عین الحق بغدادی
دنیا میں اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد ہر وقت موجود رہتی ہے، جن میں سے اکثر گمنام زندگی گزار کر رخصت ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے مضمون میں مہارت دکھائی اور نام پیدا کیا اور ایک مخصوص طبقے کے لیے مثال بن گئے، مگر کچھ لوگ اللہ رب العزت کی توفیق سے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے علمی شاہکار کا بروقت اور برمحل استعمال کرتے ہوئے انسانیت کو پیش آمدہ مسائل کا ایسا حل پیش کرتے ہیں کہ پھر دنیا انہیں ہمیشہ سنہری الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ایسے لوگ جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں۔
شیخ لاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو دینِ اسلام کو درپیش مسائل کا حل پیش کر کے تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ نے شدت پسندی کے دور میں دین کے اعتدال والے پہلو کو اجاگر کیا۔دہشت گردی کے خلاف مبسوط فتویٰ جاری فرماکر اس وقت امتِ مسلمہ کا قرض اتارا جب ہر طرف اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طور پر متعارف کرایا جارہا تھا۔ شیخ الاسلام نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا بلکہ دہشت گرد نظریات کے خاتمے کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کے لیے امن نصاب بھی متعارف کرایا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایسے وقت میں تبلیغ اور ترویج و اشاعتِ اسلام کے لیے جدید ذرائع کا استعمال شروع کیا جس وقت ان ذرائع کے استعمال پر کفر کے فتوے صادر ہورہے تھے۔ جس وقت مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگارہے تھے، اس وقت آپ نے نہ صرف امتِ مسلمہ کے مختلف مذاہب میں اتحاد و یگانگت کی بات کی بلکہ مختلف ادیان کو قریب لانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
آپ نے جہاں دینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور عمرانی میادین میں نمایاں اور ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں، وہاں بدلتے حالات اور تقاضوں کے مطابق احکامِ شرعی میں تبدیلی اور ’’انتقال بین المذاہب‘‘ پر بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ۔
زمانے اور حالات کے مطابق شرعی احکام میں تبدیلی کا مؤقف زمانے کی ترقی کے تناظر میں بہت سے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔زیرِ نظر مضمون میں شیخ الاسلام کی حال ہی میں پاکستان بھر سے آئے علمائ، فقہا، محدثین، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ فرمائی گئی گفتگو میں سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔
شیخ الاسلام و مجددِ رواں صدی دینِ اسلام کی عالمگیریت اور ہمہ گیریت کے تناظر میں بیان فرماتے ہیں کہ:
’اسلام ابدی دین ہے اور اس کے اَحکام کو بھی بقا اور دوام حاصل ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِس کے اَحکام اُلوہی حکمت پر مبنی ہیں جو دائمی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اﷲ رب العزت نے اِس کی جملہ تعلیمات اور اَحکامات کے اندر آفاقی وسعت اور ہمہ گیریت رکھی ہے، جس کے باعث یہ تمام زمانوں کے حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اِس کے اَحکامات کے اندر شارع کی طرف سے نرمی، سہولت اور لچک کی وسیع گنجائش رکھی گئی ہے، جس کے سبب سے بدلتے ہوئے زمانوں کے حالات و واقعات میں کارفرما حکمی اور حکمتی تغیر و تبدل کو اپنے اندر سمو لینے کی بڑی اِستعداد موجود ہے۔
زندگی جمود اور تعطل نہیں بلکہ تحرّک اور تغیّر و تبدّل کا نام ہے۔ تغیراتِ زمانہ اور اِنقلاباتِ اَحوال زندہ اور بیدار قوموں کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اسلامی قوانین ہر زمانے کے بدلتے ہوئے حالات و عادات اور اَحوال و ظروف کے مطابق اِنسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان قوانین میں اﷲ تعالیٰ نے اتنی خوش گوار لچک رکھی ہے کہ ان میں ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسلامی قوانین کی بنیاد حکمت و مصالح، بندوں کی دنیاوی بہتری اور اُخروی فلاح پر ہے۔ وہ اَحکام جو معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ان میں بالخصوص مصلحتِ عامہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مصلحت اور عِلّت، زمانہ اور حالات کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب بنیاد بدل جائے تو اَحکام کا بدلنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے احکام المعاملات کو زمانے کی بدلتی ہوئی حکمتوں اور علتوں پر پرکھا جائے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر وہ قانون جو فرد یا افرادِ معاشرہ کو ظلم و جور سے محفوظ رکھنے کے لیے بنا ہے، اس میں فیصلے کے وقت معاشرے کی موجودہ صورتِ حال اور بدلتے حالات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ جس جس انداز میں فرد اور معاشرے کے حالات و واقعات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، اِسی انداز اور تناسب سے ان قوانین میں بھی تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیلی ہی ان قوانین کو بقاء و دوام، عوامی افادیت اور بین الاقوامی مقبولیت کا حامل بناتی ہے ورنہ جمود، اسلامی قوانین کو متحرک انسانی زندگی سے کاٹ کر لا تعلق کر دے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اب قانون وضع کرنے یا نافذ کرنے میں بات صرف حاجت و ضرورت کی نہیں رہی بلکہ جلبِ منفعت اور دفعِ مضرّت کا سوال ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ایسے بےلچک قوانین ایک مخصوص زمانے، علاقے اور طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
مصلحتِ عامہ اسلامی قوانین کی spirit اور بنیاد ہے۔ اِس بنیادی اُصول سے مراد یہ ہے کہ نفوسِ انسانی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس عنایت اور اہتمام کو جان لیا جائے، جس کے پیشِ نظر انسانوں کے اخلاق و اعمال کی اصلاح و تہذیب اور ان کی زندگی کے جائز اَحوال و واقعات کے لیے نرمی، وسعت اور سہولت کی فراہمی ہے۔ فقہ اسلامی کے تمام قوانین اور قواعد و ضوابط کی اصل بنیاد یہی حکمت و مصلحت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میں رعایت کا ثبوت بکثرت واضح طور پر ملتا ہے۔ ان نظائر (precedences) کو خلفائے راشدین نے بھی اپنے عدالتی فیصلوں میں مدِ نظر رکھا۔ پھر تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بالخصوص اس موضوع پر قوانین بنائے گے اور لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ (زمانہ بدلنے سے اَحکام کا بدل جانا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے) ایک باقاعدہ اصول بن گیا، جس پر فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے اَئمۂ مجتہدین نے اپنی کتبِ فقہ میں باقاعدہ ابواب قائم کیے اور اس اصول کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے عظیم نعمت اور برکت قرار دیا، قاضیان عظام اور مفتیانِ کرام کے لیے فیصلہ یا فتویٰ سنانے کے لیے ضروری قرار دیا کہ انہیں اس علاقے، ملک یا طبقے کے معروضی حالات اور مخصوص واقعات کا علم ہو، جن کا مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ اِسی طرح جس وقوعہ یا قضیہ کی نسبت عدل و اِنصاف کی فراہمی کے لیے حکم شرعی کا اِستنباط یا اِطلاق مقصود ہے، اس کے تمام وقائع، عوامل، محرکات اور جملہ ظاہر و مخفی متعلقات کا بجمیع وجوہ اِحاطہ و اِدراک بھی ناگزیر ہے، تاکہ ہر واقعہ کے اپنے مخصوص حالات و واقعات کی روشنی میں اس کے لیے متعلقہ حکم وضع کیا جاسکے۔ انسانی معاشرہ، مخصوص حالات اور قانون کا باہمی سہ جہتی رشتہ نہ جاننے کے باعث مفتیانِ کرام اور قاضیانِ عظّام میں غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اسلامی قانون سازی یا اِطلاقِ حکم کا دائرۂ کار محدود ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر تبدیلی کی اِس گنجائش کو ختم کر دیا جائے تو شریعت جامد ہو کر رہ جائے گی۔‘
شیخ لاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا یہ طرّۂ امتیاز ہے کہ قرآن مجید سے استنباط میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔آپ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے جس اچھوتے انداز اور حکمت و دانائی سے تغییر الحکم کا مسئلہ اخذ کرتے ہیں، اس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔آپ فرماتے ہیں:
یہ امر ذہن نشین رہے کہ فلاحِ اِنسانیت کے جملہ عام قوانین میں حالات و واقعات کے تناظر میں تبدیلی کا اصول خود شارع یعنی اللہ رب العزت نے کتابِ مبین میں بیان فرمایا ہے۔ لچک، وسعت، تغیّر اور ابدیت و آفاقیت کے اس اصولِ تبدیلی کے بارے میں شارع (اللہ تعالیٰ) کا فرمان ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔
(المائدة، 5/3)
اس آیۂ کریمہ میں اﷲ رب العزت نے استنباطِ احکام کے تین بنیادی اصول و قاعدے بیان فرمائے ہیں، جنہیں دین کے تین Version/Edition بھی کہا جا سکتا ہے۔ ذیل میں موضوع کی مناسبت سے اس آیت کریمہ کی وضاحت درج کی جا رہی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔
آیت کے اس پہلے حصے میں دین کا پہلا ایڈیشن/ Version بیان ہوا ہے، جس میں اﷲ رب العزت نے دین کی تکمیل کا پیغام دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ دین قیامت تک آنے والے لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہے، تو پھر اس آیت کے نزول کے وقت تکمیلِ دین سے کیا مراد ہے؟۔ کیا دین اُس دور کے لئے مکمل کیا گیا یا قیامت تک کے آنے والے ہر دور میں انسانی زندگی کی رہنمائی کے لئے ایک مکمل دین ہے؟ لازمی بات ہے کہ دینِ اسلام قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے رہنمائی کا ساماں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر احکامِ شرع کو ہر دور کی انسانی زندگی کے لئے مکمل کیا گیا ہے، تو کیا انسانی زندگی اپنے خواص، احوال، ضروریات، کیفیات، معاشرتی، معاشی اور سیاسی ظروف و احوال اور ضروریاتِ شرع کے اعتبار سے چودہ سو سال گذر جانے کے بعد اُسی جگہ کھڑی ہے، جہاں چودہ سو سال پہلے اِس آیت کے نزول کے وقت کھڑی تھی یا تحرّک وتغیّر پذیر ہے؟ یہ امر بھی واضح ہے کہ زندگی ہر آن و لمحہ حرکت اور تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔
مذکورہ دونوں سوالات اور ان کے جوابات کے تناظر میں اگر ہم تکمیلِ دین کا معنیٰ نزولِ آیت کا وقت لیں، تو اس سے ایک طرف احوال و ظروفِ زندگی میں تحرّک و تغیّر کے بجائے، جمود کا ثبوت ملے گا اور دوسری طرف دین کی آفاقیت و ابدیت بھی متاثر ہو گی۔ عملی صورت میں انسانی زندگی تحرّک و ارتقا پذیر ہے۔ اگر ہر دور کی انسانی زندگی کے تحرّک و تغیّر کے ساتھ احکامِ شرع میں بھی تغیّر و تبدل نہ ہو، تو دین ہر زمانے میں ’اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ‘ کا آئینہ دار نہیں رہے گا۔
اگر زندگی تغیّر پذیر ہو، مگر تعلیمات و احکامِ دین کے اندر بدلتے زمانے کے ساتھ تغیّر و تبدّل کا امکان نہ ہو تو پھر دین اور زندگی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ گویا بدلتے حالات کے ساتھ احکام کا بدلنا ہی دین میں تکمیل کے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر دین اور زندگی کو ایک ساتھ چلنا ہے، تو پھر دین میں بدلتے حالات و عادات کے ساتھ چلنے کی بنیادی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔
وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ: اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی
آیت کریمہ کا دوسرا حصہ دین کا دوسرا ایڈیشن/ Version ہے۔ اِس حصہ میں اﷲ رب العزت نے واضح فرما دیا ہے کہ انسانیت پر اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہمیں دین جیسی عظیم نعمت بطورِ دستورِ حیات عطا کی ہے اور انسانی معاشرے کے لیے دین سے بڑھ کر کوئی عظیم نعمت نہیں ہو سکتی۔ اگر دُنیا کے کسی علاقے، ملک یا زمانے کے بدلتے حالات میں عامۃ الناس احکامِ دین سے مستفید نہ ہو سکے، تو ایسی صورتِ حال میں دین اُن کے لئے نعمت نہیں ہو سکتا۔ جس طرح انسان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ اقدس میں بدلتے حالات میں احکام کی تبدیلی سے فیض یاب ہوتے تھے، اگر آج کا انسانی معاشرہ بھی اُسی انداز میں دین سے فیض یاب نہ ہو سکے، تو ایسی حالت میں دین اُس کے لیے نعمت نہیں ہو سکتا۔ اگر دین ہر زمانے کے لئے نعمت ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی ہر زمانے میں دین سے یکساں مستفید ہوتی رہے۔ دین ایک دائمی نعمت تبھی بنے گا، جب وہ ہر زمانے اور ہر قسم کے حالات و واقعات میں اپنے ماننے والوں کی نہ صرف راہنمائی کرے گا بلکہ اُنہیں عمل کرنے کے لیے آسانی بھی عطا فرمائے گا۔
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا: اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا
آیت مبارک کا یہ حصہ دین کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ اس حصے میں ضمیر ’لکم‘ کے تعیّن سے دین کی آفاقیت و ابدیت متعین ہو جاتی ہے۔ اگر ’لکم‘ کا مخاطب نزولِ آیت کے زمانے کے لوگ یا معاشرہ یعنی صحابۂ کرام کو لیا جائے، تو اِس صورت میں دین کے جمود کا تصور ابھرتا ہے کہ شاید یہ اُسی دور کے لوگوں کے لیے بطورِ دین پسند کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ اس لیے کہ ’لَکُمْ‘ کا مخاطب صرف صحابۂ کرام نہیں بلکہ قیامت تک کا انسانی معاشرہ ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اِس حصۂ آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ قیامت تک کے انسانی معاشرہ کے لئے دین کو بطورِ نظامِ زندگی چُن لیاگیا ہے۔ وہ دین اﷲ کا منتخب نظامِ زندگی نہیں بن سکتا، جو ہر دور کی بدلتی ضروریات کی کفالت نہ کر سکے۔ لہٰذا اِس آیت کے ان تینوں پہلوؤں سے ثابت ہوتا ہے کہ احکامِ شرع میں بدلتے زمانے، احوال، عادات اور ظروف سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔
فلاحِ عامہ کے قوانین میں تبدیلی کے اصول کو قرآن مجید سے مستنبط کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دین میں آسانی کے پہلو کو اس اصول کی بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
دینِ اسلام میں بدلتے زمانے اور تغیّرِ احوال کے پیشِ نظر ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہر مسئلہ کے حل کی صلاحیت کے موجود ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے جملہ پہلوؤں اور تعلیمات کے اندر اللہ تعالیٰ نے آسانی وسہولت کو مقدم رکھا ہے۔ حتیٰ کہ متعدد آیاتِ قرآنیہ میں اللہ تعالیٰ نے ’’یُسر‘‘ (آسانی) کو پسندیدہ اور ترجیحی انداز میں بیان فرمایا ہے۔ اس اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دین میں آسانی اور وسعت کے پہلو کو پسندیدہ محل میں ذکر فرما کر اسے نرم اور بامروّت (accommodating)دین بنایا ہے اور دوسری طرف اس سے تنگی کا ذکر ناپسندیدہ محل میں کر کے دین کو جمود سے نکالا ہے۔ ارشاد فرمایا:
یُرِیْدُ ﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ.
(البقرة، 2/185)
اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا۔ اﷲ کا ارادہ ہے کہ تمہارے لیے آسانی پیدا فرمائے، وہ تمہارے لیے تنگی پیدا کرنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔
اِس آیت میں یسر (آسانی) کا ذکر، محلِ مدحت میں، جبکہ یسر (تنگی) کا ذکر محلِ مذمت میں کیا گیا ہے۔
گویا انسان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ تنگی سے پریشان نہیں ہونا، ان شاء اﷲ بہت جلد آسانی بھی آئے گی۔ اگر دین میں لچک ہو گی اور بدلتے حالات کے ساتھ ہم آہنگی پائے جائے گی تو دین پر عمل کرنا آسان ہو گا اور اگر لچک نہیں ہو گی تو سختی ہو گی۔ آسانی ہمیشہ لچک، متبادل اور گنجائش مانگتی ہے، اِس لیے فرمایا گیا کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے لیے وسعت، لچک، گنجائش اور آسانی کا ارادہ فرماتا ہے۔
حالات کے بدلنے کی وجہ سے احکامِ دین پر عمل کرنے میں جو مشکل پیش آتی ہے، اﷲ رب العزت اُس بوجھ کو ہلکا کر کے دین پر عمل کو آسان بنانا چاہتا ہے۔ عام حالات میں جو نماز فرض تھی حالتِ سفر میں اس قدر نماز کی ادائیگی ذرا مشکل تھی، تو اﷲ تعالیٰ نے اِس بوجھ کو ہلکا کر کے چار کے بجائے دو فرض ادا کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ عام حالات میں فرض روزے کو چھوڑنے کی سخت سزا ہے مگر حالتِ سفر، بیماری اور بڑھاپے میں اس بوجھ کو ہلکا کر دیا۔
علیٰ ھذا القیاس اگر نظامِ زندگی میں معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی بوجھ تو ہلکے ہو جائیں مگر دین پر عمل کرنے کے اعتبار سے بوجھ ہلکا نہ ہو، تو اﷲ تعالیٰ کے اس ارادے کا مطلب کیا ہو گا؟ دین میں آفاقیت و ہمہ گیریت کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہر زمانے میں، دُنیا کے ہر کونے میں بسنے والے کی ہر شرعی ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس کے اندر ہر زمانے کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی قدرتی صلاحیت موجود ہے۔ اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے بطورِ شارع، احکامِ دین میں تغیّرِ زمانی و مکانی اور احوال و عادات کے تغیّر کو سمو لینے کی صلاحیت رکھی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زندگی جمود و تعطل نہیں بلکہ مسلسل تحرّک و تغیّرکا نام ہے۔
جس طرح نظامِ زندگی میں تغیّر و تحرّک رونما ہوتے ہیں اور اجتماعی زندگی میں نئے نئے ظروف و احوال جنم لیتے ہیں، اسی مناسبت سے بدلتے حالات کے ساتھ دین بھی ایسی مطابقت پیدا کرتا ہے کہ بندہ دین پر عمل کرنے میں آسانی محسوس کرے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زمانہ اور حالات کے بدلنے سے شرعی احکام میں رعایت اور فلاحِ انسانیت کے قوانین میں تبدیلی کے اصول کی تیسری دلیل قرآن مجید سے دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ رب العزت نے کلیتًا حرام کردہ اشیاء کے شرعی حکم میں بھی احوال و واقعات کے تناظر میں رعایت و تبدیلی عطا فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ ﷲِج فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِط اِنَّ ﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، مگر جو شخص سخت مجبور ہو جائے، نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
(البقرة، 2/173)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں (مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کردہ جانور) کی حرمت بیان کی ہے، جن سے بڑھ کر کائنات میں کوئی چیز حرام اور ناپسندیدہ نہیں ہو سکتی۔اللہ تعالیٰ نے ان حرام اشیاء کا حکم بیان کرنے کے معاً بعد اضطراری حالت میں اِن اشیاء کا استثنائی حکم بھی بیان کر دیا تاکہ مجبور و بے بس کے لیے آسانی کا پہلو قائم رہے اور اگر کسی کو جان کا خطرہ ہو توان حرام اشیاء کو حسبِ ضرورت استعمال میں لا سکے۔ اس سے ہمیں قرآن کی قانون سازی کی حکمت (Quranic Juristic wisdom) کا اندازہ ہوتا ہے۔
زمانہ اور حالات بدلنے سے فتویٰ کے بدل جانے کے اصول کو قرآن مجید سے مستنبط کرنے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس اہم ترین موضوع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ سے بھی بیسیوں امثال پیش کیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اس پر شاہد و عادل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکامات کے بیان میں وسعت، آسانی، نرمی اور لچک کو بہر طور ملحوظ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مطہرہ کا ہر لمحہ اس امر کا عکاس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احوال و زمن کے تبدیل ہونے پر احکام کو بھی نہ صرف تبدیل کیا بلکہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی بھی اسی نہج پر تربیت فرمائی۔ اس تناظر میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
قرآن مجید کی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال اور پوری سیرت طیبہ سے بھی ہمیں ایسے متعدد نظائر ملتے ہیں جن میں ایک طرف تو دین کا آسانی و سہولت والا پہلو آشکار ہوتا ہے، تو دوسری طرف احوال و واقعات کے بدلنے پر شرعی احکام میں رعایت و تبدیلی کا اصول اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔ آئیے اسی ضمن میں احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ ظاہری میں بدلتے حالات اور لوگوں کی عرف و عادت کے مطابق قوانین میں تبدیلی کے ذریعے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ دین میں آسانی کے اِس پہلو کا جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی حیاتِ طیبہ سے مطالعہ کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی اختیارات میں شرعی قوانین سازی کا (آسانی والا) یہ بنیادی اصول واضح نظر آتا ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب کسی ایک ہی کام سے متعلق دو احکام یا اختیار (Options) آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن دو میں سے آسان راہ اختیار فرماتے۔ گویا آپ نے دو (Options) میں سے اپنی زندگی میں آسان عمل اختیار کرکے دین میں لچک اور نرمی کا اصول مہیا کر دیا تاکہ امت کو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کی روح کا فہم حاصل ہو سکے۔
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی اجازت ملی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسان کو اختیار فرمایا، جبکہ اس میں گناہ نہ ہو۔
(صحیح بخاری، 3/1287، رقم: 3387)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کی اساس یسر (آسانی) پر ہے، عسر (تنگی) پر نہیں۔
2۔ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کسی صحابی کو گورنر، مفتی، قاضی یا سپہ سالار بنا کر دوسرے علاقوں کی طرف روانہ کرتے، تو فرماتے:
آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ پھنساؤ۔ خوش رکھو اور متنفر نہ کرو۔
(صحیح بخاری، 1/38، رقم/ 69)
لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا (یعنی لوگوں کو دین اس طرح دینا کہ اُنہیں خوش خبری لگے، اس طرح پیش نہ کرنا کہ لوگوں کی طبیعتیں دین سے باغی ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ دین کے آسانی کے پہلو کو مدِ نظر رکھ کر لوگوں کو دین کی طرف راغب کریں، مشکل میں ڈال کر منتشر نہ کریں۔
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجدِ نبوی میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھ گیا، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے روکنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو دین سکھاتے ہوئے فرمایا:
اے صحابہ! آپ کوآسانی پیدا کرنے والا بنایا گیا ہے، نہ کہ تنگیاں اور مشکلیں پیدا کرنے والا۔
(صحیح بخاری، 1/89، رقم: 217)
جو دین آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو عطا کیا اور جس کے حاملین جماعتِ صحابہ کو بنایا، اُنہیں دین کا آسانی پر مبنی فہم بھی عطا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بھی صاف عیاں ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کا جو فہم و تصور دیا، وہ وسعت، لچک، نرمی اور آسانی پر مبنی تھا اور یہی وہ بنیادی عناصر ہیں، جو بدلتے ہوئے احوال و واقعات کے تناظر میں شرعی احکام میں رعایت اور تبدیلی کے متقاضی ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف اوقات میں سب سے افضل اور اَعلیٰ عمل کے بارے میں دریافت کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر سوال کے از خود ہی بعض اُمور کے بارے میں آگاہ فرما دیا کرتے تھے۔ مگر سائلین کے مختلف حالات، طبائع اور ضروریات کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف جوابات دیے ہیں۔ اگر ہم ان سب سے علی الاطلاق ایک دلیل یا ایک حکم اَخذ کرنے لگیں تو یہ اَمر کسی عمل کو سب پر فضیلت دینے میں تضاد اور تناقض کا باعث بن جائے گا۔ اس کی چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
1۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اﷲ! سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
پھر کہا گیا: اس کے بعد سب سے اَفضل عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد۔
پھر کہا گیا: اِس کے بعد کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حج مبرور (مقبول حج)
( صحیح بخاری، 2/553، رقم: 1447)
2۔ اسی طرح ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:
اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ (راوی کہتے ہیں کہ صحابی حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے دوبارہ) عرض کیا: پھر کون سا (عمل افضل ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: والدین سے حسنِ سلوک کرنا۔ اُنہوں نے عرض کیا: پھر کون سا (عمل بہترین ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔
( صحیح بخاری، 5/2227، الرقم: 5625)
3۔ حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کسی ایسے عمل کا حکم فرمائیں، جسے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (بطور نصیحت) لازم پکڑ لوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:
روزہ کو لازم پکڑو۔ بے شک اس کی مثل کوئی اور عبادت نہیں ہے۔
(سنن نسائی، 4/165، رقم: 2220)
4۔ ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن کس صاحبِ عمل کا درجہ سب سے بلند ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں کا۔
(سنن ترمذی، 5/458، رقم: 3376)
اس کے علاوہ دیگر احادیث جو اِسی طرح کے مضمون کی حامل ہیں، یہ واضح کرتی ہیں کہ ایسے اَحکام میں بیان کردہ تفصیلات علی الاطلاق نہیں ہوتیں۔ ایسے بہت سے اَحکام لوگوں کے ظروف، حالات اور واقعات کے پیش نظر بدلتے رہتے ہیں اور ان کا اِطلاق و نفاذ بھی مختلف حالات میں مختلف طریقے سے کیا جاتا ہے۔ یہ اُصول اِسلامی اَحکام کی بنیادی حکمتوں اور مصلحتوں میں سے ہے۔ اور یہ کہ مصلحت اور حکم طبقات اور اَحوال کے بدلنے سے بدل جاتا ہے۔
افضلیت کے باب میں اگر ان مذکورہ احادیث کو جمع کر دیا جائے اور ان سے علی الإطلاق ایک ہی اصول و قاعدہ کے تحت حکمِ افضلیت اخذ کرنے کی کوشش کی جائے، تو احادیث میں تناقض و تضاد آ جائے گا جو کہ مقام و شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافی ہے، نیز ہمارے لیے ان میں سے کس عمل کو افضل قرار دینے میں بھی مشکل پیش آئے گی۔ اس ظاہری تضاد کو ختم کرنے کے لیے سائلین کے احوال کی رعایت کو مدِنظر رکھنا ہو گا۔ آپ علیہ السلام نے ہر سائل کو وہ عمل افضل بتایا، جس کی اس میں کمزوری تھی۔ اگر کسی میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان میں کمزوری تھی، تو اس کے لیے ایمان کو افضل قرار دیا۔ اگر کسی میں جہاد کا جذبہ کم پایا جاتا تھا تو اسے جہاد کی ترغیب کے لیے جہاد افضل قرار دیا۔کسی میں نماز کی پابندی نہیں تھی تو اس کے لیے نماز افضل عمل قرار پائی۔ اگر کوئی والدین کا ادب کرنا نہیں جانتا تھا تو اس کے لیے والدین کا ادب افضل تھا۔
لَا تُقْطَعُ الْأَیْدِي فِي السَّفَرِ.
سفر میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔
(أبو داود، السنن، کتاب الحدود، بَابُ فِي الرَّجُلِ یَسْرِقُ فِي الْغَزْوِ أَیُقْطَعُ، 4/142، الرقم: 4408)
علیٰ ھذا القیاس جس میں جس عمل کی کمی دیکھی یا اس کے لیے جو مناسب جانا، وہی عمل اس کے لیے افضل قرار دے دیا۔سائل کا جو حال ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حال کے مطابق جواب عطا فرماتے۔ گویا جیسے سائلین کے احوال بدل رہے تھے، ویسے ہی حکمِ شرعی میں بھی تغیّر و تبدل ہو رہا تھا۔
مندرجہ بالا امثلہ سے کسی کا ذہن اس طرف نہ جائے کہ یہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی خصائص ہیں۔ لہٰذا ہم تو اس طرح کی تبدیلی کا قطعًا کوئی حق نہیں رکھتے، خواہ حالات کیسے بھی ہوں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جو شان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے وہ قیامت تک کسی کی نہیں ہو سکتی مگر ہم ان احادیثِ مبارکہ سے قانون اور اصول اخذ کر رہے ہیں کہ وہ کون سی حکمت تھی جس کے پیش نظر آپ علیہ السلام نے احکامِ شرع میں اتنی لچک دکھائی کہ اصل حکم کے بالکل برعکس حکم بھی صادر فرما دیا گیا:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہونے کے باوجود، ان امثلہ سے ہمیں یہ قاعدہ و اصول ملتا ہے کہ جیسے جیسے احوال بدل جاتے ہیں ویسے ویسے حکم بھی بدل جاتا ہے۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اِسلامی سلطنت بہت قوی الاقتدار تھی، جس میں رعایا کے حقوق اور مصالح کا بدرجۂ اتم خیال رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پورا دور عظیم الشان فتوحات اور نمایاں تغیرات سے مملو تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئی نئی ضروریات پیدا ہوگئیں اور پرانے رسوم و رواج بدل گئے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعض اَحکام بتقاضاے ضروریات و حسبِ رواج تبدیل کرنے پڑے۔
قرآن مجید میں ہر کتابیہ عورت سے نکاح کی اِجازت موجود ہے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیاستِ شرعیہ کی حکمت کے تحت کتابیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کر دی۔ اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام محمد بن حسن الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک یہودیہ عورت سے شادی کرلی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو لکھا:
میں آپ کو تاکیداً حکم دیتا ہوں کہ میرے اِس مکتوب کو پس پشت نہ ڈال دینا بلکہ اس کتابیہ خاتون کو فوری طور پر آزاد کردو۔ مجھے خدشہ ہے کہ مسلمان تمہاری اِقتدا کریں گے اور وہ بھی اَہل ذمہ کی عورتوں کی خوب صورتی کے سبب انہیں اپنائیں گے اور سیاسی و انتظامی مشکلات کے جال میں پھنس جائیں گے۔ مزید برآں یہ چیز مسلمان عورتوں کے لیے بھی فتنہ کا باعث بنے گی۔
(محمد بن الحسن الشیباني، کتاب الآثار، 1/394، الرقم: 412)
3۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دے دیتا تو عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عہدِ صدیقی اور اوائل عہدِ فاروقی میں وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت بیان کرتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے تین بار طلاق دینے کے حق کو استعمال کرنے میں عجلت شروع کر دی ہے، جس میں ان کے لیے مہلت دی گئی تھی۔ لہٰذا اگر ہم بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی کے طور پر نافذ کر دیں تو بہتر ہوگا۔ شاید لوگ اس کے نقصان کے باعث احتیاط کرنے لگیں۔ پھر آپ نے تین طلاقوں کے حکم کو نافذ کر دیا۔
(صحیح مسلم، 2/1099، رقم: 1472)
گویا رواج یا لوگوں کا مزاج بدل جانے کے باعث اُنہیں اِس اَمر سے روکنے کی خاطر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سخت حکم اپنانے کی تدبیر اختیار فرمائی۔
تمام فقہاء کرام نے ’ لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ (زمانہ بدلنے سے اَحکام کا بدل جانا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے)‘‘ کے قاعدے کے تحت مختلف حالات و واقعات کے تناظر میں اَحکام کے تبدیل ہو جانے کے فتاویٰ جاری کیے تاکہ مصلحتِ عامہ کا شرعی مقصد فوت نہ ہو جائے۔
1۔ امام اَعظم ابو حنیفہ (م150ھ) کے حوالے سے امام علاء الدین الکاسانی (م587ھـ) لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اپنے دور میں گواہ کے ظاہراً عادل ہونے پر اکتفاء کرتے ہوئے مستور الحال یعنی غیر معروف شخص کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے، مگر امام ابو یوسف اور امام محمد نے بعد ازاں اس قسم کی گواہی سے منع کر دیا، کیوں کہ ان کے دور میں لوگوں کے عمومی اَخلاقی حالات بدل چکے تھے۔ امام کاسانی ’’بدائع الصنائع‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فقہاء کے مابین بیان کردہ اختلاف، اختلافِ زمانی ہے نہ کہ حقیقی اختلاف؛ کیوں کہ امام اعظم ابو حنیفہ کا زمانہ خیر و صلاح کا زمانہ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ زمانہ تابعین کا تھا، جن کی اچھائی کے بارے میں خود حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گواہی دیتے ہوئے فرمایا تھا: میری امت میں بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو اس کے بعد کے زمانے کے ہیں اور پھر وہ جو اس کے بعد کے زمانے کے ہیں(یعنی تابعین)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان اَدوار کے بعد جھوٹ ظاہر ہوگا۔ گویا امام ابو حنیفہ کے دور کے لوگوں میں صالحیت اور راست بازی کا غلبہ تھا، اس لیے اس دورکے لوگوں کے چھپے ہوئے حال کے بارے میں بالعموم سوال اور تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر زمانہ بدل گیا اور صاحبین کے زمانے میں اَخلاقی فساد ظاہر ہونے لگا، اس صورت میں بدلے ہوئے حالات کے مطابق گواہوں کی عدالت کے بارے میں چھان بِین کے لیے سخت قواعد اپنا لیے گئے۔‘‘
(الکاساني، بدائع الصنائع، 6/270)
2۔ امام ابو الحسن احمد بن محمد القدوری (م428ھ) تغیر الاحکام کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اگر کسی ملک / شہر میں کوئی خاص عادت (custom or usage) رائج ہے تو حکم اُس معروف عادت کے مطابق ہوگا، لیکن جب عادت بدل جائے گی تو حکم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(القدوری، الموسوعة الفقهیة المقارنة المسماة: التجرید، کتاب الأیمان، 12/6456، المسألة/1581، الرقم: 31979)
3۔ امام ابن نجیم (م970ھ) ’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں لکھتے ہیں:
اَحکام عرف پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر علاقے اور ہر زمانے میں اُس کے عرف کا اِعتبار کیا جاتا ہے (یعنی حالات بدل جانے سے حکم بدل جاتا ہے)۔
(ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، 6/148)
4۔ ابن عابدین شامی (م1252ھ) اپنی معروف کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں ’’تغیر الاحکام‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
اگر مجتہد کی زندگی میں عرف بدل جائے تو یہ تبدیلی بذاتِ خود حکم کی تبدیلی کے لیے نص کا کام دیتی ہے۔
(ابن عابدین الشامی، رد المحتار علی الدر المختار، 5/177)
ایک اور مقام پر اپنی رسالے ’’ نَشْرُ الْعُرْفِ فِيْ بَنَاءِ بَعْضِ الْأَحْکَامِ عَلَی الْعُرْفِ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
شرائطِ اجتہاد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قاضیان عظام اور مفتیان کرام لوگوں کی عادات سے آشنا ہوں کیوں کہ بہت سے اَحکام تغیر زمانہ کے باعث لوگوں کے رسم و رواج کی تبدیلی سے یا کسی نئی پیش آمدہ ضرورت کی وجہ سے یا اس دور کے لوگوں کی زندگی میں فساد انگیزی کے سبب تبدیل ہو جاتے ہیں۔
(محمد آمین آفندی، مجموعة رسائل ابنِ عابدین (نشر العرف فی بناء بعض الأحکام علی العرف)، 2/125)
5۔ دورِ جدید کے معروف حنفی فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء اپنی کتاب ’’شرح القواعد الفقہیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
زمانوں کے بدلنے سے احکام کے بدلنے کا انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہاں زمانوں کے بدلنے سے مراد اَہلِ زمانہ کے عرف وعادت (usage, custom and circumstances) کا بدل جانا ہے۔ جب ان کا عرف و رواج اور عمومی عادت کسی خاص حکم کا تقاضا کرتی تھی تو وہ حکم اسی کے مطابق ہوتا تھا۔ جب وہ عرف و عادت کسی مختلف طریقے یا نہج میں بدل گئی تو حکم اسی کی موافقت میں بدل جائے گا جس کی طرف وہ عرف و عادت منتقل ہوگئی ہے۔
(مصطفٰی الزرقا، شرح القواعد الفقهیة، 1/227)
6۔ امام مالک بن انس نے اپنے فتاویٰ کی بنیاد اپنے زمانے کے اَحوال اور عرف پر رکھی۔ جیسا کہ امام قاسم بن عبد اﷲ بن الشباط (م723ھ) لکھتے ہیں:
امام مالک کا اپنے زمانے کے عرف پر فتویٰ کی بنیاد رکھنا ظاہر و باہر ہے۔ اور آپ کا یہ قول کہ عرف کے بدلنے سے فتویٰ اور حکم بدل جاتا ہے، بالکل درست ہے۔
( ابن الشباط، إدرار الشروق علی أنوار الفروق علی حاشیة أنوار البروق فی أنواء الفروق للقرافي، 3/175)
7۔ امام ابو عبد اﷲ المازری، زمان و مکان اور عادات و احوال کی وجہ سے فتویٰ کے بدلنے پر فرماتے ہیں:
اگر مفتی یا قاضی کے پاس (کسی دوسرے علاقے سے) کوئی شخص (طلاق کے باب میں) اِس قسم کے کسی لفظ کے حوالے سے فتویٰ پوچھنے یا حکم لینے کے لیے آئے اور مفتی کے علاقے یا ملک میں ان الفاظ کے ساتھ دی جانے والی طلاق کو تین طلاقیں سمجھا جاتا ہو۔ یا اس کے علاوہ دیگر ایسے احکام کا معاملہ ہو (جن میں ایک علاقے اور دوسرے علاقے کے حالات میں عرف و عادت کی وجہ سے اختلاف ہو سکتا ہو)۔ الغرض ایسے مسائل کے بارے میں فتویٰ پوچھا جائے تو مفتی (دوسرے علاقے کے سائل کو) اپنے علاقے کے حالات کے مطابق فتویٰ نہ دے، بلکہ سائل سے پوچھے کہ وہ کس علاقے یا ملک سے ہے اور پھر اُس علاقے کے حالات و ظروف کے مطابق فتویٰ دے (اگرچہ اس مفتی کے اپنے علاقے کے حالات میں اس مسئلہ کا فتویٰ مختلف ہی کیوں نہ ہو)۔
(القرافی، أنوار البروق فی أنواء الفروق، الفرق الأول، 1/128، الرقم/236)
8۔ ابنِ قدامہ مقدسی لکھتے ہیں کہ حسین بن بشار، امام احمد بن حنبل کی خدمت میں طلاق کا مسئلہ پوچھنے پیش ہوئے۔آپ نے جواب دیا کہ ایسا کرنے والا حانث ہو گا۔ سائل نے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی دوسرا مفتی مجھے اس میں آسان حل بتا دے تو اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: مدینہ منورہ میں رصافہ کے مقام پر مفتیوں کی ایک جماعت ہے، جن کے بارے میں سنا ہے کہ آسانی پر مبنی فتویٰ دیتے ہیں، آپ ان سے فتویٰ لے لیں۔حسین بن بشار نے پوچھا کیا میرے لیے اس پر عمل کرنا ممکن اور جائز ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں جائز ہے۔ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ (ان کا یہ عمل) فتویٰ کے بعد بھی (دوسرے فتوے پر عمل) کے اختیار پر دلالت کرتا ہے۔
(ابنِ قدامه المقدسی، روضة الناظر، 1: 386)
9۔ امام ابو العباس القرافی: ’تغیر الأحکام بتغیر الظروف والأحوال‘ کی بابت فرماتے ہیں:
جب بھی عرف (custom) میں کوئی نئی چیز آئے تو اس کا اعتبار کرو اور جب ختم ہو جائے تو اسے چھوڑ دو۔ ساری عمر کتاب میں لکھی ہوئی سطور میں بند ہو کر نہ رہ جاؤ۔ یعنی اپنے آپ کو عمر بھر کتابوں میں نقل شدہ مسائل تک ہی محدود نہ کیے رکھو (بلکہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر خوب نظررکھ کر علمی تحقیق اور فتاوی کو آگے بڑھاتے رہو)۔
(القرافی، أنوار البروق فی أنواء الفروق، الفرق الثامن والعشرون، 1/314، الرقم: 811)
امام القرافی مزید لکھتے ہیں:
محض کتابوں میں نقل شدہ مسائل میں جمود کا شکار ہونا شریعت میں گمراہی کے زمرے میں آتا ہے اور مسلمان اکابر علماء اور اَسلاف کے بیان کردہ مقاصد سے لاعلمی اور جہالت کے مترادف ہے۔ اس قاعدے پر طلاق اور عتاق کی قسمیں اور صریح و کنایہ کے تمام صیغے بھی متفرع ہوتے ہیں کیوں کہ بعض اوقات صریح، کنایہ میں بدل جاتا ہے اور اسے نیت کی محتاجی ہوتی ہے اوربعض اوقات کنایہ، صریح بن جاتا ہے اور وہ نیت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ (لہٰذا جملہ مسائلِ شرعیہ میں اَحکام وضع کرتے ہوئے اَحوال و ظروف اور حالات و واقعات سے گہری شناسائی اَز بس ضروری ہے۔)
(القرافی، أنوار البروق فی أنواء الفروق، الفرق الثامن والعشرون، 1: 314-315، الرقم: 811)
10۔ علامہ ابن قیم زمان و مکان اور حالات و عادات کے لحاظ سے فتویٰ میں تبدیلی کے بارے میں لکھتے ہیں:
زمانے، مقامات، حالات، نیّات اور عادات کے بدلنے سے فتوی کا بدلنا بہت نفع مند اَمر ہے، مگر جہالت کی وجہ سے لوگ اس ضمن میں شریعت کے بارے میں بہت بڑی غلطی کا اِرتکاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو حرج، مشقت اور تکلیف میں ڈالتے ہیں۔ حالاں کہ اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں، کیوں کہ وہ نہیں جانتے کہ مصلحت کے اعلیٰ درجے کی حامل روشن شریعت حرج، مشقت اور تکلیف لے کر نہیں آئی، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کی بنیاد حکمتوں، لوگوں کی دنیاوی اور اُخروی بہبود اور فلاحی مصلحتوں پر ہے اور شریعت سراسر اِنصاف کا نام ہے، سراسر رحمت و مصلحت کا نام ہے اور سراسر حکمت و دانش مندی کا نام ہے۔
(ابن القیم، إعلام الموقعین، 3: 3)
اس خصوصی نشست کے آخر میں حضرت شیخ الاسلام نے علمائے کرام اور مفتیانِ عظّام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’فتویٰ اور تحقیق میں ہمیشہ بڑوں کے احترام کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی کتب سے سیکھیں، مگر ان کی سطور کے قیدی بن کر نہ رہ جائیں۔اسلاف کے فتوے ہمیں فکری آزادی کا درس دیتے ہیں، کیوں کہ اگر وہ سابقین کے فتووں میں قید ہو جاتے تو نہ اس طرح کے فتوے لکھ سکتے اور نہ ہی علم کی نئی دنیا آباد کر سکتے۔ لہٰذا اسلاف کے بنائے قواعد سے سیکھیں اور وسعتِ قلبی و نظری پیدا کریں، کیوں کہ علم وسعت کا نام ہے، تنگی کا نہیں۔ علم زندگی ہے۔ اگر علم زندہ نہ ہو تو نہ درپیش چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ اس کی ضرورتوںکو پورا کر سکتا ہے اور نہ ہی زمانے کے بدلتے حالات کا کفیل ہو سکتا ہے۔ نئے زمانے کے ساتھ تعلق بھی علم نے جوڑنا ہے۔ وہی علم اس تعلق کو جوڑے گا، جس میں تحرّک ہو گا۔جو پہلے زمانوں کی لکھی سطور سے باہر آنے کو تیار نہیں، اسے آنے والا زمانہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔‘
فقہاء جو کچھ لکھتے ہیں حق ہوتا ہے، مگر یاد رکھیں کسی کی کتاب، قول، مذہب یا فتویٰ قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔ جب کسی فقیہ کی کتاب، قول، مذہب یا فتوے کو قرآن و حدیث کا درجہ دیں گے تو وہیں سے دین ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے کہ جو ان کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ جو ہم سے، ہماری رائے سے، ہمارے مذہب یا فتویٰ سے اختلاف کرے، یاد رکھیں! اس پر کبھی تکفیر کا فتویٰ نہ لگائیں۔ ایسا کرنا، کرنے والے کی جہالت، لاعلمی اور دینِ اسلام کی تعلیمات کی حقیقی روح سے ناآشنائی کی دلیل ہو گا۔
ابن خلدون (مقدمۃ ابن خلدون، 1/29) لکھتے ہیں کہ:
’’دنیا کے حالات اور اقوامِ عالم کی عادات ہمیشہ ایک حالت پر باقی نہیں رہتیں۔ دنیا تغیراتِ زمانہ اور اِنقلاباتِ اَحوال کا نام ہے۔ جس طرح یہ تبدیلیاں افراد، ساعات اور شہروں میں ہوتی ہیں اُسی طرح دنیا کے تمام گوشوں، تمام زمانوں اور تمام حکومتوں میں واقع ہوتی ہیں۔ یہی رب تعالیٰ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے‘‘۔
لہٰذا! اَحکام، قضایا اور فتاویٰ صادر کرتے ہوئے اِس اُصول کو نظر انداز کر دینا شریعت اِسلامیہ کے اصل اَغراض و مقاصد سے اِنحراف ہوگا۔ یہ اُصول معاشروں اور طبقات کی زندگی پر اجتماعی طور پر بھی نافذ العمل ہوگا، افراد کی نجی یا باہمی زندگی کے اَحوال پر بھی وارد ہوگا اور مخصوص واقعات، حادثات اور قضیات کے باب میں بھی اِسی شدت اور گہرائی کے ساتھ نافذ ہوگا۔ یہی قرآنی تشریع کی روح اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتی اساس ہے۔ اِسی اُصول پر سلف سے خلف تک تمام اَئمہ مذاہب اور فقہاء و علماء کا اجماع رہا ہے اور اِس اُصول کے ساتھ ہی قوانینِ شریعت کا تحرّک، آفاقیت اور ابدیت قائم و دائم ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری یہ دعا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّ ظلّہ العالی کو صحت و عافیت والی عمرِ خضر عطا فرمائے اور ہمیں ان کی علمی و روحانی کاوشوں کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین!
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2019ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved