضمون کی وضاحت سے متعلق بعض ضروری توضیحات بھی شامل کی گئی ہیں۔
مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل و مناقب پر حُسْنُ الْمَآب فِي ذِکْرِ أَبِي تُرَاب رضی الله عنه کے عنوان سے یہ کتاب اکتالیس (41) مستند احادیث کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مولا ے کائنات علیہ السلام کے فضائل و مناقب کو مختصراً جمع کر دیا گیا ہے تاکہ علما، طلبہ اور عامۃ الناس بھرپوراستفادہ کر سکیں۔
یہ باغِ نبوت کے مہکتے پھول، شہزادگانِ کاشانہ رسول کی محبت و مودت پر اکتالیس (41) احادیث کا مجموعہ ہے، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حسنین کریمین علیہما السلام سے محبت کو ایمان کا حصہ قرار دینے والی احادیث کو جمع کیا ہے۔یہ عامۃ الناس کے استفادہ کے لیے ایک مختصر اور جامع کتاب ہے۔
اس کتاب میں سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کی درج ذیل مناجات کو یک جا کیا گیا ہے:
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ’جس نے علی سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی؛ اور جس نے مجھ سے محبت کی، اس نے خدا سے محبت کی؛ اور جس نے علی سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا؛ اور جس نے مجھ سے بغض روا رکھا اُس نے خدا سے بغض رکھا‘۔
اس مختصر مگر وقیع رسالہ میں اسی فرمان کی وضاحت اور تشریح بیان کی گئی ہے۔
یہ تصنیف سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر مشتمل ہے۔ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے لیے آپ کے اِنتخاب کی حکمت وبصیرت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا کوئی گوشہ چشمِ عالم سے مخفی نہیں رکھا۔ اس تصنیف میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواجی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی شریکۂ حیات حضرت خدیجہ j سے قلبی تعلق کا عالم کیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے انسان کی رہنمائی کا بھرپور سامان مہیا ہوتا ہے۔
جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدۃ نساء العالمین سلام اللہ علیہا کی سیرت مبارکہ کا حسین تذکرہ اس کتاب کا موضوع ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس کتاب میں سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی سیرت مبارکہ کو سلیس اور خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے تاکہ دخترانِ اسلام آپ کی سیرت کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
اس کتاب میں سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کا پس منظر و پیش منظر انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کی بدولت شیخ الاسلام کی جانب سے شیعہ سنی اختلافات میں اِعتدال و توازن کا راستہ ہموار ہواہے۔ حدیثِ کربلا حریتِ فکر، نفاذِ عدل اور انسان کے بنیادی حقوق کی بحالی کی ایک عظیم الشان دستاویز ہے۔ اسی بنا پر یہ کتاب اُمتِ مسلمہ کو متفقہ معاملات پر متحد کرنے کی ایک بہترین کاوش ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خونِ حسین علیہ السلام کا قرض چکانے کی ایک ہی صورت ہے کہ شعورِ کربلا کو ہر سطح پر زندہ رکھا جائے۔
اِس کتاب میں سیدنا امام عالی مقام علیہ السلام کی مدینہ منورہ سے سوئے کربلا روانگی، اس دوران پیش آنے والے اہم واقعات، واقعہ کربلا کا پس منظر اور پیش منظر مستند کتب سے بیان کیا گیا ہے۔ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت اور شہادت کے بعد کے واقعات کا ذکر بھی ہے۔ یزید لعین اور اُس کے حواریوں کا ظلم و سفاکیت، جبر و تشدد اور پھر اُن کے عبرت ناک انجام کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب ہے۔
سیدنا امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خانوادے کی قربانیاں کس لیے تھیں؟ اُن کا مقصد کیا تھا؟ کیا کربلا کا واقعہ محض ایک تاریخی المیہ ہے یا اس کے اندر مسلمانانِ عالم کے لیے ایک خاص پیغام پوشیدہ ہے، جو رہتی دنیا تک اُن کی رہنمائی کرتا رہے گا؟ اس حقیقت کو بھی اسی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔
اس مختصر اور جامع کتاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پیغامِ کربلا کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔
یہ کتاب ذبیحِ کربلا امام عالی مقام سیدنا حسین علیہ السلام کی شہادت اور محبت کے بیان پر نہایت ایمان افروز اور روح پرور بیان کا مجموعہ ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ امامِ عالی مرتبت سیدنا حسین علیہ السلام کی محبت دراصل آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی محبت ہے۔پھر اس قربانی کے پس منظر میں انبیاے کرام علیہم السلام کی قربانیوں کا اک تازہ جہان آباد ہے۔
خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہو سے تحریر ہونے والی حریت و ایثار کی لازوال داستان اس کتاب کی زینت ہے۔ اس سے انسانیت کے لیے قربانی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شعورِ کربلا کیا ہے؟ پیغامِ کربلا کیا ہے؟ پر فصیح وبلیغ تبصرہ بھی اس میں موجود ہے۔ در حقیقت شہادتِ امام حسین علیہ السلام ان قربانیوں کا تسلسل ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام کی جانب سے وقتاً فوقتاً پیش کی جاتی رہی ہیں۔ شہیدِ کربلا امام حسین علیہ السلام کی قربانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ اسی لیے حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے یہ فرمایا ہے:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل
اس کتاب کی ہر ہر سطر اتحادِ اُمت کی شاہراہ پر چراغ جلاتی ہے۔
یہ ’اَلسَّیْفُ الْجَلِي عَلٰی مُنْکِرِ وِلَایَةِ عَلِيّ‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔اس کا تعارف مذکورہ بالا سطورمیں گزر چکا ہے۔
یہ ’اَلدُّرَّةُ الْبَیْضَاء فِی مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاء علیها السلام‘ کا انگلش ترجمہ ہے۔ اس کا تعارف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ نیز اس کتاب میں درج ذیل دو کتب بھی انگریزی ترجمہ کے ساتھ شامل کی گئی ہیں:
ان دونوں کتب کا تعارف بھی گزشتہ صفحات پر بیان ہو چکا ہے۔
یہ ’اَلْقَوْلُ الْمُعْتَبَر فِي الْإِمَامِ الْمُنْتَظَر علیه السلام‘ کا انگلش ترجمہ ہے۔ اِس کا تعارف سابقہ سطور میں گزر چکا ہے۔
یہ کتاب دس (10) ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آغاز میں فتنوں کے ذکر کرنے کے بعد امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں وارِد ہونے والی روایات کے استناد و اعتبار پر بحث کی گئی ہے۔ پھر امام مہدی کے بارے میں قرآنی آیات سے استشہاد کرکے دلائل کو مزید پختہ کیا گیا ہے۔ اپنے موضوع پر مختصر مگر جامع دستاویز کی حیثیت رکھنے والی اس کتاب میں علاماتِ قیامت کے ساتھ ساتھ امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا وقت بھی بیان کیا گیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مذکورہ کتب کے علاوہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی عظمت و فضیلت اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے کثیر خطابات و دروس بھی دیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم خطابات کے عنوانات ذیل میں تحریر کیے جا رہے ہیں:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہر خطاب اپنی جگہ ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف خطابات کے عنوانات پڑھنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ خطاب میں کیا بیان کیا گیا ہے۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے حوالے سے آپ کے منتخب خطابات کے مذکورہ بالا عنوانات سے یہ حقیقت اَلم نشرح ہوتی ہے کہ ہر خطاب سے ایمان کو تازگی، عقیدے کو پختگی اور فکر کو سنجیدگی اور سوچ کو حقیقت نصیب ہوتی ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب بعض اَحباب کی جانب سے مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام کی ذات پر کیچڑاچھالا گیا، تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بعنوان ’’دفاعِ شانِ سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام (علم حدیث کی روشنی میں)‘‘ کے موضوع پر سولہ گھنٹوں پر محیط دو طویل نشستوں میں مدلل اور دندان شکن جواب دیا، جسے کوئی بھی آج تک ردّ کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔
اِسی طرح گزشتہ سال بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے اور موازنہ میں ایک ایسے صحابی رسول کے مقام و مرتبہ کو بیان کرنے کا اہتمام کیا جن کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں فضیلت کے اعتبار سے گیارہواں درجہ ہے۔ اس عمل کے ردِ عمل میں شیخ الاسلام نے اعتکاف کی پہلی دو راتوں میں ہونے والے خطابات کا موضوع ہی یہ اپنایا: ’’شانِ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام: عقیدۂ اَہلِ سنت میں حضرت علی المرتضی علیہ السلام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام‘‘۔ دو راتیں اِس موضوع پر قرآن و حدیث، آثارِ صحابہ اور ائمہ سلف صالحین کی کتب سے اتنی مفصل اور مدلل گفت گو کی گئی کہ اُمت کو تقسیم کرنے والا یہ خارجی فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مرتبہ تقریر اور تحریر کا جائزہ لیاجائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں آورد نہیں بلکہ آمد ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دلائل ان کے سامنے صف بستہ کھڑے ہیں، جنہیں وہ بلا توقّف بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ آپ کی معتدل فکر کی پختگی اور سوچ کی میانہ روی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر مسلک اور ہر مکتب آپ کی کتب اور دروس و خطبات سے بھرپور استفادہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2019ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved