وہ ذبح اسماعیل جس کا فدیہ ذبح عظیم سے کردیا گیا تھا بعثت محمدی کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔ امامت اور ولایت کی دعائے ابراہیمی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اجرا ہو رہا تھا۔ اب اس وجود مسعود کی شہادت کا وقت قریب آگیا تھا جسے ذبح اسماعیل کا مظہر بنایا گیا تھا یعنی کربلا کے میدان میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم قربانی، ذبح عظیم کا منظر پیش کرنے والی تھی۔ میدان کربلا میں خاندان رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس خون سے روشن ہونے والے چراغوں کا منظر شام غریباں کے اندھیروں میں اترنے والا تھا۔ مٹتی ہوئی قدروں کو خون حسین رضی اللہ عنہ سے نئی توانائی عطا ہونے والی تھی۔ ازلی صداقتوں کے تحفظ کے لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خون سے افق عالم پر حریت فکر کا نیا عہد نامہ تحریر کرنے والے تھے۔ شہید کربلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضیلت کا عمامہ بھی جن کے سر اقدس پر باندھا گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبوبیت کی دستار سے بھی جنہیں نوازا، عظمت کی خلعت بھی عطا ہوئی اور شہادت کا پیرہن بھی جن کا مقدر بنا۔ اس لئے کہ اس عظیم انسان کی قربانی کو مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی قرار دیا جاسکے۔
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الحسن و الحسين سيد اشباب اهل الجنة
حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(جامع الترمذی، 2 : 218)
خاتون جنت کے فرزندان ذی حشم علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے لخت جگر حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔
2۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے :
عن أبی هريرة رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أحبهما فقد أحبني و من أبغضها فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً.
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 288)
تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟
3. عن عطاء ان رجلاً اخبره أنه رأی النبی صلی الله عليه وآله وسلم يضم اليه حَسَناً و حسيناً يقول اللهم أني أحبها فأحبها.
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،،
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 369)
بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہ اللهم انی احبهما فاحبهما ..... فمن احبهما فقد احبنی، مولا ! مجھے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑگئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت نبوی رضی اللہ عنھم اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے۔ خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی۔ علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر، اصحاب رسول کی آنکھوں کا تارا تھے۔
4. عن عمر يعني ابن الخطاب قال رأيت الحسن والحسين علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونعم الفارسان
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔
(مجمع الزوائد، 9 : 182)
(رواه ابو يعلي في الکبير ورجاله رجال الصحيح)
وہ منظر کیا دلکش منظر ہوگا۔ جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما، جنہیں آقائے دوجہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نواز، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔
5. عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء فاذا سجد وثب الحسن والحسين علي ظهره فاذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذاً رقيقاً و يضعهما علي الارض فاذا عاد عادا حتي قضي صلوته. فاقعدهما علي فخذيه.
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)
یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں ہیں، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں یہ معصوم شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے انہیں زمین پر بٹھا دیا۔ حسن اور حسین نماز کے دوران پشت مبارک پر چڑھے رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں احتیاط سے انہیں اتارتے رہے حتی کہ نماز مکمل ہوئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں شہزادوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔
6. عن أنس قال کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يسجد فيحبئي الحسن و الحسين فيرکب ظهره فيطيل السجود فيقال يا نبي اﷲ أطلت السجود فيقول ارتحلني ابني فکر هت ان اعجله
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حسن اور حسین آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کردیا (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا۔ فرمایا نہیں میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں۔
(مسند من حديث عبدالله بن شداد، 3 : 495)
(مجمع الزواند، 9 : 181)
یعنی حسن اور حسین رضی اللہ عنہم جب حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کردیا تا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھم گر نہ پڑیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔
یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔
7. فاطمة مضغة منی يقبضني ماقبضها ويبسطني ما بسطها و ان الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي و سببي و صهري.
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔
1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323
2. المستدرک، 3 : 158
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چونکہ قربانی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر بنایا گیا تھا اور انہیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سما جاتا۔ صحابہ یہ بھی جانتے تھے کہ نواسہء رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے اس حوالے سے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔
8. عن علی قال الحسن اشبه برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم مابين الصدر الي الرأس والحسين اشبه برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما کان النفل من ذلک
حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی ہے کہ حضرت حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے۔
(جامع الترمذي، 2 : 219)
9. عن يعلي بن مره قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسين مني و انا من حسين احب اﷲ من احب حسيناً
حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔
(جامع الترمذی، 2 : 219)
وہ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہوجاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہوجاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہوجاتا۔
10۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے :
عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو حامل الحسين بن علي و هو يقول اللهم اني احبه فاحبه
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 177)
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔
اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کر نا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اس ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کو مٹا کر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا گویا حسین سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
11. عن علی رضی اﷲ تعالی عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم للحسين بن علي ’’من احب هذا فقد أحبني،،
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا "جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''۔
(المعجم الکبير، 3، ح : 2643)
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا؟ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین رضی اللہ عنہ جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔ اس حوالے سے چند روایات مندرجہ ذیل ہیں۔
عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها.
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
1. البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200
2. کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313
ایک دوسری روایت ہے :
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔
(المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے۔
اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ
ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء
آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔
(المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)
عن ام سلمة قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري
(مجمع، 9 : 190)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا۔
(بحواله طبراني في الاوسط)
غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے :
اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان
اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
الصواعق الحرقه : 221
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے :
ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته
حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔
(الخصائص الکبریٰ 2 : 12)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض
ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے۔
(الخصائص الکبری، 2 : 126)
(سر الشهادتين : 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم
اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔
(الخصائص الکبری، 2 : 125)
(سر الشهادتين، 28)
( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
شہادت امام حسین کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اسکے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے۔ کسی واقع کا وقوع سے قبل شہرت اختیار کرلینا اسکے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved