محمد افضل قادری
قرآنِ مجید رشد و ہدایت کا ایسا سرچشمہ ہے جو ﷲ اور بندے کے درمیان ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسی رسی ہے جس کو تھامے بغیر نہ تو خدا تک رسائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی۔ کسی بھی تحریک، تنظیم یا جماعت کی حقانیت اور اقرب الی الصواب ہونے کا معیار صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے۔ جو قرآنِ مجید سے جتنا زیادہ متمسک ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ حق پر ہے اور جو نورِ قرآن سے جتنا دور ہو گا وہ اتنا ہی ہدایتِ الہی سے محروم ہے۔ ﷲ تعالی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
یَّهْدِیْ بِهِ ﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo
’’ﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے۔‘‘
(المائده: 5: 16)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنِ مجید کو ’’حبل ﷲ‘‘ یعنی ﷲ تک پہنچانے والی رسی قرار دیا ہے۔ حضرت زید بن ارقم ص بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کِتَابُ ﷲِ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَبْلُ ﷲِ مَنِ اتَّبَعَهُ کَانَ عَلَی الْهُدَی وَمَنْ تَرَکَهُ کَانَ عَلَی ضَلَالَةٍ.
’’ اللہ تعالیٰ کی کتاب اصل میں اللہ کی رسی ہے جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اس کو ترک کردے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔‘‘
(صحیح مسلم: 2408)
اس فرمانِ رسول نے اس حقیقت کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ قرآنِ مجید حق و باطل اور ہدایت و گمراہی کا معیار اور کسوٹی ہے۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک حقیقی کامیابی کا پیمانہ صرف قرآن مجید ہے۔ جو قرآن سے متمسک ہو جائے گا ہدایت پا لے گا اور جو اس سے گریزاں ہو گا، گمراہ ہو جائے گا۔ بقول ترجمانِ حقیقت علامہ محمد اقبال:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
تحریک منہاج القرآن کا قرآنِ مجید کے ساتھ گہرے ربط و اتصال کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے مؤسس و بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے جب 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک کی بنیاد رکھی تو اس کا نام ہی ’’منہاج القرآن‘‘ یعنی قرآن کا راستہ رکھا۔ اسی سال اپنے تفسیری مجموعہ کو بھی ’’تفسیر منہاج القرآن‘‘ کے نام سے معنون کیا۔ 22 مئی 1981ء کو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں ’’تسمیۃ القرآن‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی اور پھر عوامی سطح پر قرآنی علوم کے فروغ کے لیے 18 مارچ 1982ء کو شادمان لاہور میں عظیم الشان ‘‘قرآن کانفرنس‘‘ منعقد کی تا کہ رجوع الی القرآن کی تحریک کو پذیرائی حاصل ہو۔ قومی سطح پر انوار قرآن کو عام کرنے کے لیے جب 1983ء میںPtv پر درسِ قرآن کا آغاز ہوا تو اس کا نام بھی ’’فہم القرآن‘‘ رکھا۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے گراس روٹ لیول تک علومِ قرآنیہ کے فروغ کے لیے وفاق سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں دروسِ قرآن کا اجراء کیا۔ 5 ستمبر 1980ء کو لاہور میں، مارچ 1984ء کراچی میں، مئی 1985ء اسلام آباد میں، دسمبر 1985ء پشاور میں اور جولائی 1986ء کوئٹہ میں درسِ قرآن کا آغاز ہوا۔ ان ساری تاریخی معلومات کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ تحریک کے نام اور اس کے کام نے پہلے دن سے ہی اس امر کو طے کر دیا تھا کہ اس کی فکری اساس قرآنِ مجید ہوگی۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ شیخ الاسلام نے تحریک کے اہدافِ سبعہ میں تیسرا ہدف ’’رجوع الی القرآن‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان کے بعد ہمارا بنیادی منشور اور دستور صرف قرآنِ مجید ہو گا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی فکر کا بنیادی امتیاز یہ ہے کہ آپ نے اُمت کے ہر مرض کے اسباب کی تشخیص کر کے اس کا مناسب علاج قرآنِ مجیدسے تجویز کیا۔ آپ کے نزدیک قرآن مجید سے انحراف ایسا مرض ہے جس نے اُمت کی علمی، فکری، نظریاتی، سیاسی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی و تہذیبی بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ اس کے تشخص اور وقار کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس مرض کی اصلاح کے لیے آپ نے تحریک کے بنیادی اہداف میں ’’رجوع الی القرآن‘‘ کو تیسرا ہدف قرار دیا اور اس کے لیے درج ذیل پانچ تقاضے متعین کئے ہیں:
ان معروضات سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ شیخ الاسلام کے نزدیک اگر کسی کی تحریکیت اور وابستگی کو پرکھنا ہو تو اس کے قرآنِ مجید سے تعلق کو دیکھو، جو جتنا زیادہ قرآنِ مجید سے متمسک ہے وہ اتنا ہی زیادہ تحریک کی فکر سے آشنا ہے۔ کیوں کہ وہ ’’منہاج القرآن‘‘ یعنی قرآن کے راستے پر ہے اور جو جتنا قرآنِ مجید سے دور ہے اس کا اتنا ہی تعلق تحریک سے کمزور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ’ قرآنِ مجید‘ تحریک کی سپرٹ ہے اور سپرٹ کے بغیر جسم مردہ ہوتا ہے۔ جو شخص عملاً تو تحریک کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرتا ہے مگر فکری اور علمی طور پر قرآنی فیوضات سے اپنی عقل و خرد کو روشن اور قلب و روح کو منور نہیں کرتا وہ مقاصدِ تحریک سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
شیخ الاسلام نے قرآنی فکر کو عام کرنے اور اسے علمی اساس مہیا کرنے کے لیے قرآنِ مجید اور علوم القرآن پر متعدد اور نہایت وقیع کتب تصنیف کیں۔ اب تشنگانِ علم ان قرآنی حقائق و معارف اور اسرار و غوامض تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو ان کتب کے بغیر بہت مشکل تھی۔ ذیل میں درج کی گئی کتب کی فہرست سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بانیٔ تحریک نے کتنی عرق ریزی اور محنتِ شاقہ کے ساتھ یہ نہایت مفید لٹریچر تیار کیا تاکہ فہمِ قرآن کی اس تحریک کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا سکے۔ چند کتب نام ملاحظہ فرمائیں:
تَسْمِیَةُ الْقُرْآن (تفسیر بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ)
قرآن کے بیسیوں متنوع پہلوؤں پر ان تمام تصنیفات کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرآن فہمی کی اس تحریک کو علمی وفکری سطح پر اتنا جامع لٹریچر فراہم کر دیا جائے کہ لوگوں کو قرآنِ مجید سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
قرآن فہمی کے بنیادی طور پر دو ذرائع ہیں: تقریر اور تحریر۔ شیخ الاسلام نے ان دونوں اصناف کی اساس کو مروجہ اسلوب کی بجائے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ پر استوار کیا۔ قصص و حکایات کی بجائے براہ راست نفسِ مضمون پر آیات سے استدلال کیا اور ثابت کیا کہ تقریر و تحریر میں کتاب و سنت جیسے بنیادی منابع سے استنباط کرنا بہترین طریقہ ابلاغ ہے۔ آپ مد ظلہ العالی نے علمی و تحقیقی مجالس کے علاوہ خطابات و مواعظ میں بھی قرآنی دلائل کو فوقیت دینے کی روایت کی تجدید کی۔ آپ کی تالیف کردہ کتب احادیث کا بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ آپ نے ہر باب یا فصل کے ذیل میں موضوع سے متعلقہ آیاتِ قرآنیہ درج کی ہیں تا کہ احادیث کا مطالعہ کرنے والوں کا قرآن حکیم کے ساتھ بھی گہرا تعلق استوار ہو۔
آپ نے فہم قرآن کو عام کرنے کے لیے نہ صرف علومِ شرعیہ کے لیے معیاری درس گاہیں قائم کیں بلکہ ان سے فارغ التحصیل علماء کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ’’درورسِ عرفان القرآن ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا۔ ملک کے طول و عرض میںچلنے والے ان حلقات سے لاکھوں لوگ نورِ قرآن سے اپنے سینوں کو منور کر رہے ہیں۔ آپ کے تلامذہ ملٹی میڈیا کے ذریعے جدید تکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے نہایت آسان پیرائے میں عوام الناس کو قرآن سکھا رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں ہر روز کہیں نہ کہیں دروسِ عرفان القرآن کے حلقات منعقد ہوتے ہیں جن میں کثرت کے ساتھ عوام و خواص شریک ہو تے ہیں۔
غیر عربی دان طبقہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس قرآن کریم کا جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سلیس اور عام فہم ترجمہ میسر نہیں تھا۔ انہیں کسی ایسے ترجمۂ قرآن کی شدید طلب و ضرورت تھی جو منشاء و مرادِ الہی کی ترجمانی بھی کرے اور نہایت اختصار کے ساتھ تفسیر کا حامل بھی ہو۔۔۔ جو نسلِ نو کے عقیدہ کی اصلاح بھی کرے اور روحِ اسلام سے متعارض مغربی افکار کا توڑ بھی۔۔۔ جو عقل و خرد کو روشن بھی کرے اور قلب و روح کو بالیدہ بھی۔ الحمد للہ شیخ الاسلام نے ان تمام عصری، فکری اور اعتقادی مقتضیات کی رعایت کرتے ہوئے ایسا رواں اور شستہ ترجمہ کیا کہ جس نے قاری کو قرآنِ مجید سمجھنے کے لیے بے شمار تفاسیر سے بے نیاز کر دیا۔ فہمِ قرآن کی اس تحریک کا فیضان عالمگیر کرنے کے لیے اس وقت عرفان القرآن کا انگریزی، نارویجن (Novwegin)، فنش (Finnish)، ہندی، سندھی، یونانی، بنگالی، فرانسیسی اور ڈینش(Danish) زبانوں میں ترجمہ شائع کیا جا چکا ہے۔ ان تراجم کے ذریعے شیخ الاسلام کا قرآنی فہم چہار دانگ عالم میں پھیلے گا اور اردو دان طبقہ کے علاوہ دیگر خطوں کے لوگ قرآنی انوار سے مستنیر ہوں سکیں گے۔
جیسا کہ آغاز میں ذکر کیا گیا ہے کہ شیخ الاسلام نے اپنی دعوت کا آغاز ہی دروسِ قرآن سے کیا اور 1980ء میں ہی اپنے تفسیری مجموعہ کو ’’تفسیر منہاج القرآن‘‘ سے موسوم کر دیا تـھا۔ بعد ازاں سورةُ الفاتحہ جزو اَوّل اور سورۃ البقرہ کے حواشی کو تفسیر منہاجُ القرآن کے نام سے الگ الگ شائع کیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام مد ظلہ العالی اپنی تمام کتب میں کسی بھی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کثرت سے آیاتِ قرآنیہ سے استدلال کرتے ہیں تاکہ قاری کو نفسِ مضمون پر زیادہ سے زیادہ قرآنِ مجید سے شناسائی ہو۔ آپ کا تفسیری ذوق اس حوالے سے بالکل منفرد ہے کہ آپ نے ایک طرف اعتقادی و روحانی حوالے سے اسلاف و اخیار سے اکتسابِ فیض کیا اور دوسری طرف عصری مقتضیات کی رعایت کرتے ہوئے جدید ذہن کا بھی خیال رکھا۔ اس طرح آپ کی تفسیر نہ صرف صاحبانِ قلب و روح کی تسکین کا سامان کرتی ہے بلکہ صاحبانِ عقل و خرد کو بھی روشنی مہیا کرتی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اپنے نصف صدی کے وسیع مطالعہ، مشاہدات و تجربات اور وہبی فیوضات کے توسط سے بحرِ قرآنی میں پنہاں صدف میں ایسے ایسے گوہرِ نایاب دریافت کیے ہیں جن کا آج کے زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب کتنی بد نصیبی کی بات ہو گی اگر ہم ان عیاں اور درخشاں انوار سے مستفید و مستنیر نہ ہوں۔ شاعرِ منہاج جناب انوار المصطفیٰ ہمدمی نے کتنی درد مندی اور دلسوزی سے قرآں گریز طبقات کو دعوت فکر دیتے ہوئے فرمایا:
سوچئے! ہم کتنی گہری پستیوں میں جاگرے
جب سے توڑی دامنِ قرآن سے وابستگی
پھر پلٹنا ہوگا ہم کو نورِ قرآں کی طرف
پھر اُسی منہاجِ قرآں پر رواں ہو زندگی
قرآنِ مجید اگرچہ تمام علوم و فنون کا منبع ہے اور اس میں انسان کے تمام مادی، علمی، فکری اور روحانی مسائل کا علاج موجود ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں جن میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ قرآنِ مجید سے براہ راست اپنے مسائل کا شافی حل تلاش کر سکیں۔ جواب بالکل واضح ہے کہ قرآن گریزی کے اس دور میں ایسے لوگ بہت کم ہیں اور جو ہیں ان میں بھی قوتِ استدلال اور وسعتِ نظری اتنی نہیں ہے کہ اعماقِ قرآنی سے مقصودِ حیات تلاش کر سکیں۔ ان حالات میں اِس امر کی اشد ضرورت تھی کہ آیاتِ قرآنیہ میں موجود مضامین و مطالب کو جدید اور آسان پیرائے میں اس طرح نظم دیا جائے کہ غیر عربی دان طبقہ بھی ان تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکے اور امورِ حیات میں ان سے بھرپور رہنمائی لے سکے۔ نیزنوجوان نسل جو عربی زبان سے عدمِ واقفیت کی بنا پر قرآنی تعلیمات سے دور ہوتی جا رہی ہے، انہیں قرآنِ مجیدکے حیات آفرین پیغام سے آشنا کیا جا سکے۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کا نہ صرف مسلمانوں کے تمام طبقات پر بلکہ حق و صداقت کے تمام متلاشیوں پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے سینہ قرآن میں پنہاں بعض اُن رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے مطالعہ سے صاحبانِ نظر پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے اُن اسرار و رموز، حقائق و غوامض اور دقائق و معارف سے مخلوقِ خدا کو متعارف کروایا ہے جو صرف آپ ہی کا خاصہ تھا۔ پانچ ہزار سے زائد قرآنی موضوعات پر مشتمل یہ کثیر المجلدات کتاب ایک ایسا دائرۃ المعارف ہے جس میں آپ کے ذہن میں آنے والے تقریباً تمام موضوعات درج ہیں۔
آپ مد ظلہ العالی نے اس انسائکلو پیڈیا کے ذریعے امت کی ایسی مشکل کشائی کی ہے کہ اب نہ صرف شرعی علوم کے متخصصین بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقات اور طلبہ و طالبات کے لیے ہزاروں مضامینِ قرآن تک براہِ راست رسائی سہل ہو گئی ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں مذکور جملہ مضامین اور موضوعات کا احاطہ ناممکن ہے مگر یہ ایسا جامع مجموعہ ہے جو عصری تقاضوں کو مطالعہ قرآن کی روشنی میں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اِن شاء اللہ آنے والی نسلوں کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حوالے سے بھی رہنمائی کرتا رہے گا۔
یہ انسائیکلوپیڈیا 8 مجلدات، 30 ابواب اور تقریباً 5000 سے زائد موضوعات پر مشتمل ہے۔ یہ فہمِ قرآن کے لیے مفتاح العلوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے موضوعات میں جدت اور تنوع کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کا اس کو مرتب کرنے والی شخصیت جدید و قدیم علوم کی جامع ہے۔ آپ نے مضامین کی تخلیق کے وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی ضروریات اور معروضی حالات کو ملحوظ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کا اس کے مضامین پر تدبر کرنے والا ہر عالم، ڈاکٹر، سائنسدان، انجینئیر اور وکیل بول اٹھتا ہے کہ یہ تو وہ مضامین ہیں جن کے اندر میرے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا شافی و وافی حل موجود ہے اور یہ وہ مضامین ہیں جو فطرت اور آفاقی صداقتوں سے ہم آہنگ ہیں۔
قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے مضامین منبرو محراب پر بیٹھنے والے علماء اور مسندِ ارشاد پر جلوہ افروز والے مشائخ، خانقاہ میں خلوت گزیں صوفی اور کائناتی وسعتوں میں فکر و تدبر کرنے والے ماہرِ فلکیات سب کو یکساں متاثر کرتے ہیں۔ اس شاہکار تصنیف کے سائنسی، فکری اور روحانی مضامین سے تو قاری پر نہ صرف ایمان افروز اور وجد انگیز کیفیت طاری ہوتی ہے بلکہ ایمان کی پختگی اور تیقن بھی نصیب ہوتا ہے۔ دانائے راز، حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے شیخ الاسلام جیسے مردِ حق آگاہ کے متعلق ہی ارشاد فرمایا تھا کہ:
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
تحریک منہاج القرآن کے قیام کی غرض و غایت افرادِ ملت کو مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ شیخ الاسلام نے ان اہداف کے حصول کے لیے اس عظیم تحریک کی بنیاد رکھی۔ ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اُمت کا قرآن سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرنا اور تعلیماتِ قرآن سے ربط و اِتصال پیدا کرنا ہے۔ اس کے لیے قائدِ تحریک نے ہزاروں دروس دیے اور سیکڑوں کتب تصنیف کیں۔ اب نہایت درد مندی اور دل سوزی سے گزارش ہے کہ اگر ہم تحریک کے تمام سماجی اور فلاحی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، انتظامی حوالے سے سمع و طاعت کے پیکر ہوں مگر علمی و فکری سطح پر رجوع الی القرآن کی بجائے قرآں گریزی کے مرتکب ہوں تو کون ہمیں ’’منہاج القرآن‘‘ یعنی قرآن کا راہی کہے گا۔ کون ہمیں شیخ الاسلام کی فکر پر عمل پیرا کہے گا۔ اگر ہمارے تحریکی جسد کی روح قرآنِ مجید نہیں ہے اور ہمارے فکر و عمل پر قرآنی افکار کا غلبہ نہیں ہے تو پھر بقول اقبال خدا کا یہ شکوہ بجا ہو گا کہ:
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے!
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے!
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
قرآنی واقعات و قصص انسانیت کے لیے بصائر و عبر ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی آسمانی ہدایت سے منہ پھیرا، فطرت نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ جو خدا کی آیات کی بے قدری کرتا ہے خدا اسے نسیاً منسیاً کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَتَتْکَ اٰیٰـتُنَا فَنَسِیْتَہَاج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰیo
’’تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں پس تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تو (بھی) بھلا دیا جائے گا۔‘‘
(طهٰ، 20: 126)
شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ انسان کو الوہی ہدایت سے محروم کرکے گمراہ کر دے۔ وہ ہمہ وقت اس چکر میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ابنِ آدم کو بہکا کر نورِ قرآن سے دور کر دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے روز اﷲ کی بارگاہ میں ایسے لوگوں کی شکایت کریں گے جو دیگر امور کو تو ترجیح دیتے تھے مگر قرآنِ مجید کو پسِ پشت ڈال دیتے تھے: ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًاo
اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔
(الفرقان، 25: 30)
قرآن فہمی اور تمسک بالقرآن کی برکات کا یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ جب تک اُمت قرآنِ مجید سے اکتسابِ فیض کرتی رہی اس وقت تک اقوامِ عالم میں عزت و تکریم اس کا مقدر رہی اور جب اس نے قرآنِ مجید سے اپنے تعلق کو توڑ لیا، ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن گئی۔ علامہ اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
شیخ الاسلام کی تبلیغی مساعی کا پہلے دن سے ہی اس امر پر ارتکاز رہا ہے کہ قرآن سے اُمت کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے زبان و قلم سے پوری زندگی جہاد کیا ہے۔ الحمد للہ اب آپ کے دروس و تحریر اور آپ کی فکر کے حامل آپ کے تلامذہ کی صورت میں آپ کا یہ مشن پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اب ہم میں سے ہر کسی کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم علومِ قرآن کے فروغ میں کسی قسم کا دقیقہ فروگزاشت نہ کریں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک پورا عالم انوارِ قرآن سے بقعہ نور نہیں بن جاتا۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال:
قُرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
ش کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
جو حرفِ ’’قُلِ الْعَفْو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2019ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved