مناقب فاطمة الزهرا رضي الله عنها
ذبح عظیم کی تکمیل اور ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور عام کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے جس عالی مرتبت جوڑے کا انتخاب ہوا یہ جوڑا حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کا جوڑا تھا جن کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہوچکا تھا۔ قدرت نے ان دو منتخبہ شخصیات کے نور نظر سیدنا امام حسین کی قسمت میں ذبح عظیم کا منصب جلیلہ لکھ دیا تھا۔
حضرت فاطمہ الزہرا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی لاڈلی بیٹی ہیں، خاتون جنت انہی کو کہتے ہیں۔ ان کی فضائل کے حوالے سے چند ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیں۔
1. عن جميع بن عمير التيمي قال دخلت مع عمتي علي عائشة فسئلت اي الناس کان احب الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قالت فاطمة : فقيل من الرجال؟ قالت زوجها ان کان ما علمت صواماً قواماً
حضرت جمیع بن عمیر التیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ مل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے پوچھا لوگوں میں سے کون سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب تھا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا حضرت فاطمہ، دوبارہ پوچھا گیا کہ مردوں میں سے کون سب سے بڑھ کر محبوب تھے؟ فرمایا فاطمہ کا شوہر (علی رضی اللہ عنہ) اور پھر فرمایا کہ میں خوب جانتی ہوں کہ وہ بڑے روز ہ رکھنے والے اور تہجد پڑھنے والے تھے۔
(جامع الترمذي، 2 : 227)
(المستدرک، 3 : 155)
اصحاب رسول اور صحابیات رسول رضی اللہ عنھم اپنے قول و عمل میں بھی سچے اور کھرے تھے، مصلحت، منافقت اور ریاکاری کا ان پر شائبہ تک نہیں پڑا تھا۔ اندر بھی روشن اور باطن بھی روشن، ذہنی اور جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے پیکر، اپنی ذاتی رائے کی بنیاد بھی عدل کو بناتے، سچ ان کا شعار، ہدایت قرآنی ان کا معیار۔ اب یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر رہی ہیں، اس رائے سے بے پناہ خصوصی، اپنائیت اور رواداری کا اظہار ہو رہا ہے اور یہی اوصاف اسلامی معاشرے کے بنیادی پتھر ہیں۔ یہی اوصاف اپنے اندر پیدا نہ کرسکنے کی وجہ ہے کہ ہم قوت برداشت کے وصف سے محروم ہوچکے ہیں، تحمل اور بردباری کے الفاظ کو ہم نے اپنی لغت ہی سے خارج کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فتویٰ پوچھا جا رہا تھا کہ بتائیے محبوب خدا کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہستی کون تھی؟ ذہن پر زور دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی بلا توقف فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری کائنات میں سب سے بڑھ کر محبت شہزادی کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے تھی۔ پوچھا گیا بتائیے مردوں میں محبوب تر کون تھا؟ انہوں نے بے ساختہ ارشاد فرمایا فاطمہ کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
شیعہ سنی فسادات کا یک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے غیض و غضب اور لعن طعن کی غلیظ حرکت میں مبتلاء ہیں اور دوسری طرف بعض بدبخت اہل بیت اطہار سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، یہ دونوں رویے اپنے پس منظر اور حالیہ شدت میں بہت سی غلط فہمیوں سے پیدا ہیں ان غلط فہمیوں کاازالہ کئے بغیر اختلافات کی خلیح مٹانی مشکل ہے بلکہ اسلام دشمن انہی غلط فہمیوں کو ہوا دیکر لڑائیاں اور فسادات کرواتے ہیں اور امت کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ تحمل اور حقیقت پسندی سے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی تلخیوں کا تدارک ممکن ہے۔ مثلا زیر نظر روایت ہی کو لیجئے اس میں بہت سی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ ہو رہا ہے۔ حضرت فاطمہ حضرت علی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مخاصمت کو ہوا دینے والے خود سوچیں کے کتب احادیث میں سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب کی بیشتر روایات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جو شخص دوسرے کے متعلق حسد بغض اور کینہ رکھتا ہو بھلا وہ اس طرح کی روایات بیان کرتا ہے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چاہتیں تو سائل کے سوال پر یہ بھی فرما سکتی تھیں کہ حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیاد محبوب میں خود تھی، اور مردوں میں میرے والد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ اگر یہ روایت ہوتی بھی تو قرین قیاس تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے والدگرامی سے تعلق محبت ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن جو چیز حق ہے اسے بیان کرنے میں ذرا تامل نہیں فرمایا۔ اسی طرح اور کئی روایات ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ لوگ آپس میں کتنے رحیم کریم تھے، باہمی احترام کی فضاء آخر وقت تک قائم رہی، فسادی اور مجرمانہ خصلت لوگوں کو اس وقت بھی بدامن اور مخاصمت منظور تھی اور آج بھی ہے یہ ابلیس مشن کے کارندے ہیں جو ہر دور میں سرگرم رہتے ہیں۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہی لاڈلی بیٹی ہیں جن سے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری فاطمہ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ ساری کائنات کے مومنوں کی عورتوں کی تو سردار ہو۔
صحیح مسلم میں حضرت عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے آخری دنوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کانوں میں کچھ راز کی بات کہی جس سے ایک دفعہ تو وہ مغموم ہوکر رونے لگیں جبکہ دوسری دفعہ مسکرا پڑیں بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ رونے کی کیا وجہ تھی تو وہ فرمانے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی خبر کی وجہ سے روئیں جبکہ مسکرا نے کی وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
2. الاترضين ان تکوني سيدة نساء اهل الجنة او نساء المؤمنين
اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام جنتی عورتوں کی سردار تم ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار تم ہو۔
(صحيح البخاري، 1 : 512)
(الصحيح لمسلم، 2 : 291)
3۔ اما م حاکم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :
يا فاطمة الاترضين ان تکوني سيده نساء العالمين؟ و سيدة نساء المؤمنين؟ و سيدة نساء هذه الامة
اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنائی جاؤ اور تمام مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو؟ اور اس امت کی تمام عورتوں کی سردار ہو؟
1. صحيح مسلم، 2 : 291
2. المسند، 3 : 156
3. طبقات، 2 :
248
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کی رضا چاہتے ہیں اور پوری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی طالب ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔
4۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے :
عن المسور بن مخرمه ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال فاطمة بضعة مني فمن اغضبها فقد اعضبني
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (میری بیٹی) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا بے شک اس نے مجھے ناراض کیا۔
(صحيح البخاري، 2 : 532)
جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے حوالے سے تمام کتب احادیث میں بکثرت روایات موجودہیں مثلاً(1) صحیح مسلم، 2 : 290، (2) جامع ترمذی، 2 : 226، (3) مسند احمد بن حنبل، 4 : 326، (4) المستدرک، 3 : 159۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا اور ارشادات نبوی سے روگردانی کی بلا شبہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
عرش اور فرش ہر جگہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے سر اقدس پر احترام اور تقدس کی چادر ہے۔ اہل محشر سے کہا جائے گا کہ اپنی نگاہیں جھکاؤ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لا رہی ہیں۔
5. عن علي عليه السلام قال سمعت النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول اذا کان يوم القيامة ناد منادٍ من وراء الحجاب يا اهل الجمع غضوا ابصارکم عن فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم حتي تمر.
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو (اچانک) پردوں کے پیچھے سے کوئی منادی اعلان کریگا اے اہل محشر! اپنی نگاہیں جھکالو فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (وہ آرہی ہیں) حتی کہ وہ گزر جائیں گی۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 153)
چشم تصور! ذرا میدان حشر میں چل، مخلوق خدا بارگاہ خداوندی میں حاضر ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہے۔ اچانک پردوں کے پیچھے سے آواز آتی ہے، منادی دینے والا منادی دے رہا ہے، اہل محشر سے مخاطب ہے کہ اپنی نگاہوں کو جھکالو، سر تاپا پیکر نیاز بن جاؤ، کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرہی ہیں جب تک فاطمہ رضی اللہ عنہا گزر نہ جائیں قیامت کے دن کسی کو اپنی نگاہ اٹھانے کی اجازت نہ ہوگی، روز محشر یہ عزت، یہ احترام یہ تقدیس کسی اور کے حصے میں نہیں آئے گی، یہ مقام کسی اور کو عطا نہ ہوگا صرف اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی اس سلوک کی سزاوار ٹھہریں گی۔
6. عن علی رضی اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لفاطمة ان الله يغضب لغضبک و يرضي لرضاک
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مخاطب ہوکر فرمایا (اے بیٹی) اللہ تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہوتا ہے اور تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 154)
کائنات کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اے فاطمہ! اللہ تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے اور تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہو جاتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتی ہے تو خدا خوش ہوتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوتی ہے تو خدا بھی اس طرف سے چہرہ پھیر لیتا ہے۔
7. عن عائشة قالت مارأيت افضل عن فاطمة غير ابيها
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا۔
(رواه الطبراني في الاوسط)
(مجمع الزوائد، 9 : 201)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نہیں گیا بلکہ خود فرماتی ہیں کہ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم کہ میں نے مصطفیٰ مجتبیٰ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے افضل کائنات میں کوئی نہیں دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقتوں کا یہ عالم ہے کہ اس عالم کی کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ ولایت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہونا تھا۔ امامت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی مگر چلے گی فاطمہ اور علی سے۔
8. عن ام المؤمنين عائشه رضي اﷲ عنها انها قالت مارأيت احداً کان اشبه کلاماً و حديثاً من فاطمة برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کانت اذا دخلت عليه رحب بها وقام اليها فاخذ بيدها فقبلها واجلسها في مجلسه
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی کو فاطمہ سے بڑھ کر مشابہ نہیں پایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ خوش ہو جاتے اور (محبت سے استقبال کیلئے) کھڑے ہوجاتے، حضرت فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیتے اس کو بوسہ دیتے اور پھر اپنی نشست پرحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیتے۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 154)
اور ایک جگہ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔
9. قامت اليه مستقبلة وقبلت يده
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے استقبال کیلئے (از راہ محبت) کھڑے ہو جاتے اور سیدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتیں
(ايضا : 140)
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں شرف حاضری حاصل کرتیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازرہ شفقت اور ازرہ محبت اپنی لاڈلی بیٹی کے استقبال کیلئے کھڑے ہوجاتے، مرحبا یا فاطمہ! کہہ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اسے چومتے اور پھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اپنی جگہ پر بیٹھا دیتے جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ احتراماً کھڑے ہوکر اپنے اباجان کا استقبال کرتیں اور ان کی دست بوسی فرماتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لاڈلی بیٹی پر نثار ہو ہو جاتے، اپنے پاس بٹھاتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔ امام شوکانی روایت کرتے ہیں۔
10. عن عمر بن خطاب رضي اﷲ عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة فداک ابي و امي.
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب ہو کر فرمایا میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
(در السحابه : 279)
ساری دنیا جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتی ہے یا اصحاب رسول حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگارہ میں عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یہ تھا صحابہ رضی اللہ عنہ کا عمل، سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی عزت کی قسم میں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنا ہے کہ جب آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلاتے تو فرماتے، فاطمہ! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ماں باپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا پر قربان کر رہے ہیں اس لئے کہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امین ہیں، یہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، یہ قربت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حقیقت یہ ہے کہ خاندان رسول کی غلامی ہی غلاموں کا سب کچھ ہے جو فاطمہ کے در کا دربان گیا وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ٹھہرا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا صرف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہی نہیں حسنین کریمین کی امی جان بھی ہیں اس گود میں حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی ہے۔ جنت کے سرداردوں کی تربیت ہوئی ہے۔ اس لئے فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نام نامی ہونٹوں پر آتا ہے تو پلکیں بہر احترام جھک جاتی ہیں، فضا میں احترام کی چادر سی تن جاتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سے میری عقیدت اور احترام کا یہ عالم ہے کہ میں خود کو در فاطمہ رضی اللہ عنہا کا منگتا سمجھتا ہوں اور اپنے لئے اسے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہوں، مدینہ منورہ کی حاضری کے دنوں میں میرا معمول یہ ہوتا ہے کہ جنت البقیع میں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی قبر انور پر حاضری دیتا ہوں، سامنے گنبد خضرا اپنے جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے بصد ادب عرض کرتا ہوں کہ اے حسنین کریمین کی امی جان! اے جنت کی خواتین کی سردار! اے سیدہ کائنات! آپ کے در کا کتا آیا ہے اپنے ابا حضور سے ایک ٹکڑا لے کر دے دیجئے۔ میرے کشکول آرزو میں خیرات ڈال دیجئے۔ اپنے ابا حضور سے سفارش فرما دیں کہ بابا! آپ کا ایک غلام بے نوا دراقدس پر حاضری کی اجازت چاہتا ہے، بابا! اس کی چشم تر کے آبگینے قبول فرمائیں، اس کو اپنے دامن رحمت میں چھپا لیجئے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمر بیت گئی بارگاہ سیدہ کائنات میں یہ التجا کرتے ہوئے کہ کبھی تو وہ اپنے منگتے کو کرم کے ٹکڑوں سے نوازیں گے، کبھی تو دامن طلب میں رحمت کے سکے گریں گے۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کون سا لمحہ ہے جو ان کے کرم سے خالی ہے ان کے کرم کی چادر تو ازل سے برہنہ سروں کو کڑی دھوپ سے بچا رہی ہے، ہر ساعت کے ہونٹوں پر ان کی رحمت کا زمزم بہہ رہا ہے اور میں کہ ایک تشنہ لب اسی چشمہ رحمت سے اپنی تشنگی کا مداوا کر رہا ہوں۔ یہ سب کچھ اسی خانوادہ پاک کی عطا ہی تو ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved