وحدت کیا ہے اور اجتماعیت کیا ہے؟ ان دونوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟ ان کے پیچھے کیا حکمت اور فلسفہ کار فرما ہے؟ ہماری تحریکی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ اس باب کا محور و مرکز انہی سوالات اور ان کے تسلی بخش جوابات پر ہے۔
ہر اجتماعیت کی ابتدا جس طرح وحدت سے ہوتی ہے۔ عین اسی طرح ہر اجتماعیت کی انتہا بھی وحدت پر ہی ہوتی ہے۔ وحدت میں اسرار و رموز کو نہاں رکھا جاتا ہے اور اجتماعیت میں اُس راز کو عیاں کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے اہل اللہ کہتے ہیں کہ وحدت خواص کے لیے ہوتی ہے اور اجتماعیت عامۃ الناس کے لیے ہوتی ہے۔ جس کی وحدت حق پر پہنچ گئی تو اس کی اجتماعیت وحدت کی وجہ سے خود ہی سنور جاتی ہے۔ کائناتِ ارضی و سماوی کی ابتدا بھی وحدت سے ہوئی اور یہ منتج بھی وحدت پر ہونے والی ہے۔ اسی طرح انسانی تخلیق کی ابتدا بھی وحدت سے ہوئی، پھر یہ وحدت بڑھتے بڑھتے اجتماعیت کی صورت اختیار کر گئی۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِيْرًا وَّنِسَآء۔
() النساء، 4 : 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔
یہ فرمانِ الٰہی بھی اس امر کی وضاحت کر رہا ہے کہ انسان کی تخلیق بھی نفسِ واحدہ یعنی وحدت سے ہوئی ہے۔ پھر یہ وحدت کثرت میں تبدیل ہوتی گئی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اجتماعیت کا روپ اختیار کر گئی۔ غور کیا جائے تو وہ اپنے اندر پوری کائنات رکھتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
سَنُرِيْهِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ۔
فصلت، 41 : 53
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے۔
اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جو مظاہر تمہیں آفاق میں دکھائی دیتے ہیں وہ خود تمہارے اندر بھی موجود ہیں۔ جب انسان باہر کے عالم کو اپنے اندر کی دنیا کے تابع کرتا ہے تو وہ خودبخود اللہ اور اس کے محبوب کے تابع ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنے قلب کی دنیا کو باہر کی دنیا کے تابع کردے تو پھر وہ اَحْسَنِ تَقْوِيْم کی بلندیوں سے گر کر اَسْفَلَ سَافِلِيْن کی پستیوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔
جہاں تک انسان کی خلقت کا تعلق ہے اس کی ابتداء بھی ایک single cell یعنی ایک وحدت سے ہوئی ہے اور اس کی انتہا بھی وحدت پر ہی ہونے والی ہے۔ عربی کا معروف محاورہ ہے :
کُلُّ شَيْئٍ یَرْجِعُ إِلٰی أَصْلِهٖ۔
ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔
چنانچہ ہر شے ابتدا میں اپنے سفر کا آغاز وحدت سے کرتی ہے تو وہ درجہ بہ درجہ اجتماعیت کے سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ جب یہ اجتماعیت کے رنگ و بو اور انواع و اقسام میں پرورش پا کر اپنے منتہائے کمال پر پہنچتی ہے تو پھر وہاں سے وحدت شروع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی ابتدا، جس وحدت سے ہوئی ہے اس کی انتہا بھی اسی وحدت سے منسلک ہے۔
فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور تخلقِ کائنات کے حوالے سے اگر قرآن حکیم کا مطالعہ کریں تو بہت سے عقدے عیاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اللہ رب العزت نے ام الکتاب میں ارشاد فرمایا ہے :
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا۔
الأنبیاء، 21 : 30
کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔
مذکورہ بالا آیتِ قرآنی اس حقیقت کو واضح کر رہی ہے کہ اللہ رب العزت نے سماوی و ارضی کائنات کو ایک اکائی میں پیدا فرمایا۔ یعنی زمینی اور آسمانی کائنات دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور جڑی ہوئی تھیں، پھر جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں پھاڑ کر جدا جدا کر دیا، جسے سائنس دان big bang theory کا نام دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی شے کو وحدت سے اجتماعیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ صرف کُن کا حکم فرماتا ہے تو وہ خودبخود فیکون یعنی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ big bang theory کے خالق سائنس دان جسے دھماکے کا نام دیتے ہیں، وہ دراصل رب کائنات کا حکم کُن (ہو جا) تھا، فَیَکُوْن (سو ہو گیا)۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشادِ مبارکہ ہے :
اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُo
یٰسین، 36 : 82
اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)o
سورۃ الانبیاء کی زیر بحث آیت اس حقیقت کو طشت از بام کر رہی ہے کہ ابتدا میں اکائی باہم پیوست اور متحد تھی اور اس پر رَتْق کا فیض جاری تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، کوئی میرا بھی مظہر ہو تو اس نے اجتماعیت کو وجود بخشا۔ اللہ رب العزت ہی وحدت سے اجتماعیت کو جنم دیتا ہے اور اجتماعیت کو پھر وحدت پر منتج کرتا ہے۔ جب وحدت اپنے مقام پر پہنچتی ہے تو پھر وحدت کو بھی ایک وحدت عطا فرماتا ہے۔ وہ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْکَ لَهٗ کے علم میں ہوتی ہے۔
تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ سائنس دانوں نے تخلیق کائنات کے بارے میں مختلف زمانوں میں اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ اس حوالے سے معروف سائنس دان نیوٹن نے کہا تھا کہ یہ کائنات جامد اور غیر متغیر ہے۔ 1915ء میں البرٹ آئین سٹائین نے نیوٹن کے اس فلسفے کو ردّ کر دیا۔ اسے کائنات کے اندر کچھ مادے اور توانائیاں نظر آئیں اور ان کے درمیان ایک باہمی نسبت بھی واضح ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قوت کے شواہد دکھائی دیے جو انہیں باہم جوڑے ہوئے ہیں۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ قرآن کا مطالعہ نہ ہونے کے سبب وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ انہیں جوڑنے والا وہی تو ہے جس نے اسے بنایا تھا۔
1929ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس مفروضے کو مزید فروغ بخشا۔ اس نے کہا کہ یہ کائنات جامد اور غیر متغیر نہیں ہے بلکہ یہ حرکت پذیر اور مسلسل وسعت پذیر ہے۔ یہاں اس نے پھر اجتماعیت کی بات کر دی اور بگ بینگ نظریے کا تصور دیا، مگر ابھی یہ نظریہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ بعد ازاں آنے والے سائنس دانوں نے اس نظریے پر مزید کام کیا جن میں Arno Penzias اور Robert Wilson جیسے امریکی سائنس دان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے1965ء میں ایک cosmic background radiation دریافت کی۔ اس سے وہ حتمی طور پر اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ کائنات کی ابتدا ایک اکائی سے ہوئی ہے۔
جیسے پہلے تحریر کیا جا چکا ہے کہ ہر اجتماعیت کی ابتدا وحدت سے ہوتی ہے اور اجتماعیت کی انتہا بھی وحدت ہی ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ انسان کی ابتدا بھی وحدت سے ہوئی ہے، انتہا بھی وحدت ہی ہے اور درمیان کا مرحلہ اجتماعیت میں گزرتا ہے۔ وحدت میں جو سِر ہوتا ہے اور وہ سر خواص کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے وحدت کو سمجھانے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی اجتماعیت بھیجی پھر ان سب کو سمجھانے کے لیے وحدتِ مصطفی ﷺ عطا فرما دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جنہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار مقدس نفوس سے سمجھ نہیں آئی وہ وحدتِ درِ مصطفی ﷺ پر سر تسلیم خم کر دیں تو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔
سائنس دانوں نے اس اکائی کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر تو بڑی کشش، کرنیں اور توانائیاں ہیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے جن پر حقیقت کا راز کھول دیا وہ اکائی کی حقیقت کو جان گئے، جن پر راز نہیں کھولا ان کے لئے اجتماعیت رکھ دی۔ درج ذیل حدیثِ قدسی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے :
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأَعْرَفَ۔
1۔ آلوسی، روح المعانی، 17 : 121
2۔ إسماعیل حقی، روح البیان، 1 : 113
میں ایک مخفی خزانہ تھا چاہا کہ پہچانا جاؤں پس میں نے خلق کو پیدا فرمایا۔
یہاں کُنتْ کنزا مَخْفِیًّا کا بیان دراصل بیانِ وحدت ہے۔ پھر عالمِ خلق کو پیدا فرما کر اسی شان کا ظہور اجتماعیت کی شکل میں عیاں فرما دیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ہر چیز کی ایک جداگانہ شناخت اور اپنا ایک وجود ہوتا ہے۔ اس کی کچھ خوبیاں اور کچھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان چیزوں کی شناخت کو ختم نہیں کیا بلکہ وحدت میں چھپا کر رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کا آزادانہ وجود تھا، مگر وہ سب ایک اکائی میں ضم تھے۔ اس اکائی نے چاہا کہ اسے پھیلا دیا جائے۔ وہ آزادانہ وجود خود اکائی سے باہر جاکر وسعت اختیار نہیں کر سکتا تھا، وہ مکمل طور پر اس وحدت کے تابع تھا۔ جب وحدت نے اپنی شان ربوبیت کا اظہار کرنا چاہا تو ان کو تربیت میں رکھ کر اجتماعیت کا فیض عطا فرما دیا۔ اب بات وہاں تک ختم نہیں کی بلکہ تخلیقِ کائنات کو وسعت دیتا چلا گیا۔ جیسے فرمایا گیا :
اَللهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ۔
الطلاق، 65 : 12
اللہ (ہی) ہے جس نے سات آسمان پیدا فرمائے اور زمین (کی تشکیل) میں بھی انہی کی مِثل (تہ بہ تہ سات طبقات بنائے)۔
اس کی ربوبیت کے مظاہر قرآن حکیم میں جگہ جگہ بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً فرمایا :
یَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ۔
فاطر، 35 : 1
اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔
دوسرے مقام پر سواریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo
النحل، 16 : 8
وہ (مزید ایسی با زینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتےo
پھر کوہ ساروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
وَجَعَلَ فِيْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰـرَکَ فِيْھَا وَقَدَّرَ فِيْھَآ اَقْوَاتَھَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّام۔
فصلت، 41 : 10
اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی اور اس میں (جملہ مخلوق کے لیے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا۔
یہ تخلیقِ کائنات کے حوالے سے چند مثالیں بیان کی گئی ہیں، وگرنہ یہ وسیع و عریض کائنات اس کی قدرتوں کے عظیم مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ ان مظاہر کو حیطۂ تحریر میں لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۔
النحل، 16 : 18
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے۔
یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اس اجتماعیت کو قائم کرنے کے لیے تو ایک یکسانیت مقصود تھی جو اس وحدتِ کبریٰ میں فنا ہو۔ اس یکسانیت کو آپ وحدت صغریٰ کہہ سکتے ہیں۔ یہ وحدتِ صغریٰ اس اجتماعیت کو قابو کرتی ہے چنانچہ اس اجتماعیت کے سارے کارکن اپنی اپنی ذات میں وحدت بھی رکھتے ہیں، مگر پھر مجتمع ہو کر اس وحدتِ کبریٰ میں ضم بھی ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نگاۂ دوربیں اس کائنات کی تخلیق کے ارتقا اور اس کی expansion پر پڑی تو بے اختیار پکار اٹھے :
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُنْ فَیَکُوْن
وہ اس راز کو پا گئے کہ یہ ساری کُنْ فَیَکُوْن کی کار فرمائی ہے۔ یہاں تک ہم نے اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کائنات کی ابتدا وحدت سے ہوئی، پھر ہم نے اجتماعیت کی شان بھی ملاحظہ کرلی۔ جب یہ اجتماعیت اپنے منتہائے کمال کو پہنچے گی تو پھر وحدت میں گم ہوجائے گی۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
کَمَا بَدَاْنَـآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ۔
الأنبیاء، 21 : 104
جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔
یعنی جیسے ہم نے اُسے پہلے تخلیق کیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد پھر ہم تخلیق کے اور اس مرحلے کو دوبارہ شروع کریں گے۔
اس دن سماوی کائنات کو ایسے لپیٹ دیا جائے گا جیسے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ سب کچھ ختم ہو کر دست قدرت میں لپیٹا ہوا کاغذ ہو جائے گا۔ پھر فرمایا جس طرح کائنات کو وحدت سے پہلی بار پیدا کیا تھا، اسی طرح کائنات کے ختم ہو جانے کے بعد اسے پھر دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔
فلسفہ وحدت و اجتماعیت انسانی زندگی کی بنیادی حقیقت ہے۔ ایک زاویہ سے دیکھیں تو انسان جب وحدت میں ہوتا ہے تو متمکن ہونے کے لئے جس جگہ پر وہ قیام پذیر ہوتا ہے یا جس معاشرے کا وہ حصہ بنتا ہے یا جہاں وہ اپنا مقام بناتا ہے تو یہ سب کچھ پہلے دن ہی سے نہیں بن جاتا۔ وہ مقام جو اس کے ذہن میں ہوتا ہے وہ فوراً اسے نہیں مل جاتا بلکہ وہ اسے بتدریج جد و جہد سے حاصل کرتا ہے یعنی یہ سب معاملات درجہ بہ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ پہلے ہی دن اسے بلند مناصب پر فائز نہیں کر دیا جاتا۔
تحریکی زندگی کی طرف نظر دوڑائیں تو کوئی بھی پہلے دن ہی رہنما نہیں بن جاتا۔ اسی طرح تحریک بھی بذاتِ خود مختلف مراحل طے کرتی ہے۔ اسے بھی فکری، نظریاتی اور اعتقادی بلوغت کے مختلف مراحل بتدریج طے کرنا پڑتے ہیں۔ کارکن کے طور پر وہ تنظیم کے مشن کی گھر گھر دعوت دیتا ہے۔وہ لوگوں کو تنظیمی اجتماع میں شمولیت کے لئے بھرپور تگ و دو کرتا ہے اور مقررین کو اسٹیج پر بٹھاتا ہے۔ تنظیم اور اس کے مشن سے اس کی وابستگی پر اس کی استقامت آخر کار اسے ایک دن سٹیج پر مسندِ خطابت کے لئے بٹھا دیتی ہے اور درجہ بہ درجہ مختلف عہدوں سے ہوتا ہوا تنظیم کا سربراہ منتخب ہو جاتا ہے۔ یہ مقام اسے اللہ تعالیٰ ایسے ہی عطا نہیں فرماتا، بلکہ اس میں اس کی شبانہ روز استقامت اور اخلاص کے ساتھ مسلسل جد و جہد شامل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے نام ور رہنما ابتدا میں ایک ادنیٰ سے کارکن تھے پھر بتدریج جد و جہد کے نتیجے میں وہ ملک کے سربراہ کے منصب تک جا پہنچے۔ اسی طرح انسان کی اپنی تخلیق بھی مختلف مراحل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ ماں کے شکم میں تو ایسا انسان نہیں تھا جو اب نظر آتا ہے۔ بلکہ اس سے قبل وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ جیسا کہ سورہ الدھر میں خود قرآن حکیم فرماتا ہے :
لَمْ یَکُنْ شَيْئًا مَّذْکُوْرًاo
الدھر، 76 : 2
وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھاo
قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر تخلیق انسانی کے حوالے سے وحدت سے جماعت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِيْرًا وَّنِسَآء۔
النساء، 4 : 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدا) ایک جان سے کی۔ پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔
یہاں نفسِ واحد سے مراد zygote ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو zygote سے پیدا کیا یعنی اُس cell اور اُس egg سے پیدا کیا، جسے fertilized ovum بھی کہتے ہیں۔ پھر اس میں سے جوڑے پیدا کیے۔ اس طرح سے نر واحد کی تعداد دو میں تقسیم ہوگئی۔ پھر ان دو cells کو مزید تقسیم کرتا چلا گیا۔ پھر اس میں سے کثرت کے ساتھ مردوں اور عورتوں کو پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب آگے mitotic division کا process شروع ہوا۔ انسان کو ایک جان یعنی singular cell سے پیدا کیا، پھر اسے اجتماعیت میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ ایک cell تھا تو وہ وحدت کے جمال میں تھا مگر اس کو کوئی جانتا نہ تھا۔ پھر اسے mitotic division میں تقسیم کر دیا۔ اس میں پھر prophase، metaphase، anaphase، telophase اور interphase ہیں۔ یہ سارے فیز اپنا الگ الگ عنوان بھی رکھتے ہیں اور وجود بھی۔ یہ اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں اور اپنی specification بھی، مگر اُن سب کو اس نفسِ واحد میں جمع کر کے رکھا تھا، تب انہیں تقسیم کر دیا۔ پہلے معلوم نہیں تھا کہ اس میں نر cell کون سا اور مادہ cell کون سا ہے۔ جب اجتماعیت عطا ہوئی تو پھر سمجھ آنے لگی کہ کون کیا ہے ؟ اب نظام ربوبیت کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے اسے قرآن حکیم میں یوں منکشف فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَةٍ مِّنْ طِيْنٍo
المومنون، 23 : 12
اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا) کے خلاصہ سے فرمائیo
اللہ رب العزت نے انسان کو مٹی کے جوہر کے کیمیائی مادے سے تخلیق کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّکِيْنٍo
المومنون، 23 : 13
پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحم مادر) میں رکھاo
اس کے اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا :
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰـرَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَo
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشوونما دی، پھر (اس) اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےo
اب اس مخلوق کو دیکھیں، نہ تو وہ نُطْفَۃ نظر آتا ہے اور نہ عَلَقَۃ، نہ مُضْغَۃ نظر آتا ہے اور نہ ہی عِظٰم نظر آتا ہے اور نہ ہی لَحْم نظر آتا ہے۔ اللہ رب العزت جیسے جیسے مرحلے بدلتا ہے، ویسے ویسے عنوان بھی بدلتے چلے جاتے ہیں۔ جب مراحل بدلتے ہیں تو اس کے ساتھ صفات بھی بدلتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت جب وحدت سے اجتماعیت کا فیض عطا فرماتا ہے تو پھر وحدت کی جگہ اجتماعیت کو ظہور میں لاتا ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اللہ رب العزت اپنی شانِ ربوبیت کا اظہار اجتماعیت کی شکل میں کس طرح درجہ بدرجہ ظاہر فرما رہا ہے۔
اب ایک اور زاویے سے دیکھیں کہ انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل مثلاً نُطْفَۃ، عَلَقَۃ، مُضْغَۃ، عِظٰم اور لَحْم سب مختلف عنوانات کے تحت جمع ہو کر بھی وحدت میں تھے کیونکہ یہ سب ایک ہی انسان کے لئے مرحلہ وار تشکیل پا رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ رحمِ مادر کے اندر بھی وہ وحدت میں تھا کیونکہ وہ ایک انسان تھا۔ مگر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ انسان تو کئی قابلِ ذکر شے ہی نہیں تھا جیسا کہ سورۃ الدہر کی پہلی آیت میں بیان ہوا ہے۔ نُطْفَۃ کی حقیر بوند سے اس کا آغاز ہوا، نُطْفَۃ ایک واضح شے تھی اس میں کوئی ابہام نہیں۔ لیکن اسے نکرہ سے معرفہ یعنی النُّطْفَۃ بنا کر شک سے بالا تر کر دیا۔ پھر اللہ رب العزت نے اسے عَلَقَۃ کی کیفیت میں داخل کر دیا یعنی رحم مادر میں جونک کی صورت میں معلق وجود بنا دیا۔ اسے ابھی کوئی شکل اور صورت نہیں ملی تھی۔ وہ ثبات و استقرار سے محروم تھا، اس کے تمام خصائص و اوصاف ابھی واضح نہیں ہوئے تھے۔ قرآنِ حکیم میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً.
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا۔
جب اسے تمکن اور ثبات مل گیا اور اُسے معلق وجود (hanging mass) کی پوری کیفیت نصیب ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے معرفہ بناتے ہوئے ال کے اضافہ کے ساتھ الْعَلَقَۃ قرار دے دیا۔ ارشاد فرمایا :
فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً.
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔
جو شے تکمیل کے ابتدائی مراحل میں ہو اسے اللہ رب العزت معرفہ نہیں کہتا، بلکہ وہ نکرہ ہوتی ہے۔ جب تک وہ ارتقائی مراحل سے گزر کر حالتِ تامہ تک نہ پہنچے جس پر اسے نام دیا جاسکے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اسے نکرہ رکھتا ہے۔ چنانچہ جب نطفہ کو معرّف کیا تو اسے النُّطْفَۃ کہا اور اسی طرح عَلَقَۃ کو جب معرف کیا تو الْعَلَقَۃ کہا۔ اسی طرح جب تک مُضْغَۃ کو کوئی شکل نہ ملی اسے نکرہ کے تحت رکھا اور جب اُسے شکل مل گئی تو فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ کہا یعنی ال لگا کر معرف کر دیا۔ چنانچہ فرمایا :
فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا.
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔
ابھی تک ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا تھا اس لیے اسے نکرہ میں رکھا۔ جب ارتقائی منازل طے کر کے مکمل شکل اختیار کر لیتا ہے تو فرمایا :
فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًا.
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔
ابھی لَحْم مکمل نہیں ہوا، اسے پھر مراحل سے گزارا۔ اس مقام پر فرمایا :
ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰـرَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَo
المومنون، 23 : 14
پھر (اس) اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےo
لَحْم جب مکمل ہو گیا تو وہ انسان کی مکمل شکل اختیار کر گیا۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس سنت کااظہار ملتا ہے کہ جب تک انسان کے اندر جمیع اوصاف و کمالات، خوبیاں اور خصلتیں بتمام و کمال جمع نہ ہو جائیں تب تک اسے نام نہیں دیتا۔ جب تک نُطْفَۃ تھا وہ وحدت میں رہا، کسی نظام کا حصہ نہ بنا۔ جب اس میں اجتماعیت کی تمام خوبیاں شامل ہو گئیں تو پھر اسے اس کی حیثیت کے مطابق نام دے دیا گیا۔
یاد رہے کہ وحدت اپنی ذات میں اجتماعیت رکھتی ہے۔ جب وہ وحدت یقین کے ساتھ سارے مراحل گزار لے تب اس پر لقب (title) کا اعلان کیا جاتا ہے۔
یوں رب العزت نے اس مخلوق کے اندر بھی ایک وحدت کو چھپائے رکھا۔ جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت تنہا ہوتا ہے، کیونکہ رحمِ مادر میں اسے پالنے والا، خوراک دینے والا اور اسے زندہ رکھنے والا واحد تھا۔ یعنی وہ خداے وَحْدَهٗ لَا شَرِيْکَ لَهٗ کے کنٹرول میں تھا۔ ہر بچہ جب وحدت سے اجتماعیتِ دنیا میں آتا ہے تو اپنے رب سے جدائی کے باعث روتا ہوا آتا ہے۔ اس کا یہ رونا اس لیے ہوتا ہے کہ وہاں وہ براهِ راست وحدت کے جام پیتا تھا اور ملاء اعلیٰ کے نظارے کرتا تھا۔ وہ پھر اس لیے ہنستا ہے کہ اس کا ایک تعلق ابھی بھی قائم ہے، جب کبھی ملاء اعلیٰ کے نظارے دیکھتا ہے تو کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔ اب اس دنیا کاباشندہ ہو گیا ہے تو اس کی وحدت کو اجتماعیت میں بدل دیا گیا ہے۔ اب وہ بچہ ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب اس بچے کی بقا اسی اجتماعیت میں ہے۔ اب ماں اسے پالتی ہے۔ جب بندہ محتاج ہو جائے سمجھ لیں وہ اجتماعیت میں آیا ہے۔ کیونکہ اگر وحدت زندہ ہوتی، اس کا توکل اپنے رب پر ہوتا تو وہ کسی دوسرے کا محتاج نہ ہوتا۔ اب توکل اجتماعیت کا ہے تو محتاج بنا پھرتا ہے۔ جب وہ بچہ بڑھتا ہے تو اسے استاد چاہیے جو اسے تعلیم دے، پھر اسے معالج چاہیے تاکہ بیمار ہو تو اس کا علاج کرے۔ اسے ایک معاشرہ چاہیے جہاں وہ اپنی بود و باش کا بندوبست کر سکے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکے۔ جب وہ عالمِ شباب کو پہنچتا ہے تواس کی اولاد ہوتی ہے جن سے محبت کر کے وہ اپنی وحشت کو دور کرتا ہے۔ اللہ رب العزت اس طرح اسے اجتماعیت میں رکھتا ہے۔ اس انسان پر صد افسوس ہے جو مال و متاع کو جمع کرنے کی حرص نے اسے آخرت سے غافل کر دیا ہے اور وہ بھول گیا ہے کہ ایک دن اسے موت کا ذائقہ چکھ کر قبر میں بھی جانا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
اَلْهٰـکُمُ التَّکَاثُرُo حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَo
التکاثر، 102 : 1-2
تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیاo یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچےo
وہ بچہ جب عرصۂ وحدت میں تھا تو اس کا کامل توکل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر تھا۔ اس کے برعکس جب اجتماعیت میں آیا تو وہ سب کا محتاج ہو گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ اپنے جنازے کو قبر تک پہنچانے کے لیے بھی اسی معاشرے کا محتاج ہے۔ اگر وہ اجتماع میں نہ رہے تو کوئی اس کا جنازہ بھی اٹھانے والا نہ ہو۔ بعد ازاں جب وہ قبر میں جاتا ہے تو پھر واحد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں وحدہ لا شریک لہ کے ساتھ استوار کیا ہوا رشتہ ہی اس کے کام آتا ہے۔
انسان کوجب قبر کی تنہائی سے اٹھایا جائے گا تو پھر وہ واحد نہیں رہے گا۔ روز محشر اسے پھر اجتماعیت میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ رب العزت نے جب اَعضاے انسانی کو پیدا فرمایا تو پورے جسم کے اہم اعضاء کو زوج میں پیدا فرمایا۔ خالقِ جن و انس نے دو آنکھیں بنائیں، دماغ کے بھی دو hemisphere بنائے، دو ہاتھ بنائے، دو پاؤں بنائے، دو ٹانگیں بنائیں، دو گردے بنائے اور دو ہی پھپھڑے بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ جوڑوں میں پیدا فرمایا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر شے کو اجتماعیت میں پیدا کیا مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس اجتماعیت کے اندر دل ایک ہی رکھا۔ اجتماعیت کا مفاد یہ ہے کہ اگر اس میں سے ایک عضو تلف بھی ہو جائے تو اجتماعیت باقی رہتی ہے مگر قلب ایک ہی رکھا کیونکہ اس کی حیثیت مرکزی ہے۔ انسانی جسم میں قلب کی مرکزی حیثیت کو درج ذیل حدیث مبارک میں بڑی خوب صورتی سے بیان فرمایا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
أَلاَ! وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهٗ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّهٗ، أَلاَ! وَهِيَ الْقَلْبُ۔
مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحلال وترک الشبہات، 3 : 1219، رقم : 1599
آگاہ ہو جاؤ! بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ ہو جاؤ! وہ دل ہے۔
دل چونکہ حق تعالیٰ کی خلوت گاہ ہے اس لئے اس کی نظر ہمیشہ بندے کے قلب کی طرف رہتی ہے کہ مولیٰ کے تعلق میں کس قدر اخلاص کا حامل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ g روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ اللهَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی أَجْسَادِکُمْ، وَلَا إِلٰی صُوَرِکُمْ، وَلٰـکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ۔
(1) مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم
المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ وعرضہ ومالہ، 4 : 1986، رقم : 2564
2۔ بیھقي، شعب الإیمان، 7 : 508، رقم : 11151
بے شک اللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہاری صورتوں کو، بلکہ وہ تمہارے دلوں (اور اِن میں موجود نیتوں) کو دیکھتا ہے۔
ایک اور روایت میں ارشاد ہوتا ہے :
إِنَّ اللهَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰـکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم
المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ وعرضہ ومالہ، 4 : 1987، رقم : 2564
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 284، 539، رقم : 7814، 10973
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب القناعۃ، 2 : 1388، رقم : 4143
4۔ ابن حبان، الصحیح، 2 : 119، رقم : 394
5۔ ابن المبارک، الزھد : 540، رقم : 1544
6۔ بیھقي، شعب الإیمان، 7 : 328، رقم : 10477
7۔ دیلمي، مسند الفردوس، 1 : 166، رقم : 614
بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے اَموال کو نہیں بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اَعمال کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دل کو اپنے لیے رکھا ہے اور بقیہ جسم کو اجتماع کے لیے رکھا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے جسم کو حقوق العباد کے لیے رکھا ہے اور قلب یعنی دل کو حقوق اللہ کے لیے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے میرا حق جسم سے نہیں دل سے چاہیے یہی وجہ ہے کہ جسم کی خطا قابل معافی ہے مگر قلب کی خطا قبول نہیں، کیونکہ قلب کو وحدہ لا شریک سے منسلک کر کے واحد رکھا تھا۔
انسان جب اپنا دل دنیا میں لگا کر اپنے مالک کو بھول جاتا ہے تو مرنے کے بعد اسے کہا جاتا ہے : اے مرنے والے! تو میرے دل کو دنیا کے لیے چھوڑ آیا اور جسم کو قبر میں میرے لیے لے آیا! تیرے جسم سے مجھے کوئی غرض نہیں مجھے تو تیرا دل چاہیے تھا یعنی اس دل کی خالصیت ورع، صدق اور محبت چاہیے تھی۔
دل کی مثال اس برتن کی سی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو ارض و سما میں نہیں سماتا وہ مومن کے دل کے برتن میں سما جاتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنّ ِللهِ تَعَالٰی فِي الْأَرْضِ أَوَانِيَ، أَلاَ وَهِيَ الْقُلُوْبُ، فَأَحَبُّهَا إِلَی اللهِ أَرَقُّهَا وَأَصْفَاهَا وَأَصْلَبُهَا۔
حکیم ترمذی، نوادر الأصول، 4 : 100
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے کچھ برتن ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! وہ (اللہ کے عبادت گزار بندوں کے) دل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ قلوب وہ ہیں جو بہت نرم، بہت صاف اور بہت مضبوط و مستحکم ہوں۔
عتبہ خولانی سے مروی مرفوع روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ ِللهِ آنِیَةً مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَآنِیَةُ رَبِّکُمْ قُلُوْبُ عِبَادِهِ الصَّالِحِيْنَ، وَأَحَبُّهَا إِلَيْهِ أَلْیَنُهَا وَأَرَقُّهَا۔
طبرانی، مسند الشامیین، 2 : 19، رقم : 840
بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے کچھ برتن ہیں۔ اور تمہارے رب کے برتن اس کے صالح وعبادت گزار بندوں کے دل ہوتے ہیں؛ اور ان میں سے بھی اُسے زیادہ محبوب وہ قلوب ہوتے ہیں جو بہت نرم اور بہت صاف و شفاف ہوں۔
انسان اپنے برتنوں کو اُجلا اور صاف رکھتا ہے لیکن دل جو اللہ کا برتن ہے اس کے اجلا اور صاف ہونے سے الا ما شاء اللہ کوئی غرض نہیں رکھتا۔ جن کے دل صحیح معنوں میں اجلے، نکھرے اور صاف ستھرے تھے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ l تھے، جن کی تعریف خود قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا۔
الفتح، 48 : 29
(وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔
صحابہ کرام l کی حق پر استقامت کا ذکر ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ۔
حم السجدہ، 41 : 30
بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں۔
ان پر ملائکہ اس لیے اترتے ہیں کہ ان کے دل خدا کے برتن ہوتے ہیں۔ جو طہارت، اخلاص اور زہد و ورع کا پیکر ہوتے ہیں۔ اللہ اپنے ملائکہ کو بھیجتا ہے کہ میرے ان بندوں کو خوش خبری سناؤ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو چکی ہے، لهٰذا اب تمہارے نزدیک نہ کوئی غم آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی خوف۔ تمہارا ابدی ٹھکانا جنت ہے۔ ہم اس دنیا میں تمہارے دوست و مددگار ہیں اور آخرت میں بھی تمہیں ہماری ہر نعمت میسر ہوگی۔
اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اصل نکتۂ وحدت کیا تھا جس کے سبب پوری کائنات کو تخلیق فرمایا گیا۔ یاد رکھیں وہ نکتہ جو وجۂ تخلیقِ کائنات ہے، وہ درحقیقت نکتۂ وحدتِ نور مصطفی ﷺ ہے۔ یہ کائناتِ ہست و بود، سماوی و ارضی کی ابتدا جس نکتہ سے ہوئی وہ نورِ مصطفی ﷺ ہی تھا۔ اس حقیقت کا اشارہ حدیثِ مبارکہ سے ملتا ہے جسے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے :
قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ! بِأَبِي أَنْتَ وَاُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيئٍ خَلَقَهُ اللهُ تَعَالٰی قَبْلَ الْأَشْیَاء؟ قَالَ : یَا جَابِرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالٰی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُورِهٖ، فَجَعَلَ ذٰلِکَ النُّوْرَ یَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ اللهُ تَعَالٰی، وَلَمْ یَکُنْ فِي ذٰلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ، وَلَا سَمَاءٌ وَلَا أَرْضٌ، وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ وَلَا إِنْسِيٌّ۔ فَلَمَّا أَرَادَ اللهُ تَعَالٰی أَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَمَ ذٰلِکَ النُّورَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ : فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِيِّ : اللَّوْحَ وَمِنَ الثَّالِثِ : الْعَرْشَ۔ ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ : حَمَلَةَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ : الْکُرْسِيَّ، وَمِنَ الثَّالِثِ : بَاقِيَ الْمَلَائِکَةِ۔ ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ : السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ : الْأَرْضِيْنَ وَمِنَ الثَّالِثِ : اَلْجَنَّةَ وَالنَّارَ۔
1۔ قسطلانی نے ’المواھب اللدنیۃ (1 : 71)‘ میں کہا ہے کہ اسے
امام عبد الرزاق نے اپنی سند سے روایت کیا ہے۔
2۔ زرقانی، شرح المواھب اللدنیۃ، 1 : 89-91
3۔ عجلونی نے ’کشف الخفاء (1 : 311، رقم : 827)‘ میں کہا ہے کہ اسے امام عبد الرزاق
نے اپنی سند سے حضرت جابر بن عبد اللہ g سے روایت کیا ہے۔
4۔ عیدروسی نے ’تاریخ النور السافر (1 : 8)‘ میں کہا ہے کہ اسے امام عبد الرزاق نے
اپنی سند سے روایت کیا ہے
5۔ حلبی، السیرۃ، 1 : 50
6۔ تھانوی، نشر الطیب : 13
میں نے بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے، دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کیے۔ پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی۔
اس سے آگے حضرت جابر بن عبد اللہ k روایت بیان کرتے ہیں کہ چوتھی قسم کو مقام محبت میں بارہ ہزار سال رکھا گیا، پھر اس کے مزید چار حصے کیے گئے۔ ان میں ایک سے قلم کو، دوسرے سے لوح کو اور تیسرے حصہ سے جنت کو پیدا کیا۔ بعد ازاں چوتھی قسم کو مقامِ خوف میں بارہ ہزار سال رکھ کر چار حصے کیے۔ ان میں سے ایک حصے سے فرشتوں کو، دوسرے سے سورج کو اور تیسرے حصے سے چاند اور ستاروں کوپیدا فرمایا۔ اس کے بعد چوتھے حصے کو مقامِ رجا میں بارہ ہزار سال رکھا اور اسے چار حصوں میں تقسیم فرمایا۔ ان میں سے ایک حصے سے عقل، ایک سے علم و حکمت، تیسرے سے عصمت و توفیق کو پیدا فرمایا۔ چوتھے حصے کو بارہ ہزار سال مقامِ حیا میں رکھا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف نظر فرمائی تو اس نور کو جلالت سے پسینہ آگیا۔ اس سے نور کے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے۔ اللہ رب العزت نے اس سے ٹپکنے والے ہر قطرے سے ایک نبی یا رسول کی روح کو پیدا فرمایا۔ بعد ازاں جب انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں نے سانس لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سانسوں سے قیامت تک ہونے والے اولیائ، شہدائ، اربابِ سعادت اور اصحابِ اطاعت کو پیدا فرمایا۔
پس عرش اور کرسی میرے نور سے، فرشتے اور اصحابِ روحانیت میرے نور سے، جنت اور اس کی نعمتیں میرے نور سے، ساتوں آسمانوں کے فرشتے میرے نور سے، سورج، چاند اور ستارے میرے نور سے، رسولوں اور انبیاء کی روحیں میرے نور سے، شہدائ، اولیاء اور صالحین میرے نور سے پیدا ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بارہ ہزار پردے پیدا فرمائے اور میرے نور یعنی چوتھے جز کو ہر پردے میں ایک ہزار سال رکھا۔ یہ عبودیت، سکینہ، صبر، صدق اور یقین کے مقامات تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نور کو ان پردوں سے نکالا تو اسے زمین پر اتار دیا۔ جس طرح اندھیری رات میں چراغ سے روشنی ہوتی ہے عین اسی طرح اس نور سے مشرق سے لے کر مغرب تک فضا منور اور معطر ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ نے زمین سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو نور ان کی پیشانی میں رکھ دیا، ان سے وہ نور حضرت شیث علیہ السلام کی طرف منتقل ہوتا ہوا پاک صلبوں سے پاک رَحموں کی جانب منتقل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی پشت مبارک تک پہنچا دیا اور وہاں سے ہماری والدہ حضرت آمنہ بنت وہب j کے رحم کی طرف منتقل کیا۔ پھر ہمیں اس دنیا میں جلوہ گر کیا اور ہمیں رسولوں کا سردار، انبیاء کا خاتم، تمام جہانوں کے لئے، رحمت مجسم اور روشن اعضاء وضو والوں کا قائد بنایا۔
اس حدیث مبارک کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاںہوتی ہے کہ نور مصطفی ﷺ مطلقاً سب سے پہلے پیدا کیا گیا، باقی سب کچھ جو زمین اور آسمان اور ان دونوں کے درمیان موجود ہے، اپنے اپنے وقت پر بحکم الٰہی آپ ﷺ کے نور سے پیدا ہوتا چلا گیا۔ حضور ﷺ کا نور وحدت تھی جس کے فیض سے ساری کائنات کی اجتماعیت وجود میں آئی جو اَمر کُنْ فَیَکُوْن کے تحت تاقیامت دما دم ترقی پذیر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا نور ہی اصل ہے اور باقی اجتماعیت کی شکل میں ساری کائنات اس کی فرع ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ ہر فضیلت کے آفتاب ہیں اور تمام روشنیاں آپ ﷺ کی تابانیوں سے پھوٹتی ہیں۔ جیسے ستارے اپنی روشنی سورج سے حاصل کرتے ہیں، عین اسی طرح یہ ساری اجتماعیت، چاہے یہ قلم کی شکل میں ہے یا لوح کی شکل میں، وہ زمین ہو یاآسمان، جن و انس ہوںیا ملائکہ ہوں، عرش و کرسی ہو، نباتات ہو یا جمادات و حیوانات ہوں، عالم ملکوت، عالم جبروت، عالم بشریت ہو یا نورانیت؛ یہ تمام کے تمام حضور نبی اکرم ﷺ کے نور کے تصدق سے وجود میں آئے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے نور کو انبیاء کرام علیہم السلام کے انوار کی طرف نظر کرنے کا حکم فرمایا اور خاتم المرسلین ﷺ کے نور نے انبیاء کرام علیہم السلام کے نور کی طرف نظر کی تو آپ ﷺ کا نور ان سب پر چھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان انوارِ انبیاء کو اذنِ گویائی عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کیا : اے ہمارے رب! یہ کون سی مبارک ہستی کا نور ہے جو ہم سب پر چھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ محمد بن عبداللہ (ﷺ) کا نور ہے۔ اگر تم ان کی رسالت پر ایمان لائو گے تو میں تم سب کو نبوت کے تاج سے سرفراز کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا : ہم ان پر اور ان کی نبوت پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت کریمہ میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ط قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِيْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَo
آل عمران، 3 : 81
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا : کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا : ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo
اس آیت کریمہ میں وحدتِ رسالت مصطفی ﷺ کا بیان ہے۔ انبیا و رسل علیہم السلام کی نبوت و رسالت کی اجتماعیت کا انحصار آپ ﷺکی رسالت پر ایمان لانے سے مشروط ٹھہرا۔ گویا وحدت و اجتماعیت باہم پیوست ہیں اور انہیں کبھی بھی جدا جدا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
معراج کی شب شانِ وحدت ذات مصطفی ﷺ اس وقت اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گئی جب مسجد ِاقصی میں آپ ﷺ کی امامت میں تمام اَرواحِ انبیاء نے اجتماعیت کی شکل میں مقتدی بن کر نماز ادا کی۔ یہاں وحدت مصطفی ﷺ کو انبیاء کرام علیہ السلام کی اجتماعیت کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب تمام انبیاء کی نبوتیں اپنی شریعتوں کے ساتھ ختم ہو چکی تھیں اور تمام انبیاء دیدارِ الٰہی کے شوق لیے اپنا اپنا وقت طے کر کے دنیا سے عالم ارواح کی طرف کوچ کر چکے تھے۔ اللہ رب العزت نے وجہ تخلیق کائنات اپنے محبوب مکرم ﷺ کو اپنے جمالِ لازوال سے مشرف کرنے کے لئے اپنے پاس بلایا۔ معراج کی رات کا ذکر قرآن حکیم میں یوں بیان کیا ہے :
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo
الاسراء، 17 : 1
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسی دیدار کی خواہش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دیدار کی تمنا کا ذکر قرآن حکیم میں خود ارشاد فرمایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا :
رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْکَ۔
الأعراف، 7 : 143
اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
لَنْ تَرٰنِيْ۔
الأعراف، 7 : 143
تم مجھے (براهِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیدارکی خواہش سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ تم میںاس نورِ ازلی کو دیکھنے کی طاقت و صلاحیت نہیں ہے۔ یہ توفیق صرف اس محبوب مکرم ﷺ کو حاصل ہے جس کی خاطر بزم کائنات کو سجایا گیا اور جس کی نبوت کے آگے سر خم کرنے پر تمام انبیاء کو نبوت کا تاج عطا کیا گیا۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ’الفتوحات المکیۃ‘ میں لکھتے ہیں کہ ہر نبی علیہ السلام کو جو خصوصی نعمت بھی ملی وہ بہ اذنِ الٰہی حضور نبی اکرم ﷺ کے منبع جود و کرم سے ہی عطا ہوئی ہے۔ اللہ رب العزت نے عظمتِ مصطفی ﷺ کو دنیا میں عیاں فرمایا۔ اس مقام کو شیخ اکبر نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
أَنْتَ ظَاهِرُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) فِی الدُّنْیَا وَبَاطِنُهٗ فِی الْآخِرَةِ۔
اے آدم! تو دنیا میں محمد (ﷺ) کا ظاہر ہے اور آخرت میں ان کا باطن ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں آدم علیہ السلام کو حضرت محمد ﷺ کا ظاہر کردے گا، اور جب آخرت میں بزم کائنات سجے گی تو پھر اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو باطن کر دے گا اور حضرت محمد ﷺ کو ان کا ظاہر کر دے گا۔ عام انسانی ذہن بیان کی گئی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اہلِ معرفت نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ابن عربی کے اس بیان سے کیا مراد ہے۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے دنیا میں بھیجنے سے تیس کروڑ سال قبل نورِ مصطفی ﷺ کو اپنی بارگاهِ قرب میں چھپا کر رکھا۔ غیرت الٰہیہ کو گوارا نہ تھا کہ کوئی ناسمجھ حقیقت مصطفی ﷺ کو نہ مان کر گستاخی کا مرتکب ہو اور قیامت اپنے وقت سے پہلے واقع ہو جائے۔ چنانچہ نورِ محمد ﷺ کو آدمیت کے پیکر میں ظاہر فرمایا۔ جب آخرت میں حقائق کے انکشافات کا دن بپا ہوگا تو حقیقتِ محمدی ظاہر کر دی جائے گی۔ اس وقت کسی کو بھی حقیقتِ محمدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
اس مقام پر فلسفہ وحدت واجتماعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے وحدتِ مصطفی ﷺ کو نور کی شکل میں تخلیق فرمایا گیا۔ نورِ مصطفی ﷺ سے ارواح انبیاء اور پھر ساری کائنات کو پیدا فرما کر اجتماعیت کو تشکیل دیا۔ جب یہ کائنات اَرضی منتہائے کمال کو پہنچی تو وحدتِ حسنِ مصطفی ﷺ کا ظہور فرمایا۔ اب ہر شے میں وحدتِ حسنِ مصطفی ﷺ کا نور نظر آنے لگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم اجتماعیت میں ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت ہمیں اجتماعیت کا فیض عطا کرتا ہے۔ پھر جب ہم وحدت میں آتے ہیں تو وحدت کا فیض عطا کرتا ہے۔ اجتماعیت میں بقا اور وحدت میں حیات ہے۔
جب انسان قبر میں جائے گا تو اس سے وحدتِ محمدی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضرت انس بن مالک g سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهٖ، وَتَوَلّٰی عَنْهُ أَصْحَابُهٗ وَإِنَّهٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِهٖ، فَیَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ ﷺ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ : أَشْھَدُ أَنَّهٗ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهٗ۔ فَیُقَالُ لَهُ : انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ بِهٖ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، فَیَرَاھُمَا جَمِيْعًا۔ قَالَ : وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَهٗ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھٰذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ : لَا أَدْرِي، کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ، فَیُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ویُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَیَصِيْحُ صَيْحَةً یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر،
1 : 462، رقم : 1308
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، 1 : 448، رقم : 1673
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب التي یصرف بھا في الدنیا أھل
الجنۃ وأھل النار، 4 : 2200، رقم : 2870
4۔ أحمد بن حنبل۔ المسند، 3 : 126، رقم : 12293
5۔ أبو داود۔ السنن، کتاب السنۃ، باب في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، 4 : 238، رقم
: 4751
5۔ نسائی، السنن، کتاب الجنائز، باب المسألۃ في القبر، 4 : 97، رقم : 2051
بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز بھی سن رہا ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں : تو اس ہستی (یعنی سیدنا محمد مصطفی ﷺ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو) جہنم میں (تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے (معرفتِ مصطفی ﷺ کے صلہ میں) اُسے جنت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں مقامات کا مشاہدہ کرے گا۔ اگر (مرنے والا) منافق یا کافر ہو گا تو اس سے پوچھا جائے گا : تو اس ہستی (یعنی سیدنا محمد ﷺ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہے گا : مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا : نہ تو نے انہیں جاننے کی کوشش کی اور نہ ماننے کی۔ (اس غفلت اور عدم پہچان پر) اُسے لوہے کا گُرز مارا جاتا ہے تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے قریب والی مخلوق سنتی ہے۔
جب مومن نے قبر میں سوال و جواب کے وقت توفیقِ خداوندی سے حضور نبی اکرم ﷺ کو پہچان لیا تو دراصل یہاں اس کے آپ ﷺ کو پہچاننے میں حضرت ابراہیم، حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام سب انبیاء کرام کا پہچاننا شامل ہے۔ اسی نکتے کو ہم اب ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں۔ جب تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا ذکر کیا گیا تو یہ اجتماعیت کا بیان تھا لیکن جب ان میں سے ایک صاحبِ فضلیت، رسول معظم ﷺ کی طرف اشارہ کیا گیا تو یہ وحدت کا بیان ٹھہرا۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ وحدت اور اجتماعیت ہر معاملے میں باہم ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ فلسفہ وحدت و اجتماعیت اس امر کا متقاضی ہے کہ جب آپ اجتماعیت میں ہوتے ہیں تو اپنی وحدت کو بھولنا پڑتا ہے اور جب وحدت جلوہ گر ہوتی ہے تو پھر اجتماعیت اپنے وجود سے خالی ہو جاتی ہے۔ یہی وحدت و اجتماعیت ہم نماز میں پاتے ہیں، نماز کو جماعت کی شکل میں ادا کرنے کا حکم ہے یہ اجتماعیت ہے جس میں امیر وفقر، شاہ وگدا، خادم ومخدوم، چھوٹا بڑا، سرخ وسفید، کالا و گورا سب ایک ہی صف میں اللہ کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں لیکن امام صرف ایک ہی ہوتا ہے، یہ وحدت کی ایک شکل ہے۔ اسی وحدت کا تصور اجتماعیت میں یوں نمودار ہوتا ہے کہ سب نمازی ایک واحد و یکتا معبود کے حضور سراپا تسلیم و رضا بن کر اس کے دھیان میں فنا ہو جاتے ہیں۔
تمام کارکنان، اراکین اور رفقاء و وابستگان اس امر کو ذہن نشین کر لیں کہ ان کی تحریک میں شمولیت امام کے پیچھے نماز میں شامل مقتدیوں کی مانند ہے۔ جب امام کی امامت میں نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں تو ہم جماعت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس طرح جب ایک قائد کی رہنمائی میں انقلابی تحریک میں شامل ہو کر انقلاب کے لئے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں تو اب اس تحریک سے علیحدگی کی کوئی راہ نہیں ہوتی۔ جب ہم نے کہا کہ وحدت میں حیات ہے اور اجتماعیت میں بقا ہے تو دراصل یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ہم اپنی جماعت کی بقا چاہتے ہیں تو ہر صورت وحدت سے جڑے رہیں۔ وحدت سے ٹوٹنے کے نقصانات کے بارے میں حکیم الامت کچھ یوں تحریر کرتے ہیں :
ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
ہے لازوال عہدِ خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اگر دورانِ نماز صف ٹوٹ جائے تو امام کتنا ہی قوی اور قابل کیوں نہ ہو جماعت برقرار نہیں رہتی۔ اس لیے اجتماعیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ وحدتِ فکر برقرار رہے۔ حالتِ نماز میں اگر یہ وحدتِ فکر برقرار نہ رہے اور ہر مقتدی اپنی ذات کے حصار میں گرفتار ہو کر خود کو سیٹھ، چوہدری، حاکم اور آقا سمجھتا رہے تو پھر اس طرح تو ہم نے روحِ نماز کو فراموش کر دیا۔ اس لیے لازم تھا کہ جب جماعت میں کھڑے ہو گئے تو پھرمحمود و ایاز کی شناخت کئے بغیر جماعت ہی ہماری شناخت ہے ہم اپنا وجود اور اپنی شناخت جماعت میں فنا کر چکے ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال ایسی ہی جماعت کی تو بات کرتے ہیں :
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
حکیم الامت شاعرِ مشرق اسی کیفیت کو مزید بیان فرماتے ہیں :
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
ہم جب تک تحریک میں شامل نہ ہوئے تھے تو ہم میں کوئی رانا تھا، کوئی چودھری تھا، کوئی میاں تھا، کوئی خان تھا، کوئی وٹو تھا وغیرہ۔ اس وقت تک ذات پات کی شناخت تھی لیکن جب ہم تحریک میں شمولیت اختیار کر لی اور مصطفوی انقلاب کے سپاہی بن گئے تو اب ہماری اپنی شناخت ختم ہوگئی اور سب یک جان ہو کر ایک ہی مشن کی تکمیل اور مقصد کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئے۔ تحریک کے مشن کے حق ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہر کارکن کو تحریک کی اجتماعیت میں گم ہو کر اپنی رائے سے دستبردار ہونا ہی شرطِ اول ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
جب ایک مشن کے حصول کی خاطر خود کو بیچ دیا تو پھر ’میں‘ اور ’تو‘ کی قید سے نکل گئے۔ یہ ایسا سودا ہے جس کی تجارت میں کوئی خسارہ نہیں بلکہ ہر طرف نفع ہی نفع ہے۔ بقول شاعر :
جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تو نے خرید کر انمول کر دیا
چنانچہ غلبہ حق اور اِحیاء دین کے لئے جدوجہد میں حائل مصلحتوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے حق کے چراغ کو جبر و استبداد کی تند و تیزآندھیوں میں بھی بجھنے نہ دینا ہی مقصدِ حیات ہونا چاہیے۔ اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر تحریکی جد و جہد میں صاحب عزیمت بن کر ہر باطل سے ٹکڑا جانا ہی ہماری شناخت ہے۔
اس باب کے آغاز میں ہم نے انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن حکیم کی سورۃ المومنون کے حوالے سے کیا تھا۔ آخر میں اُسی کو ایک اور انداز میں دہرائیں گے تاکہ بات مزید واضح ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَةٍ مِّنْ طِيْنٍo
المومنون، 23 : 12
اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتدائ) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائیo
پھر فرمایا :
ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّکِيْنٍo
المومنون، 23 : 13
پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحم مادر) میں رکھاo
مزید فرمایا :
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰـرَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَo
المومنون، 23 : 14
پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشوونما دی، پھر (اس) اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےo
یہ سارا عمل اللہ رب العزت کی سنت ہے، لیکن اب خالقِ دو جہاں ہمیں انسان کہہ کر مخاطب فرماتا ہے۔ ہمیں نُطْفَۃ، عَلَقَۃ، مُضْغَۃ یا عِظٰم نہیں کہتا، حالانکہ یہ سب انسان ہی کی مختلف حالتیں ہیں۔ اگر اس سنت الٰہیہ پر ہم اپنی تحریکی زندگی کو منطبق کریں تو وہ یوں ہے کہ تحریک کے آنے سے پہلے ہم رانا، ملک، راجہ، چودھری اور سیٹھ جو کچھ بھی تھے، سو تھے، مگر تحریکی زندگی میں ہماری ہر قسم کی انفرادی شناخت اجتماعیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی شناخت محض تعارف کی حد تک تھی۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے خود وضاحت فرمائی ہے :
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌo
الحجرات، 49 : 13
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و تکریم کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہم نے دنیا میں ذات پاک کو عزت و ذلت کا جو معیار اور تفریق بنا رکھی ہے قرآن حکیم نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
تحریکی زندگی میں ہر قسم کی انفرادی شناخت بے معنی ہوتی ہے۔ جب تحریک میں شامل ہو گئے تو اب ہماری شناخت صرف تحریک کے کارکن کی ہے۔ باقی سب شناختیں اسی ایک پہچان میں گم ہو گئی ہیں۔ قومی سطح پر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے الا ما شاء اللہ اس ذاتی تعارف کو اپنی ذات پر اس قدر چسپاں کر دیا ہے کہ ہم خود کو رانا، ملک، راجہ، راجپوت، میاں، بٹ اور چودھری کہلائے بغیر مکمل نہیں سمجھتے۔ جب ہم نے تحریک میں شمولیت اختیار کر لی ہے تو اب اس کی اجتماعیت میں داخل ہو کر اپنی انفرادی سوچ کو قائد کی سوچ میں فنا کرنا ہوگا اور اپنے وجود کو تحریک کے وجود میں گم کرنا ہوگا۔ اس کی ایک روزمرہ آسان مثال ایک مشہور پکوان دلیم کی تیاری سے دی جا سکتی ہے۔ یہ پکوان مختلف اجناس یعنی دالوں وغیرہ کا مرکب ہوتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ ہمارے ہاں یہ ’حلیم‘ کے نام سے غلط العام کے طور پر مشہور ہوگیا ہے حالاں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اِسم صفاتی ہے جس کا معنی ہے : بردبار، حِلم والا۔ جب کہ مذکورہ پکوان کو اَصل میں دلیم یا لحیم کہا جاتا تھا۔ یہ پکوان اُس وقت تک تیار نہیں ہو سکتا جب تک اس میں شامل تمام اجزاء آپس میں گھل مل کر یک جان نہیں ہو جاتے۔
تحریک منہاج القرآن بھی ایک حقیقی پکوان کی مانند ہے۔ جب تک تحریک میں شامل نہ ہوئے تھے آپ میاں بھی تھے، چوہدری بھی تھے، شیخ بھی تھے، کوئی تکبر میں گرفتار تھا تو کوئی رعونت و غرور کا شکار، لیکن جب تحریک کی دیگ میں شامل ہوئے تو منہاج کی حلیمیت کے زیر اثر اللہ رب العزت کے حضور عجز و نیاز کا پیکر بن کر ذاتی شناختوں کے حصار سے نکل کر یک جاں ہو گئے۔
الغرض یہ فنائیت آپ کو ایسی تمام مصنوعات میں نظر آئے گی جہاں مختلف اجزائے ترکیبی استعمال ہوتے ہیں۔ خصوصاً آپ سیمنٹ کی تیاری پر غور کریں۔ اس میں بنیادی طور پر جپسم اور لائم سٹون شامل کیے جاتے ہیں۔ جب تک وہ اپنی انفرادیت فنا ہو کر یک جان نہیں ہو جاتے تب تک وہ سیمنٹ نہیں کہلایں گے۔
تحریکی زندگی میں فنائیت کی ایک اور شکل ایک عظیم مقصد کے لئے خود کو بے نام کرنا بھی ہے۔ جیسے سورج کی موجودگی میں چاند، ستارے نظر نہیں آتے، حالانکہ وہ موجود ہوتے ہیں اسی طرح اپنے طور پر مختلف عہدے دار خواہ کتنی بھی شہرت و اہمیت رکھتے ہوں، جب اپنے قائد کے سامنے آتے ہیں تو اپنی انفرادیت معدوم پاتے ہیں۔ ادب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قائد کے سامنے اپنا سر تسلیمِ خم کر کے اپنی انفرادیت کو ختم کر دیا جائے۔
اسی موضوع سے متعلق ایک اور مثال قرآن حکیم سے پیش کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ کَيْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِيْ ط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِيْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
البقرہ، 2 : 260
اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا : میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا : کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا : کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا : سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo
جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے وقت کے محبوب نبی اور داعی تھے۔ وہ امت مسلمہ کو ایک قائد کی حیثیت سے پیغام بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے اللہ رب العزت سے سوال کیا : مولا! مجھے دکھا کہ تو مردہ کو زندہ کیسے کرتا ہے؟ اس میں سے دو معانی نکلتے ہیں؛ ایک ظاہری کہ جب لوگ مردہ ہو جاتے تو ان کو زندہ کیسے کرتا ہے؟ دوسرا باطنی کہ جب لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں تو انہیں کیسے زندہ کرتا ہے؟
اللہ رب العزت کی جانب سے حکم ہوا : اے ابراہیم! چار پرندے لے لو۔ حضرت ابراہیم نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک مور اور ایک کوا لیا۔ یہ چاروں پرندے معنوی طور پر چار مختلف اوصاف کے حامل تصور کیے جاتے ہیں۔ مرغ شہوت کا نمائندہ، کوا نجاست کی علامت، کبوتر بے حمیتی اور مور تکبر و تفاخر کا پیکر ہے۔ ان میں سے ہر پرندے کی خصلت دوسرے سے جدا ہے۔
اللہ رب العزت فرمایا : اے ابراہیم! ان پرندوں کو خود سے مانوس کر لو۔ یعنی انہیں اپنی صحبت میں بٹھا کر ان سے صفاتِ رذیلہ کو ختم کر کے اپنی قربت کی صفات کے رنگ میں رنگنا شروع کر دیں تاکہ ان کی انفرادیت ختم ہو جائے اور آپ کی اجتماعیت میں کاملاً فنا ہو جائیں۔ یہاں استعارةً کارکنوں کی تربیت کی طرف اشارہ ہے۔ انہیں رشد و ہدایت اور انقلاب کی فکر دیں تاکہ ان کے دلوں میں آپ کی محبت کامل ہو جائے اور تحریک کے مشن کی خاطر جان تک کی پروا نہ کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ کام مکمل کر لیا تو پھر ارشاد فرمایا :
اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِيْنَکَ سَعْیًا۔
البقرۃ، 2 : 260
(انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے۔
اب دیکھنے میں وہ سب ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات میں فنا ہو کر بقا پا چکے تھے، اس لئے بلانے پر بھاگے چلے آئے۔
آج! اگر ہم اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں اور انقلاب کا عزم لے کر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ذات کو اجتماعیت میں فنا کرنا ہوگا، عبادت کی روح پھونکنا ہوگی، عوام کے مردہ دلوں کو پھر سے توحید و رسالت کے نور سے منور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے کردار کو صحابہ کرام l اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے فیض اور اولیاء کرام کے وسیلے سے ایسا بنانا ہو گا کہ مشن کی پکار پر ہر طرح کے خوف و طمع سے بے نیاز ہو کر لبیک کہتے ہوئے اسی طرح اٹھ کھڑے ہوں، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے باوجود چاوروں پرندے ان کی طرف دوڑے چلے آئے تھے۔ ہمیں اس عظیم کامیابی کے حصول کے لئے متحد اور مجتمع ہونا پڑے گا اور اپنی ذات کو بھلا کر ایک وحدت میں زندہ رہنا ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved