سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی قیادت (leadership) کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے جملہ مخلوقات کو کس طرح اپنے تصرفات کے اِحاطے میں لیا ہوا تھا۔ ائمہ و مفسرین بیان کرتے ہیں کہ آپ کی قائم کردہ پارلیمنٹ کے 600 سے زائد اراکین تھے۔ آپ سلطنت کے مختلف کاموں کو سر انجام دینے میں ہر مخلوق سے کام لیا کرتے تھے۔ جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا تو ہر شخص کو اس کی مشاورت میں شریک کیا جاتا۔ ہد ہد اسی دربار میں پرندوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ اللہ رب العزت نے اسے یہ صلاحیت دے رکھی تھی کہ زیر زمین پانی کے ذخائر کا پتہ تک چلا لیتا تھا۔ اس طرح وہ حضرت سلیمان کے سفر کے دوران حصولِ آب کا اہم فریضہ بھی ادا کرتا تھا۔ چنانچہ اس سورہ میں ہد ہد سے مراد وہ خاص پرندہ ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے درباری کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے زیر تربیت رکھا۔ آپ کی بارگاہ سے اس نے intelligence, administration, time management اور ادب بجالانے کے اصول و ضوابط سیکھے۔ زیر نظر باب میں ہم نظامِ تربیت اور تصور جواب دہی کے متعلق ضروری آگہی واقعہ ہد ہد کی روشنی میں بیان کریں گے۔
اس واقعے سے ہمیں دو طرح کی تربیت مل رہی ہے :
1۔ اللہ کے نبی ہمیں قائد بنانا سکھا رہے ہیں کہ قیادت کسے کہتے ہیں اور قیادت میں کون کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں۔
2۔ ہدہد ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ کسی قیادت کے ساتھ کارکن کو کیسا ہونا چاہیے۔ ایک کارکن کا فرماں بردار اور مطیع بن کر چلنا کیا ہے اور پھر ُمطاع (اِطاعت کیا گیا) بن کر چلنا کیا ہے؟
زیر نظر سطور میں واقعہ ہدہد کی روشنی میں تربیت کی مختلف جہات اور نکات بیان کریں گے کیونکہ قران حکیم میں حقائق کا سمندر موج زن ہے۔ اب یہ غواص کی ہمت ہے کہ وہ توفیقِ اِلٰہی سے اس میں سے کتنے جواہر نکالتا ہے۔ یہاں پورا قصہ بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ اس سے خاص و عام پہلے ہی آگاہ ہیں۔
حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو باخبر ہو۔ اسے علم ہو کہ اس کے مصاحبین کون ہیں اور کیا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام جاہ و جلال، حشمت اور مقام و مرتبت کے ساتھ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوتے ہی پہلا سوال ہد ہد کی دربار میں غیر حاضری کا کرتے ہیں۔ یہاں سے آپ کی قیادت کی فراست، نگاہ اور نگہبانی کا اندازہ لگائیں۔ آپ اپنے درباریوں کا جائزہ لیتے ہیں ان میں جن و انس بھی تھے، حیوانات اور چرند پرند بھی تھے غرض یہ کہ آپ کے دربار میں ہر عالم کی نمائندگی ہوا کرتی تھی۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں کیا گیا :
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَالِیَ لَآ اَرَی الْھُدْھُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِيْنَo
النمل، 27 : 20
اور سلیمان ( علیہ السلام ) نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے : مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھ پا رہا یا وہ (واقعی) غائب ہوگیا ہےo
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اُس پرندے کو وہاں سے غیر حاضر پایا۔ یہ آیت خود بتا رہی ہے کہ وہ اجازت لے کر نہیں گیا بلکہ باقاعدہ اجازت لیے بغیر غائب ہوا۔ تَفَقَّدَ، فقدان سے ہے یعنی اُسے غیر حاضر پایا۔
ہد ہد آپ کی پارلیمنٹ کا ایک رکن تھا۔ وہ مشاورت کے عمل میں شریک ہوا کرتا تھا۔ اگر کوئی عام بندہ ہوتا تو اس پر نگاہ بھی نہ پڑتی۔ نگاهِ انتخاب ہمیشہ خواص پر پڑتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ ہدہد کہاں ہے؟ قیادت کی فراست اُس کی حاضر دماغی ہوتی ہے کہ وہ ہر شے پر نظر رکھتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ہدہد مجھ سے اجازت لیے بغیر کہیں چلا گیا ہے تو آپ نے اس کی گرفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری اجازت کے بغیر کیسے غائب ہوگیا؟
یہاں پر مفسرین لکھتے ہیں کہ هُدْهُدًا بھی نہیں فرمایا اور هُداهُد بھی نہیں فرمایا۔ نہ جمع کا صیغہ، نہ اُس کو نکرہ کہا بلکہ الْھُدْھُدَ کہا کہ وہ خاص ہدہد جو میرے دربار میں درباری کا مقام رکھتا ہے وہ کدھر ہے؟ ہدہد تو سیکڑوں ہوں گے اُن میں سے نظرِ انتخاب تو ایک بنا۔ اُس میں اتنی خوبیاں تو ہوں گی کہ اسے اس دربار کا اہم رکن بنایا اور اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کے نظم و ضبط کا مشاہدہ کرایا گیا ہے۔
ہدہد نے غلطی یہ کی کہ اُس نے آپ سے اجازت نہیں لی۔ اگر اس نے کسی کو بتایا ہوتا تو اسی وقت معلوم ہوجاتا کہ وہ بتا کر یا پوچھ کر گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بتائے بغیر کہیں چلا گیا ہے۔ اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں :
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَذْبَحَنَّهٗٓ اَوْ لَیَاْتِیَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo
النّمل، 27 : 21
میں اسے (بغیر اجازت غائب ہونے پر) ضرور سخت سزا دوں گا یا اسے ضرور ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس (اپنے بے قصور ہونے کی) واضح دلیل لائے گاo
عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ انتظام کارمیں یہ سختی کیسی؟ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی اعلیٰ مثال آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے فرمایا : چونکہ مجھ سے باقاعدہ پوچھ کر نہیں گیا اس لیے میں اُسے سخت سزا دوں گا یا اسے ضرور ذبح کر ڈالوں گا۔ یعنی جدید اصلاح میں اُس کو ذبح کر دوں گا سے مراد اسے برخاست کر دوں گا۔ یا وہ میرے پاس اپنے بے قصور ہونے کی واضح دلیل لے آئے۔ یعنی اگر وہ کسی ایسے معرکے پر گیا ہے جو سلطنت کے امور کی بجاآوری میں صرف ہو رہا ہے، یا پھرکوئی ایسی خبر لے کر آئے جو ہماری سلطنت کی بہتری، عظمت اور اس کی فتح و نصرت کے لیے ہو تب شاید اُس کی بچت کی گنجائش نکل آئے۔
یہاں جواب دہی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی جو قائد یا مربی ہوتا ہے اُس کے پاس تینوں اختیارات موجود ہوتے ہیں مگر وہ کوئی فیصلہ دوسرے کو اُس کا حقِ سماعت دیے بغیر نہیں کرتا۔ چنانچہ اتنی گنجائش (flexibility) قیادت میں ضرور ہونی چاہیے کہ وہ کارکن کو سماعت کا موقع بھی دے۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں کہ آغاز عذاب سے کیا، پھر ذبح کہا، پھر تیسری بات یہ ہے کہ مشن کی خدمت میں گیا ہے تو معافی ہے۔ پھر یہ ایسے ہی تصور ہوگا جیسے مشن کے کسی کام کے لیے معلوماتی دورے (study tour) پر بھیجا جاتا ہے جس سے ادارے اور تحریک کو فائدہ ہو۔ اگر مشن کے بغیر گھر بار کا کام کر آیا ہے تو پھر معافی نہیں ہے۔ حقیقی لیڈر وہی ہے جس کی طبیعت میں وسعت ہو اور وہ اخلاق و عدل کا پیکر ہو۔
اس واقعہ ہدہد سے نگہبانی کا پہلو بھی پوری طرح عیاں ہے جو قرآن مجید کی اگلی آیت نمبر 22 سے اخذ ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا :
فَمَکَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ۔
پس وہ تھوڑی ہی دیر (باہر) ٹھہرا تھا۔
وہ سفر تو کر رہا تھا مگر اُس نے زیادہ دیر نہیں لگائی کیونکہ اس کو علم تھا کہ قائد کو پریشانی ہوگی۔ جب لیڈر باخبر اور معاملات کو کنٹرول کرنے والا ہو تو کارکن بھی خود کو پوری طرح حالات و معلومات سے آگاہ رکھتے ہیں تاکہ اپنے قائد کو ہر سطح سے مطمئن کر سکیں۔ ہدہد اُمورِ سلطنت کے مختلف گوشوں، اَطراف اور جہتوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ یوں وہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کے اِرد گرد رعایا کی خبر گیری کر رہا تھا۔ عرب میں کسی کی بصارت و بصیرت کی مثال دینی ہو تو یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے : أبصرَ من ہدہد۔ کہ فلاں شخص ہدہد سے بھی زیادہ صاحبِ بصیرت ہے۔ اُس کی آنکھ میں اتنی تیزی ہے کہ وہ ہدہد سے بھی بڑھ گیا ہے۔ یعنی ہدہد کی بصیرت اور بصارت کے اوپر ایک محاورہ بیان کیا جاتا ہے۔
ائمہ کرام لکھتے ہیں کہ جب ہد ہد اس کام کے لیے گیا تو کیا یہ فریضہ اسے سلیمان علیہ السلام نے دیا تھا یا اسے مکلف ٹھہرایا تھا کہ تم جا کر اردگرد کی خبریں لیا کرو کہ میری سلطنت کے حق میں کیا ہے اور میری سلطنت کے خلاف کیا ہو رہا ہے۔ یہ فریضہ اپنے طور پر انجام دینا درحقیقت ہدہد کی طرف سے مشن سے کمال درجے کے اخلاص کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسا کہ بعد میں اس خبر کی بنیاد پر ہی ملکہ سبا کا سارا واقعہ مذکور ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ماتحت جو administrator یا manager ہے، اور اپنے boss تلے ادارے کے لیے کام کر رہا ہے تو صرف یہ نہیں ہوتا کہ اسے کہا جائے تو پھر ہی وہ ادارے کے مفاد کے لیے کوئی کام کرے اگر نہ بھی کہیں تو بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ ادارے کے حق میں بہتر ہے وہ خود سے معلومات لیتے رہیں کہ کام کیسے ہو رہا ہے اور نظام کیسے چل رہا ہے؟ یہ ایک جائزہ اور مشاہدہ ہے۔ اسے انگلش میں positive in approach کہتے ہیں۔ کارکن وہی ہے جو اپنے قائد کی منشا کو سمجھے۔
ہدہد پہلے مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُسے کوئی ذمہ داری (assignment) نہیں دی۔ یعنی اس نے وہ بات نہیں کی جو ہم آج کہتے ہیں کہ ہمارے قائد نے ہمیں کہا ہی نہیں ہم کیوں جائیں؟ حالانکہ اگر کہا نہیں تو منع بھی تو نہیں کیا! اب یہاں پر سلیمان علیہ السلام نے اُسے منع کیا ہوتا کہ میرے پوچھے بغیر تم کہیں نہیں جا سکتے تو وہ کبھی نہ جاتا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے ایک open area ضرور دے دیا۔ بلاشبہ permission کا نظام ادارے کے مفاد سے ضرور مشروط ہوتا ہے، ہدہد اُمورِ مملکت کے مفاد میں گیا تھا، اس لیے وہ جائز تھا۔ آپ نے اسے آخری انتخاب دے دیا کہ اگر کوئی ایسی خبر لائے جو مملکت کے حق میں ہو تب معاف کر دوں گا۔ اُس نے اگرچہ اجازت نہیں لی تھی، لیکن چونکہ امورِ مملکت کے مفاد میں وقت صرف کیا تھا تو اُس سے درگزر کرنے کی گنجائش نکل آئی۔ اُس نے وہاں پر جو مشاہدہ کیا وہ مختصراً (to the point) کوئی اہم نکتہ چھوڑے بغیر سارا پیش کر دیا۔ کوئی غیر ضروری بات بیان نہیں کی۔ کسی صحیح نتیجے پر پہنچنے کا یہ جدید ترین کامیاب اسلوب ہے تاکہ زیر بحث معاملہ ابہام کا شکار نہ ہو۔ اس کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے :
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍo
النمل، 27 : 22
پس وہ تھوڑی ہی دیر (باہر) ٹھہرا تھا کہ اس نے (حاضر ہو کر) عرض کیا : مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر (شاید) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس (ملکِ) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوںo
اُس نے ایک خبر معلوم کی تو صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس نے تھوڑا سا وقت صرف کیا اور معاملے کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہوئے علم کامل حاصل کیا۔ جب اُس نے جامع (comprehensive) علم حاصل کر لیا تب اُس نے واپسی کا رخ کیا۔ اب اسے تیقن حاصل تھا کہ میں ایک یقینی خبر لایا ہوں۔
یہ انتظامی امور کے حوالے سے بہت بڑا درس ہے۔ ہم چلتے پھرتے کوئی خبر سنتے ہیں اور اسی پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور کسی معتمد شخص سے پوچھے بغیر اپنی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ جو جامع علم کی نفی اور انتظامی نظام کے سراسر خلاف ہے۔ اب ہدہد کی تربیت دیکھیں کہ وہ رُکا نہیں اوروہ آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔ وہ گہری سوچ بچار سے کچھ چیزوں کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ تحقیق اور مخبری کرتے ہوئے اپنی معلومات کو تیقن کی حد تک لے جاتا رہا۔ جب اُسے یقین کامل ہو گیا تو تب واپس چلا آیا۔
اسے دربار میں آکر اندازہ ہو گیا کہ اجازت کے بغیر گیا ہوں اور اگر باوثوق ذرائع سے اپنی آنکھوں سے کیا ہوا مشاہدہ پیش نہیں کروں گا تو گرفت ہو جائے گی۔ اب وہ کہتا ہے :
اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍo اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُهُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌo وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَھُمْ لَا یَھْتَدُوْنَo
النّمل، 27 : 22-24
مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر (شاید) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس (ملکِ) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوںo میں نے (وہاں) ایک ایسی عورت کو پایا ہے جو ان (یعنی ملکِ سبا کے باشندوں) پر حکومت کرتی ہے اور اسے (ملکیت و اقتدار میں) ہر ایک چیز بخشی گئی ہے اور اس کے پاس بہت بڑا تخت ہےo میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمالِ (بد) ان کے لیے خوب خوشنما بنا دیے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہےo
اس نے اپنے مشاہدے کی جملہ تفصیلات حضرت سلیمان علیہ السلام کو پیش کر دیں اور عرض کیا کہ اس یقینی خبر پر آپ اعتماد اور یقین کر سکتے ہیں۔ یہ ہد ہد کا معاملہ تھا جب کہ ہماری قوم کا یہ المیہ اور شعار بن گیا ہے کہ ہم چلتی پھرتی خبروں کو تحقیق کے بغیر آگے منتقل کر دیتے ہیں خواہ اس خبر سے تحریک، ادارے یا مملکت کو کتنا ہی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ جائے۔
پھر آگے حضرت سلیمان علیہ السلام نے لائحہ عمل تیار کیا اور ایک منصوبہ بندی بنائی۔ اُس کے بعد فرمایا : جاؤ اور میری طرف سے یہ خط انہیں دے آؤ۔
یاد رہنا چاہیے کہ تحریک کے لیے مکمل منصوبہ بندی کا انحصار قیادت تک پہنچائی گئی معلومات پر ہوتا ہے۔ جب آپ کو خبر دینے والا، آپ کا تابع دار اپنے کام کو بخوبی سرانجام دے رہا ہوتا ہے تو وہ اُس کے ہر ہر پہلو پر نگاہ ڈال رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم نے یہ بات سمجھی کہ جو ذمہ داری ہمیں سونپی گئی ہے، میں تو صرف اسی کا جائزہ لوں گا اور اس سے متعلق دیگر ضروری بنیادی معلومات کو نظرانداز کر دوں تو کبھی صحیح منصوبہ بندی نہیں ہو سکے گی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ہد ہد کو یہ بھی احساس تھا کہ میں پوچھے بغیر آیا ہوں، وقت پر جانا ہے اور اگر وہاں پر میں وقت پر واپس نہ گیا تو میری پوچھ گچھ اور مواخذہ بھی ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں اسے time management کا احساس تھا۔ چنانچہ اُس نے ایک short time period کے اندر احاطہ بھی کر لیا اور اُس کی خبر بھی اکٹھی کر لی اور بروقت پہنچ بھی گیا۔ یوں پیغام رسانی بھی ہوگئی، ابلاغ بھی ہوگیا اور اس کے نتیجے میں پھر منصوبہ بندی بھی طے پا گئی۔ اس سے بر وقت انجام دہی کا تصور نمایاں ہوتا ہے۔ وہ منصوبہ جو وقت کے تعین کے بغیر تیار کیا جائے وہ لیت و لعل کا شکار ہو جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بناتا ہے کہ بڑی بڑی منصوبہ بندیاں جو مناسب وقت پر طے نہ ہونے کا باعث ناکامیوں پر اختتام پذیر ہوئیں۔
یہاں سے ایک چیز یہ بھی اخذ ہوئی کہ اگر آپ کے ماتحت آپ کو کسی ایسی اہمیت کی حامل معلومات سے آگاہ کریں جو آپ کے علم میں نہیں اور آپ کے مشاہدہ میں کوئی نئی چیز آجائے تو قیادت کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اسے قبول کرنے میں گریز نہیں کرتی۔ وہ ایسا کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتی۔ جب انتظامی پہلو پر اگر آپ کے ماتحت عملے سے کوئی نئی معلومات اور نئی منصوبہ بندی لے کر آتا ہے تو اُسے تحمل سے سننا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر اُس میں علمی حوالے سے، معلومات کے حوالے سے، یا منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی نئی معلومات مل رہی ہیں، جو سلطنت، ادارہ، تحریک کے لئے مفید ہے تو اُس کا احاطہ و ادراک کرنا اور پھر اُس کی خبر کی تصدیق کرنا، یقین کرنا اور پھر اُس پر منصوبہ بندی بنانا بھی اُس کا حصہ ہو جاتا ہے۔ کسی انسانی ضروری اور قابل ذکر اطلاع پر محض اس لیے توجہ نہ کرنا کہ یہ ایک ماتحت نے پہنچائی ہے، وسیع القلبی و مشاورت کے خلاف ہے۔
یہاں ہد ہد کی خبر سننے پر آپ نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا کام تو زیر زمین پانی کا تلاش کرنا ہے تم مجھے یہ خبر دینے والے تم کون ہو؟ میں نبی ہوں یا تم نبی ہو؟ اب نبی کی یہ شان ہے کہ وہ وسیع القلبی کے ساتھ سماعت کرتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر آپ کے ماتحتوں میں سے ممبرز ہیں، اساتذہ ہیں، طلبا ہیں اور وہ آپ سے کوئی مشاورت کرنا چاہیں، تو انہیں وسعت قلبی سے سننا چاہیے۔ درست فکر کی حامل اعلیٰ قیادت انہیں مشاورت میں شریک بھی کرتی ہے اور اتنا وقت بھی دیتی ہے۔
قیادت کی خوبی یہ ہے جہاں گرفت کرنی ہو تو وہ گرفت کرنے سے پہلے تصدیق کرتی ہے۔ جہاں پوچھنا ہو اور جن معلومات پر چلنا اس کی تصدیق کرتی ہے جب اس پر کمال درجے کا تیقن ہو جائے تو پھر اُس پر عمل کرتے ہوئے strategies بنائیں۔ ہدہد نے ملکہ بلقیس کی سلطنت کے بارے میں اہم معلومات بتاتے ہوئے بطور خاص اس کے بڑے تخت کا ذکر کیا، اس سے دراصل ہدہد کے پیش نظر حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی سلطنت کی معاشی اور عسکری طاقت کو بیان کرنا مقصود تھا تاکہ ان امور کو پیش نظر رکھ کر پوری مشاوت سے فیصلہ کیا جاسکے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک غیر مسلم حکمران پر نبوی تصرف ظاہر کرنے کے لئے ایک حکمت عملی ترتیب دی۔ چنانچہ یہ حکمت عملی بناتے وقت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے مشیروں سے پوچھا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا تخت اس کے آنے سے پہلے یہاں لے آئے؟ قابلِ غور نکتہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام یہ مشاورت کر رہے ہیں۔ یہ انتظامی لوازمات ہیں۔ اگر کوئی مشاورت کرتا ہے تو اس سے قیادت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ کون ہے جو اس تخت کو جلد میرے سامنے لا سکے؟ ایک قوی ہیکل جن نے کہا :
اَنَا اٰتِيْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ج وَاِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِیٌّ اَمِيْنٌo
النمل، 27 : 39
میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوںo
آپ نے فرمایا : نہیں۔ پھر وہاں پر آصف بن برخیا عرض کرتے ہیں کہ جن کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا :
اَنَا اٰتِيْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْکَ طَرْفُکَ۔
النّمل، 27 : 40
میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔
اب ایک طرف وہ ہدہد علم لا رہا ہے۔ وہ علم بھی اللہ کی بارگاہ سے مل رہا ہے، دوسری طرف آصف بن برخیا بھی سیدنا سیلمان علیہ السلام کے درباریوں میں سے ایک درباری ہیں، جنہوں نے پلک جھپکنے سے پہلے تختِ بلقیس حاضر کر دیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کتاب کا علم اللہ کے نبی کے قدموں میں بیٹھ کر مل جائے تو تختِ بلقیس بھی آجاتا ہے۔ چنانچہ ہر دور میں اگر علم والے اللہ والوں کے در پر بیٹھ جائیں وہ بھی بہت کچھ لے سکتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن آقا علیہ السلام کے فیوضات کا وہ دسترخوان ہے جس میں علم القرآن، علم الحدیث، علم الفقہ، استدلال و استنباط کا علم، صحبت اور ادب کے فیوضات بانٹے جا رہے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ کے اخلاص اور وفاداری کو اس قابل کیا جاتا ہے کہ آپ ادارے کی فکر، سوچ، علم، نگرانی اور امورِ ادارت کے ساتھ وفاداری سے چلیں۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھ لیا کہ آصف بن برخیا نے جو وعدہ کیا اسے اللہ کے کرم سے بتمام و کمال پورا کرتے ہوئے تختِ بلقیس آپ علیہ السلام کے قدموں میں رکھ دیا ہے تو اُس وقت اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُسے اپنے ساتھ منسوب نہیں کیا بلکہ اللہ کے فضل کے ساتھ منسوب کر دیا۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے :
فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۔
النّمل، 27 : 40
پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا : یہ میرے رب کا فضل ہے۔
یہاں اللہ کا فضل یہ ہے کہ آصف بن برخیا کو صحبتِ نبی علیہ السلام ملی ہے۔ اُن کے قدموں کی صحبت کے طفیل یہ ممکن ہوا وگرنہ اس کا ذاتی علم اس قابل نہیں تھا کہ تخت لا سکتا۔ علم والے تو بہت ہوں گے، مگر وہ علم جو درِ انبیاء اور درِ اولیاء میں بیٹھ کر حاصل کیا جائے، وہی حقیقی نتائج پیدا کرتا ہے ۔ واضح رہے کہ نبوت کا دروازہ ضرور بند ہوا ہے، مگر اولیاء کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ آج کے دور میں بھی اولیاء کی سنگت سے ایسے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ پیکرِ اطاعت بنا جائے۔ پیکر اطاعت بننے کے لیے انتظامی حوالے سے لوازمات چاہیں۔ منتظم چاہیے، نظام چاہیے اور نظم و ضبط چاہیے۔ پھر اُس نظم و ضبط کو سیکھنے کے لیے قیادت چاہیے۔ ایک مثالی قائدانہ شخصیت (role model) چاہیے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں مجددِ رواں صدی کی صحبت بھی ملی، آفاقی علم بھی ملا، مثالی درس گاہ بھی ملی، اعلیٰ آداب بھی میسر ہوئے اور سب سے بڑھ کر حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شکل میں ایک رول ماڈل بھی ملا۔ اب ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پوری تن دہی کے ساتھ تجدید و اِحیاء دین کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دی جائیں اور اس مقصدِ سعید کے لیے تن، من اور دھن سمیت کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اگر ہم اس منزل پر پہنچ گئے تو مصطفوی انقلاب کا سویرا بہت جلد طلوع ہو گا اور دنیا بھر میں دینِ اسلام کی تابانیاں جگمگا رہی ہوں گی۔ اِن شاء اللہ۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved