ایک انقلابی قائد ایسا مربی اور رہنما ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی اپنی قوم کی اصلاح سے دست بردار نہیں ہوتا۔ وہ قوم کو درپیش مسائل سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہوتا ہے بلکہ ان کے حل کے لئے اس کے پاس قوانین، قواعد و ضوابط پر مشتمل ایک مکمل دستور اور طریقہ کار بھی ہوتا ہے۔ وہ ایسا نظام العمل ترتیب دیتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر قوم دنیا بھر میں حقیقی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاست بننے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیتی ہے۔
بڑی بڑی عظیم شخصیات اپنے اپنے دور میں اس دنیا میں تشریف لائیں ، جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں اور قوموں کے احوال کو بدلنے کے لیے سر توڑ کوششیں کیں۔ ان میں سے بعض کامیاب بھی ہوئے لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ دستور یا نظام جن سے لوگوں کو متعارف کرایا تھا وہ بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ ایسی ہستیاں تعداد میں بہت کم ہوئی ہیں کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی نہ ان کی یاد کم ہوئی اور نہ ہی ان کی تعلیمات کا فیض ختم ہوا۔
حقیقی قائد اور مربی وہ ہوتا ہے کہ جس کے کردار کا نقش لوگوں کے قلوب و اذہان پر ایسا نقش ہو جائے کہ وہ دنیا چھوڑ بھی جائے توتب بھی جس انقلابی سوچ اور جرأت سے لوگوں کو باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کیا تھا، وہ برقرار رہے۔ اس کردار کے پیچھے اس کی فکر، انقلابی فلسفہ، اعلی اخلاقی جرأت اور اس کا روحانی مقام و مرتبہ پنہاں ہوتا ہے، جس سے اس کے پیروکاروں کو جرأت کا پیکر بنے رہنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ وہ زندگی کے جملہ پہلوؤں میں اپنے قائد کے شبانہ روز قرآن و سنت پر مبنی معمولات حیات سے سبق پا کر کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں۔ ایسی ہستیاں ہمہ پہلو صفات کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ اپنے جلال و جمال، اپنی فکر، روحانیت، جرأتِ کردار اور اپنے باطل شکن افکار سے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں۔ لوگ ان کی صحبت اور ذکر سے تسکینِ قلب پاتے ہیں۔
زیر نظر سطور میں ہم سورۃ الکہف میں بیان کیے گئے واقعہ ذوالقرنین کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ قائد کون ہوتا ہے ؟ وہ کن اوصاف سے متصف ہوتا ہے اور اس کی قائدانہ صلاحیتوں سے قوم کس طرح مجتمع ہوتی ہے۔
حضرت ذوالقرنین کی شخصیت بھی انہیں صفات کی حامل تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کا ذکر بنی نوع انسان کے سامنے مثال بنا کر پیش کیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایک انقلابی شخصیت میں قائدانہ و انتظامی صلاحتیں، ضبط و کنٹرول اور بلندیِ کردار کس درجے کا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ تمام خوبیاں حضرت ذوالقرنین کی شخصیت میں جمع فرما دی تھیں۔
ہم حضرت ذو القرنین کے قرآن مجید میں بیان کردہ پورے واقعہ اور آپ کے تینوں اسفار کے حوالے سے مذکورہ بالاجملہ خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر کریں گے۔ ان قرآنی تذکار سے یہ استنباط کریں گے کہ لیڈر شپ اورکارکن سازی میں ان سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اِس باب میں قیادت کے صرف وہی اوصاف مذکور ہیں جو واقعہ ذو القرنین سے اخذ کیے گئے ہیں۔ قیادت کے متعدد دیگر اوصاف بھی ہیں جنہیں ہم تنگیِ داماں کے پیش نظر یہاں درج نہیں کررہے یا وہ واقعہ ذو القرنین سے متعلق نہیں ہیں۔
اس قرآنی واقعہ کے حوالے سے حضرت ذو القرنین کی اس جد و جہد کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا :
اِنَّا مَکَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ۔
18 : 84
’’بے شک ہم نے اسے (زمانۂ قدیم میں) زمین پر اقتدار بخشا تھا۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہاں حضرت ذوالقرنین رضی اللہ عنہ کو زمین پر اقتدار بخشنے کا ذکر فرمایا ہے کہ بلاشبہ انہیں ایک عظیم لیڈر کی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔ انہیں امورِ مملکت کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ کیا گیا تھا۔ زمانہ قدیم میں ان کی ایک مضبوط اور طاقت ور سلطنت قائم تھی۔ دنیا میں ان کی قوت کا ڈنکا بجتا تھا وہ اللہ کے نیک و صالح بندہ ہونے کے ساتھ ساتھ فاتح افواج کے سپہ سالار بھی تھے ۔ اگرچہ بعض مفسرین انہیں سکندر اعظم تصور کرتے ہیں لیکن قرآنی نکتہ نظر سے کہیں بھی ایسا ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم حضرت ذوالقرنین اس قدر اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھے کہ بطور عظیم حکمران، ان کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ ہمیں یہاں اس امر سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ آج بھی ایسے بندے پیدا فرما سکتا ہے جو امت مرحومہ کو انقلاب آشنا کر سکیں۔ بشرطیکہ قوم سچے دل کے ساتھ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صبرو استقامت کے ساتھ باطل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔
اللہ رب العزت نے اسی آیاتِ مبارکہ میں فرمایا :
وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ سَبَبًاo
اور ہم نے اس (کی سلطنت)کو تمام وسائل و اسباب سے نوازا تھاo
یہاں حضرت ذوالقرنین کو اسباب و وسائل عطا کیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس دور کے تقاضوں کے مطابق اس کی سلطنت ہر لحاظ سے خود کفیل اور مضبوط تھی۔ جہاں انہیں اقتدار کی نعمت عطا کی گئی تھی وہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی بھلائی و بہتری کے لئے اپنے اس بندے کو وسائل و اسباب سے بھی خوب نواز رکھا تھا تاکہ مخلوقِ الٰہی کی ضرورتوں اور حاجتوں کو اللہ کی عطا کی گئی نعمتوں سے پورا کیا جائے اور اس ضمن میں اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
ارشاد فرمایا گیا :
فَاَتْبَعَ سَبَبًاo
الکہف، 18 : 85
پھر وہ ایک (اور) راستے پر چل پڑاo
یہ آیت کریمہ حضرت ذوالقرنین کی مہمات پر روانہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ وہ کبھی مغرب کی انتہا پر واقع آبادی کی طرف سفر کرتے ہیں اور کبھی مشرق کی انتہا پر واقع آبادی کی طرف پہنچے کا عزم کرتے ہیں۔ وہ اس دوران مختلف ممالک اور اقوام کے احوال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ اعلائے کلمۃ الحق کرنے کے ساتھ ساتھ قوموں کے احوال کو سنوارتے۔ مظلوموں، محکوموں، محتاجوں اور محروموں کی مدد کرتے ہوئے انہیں طاغوت کے سامنے سینہ سپر کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ لوگوں کو وحشی اقوام کے شر سے بچانے کے لیے دیوار تعمیر کرتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کرتے ہیں۔
اُمتِ مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت ذوالقرنین اللہ کے نبی نہیں بلکہ ولی تھے۔ آپ کا ایک ولی ہو کر اس قدر تمکنت اور اقتدار کا حامل ہونا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت تھی۔ نبوت تو قیامت تک لیے ختم ہو چکی ہے لیکن ولی کے آنے پر تو کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر اُس دور کے طاغوت یعنی یاجوج ماجوج جیسی و حشی مخلوق سے ذوالقرنین کے ذریعے مخلوق کو نجات دلا سکتے ہیں، تو یہ دور بھی مالکِ کون و مکاں کے دستِ قدرت سے باہر نہیں۔
اس وقت امت مسلمہ کی زبوں حالی سے ہر درد مند دل پریشان ہے اور نم ناک آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہے کہ اے باری تعالیٰ! اس امت مرحومہ کو زوال سے نکالنے کی سبیل پیدا فرما۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس صدائے دل دوز پر فرماتا ہے کہ میری سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک خود ان میں اپنی حالت بدلنے کا مصمم ارادہ پیدا نہ ہو۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کا ذکر کیا ہے جو حالات کے سامنے جھکنے کی بجائے ڈٹ گئے اور ان کی جرأت و جواں مردی اور بے لوث قربانیوں پر نصرتِ الٰہی نے انہیں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرما دیا۔ قرآن مجید میں ان جرأت کے پیکر رہنماؤں اور قائدین کا بیان درحقیقت ہمارے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ امتِ مسلمہ کی زبوں حالی سے باہر نکلنا ان کے نشان راہ پر چلے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اللہ رب العزت نیقرآن مجید میں ذوالقرنین کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اِنَّا مَکَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ سَبَبًاo
الکہف، 18 : 84
بے شک ہم نے اسے (زمانۂ قدیم میں) زمین پر اقتدار بخشا تھا۔ اور ہم نے اس (کی سلطنت)کو تمام وسائل و اسباب سے نوازا تھاo
سورۃ الکہف کی اس آیت کریمہ میں تعارف کروایا جا رہا ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟ فرمایا : ہم نے اسے زمانۂ قدیم میں زمین پر اقتدار بخشا تھا۔ یہاں اللہ رب العزت ذوالقرنین کو دی جانے والی قوت، اہلیت، اسباب، وسائل، تمکن فی الارض اور فتوحات کی صورت میں اس کی قوت اور جرات کا اظہار فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا یہ واقعہ کو سمجھانے کے لیے بیان کیا ہے کہ سیدنا ذوالقرنین کو جو قدرت نے صلاحیت دی تھی، انہوں نے اس کو دنیوی طاقت کے مقابلے میں سرنگوں ہونے سے بچائے رکھا۔ وہ طاغوت کے خلاف نہ بکے، نہ جھکے اور نہ ہی دنیا کے کسی مفاد کی خاطر کام کیا۔
حضرت ذوالقرنین نے باطل کے خلاف متواتر کئی مہمات کامیابی سے سر کیں۔ اس ضمن میں ان کے پہلے سفر کا آغاز قرآنِ مجید کی اس آیتِ مبارکہ سے کرتے ہیں :
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا ط قُلْنَا یٰـذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّـآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًاo
الکہف، 18 : 84
یہاں تک کہ وہ غروبِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا وہاں اس نے سورج کے غروب کے منظر کو ایسے محسوس کیا جیسے وہ (کیچڑ کی طرح سیاہ رنگ) پانی کے گرم چشمہ میں ڈوب رہا ہو اور اس نے وہاں ایک قوم کو (آباد) پایا۔ ہم نے فرمایا : اے ذوالقرنین! (یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے) خواہ تم انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کروo
حضرت ذوالقرنین مغرب کی سمت چلتے چلتے ایسی جگہ پہنچے جہاں انہوں نے سورج کے غروب ہونے کا منظر دیکھا۔ اللہ رب العزت انہیں پہلے غروبِ آفتاب دکھا رہا ہے اور پھر طلوع آفتاب دکھائے گا۔ حالانکہ منطقی لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلے مشرق سے سورج طلوع ہوتا ہے اور پھر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ بظاہر مشرق کا ذکر پہلے اور مغرب کا ذکر بعد میں ہونا چاہیے تھا۔ دراصل یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ جب کسی قوم کے مسیحا کو بھیجنے کا وقت آتا ہے تو وہ مسیحا تب آتا ہے جب قوم کے عروج کا سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے۔ جب قوموں پر زوال آتے ہیں تو پھر ظلم کی سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اس شبِ ظلمت میں ظالم، غاصب اور استحصالی قوتوں کے شکنجے عوام کو جکڑ کر اُن کے حقوق چھین لیتے ہیں پھر وہ لوگ غروب آفتاب کی مانند سیاہ رنگ کے پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں۔
یہ آیت غروبِ آفتاب کے حوالے سے اس قوم کی زبوں حالی کو بیان کر رہی ہے، جو فسق و فجور کا شکار ہو چکی تھی۔ اس میں سرکشی اور بغاوت عام تھی۔ ان کے ہاں ہر طرف خود غرضی، لاقانونیت اور بد اخلاقی کا دور دورہ تھا۔ اس معاشرے میں انسانیت اور حمیت مفقود ہو چکی تھی اور ہر جانب ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ یہ وہ قوم تھی جس کا اخلاق، امانت و دیانت کا سورج غروب ہو رہا تھا۔ یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ جہاں ظلم و ستم کی انتہا ہو جائے اور اخلاقی حالت تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے تو اس کی گرفت سے قبل اتمام حجت کے طور پر ان کی اصلاح کے لئے کسی مصلح اور مسیحا کو بھیجا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کی سرکشی پر حضرت ذوالقرنین کو فرمایا کہ یہ تمہاری مرضی ہے کہ انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ حضرت ذوالقرنین اس قوم کے پاس پہنچے جو ظلم و ستم اور بے راہ روی کا شکار ہو چکی تھی۔ فسق و فجور ان کا وطیرہ تھا اور وہ بربادی کے گڑھے میں گر چکی تھی۔ وہ لوگ اپنی سیاہ کرتوتوں کے باعث سزا کے مستحق ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو اختیار عطا فرمایا کہ یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے چاہے تو انہیں ان کے بد اعمال کی سزا دو یا پھر ان سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان کا مواخذہ کرنا چاہو تو پھر ان کو کٹہرے تک پہنچا کر عذاب الٰہی کا انتظار کرو اور اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو تو انہیں معاف کرتے ہوئے ان کی تربیت کا نظام وضع کرو اور ان کی کردار سازی کرو۔ یہ اس لئے ہوا کہ انہیں سمجھانے اور سکھلانے والا کوئی قائد میسر نہیں تھا۔ اس مقام پر حضرت ذوالقرنین کی بات کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا :
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّکْرًاo
الکہف، 18 : 87
ذوالقرنین نے کہا : جو شخص (کفر و فسق کی صورت میں) ظلم کرے گا تو ہم اسے ضرور سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا، پھر وہ اسے بہت ہی سخت عذاب دے گاo
حضرت ذوالقرنین نے سزا دینے سے پہلے ضروری خیال کیا کہ اتمام حجت کے لئے ایک نظام العمل دیا جائے تاکہ اس دستور کے بعد اگر کسی نے حکم عدولی کی تو وہ عذاب کا مستحق ہو گا۔ ذوالقرنین اپنے ایک اشارے پر اس ظالم و جابر طبقے کا مواخذہ کر کے ان کو کٹہرے تک پہنچا سکتے تھے مگر اصل حکمت تو تدبر، سیاست اور فراست میں ہے۔ اللہ رب العزت نے ذہنی صلاحیت دی ہے تو پہلے ذہن استعمال ہو گا اور اللہ کی عطا کردہ اہلیت استعمال ہو گی۔ حقیقی سیاسی صلاحیت کا حامل قائد وہ ہوتا ہے جو ڈرانے سے پہلے قوم کو جملہ خرابیوں کا ایک حل تجویز کرتا ہے اور انہیں ایک باضابطہ نظام دیتا ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر قوم کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔
جب حضرت ذوالقرنین کو دو اختیار دیے گئے تو انہوں نے جو کچھ قوم سے کہا اُسے قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے :
وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآء نِالْحُسْنٰی ج وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًاo
18 : 88
اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لیے بہتر جزا ہے اور ہم (بھی) اس کے لیے اپنے احکام میں آسان بات کہیں گےo
دوسرے لفظوں میں جو صاحبِ ایمان ہو گیا، امن کا پیکر بن گیا اور اپنی زندگی کو سنوار گیا۔ وہ اگر اعمالِ صالحہ بجا لائے گا تو اس کے لئے جہاں اس دنیا میں آسانیاں ہوں گی، اسے عہدے، مرتبے، عزت اور سربلندی ہو گی وہاں آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایسی لازوال نعمتیں مہیا فرمائے گا جس کا دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دنیا میں زہد و تقویٰ اختیار کرے اور سوز و گداز کا پیکر ہو جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ احوال کے لئے سب کو ایک ہی چھڑی سے نہیں ہانکا جاتا بلکہ عدل اور انصاف پر مبنی نظام قائم کیا جاتا ہے۔ اگر ظالم کو انجام تک پہنچاتے ہیں تو اگر کوئی معافی مانگنے آ جائے تو پھر ابوسفیان کی طرح اسی کے گھر کو دار الامن بھی بنا دیتے ہیں۔ یہاں دراصل آقا ﷺ کو بتایا جا رہا ہے کہ جو سلطنتِ مصطفی ﷺ بنے گی وہ اللہ رب العزت کے منشا کے مطابق معاملات کو حل کرے گی اور اس سے بال برابر بھی انحراف نہیں کرے گی۔
اَہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ذوالقرنین نے اس معاشرے کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ ان پر اصلاحات کا پورا نظام نافذ کیا۔ ان کی قیادت کرتے ہوئے تربیت کے ذریعے انہیں ایک قوم بنا دیا۔ وہ منتشر معاشرہ جو سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا تھا اسے اپنی رہنمائی میں ایک منظم قوم بنا کر صراط مستقیم پر گامزن کر دیا۔ چنانچہ حقیقی قائد وہ ہوتا ہے جو صرف مرض کو نہیں دیکھتا بلکہ مرض کی تشخیص کر کے اس کا شافی علاج بھی کرتا ہے اور شفایابی کے حصول تک اس کی مسیحائی بھی کرتا ہے۔
حضرت ذوالقرنین کے دوسرے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے :
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاo
الکہف، 18 : 90
یہاں تک کہ وہ طلوعِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا، وہاں اس نے سورج (کے طلوع کے منظر) کو ایسے محسوس کیا (جیسے) سورج (زمین کے اس خطہ پر آباد) ایک قوم پر اُبھر رہا ہو جس کے لیے ہم نے سورج سے (بچاؤ کی خاطر) کوئی حجاب تک نہیں بنایا تھا (یعنی وہ لوگ بغیر لباس اور مکان کے غاروں میں رہتے تھے)o
حضرت ذوالقرنین مغرب کے بعد مشرق کی سمت اس آبادی میں پہنچے جہاں سورج کے طلوع ہونے کا منظر عیاں تھا۔ وہاں ایک ایسی قوم کو پایا جن کے جسموں پر لباس تک نہ تھا۔ ان کے پاس سر چھپانے کے لئے چھت تک نہ تھی۔ بے سہارا، کم زور اور لاچار لوگ جانوروں کی طرح غاروں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہاں حضرت ذوالقرنین نے اس قوم کی تربیت کی۔ ان کے لئے لباس اور چھت کا بندوبست فرمایا اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے جوہر سکھائے اور اس قوم کی تمام ضروریات کی کفالت کا انتظام فرمایا۔
حضرت ذوالقرنین کے اس سے واقعہ ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حقیقی قائد وہی ہوتا ہے جو کہ نہ صرف قوم کی درماندگی کے مرض کی تشخیص کرے بلکہ اس کا علاج کر کے انہیں ایک باوقار، باعزت اور باحمیت قوم میں تبدیل کر تے ہوئے اس کی تمام پریشانیوں اور رنج و آلام کو دور کرنے کے اسباب بھی پیدا فرمائے۔
اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا :
کَذٰلِکَ ط وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًاo
الکہف، 18 : 91
واقعہ اسی طرح ہے اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم نے اپنے علم سے اس کا احاطہ کرلیا ہےo
یعنی ہم نے حضرت ذوالقرنین کو اُس قوم کے احوال کی مکمل خبر دی تھی خواہ اس کا تعلق سیاست، عدل و انصاف، جرأت و قوت یا انتظامی امور سے تھا، یہ سب کچھ ہم نے ذوالقرنین کو عطا کر دیا تھا۔ اللہ رب العزت اب قوموں کا حال بتاتے ہوئے بار بار ذوالقرنین کی جرأت اور قوت کا ذکر فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو دیکھ کر وہ گھبرا جائیں گے؟ ان کے سامنے چاہے جتنی مرضی قومیں آ جائیں اُن کے لیے مسئلہ نہیں ہوتا۔
قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں ان سفروں اور مہموں کو جدا جدا بیان فرمایا ہے۔
حضرت ذوالقرنین کے بے شعور قوم کی طرف تیسرے سفر کا احوال کا ذکرقرآن مجید یوں کرتا ہے :
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًاo
الکہف، 18 : 92
(مشرق میں فتوحات مکمل کرنے کے بعد) پھر وہ (ایک اور) راستہ پر چل پڑاo
حضرت ذوالقرنین نے اپنے سفر کو ختم نہیں کیا بلکہ لوگوں کے اصلاحِ احوال کی خاطر انہوں نے اپنے سفر کوجاری رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بالکل اجنبی تھی۔ اس کا ذکر قران مجید نے یوں فرمایا ہے :
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا لا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًاo
الکہف؛ 18 : 93
یہاں تک کہ وہ (ایک مقام پر) دو پہاڑوں کے درمیان جا پہنچا اس نے ان پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی قوم کو آباد پایا جو (کسی کی) بات نہیں سمجھ سکتے تھےo
حضرت ذوالقرنین نے پہلا سفر ظالم قوم کی طرف کیا۔ انہوں نے دوسرا سفر بے بس قوم کی طرف کیا اوران کا تیسرا سفر ایسی قوم کی طرف تھا جسے کسی مسیحا کی تلاش تھی اگرچہ اس بارے میں انہیں کچھ سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ کسی دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ شاید وہ اپنے دور کے علاقے کے بدو ہوں گے مگر ان کے اندر جرأت، قوت اور حمیت تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں ایک مسیحا کی تلاش بھی تھی جو ان کی مدد کر سکے۔ جب حضرت ذوالقرنین وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یاجوج ماجوج قوم نے فساد انگیزی کی انتہا کر دی ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے :
قَالُوْا یٰـذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّاo
الکہف، 18 : 94
انہوں نے کہا : اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لیے اس (شرط) پر کچھ مالِ (خراج) مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنادیںo
حضرت ذوالقرنین کو اس قوم نے بطور مسیحا سمجھنے میں دیر نہیں کی۔ انہیں دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہی وہ نجات دہندہ ہے جو ہمیں اس وحشی قوم سے نجات دلا سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے عرض کی کہ آپ کچھ مال کی شرط پر ہمارے اور یاجوج ماجوج کی قوم کے درمیان دیوار بنا دیں۔
دو قومیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ان کے علاوہ مذکورہ بالا واقعہ میں تیسری قوم کی زبوں حالی بھی دیکھ لی۔ موجودہ حالات میں پاکستان میں بھی یہ تینوں طبقات نظر آتے ہیں۔ ایک مظلوم طبقہ ہے جو ظالم طبقے کے ظلم سے پسا ہوا ہے۔ دوسرا طبقہ ڈھٹائی اور بے حیائی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔ یہ عیش و عشرت میں پڑا ہے۔ اس بے حیا طبقہ کے تن پر کوئی لباس نہیں ہے۔ نہ کلچر ہے، نہ ثقافت ہے، نہ نظام ہے۔ اسے پرواہ ہی نہیں، بس اپنی مستی میں مست ہے۔ تیسرا طبقہ بنیادی ضرورتوں سے محروم کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے لیکن اسے انقلابی نظام کی ضرورت کا احساس ہے۔
یہی صورت حال اولین مسلمانوں کی بھی ہو گزری ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے :
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
الأنفال، 8 : 26
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکوo
یہاں مسلمانوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں کم تھے اور زمین پر سیاسی، معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کا شکار تھے۔ تمہیں مدد و نصرت کرنے والے ایک طبقے کی ضرورت تھی۔ تم ڈرتے تھے کہ کہیں ظالم لٹیرے آ کر تمہیں اچک نہ لے جائیں۔ پھر ہم نے تمہیں مدینہ جیسا محفوظ ٹھکانہ عطا کر دیا اور انصارِ مدینہ جیسے ہم درد بھائی دیے۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ تم پر نچھاور کر دیا تمہیں طاقت ور کر دیا اور تمہارے لئے پاکیزہ رزق کا بندوبست فرما دیا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا کما حقہ شکر بجا لا سکو۔
آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی شکل میں ایک نظام اور ایک ایسے دستور کو متعارف کرایا ہے، جس کے تحت ریاست مدینہ میں مقیم اپنے پرائے سب بلا تفریق مذہب و ملت انسانی حقوق کے مستحق قرار دیے گئے۔ چنانچہ فرمایا گیا :
إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ۔
1۔ أبو عبید القاسم بن سلام، کتاب الأموال : 166، 260، رقم
: 328، 518
2۔ حمید بن زنجویہ، کتاب الأموال، 1 : 331، رقم : 508
3۔ حمید بن زنجویہ، کتاب الأموال، 2 : 466، رقم : 750
4۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، 3 : 32
تمام (دنیا کے دیگر) لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی۔
یعنی یہ اُمت واحدہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ یَهُوْدَ بَنِي عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ، لِلْیَهُوْدِ دِيْنُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِيْنَ دِيْنُهُمْ مَوَالِیهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ، إِلَّا مَنْ ظَلَمَ أَوْ أَثِمَ فإِنَّهٗ لَا یُوْتِغُ إِلاَّ نَفْسَهٗ وَأَهْلَ بَيْتِهٖ۔
1۔ أبو عبید القاسم بن سلام، کتاب الأموال : 263، رقم : 518
2۔ حمید بن زنجویہ، کتاب الأموال، 2 : 469، رقم : 750
3۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، 3 : 34
بنو عوف کے یہودی، اہلِ ایمان کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جاتے ہیں، یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین، موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا گناہ کرے گا تو وہ اپنے نفس اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی کو ہلاک نہیں کرے گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا : خواہ کوئی یہودی ہی کیوں نہ ہو جس نے میرے نظام کے لیے لبیک کہہ دیا اُس کے مال و دولت عزت و آبرو جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری مجھ محمد مصطفی ﷺ پر ہو گی۔ آپ ﷺ نے ہمیں سمجھا دیا کہ اگر ایک ولی اللہ ذوالقرنین تمکن فی الارض کا اہل ہوسکتا ہے تو پھر تاجدارِ کائنات ﷺ کا لایا ہوا نظام ہر دور میں کیوں کر قابل عمل نہیں ہو سکتا! کوئی بھی اہلیت والا آ جائے تو وہ دوبارہ انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ وہ نظام بنی اسرائیل کا تھا اور یہ مکمل ضابطۂ اخلاق محمد مصطفی ﷺ نے دیا ہے، جن کی نبوت قیامت تک جاری رہے گی۔
جب اس قوم نے دیکھ لیا کہ وہ مسیحا جس کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے تھے، آگیا ہے تو کہتے ہیں کہ اے ذوالقرنین! انہوں نے ہم پر بڑا ظلم کر دیا۔ وہ ہماری فصلیں بھی کھا گئے ہیں۔ خدارا آپ ہمارے اور اُن کے درمیان ایک بلند دیوار تعمیر کر دیں تاکہ ان کی دخل اندازی بند ہو سکے ۔ اس کام کے عوض ہم آپ کو خراج دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس مقام پر بے غرض اور لالچ سے بے نیاز قائد کی نشانی بتاتا ہے۔ وہ ذوالقرنین کی اسی بات سے عیاں ہے۔ فرمایا :
قَالَ مَا مَکَّنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًاo اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ط حَتّٰی اِذَا سَاوٰی بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ط حَتّٰی اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا لا قَالَ اٰتُوْنِيْ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًاo فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًاo
الکہف، 18 : 95۔97
(ذوالقرنین نے) کہا : مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے، تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گاo تم مجھے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دو، یہاں تک کہ جب اس نے (وہ لوہے کی دیوار پہاڑوں کی) دونوں چوٹیوں کے درمیان برابر کر دی تو کہنے لگا (اب آگ لگاکر اسے) دھونکو، یہاں تک کہ جب اس نے اس (لوہے) کو (دھونک دھونک کر) آگ بنا ڈالا تو کہنے لگا : میرے پاس لاؤ (اب) میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈالوں گاo پھر ان (یاجوج اور ماجوج) میں نہ اتنی طاقت تھی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اتنی قدرت پا سکے کہ اس میں سوراخ کر دیںo
حضرت ذوالقرنین نے ان سے کہا کہ مجھے میرے رب نے بہت نوازا ہے، مجھے تم سے کوئی لالچ نہیں۔ تم مال و زر کی بجائے اپنے زورِ بازو سے میری مدد کرو ۔ مجھے تمہاری طرف سے حوصلہ مندی، محنت و مشقت اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ چاہیے کیونکہ جو قوم محنت و مشقت سے عاری ہوجائے تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
ایک طرف وہ قوم ہے جو بات سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور دوسری طرف قیادت کو دیکھیں کہ ایک کند ذہن اور کم صلاحیت رکھنے والی قوم سے وہ ایک عظیم دیوار بنوا رہے ہیں۔ قیادت وہ ہوتی ہے جس کے سامنے جو بھی قوم دے دی جائے، اس سے کام لے لیں۔ بشرطیکہ اس کے پاس حیا کا عَلم ہو، وفا کا عَلم ہو، دوستی ہو، ساتھ چلنے اور آگے بڑھنے کا ارادہ ہو۔ پھر انقلاب بھی آ جاتا ہے اور نظام بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس سے سلامتی، آسودگی، معاشی و معاشرتی اور سیاسی استحکام تہذیب و تمدن اور فلاح و بہبود کی ایسی دیوار قائم ہو جاتی ہے جس سے طاغوت ٹکڑا کر ناکام و نا مراد ہو جاتا ہے۔
بظاہر جو لوگ بالکل نا سمجھ ہوں ان سے ایسے اہم کام لینا معمولی بات نہیں ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب قوم میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بلاشبہ قومی سطح پر اس جذبے کا کوئی دوسرا نعم البدل نہیں ہے۔ اگر ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل کے احوال حیات پر نظر دوڑائیں تو اس وقت عرب کے باسیوں کی عمومی زندگی جہالت، درندگی، خود غرضی، لاقانونیت، قتل و غارت گری جیسے بے شمار قبیح رذائل سے بھری ہوئی تھی لیکن ایک اہلیت ایسی تھی کہ جو وعدہ کرتے تھے اس پر پامردی سے ڈٹ جاتے تھے۔ وہ مر جانا تو گوارہ کرتے تھے، مگر اپنے قول سے پیچھے نہ ہٹتے تھے۔ چنانچہ حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو باوفا اور بلند کردار لوگوں کا چناؤ کر کے انہیں اپنی تربیت سے بے مثال بنا دیتا ہے اور یہی سب کچھ حضور نبی اکرم ﷺ نے قلیل عرصے میں کر کے دکھایا۔ وہ قوم جو جہالت اور تعصب اور انتقامی جذبات پر ہی کٹ مر جاتی تھی اب وہ ساری دنیا کی امامت و قیادت کرنے لگی تھی۔ یہی کچھ حضرت ذوالقرنین نے کیا۔ چنانچہ ایسی دیوار تعمیر کر دی گئی جس پر چڑھنے کی یاجوج ماجوج میں قدرت نہ تھی۔
اس قوم میں قیادت، نظام، بصیرت اور منشور کی کمی تھی۔ وہ فہم، شعور اور عقل سے بھی لا بلد تھے۔ اب یہاں ذوالقرنین کی حکمت اور دانائی شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا :
اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ط حَتّٰی اِذَا سَاوٰی بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ط حَتّٰی اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا لا قَالَ اٰتُوْنِيْ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًاo
الکہف، 18 : 96
تم مجھے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دو، یہاں تک کہ جب اس نے (وہ لوہے کی دیوار پہاڑوں کی) دونوں چوٹیوں کے درمیان برابر کر دی تو کہنے لگا (اب آگ لگاکر اسے) دھونکو، یہاں تک کہ جب اس نے اس (لوہے) کو (دھونک دھونک کر) آگ بنا ڈالا تو کہنے لگا : میرے پاس لاؤ (اب) میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈالوں گاo
مفسرین نے بیان کیا کہ وہ لوہے اور تانبے کے ٹکڑوں تک کو نہیں جانتے تھے۔ چنانچہ ذوالقرنین نے لوہے اور تانبے کے ٹکڑوں کے حصول کے لئے پورا نظام وضع کیا ۔ پوری قوم کو اس میں مہارت دی۔ آپ نے خام لوہے کی تیاری کے لئے ایک طبقے کو تیار کیا، پھر اسے باقاعدہ لوہے کی شکل دینے اور بلاک بنانے کے لیے ایک علیحدہ طبقہ تیار کیا۔ جب بلاکس رکھ دیے گئے تو لوہے میں آگ لگانے کے کا مرحلہ آیا اور پھر اس میں تانبے کو تیار کر کے ڈالا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لیڈر کا کام افرادی قوت کو تیار کرکے ان کی تربیت کرنا ہے۔ ان کے لئے نظام وضع کرنا اور ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر کارکن کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ جب سب کچھ تیار ہو جائے، تو پھر اپنی صلاحیتوں پر اترائے نہیں بلکہ عرض کرے یہ سب میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ عجز و انکساری کا پیکر بنے بغیر کام کا نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔
واقعہ ذوالقرنین کا مطالعہ ہمارے لئے بعض رہنما اصول متعین کرتا ہے جو ایک قائد اور رہنما کے لئے اساسی اور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو حق سے بھٹکی ہوئی بدحال قوم کو بے آسرا نہیں چھوڑتا۔ وہ اس زبوں حال قوم کے اصل مرض کی تشخیص کرتا ہے، پھر ایک ہمہ گیر جدوجہد سے اس کا علاج کر کے شفا یابی تک مسلسل رہنمائی کرتا ہے۔
مقہور و مجبور قوم کی زبوں حالی اسے مسلسل بے چین و بے قرار رکھتی ہے۔ وہ لوگوں میں باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ مایوسی و ناکامی کا لفظ اس کی لغت میں نہیں ہوتا۔ وہ اِتمام حجت کے لئے ہر طبقے کو دعوت فکر دیتا ہے اور لوگوں کو ان کے اعمال کے حوالے سے بروقت اچھے یا بُرے انجام سے آگاہ کرتا ہے۔ اپنی جد و جہد میں اس کی نظر اللہ تبارک و تعالیٰ کے کرم پر ہوتی ہے وہ دنیوی مال و متاع کا حریص ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت لاچار اور مجبور قوم کے لئے ایک مسیحا کی سی ہوتی ہے۔ وہ انہیں اپنے جرأت کردار سے امید لے کر روشن افق کی خبر دیتا ہے اور عزت و وقار کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے ہنر سکھاتا ہے۔
وہ ایسے نظام عمل سے متعارف کرواتا ہے کہ جس پر چلتے ہوئے منزل تک پہنچنا ان کے لئے ناممکن نہیں رہتا۔ ایسا قائد اپنے کارکنوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ ان کے احوال کو بدلنے میں شب و روز کوشاں رہتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت، کردار اور فکر سے اُن کی تربیت کرتا ہے اور اس کی تربیت ہر پہلو میں فیض رسانی کا باعث ہوتی ہے۔ حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کو ہزاروں لیڈر دے جاتا ہے۔ اس کا ہر متحرک ساتھی اپنے قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔ ان کے قلوب و اذہان پر اپنے قائد کی صفات، توجہات اور قائدانہ صلاحیتوں کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو زمین میں اقتدار اور تمکن بخشا تھا۔ تمام وسائل و اسباب سے نوازا تھا جن کو انہوں نے لوگوں کی بہتری، اصلاح اور سلامتی کے لئے بے غرض استعمال کیا۔ انہوں نے ظالموں کی سرکوبی، بے بس محکوموں کی داد رسی اور بے شعور لوگوں کو فہم و بصیرت سے ہم کنار کرنے کے لئے پے در پے سفر کئے۔ یاجوج ماجوج کے فتنے سے محفوظ کرنے کے لئے بصیرت سے بے بہرہ قوم کو لوہا اور تانبا دریافت کرنے اور پھر اسے پگھلانے جیسے پیچیدہ طریقہ کار کی حکمت عملیسے روشناس کرایا۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ لیڈر ایسا نہیں ہوتا جو حکم کے دے کر گھر بیٹھ جائے، بلکہ ضروری ہے کہ انہیں اپنے ساتھ ملا کر انقلابی راہ پر چلنا سکھائے۔ باقاعدہ نظام وضع کر کے اسے چلانے کے لیے ماہرین تیار کرے اور جب انقلاب کے لئے عوامی تیاری کر کے ساتھ میدان کار زار میں اترے تو اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھے اور عجز و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے۔
چنانچہ جب حضرت ذوالقرنین نے لوہے اور تانبے کو پگھلا کر یہ دیوار تعمیر کر دی تو فرمایا :
رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ۔
الکہف، 18 : 98
یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ولی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ قوم کو امن و آشتی سے ہم کنار کرتا ہے۔ انہیں ایک نظام میں پرو کر ایسی مضبوط دیوار کی مانند بنا دیتا ہے جسے قیامت تک قائم رہنا ہے۔ اپنی اس جد و جہد کے نتیجے میں حاصل کی گئی کامیابی کو وہ اللہ رب العزت سے منسوب کرتا ہے جیسے حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ دیوار کی تعمیر میرے رب کی جانب سے ایک رحمت ہے۔
اِس دور میں تحریک منہاج القرآن قوم کا مقدر بدلنے کے لئے انہیں خطوط پر طاغوت سے برسر پیکار ہے جس کا سبق واقعہ ذوالقرنین ہمیں دیتا ہے۔ یہ اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ان تھک جذبوں کی امین بن کر ان کی سرکردگی میں انقلاب کی راہ پر گامزن ہے۔ ہر دور کے خضر بھی ہوتے ہیں اور ذوالقرنین بھی۔ یہ دونوں رنگ تحریکِ منہاج القرآن کو قائدِ انقلاب کی شکل میں حاصل ہیں۔ ان میں وہ تمام قائدانہ صلاحتیں بدرجۂ اَتم موجود ہیں جو ایک قوم کو انقلاب سے روشناس کرانے کے لیے ایک انقلابی رہنما میں موجود ہوتی ہیں۔ اسی ضمن میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال انقلابی رہنما کے اوصاف کچھ یوں بیان فرماتے ہیں :
نگہ بلند، سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
دیکھا جائے تو اقبال کے بتائے ہوئے تینوں قائدانہ اوصاف قائدِ انقلاب میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہمیں شیخ الاسلام کی ذات میں ایسی شخصیت سے نوازا ہے، جنہیں اللہ رب العزت نے اوصافِ خضر بھی عطا کیے ہیں اور حضرت ذوالقرنین کی خوبیوں سے بھی نوازا ہے۔ اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ قوم میں شعور بیدار کیا جائے اور انہیں کاروانِ انقلاب کا شریک بنا کر اس مملکتِ خدادا پاکستان میں مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع کیا جائے۔ اگر قوم آج بھی ظالمانہ طاغوتی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو باطل خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا اور ہر طرف حق کے جھنڈے لہرا رہے ہوں گے۔ ان شاء اللہ ! ملک کا نظام بدلے گا اور یاجوج ماجوج کا یہ طاغوت سدِ سکندری میں پابند ہو کر رہے گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved