اب ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ہمارا گناہ کیا ہے ؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گناہ یا اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو ہم ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں اور ایک وہ جوہم اجتماعی حیثیت میں ملی یا قومی سطح پر کرتے ہیں۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہماری ذاتی زندگی خدا کی نافرمانی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے رُوگردانی، بے ایمانی، رزقِ حرام، جھوٹ، تکبر، قطع تعلقی، ظلم و جبر، ناانصافی، حق تلفی اور دھوکہ دہی سے عبارت ہے؛ جبکہ اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کم و بیش ان ہی امراض کا شکار ہے۔ یہ گناہ اور اعمال ذاتی حیثیت میں ہوں تو گرفت بھی انفرادی سطح پر ہوتی ہے اور جب یہ اعمال اور گناہ اجتماعی طور پر ہوں تو اللہ کی گرفت بھی اجتماعی طور پر ہوتی ہے۔ یہاں اِجتماعیت سے مراد اکثریت ہے۔ محض چند لوگوں کا نیک ہونا یا اللہ کا فرمانبردار ہونا اس قوم کو عذاب سے نہیں بچا سکتا۔
قوم کو اللہ کی فرمانبرداری، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی، اسلامی ماحول کی فراہمی، اسلامی قوانین کی تشکیل، عدل وانصاف کی فراہمی اور قانون کی پاسداری کی تلقین ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ مگر اس حکومت کی تشکیل کے لیے نمائندگان کا چناؤ ہماری رائے سے ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ چونسٹھ سال سے جن نمائندگان کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجوا رہے ہیں کیا اُن کے تمام غلط اقدامات میں ہماری معاونت شامل نہیں؟
آئیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ حکمرانوں کے ان اعمال میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔
مندرجہ بالا رویوں اور قومی کردار کا جائزہ لیا جائے تو کیا یہ حقیقت سامنے نہیں آتی کہ ہم سب بالواسطہ یا بلا واسطہ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔۔۔؟ کیونکہ اِس صورتِ حالات میں ہماری ناروا خاموشی، حالات بدلنے کے لیے عملی جد و جہد سے پہلو تہی اور ملک کو اِس تباہی و بربادی سے دو چار کرنے والے سیاست دانوں کو ہر انتخاب میں کامیاب کرانے کا ہمارا معمول اس بات کا غماز ہے کہ ہم سب مندرجہ بالا خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج سے چودہ سو سال قبل حکمرانوں کے چناؤ کا طریقہ بیعت تھی، آج اس کی جدید صورت ووٹنگ ہے۔ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کی بیعت کرتے ہیں۔ ووٹ دیتے وقت واقعہ کربلا کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے خاندان کی شہادت کا راستہ چنا مگر فاسق و فاجر یزید کی بیعت کے ذریعے ظالم نظام کے قیام میں معاونت سے انکار کر دیا اور میدانِ کربلا میں سرخرو اور کامیاب ہوئے۔
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہم جانے انجانے میں بہت بڑے قومی اور ملی گناہ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یہ قدرتی آفات ہمارے اِنہی اَعمال کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اس سے نجات کے لیے عملی اِقدامات کرنا ہونگے۔ ورنہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے :
اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِيْدٌo (البروج، 85 : 12)
’’بے شک آپ کے رب کی پکڑ بہت سخت ہےo‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved