گزشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ’’ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر دیکھ کر آیا ہوں، ادھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور ادھر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔
اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ 72 شہیدوں کاخون ایک شیشی میں کیسے سما سکتا ہے تو جواب محض یہ ہوگا کہ جس طرح 1400 صحابیوں کے غسل کا پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک لوٹے میں بند ہوگیا تھا یا پندرہ سو صحابہ کا کھانا ایک ہنڈیا میں سما گیا تھا اسی طرح 72 شہداء کا خون بھی ایک شیشی میں سما سکتا ہے۔
دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول الله ﷺ في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول الله قال : شهدت قتل الحسين انفا.
میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آ پ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،
(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)
البدایہ والنہایہ اور ابن کثیر میں کثرت کے ساتھ ان روایات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ 9 محرم الحرام کو نواسہ رسول، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھکے ماندے جسم کے ساتھ اپنی خیمے کے سامنے میدان کربلا کی ریت پر تشریف فرما ہیں۔ اپنی تلوار سے ٹیک لگا رکھی ہے، یوم عاشور کا انتظار کر رہے ہیں کہ اونگھ آگئی، ادھر ابن سعد نے حتمی فیصلہ ہوجانے کے بعد اپنے عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردو، یزیدی عساکر حملہ کی نیت سے امام عالی مقام کے اہل بیت اطہار کے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔ یزیدی عساکر کا شور و غوغہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا۔ آپ نے سر انور اٹھایا اور پوچھا زینب رضی اللہ عنہا کیا بات ہے؟ عرض کی امام عالی مقام ! دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے فرمایا ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا! ہم بھی تیاری کرچکے ہیں’’ بھائی جان تیاری سے کیا مراد ہے؟ زینب رضی اللہ عنہانے مضطرب ہوکر پوچھا۔ ۔ ۔ فرمایا! زینب رضی اللہ عنہا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن ! ہم اس انتظار میں ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں تو بھیا! یہ مصیبت کی گھڑی آپہنچی؟ فرمایا زینب رضی اللہ عنہا افسوس نہ کر، صبر کر بہن! اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ یزیدی لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگی کہ زندگی کی آخری رات ہے میں اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ یزیدی لشکر نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک رات کی مہلت دے دی۔
البدایہ النہایہ میں ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یوم شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی کڑی گھڑی آنے والی ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ جودوسخا کے پروردہ امام حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں....... آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ہم کٹ مریں گے۔ ۔ ۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی ......ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے...... ہماری لاشوں پر سے گزر کر کوئی بدبخت آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ۔ ۔ ہم ہرگز ہرگز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب وفادار کا یہ جذبہ ایثار دیکھا تو فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت اور مناجات میں گزری۔ جان نثاران حسین کے خیموں سے رات بھر اللہ کی حمد و ثنا کی صدائیں آتی رہیں۔
نماز فجر جان نثار اصحاب نے امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہ خداوندی میں کربلا والے سربسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا، اللہ رب العزت کے حضور جھکے ہوئے تھے مولا! یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں! یزیدی لشکر نے بھی بدبخت ابن سعد کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔
یزیدی 72 جان نثاروں اور عورتوں اور بچوں کے خلاف صف آراء ہوئے، دستور عرب کے مطابق پہلے انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ یزیدی لشکر سے ایک شہ سوار نکلا، ابن سعد سے پوچھا کیا واقعی تم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ وہ بدبخت جواب دیتا ہے کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔ یہ سن کر شہ سوار پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ بدبخت تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کردے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کا خون بہائے گا۔ اس کے دل میں ایمان کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے جوش مارا، قدرت نے اسے اس محبت اہل بیت کا ثمر دیا، اس کے اندر کا انسان بیدار ہو گیا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اس سے پوچھتا ہے، تم تو کوفہ والوں میں سے سب سے بہادر شخص ہو، تمہاری بہادری کی تو مثالیں دی جاتی ہیں، میں نے آج تک تمہیں اتنا پژمردہ نہیں دیکھا، تمہاری حالت غیر کیوں ہو رہی ہے؟ وہ شخص سر اٹھاتا ہے اور امام عالی مقام کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ ہے۔ ۔ ۔ مجھے آج اور اسی وقت دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ! تھوڑے سے توقف کے بعد وہ شہ سوار سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے .......میں نے دوزخ کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنے لئے جنت کو منتخب کیا ہے، پھر وہ اپنے گھوڑے کو ایڑی لگاتا ہے اور امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے : حضور! میں آپ کا مجرم ہوں، میں ہی آپ کے قافلے کو گھیر کر میدان کربلا تک لایا ہوں کیا اس لمحے میں بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ شافع محشر کے نور نظر امام عالی مقام نے فرمایا کہ اگر توبہ کرنے آئے ہو تو اب بھی قبول ہوسکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کیا میرا رب مجھے معاف کر دے گا؟ حسین رضی اللہ عنہ : ہاں تیرا رب تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن یہ تو بتا کہ تیرا نام کیا ہے، اس شہسوار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، عرض کرتا ہے میرا نام حر ہے، امام عالی مقام نے فرمایا حر تمہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آزاد کر دیا گیا ہے۔ فرمایا : حر نیچے آؤ! وہ کہتا ہے : نہیں امام عالی مقام! اب زندہ نیچے نہیں آؤں گا، اپنی لاش آپ کے قدموں پر نچھاور کروں گا اور یزید کے لشکر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤں گا۔ اس کے بعد خوش بخت حر نے یزیدی لشکر سے خطاب کیا لیکن جب آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ دی جائے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ کوفی لشکر پر حر کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔
(البدايه والنهايه، 8 : 180 - 181)
اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آرہا تھا آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوجاتے، پہلے اصحاب حسین شہید ہوئے، غلام نثار ہوئے، قرابت دار ایک ایک کرکے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔
اب پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے افراد کی باری تھی۔ ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا لیکن جذبہ شہادت کے جوش میں دنیا کی یہ چیز ان کے نزدیک بے وقعت ہوکر رہ گئی تھی۔ علی اکبر، جسے ہمشکل پیغمبر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، بارگاہ حسین رضی اللہ عنہ میں حاضر ہوتا ہے کہ ابا جان! اب مجھے اجازت دیجئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی پیشانی پر الوداعی بوسہ ثبت کرتے ہوئے جواں سال بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور بیٹے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور دعائیں دے کر مقتل کی طرف روانہ کیا کہ بیٹا! جاؤ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرو علی اکبر شیر کی طرح میدان جنگ میں آئے، سراپا پیکر رعنائی، سراپا پیکر حسن، سراپا پیکر جمال، مصطفیٰ و مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کامل، یزیدی لشکر سے نبرد آزما تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مقتل کی طرف بڑھے کہ اپنے بیٹے کی جنگ کا نظارہ کریں وہ دشمن پر کس طرح جھپٹتا ہے؟ لیکن لشکر یزید میں اتنا گرد و غبار چھایا ہوا تھا کہ امام عالی مقام داد شجاعت دیتے ہوئے علی اکبر کو نہ دیکھ سکے۔
امام عالی مقام آرزو مند تھے کہ دیکھیں میرا بیٹا کس طرح راہ حق میں استقامت کا کوہ گراں ثابت ہوتا ہے کس طرح یزیدی لشکر پر وار کرتا ہے، شجاعت حیدری کے پیکر علی اکبر برق رعد بن کر یزیدی عسا کر پر حملے کر رہے تھے، صفیں کی صفیں الٹ رہے تھے۔ لشکر یزید جس طرف دوڑتا امام عالی مقام سمجھ جاتے کہ علی اکبر اس طرف داد شجاعت دے رہا ہے، اسی طرح سمتوں کا تعین ہوتا رہا، یزیدی سپاہی واصل جہنم ہوتے رہے، علی اکبر مردانہ وار جنگ کر رہے تھے۔ تین دن کے پیاسے تھے، گرد و غبار سے فائدہ اٹھا کر گھوڑے کو ایڑی لگا کر واپس آئے عرض کی اباجان! اگر ایک گھونٹ پانی مل جائے تو تازہ دم ہوکر بدبختوں پر حملہ کروں۔ فرمایا : بیٹا! میں تمہیں پانی تو نہیں دے سکتا میری زبان کو چوس لو، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی اپنی زبان خشک ہے، امام عالی مقام نے اپنی زبان مبارک علی اکبر کے منہ میں ڈال دی کہ بیٹا اسی طرح ناناجان اپنی زبان میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے۔ شاید وہ میرے منہ میں اپنی زبان آج کے دن کے لئے ڈالتے تھے۔ علی اکبر نے اپنے بابا کی سوکھی ہوئی زبان چوسی، ایک نیا حوصلہ اور ولولہ ملا۔ پلٹ کر پھر لشکر یزید پر حملہ کردیا اچانک لڑتے لڑتے آواز دی۔
يا ابتاه ادرکنی
ابا جان آ کر مجھے تھام لیجئے
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ جواں سال بیٹے کی شہادت کی گھڑی آگئی، دوڑ کر علی اکبر کی طرف آئے، قریب ہوکر دیکھا تو ہمشکل پیغمبر علی اکبر زمین پر تھا۔ لشکر یزید کے کسی بدبخت سپاہی کا نیزہ علی اکبر کے سینے میں پیوست ہوچکا تھا، امام عالی مقام زمین پر بیٹھ گئے اپنے زخمی بیٹے کا بوسہ لیا، علی اکبر نے کہا اباجان! اگر یہ نیزے کا پھل سینے سے نکال دیں تو پھر دشمن پر حملہ کروں۔ امام عالی مقام نے علی اکبر کو اپنی گود میں لے لیا، نیزے کا پھل کھینچا تو سینے سے خون کا فوارہ بہہ نکلا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی انا للہ و انا الیہ راجعون۔
امام عالی مقام جواں سال بیٹے کی لاش کو لیکر اپنے خیموں کی طرف پلٹے، راوی بیان کرتا ہے کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں آئے تھے تو 10 محرم کے دن آپ کی عمر مبارک 56 برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی مگر سر انور اور ریش مبارک کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن جب جوان علی اکبر کا لاشہ اپنے بازوں میں سمٹ کر پلٹے تو سر انور کے سارے بال اور ریش مبارک سفید ہوچکی تھی۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کہہ رہی تھیں کہ پھوپھی جان! بابا جان بوڑھے ہوگئے ہیں۔ غم نے باپ کو نڈھال کردیا تھا۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں کہ اب کونسا گل رعنا عروس شہادت سے ہمکنار ہونے کے لئے مقتل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون علی اکبر کے ساتھ اپنی مسند شہادت بچھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون مفارقت کے داغوں سے سینہ چھلنی کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون تشنہ لب حوض کوثر پر پہنچ کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون اپنے لہو سے داستان حریت کا نیا باب تحریر کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سامنے امام حسن رضی اللہ عنہ کے لخت جگر قاسم کھڑے ہیں، یہ وہ جوان ہیں جن کے ساتھ حضرت سکینہ کی نسبت طے ہوچکی ہے، عرض کرتے ہیں چچا جان! اجازت دیجئے کہ اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کردوں، امام عالی مقام جو مقام رضا پر فائز ہیں فرماتے ہیں۔ قاسم! تو تو میرے بڑے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کی اکلوتی نشانی ہے، تمہیں دیکھ کر مجھے بھائی حسن رضی اللہ عنہ یاد آجاتے ہیں، تجھے مقتل میں جانے کی اجازت کیسے دے دوں؟ قاسم نے کہا چچا جان! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے خون سے حق کی گواہی نہ دوں؟ چچا جان! مجھے جانے دیجئے، میری لاش پر سے گزر کر ہی دشمن آپ تک پہنچ پائے گا، اگر آج آپ کے قدموں پر جان نثار نہ کرسکا تو کل ابا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ہزاروں دعاؤں کی چھاؤں میں خانوادہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ چشم و چراغ بھی میدان شہادت کی طرف بڑھنے لگا۔
حمید بن زیاد، ابن زیاد کی فوج کا سپاہی ہے، البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر کی روایت کے مطابق وہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے اچانک دیکھا کہ اہل بیت کے خیموں میں سے ایک خوبصورت اور کڑیل جوان نکلا، اس کا چہرہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تلوار لہرا رہی تھی۔ غالباً اس کے بائیں جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا وہ شیر کی طرح حملہ آور ہوا، ابن سعد کے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور یزیدیوں کو واصل جہنم کرنے لگا، یہ جوان امام حسن کا بیٹا قاسم تھا، یزیدیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا کسی بدبخت نے شہزادہ قاسم کے سر پر تلوار ماری آواز دی یا عماہ! اور چکرا کر گر پڑے، امام عالی مقام علی اکبر کے غم میں نڈھال تھے، بھتیجے کی لاش کے گرنے کا منظر دیکھا تو اٹھے، قاسم کی لاش پر آئے، فرمایا بیٹے قاسم، یہ کیسی گھڑی ہے کہ میں آج تیری مدد نہیں کرسکا ! امام عالی مقام نے قاسم کے لاشے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ امام ابن کثیر کے مطابق راوی کا کہنا ہے کہ امام عالی مقام ایک جوان کی لاش اٹھا کر خیموں کی طرف لائے، وہ اتنا کڑیل جوان تھا کہ اس کے پاؤں اور ٹانگیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ جوان جس کو حسین رضی اللہ عنہ اٹھا کر لے جا رہے ہیں کون ہے کسی نے مجھے بتایا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کا بیٹا قاسم ہے، امام عالی مقام نے قاسم کی لاش کو بھی اپنے شہزادے علی اکبر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا۔
علی اکبر اور قاسم کے لاشوں کو ایک ساتھ لٹا کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کے لئے خیمے کے دروازے پر بیٹھے، دکھ اور کرب کی تصویر بنے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ زبان حال سے کہہ رہے تھے نانا جان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن کو تاراج کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیکھئے علی اکبر اور قاسم کے لاشے پڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کچھ دیر بعد خیموں کو آگ لگا دی جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نانا۔ ۔ ۔ ! آپ کی بیٹیوں سے ردائیں چھین لی جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں قیدی بنا کر شام کے بازاروں میں پھیرایا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بیبیوں نے خیموں کے اندر سے علی اصغر کو آپ کے پاس بھیج دیا۔ امام عالی مقام نے اپنے ننھے منے بیٹے کو اپنی گود میں سمیٹا، بے ساختہ پیار کیا اور اس کا سر منہ چوم کر آنے والے لمحات کے لئے نصیحتیں فرمانے لگے کہ بنی اسد کے قبیلے کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو معصوم علی اصغر کے حلقوم میں پیوست ہوگیا۔ ننھا بچہ اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ امام عالی مقام نے اس معصوم کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیا کہ باری تعالیٰ ہم تیری رضا اور خوشی کے طلب گار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ننھے علی اصغر کی یہ قربانی قبول فرما۔ ابن کثیر کی روایت ہے جسے طبری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی اصغر کی ولادت بھی میدان کربلا ہی میں ہوئی تھی، بیبیوں نے نومولود علی اصغر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ وہ نومولود کے کان میں اذان کہیں ادھر امام عالی مقام نے اللہ اکبر کے الفاظ ادا کئے ادھر یزیدی لشکر کی طرف سے تیر آیا جو علی اصغر کے گلے سے پار ہوگیا اور ان کی معصوم روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بعض روایات کے مطابق شہادت کے وقت علی اصغر کی عمر چھ ماہ تھی اور وہ پیاسے تھے امام عالی مقام کی خدمت میں انہیں اس لئے روانہ کیا گیا کہ یزیدیوں سے کہا جائے کہ ہمارا پانی تو تم نے بند کردیا ہے لیکن اس معصوم بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے اس کے لئے تو پانی دے دو۔
میں سمجھتا ہوں کہ پانی مانگنے کی روایت امام عالی مقام کی غیرت اور حمیت کے منافی ہے وہ حسین رضی اللہ عنہ جو اصولوں کی خاطر میدان کربلا میں اپنے شہزادوں کی قربانیاں دے سکتے ہیں، پانی کی ایک بوند کے لئے یزیدی لشکر کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرسکتے تھے۔ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ کی غیرت دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر علی اصغر کے لئے پانی مانگنا ہی تھا تو اس کا سوال یزیدی لشکر سے کیوں کیا جاتا؟ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ! اگر حسین رضی اللہ عنہ پانی کے لئے بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھاتے اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو چاروں طرف سے گھٹائیں دوڑ کر آتیں اور کربلا کی تپتی ہوئی زمین تک کی پیاس بجھ جاتی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑھی سے زم زم کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا اگر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان کربلا میں ایڑی مارتے تو ریگ کربلا سے لاکھوں چشمے پھوٹ پڑتے، مگر نہیں یہ مقام رضا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مقام توکل تھا۔ ۔ ۔ یہ مقام تفویض اور مقام صبرتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرحلہ استقامت تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لمحہ امتحان کا لمحہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ آزمائش کی اس گھڑی میں ڈگمگا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ صبر و رضا کے مقام پر استقامت کا کوہ گراں بنے رہے اس لئے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کا خدا تھا۔ چشم فلک حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت کا یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ مکین گنبد خضرا کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ کی نظریں بھی عزم و استقلال کے پیکر حسین رضی اللہ عنہ کے جلال و جمال کا نظارہ کر رہی تھیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا زبان حال سے کہہ رہی تھیں بیٹا حسین رضی اللہ عنہ ! میں نے تجھے دودھ پلایا ہے۔ آج میں کربلا کے میدان میں اپنے دودھ کی لاج دیکھنے آئی ہوں۔ بیٹا! میرے دودھ کی لاج رکھنا۔ دیکھنا علی اکبر اور علی اصغر کی قربانی کے وقت تیرے قدم ڈگمگانہ نہ جائیں، ادھر علی مرتضٰے شیر خدا فرما رہے تھے حسین رضی اللہ عنہ! راہ خدا میں استقامت سے ڈٹے رہنا، اپنے بابا کے خون کی لاج رکھنا۔ ادھر محبت حسین! میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے شہیدوں کا خون ایک شیشی میں جمع فرما رہے تھے، حسین! میرے کندھوں پر سواری کی لاج رکھنا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیکر علی رضی اللہ عنہ اور اپنی امی جان فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے مقدس چہرے سامنے ہوں تو حسین رضی اللہ عنہ جیسے بہادر شخص کے قدم شاہراہ شہادت پر کیسے ڈگمگا سکتے ہیں؟ آپ یزیدیوں کے سامنے دست سوال کس طرح دراز کرسکتے تھے؟ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے والے بھلا موت سے کب ڈرتے ہیں؟ جو مرنا نہیں جانتے انہیں جینے کا بھی کوئی حق نہیں اور جو مرنا جانتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے حیات جاوداں پالیتے ہیں اسی لئے کہاگیا کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں ثابت قدم رہے اس لئے کہ آج انہیں ذبح اسماعیل کا فدیہ بنا کر ذبح عظیم کے مقام بلند پر رونق افروز ہونا تھا آج حسین رضی اللہ عنہ کو دعائے ابراہیم علیہ السلام کی تکمیل کا باعث بننا تھا۔
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہا تھا آج نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام کے جان نثار ایک ایک کر کے راہ حق میں توحید کی گواہی دیتے دیتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمنستان فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عون و محمد بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عباس علمدار مقام شہادت پاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے سے لگاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضا کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام اپنے جان نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، بہادری اور جوانمردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں، امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے ہیں۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر کے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوار کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔
یزیدی لشکر نے جان نثاران حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفردی جنگ بند کردی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے’ کئی گھنٹوں تک حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کا زخم نہ لگا کیونکہ قریب آ کر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہوگیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے، یکبارگی حسین رضی اللہ عنہ کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔
زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کرلینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور چاہا کہ امام عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ میرے نانانے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔
1۔ امام ابن عساکر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی
(کنز العمال، ح : 34322)
گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔
2۔ محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :
کنا مع الحسين بنهر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق الله ورسوله! فقال رسول الله ﷺ کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرص
ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔
(کنز العمال فضائل اهل بي، قتل حسين، 13)
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
اے اطمینان پاجانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)
حسین! میں تجھ پر راضی ہوگیا۔ اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں، حور وغلمان تیرے منتظر ہیں، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں۔
امام عالی مقام اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں۔ اسلام کی عزت و حرمت پر علی اصغر جیسے معصوم فرزند کی بھی قربانی دے چکے ہیں۔ اپنی جان کا نذرانہ دے کر توحید الہٰی کی گواہی دے چکے ہیں، آپ مقام صبر و رضا پر استقامت سے ڈٹے رہے، قدسیان فلک متحیر ہیں کہ پیکران صبر و رضا ایسے بھی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
امام عالی مقام نے اپنے نانا اور ابا کے خون اور اپنی امی کے دودھ کی لاج رکھ لی، حسین کامیاب ہوگئے۔ حسینیت زندہ ہوگئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ آج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی انکی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حسین رضی اللہ عنہ اس عظیم کامیابی پر قدسیان فلک باشندگان کرہ ارضی کا سلام قبول ہو، حسین راہ خدا میں نذرانہ جان پیشں کر کے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کر کے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے، شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشان بنا دیا۔ حسین رضی اللہ عنہ قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے۔
شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سر اقدس نیزے پر سجایا۔ یہی نہیں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادوں اور اصحاب حسین کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کردیا تھا۔ انہوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا، انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
محدثین بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے، شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا، شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا۔ محدثین کا کہنا ہے کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہوگیا۔ پھر سیاہ ہوگیا۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہوجائے گی یوں لگا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
1۔ امام طبرانی نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ :
لما قتل الحسين بن علي انکسفت الشمس کسفة حتي بدت الکواکب نصف النهار حتي ظننا أنهاهي
جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہوگئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے۔
مجمع الزوائد، 9 : 197
معجم الکبير، ح : 2838
2۔ امام طبرانی نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا!
لما قتل الحسين احمرت السماء
جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسماں سرخ ہوگیا۔
معجم الکبير، ح : 2837
مجمع الزوائد، 9 : 197
3۔ عیسی بن حارث الکندی سے مروی ہے کہ :
لما قتل الحسين مکثنا سبعة أيام اذا صلينا العصر نظرنا الي الشمس علي أطراف الحيطان کأنها الملاحف المعصفرة و نظرنا إلي الکواکب يضرب بعضها بعضاً
جب امام حسین کو شہید کردیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا وہ زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتا اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے۔
معجم الکبير، ح : 2839
4۔ امام طبرانی نے معجم الکبیر میں محمد بن سیرین سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں !
لم يکن في السماء حمرة حتي قتل الحسين
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے وقت آسمان پر سرخی چھائی رہی۔
معجم الکبير، ح : 2840
مجمع الزوائد، 9 : 197
5۔ امام طبرانی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں۔ سیدہ فرماتی ہیں!
سمعت الجن تنوح علی الحسين بن علی رضی الله عنه
میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین بن علی کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں۔
معجم الکبير، ح : 2862، 2867
مجمع الزوائد 9 : 199
6۔ امام طبرانی نے زھری سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
لما قتل الحسين بن علی رضی الله عنه لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط.
جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔
معجم الکبير، 3، ح : 2834
7۔ امام طبرانی نے امام زہری سے ا س قسم کی ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا!
مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دم
شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا
معجم الکبير، ح : 2835
مجمع الزوائد، 9 : 194
کربلا میں شام نے اپنے پر پھیلا دیئے۔ سور ج نے فرط خوف سے مغرب کی وادیوں میں اپنا منہ چھپالیا۔ آسمان کی آنکھیں خون کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ خاندان رسول ہاشمی کے ایک ایک فرد کو قتل کرنے کے بعد یزیدیوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا، انتقام کی آگ سرد نہ ہوئی، امام حسین اور ان کے جان نثار رفقا کے لاشوں پر گھوڑے دوڑنے لگے، گھوڑوں کی ٹاپ سے شہزادگان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نازک جسموں کو روند ڈالا۔ یہ نازک جسم پہلے ہی تیغ و تیر سے چھلنی ہوچکے تھے۔ پھر خانوادہ اہل بیت کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ سکینہ طمانچے کھا چکی تو خیموں کا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ اپنے پیغمبر کے گھرانے کی برہنہ سر بیبیوں کو قیدی بنایا گیا۔ بیمار کربلا زین العابدین بھی قیدی بن گئے۔ شہیدان کربلا کے سروں کو کاٹ کر نیزوں پر چڑھا لیا گیا۔ اور اسیران کربلا کا قافلہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی قیادت میں شہیدوں کے سروں کے ساتھ کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ شام کے سائے کچھ اور بھی گہرے ہوگئے، بیبیوں کی برہنہ سروں کو رات نے اپنے سیاہ آنچل سے ڈھانپ دیا۔ ابھی اس قافلے کی قیادت بیمار کربلا حضرت زین العابدین کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ چودہ برس کے قریب تھی۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شہزادی زینب رضی اللہ عنہاخواتین کی دیکھ بھال کرتیں کہ کوئی بچہ قافلے سے بچھڑ نہ جائے، کسی بی بی کے سر سے دوپٹہ لڑھک نہ جائے۔
اسیران کربلا کا قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ راستے میں رات ہوگئی، چنانچہ ’’فاتحین کربلا،، نے پڑاؤ کا فیصلہ کیا۔ پڑاؤ کی جگہ کے قریب ہی ایک گرجا گھر تھا۔ اس گرجے میں ایک ضعیف العمر عیسائی راہب رہتا تھا۔ بڑا پرہیزگار اور متقی راہب تھا۔ عبادت گزار بھی تھا اور خدا ترس بھی۔ اسے جب معلوم ہوا کہ قافلے والے اپنے پیغمبر کے نواسے اور اس کے اصحاب کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر لے کر یزید کے پاس جا رہے ہیں تو اس نے قافلہ کے یزیدی امیر سے کہا میں تمہیں دس ہزار دینار دوں گا شرط صرف یہ ہے کہ آج کی رات تمہارے پیغمبر کے نواسے کا سر میرے پاس رہے گا۔ اس کے لئے تم پڑاؤ ہمارے پاس کرو۔ تمہاری خدمت بھی کروں گا اور تمہیں عزت کے ساتھ روانہ کروں گا۔ یزیدی امیر دنیا دار شخص تھا حرص دنیا کا طالب، اس نے راہب کی شرائط مان لیں اور حسین کا سر اس راہب کے حوالے کردیا۔ راہب حسین رضی اللہ عنہ کا سر لے کر اندر چلا گیا۔ راہب نے نیزے پر سے سر انور کو اتارا اور اس کو خوشبودار پانی سے دھویا اسے صاف کیا اور خوشبو لگائی، خوبصورت غلاف میں رکھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ رات بھر چہرہ حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت میں مصروف رہا۔ وہ راہب بیان کرتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر پڑا ہے اور اس سر سے نوری شعاعیں اٹھ کر عرش معلی تک جارہی ہیں، نور کا ہالہ سر اقدس کا طواف کر رہا ہے جب اس نے یہ کیفیت دیکھی تو ساری رات قتل حسین رضی اللہ عنہ پر آنسو بہاتا رہا۔ حسین رضی اللہ عنہ کے احترام اور توقیر کا اسے یہ صلہ ملا کہ صبح جب باہر نکلا رحمت خداوندی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اس نے کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ایک طرف وہ شقی القلب ابن سعد کے سپاہی تھے کہ بے ادبی کا ارتکاب کر کے دولت ایمان سے محروم ہوگئے اور ایک یہ راہب تھا کہ حسین کے سر کی عزت کرنے کے صدقے میں اس کا دامن ایمان کی نعمت سے بھر دیا گیا۔
روایات میں ہے کہ ابن سعد نے امام عالی مقام کے سر اقدس کو خولی کے ہاتھ ابن زیاد کے دربار میں بھیجا جب خولی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اقدس لے کر کوفہ میں پہنچا تو قصر امارت کا دروازہ بند ہوچکا تھا چنانچہ وہ سر انور کو اپنے گھر لے آیا اور ایک برتن سے سر انور کو ڈھانپ دیا اس کی بیوی نوار سخت ناراض ہوئی کہ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کا سر لے کر آیا ہے چنانچہ وہ اس جگہ آ بیٹھی جہاں امام عالی مقام کا سر اقدس رکھا تھا۔ وہ روایت کرتی ہے۔
قوالله مازلت انظر الی نور يسطع مثل العمود من السماء الي الاجانة ورايت طيراً بيضاء ترفرف حولها
خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک ستون کی مانند چمک رہا ہے اور میں نے سفید پرندے دیکھے جو برتن کے اردگرد منڈلا رہے تھے۔
الطبري، 6 : 33
ابن اثير، 4 : 80
ابن زیاد کے قصر امارت کے بعد اسیران کربلا کا یہ قافلہ جب دمشق میں یزید کے دربار میں پہنچا تو وہ بدبخت اس وقت مسند شاہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس بدبخت نے امام عالی مقام کی دندان مبارک پر اپنی چھڑی ماری اور اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ آج ہم نے بدر میں اپنے مقتولین کا بدلہ لے لیا ہے، اس بدبخت نے اپنے اندر چھپے ہوئے کفر کو ظاہر کر دیا۔ (ابن زیاد کے دربار میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے تھے) یہ منظر دیکھ کر دربار یزید میں موجود ایک صحابی اٹھا اور یزید کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی فرمایا : خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے، دربار میں قیصر روم کا سفیر جو ایک عیسائی تھا بھی مسند نشین تھا اس نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بدبخت اور بے ایمان ہو، تم نے اپنے پیغمبر کے نواسے کو شہید کر کے اس کا سر تن سے جدا کر دیا ہے اور اب اپنی چھڑی سے اس مقدس سر کی بے حرمتی کر رہے ہو، میں مذہبا ً عیسائی ہوں ایک علاقے میں ہمارے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سواری کے پاؤں کے کھرہیں، ہم نے انہیں محفوظ کرلیا ہے خدا کی قسم ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی ہم اس سواری کے نعل کی عزت کرتے ہیں جس طرح تم اپنے کعبہ کی عزت کرتے ہو۔ ہم اپنے نبی کی سواری کے قدموں کا یہ احترام کرتے ہیں، ہر سال اس نعل کی زیارت کرتے ہیں اس کا ادب کرتے ہیں۔ بدبختو! تم اپنے پیغمبر کے شہزادے کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔ ۔ ۔ ! لعنت ہے تمہارے عمل اور کردار پر، یزید سمجھ رہا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر کے اس نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اب اس کے جبر مسلسل کے سامنے کوئی دیوار بن کر کھڑا نہ ہوگا اب دین کی تحریف میں وہ آزاد ہوگا لیکن اس بدبخت کو یہ معلوم نہ تھا کہ یزیدیت جیت کر بھی ہار گئی ہے اور حسینیت بظاہر ہار کر بھی جیت گئی ہے۔
مختار ثقفی کے لشکر کے سپہ سالار نے ابن زیادہ کا سر قلم کیا اور اسے نیزے پر چڑھا کر مختار ثققی کے پاس بھیجا۔ بدبخت ابن زیاد کا سر مختار ثقفی کے سامنے رکھا تھا۔ ایک سانپ کہیں سے نمودار ہوا وہ مقتولین کے سروں کو سونگھتا رہا جب ابن زیاد کے سر کے قریب پہنچا تو اس کے منہ میں داخل ہوتا اور ناک کے نتھنوں سے باہر آتا اور یہ عمل اس نے کئی بار دہرایا گویا زبان حال سے کہہ رہا تھا یزیدیو! تمہارے چہروں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ ابن زیاد قتل ہوا۔ یزید برباد ہوا لیکن حسین رضی اللہ عنہ زندہ ہے اور قیامت تک حسین زندہ رہے گا۔ یزید مرگیا آج کوئی یزید کا نام بھی نہیں لیتا۔ کربلا میں آج حسین رضی اللہ عنہ کی قبر بھی زندہ ہے۔ جبکہ دمشق میں یزید کی قبر بھی مردہ ہے وہاں ہر لمحہ لعنت برس رہی ہے لیکن ساری دنیا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر صلوۃ و سلام کے پھول نچھاور کر رہی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved