شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا علمی و روحانی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین، محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْج تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا.
’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔‘
(الکهف، 18: 28)
آیت کریمہ میں مذکور یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ کے دو معانی ہیں:
پھر فرمایا:
وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا.
’کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟‘
(الکهف، 18: 28)
یعنی اُن کے چہرے پر توجہ مرکوز رکھ اور ان کی طرف سے نگاہیں نہ ہٹاؤ۔ ایسے لوگوں کے چہروں سے اگر نگاہیں ہٹ گئیں تو دنیا کے طالب بن جائو گے۔
آیت کریمہ کے آخری حصہ میں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کے دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیے ہیں، ان کی اطاعت نہ کریں۔ یہ آیت کریمہ ’عبارۃ النص‘ ہے، اس سے ’اشارۃ النص‘ یہ ہے کہ ُان کی اطاعت کر جن کے دل ذاکر ہیں۔ یعنی غافلوں کے پیچھے نہیں بلکہ ذاکروں کے پیچھے چلا کریں۔ جو رب کے ذکر سے غافل ہے، اس کا قلب مردہ ہے، اُس کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ قلب حییّ کے پیچھے جاؤ۔
قرآن مجید کے اس حکم کی تصریح فرماتے ہوئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
ألا أنبئکم بخیارکم.
’کیا میں تمہیں’خیار‘ بھلے لوگوں (اونچے درجے کے حاملین) کی خبر نہ دے دوں؟‘
یعنی جو تم میں بہت اچھے لوگ ہیں، میں تمہیں اُن کی پہچان نہ بتاؤں کہ یہ کون ہوتے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
خیارکم الذین إذا رؤوا ذکر اﷲ.
’اُن کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب اُن کے چہروں کو دیکھو تو اﷲ یاد آجائے‘۔
(ابن ماجه، کتاب الزهد، باب من لا یؤبه له ج: 2، ص: 1339، رقم الحدیث: 4119)
جنہیں دیکھنے سے اﷲ یاد نہ آئے، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ان کی عزت و احترام ضرور کریں، سلام کریں لیکن ان سے مریدی کا تعلق نہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’خیار‘ کی جو پہچان بیان فرمائی ہے، آج اسے پیمانہ بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ مقصود اﷲ کی یاد دلانا ہے، اپنی یاد کرانا نہیں۔
سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ’غنیۃ الطالبین‘ میں مرید کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’جو ہر شے کو چھوڑ کر صرف اﷲ کا ارادہ کر لے، اُس کو مرید کہتے ہیں‘۔
یعنی مرید وہ ہے جو خالصتاً اللہ کا ارادہ کرے اور شیخ و مرشد وہ ہے جو ہر شے سے بندے کے قلب کا دھیان ہٹا کر اس کے دل کا تعلق صرف اﷲ سے جوڑ دے، جو شخص اللہ کے بجائے اپنا ارادہ کرائے، وہ سیدنا غوث الاعظم کی مذکورہ تعریف کے مطابق نہ مرید ہے اور نہ ہی شیخ و مرشد۔
افسوس! ہمارے concept خراب ہیں، ہمارا دھیان اﷲ کی طرف نہیں اور جس کی طرف ہم دھیان کرتے ہیں اُس کا دھیان ہماری جیب کی طرف ہوتا ہے۔ پیسے والا ہو تو اُسے قریب بٹھاتے ہیں، کھانے کھلاتے ہیں اور جب کوئی غریب مرید آجائے تو اس سے سلام لینا تک گوارا نہیں کرتے۔
ایک دفعہ بیرون ملک دورہ کے دوران میرے خطاب کے آخر میں ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے ہاں یورپ میں کثیر تعداد میں کئی مشائخ اور پیرانِ کرام آتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ مارکیٹنگ مینجرز بھی لاتے ہیں جو اپنے اپنے پیروں کی کرامتیں سناتے ہیں اور ہر ایک اپنے پیر کے غوث، سلطان الفقر اور قطب ہونے کا دعویدار ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ مردِ کامل کون ہوتا ہے اور پیر کامل کون ہے؟ آپ اس کی کوئی پہچان بتائیں۔
میں نے کہا کہ پیر کامل کی بڑی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ پیر کامل وہ ہے جسے مریدوں کی تلاش نہ ہو۔ علامہ اقبال نے کہا:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
حرص و لالچِ دنیا، عہدہ و منصب اور اس دنیا کے ٹکوں کے پیچھے مارے مارے پھرنا، مومن کے شایانِ شان نہیں۔ مومن اور دنیا کے رشتہ کی مثال بندے اور سائے کی سی ہے۔ جس طرح سایہ بندے کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے، اسی طرح بندۂ مومن جب دنیا کی طرف سے منہ موڑ کر چلتا ہے تو دنیا ایک سایہ کی طرح اس کے پیچھے چلتی ہے۔ پس مرشدِ کامل اور پیرِ کامل کی علامت یہ ہے کہ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرے۔ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مار ا پھرتا ہے وہ تو ابھی خود مریدوں کا مرید ہے، شیخ و مرشد کیسے ہوسکتا ہے؟ یعنی وہ تو ابھی مریدوں کا ارادہ کیے ان کے پیچھے پھرتا ہے، رب کا مرید کب بنے گا۔۔۔؟ اسے ابھی مریدوں کی تلاش ہے، رب کی تلاش کا سفر کب شروع ہو گا۔۔۔؟
ولایت کے چار معنی ہیں اور اس رو سے ولی کے بھی چار معنی ہیں جو ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں:
ولایت کے مذکورہ چار معانی کی روشنی میں ہی ولی کا معنی متعین ہوتا ہے۔ ذیل میں ان معانی کی وضاحت درج کی جارہی ہے:
ولایت کے پہلے معنی ’محبت و مؤدت‘ کے لحاظ سے ولی وہ شخص ہے جس کی محبت خالصتاً اﷲ کے لئے ہو جائے اور نتیجتاً اﷲ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ.
’وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ‘۔
(المائدة، 5: 54)
معلوم ہوا کہ جب تک دو طرفہ رشتۂ محبت بین العبد و المعبود، بین الخالق و المخلوق قائم نہ ہو جائے، اس وقت تک بندہ اﷲ کا ولی نہیں بنتا۔ گویا جو بندہ خالصتاً اﷲ سے محبت کرے اور اس کی محبت کا مرکز و محور اﷲ کی ذات ہو جائے تو اس کو ولی کہتے ہیں۔
ولایت کے دوسرے معنی ’قربت‘ کے تناظر میں ولی کا معنی یہ ہوگا کہ جس شخص کو اﷲ اپنے قریب کر لے اور وہ بندہ اﷲ کے قریب ہو جائے یعنی دنیا سے اس کا دل دور ہو جائے، حرص، لالچ، دنیا کی رغبت، دنیا کی ہوس، حسد، کبر، بغض، عناد، دشمنیوں، غیبتوں، چغلیوں، لوٹ مار، گناہ، فسق و فجور، الغرض ہر شے سے اس کا دل دور ہو جائے اور ہر چیز سے دور ہو کر وہ ظاہراً و باطناً صرف اﷲ کے قریب ہو جائے۔
جب بندے کو ظاہر و باطن میں اﷲ کا قرب مل جاتا ہے اور اس کا قلب، نفس، روح، ظاہر، باطن اللہ کے قریب ہوجاتا ہے تو وہ قربتِ الٰہیہ کی وجہ سے اﷲ کا ولی ہو جاتا ہے اور پھر اﷲ بھی اس کے قریب ہو جاتا ہے۔ حدیث مبارک کے مطابق جب یہ بندہ ایک قدم اللہ کی طرف بڑھتا ہے تو اﷲ اس کی طرف اپنی شان کے لائق کئی قدم بڑھتا ہے۔ پس اﷲ کے اس قرب کی وجہ سے وہ بندہ ولایت کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔
ولایت کا تیسرا معنی ’کفالت اور سپردگی‘ ہے۔ اس معنی کی رو سے جو بندہ خود کو اﷲ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی چھوڑ دے، اﷲ کی مرضی کو اپنے اوپر نافذ کر دے، اپنی ترجیحات کو ترک کر دے اور اﷲ کے امر اور شریعت کی ترجیحات کو غالب کردے، حلال و حرام، جائز و ناجائز اور اللہ کی رضا و ناراضی کو ہر قدم پر ملحوظ رکھے، اسے ولی کہتے ہیں۔
تمام امور میں اﷲ کے اوامر و نواہی اور معاملاتِ زندگی میں بندہ جب شریعت کے احکام کی پیروی اس طرح کرے کہ اپنی زندگی اﷲ کے امر کی نگرانی اور کفالت میں دے دے، خود سے فناء ہو جائے اور خود کو اﷲ کے امر کے سپرد کر دے تو اﷲ اس کا کفیل بن جاتا ہے۔
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’بندے کو چاہئے کہ خود کو اﷲ کی کفالت، نگرانی میں اس طرح دے دے جیسے مُردہ غسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘۔
یعنی جس طرح غسّال میت کو نہلاتا ہے، اسے الٹا سیدھا، دائیں بائیں پلٹتا ہے، اس وقت اس مُردے کی مرضی نہیں رہتی بلکہ وہ مکمل طور پر غسّال کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو اپنے مولیٰ کے سپرد کردے اور اُس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس کی تعلیمات و احکامات کو اپنے ہر معاملہ پر غالب کردے۔ اس لیے کہ مُردہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کی مرضی نہ رہے، جس کی اپنی حرکت اور ترجیح نہ رہے، غسّال جیسے چاہے، اپنی مرضی مُردے پر چلاتا ہے۔ گویا جب تک بندہ بشکلِ مُردہ اپنے آپ کو اﷲ کے امر کے سپرد نہ کردے، ولایت تک نہیں پہنچ سکتا۔
جب اللہ کا امر اس پر اس طرح چلے جیسے غسّال کا امر مُردے پر چلتا ہے تو اللہ کا امر چاہے اسے الٹائے یا پلٹائے، بیمار کرے یا صحتمند کرے، عزت دے یا عزت لے لے، نعمت دے یا چھین لے، وہ جس حال میں رکھے، بندہ اپنی مرضی کو فنا اور اﷲ کی مرضی کے ساتھ بقا ہو جائے تب وہ اللہ کی کامل کفالت اور نگرانی میں ہوتا ہے اور نتیجتاً کائنات کی ہر چیز اس بندے کی مطیع ہوجاتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبه فاذا احببته کنت سمعه الذی یسمع به و بصره الذی یبصربه و یده التی یبطش بها، ورجله التی یمشی بها.
’میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے‘۔
(صحیح بخاری، کتاب الرقائق، باب التواضع، ج: 5، ص: 2384، رقم: 6137)
اب چونکہ اس کے اپنے کان اور سماعت نہ رہی، لہذا اب وہ وہی کچھ سنتا ہے جو اﷲ اُسے سنانا چاہتا ہے اور جو بات اﷲ اُسے سنانا نہیں چاہتا، اس سے وہ بہرہ ہو جاتا ہے۔ وہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو اﷲ دکھانا چاہتا ہے اور جس کو دیکھنے سے اﷲ نے روکا ہے، اس سے اس کی آنکھ ہی بند ہو جاتی ہے۔ الغرض اُس کے ہاتھ، پائوں اور دل تک اللہ کی رضا کے تابع ہوجاتے ہیں اور وہی امور سرانجام دیتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے۔ جب بندہ اس طرح کاملاً اﷲ کی کفالت و نگرانی میں آجائے اور اﷲ تعالیٰ اسے اپنی نگرانی میں لے لے تو اس مقام کو ولایت اور اس بندے کو ولی کہتے ہیں۔
ولایت کا چوتھا معنی ’نصرت و مدد‘ کے ہیں اور ولی مدد گار کو کہتے ہیں۔ ولی وہ ہوتا ہے جو اپنا مدد گار خود نہیں رہتا بلکہ اﷲ کی مدد سے جیتا ہے، اﷲ کی مدد سے رہتا ہے اور اﷲ اس کا مدد گار ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَهُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ.
’اور وہی صلحاء کی بھی نصرت و ولایت فرماتا ہے‘۔
(الاعراف، 7: 196)
ایک اور مقام پر فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّ ﷲَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.
’یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ ان لوگوں کا ولی و مددگار ہے جو ایمان لائے ہیں‘۔
(محمد، 47: 11)
میرے شیخ قدوۃ الأولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شبیہ تھے اور ان کے فیض کے عظیم امین تھے۔ میں نے قول، عمل، ظاہر، باطن، عادت، طریق، مزاج، طبیعت، متابعتِ شریعت و سنت اور غیرتِ دین میں ان کو حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا عکس و نمونہ پایا۔ ایک روز مجھے فرمانے لگے کہ
’اللہ جب اپنے ولی کا مدد گار ہو جاتا ہے تو پھر بندہ اپنی مدد آپ نہیں کرتا۔ اﷲ جو چاہے کرے اور جو نہ چاہے، نہ کرے، بندہ کسی بھی حالت میں اس کا شکوہ نہیں کرتا۔ اﷲ کے بندہ اور ولی کی مثال ایک کلہاڑے کی سی ہے۔ کلہاڑا سارے جنگل کو کاٹتا ہے مگر اپنے دستے کو نہیں کاٹ سکتا، اس لیے کہ جب تک دستہ اس کلہاڑے کے اندر ہے، اُسے اس ہی کے ذریعہ نہیں کاٹا جاسکتا۔ جس طرح کلہاڑا اپنا دستہ خود نہیں کاٹ سکتا، اسی طرح ولی اﷲ باقی پورے عالم کا مددگار ہوتا ہے مگر اپنی ذات کا مدد گار نہیں رہتا۔ وہ خود اگر بیمار ہو گا تو خود کو دم نہیں کرے گا بلکہ اﷲ کی مشیت پر چھوڑ دے گا اور طریقِ سنت پر عمل کرے گا اور علاج کروائے گا جبکہ باقی سارے بیماروں کو اس کے ایک دم سے اللہ شفا یابی دیتا رہے گا۔ اسی طرح اگر وہ خود فاقے میں ہے تو کئی دن فاقے میں گزار دیتا ہے لیکن اپنے لئے روحانی توجہات سے اسباب حاصل نہیں کرے گا لیکن اگر لوگ فاقہ کی حالت میں اس کے پاس آئیں گے تو اس کی دعا سے ان کی تقدیریں بدلتی رہیں گی۔ یعنی ولایت کا مطلب ہے کہ بندہ اپنا مدد گار خود نہیں رہتا، بلکہ اللہ اس کا مددگار ہو جاتا ہے۔
آقا علیہ السلام کی مجلس میں کوئی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے بیٹھے رہے اور اس کو کوئی بھی جواب نہ دیا۔ آقا علیہ السلام سرِ انور نیچے کرکے مسکراتے رہے۔ کچھ دیر گزری تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کی بات کا جواب دیا۔ اس پر آقا علیہ السلام اس مجلس سے اٹھ کر گھر تشریف لے آئے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید میرے جواب دینے کو آقا علیہ السلام نے ناگوار محسوس فرمایا، اس لیے مجلس سے چلے آئے ہیں۔ پوچھا: یارسول اﷲ! کیا ماجرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے آئے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
ابو بکر! جب تک وہ شحص تمہیں گالیاں دے رہا تھا اور تم خاموش تھے، یعنی اپنا دفاع خود نہیں کر رہے تھے، اپنی مدد خود نہیں کر رہے تھے تو اﷲ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا تھا اور وہ تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے۔ میں فرشتوں کے اس جواب کو سن کر مسکرا رہا تھالیکن جب تم نے اس شخص کی ایک بات کا جواب دیا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب یہ خود اپنا کفیل ہوگیا ہے، اپنا دفاع خود کرنے لگ گیا ہے لہذا فرشتو! تم واپس آجاؤ۔ پس اس پر میں دُکھی ہوکر گھر چلا آیا۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ اﷲ کا ولی اگر اپنا دفاع خود کرے تو اﷲ اس کے دفاع اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ اس لئے اﷲ کا ولی اپنا دفاع اور مدد خود نہیں کرتا، لوگ جو چاہیں کریں، وہ خاموش رہتا ہے۔ اس صورت حال میں رب خود اس کا دفاع بھی کرتا ہے اور اس کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے ولی کا دل ہر وقت دعا گو ہی رہتا ہے، ولی ہر ایک سے مسکرا کر ملتا ہے، دعا دیتا ہے، کسی سے غیض و غضب نہیں کرتا۔
امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو علی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں:
ولی وہ ہے جو اپنے حال اور جان سے فنا ہو جائے اور مشاہدۂ حق میں اس کو بقاء نصیب ہو جائے یعنی وہ اپنے معاملات کا خود حاکم اور متصرف نہیں ہوتا بلکہ توکل اور تفویض کے اس درجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملات سے علی طریق التوکل، علی طریق الرضا، علی طریق التفویض فنا ہو جاتا ہے۔ اپنی پسند و نا پسند کو فنا کر دیتا ہے، کسی کی کوئی چغلی، شکایت، نفس کی اشتعال انگیزی، کسی پر کیچڑ اچھالنا، کسی کے اوپر گفتگو اور نقدو جرح کرنا، یہ صوفیا اور اولیاء کا کام نہیں ہے بلکہ یہ نفس اور شیطان کا کام ہے۔ جب ولی اپنے حال سے فانی ہوگیا تو اسے اب کسی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ کسی کے بارے تجسس نہیں کرتا بلکہ اللہ کے مشاہدہ، امر اور اس کی رضا میں باقی ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ اللہ اس کے تمام امور کی نگرانی اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ اللہ اس کے امور کی نگرانی اس طرح فرماتا ہے کہ اُسے اپنے احوال کی خبر نہیں رہتی اور وہ کسی اور جگہ قرار نہیں پاتا، اس کی طبیعت پنجرے میں بند پرندے کی طرح تڑپتی رہتی ہے۔
اولیاء و صوفیاء سے پوچھا گیا کہ ولی کی کیا علامت ہے؟ تو کبار اولیاء نے فرمایا:
علامة الولی ثلاثة: شغله باﷲ وفراره الی الله وهمه ﷲ.
اولیاء کی علامتیں تین ہیں:
ولایت اور صفائے قلب کا حصول
حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بندہ اگر یہ مقام چاہتا ہے کہ اُسے اﷲ کی دوستی اور صفائے قلب نصیب ہوجائے تو:
کن مع ﷲ بلا خلق و کن مع الخلق بلا النفس.
’تصوف میں اعلیٰ درجہ اور ولایت یہ ہے کہ اﷲ کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ مخلوق درمیان میں نہ رہے اور مخلوق کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ نفس درمیان میں نہ رہے‘۔
یعنی اﷲ کے معاملے سے اگر مخلوق درمیان میں سے نکل جائے اور مخلوق کے ساتھ معاملے میں نفس، ’میں‘ نکل جائے تو بندہ ولی ہو جاتا ہے۔ اگر اﷲ کی رضا کے لیے ہم کسی پر احسان کریں تو درمیان سے مخلوق اس طرح نکل جائے کہ اب جس پر احسان کیا گیا ہے بھلے وہ ہمیں گالی دے لیکن ہماری طبیعت میں ملال نہ آئے، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کے لئے اس پر احسان نہیں کیا۔ جب اللہ کی رضا کے لیے کسی کے ساتھ بھلائی کی تو اس کی زیادتی سے ہمیں رنج نہیں ہونا چاہئے، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کے لئے نہیں بلکہ اﷲ کے لئے اس پر احسان کیا۔ الغرض اﷲ کے ساتھ جو معاملہ کیا، اس میں مخلوق نظر نہ آئے اور اگر کوئی معاملہ مخلوق کے ساتھ کیا تو درمیان میں نفس نہ آئے تو اس کو ولایت کہتے ہیں۔
جب ہم ولایت کے مذکورہ تمام معانی و مفاہیم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ آسمانِ ولایت پر سب سے بلند و ارفع ستارے کی مانند چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم اکثر حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے ان اقوال اور کرامات کو بیان کرتے ہیں جو صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں مگر یہ امر ذہن نشین رہے کہ محدثین، فقہاء اور ائمہ علم نے بھی تواتر کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے علمی و روحانی مقام کو بیان فرمایا ہے۔ صرف عقیدت مندوں ہی نے آپ رضی اللہ عنہ کا یہ مقام نہیں بنارکھا بلکہ جلیل القدر ائمہ علم، ائمہ تفسیر اور ائمہ حدیث نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
امام یافعی الشافعی لکھتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات کے تواتر پر اجماع ہے اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا۔
اسی طرح امام ابو الحسن علی بن جریر الشافعی، ملا علی قاری، امام ذہبی اور دیگر ائمہ نے بھی آپ کے علمی و روحانی مقام کو بیان کیا ہے:
قدمی هذه علی رقبة کل ولی اﷲ.
’میرا یہ قدم روئے زمین کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔‘
آپ رضی اللہ عنہ کے اعلان کے وقت جتنے اولیاء آپ کی مجلس میں موجود تھے انہوں نے نہ صرف اپنے سروں کو جھکا کر اطاعت کا اعلان و اظہار کیا بلکہ اس وقت روئے زمین پر جتنے بھی اولیاء و صلحاء موجود تھے، انہوں نے بھی اپنے اپنے مقامات پر آپ رضی اللہ عنہ کی ولایتِ کبریٰ کے سامنے سرِتسلیم خم کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے اس اعلان پر حضرت علی بن الحیطی رحمۃ اللہ علیہ نے عملاً اپنا سر نیچے کر کے آپ کا پائوں اپنی گردن پر رکھ لیا اور تمام اولیاء نے گردنیں جھکا دیں۔
امام علی بن البرکات بیان کرتے ہیں کہ میرے عم بزرگ امام عدی بن المسافر بیان کرتے تھے کہ اولین و آخرین اولیاء میں سے قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ کہنے کا امر سوائے حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کو نہیں ہوا کیونکہ آپ کا ولایت میں مقام مقامِ فرد تھا۔
سلسلہ رفاعیہ کے شیخ امام رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحتاً فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سواء کسی کو یہ امر نہ تھا۔ آپ جب امرِ الٰہی سے یہ اعلان فرما رہے تھے تو اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ کثرتِ کرامات میں آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کے طریق سے ہٹ کر کسی شخص کو ولایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کے جملہ طرق اور سلاسل حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔
یا نخل لا تتعدی، اقطع رأسک.
’اے کھجور کی شاخ! حد سے نہ بڑھ، میں تمہارا سر قلم کر دوں گا۔‘
آپ کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ خلیفہ المستنجد باللہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں آیا اور آپ کا وعظ سنتا رہا، جب اختتام ہوا تو آگے بڑھا اور بیس تھیلیاں دینار آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انہیں لے جاؤ، مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔ اس نے جب بہت اصرار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دو تھیلیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور انہیں ہاتھ میں اٹھا کر نچوڑا تو دینار کی بھری ہوئی دونوں تھیلیوں سے خون ٹپکنے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اگر مجھے کئی امور کا حیا نہ ہوتا تو میں انہیں اتنا نچوڑتا کہ یہ خون تمہارے محلات تک پہنچ جاتا۔ ظالم تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور غریب لوگوں اور رعایا کا خون چوستے ہو، ان کا مال لوٹتے ہو اور ان کا نذرانہ بنا کر میرے پاس لے آتے ہو۔
یہ حضور غوثِ اعظمص کی ولایت کا مقام ہے کہ ماسوا اللہ سے بے نیازی اور بے خوفی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔
بندے تو شوق اور اشتیاق سے اللہ کو یاد کر، وہ تجھے تقرب اور وصال سے یاد کرے گا۔ تو حمد و ثنا سے اسے یاد کر، وہ تمہیں انعام و احسان سے یاد کرے گا۔ تو اسے توبہ سے یاد کر، وہ تجھے بخشش سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ غفلت سے یاد کر، وہ تجھے ترکِ مہلت سے یاد کرے گا۔ تو اسے ندامت سے یاد کر، وہ تجھے کرامت سے یاد کرے گا۔ تو اسے معذرت سے یاد کر، وہ تجھے مغفرت سے یاد کرے گا۔ تو اسے اخلاص سے یاد کر، وہ تجھے نفس سے خلاصی سے یاد کرے گا۔ تو اسے تنگ دستی میں یاد کر، وہ تجھے فراخ دستی سے یاد کرے گا۔ تو اسے فنا ہوکر یاد کر، وہ تجھے بقا دے کر یاد کرے گا۔ تو اسے صدق سے یاد کر، وہ تجھے رزق سے یاد کرے گا۔ تو اسے تعظیم سے یاد کر، وہ تجھے تکریم سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ خطا سے یاد کر، وہ تجھے بخشش و عطا سے یاد کرے گا۔
’اے بندے تو تمام اغیار کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے لو لگا لے اور ظاہری اسباب کو بھول کر مسبب میں گم ہو جا۔ وہ مسبب تجھے اسباب سے بالاتر و بے نیاز کر دے گا‘۔
یہ مقامِ توکل ہے اور توکل کا مقام حقیقتِ اخلاص کے بغیر نہیں ملتا اور حقیقتِ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندہ عمل کرے مگر کسی عمل کا معاوضہ اور اجر و جزا طلب نہ کرے۔ بندہ جب تک دنیا اور آخرت کے ہر معاوضے سے آزاد نہ ہوجائے، اس کا قلب و باطن اللہ تعالیٰ سے متصل نہیں ہوتا۔
لوگو! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہو گیا، اقوال بڑھ گئے اور اعمال کم ہو گئے ہیں اور جس میں نفاق بڑھ جائے، اخلاص کم ہو جائے تو وہ بندے قربِ حق کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں‘۔
’لوگو! یہ دنیا ایک بازار ہے تھوڑی دیر کے بعد اس بازار میں کوئی باقی نہیں رہے گا۔ دکانیں بند ہونے کو ہیں، یہ جو چہل پہل بازارِ دنیا میں نظر آ رہی ہے، نہیں رہے گی۔ لوگو! تم اس دنیا کے بازار سے وہ سودا خریدو جس کی آخرت کے بازار میں ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس بازار کے بند ہونے کے بعد ایک اگلا بازار کھلنے والا ہے‘۔
اس دنیاوی بازار میں کہیں شہواتِ نفسانی کا سامان پڑا ہے، کہیں لذاتِ بدنی کے سامان ہیں، کہیں تکبر، حرص، نفس، لالچ، طمع، بغض اور عداوت کی دکان ہے اور کہیں غیبت، نفاق، دنیا طلبی، فسق و فجور، بربادی، زنا، چوری، گناہ، کذب اور منافقت کی دکانیں ہیں۔ الغرض یہاں ساری نافرمانیوں، معاصی اور گناہوں کی دکانیں سجی ہیں۔
آج انسان اِن کی خریداری کرتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ جب اگلے بازار میں جائے گا اور اس سودے کو بیچنا چاہے گا تو وہاں تو خریدار اللہ ہے، یہ سودا وہاں فروخت نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ کو یہ سودا نہیں چاہیے۔
وہاں کا سودا یہ ہے کہ وہ خریدار (اللہ) یہ چاہتا ہے کہ دنیا سے قیام اللیل اور رات کے اندھیرے میں سجدوں کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ توبہ، گریہ و زاری، تقویٰ، زہد اور ورع کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ یقین، توکل، اللہ کی اطاعت، عبادت بندگی، پرہیزگاری، ترکِ گناہ و معصیت کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ آقاa کی غلامی، اتباع، متابعت اور محبت کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ الغرض وہ سودے خریدو اور وہ سامان لے کر جاؤ کہ اگلے بازار کے کھلتے ہی وہاں کا خریدار اسے لے لے، ورنہ حسرت کے ساتھ تکتے رہ جاؤ گے اور سودا نہیں بکے گا۔
’لوگو! اپنے قلوب کی اصلاح کر لو۔ افسوس! تم وعظ اور ذکر کی مجلسوں میں سیر کرنے کے لیے آتے ہو، علاج و معالجہ کے لیے نہیں آتے۔ مذاق اڑانے، ہنسنے اور کھیلنے آتے ہو، رونے نہیں آتے‘۔
’اپنی عادت کے قیدی نہ بنو، یہ قید تمہیں آزادی کے مرتبے سے دور لے جائے گی۔ پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرو تاکہ دوسروں کو نصیحت کرنے کے قابل ہو سکو‘۔
خود جو ڈوبا جا رہا ہو وہ کسی اور کو کیا بچائے گا۔ جو خود نابینا و اندھا ہو، وہ راہ دکھانے کے لیے کسی اور کا ہاتھ کیا تھامے گا۔ دریا سے ڈوبنے والوں کو وہی نکال سکتا ہے جو خود ڈوبنے سے بچا ہوا ہو۔ اللہ کی طرف لوگوں کو وہی پہنچا سکتا ہے جو خود معرفت حاصل کر چکا ہو۔ راستہ وہی بتا سکتا ہے جو سیدھے راستے پر خود جا رہا ہو۔
بندے تجھ پر افسوس کہ تیری زبان پر توحید ہے اور تیرے قلب کے کوٹھے میں شرک ہے۔ تیری زبان پر تقویٰ ہے اور تیرے دل کے کوٹھے کے اندر فسق و فجور ہے۔ ظاہر و باطن کو ایک کر لے۔ اگر ظاہر و باطن ایک ہو جائے تو اس ظاہر و باطن کی موافقت کا نام ولایت ہے۔ اسی موافقت کا نام تصوف اور فقر ہے۔
’جس نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی اور جس نے میرا خرقہ بھی نہیں پہنا مگر مجھ سے محبت اور اخلاص کے ساتھ اور میری تعلیمات پر عمل کے ساتھ میری طرف ارادہ کیا، قیامت کے دن وہ میرے مریدوں میں شامل ہو گا‘۔
صاحب کلائد الجواہر فرماتے ہیں کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا کہ کوئی میرے مدرسہ کے سامنے سے گزر جائے اور محبت کی ایک نگاہ سے میرے مدرسہ کے در و دیوار کو دیکھ لے تو قیامت کے دن اللہ اس کے عذاب میں بھی تخفیف کر دے گا۔
لو کان مریدی فی المشرق وانا بالمغرب لسترته.
’اگر میرا مرید مشرق میں ہو اور اس کا ستر کھل جائے اور میں مغرب میں ہوں تو میں مغرب میں ہو کر بھی مشرق میں موجود اپنے مرید کی ستر پوشی کروں گا‘۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
’جو میرے ساتھ منسلک ہیں اور میرے ساتھ ان کی نسبت ہے اور میرے طریق پر چلتے ہیں، میری تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو میں ہمہ وقت ان کی بخشش اور مغفرت کے لیے اللہ کے حضور التجائیں کرتا رہتا ہوں اور ان کے لیے وسیلہ بنتا رہتا ہوں‘۔
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور جمیع اولیاء و صوفیاء کے اقوال، تلقینات اور تعلیمات کا مضمون اصلاحِ ظاہر و باطن ہی ہے۔ اس لیے کہ ایک ہی نور سے یہ ساری شمعیں روشن ہیں۔
حقیقتِ ولایت اور تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے حوالے جو کچھ بیان کیا گیا، یہ کل تصوف کا نچوڑ ہے اور تمام اولیاء خواہ اُن کا تعلق کسی بھی سلسلۂ طریقت سے ہو، اسی تصوف و روحانیت کے امین ہیں اور تمام حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے ہی مستفیض ہورہے ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2018ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved