حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو دعائیں مانگی تھیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما۔ دوسرے میری ذریت کو منصب امامت عطا کر چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں نبی آخر الزماں تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہو جانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ولایت بھی آ گئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا۔ سو اب نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا اسلئے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے۔ ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشہء رسول، چنانچہ اس منصب عظیم کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا پر قدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشعیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ حدیث پاک میں ہے :
عن عبدالله بن مسعود عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال ان الله امرني ان ازوج فاطمة من علي رضي الله عنهما
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔
(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 156، ح : 10305)
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ آئندہ صفحات میں ہم دو الگ الگ فصلوں میں ان دونوں مقدس ہستیوں کے فضائل و مناقب جو صحیح روایات سے ثابت ہیں اور اہل سنت والجماعت کے ہاں ان کی کتابوں میں درج ہیں کو بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو جائے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے اور ایسا ہو بھی کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفیٰ اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
1. عن جابر رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ان اﷲ عز و جل جعل ذرية کل نبي في صلبه و ان اﷲ جعل ذريتي في صلب علي رضي الله عنه بن ابي طالب رضي الله عنه رضي اﷲ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔
1. المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630
2. مجمع الزوائد، 9 : 172
3. تاريخ بغداد، 1 : 317
4. کنزل العمال’ 11 : 400، ح : 32892
5. لسان الميزان، 3 : 429، ح : 1683
6. ميزان الاعتدال، 2 : 586، ح : 4954
7. العلل المتناهية لابن جوزي، 1 :
210
2. عن سعد بن ابي وقاص قال خلف رسول اﷲ علي بن ابي طالب في غزوه تبوک فقال يا رسول اﷲ تخلفني في النساء والصبيان فقال اما ترضي ان تکون مني بمنزلة هارون من موسي غير انه لا نبي بعدي
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
1. صحيح مسلم، 4 : 1870- 1871، کتاب فضائل الصحابه، باب 4 من فضائل علي بن ابي طالب
رضي الله عنه، ح : 2404
2. صحيح البخاري، 3 : 1358، کتاب المناقب باب 9 فضل الصحابه، ح : 3503
3. صحيح البخاري، 4 : 1602، کتاب المغازي، باب 74غزوه تبوک،ح : 1454
4. سنن الترمذي، 5 : 640 - 641، کتاب المناقب، باب 30 مناقب علي رضي الله عنه بن
ابي طالب، ح : 3724، 3730، 3731
5. سنن ابن ماجه، 1 : 42، المقدمه، باب فضل علي بن ابي طالب ح : 115
6. المستدرک للحاکم، 3 : 109، کتاب معرفة الصحابه، باب ذکر بغض فضائل علي رضي الله
عنه
7. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 146، ح : 328
8. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 148، ح : 333، 334
9. المعجم الکبير لطبراني، 2 : 247، ح : 2036
10. المعجم الکبير لطبراني، 5 : 203، ح : 5094، 5095
11. المعجم الکبير، 11 : 61، ح : 11087
12. مسند احمد بن حنبل، 3 : 32،
13. مسند احمد بن حنبل، 4 : 438
14. مسند احمد بن حنبل، 3 : 338
15. مسند ابي يعلي، 1 : 286، ح : 345
16. مسند ابي يعلي، 2 : 57، ح : 698
17. مسند ابي يعلي، 2 : 66، ح : 709
18. مسند ابي يعلي، 2 : 73، ح : 718
19. مسند ابي يعلي، 2 : 86، ح : 739، 738
20. مسند ابي يعلي، 2 : 99، ح : 755
21. مصنف عبدالرزاق، 11 : 226، ح : 20390، باب اصحاب النبي صلي الله عليه
وآله وسلم
22. مجمع الزوائد، 9 : 109، باب منزلة رضي الله تعالي عنه
23. سنن ابن ماجه، 1 : 42 - 43. المقدمه، باب 11 فضل علي بن ابي طالب رضي الله عنه،
ح : 115
امام ترمذی نے اس حدیث پاک کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال اور سند کو ثقہ کہا ہے۔
1۔ امام ابو یعلی اورامام طبرانی نے جو حدیث ام سلمہ سے روایت کی ہے اسکی اسناد ثقہ
ہے۔
2۔ امام بزار اور امام طبرانی نے جو حدیث ابن عباس سے روایت کی ہے اسکی اسناد بھی
ثقہ ہے۔
3۔ امام طبرانی نے حضرت زبیر سے جو روایت کی ہے اسکے رجال کی اسناد بھی ثقہ ہے۔
3. عن زيد بن ارقم قال کانت فلنفرمن اصحاب رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ابواب شارعة في المسجد فقال يوماً سدوا هذه الابواب الاباب علي قال فتکلم في ذالک ناس فقام رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم فحمد اﷲ و اثني عليه تم قال اما بعد فاني امرت بسد هذه الابواب غير باب علي فقال فيه قائلکم والله ماسددت شيئا ولا فتحته ولکن امرت شي فاتبعته
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ می گوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 125)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا، غسل واجب ہو تو صرف دو افراد مسجد میں قدم رکھ سکتے ہیں ایک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
4. عن ابي سعيد قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم لعلي يا علي لا يحل لاحد ان يجنب في هذا المسجد غيري و غيرک
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے علی میرے اور تمہارے سوا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس مسجد (نبوی) میں حالت جنابت میں رکھے۔
یہ اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر اور روح اقدس سے ظاہری بھی اور باطنی بھی ایک خاص تعلق قائم ہو چکا تھا۔
اس حدیث کو جن اجل ائمہ کرام نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1. مسند ابي يعلي، 2 : 311، ح : 1042
2. مجمع الزوائد، 9 : 115
3. المعجم الکبير الطبراني، 2 : 246، ح : 2031
4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 175
5. مسند احمد بن حنبل، 1 : 331
6. مسند احمد بن حنبل، 2 : 26
7. مسند احمد بن حنبل، 4 : 369
8. کنزالعمال، 11 : 598، فضائل علي رضي الله عنه، رقم حديث :
32877
حدیث میں آتا ہے :
5. عن زر قال قال علي والذي فلق الحبة و برالنسمة انه لعهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي ان لا يحبني الا مومن ولا يبغضني الا منافق
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔
(صحيح مسلم، 1 : 60)
حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
6۔ ام المومنين حضرت سلمہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں کہ :
کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا يحب عليا منافق ولا يبغضه مومن
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
(جامع الترمذي، 2 : 213)
ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جتنی احادیث روایت کی گئی ہیں پاکی جائیں گی سب صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث سے لی گئی ہیں یہ اس لئے تاکہ معلوم ہوکہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج حائل کر دی گئی ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے فکری مغالطوں اور غلط فہمیوں کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
7. عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال ان کنا لنعرف المنافقين نحن معشر الانصار ببغضهم علي ابن طالب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔
(جامع الترمذي، 2، 213)
فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں۔
1. سنن نسائي، 8 : 116، کتاب الايمان، باب علامة الايمان
2. سنن نسائي، 8 : 117، کتاب الايمان، باب علامة المنافق
3. سنن ابن ماجه، 1 : 42، المقدمه، فضل علي رضي الله عنه بن ابي طالب رضي الله عنه، ح : 131
4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84، 95، 128
5. مسند ابي يعلي، 1 : 251، ح : 291
6. مسند الحميدي، 1 : 31، ح : 58
7. المعجم الاوسط لطبراني، 3 : 89، ح : 2177
8. مسند ابي يعلي، 3 : 179، ح : 1602
9. مجمع الزوائد، 9 : 132
10. مسند احمد بن حنبل، 6 :
292
8۔ بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
انت مني و انا منک
(صحيح البخاري، 2 : 610)
اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ علی! اعلان کر دو کہ دنیا والے جان لیں کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت عام ہے :
عن يعلي بن مرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عليه السلام حسين مني و انا من حسين، احب الله من احب حسينا حسين سبط من الاسباط
حضرت یعلی بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔
(جامع الترمذي، 2 : 29)
جبکہ مذکورہ بالا روایت میں یہی بات حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے۔ اب تو غلط فہمیوں کا گرد و غبار چھٹ جانا چاہئے، محبت کی ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہونا چاہئے، مسالک کو ختم کرنا ممکن نہیں لیکن مسالک کے نام پر نفرتوں کی تقسیم کا کاروبار تو بند ہونا چاہئے، حدیث مذکورہ کا مطلب ہے کہ علی! تو میرا مظہر ہے اور میں تیرا مظہر ہوں، تیرا صدور مجھ سے ہے اور میرا ظہور تجھ سے ہے۔ دیگر بہت سے ائمہ حدیث نے بھی اس مفہوم کی روایات بیان کی ہیں مثلا۔
1. سنن الترمذي، 5 : 635، کتاب المناقب، باب 21، ح : 3716
2. المستدرک للحاکم، 3 : 110، 111، 120
3. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 318، ح : 941
4. المعجم الکبير للطبراني، 4 : 16، ح : 13، 12، 3511
5. مسند احمد بن حنبل، 4 :
438
ایک حدیث عام ہے کہ تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے :
9. عن ابن عباس رضي الله عنه انه قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم انا مدينة العلم و علي بابها فمن اراد العلم فليات الباب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔
1. المعجم الکبير لطبراني، 11 : 55
2. مستدرک للحاکم، 3 : 126 - 127، رح : 11061
3. مجمع الزوائد، 9 : 114
حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے، بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم درکار ہے وہ علی کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔
10۔ اسی طرح ایک روایت ہے کہ :
عن علي رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم انا دارالحکمة و علي بابها
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
1. جامع الترمذی، 5 : 637، کتاب المناقب باب 21
2. کنز العمال، 13، 147، ح :
36462
اصحاب رسول اخوت و محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے تھے، یہ عظیم انسان حضور کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل خود معلم اعظم حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی، حکمت اور دانائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے گھر کی باندی تھی، ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں موجزن تھا۔ مواخات مدینہ کی فضا سے اصحاب رسول کبھی باہر نہ آ سکے یہ فضا اخوت و محبت کی فضا تھی، بھائی چارے کی فضا تھی۔ محبت کی خوشبو ہر طرف ابر کرم کی طرح برس رہی تھی، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار میں کوئی فرق نہ تھا۔ اعتماد اور احترام کے سرچشمے سب کی روحوں کو سیراب کر رہے تھے اور عملاً ثابت ہو رہا تھا کہ فکری اور نظریاتی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں پر مبنی تفریق و دوری کی خودساختہ کہانیاں بعد میں تخلیق کی گئیں۔ جنگ جمل کے تلخ واقع کو ذھن میں رکھتے ہوئے عام طور پر بعض کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے درمیان بغض وعداوت کی بلند و بالادیواریں قائم رہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جنگ جمل کے اسباب کچھ اور تھے جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں لیکن ان دونوں عظیم ہستیوں میں مخاصمت کے افسانے تراشنے والوں کو اس روایت پر غور کرناچاہیے۔
11. عن عائشه انه قال ذکر علي عبادة
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت علی کا ذکر عبادت ہے۔
1. فردوس الاخبار للديلمي، 2 : 367، ح : 2974
2. کنزالعمال، 11 : 601، ح :
32894
گھر میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن رہی تھیں اگر چاہتیں تو باہر کسی سے بیان نہ کرتیں۔ دل میں (خدانخواستہ) کھوٹ یا میل ہوتا تو چپ سادھ لیتیں اور یہ حدیث چھپا لیتیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے۔ لیکن بلا کم و کاست فرمان رسول نقل کر دیا کیونکہ حقیقت چھپا کر رکھنا منافقت کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو بغض و منافقت جیسی روحانی بیماریوں سے کلیتاً صاف فرمایا تھا۔
اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی میں علی علی کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے مطابق علی کا ذکر عبادت ہے۔
12۔ اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں۔
کان ابوبکر يکثر النظر الي وجه علي فساله عائشة فقال سمعت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم النظر الي وجه علي عبادة
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
(الصواعق المحرقه، 177)
13۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے :
عن عبدالله عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال النظر الي وجه علي عبادة
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
1. المستدرک للحاکم، 3 : 141 - 142
2. المعجم الکبير للطبراني، 10 : 77، ح، 32895
3. فردوس الاخبار للديلمي، 5 : 42، ح : 1717
4. کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895
5. مجمع الزوائد، 9 : 111، 119
یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے پھر ابوبکر کے ماننے والوں اور حضرت علی کے پیروکاروں میں یہ دوریاں کیوں؟ یہ فاصلے کیوں؟ علی کو ماننے والو! تم ابوبکر کو ماننے والوں سے دور کیوں ہو گئے ہو؟
ان مقدس ہستیوں میں کوئی مغائرت اور دوری نہیں تھی وہ توایک ہی مشعل کی نورانی کرنیں تھیں مگر آج مسلمانوں نے خود ساختہ ترجیحات نکال نکال کر کئی گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور آئے روز ان کے درمیان خون ریزی کا بازار گرم رہتا ہے۔
اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش
حضرت علی (رض) مولائے کائنات
چونکہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی سے چلنا تھا اور ’’ذبح عظیم،، حسین کو ہونا تھا اس لئے ضروری تھا کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ولایت علی شیر خدا بن جائے اور ولایت علی شیر خدا ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصور کی جائے۔ روایت کے آئینہ خانے میں ایک اور عکس ابھرتا ہے غبار نفاق چھٹ جاتا ہے اور حقائق کا چہرہ مزید اجلا ہو جاتا ہے :
1. عن رياح بن الحرث قال جاء رهط الي علي بالرحبط فقالوا السلام عليکم يا مولانا قال کيف اکون مولا کم و انتم قوم عرب قالوا سمعنا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يو غديرخم يقول من کنت مولاه فان هذا مولاه
حضرت ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علی کے پاس رحبط کے مقام پر آیا انہوں نے کہا اے ہمارے مولا تجھ پر سلام ہو آپ نے فرمایا میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم،، کے مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ (علی) مولا ہے۔
(مسند احمدبن حنبل، 5 : 419)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے۔
15۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے :
عن زيد بن ارقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال من کنت مولاه فعلي مولاه
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
(جامع الترمذي، 2 : 213)
پہلے تاجدار عرب و عجم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ نبی ہونے اور نبی کا امتی ہونے کا فرق رہتا ہے لیکن دوئی کا ہر تصور مٹ جاتا ہے اس لئے کہ باطل دوئی پسند اور حق لا شریک ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا یعنی جو علی سے دوستی کرے تو بھی اس کا دوست بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا، ذیل میں متعلقہ حدیث پاک درج کی جا رہی ہے:
16. عن عمرو بن ذي مرو زيد بن أرقم قالا خطب رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يوم غديرخم فقال من کنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاده وانصرمن نصره و اعن من اعانه
حضرت عمرو بن ذی مرو اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کے ولی ہیں۔ ’’ اے اللہ تو اس سے الفت رکھ جو علی سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے اور تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی اعانت کر جو علی کی اعانت کرتا ہے۔،،
المعجم الکبير للطبراني، 4 : 17، ح : 3514
گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔
17. عن ابي طفيل قال جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة ثم قال لهم انشد الله کل امرئي مسلم سمع رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غديرخم ماسمع لما قام فقام تلاثون من الناس و قال ابو نعيم فقام ناس کثير فشهدوا حين اخد بيده فقال للناس اتعلمون اني اولي بالمومنين من انفسهم قالوا نعم يا رسول الله قال من کنت مولاه فهذا علي مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه
حضرت ابی طفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رحبہ کے مقام پر بہت سارے لوگ جمع تھے ان میں سے ہر ایک نے قسم کھا کر کہا کہ ہم ميں سے ہر شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے غدیرخم کے موقع پر خطاب فرمایا جس کو وہاں کھڑے ہوئے تیس آدمیوں نے سنا۔ ابو نعیم نے کہا کہ بہت سارے لوگ جمع تھے انہوں نے گواہی دی کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ میں مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے اے اللہ تو بھی الفت رکھ جو اس سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، 4 : 370)
روایات میں مذکور ہے کہ ان تیس صحابہ میں اصحاب بدر بھی موجود تھے، غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں نے بھی گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور ہم نے سنا تھا اور دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا اور ہم سب سے کہا تھا کہ مسلمانو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا سچ فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے، آپ ہم سب کی جانوں سے بھی قریب تر ہیں، فرمایا مجھے عزیز رکھنے والو سنو! میں اس کا عزیز ہوں جو علی کو عزیز رکھتا ہے جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے، اے مالک! تو بھی اس کا ولی بن جا جو علی کو ولی جانے۔
18. عن زياد بن ابي زياد سمعت علي بن ابي طالب ينشد الناس فقال انشد الله رجلا مسلما سمع رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غديرخم ما قال فقام اثنا عشر بدر يا فشهدوا
حضرت زیاد بن ابی زیاد نے حضرت علی سے سنا کہ جو لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے غدیرخم کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا وہ سچ ہے اور اس چیز کی بارہ بدری صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
(مسند احمد بن حنبل، 1 : 88)
اس حدیث کو روایت کرنے والوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مالک بن حویرث، ابو سعید خدری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت براء بن عازب، عمر بن سعد، عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔
19۔ فرمایا رسول محتشم نے :
عن عمار بن ياسر قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اوصي من آمن بي وصدقني بو لاية علي بن ابي طالب من تولاه فقدتولاني ومن تولاني فقد تولي الله عزوجل ومن احبه فقد اجني
حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت تک مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے۔ علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، ولایت علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ کی ولایت کو مانا، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
20. ومن احبني فقد احب الله تعالي ومن ابغضه فقد ابغضي ومن ابغضي فقد ابغض الله عزوجل
اور جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
(مجمع الزوائد، 9 : 109)
اسی مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کریں۔
1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84
2. مسند احمد بن حنبل، 1 : 119
3. مسند احمد بن حنبل، 4 : 370
4. ابن ماجه المقدمه : 43، باب 11 فضل علي ابن ابي طالب، ح : 116
5. المعجم الکبري للطبراني، 2 : 357، ح : 2505
6. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 173، ح : 4052
7. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 174، ح : 4053
8. المعجم الکبري للطبراني، 5 : 192، ح : 4059
9. المعجم الاوسط لطبراني، 3 : 69، ح : 2131
10. المعجم الکبري الاوسط لطبراني، 3 : 100، ح : 2204
11. المعجم الصغير، 1 : 64
12. مسند ابي يعلي، 1 : 428، 429، ح : 567
13. مسند ابي يعلي، 2 : 80 - 81، ح : 458
14. مسند ابي يعلي، 2 : 87، ح : 464
15. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 479
16. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 480
17. م سند ابي يعلي، 2 : 274، ح : 454
18. مسند ابي يعلي، 3 : 139، ح : 937
19. کنز العمال، 13 : 154، ح : 3648
20. کنز العمال، 13 : 157، ح : 36486
21. کنز العمال، 13 : 158، ح : 36487
22. مجمع الزوائد، 9 : 106، 107
23. موارد النعمان، 544، ح :
2205
21۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ فرمائیں :
عن ام سلمه قالت اشهد اني سمعت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يقول من احب عليا فقد احبني ومن احبني فقد احب اﷲ ومن ابغض عليا فقد ابغضني ومن ابغضني فقد ابغض اﷲ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تحقیق اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
(ايضاً : 132)
22. عن ابن عباس رضي الله عنهما قال نظر النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي علي فقال يا علي انت سيد في الدنيا سيد في الاخره حبيبک حبيبي و حبيبي حبيب الله وعدوک عدوي و عدوي عدوالله والويل لمن ابغضک بعدي
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب (دوست) ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 128)
بڑی واضح حدیث ہے فرمایا علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے تیرا حبیب میرا حبیب ہے اور میرا حبیب خدا کا حبیب، تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن، آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولایت علی کو ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ یہ حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تکرار کے ساتھ فرمایا :
23. فانه منی و انا منه وهو وليکم بعدي
علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 356)
24۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ملاحظہ ہو وہ فرماتے ہیں کہ :
قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ادعوا لي سيد العرب فقالت عائشة رضي الله عنه الست سيد العرب يا رسول الله فقال انا سيد ولد آدم و علي سيد العرب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں۔
1. مستدرک للحاکم، 3 : 124
2. مجمع الزوائد، 9 : 116
3. کنزالعمال، 11 : 619
ولایت علی کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علی کے بغیر نہ کسی کوغوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علی کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علی ہے، اس لئے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
25. عن أم سلمه قالت سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول من سبعليا فقدسبني
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
(مسند احمد بن حنبل، 6 : 323)
( المتدد، للحاکم، 3 : 121)
اس سے بڑ ھ کردوئی کی نفی کیا ہوگی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہوگا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی وہ علی کو نہیں مجھے دی۔
طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا
26. محبک محبي ومبغضک مبغضي
علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔
المعجم الکبير للطبراني، 6 : 239، رقم حديث : 6097
حدیث پاک اپنی تشریح آپ ہے۔ اوپر ہم نے اس حوالے سے سیدنا علی کے جو فضائل علی رضی اللہ عنہ بیان کئے ہیں وہ محض استشھاد ہیں ورنہ حضرت علی کو رب کائنات اور رسول کائنات نے جو فضیلتیں عطا کیں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔
27. عن ابی ذر رضی اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم من اطاعنی فقد اطاع اﷲ ومن عصانی فقد عصی اﷲ ومن اطاع عليا فقد اطاعنيومن عصي علياً فقد عصاني
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے (حضرت) علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (حضرت) علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
المستدرک للحاکم، 3 : 121
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔
28۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
علی مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفر قاحتي ير دا علي الحوض
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
(ايضاً، 124)
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
29. صحيح مسلم شريف ميں حضرت سعد بن ابي وقاص رضي اللہ عنہ سے روايت ہے.
ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي
جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
(الصحيح لمسلم، 2 : 278)
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ
1۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ
تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم
آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔
(آل عمران 3 : 61)
حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا ًو حسینا ًیعنی علیا ً (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا ً و حسینا ً(ابناء نا) ہوئے۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و الجماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے۔
30۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول الناس عن شجر شتي و انا و علي من شجرة واحدة
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)
ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔
31. عن علي رضي اﷲ عنه إبن أبي طالب ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد حسن و حسين فقال من احبني و احب هذين و اباهما و امها کان معي في درجتي يوم القيامة
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
( جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733)
32. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعث عليا مبعثا فلما قدم قال له رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اﷲ و رسوله و جبريل عنک رضوان
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔
(المعجم الکبير، 1 : 319)
33. خطب الحسن بن علي حين قتل علي فقال يا اهل الکوفه او يا اهل العراق لقد کان بين اظهرکم رجل قتل الليلة او اصيب اليوم ولم يسبقه الاولون بعلم ولو يدرکه الاخرون کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا بعثه في سرية کان جبريل عن يمينه و ميکائيل عن يساره فلا يرجع حتي يفتح اﷲ عليه
حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔
(مصنف ابن ابي شيبه، 12 : 60)
34. عن ام سلمة رضي الله عنه قالت : کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اذا غضب لم يجتري احدان يکلمه الا علي
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
(2) المستدرک للحاکم، 3 : 130
35. عن اسماء بنت عميس رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يوحي اليه و راسه في حجر علي فلم يصل العصر حتي غربت الشمس فقل النبي صلي الله عليه وآله وسلم اصليت يا علي قال لا فقال اللهم انه کان في طاعتک و طاعة رسولک فاردد عليه الشمس قالت اسمائ رضي الله عنه فرايتها غربت ثم رايتها طلعت بعد ما غربت
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔
(مشکل الآتار، 4 : 388)
36. عن علي رضي الله عنه قال بعثني رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الي اليمن فقلت يا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بعثني و انا شاب اقضي بينهم ولا ادري ما القضاء فضرب صدري بيده ثم قال اللهم اهد قلبه ثبت لسانه فوالذي خلق الحبة ما شککت في قضاء بين اثنين
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
(المستدرک، 3 : 135)
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔
37. ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال ان الجنة لتشتاق الي ثلاثة علي و عمار و سليمان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
(جامع الترمذي، 5 : 667، 7 : 3797)
38. عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي ان اول اربعة يرضون الجنة انا و انت والحسن والحسين و ذرا رينا خلف ظهورنا و ازواجنا خلف ذرا رينا و شيعتنا عن ايماننا و عن شمائلنا
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
المعجم الکبير، 3 : 119، ح : 950
39. عن ابي رافع رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي انت و شيعتک تردون علي الحوض رواء مروين مبيضة وجوهکم و ان عدوک يردون علي ظماء مقبحين
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔
المعجم الکبير، 1 : 319
40. عن ابن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم الحسن والحسين سيد اشباب اهل الجنة و ابوهما خير منها
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔
ابن ماجه، 1 : 44، ح :
118
المستدرک، 3 : 167
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔
41. محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحمله شناني علي ان يبهتني
1. مسند احمد بن حنبل، 1 :
160
2. المستدرک، 3 :
123
3. مسند ابي لعلي، 1 :
407
4. مجمع الزوائد، 9 : 133
ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved