علم اور مصادر علم

باب 17: کشف پر ائمہ کرام اور فقہاء و محدثین عظام کا عقیدہ

حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اولیاء عظام کے مکاشفات کا مطالعہ کرنے کے بعد اِس باب میں ہم کشف کے بارے میں ائمہ و فقہاء اور محدثین کا عقیدہ جاننے کو کوشش کریں گے۔ اس سے یہ حقیقت واضح کرنا مقصود ہے کہ ساڑھے تیرہ سو سال کی تاریخ میں کسی بھی مکتبۂ فکر کے عالم نے کشف کا انکار نہیں کیا ہے۔

ذیل میں ان میں سے چند نمائندہ ائمہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

1۔ امام علاؤ الدین سمرقندی (333-373 ھ)

امام علاؤ الدین سمرقندی اپنی تفسیر ’بحر العلوم‘ میں بیان کرتے ہیں کہ علمِ لدنی اور علمِ کشف وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ براہِ راست کسی واسطے اور سبب مالوف کے بغیر قلب پر نازل فرماتا ہے۔ جسم سے باہر کے جو اسباب ہیں، جن کے ساتھ ہماری زندگی مانوس اور عادی ہے وہ سب منقطع ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںعلمِ لدنی میں جسمانی و مادی اسباب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ جب سب مادی ابواب بند ہو جاتے ہیں تب جا کر نیا باب کھلتا ہے۔

سمرقندی، البحر العلوم، 2: 354-355

2۔ امام ابو القاسم القشیری (376-465 ھ)

امام ابو القاسم القشیری انہی علوم کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

اَلْعِلْمُ مِنْ لَّدُنِّ اللهِ مَا یَتَحَصَّلُ بِطَرِیْقِ الإِلْہَامِ دُوْنَ التَّکَلُّفِ بِالتَّطَلُّبِ.

قشیری، لطائف الإشارات، 2: 407

اللہ تعالیٰ کی جانب سے علم لدنی وہ علم ہے جس کے لیے انسان ظاہری طریقوں سے علم حاصل کرنے کی تکلیف اور مشقت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ یہ علم بطریقِ الہام حاصل ہوتا ہے۔

یعنی علم حاصل کرنے کے عادی اور دنیوی معروف طریقے میں انسان کو جو مجاہدہ، محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے، علمِ لدنی کے حصول میں بندے پر وہ تکلف وارد نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ خاص سے حجابات ہٹا دیتا ہے۔ بلاشبہ اس کے پیچھے تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب، بدنی اور نفسانی کثافتوں کو ختم کرنے کے لیے ریاضت و مجاہدہ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ حجابات اٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں میں سے خواص کو علم لدنی کی دولت سے مالا مال فرماتا ہے۔

3۔ امام غزالی (450-505 ھ)

امام غزالی تصوف اور طریقِ علم باطن پر بحث کرتے ہوئے اپنی تصنیف المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں:

إِنَّ الصُّوْفِیَّۃَ ھُمُ السَّالِکُوْنَ لِطَرِیْقِ اللهِ خَاصَّۃً۔ وَإِنَّ سِیْرَتَھُمْ أَحْسَنُ سِیَرٍ وَطَرِیْقَھُمْ أَصْوَبُ الطُّرُقِ وَأَخْلَاقَھُمْ أَزْکَی الْأَخْلَاقِ.

اولیاء اور صوفیا اللہ تعالیٰ کی راہ کے سالک یعنی مسافر ہوتے ہیں۔ اُن کی سیرت تمام سیرتوں سے اعلیٰ ہوتی ہے، اُن کا طریقہ تمام طریقوں سے درست ہوتا ہے اور اُن کا اخلاق سب اہلِ اخلاق سے پاکیزہ ہوتا ہے۔

پھر امام غزالی فرماتے ہیں:

بَلْ لَوْ جُمِعُ عَقْلُ الْعُقَـلَاءِ وَحِکْمَۃُ الْحُکَمَاءِ وَعِلْمُ الْوَاقِفِیْنَ عَلٰی أَسْرَارِ الشَّرْعِ مِنَ الْعُلَمَاءِ لِیُغَیِّرُوْا شَیْئًا مِنْ سِیْرَتِھِمْ وَأَخْلَاقِھِمْ وَیُبَدِّلُوْہُ بِمَا ھُوَ خَیْرٌ مِنْہُ لَمْ یَجِدُوْا إِلَیْہِ سَبِیْـلًا.

غزالی، المنقذ من الضلال: 177-178

اگر ساری دنیا کے عقل والوں کی عقل اور حکمت والوں کی حکمت جمع ہو جائے، شریعت کے اسرار جاننے والے علماء کا علم جمع ہو جائے اور (یہ سب مل کر) صوفیا اور اولیاء سے بہتر کوئی سیرت تشکیل دینا چاہیں اور صوفیہ کے اخلاق اور حکمت سے بہتر کوئی طریقہ تشکیل دینا چاہیں تو ساری دنیا کے علماء، حکماء، عقلاء اور فقہاء مل کر بھی صوفیہ کی سیرت، اُن کے اخلاق اور مرتبۂ علم سے بہتر کوئی مرتبہ پیش نہیں کر سکتے۔

قابلِ غور بات ہے کہ یہ ہندوستان کے کسی عالم کی تحریر کا اقتباس نہیں ہے بلکہ سب اکابر علماء یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ علم اور تحقیق کا رجحان ختم ہو گیا ہے، ہم نے مطالعہ کرنا چھوڑ دیا ہے، ہم اپنی ذاتی رائے اور ہوائے نفس کو علم کا نام دینے لگ گئے ہیں۔

مذکورہ اقوال آج کے دور کے کسی عالم دین کے نہیں، نہ ہی پچھلی ایک دو صدیوں کے کسی عالم کے اقوال ہیں۔ اگرچہ ان ادوار کے علماء بھی بھی کشف (مکاشفات) اور مخاطبات کے علم پر ایمان رکھتے ہیں اور سب کا عقیدہ یہی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی، قاضی ثناء اللہ پانی پتی؛ الغرض آپ اِن میں سے جس کی بھی کتاب کا مطالعہ کر لیں، کوئی ایک بھی عالم، محدث، متکلم یا فقیہ ایسا نہیں ہے جس نے کشف، مکاشفات، مشاہدات اور علوم باطنیہ کا انکار کیا ہو۔ لیکن مذکورہ اقوال ائمہ متقدمین اور متفق علیہ ائمہ کے اقوال ہیں، جن کا انکار ممکن نہیں۔

امام غزالی نے اپنی خود نوشت ’المنقذ من الضلال‘ میںتفصیل سے ذکر کیا ہے کہ مجھے حق کی راہ کس طرح ملی اور میں شبہات و وسوسوں کی گرد سے کیسے نکلا؟ وہ فرماتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ صوفیاء اور اولیاء کے پاس وہ علم، وہ معرفت، وہ عقل اور وہ حکمت ہے جو کسی اور کو میسر نہیں آ سکتی؟ اُس کی وجہ بڑی عجیب، لطیف اور ایمان افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

فَإِنَّ جَمِیْعَ حَرَکَاتِھِمْ وَسَکَنَاتِھِمْ فِي ظَاھِرِھِمْ وَبَاطِنِھِمْ، مُقْتَبَسَۃٌ مِنْ نُوْرِ مِشْکَاۃِ النُّبُوَّۃِ.

غزالی، المنقذ من الضلال: 178

اس لیے کہ ان تمام اولیاء اور صوفیاء کے جتنے اعمال ہیں، طور طریقے ہیں، حرکات و سکنات ہیں اور ان کے اخلاق ہیں، یہ سارے براہِ راست سینۂ مصطفی ﷺ کے نور سے فیض یافتہ ہیں۔

سینۂ نبوت میں نورِ الٰہی کا جو چراغ چمک رہاہے یہ براۂ راست اُس نورِ نبوت سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے روشنی لیتے ہیں۔ اس لیے ان جیسا علم و حکمت کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں:

وَلَیْسَ وَرَآءُ نُوْرِ النُّبُوَّۃِ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ نُوْرٌ یُسْتَضَاءُ بِہٖ.

اور نورِ نبوت سے بہتر زمین پر ایسا کوئی نور نہیں ہے (بلکہ کائنات میں کسی کا نور نہیں ہے۔) جس سے استفادہ کیا جائے۔

یعنی اولیا و صوفیاء کے پاس نورِ نبوت ہوتا ہے، انہوں نے یہ روشنی نورِ نبوت کے چراغ سے لی ہوتی ہے اور نورِ نبوت سے بہتر کائنات میں کسی اور کا نور نہیں ہے۔ چونکہ اولیاء اللہ کے پاس نورِ نبوت ہوتا ہے اس لیے ان کا کشف بھی اسی نور سے منور ہوتا ہے۔

اس بحث کے اختتام پر امام غزالی لکھتے:

حَتّٰی إِنَّھُمْ فِي یَقَظَتِھِمْ یُشَاھِدُوْنَ الْمَلَائِکَۃَ وَأَرْوَاحَ الْأَنْبِیَاءِ وَیَسْمَعُوْنَ أَصْوَاتًا وَیَقْتَبِسُوْنَ مِنْھُمْ فَوَائِدَ.

غزالی، المنقذ من الضلال: 178

حتیٰ کہ یہ عالمِ بیداری میں ملائکہ اور ارواحِ انبیاء کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کے اجسادِ مثالیہ کو بھی دیکھتے ہیں، اُن کی آوازیں سنتے ہیں اور اُن سے فوائد کا اکتساب فیض کرتے ہیں۔

امام غزالی کی اس بات کی تصدیق ہمیں امام جلال الدین سیوطی کے اس قول سے ملتی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عالمِ بیداری میں بہتر (72) مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی ہے اور جن مسائل پر مجھے اشکال تھا میں نے آپ ﷺ سے براہ راست دریافت کیا ہے اور آپ ﷺ سے علمی اکتسابِ فیض کیا ہے۔

امام شعرانی سے لے کر علامہ انور شاہ کاشمیری تک کسی ایک عالم اور محدث نے بھی امام جلال الدین سیوطی کے اس قول کو رد نہیں کیا۔ سب نے اپنی اپنی کتب اور شروحِ حدیث میں ان کا مندرجہ بالا قول نقل کیا ہے۔

امام غزالی نے بھی یہی بات تحریر کی ہے کہ وہ اولیاء و سالکین حضور نبی اکرم ﷺ، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور ملائکہ سے علمی معارف کا اکتساب کرتے اور اُن کی آواز سنتے ہیں حتیٰ کہ

ثُمَّ یَتَرَقَّی الْحَالُ مِنْ مُشَاھَدَۃِ الصُّوَرِ وَالأَمْثَالِ، إِلٰی دَرَجَاتٍ.

غزالی، المنقذ من الضلال: 178

پھر اُن کا حال صورتوں اور امثال کے مشاہدہ سے ترقی پا کر مختلف درجات تک جا پہنچتا ہے۔

یہی نکتہ امام غزالی کے ایک اور شاگرد، جلیل القدر مالکی عالم امام ابو بکر بن العربی اپنی تصنیف ’قانون التاویل‘ میںبیان کرتے ہیں اور اسے امام جلال الدین سیوطی نے رقم کیا ہے۔

4۔ علامہ زمخشری (467-538 ھ)

علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں تحریر کرتے ہیں کہ یہ وہ علم تھا اللہ تعالیٰ نے جس کی نسبت اپنے علم (علمِ الٰہی) کی طرف فرمائی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:

وَہُوَ الإِخْبَارُ عَنِ الْغُیُوْبِ.

زمخشری، الکشاف، 2: 685

وہ غیب کا علم عطا کرنے پر دلالت کرتا ہے۔

یعنی یہ ایسا علم ہے جو صاحبِ علم لدنی کو غیبی امور اور غیبی حقائق پر ادراک، معرفت اور آگاہی عطا کر تا ہے۔ اس علم کو غیب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ علم حواسِ خمسہ (جو معروف عادّی انسانی ذرائع ہیں) سے حاصل نہیں ہوتا۔

5۔ قاضی ابو بکر بن العربی (468-543 ھ)

امام محمود آلوسی نے اپنی تصنیف میں امام غزالی کے ایک جلیل القدر شاگرد القاضی ابوبکر بن العربی کا حوالہ دیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ جب انسان کو نفس کا تزکیہ حاصل ہوتا ہے تو اُس کے قلب و روح کثافتوں سے پاک و صاف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں اس پر دنیاوی اسباب کے حجابات اٹھنے لگتے ہیں اور بندہ بشری اور نفسانی دنیا کی نجاست سے خود کو پاک کر کے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے لگتا ہے۔ وہ اس وقت کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں:

کُشِفَتْ لَہُ الْقُلُوْبُ وَرَأَی الْمَلَائِکَۃَ وَسَمِعَ کَلَامَھُمْ وَاطَّلَعَ عَلٰی أَرْوَاحِ الأَنْبِیَاءِ.

آلوسی، روح المعانی، 22: 40

اُن کے دلوں کو مقام کشف نصیب ہو جاتا ہے اور وہ ملائکہ کو دیکھتے، ان کے کلام کو سنتے ہیں اور انبیاء کی روحوں پر مطلع ہوتے ہیں۔

6۔ امام فخر الدین رازی (544-604 ھ)

امام فخر الدین رازی اپنی معروف تفسیر ’التفسیر الکبیر ‘میں علم لدنی کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے سورۃ الکہف کی آیت نمبر 65 کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

علوم لدنیہ بطریقِ کشف نصیب ہوتے ہیں۔ کشف کی مختلف صورتیں، درجات اور مراتب ہیں۔ جب حجاب اٹھا دیے جاتے ہیں تو انسان قلب کی آنکھ سے وہ غیبی اُمور دیکھنے اور دل کے کانوں سے اس کلام کی سماعت کرنے لگتا ہے، جنہیں سر کی آنکھوں دیکھ نہیں سکتااور نہ ہی کانوں سے سن سکتا ہے۔ غیب کے حجابات اٹھ جانے سے وہ ماورائی حقائق جو ورائے حجاب تھے، خواہ وہ حجاب مادی و جسمانی تھے، خواہ ماضی اور مستقبل سے متعلق تھے، وہ تمام بطریق کشف نصیب ہوتے ہیں۔ انہیں علومِ مکاشفہ بھی کہا جاتا ہے اور علومِ لدنیہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ علم ظاہر و باطن کی یہ تقسیم پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش کے یا موجودہ زمانے کے عرب و عجم کے علماء اور صوفیا نے وضع کرلی ہے، بلکہ خود امام فخر الدین رازی نے علم الباطن اور علم لدنی کو مکاشفہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔

وہ ’التفسیر الکبیر (21: 76)‘ میں علم بالکشف اور علم لدنی کا صحیح بخاری کی حدیث قدسی سے استدلال کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِي، یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ، فَإِذَا أَحَبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِي یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِي یُبْصِرُ بِہٖ، وَیَدَہُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَہُ الَّتِي یَمْشِي بِھَا.

1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137

2۔ ابن حبان، الصحیح، 2: 58، رقم: 347

میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو، میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

اس سے ایک چیز تو واضح ہو گئی کہ کشف یا دیگر روحانی مراتب اور درجات کا حصول یا بندے کا اللہ تعالیٰ کے قرب کا سفر فرائض و واجبات کی بجا آوری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں شریعت نے جو فرائض و واجبات مقرر کئے ہیں، ان کی پابندی کے بغیر کوئی شخص نہ تو مرتبہ ولایت میں داخل ہو سکتا ہے، نہ ہی اسے اللہ تعالیٰ کی قربت و معرفت نصیب ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی علم لدنی کا حامل ہو سکتا ہے۔

بدقسمتی سے بعض دین سے بے بہرہ اور تارکینِ نماز کہتے ہیں کہ ہم تو ہر وقت ہی اللہ تعالیٰ کی حضوری میں رہتے ہیں۔ ان کے یہ کلمات سراسر عیاری، مکاری اور بد دیانتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسے شخص سے بیعت کرنا اور اُس کی صحبت میں بیٹھنا بھی حرام ہے۔ جو شخص شریعتِ محمدی کا منکر ہے بھلا وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں ولایت کے مرتبے پر کیسے فائز ہو سکتا ہے؟ نوافل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر بندہ اضافتاً نوافل ادا کرے، تسبیحات و اذکار کرے اور ریاضات و مجاہدات کرے تو میں اسے اپنے قریب تر کرتا چلا جاتا ہوں، حتیٰ کہ اتنا قریب کر لیتا ہوں کہ میں خود اُس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر میں اُس کے کان بن جاتا ہوں، اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں، اُس کی زبان بن جاتا ہوں، اُس کا دل بن جاتا ہوں، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں اور اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں۔ پھر بندہ میرے ذریعے سنتا، میرے ذریعے دیکھتا، میرے ذریعے بولتا، میرے ذریعے چلتا، میرے ذریعے پکڑتا، میرے ذریعے ہی دل میں خیال لاتا ہے اور وہ صرف میری ہی خواہش کی تکمیل کرتا ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:

فَإِذَا أَحَبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِي یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِي یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَہُ الَّتِي یَمْشِي بِھَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِیْذَنَّہٗ.

1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137

2۔ ابن حبان، الصحیح، 2: 58، رقم: 347

3۔ بیہقی، السنن الکبری، 10: 219

میں اُس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، میں اُن کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، میں اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ کا طلب گار ہوتا ہے تو میں اُسے ضرور پناہ عطا کرتا ہوں۔

امام فخر الدین رازی ’صحیح بخاری‘ کی اس روایت کو کشف اور علمِ لدنی کی بنیاد بناتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَہٰذَا الْخَبَرُ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَبْقَ فِي سَمْعِھِمْ نَصِیْبٌ لِغَیْرِ اللهِ.

رازی، التفسیر الکبیر، 21: 76

اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (جب اولیاء اللہ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں تو پھر) ان کی سماعت میں غیر اللہ کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے ولی پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی قربت اور محبت کے ساتھ عطا کر کے اسے اس مقام پر فائز کر دیتا ہے کہ وہ اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا ولی اس مقام پر فائز ہوتا ہے تو پھر اس شخص کا بطور بشر سماعت میں اپنا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اس کی سماعت سماعتِ الٰہیہ کی طرف منسوب ہو جاتی ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے براہِ راست فیض سے سننے لگتا ہے۔ اُس کی بصارت کا کوئی حصہ اپنا نہیں رہتا اور اس کی اپنی نفی ہو جاتی ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے تو اپنی استعداد سے نہیں بلکہ فیضِ الٰہیہ سے دیکھتا ہے۔ یہ علمِ لدنی ہے، جس کا ذکر قرآن حکیم میں سورۃ الکہف کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

امام رازی پھر فرماتے ہیں:

وَلَا فِي بَصَرِھِمْ وَلَا فِي سَائِرِ أَعْضَائِھِمْ.

رازی، التفسیر الکبیر، 21: 76

اور نہ ان کی بصارت میں اور نہ ہی تمام اعضاء میں (غیر اللہ کا کوئی حصہ رہتا ہے)۔

یعنی اس کے تمام اعضاء کی جو اپنی استعداد و صلاحیت ہے جس میں کمی، بیشی، نفع، نقصان، کمال اور ناقص ہونے کی ساری خوبیاں اور نقائص شامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُنہیں ہٹا دیتا ہے۔ اب نورِ الٰہی اُس کی سماعت، اس کی بصارت اور اُس کے ہاتھ کی گرفت بن جاتا ہے۔ گویا نورِ الٰہی اُس کے قلب کے خیالات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے روحانی بدل (spiritual replacement) کا عمل بن جاتا ہے۔

امام فخر الدین رازی مزید فرماتے ہیں:

إِذْ لَوْ بَقِيَ ھُنَاکَ نَصِیْبٌ لِغَیْرِ اللهِ لَمَا قَالَ: أَنَا سَمْعُہٗ وَبَصَرُہٗ.

رازی، التفسیر الکبیر، 21: 76

اگر ان کے ہاں غیر اللہ کا کچھ حصہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا کہ میں اُس کے کان بن جاتا ہوں اور میں اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں۔

یعنی اگر وہ بندہ جو غیر اللہ میں سے ہے، اگر اُس کے ان تمام اعضاء کی کارکردگی میں اپنا حصہ ہوتا، اُس کے کان اپنی استعداد سے سماعت کرنے والے ہوتے، اُس کی آنکھیں اپنی استعداد سے دیکھ رہی ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کبھی نہ فرماتا کہ میں اُس کے کان بن جاتا ہوں اور میں اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اُس بندے کی نفسی، بشری اور مادی استعداد اور صلاحیتوں کا خاتمہ فرما دیا ہے۔ وہ اسی کیفیت کو کہتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔ یہاں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کتنی حفاظت میں آ جاتا ہے؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ اُسے خالقِ دو جہاں نے اپنی کتنی قربت عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ جب ساری کثافتیں دور ہو جاتی ہیں اور ملاء اعلیٰ کی لطافت آنا شروع ہو جاتی ہے تو وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔ جتنی حفاظتِ الٰہیہ بـڑھتی چلی جاتی ہے اُتنا ہی علمِ لدنی خطا اور غلطی سے پاک ہوتا چلا جاتا ہے۔ تاہم ولایت کے باب میں غلطی کا امکان رہتا ہے جبکہ نبی کے علم میں امکانِ خطا قطعاً نہیں ہوتا۔

7۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (560-638 ھ)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کی بہت سی کرامات ہیں مگر اُن میں سب سے اعلیٰ کرامت علمِ لدنی ہے۔ ہواؤں میں اُڑنے، سمندروں اور دریاؤں پر پیدل چلنے، الغرض جتنی خوارقِ عادات کرامات ہیں اُن سب سے بڑھ کر یہی کرامت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے:

رَبِّ زِدْنِی عِلْمًاo

طہ، 20: 224

اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دےo

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کسی اور نعمت میں مزید اضافہ کرنے کا حکم اس طرح نہیں دیا کہ مجھ سے یوں دعا کیجئے۔ وہ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ اس لیے علم (علم لدنی) سے بڑا کوئی خرقِ عادت عمل کرامت کے درجے میں نہیں ہے۔ یہ الکرامۃ العظمی ہے۔

ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، باب: 184

8۔ امام نووی (631-676ھ)

امام ابو زکریا محی الدین النووی عظیم محدث ہیں، اُن کا واقعہ امام جلال الدین سیوطی نے ان کے شاگرد امام ابن العطار سے روایت کیا ہے کہ وہ امام نووی کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ دورانِ گفتگو انہوں نے فرمایا:

قَدْ أُذِنَ لِي فِي السَّفَرِ قُمْ سَافِرْ لِزِیَارَۃِ الْقُدْسِ.

ابن عطار، تحفۃ الطالبین: 7

مجھے اب یہاں سے سفر کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اے مسافر! اٹھو اور قدس کی زیارت کے لیے سفر شروع کر دو۔

وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سمجھا کہ مجھے انہوں نے القدس (مسجد اقصیٰ) کی زیارت کے لیے چلنے کا کہا ہے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس سے ان کی مراد تو سفرِ حقیقی تھا کہ ان کے وصال کا وقت آگیا ہے۔ ابن عطار کہتے ہیں کہ مجھے انہوں نے ساتھ لیا اور قبرستان گئے۔ جہاں اُنہوں نے اولیائ، مشائخ اور محدثین کی قبور کی زیارت کی اور فاتحہ پڑھی، پھر کہا: چلو اب جو اولیاء اور احباب زندہ ہیں ان سے ملاقات کر لیں۔

پھر اپنے زندہ احباب و اصحاب سے ملاقات کی۔ چنانچہ آپ نے شیخ یوسف الفقاہی، شیخ محمد الاخمیمی، شیخ شمس الدین ابن ابی عمر اور جو اس وقت محدثین، علمائ، اولیاء اور صالحین میں سے حیات تھے، ان سب سے ملاقاتیں کیں، بعد ازاں القدس کی زیارت کے بعد واپس آئے تو کچھ روز بعد ان کا وصال ہوگیا۔

الغرض کشف و کرامات ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہیں کہ جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمیں دینی معارف اور شرعی حقائق کے ایسے فیصلے جو عقائد سے متعلق ہیں اپنی عقل اور رائے سے نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ دلائلِ شرعیہ کے ساتھ، ائمہ مجتہدین، فقہاء، محدثین اور محققین کی تصریحات کے ساتھ کرنے چاہئیں۔

9۔ علامہ ابنِ تیمیہ (661-728 ھ)

علامہ ابن تیمیہ اپنی معروف کتاب ’مجموع الفتاویٰ (6: 128)‘ میں بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں علم الظاہر کا تو محتاج ہوں مگر علم باطن کا نہیں، یا یوں کہے کہ علم شریعت حضور نبی اکرم ﷺ سے لیتا ہوں اور علم حقیقت نہیں لیتا تو ایسا کہنے اور یہ عقیدہ رکھنے سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اگر وہ اپنے آپ کو ظاہر اور باطن کے تمام علوم میں حضور ﷺ کا محتاج نہیں سمجھتا، یا شریعت اور حقیقت دونوں میں حضور ﷺ کا محتاج نہیں سمجھتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ جیسا شخص بھی علم ظاہر اور علم باطن کی تقسیم کے قائل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عالم جس کے پاس قابلِ اعتماد علم ہے وہ پوری اسلامی تاریخ میں ان چیزوں کا منکر نہیں ہوا ہے۔ یہ بات متفق علیہ اور مسلمہ ہے۔

اس کے بعد علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

وَکَذَالِکَ ھٰذَا الَّذِي یَقُوْلُ: إِنَّ مُحَمَّدًا ﷺ بُعِثَ بِعِلْمِ الظَّاھِرِ دُوْنَ عَلَی الْبَاطِنِ. آمَنَ بِبَعْضٍ مَا جَاءَ بِہٖ وَکَفَرَ بِبَعضٍ فَھُوَ کَافِرٌ.

اس طرح وہ شخص بھی کافر ہوگا جو یہ کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ صرف علم ظاہر کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور علم باطن نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ (کیونکہ) حضور ﷺ جو کچھ لے کر آئے وہ اُس میں سے کچھ مانتا ہے اور کچھ کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا وہ کافر ہے۔

یعنی حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح علمِ ظاہر لائے ہیں اُسی طرح علمِ باطن کی نعمت بھی آپ ﷺ نے اُمت کو عطا کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

وَہُوَ أَکْفَرُ مِنْ أُوْلٰـئِکَ. لِأَنَّ عِلْمَ الْبَاطِنِ الَّذِي ہُوَ عِلْمُ إِیْمَانِ الْقُلُوْبِ وَمَعَارِفِھَا وَأَحْوَالِہَ. وَھُوَ عِلْمٌ بِحَقَائِقِ الإِیْمَانِ الْبَاطِنَۃِ. وَھُوَ أَشْرَفُ مِنَ الْعِلْمِ بِمُجَرَّدٍ أَعْمَالِ الإِسْلَامِ الظَّاھِرَۃِ.

ابن تیمیۃ، مجموع الفتاوی، 11: 225

علمِ باطن کا انکار کرنے والا دوسروں سے بھی بڑا کافر ہے۔ اس لیے کہ علمِ باطن دلوں کا علم ہے، دلوں کے ایمان کا علم ہے اور دلوں کے معارف کا علم ہے، احوال کا علم ہے۔ یہ ایمان کے باطنی حقائق کا علم ہے اور فقط اسلام کے ظاہری اعمال کے علم سے یہ علمِ باطن زیادہ اعلیٰ اور ارفع علم ہے۔

علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’العقیدۃ الواسطیۃ‘ کی الفصل الثالث: التصدیق بکرامات الأولیائ‘ میں لکھتے ہیں:

وَمِنْ أُصُوْلِ أَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ التَّصْدِیْقُ بِکَرَامَاتِ الْأَوْلِیَاءِ.

1۔ ابن تیمیۃ، العقیدۃ الواسطیۃ: 45-46

2۔ ابن تیمیۃ، مجموع الفتاوی، 3: 156

3۔ قنوجی، قطف الثمر في عقیدۃ أھل الأثر: 105

اولیاء اللہ کی کرامات کی تصدیق کرنا اہل سنت کے بنیادی اور اصولی عقائد کا حصہ ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے ہر ولی کی کرامت کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہ کرامت دراصل حضور ﷺ کے معجزات کا تسلسل ہی تو ہے۔ اُسے یہ مرتبۂ کرامت حضور ﷺ کی متابعت اور اتباع کے نتیجے میں ملا ہے۔

جہاں تک کشف اور علمِ لدنی کے موجود ہونے کی بات ہے تو اس کے انکار کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ و مجتہدین، علماء و محدثین اور فقہاء میں سے کسی نے بھی چودہ سو سال میں یہ بات نہیں کہی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد کشف نہیں ہوگا۔ علم کا ایک تسلسل اور تواتر ہوتا ہے، جس پر اُمت کا ہمیشہ سے اجماع رہا ہے۔ جس پر اختلاف ہی نہیں ہے اس کے حوالے سے ایسی بات کرنا دراصل پوری اُمت کی نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔

آج بھی آنکھیں اسی طرح سے دیکھتی ہیں جس طرح پہلے دور کے انسان کی دیکھا کرتی تھیں۔ انسانی کان جیسے پہلے سنتے تھے، آج بھی اسی طرح سے سنتے ہیں۔ جس طرح آنکھوں کا دیکھنا اور کانوں کاسننا بند نہیں ہوا، عین اسی طرح باطنی ذرائع یعنی علمِ مکاشفات، مشاہدات، علمِ باطن اور علمِ لدنی بھی بند نہیں ہوئے۔ قلب کی آنکھیں بھی اُسی طرح کار فرما ہیں جیسا کہ پہلے تھیں۔ روح کے ذرائع بھی جس طرح پہلے کارفرما تھے اسی طرح آج بھی مصروفِ عمل ہیں۔ ملاء اعلیٰ اور دل کا رابطہ بھی اسی طرح قائم ہے جیسے پہلے تھا۔ آج بھی اگر کوئی قلب کی صفائی کر لے تو اس پر وہی انوار و تجلیات اتریں گے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ آج مکاشفات ممکن نہیں ہے، ایسا کہنا دینِ اسلام کے اصولوں کی نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے علامہ ابن تیمیہ نے کہا کہ یہ اُصولِ اہل سنت میں سے ہے کہ کسی بھی دور اور کسی بھی زمانہ میں اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں:

وَمَا یُجْرِي اللهُ عَلٰی أَیْدِیْھِمْ مِنْ خَوَارِقِ الْعَادَاتِ فِي أَنْوَاعِ الْعُلُوْمِ وَالْمُکَاشَفَاتِ، وَأَنْوَاعِ الْقُدْرَۃِ وَالتَّأْثِیْرَاتِ، وَالْمَأْثُوْرِ عَنْ سَالِفِ الأُمَمِ فِي سُوْرَۃِ الْکَہْفِ وَغَیْرِھَا، وَعَنْ صَدْرِ ھٰذِہِ الأُمَّۃِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ، وَسَائِرِ فِرَقِ الأُمَّۃِ، وَھِيَ مَوْجُوْدَۃٌ فِیْھَا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.

1۔ ابن تیمیۃ، العقیدۃ الواسطیۃ: 45-46

2۔ ابن تیمیۃ، مجموع الفتاوی، 3: 156

3۔ قنوجی، قطف الثمر في عقیدۃ أھل الأثر: 105

اللہ تعالیٰ ان اولیاء کے ہاتھوں علوم و مکاشفات کی انواع میں سے اور قدرت و تاثیرات کی انواع میں سے جو خرق عادت اُمور جاری کرواتا ہے، سابقہ اُمتوں سے سورۃ الکہف اور دیگر سورتوں میں جو کرامات منقول ہیں اور اسی طرح اس اُمت مسلمہ کے ابتدائی حصہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور اُمت کے تمام مکاتب فکر سے اس بارے میں جو کچھ منقول ہے (وہ حق ہے)۔ کرامات کا یہ سلسلہ قیامت تک موجود رہے گا۔

ایک مقام پر علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ یہ کہنا کہ پہلے زمانے میں کرامات اور مکاشفات تھے، آج کے زمانے میں نہیں یہ ایک غیر حقیقی بات ہے۔ جو اس کے اہل ہوں گے اُن کے لیے یہ علم ہوگا، جو اہل نہیں ہیں اُن کے لیے نہیں ہوگا۔ تاہم کسی کا دعویٰ کرنے سے یہ کشف و کرامت، مکاشفات اور علومِ لدنیہ (علم لدنی) ثابت نہیں ہو جاتا۔ ایسا دعویٰ کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کے نبی کا حق ہے۔

نبی کی نبوت پر ایمان لانا فرائض اور واجبات میں سے ہے۔ اگر اُس کا انکار کریں گے تو کافر ہو جائیں گے۔ ایک ولی اللہ کی ولایت کا انکار کریں گے تو اُس سے کافر تو نہیں ہوں گے، البتہ اللہ کی عنایات سے محروم ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ میں سرے سے ولایت کو ہی نہیں مانتا تو ولایت کے مطلقاً انکار سے بندہ کافر ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ قرآن مجید کی نصوص کا انکار ہے اور احادیثِ نبوی سے جو چیز ثابت ہے اُس سے منکر ہونے کا اعتراف ہے۔

دراصل جب کشف و کرامات کا انکار کریں گے تو یہ معجزئہ نبی کا انکار تصور ہوگا چونکہ تمام اولیاء کی کرامات اُس کے نبی کے معجزات کا تسلسل ہیں۔

علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’النبوات (ص: 130)‘ میں بیان کرتے ہیں:

وَقَدْ ذَکَرَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ۔ أَنَّ کَرَامَاتِ الْأَوْلِیَاءِ مُعْجِزَاتٌ لِنَبِیِّھِمْ.

یہ ایک دو علماء نے نہیں بلکہ کثیر نے لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے اولیاء کی کرامات اُن کے نبی کے معجزات ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے شرف اور عظمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نبوت کا سلسلہ تو بلاشبہ ختم ہوگیا ہے، مگر حضور ﷺ کی اُمت میں اب محدثین، اولیائ، صالحین اور مجددین قیامت تک آتے رہیں گے، یہ آپ ﷺ کے خلفاء اور نائبین ہیں۔

یہاں علامہ ابن تیمیہ بطور دلیل کہتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی نبوت کی علامات میں سے ایک ہے۔ اگر آپ ﷺ کی نبوت جاری و ساری ہے تو آپ ﷺ کی اُمت کے ہر زمانے میں ولایت، کرامت اور کشف بھی جاری ہے اور رہنا بھی چاہیے۔

علامہ ابن تیمیہ اپنے بیان کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں:

وَھٰذَا ھُوَ الصَّوَابُ.

ابن تیمیۃ، النبوات : 130

اور یہی عقیدہ صحیح ہے۔

ابن تیمیہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء صاحبانِ تقویٰ ہوتے ہیں۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع، اقتدا اور امر و نہی کی پیروی کے سبب اس مقام پر پہنچے ہوتے ہیں:

فَیُؤَیِّدُھُمْ بِمَلَائِکَتِہٖ، وَرُوْحٍ مِنْہُ، وَیَقْذِفُ اللهُ فِي قُلُوْبِھِمْ مِنْ أَنْوَارِہٖ، وَلَھُمُ الْکَرَامَاتُ الَّتِي یُکْرِمُ اللهُ بِھَا أَوْلِیَائَہُ الْمُتَّقِیْنَ.

ابن تیمیۃ، مجموع الفتاویٰ، 11: 274

اللہ تعالیٰ پھر اپنے ملائکہ اور روح الامین کے ذریعے اُن کی تائید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنے انوار داخل فرماتا ہے اور پھر انہیں کرامتیں عطا کرتا ہے۔ جن کے ذریعے اپنے اولیاء اور متقین کو اونچے درجے دیتا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں:

مَا کَانَ مِنَ الْخَوَارِقِ مِنْ ’بَابِ الْعِلْمِ‘ فَتَارَۃً بِأَنْ یُسْمِعَ الْعَبْدَ مَا لَا یَسْمَعُہٗ غَیْرُہٗ۔ وَتَارَۃً بِأَنْ یَرٰی مَا لَا یَرَاہُ غَیْرُہٗ یَقَظَۃً وَمَنَامًا۔ وَتَارَۃً بِأَنْ یَعْلَمَ مَا لَا یَعْلَمُ غَیْرُہٗ وَحْیًا وَإِلْھَامًا أَوْ إِنْزَالُ عِلْمٍ ضَرُوْرِيٍّ أَوْ فِرَاسَۃٍ صَادِقَۃٍ، وَیُسَمّٰی کَشْفًا وَمُشَاہَدَاتٍ وَمُکَاشَفَاتٍ وَمُخَاطَبَاتٍ: فَالسَّمَاعُ مُخَاطَبَاتٌ وَالرُّؤْیَۃُ مُشَاہَدَاتٌ وَالْعِلْمُ مُکَاشَفَۃٌ وَیُسَمّٰی ذَالِکَ کُلُّہٗ کَشْفًا وَمُکَاشَفَۃً.

1۔ ابن تیمیۃ، 11: 313

2۔ ابن تیمیۃ، التصوف والصوفیۃ، 11: 5-24

اور خوارقِ عادات (کرامات) میں بہت بڑی چیز باب علم میں سے ہے۔ علم کے باب میں بڑی کرامت یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ولی اللہ اور اللہ کا ایک مقرب بندہ وہ چیزیں سنتا ہے جو دوسرے آدمی کے کان نہیں سن سکتے۔ کئی بار وہ اُن چیزوں کو کشف کے ذریعے دیکھتا ہے جو دوسرے آدمی کی آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں۔ یہ علوم بطریقِ رؤیا (خواب) بھی حاصل ہوتے ہیں اور بیداری کے ذریعے بھی نصیب ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ولی ایسی کئی چیزوں کا علم حاصل کرتا ہے کہ اُس کے پاس علم آجاتا ہے جو علم دوسرے شخص کو نہیں آتا، تو یہ علم کبھی نبی پر وحی کے ذریعے نازل ہوتا ہے اور اولیاء پر الہام کے ذریعے اترتا ہے۔ کبھی یہ علم نورِ فراست کی شکل میں بھی ملتا ہے اور جو علم اللہ تعالیٰ براہِ راست نور کے ذریعے عطا کرتا ہے، اسے مشاہدات، مکاشفات اور مخاطبات کہتے ہیں۔

اس کے بعد وہ اپنی اسی کتاب میں مختلف کرامات بیان کرتے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا حضرت ساریہ کو آگاہ کرنا اور اسی طرح کے کئی دیگر واقعات حوالہ جات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر سابقہ باب میں گز چکا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ نے ان روایات کو بیان کرکے کشف کا اثبات کیا ہے۔

10۔ امام ابن الحاج المالکی (م 737 ھ)

امام ابن الحاج المالکی لکھتے ہیں:

إِنَّا لَا نُنْکِرُ مَنْ یَقَعُ ھٰذَا مِنَ الأَکَابِرِ الَّذِیْنَ حَفِظَھُمُ اللهُ تَعَالٰی فِي ظَوَاھِرِھِمْ وَبَوَاطِنِھِمْ.

ابن الحاج، المدخل، 3: 194

یقینا اکابرین سے جو کچھ واقع ہوا ہے ہم اُس کا انکار نہیں کر سکتے چونکہ اللہ نے اُن کی ظاہری طور بھی حفاظت فرما رکھی ہے اور وہ باطنی طور بھی محفوظ ہوتے ہیں۔

قلب کا کشف اس مقام تک چلا جاتا ہے اورپردے اس مقام تک اٹھ جاتے ہیں کہ اولیاء کرام عالمِ خواب تو دور کی بات ہے عالم بیداری میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ بعض علمائے ظاہر نے بیداری کے عالم میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کا انکار کیا ہے کہ ہماری آنکھیں فانی ہیں اور فانی آنکھیں باقی کا (وفات کے بعد جو مرتبہ آقا علیہ السلام کو مل گیا تو اس کا) دیدار نہیں کر سکتیں۔

وہ اس بات کا جواب دیتے ہیں کہ جب بندہ اللہ کی قربت میں چلا جاتا ہے تو اس کی فانی آنکھ کو باقی آنکھ کے ساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے چونکہ اللہ نے کہا کہ وہ اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ میری آنکھ سے نظارہ کرتا ہے۔ اسی طرح سے وہ اپنے کانوں سے نہیں سنتا بلکہ میرے کانوں سے سنتا ہے۔ اُس پر اب فانی آنکھ کے احکام نہیں لگیں گے بلکہ باقی رؤیت کے احکام لگیں گے، لہٰذا وہ باقی رؤیت سے باقی ہستی کا دیدار کرتا ہے۔

امام سیوطی لکھتے ہیں کہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کو نماز ظہر سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ کی عالم بیداری میں زیارت ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عبد القادر! میرے بیٹے تو خطاب کیوں نہیں کرتا؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں عجمی ہوں۔ عراق کے لوگ بڑے فصیح و بلیغ عربی زبان بولنے والے ہیں، میں جسارت نہیں کر پاتا کہ ان کے سامنے خطاب کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیٹے اپنا دہن کھولو، میں نے تعمیل کی۔ آپ ﷺ نے سات مرتبہ اپنا لعابِ اقدس میرے منہ میں ڈالا۔ جس سے میرے سینے سے معرفت کے چشمے ابلنے لگے اور میری زبان سے فصیح اور بلیغ عربی رواں ہو گئی۔

سیوطي، الحاوي للفتاوی، 2: 312

11۔ امام تاج الدین السبکی (727-771ھ)

امام تاج الدین السبکی ’طبقات الشافعیۃ الکبری‘ میں کرامات پر کشف کی بحث کے آخر میں لکھتے ہیں کہ کرامات کی ایک سو سے زائد اقسام ہیں۔ انہوں نے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی کرامات کی اقسام بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء میں مردوں کو زندہ کرنے کی کرامت بھی شامل ہے۔ وہ اس ضمن میں سب سے پہلے سیدنا غوث الاعظم کی درج ذیل کرامت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مرغی کا گوشت کھایا، سالن ختم ہوا، ہڈیاں رکھ دیں اور اس کے بعد ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

قُوْمِي بِإِذْنِ اللهِ الَّذِي یُحْیِي الْعِظَامَ وَھِيَ رَمِیْمٌ.

سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبری، 2: 338

اے مرغی !اُس اللہ کے حکم سے زندہ ہو کر کھڑی ہو جاؤ، جو ہڈیوں میں جان ڈال دیتا ہے۔

وہ مرغی کھڑی ہوگئی اور امام سبکی فرماتے ہیں کہ ان کی یہ کرامت حدِ شہرت کو پہنچی ہوئی ہے۔

اسی طرح انہوں نے مزید کرامات بیان کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان کی ہیں، مثلاً دریا کو پھاڑ دینا، مُردوں سے بعد از مرگ کلام کرنا، حیوانوں اور جانوروں سے گفتگو کرنا، بیمار کا اچانک شفایاب ہو جانا، نابینا کی بینائی بحال ہو جانا، حیوانات کا اطاعت کرنا، دعا کا قبول ہو جانا، علمِ لدنی کا حاصل ہونا، غیبی امور اور حقائق کا بیان کرنا، تھوڑے وقت میں زیادہ سفر طے کرنا اور تھوڑے عرصے میں بہت ساری کتابیں تصنیف کرنا شامل ہے۔ اس موقع پر وہ امام الحرمین ابو المعانی الجوینی کی مثال دیتے ہیں کہ انہوں نے تھوڑی عمر میں اتنی تصنیفات تحریر کیں کہ کوئی اور صاحبِ قلم عالم اس تھوڑے عرصے میں اس قدر لکھ نہیں سکتا۔

امام سبکی کہتے ہیں کہ کرامت کا یہی درجہ میرے والد کو بھی حاصل تھا کہ انہوں نے اپنے زندگی کے قلیل عرصہ میں اتنی تصانیف تحریر کیں کہ انہیں بغیر کرامت کے لکھے جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ تصانیف کے علاوہ ان کی دیگر مصروفیات بھی ہوا کرتی تھیں، اُن کا عبادات پر بھی وقت لگتا تھا۔ وہ دروس بھی دیتے، خطاب بھی کرتے، تلاوت بھی کرتے، فتاویٰ بھی دیتے اور بہت سارے دیگر معاملاتِ زندگی بھی ادا فرماتے تھے۔

سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، 2: 343

امام سبکی فرماتے ہیں:

وَھُوَ دَرَجَاتٌ تَخْرُجُ عَنْ حَدِّ الْحَصْرِ.

سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، 2: 340

اور کشف و کرامات کے اتنے درجات ہیں کہ حیطہ شمار میں ہی نہیں آسکتے۔

اسی طرح فرمایا کہ پردوں کے پیچھے سے کسی دور کے مقام کو دیکھ لینا بھی کرامتوں میں سے ایک ہے۔ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

إِنَّ الشَّیْخَ أَبَا إِسْحَاقَ الشَّیْرَازِيَّ کَانَ یُشَاھِدُ الْکَعْبَۃَ وَھُوَ بِبَغْدَادَ.

سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، 2: 341

امام ابو اسحق شیرازی ایسے ولی اللہ تھے کہ جب اُن کا دل کرتا (تو بغداد شریف میں رہتے ہوئے) پردہ اٹھ جاتا اور وہ کعبۃ اللہ کو دیکھ لیتے تھے۔

انہوں نییہاں ایک ہی مثال دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشف اور علمِ لدنی کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

12۔ امام جلال الدین سیوطی (849-911 ھ)

امام جلال الدین سیوطی نے ’تنویر الحلق في إِمکان رؤیۃ النبي ﷺ والملک (حضور نبی اکرم ﷺ اور فرشتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھنے کے امکان)‘ کے عنوان سے ایک پورا رسالہ لکھا ہے۔ انہوں نے اس رسالہ میں احادیث سے لے کر اولیاء اللہ کی کرامات اور ائمہ، محدثین اور فقہاء کی تصریحات کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی کسی اور کا حوالہ نہ بھی دیں تب بھی وہ بذاتِ خود ایک سند ہیں۔ وہ اتنے بڑے عالم، محدث، فقیہ اور اتنی بڑی اتھارٹی ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ایک ایک جملہ بذاتِ خود ایک سند ہے۔

امام جلال الدین سیوطی اس رسالہ کو ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ کی متفق علیہ حدیث سے شروع کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَیَرَانِي فِي الْیَقَظَۃِ وَلَا یَتَمَثَّلُ الشَّیْطَانُ بِي.

1۔ بخاری، الصحیح، باب من رأی النبی ﷺ فی المنام، 6: 2567، رقم: 6592

2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الرؤیا، باب قول النبي ﷺ : من رآني في المنام فقد رآني، 4: 1775، رقم، (11) 2266

3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5: 306، رقم: 22659

4۔ أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الرؤیا، 4: 305، رقم: 5023

جو شخص خواب میں میری زیارت کرتا ہے وہ عنقریب (مرنے سے پہلے) عالمِ بیداری میں بھی میری زیارت کرے گا۔ (یہ گمان نہ کرے کہ میری زیارت نہیں ہوگی اس لیے کہ) شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا۔

یہ ایک منفرد مضمون کی حدیث ہے۔ امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث سے اپنا رسالہ شروع کرنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پھر اولیاء اللہ کی کرامات کے واقعات ذکر کیے ہیں۔

اس حدیث سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، سوائے اس آدمی کے جو کہے کہ میں حدیث کو ہی نہیں مانتا، حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو ہی نہیں مانتا میں تو صرف اپنی عقل کی بات مانتا ہوں۔ جو شخص قرآن و حدیث کو مانتا ہو، اس سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ یہ متفق علیہ حدیث ہے۔ بطور حوالہ کوئی کم زور سند کی ضعیف حدیث پیش نہیں کی جا رہی۔

تمام ائمہ حدیث خواہ حافظ ابن حجر عسقلانی ہوں، امام قسطلانی ہوں، امام عینی ہوں اور تمام شارحینِ حدیث نے اس حدیث فَسَیَرَانِيْ فِي الْیَقْظَۃ پر دو قول بیان کئے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی اس رسالہ میں دونوں اقوال بیان کرتے ہیں:

بعض نے یہ کہا ہے کہ کہیں اس کا معنیٰ یہ نہ ہو کہ فَسَیَرَانِي فِي الْقِیَامَۃِ کہ قیامت میں مجھے دیکھے گا۔ عنقریب یعنی بیداری میں دیکھنے سے مراد قیامت کی طرف اشارہ تو نہیں۔

امام سیوطی اس امکان کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر بات قیامت کے دن ہی دیکھنے کی ہے تو روزِ محشر تو ہر کوئی دیکھے گا، خواہ اُس نے اپنی زندگی میں خواب کے دوران حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی ہوگی یا نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ سامنے ہوں گے اور شفاعت فرمائیں گے۔ قیامت کے دن تو ہر ایک نے دیکھنا ہے مگر یہاں تو آپ ﷺ تخصیص فرما رہے ہیں کہ ’جو خواب میں میری زیارت کرے گا وہ عنقریب بیداری کے عالم میں بھی مجھے دیکھے گا۔‘

امام سیوطی اس قول کو رد کر تے ہوئے فرماتے ہیں:

بِأَنَّہٗ لَا فَائِدَۃُ ھٰذَا التَّخْصِیْصِ.

پھر اس تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔

ان کے اس قول کو محدثین، علماء اور ائمہ کی اکثریت نے قبول کیا ہے:

ھُوَ عَلٰی ظَاہِرِہٖ.

اِس حدیث کا اِطلاق ظاہری معنی پر ہوگا۔

یعنی اس حدیث کے معنیٰ کو تبدیل نہ کیا جائے اور نہ ہی کچھ اور تاویل کی جائے، بلکہ اس حدیث کے معنیٰ کو اِس کے ظاہر پر محمول کیا جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جو بات فرما رہے ہیں بس اُسی کو من و عن تسلیم کیا جائے۔ اُس میں کوئی من گھڑت تاویلات نہ نکالی جائیں۔ ظاہر کا مطلب ہے:

فَـلَا بُدَّ أَنْ یَرَاہُ فِي الْیَقَظَۃِ.

اس کا معنیٰ ہی یہ ہے کہ وہ بیداری میں دیکھے گا۔

حدیث مبارکہ میں خواب کے مقابلہ میں بیداری کو بیان کیا گیا ہے اور لفظ ’عنقریب‘ فرمایا گیا۔ اس سے قیامت کی طرف تو اشارہ نہیں جا سکتا، نیز بیداری کا لفظ زندگی کے اندر دیکھنے کی طرف دلالت کرتا ہے۔

امام ابو محمد بن ابی جمرہ ’صحیح بخاری‘ کے اوپر اپنی تعلیقات میں فرماتے ہیں:

یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ مَنْ رَآہُ فِي النَّوْمِ فَسَیَرَاہُ فِي الْیَقَظَۃِ.

یہ واضح دلالت ہے جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت کرے گا، وہ بیداری میں بھی آپ ﷺ کو دیکھے گا۔

بعد ازاں اس حدیث پر مختلف انداز سے بحث کی گئی ہے کہ یہ تو طے ہوگیا کہ خواب میں آپ ﷺ کی زیارت کرنے والا زندگی میں بھی آپ ﷺ کو دیکھے گا، بعد از ممات قیامت میں آپ ﷺ کو دیکھنا اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک کے لیے عام ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہر شخص نیکو کار یا گناہ گار ہے، جس خوش قسمت کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت ہوگئی تو کیا ہر زیارت کرنے والا بیداری کے عالم میں بھی آپ ﷺ کی زیارت کرے گا؟

بعض نے کہا ہے کہ کہیں اس سے یہ مراد تو نہیںہے کہ ان میں سے جو نیک، صالح اور متقی لوگ ہیں، اگر انہوں نے خواب میں زیارت کی تو اُنہیں بیداری میں بھی دیدار ہوگا۔ اس پر امام جلال الدین سیوطی اور دیگر ائمہ، علماء اور محدثین نے کہا کہ اس میں تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے فرما دیا کہ ’جس شخص نے خواب میں میری زیارت کی وہ بیداری میں میری زیارت کرے گا‘۔ لہٰذا اس عموم پر نیک، صالح، متقی اور پرہیزگاروں کی شرط کیوں لگاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے پوری اُمت میں ہر ایک کے لیے یہ فیض کھول دیا۔ لہٰذا وہ تخصیص بھی نہ رہی۔ اس میں کوئی تخصص نہیں ہے کہ کس وجہ سے یہ شرط اور اضافی قید لگائی جائے؟

قبر میں حضور ﷺ کی پہچان کا تعلق قلبی معرفت سے ہے یا ظاہری کشف سے؟

ہر وہ شخص جسے خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت ہوگی اسے بیداری میں بھی آپ ﷺ کا دیدار ضرور ہوگا۔ اب وہ بحث کرتے ہیں کہ زیارت کس طرح ہو گی؟ فرمایا: زیارت ہر صورت ہوگی، مگر یہ الگ بات ہے کہ اسے اس زیارت کا شعور ہوگا یا نہیں؟ اس کے مرنے سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ اس کے سامنے جسدِ مثالی میں ظاہر ہوں گے اور اپنی زیارت کروائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پہچان سکتاہے یا نہیں، کیونکہ پہچان کا تعلق اس کی قلبی معرفت کے ساتھ ہے۔ جیسے قبر میں ہر کوئی آپ ﷺ کو نہیں پہچان پائے گا۔ وہی شخص حضور نبی اکرم ﷺ کو قبر میں پہچانے گا جو پہچاننے کے قابل ہے، جس نے زندگی میں اتباعِ رسول ﷺ کو مقصود بنایا ہوگا۔ آپ ﷺ کے اُسوہ اور سیرتِ طیبہ کی پیروی کی ہو گی۔ آپ ﷺ کے اوامر و نواہی کی روشنی میں اپنے شب و روز ترتیب دیے ہوں گے۔ جس نے زندگی میں آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا ہوگا، تقویٰ و پرہیزگاری اپنائی ہوگی، دین کی پیروی کی ہوگی اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کیا ہوگا، اُس پر سے تمام پردے اٹھا دیے جائیں گے۔ زیارت تو ہر کوئی کر رہا ہوگا مگر صرف معرفت والا شخص ہی حضور ﷺ کو پہچانے گا۔ جس طرح قبر میں زیارت تو ہر ایک کو ہوگی مگر ہر کوئی حضور ﷺ کو پہچان نہیں سکے گا۔ کئی ایک کہہ دیں گے کہ میں انہیں پہچان نہیں سکتا، جبکہ ایمان والے کہیں گے: ہاں! میں انہیں پہچانتا ہوں یہ تو ہمارے آقا ﷺ ہیں۔ اس لیے فرمایا گیا:

فَسَیَرَانِي فِي الْیَقَظَۃِ.

بخاری، الصحیح، باب من رأی النبی ﷺ فی المنام، 6: 2567، رقم: 6592

خواب میں زیارت کرنے والا عنقریب بیداری میں میری زیارت کرے گا۔

بالکل یہی عالم ہو گا کہ زیارت ہو جائے گی مگر وہ افراد جن کے قلب و نظر پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں ان کو خبر ہی نہیں ہوگی کہ یہ حضور ﷺ تھے۔ پہچان انہی کو ہوگی جو آنکھ والے ہوں گے۔ لہٰذا انکار کی دلیل تلاش کرنے کی بجائے ہمیں اس قابل بننا چاہیے کہ آپ ﷺ کی زیارت سے بھی شرف یاب ہو سکیں اور پہچان کی توفیق بھی حاصل کر سکیں۔

امام جلال الدین سیوطی نے اس پرعلماء و محدثین کے واقعات بیان کرتے ہوئے تفصیلی بحث کی ہے اور کہا ہے کہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ چیز نصیب ہوئی اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے بیداری کے عالم میں بھی آپ ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے۔

13۔ محمد بن عبد الوہاب نجدی (1115-1206 ھ)

محمد بن عبد الوہاب نجدی اپنی کتاب ’الرسائل الشخصیۃ‘ اور رسالہ ’کشف الشبہات‘ دونوں میں لکھتے ہیں:

وَأُقِرُّ بِکَرَامَاتِ الأَوْلِیَاءِ وَمَا لَھُمْ مِنَ الْمُکَاشَفَاتِ وَلَا یَجْھَدُ کَرَامَاتِ الأَوْلِیَاءِ إِلَّا أَھْلُ الْبِدْعَۃِ وَالضَّلَالِ.

میں عقیدہ رکھتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ میں اولیاء کی کرامات کو مانتا ہوں اور اُن کے مکاشفات کو مانتا ہوں۔ اولیاء اللہ کی کرامات اور اُن کے مکاشفات کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو بدعتی اور گم راہ ہیں۔

یہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کا عقیدہ ہے کہ اہلِ بدعت اور اہل ضلال ہی اولیاء کی کرامات اور مکاشفات کا انکار کر سکتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلامکی والدہ پر جو الہام ہوا اُس کے تحت لکھتے ہیں:

وَفِیْہِ إِثْبَاتُ کَرَامَاتِ الأَوْلِیَاءِ.

1۔ محمد بن عبد الوھاب، الرسائل الشخصیۃ: 3

2۔ محمد بن عبد الوھاب، کشف الشبہات، 1: 169

اس میں اولیاء اللہ کی کرامات کا ثبوت ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب قرآن مجید سے اُس کا اثبات ہوگیا تو پھر کسی بھی زمانے میں اُس کا انکار ممکن نہیں رہتا۔

14۔ علامہ شوکانی (1173-1250 ھ)

علامہ شوکانی تحریر کرتے ہیں:

وَلَیْسَ لِمُنْکِرٍ أَنْ یُنْکِرَ عَلٰی أَوْلِیَاءِ اللهِ مَا یَقَعُ مِنْھُمْ مِنَ الْمُکَاشَفَاتِ الصَّادِقَۃِ الْمُوَافِقَۃِ فَھٰذَا بَابٌ قَدْ فَتَحَہٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ.

کسی منکر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اولیاء اللہ کے مکاشفاتِ صحیحہ صادقہ کا انکار کرے۔ یہ دروازہ رسول اللہ ﷺ نے خود کھولا ہے۔

پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیحین سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

قَدْ کَانَ فِي الأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِنْ یَکُنْ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ مِنْھُمْ فَعُمَرُ مِنْھُمْ.

شوکانی، حدیث الولی: 234-235

پہلے بھی امتوں میں محدثین تھے (جن سے مخاطبہ ہوتا تھا، پردے اٹھائے جاتے تھے اور ان کی زبان پر ملاء اعلیٰ کا کلام اور ملائکہ کا کلام جاری ہوتا)۔ فرمایا: اگر میری اُمت میں ایک شخص بھی ایسا ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ ضرور ہوگا۔

ملا علی قاری ’مرقاۃ المفاتیح‘ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ کلام موردِ نفی میں نہیں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے علاوہ امت میں سے کوئی نہیں ہوگا، بلکہ مورد تاکید میں ہے کہ قیامت کے دن تک ہر زمانے میں ایسے اولیاء ہوں گے جنہیں کشف ہوں گے اور علومِ لدنی اُن کی زبانوں سے جاری ہوں گے۔

ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح، 11: 179

15۔ علامہ آلوسی (م 1270 ھ)

علامہ آلوسی ’تفسیر روح المعانی‘ میں حضرت سری سقطی، حضرت جنید بغدادی اور دیگر کا قول روایت کرتے ہیں کہ علم لدنی اسرار و رموز اور مخفی حقیقتوں پر مطلع ہونے کا نام ہے۔ علم کشف یا مخفی حقائق و معارف کا ادراک اگر جسمانی، ظاہری اور مادی ذریعے کے بغیر حاصل ہو جائے تو یہ علمِ لدنی یا علم الاسرار کہلاتا ہے۔ مغیبات کا یہ علم اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب بندہ اپنے جسم کو اللہ تعالیٰ کے احکام و اوامر کی اطاعت پر لگا دیتا ہے اور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، ان سے مکمل طور پر رُک جاتا ہے۔ اُس کا جسم اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کا پیکر بن جاتا ہے اور اُس کے ارادے و افکار ربِ دو جہاں کی اطاعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔

آلوسی، روح المعانی، 16: 19

الغرض بتدریج جسم سے لے کر دماغ تک، ذہن سے لے کر نفس تک، نفس سے لے کر قلب (دل) تک اور قلب سے لے کر روح تک اُس کے تمام لطائف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور اتباع کے پیکر بن جاتے ہیں اور پھر اس پر مستزاد وہ مزید ریاضات اور مجاہدات کرتا ہے۔ یوں اُس کی روح اور نفس لطیف ہونے لگتا ہے۔ جوں جوں نفس کی کثافت ختم ہوتی چلی جاتی ہے، اس کے پردے بھی اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ مقامِ مکاشفہ اور مقامِ مشاہدہ تک یہی وہ مقامات ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے خواص کو اسرار و غوامض اور مخفی حقائق پر آگاہی عطا فرماتا ہے۔

ایسے ہزارہا حوالے موجود ہیں جن کے ساتھ ائمہ، علمائ، محدثین، فقہاء، اصولیین اور متکلمین کی کتب بھری پڑی ہیں۔ کشف اور علمِ لدنی کے حوالے سے یہ وہ عقیدہ اور تصور ہے کہ جس کا تیرہ سو سال سے علماء کے کسی مکتب فکر اور محدثین نے انکار نہیں کیا۔ آج اگر ہمارے ذہنوں میں انکار در آئے تو اس کا سبب نفسانی اور شیطانی حملے کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟ چونکہ اُمت کا چودہ سو سال سے تسلسل اور اجماع کے ساتھ جو عقیدہ رہا ہے اگر اُس سے انکار کریں گے تو پھر ہم قرآن سے اِکتساب فیض کر سکتے ہیں اور نہ ہی احادیث نبویہ سے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے قرآن مجید کی آیات کے اور احادیثِ نبوی کے معانی سمجھانے والے یہی امام تھے، انہی ائمہ کی کتب کے فیض سے علم کی شمعیں شرق تا غرب روشن ہوئی ہیں۔

16۔ حاصلِ کلام

تحصیلِ علم کے لیے محنت و مشقت اور ریاضت و مجاہدہ ناگزیر ہے۔ علم جتنا زیادہ معیاری ہو وہ اُتنی ہی زیادہ سعی و کاوش کا تقاضا کرتا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حصولِ علم کے ذرائع کی ترقی کے ساتھ انسانوں میں کم کوشی اور سہل پسندی کا عنصر غالب آتا چلا گیا۔ اگر عصر حاضر کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سائنس کی ہوش ربا ترقی نے انسان کو نقطۂ کمال پر پہنچا دیا ہے، لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انسان کی سہل پسندی بھی انتہا پر نظر آتی ہے۔

زمانے کے تغیرات اس امر کے متقاضی ہیں کہ معاشرے میں علمی شغف کو فروغ دینے کے لیے نسل نو کو جھنجوڑتے ہوئے علمی انقلاب بپا کیا جائے۔ نئی نسل بلاشبہ صلاحیتوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے، مگر ان میں اپنے آباء اور اکابرین کے علمی ورثہ کو متعارف کروا کر جستجو اور اشتیاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یاد رہے کہ آنے والا کل، تصور سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ مادی ترقی کے ساتھ جیسے ظاہری علم کی طرف رجحان کم ہوا ہے ویسے ہی روحانی اقدار بھی رو بہ تنزل ہیں۔ حالات کی نزاکت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ نسلِ نو کو اسلام کے حقیقی پیغام سے روشناس کراتے ہوئے انہیں علم کی حقیقی ماہیت، فضیلت اور ضرورت سے متعارف کرایا جائے۔ علمی حوالے سے مغربی نظریات کے بجائے اسلام کے آفاقی اور اٹل نظریات کی نورانی کرنوں سے ان کے قلوب و اذہان کو منور کیا جائے تاکہ مادہ پرستی کا خاتمہ ہو اور اسلام کی حقیقی روح ان پر آشکار ہو جائے۔ ان مقاصد حسنہ کی تکمیل میں موجودہ تصنیف ایک کاوش ہے۔ جو ایک طرف علم کے تمام گوشوں پر جامع انداز سے روشنی ڈالتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اسلامی روحانی اقدار اور مذہبی اصلاحات کا تعارف بھی احسن انداز سے کراتی نظر آتی ہے۔

اس دورِ پر فتن میں مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ علم کی دولت سے محرومی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس دین نے ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے علم حاصل کرنے کو لازمی فریضہ قرار دیا ہو اور تمام مسائل کا حل ام الکتاب کی صورت میں اس کے پیروکاروں کے پاس موجود ہو، پھر بھی وہ دنیا میں محکوم و مظلوم اور مفلس و بے حال قوم کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کا بارہ سو سالہ عروج، ترقی و کمال اور وقار کا راز علم سے منسلک تھا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علم کے رجحان کو فروغ دے کر امتِ محمدیہ میں علمی انقلاب برپا کرکے اسے پھر سے دنیا کی ایک خود مختار، باوقار اور جاہ و حشمت والی امت تسلیم کرایا جائے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں علم کی حقیقی آگاہی حاصل ہو اور ہم اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کا حق ادا کریں۔

دعا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے ہر دلِ مسلم میںحقیقی علم کی آشنائی عطا فرمائے اور اس کے تقاضوں پر عمل کر کے امتِ اسلامیہ کو پھر بامِ عروج تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved