الحمد للہ ہم سب لوگ مسلمان ہیں اور ملک خداداد پاکستان کے باسی ہیں، لیکن ہماری قوم گزشتہ چند سالوں سے مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔ ہم دہشت گردی، قتل وغارت گری، زلزلے، سیلاب، ڈینگی بخار، مہنگائی اور بے برکتی کے عذابوں کامسلسل شکار ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس طرح کے حالات کو قربِ قیامت کی نشانی بتایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا کے خاتمے سے پہلے ایسا دور آئے گا جس میں نہ قاتل کو یہ خبر ہوگی کہ اس نے کیوں قتل کیا، نہ مقتول کو یہ خبر ہوگی کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، 4 : 2231، رقم : 2908)
دہشت گرد تنظیمیں جس طرح کم عمر اور نادان بچوں کو ورغلا کر اور اُنہیں خود کش جیکٹس پہنا کر مارکیٹوں اور عبادت گاہوں میں دھماکے کرا رہی ہیں جس میں بے قصور مرد و خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں، اِس سے مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی صداقت کا مشاہدہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے کر رہا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ 2010ء میں بارشوں اور سیلاب سے سندھ کا آدھا حصہ جبکہ 2011ء میں باقی آدھا حصہ متاثر ہوا۔ حالانکہ اِس سے قبل اِس خطے میں فصلوں کی آب یاری کا اِنحصار ہی بارشوں پر ہوتا تھا۔ سوچیے کہ بارش جسے اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے، آخر ہمارے لیے زحمت کیوں بن گئی ہے؟
اِسی کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا :
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ.
’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں آدمی کو یہ پرواہ نہیں ہوگی کہ جو کچھ وہ مال میں سے لے رہا ہے یہ حلال ہے یا حرام۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب البیوع، 2 : 726، رقم : 1954)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں اگر اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
یہ تمام مصائب ہماری بد اَعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّی يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيْهِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِکْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِيْنَ وَشِدَّةِ الْمَؤنَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَکَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوْا، وَلَمْ يَنْقُضُوْا عَهْدَ اﷲِ وَعَهْدَ رَسُوْلِهِ إِلَّا سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِکِتَابِ اﷲِ وَيَتَخَيَرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اﷲُ إِلَّا جَعَلَ اﷲُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ.
’’جب کسی قوم میں فحاشی عام ہو جائے تو اُن میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں، جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں تو اُن پر قحط اور اس طرح کے دیگر عذاب نازل ہوتے ہیں اور اُن کے حکمران اُن پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن سے بارش روک لیتا ہے کہ اگر زمین پر چوپائے نہ ہوں تو اﷲتعالیٰ آسمان سے اُن پر ایک قطرہ بھی پانی نہ گرائے۔ جب لوگ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن پر اُن کے دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے جو اُن کا مال اُن سے چھین لیتے ہیں، جب مسلمان حکمران اﷲ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کر کوئی دوسرا قانون اپنا لیں اور اَحکامِ خداوندی میں سے کچھ اِختیار کر لیں اور کچھ کو چھوڑ دیں تو اﷲ تعالیٰ اُن پر مصائب و آزمائشیں مسلط فرما دیتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، 2 : 1332، رقم : 4019)
قارئین کرام غور فرمائیں! کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان فرمودہ یہ نشانیاں آج من و عن ہم پر صادق نہیں آرہیں؟
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved