مَحَبَّةُ الْحَيَوَانَاتِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور ﷺ سے حیوانات کی محبت کا بیان}
1. سُجُوْدُ الْحَيَوَانَاتِ لِلنَّبِيِّ تَعْظِيْمًا لَهُ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے جانوروں کے سجدہ تعظیمی کا بیان}
2. مَحَبَّةُ الْبَعِيْرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ اُونٹوں کی محبت کا بیان}
3. مَحَبَّةُ الْغَنَمِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بکریوں کی محبت کا بیان}
4. مَحَبَّةُ الظَّبْيَةِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہرنیوں کی محبت کا بیان}
5. مَحَبَّةُ الْفَرَسِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گھوڑوں کی محبت کا بیان}
6. مَحَبَّةُ الْحِمَارِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دراز گوش کی محبت کا بیان}
7. مَحَبَّةُ الْأَسَدِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ شیر کی محبت کا بیان}
8. مَحَبَّةُ الذِّئْبِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بھیڑیوں کی محبت کا بیان}
9. مَحَبَّةُ الْوَحْشِ لِلنَّبِيِّّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ جنگلی بیل کی محبت کا بیان}
10. مَحَبَّةُ الضَّبِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گوہ کی محبت کا بیان}
11. مَحَبَّةُ الطُّيُوْرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پرندوں کی محبت کا بیان}
1 /1. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَهُمْ جَمَلٌ يَسْنُوْنَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَيْهِمْ فَمَنَعَهُمْ ظَهْرَهُ، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ جَاؤُوْا إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالُوْا: إِنَّهُ کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِي عَلَيْهِ وَإِنَّهُ اسْتُصْعِبَ عَلَيْنَا وَمَنَعَنَا ظَهْرَهُ، وَقَدْ عَطَشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لِأَصْحَابِهِ: قُوْمُوْا فَقَامُوْا فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِي نَاحِيَةٍ، فَمَشَی النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم نَحْوَهُ. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، إِنَّهُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلِبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْکَ صَوْلَتَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيَّ مِنْهُ بَأْسٌ، فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَهُ حَتَّی خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِنَاصِيَتِهِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتَّی أَدْخَلَهُ فِي الْعَمَلِ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ،هَذِهِ بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟
وفي رواية: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ،نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ. فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا … الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَنَحْوَهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
1: أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 3 /158، الرقم: 12635، والدارمی فی السنن، باب: (4)، ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 /22، الرقم: 17، والطبراني فی المعجم الأوسط، 9 /81، الرقم: 9189، وعبد بن حميد فی المسند، 1 /320، الرقم: 1053، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 5 /265، الرقم: 1895، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3 /35، الرقم: 2977، والحسينی فی البيان والتعريف، 2 /171، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 /4، 9، والمناوی فی فيض القدير، 5 /329.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت استعمال کرنے( یعنی پانی لانے) سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے۔ وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا۔ ہمارے کھیت کھلیان اور باغ پانی کی قلت کے باعث سوکھ گئے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اُٹھو، پس سارے اٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم احاطہ میں داخل ہوئے تو اُونٹ جو کہ ایک کونے میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس اُونٹ کی طرف چل پڑے۔ انصار کہنے لگے: (یا رسول اللہ!) یہ اُونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اُونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آکر) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسبِ سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں لہٰذا اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں۔ ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اسے بیوی پر حاصل ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح کی حدیث دارمی اور طبرانی نے بھی روایت کی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
2 /2. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ فَجَاءَ بَعِيْرٌ فَسَجَدَ لَهُ. فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَسْجُدُ لَکَ الْبَهَائِمُ وَالشَّجَرُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ. فَقَالَ: اعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَأَکْرِمُوْا أَخَاکُمْ. وَلَوْ کُنْتُ أمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. وَلَوْ أَمَرَهَا أَنْ تَنْقُلَ مِنْ جَبَلٍ أَصْفَرَ إِلَی جَبَلٍ أَسْوَدَ وَمِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إِلَی جَبَلٍ أَبْيَضَ، کَانَ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَفْعَلَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: هَذَا الإِسْنَادُ عَلَی شَرْطِ السُّنَنِ.
2: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /76، الرقم: 24515، والبيهقی فی السنن الکبری، 7: 291، الرقم: 14482، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895 والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3: 35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 326، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /310، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک اُونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ صحابہ کرام نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو جانور اور درخت سجدہ کرتے ہیں جبکہ ہم آپ کو سجدہ کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی عزت کرو۔ اگر میں کسی فردِ بشر کو حکم دیتا کہ وہ کسی اور کو سجدہ کرے تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے۔ اور اگر شوہر اسے حکم دے کہ وہ زرد پہاڑ کو سیاہ پہاڑ تک اور سیاہ پہاڑ کو سفید پہاڑ تک لے جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد سنن کی شرط پر ہیں۔
3 /3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَهُ فَحْلَانِ، فَاغْتَلَمَا. فَأَدْخَلَهُمَا حَائِطًا فَسَدَّ عَلَيْهِمَا الْبَابَ ثُمَّ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَأَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ لَهُ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم قَاعِدٌ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، إِنِّي جِئْتُ فِي حَاجَةٍ، وَأَنَّ فَحْلَيْنِ لِي اغْتَلَمَا وَأَنِّي أَدْخَلْتُهُمَا حَائِطًا وَسَدَدْتُ الْبَابَ عَلَيْهِمَا، فَأُحِبُّ أَنْ تَدْعُوَ لِي أَنْ يُسَخِّرَهُمَا اﷲُ لِي. فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: قُوْمُوْا مَعَنَا. فَذَهَبَ حَتَّی أَتَی الْبَابَ فَقَالَ: افْتَحْ. فَأَشْفَقَ الرَّجُلُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: افْتَحْ. فَفَتَحَ الْبَابَ‘ فَإِذَا أَحَدُ الْفَحْلَيْنِ قَرِيْبٌ مِنَ الْبَابِ، فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم سَجَدَ لَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : ائْتِنِي بِشَيئٍ أَشُدُّ بِهِ رَأْسَهُ وَأُمَکِّنُکَ مِنْهُ. فَجَاءَ بِخِطَامٍ فَشَدَّ بِهِ رَأْسَهُ وَأَمْکَنَهُ مِنْهُ، ثُمَّ مَشَی إِلَی أَقْصَی الْحَائِطِ إِلَی الْفَحْلِ الْأخَرِ. فَلَمَّا رَأهُ وَقَعَ لَهُ سَاجِدًا، فَقَالَ لِلرَّجُلِ: ائْتِنِي بِشَيئٍ أَشُدُّ بِهِ رَأْسَهُ. فَشَدَّ رَأْسَهُ وَأَمْکَنَهُ مِنْهُ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَإِنْهُمَا لَا يَعْصِيَانِکَ. فَلَمَّا رَأَی أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ذَلِکَ قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَذَيْنِ فَحْلَيْنِ لَا يَعْقِلَانِ سَجَدَا لَکَ. أَفَـلَا نَسْجُدُ لَکَ؟ قَالَ: لَا أمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ. وَلَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
3: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 /356، الرقم: 12003، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /158، الرقم: 12635، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس دو اونٹ تھے وہ دونوں سرکش ہو گئے۔ اس نے ان دونوں کو ایک باغ کے اندر قید کر دیا اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے لیے دعا فرمائیں۔ (وہ جب حاضر ہوا تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انصار کے ایک گروہ میں تشریف فرما تھے۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس ایک حاجت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ میرے دو اُونٹ ہیں جو سرکش ہو گئے ہیں۔ میں نے انہیں باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں میرا فرماں بردار بنا دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اُٹھو، میرے ساتھ آؤ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلے یہاں تک کہ اس باغ کے دروازے پر تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھولو۔ اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے خدشہ تھا (کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جانور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حملہ کر دیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: دروازہ کھولو۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اُونٹوں میں سے ایک دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز لاؤ جس کے ساتھ باندھ کر میں اسے تمہارے حوالے کر دوں۔ وہ صحابی ایک نکیل لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے اسے باندھ دیا اور اسے صحابی کے حوالے کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باغ کے دوسرے حصے کی طرف چلے جہاں دوسرا اُونٹ تھا۔ اس نے بھی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس صحابی سے کہا: مجھے کوئی چیز لا دو جس سے میں اس کا سر باندھ دوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کا سر باندھ کر اسے صحابی کے حوالے کر دیا اور فرمایا: جاؤ اب یہ تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ جب صحابہ کرام نے یہ سارا واقعہ دیکھا تو عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ اونٹ جو کہ بے عقل ہیں آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
4 /4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه أَنَّ نَاضِحًا لِبَعْضِ بَنِي سَلَمَةَ اغْتَلَمَ. فَصَالَ عَلَيْهِمْ وَامْتَنَعَ عَلَيْهِمْ حَتَّی عَطَشَتْ نَخْلَةٌ. فَانْطَلَقَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَاشْتَکَی ذَلِکَ إِلَيْهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : انْطَلِقْ. وَذَهَبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم مَعَهَ. فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ النَّخْلِ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا تَدْخُلْ، فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْکَ مِنْهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : ادْخُلُوْا فَـلَا بَأْسَ عَلَيْکُمْ. فَلَمَّا رَأهُ الْجَمَلُ، أَقْبَلَ يَمْشِي وَاضِعًا رَأْسَهُ حَتَّی قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَسَجَدَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : ائْتُوْا جَمَلَکُمْ فَاخْطَمُوْهُ وَارْتَحِلُوْهُ. فَأَتَوْهُ فَخَطَمُوْهُ وَارْتَحَلُوْهُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ.
4: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /28 وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /158، الرقم: 12635، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329 .
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی سَلَمَہ کے کسی شخص کا اُونٹ مستی میں آ گیا۔ وہ لوگوں پر حملہ آور ہونے لگا۔ اُن کے کام سے رُک گیا یہاں تک کہ کھجور کے درخت (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) خشک ہونے لگے۔ اس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: چلو چلیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود بھی اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ جب بابِ نخل تک پہنچ گئے تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اندر داخل نہ ہوں کیونکہ مجھے اس سے آپ کے حوالے سے خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: داخل ہو جاؤ اور فکر نہ کرو۔ جب اونٹ کی نظر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پڑی تو سر جھکائے ہوئے چل کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آ کھڑا ہوا، پھر سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کے پاس آؤ، اسے نکیل ڈالو اور اس پر کجاوہ رکھو۔ چنانچہ لوگوں نے آ کر اسے نکیل ڈالی اور اس پر کجاوہ رکھا۔‘‘
اس حدیث کو اِمام بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں روایت کیا ہے۔
5 /5. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَبِي أَوْفَی رضی الله عنه قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ قُعُوْدٌ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم إِذْ أَتَاهُ آتٍ. قَالَ: إِنَّ نَاضِحَ ألِ فُـلَانٍ قَدْ أَبِقَ عَلَيْهِمْ. قَالَ: فَنَهَضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَنَهَضْنَا مَعَهُ. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا تَقْرُبْهُ، فَإِنَّا نَخَافُهُ عَلَيْکَ. فَدَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِنَ الْبَعِيْرِ. فَلَمَّا رَآهُ الْبَعِيْرُ سَجَدَ. ثُمّ إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَضَعَ يَدَهُ عَلَی رَأْسِ الْبَعِيْرِ فَقَالَ: هَاتُوْا السِّفَارَ. قَالَ: فَجِيْئَ بِالسِّفَارَ فَوَضَعَهُ فِي رَأْسِهِ. وَقَالَ: ادْعُوْا لِي صَاحِبَ الْبَعِيْرِ. قَالَ: فَدُعِيَ لَهُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَلَکَ الْبَعِيْرُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَأَحْسِنْ عَلَفَهُ وَلَا تَشُقَّ عَلَيْهِ فِي الْعَمَلِ. قَالَ: أَفْعَلُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ.
5: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /29.
’’حضرت عبد اﷲ بن ابی اَوْفَی بیان کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی آنے والا آیا۔ اس نے کہا کہ فلاں گھرانے کا اونٹ بھاگ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کے قریب نہ جائیے۔ ہمیں خطرہ ہے کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹ کے قریب چلے گئے۔ جب اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو سجدہ ریز ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اونٹ کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: مہار لے آؤ۔ مہار لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ اس کے منہ میں ڈال دی۔ پھر فرمایا کہ اونٹ کے مالک کو بلا لو۔ جب مالک کو بلایا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اونٹ تمہارا ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: اسے عمدہ چارہ دو اور اس سے زیادہ مشقت والا کام نہ لو۔ اس نے عرض کیا: (ہاں) میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں روایت کیا ہے۔
6 /6. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضی الله عنه قَالَ: ثَـلَاثَةُ أَشْيَاءَ رَأَيْتُهُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بَيْنَ نَحْنُ نَسِيْرُ مَعَهُ إِذْ مَرَرْنَا بِبَعِيْرٍ يُسْنَی عَلَيْهِ. فَلَمَّا رَآهُ الْبَعِيْرُ جَرْجَرَ وَوَضَعَ جِرَانَهُ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هَذَا الْبَعِيْرِ؟ فَجَاءَ فَقَالَ: بِعْنِيْهِ؟ فَقَالَ: لَا، بَلْ أَهَبُهُ لَکَ. فَقَالَ: لَا، بِعْنِيْهِ. قَالَ: لَا، بَلْ أَهَبُهُ لَکَ، وَإِنَّهُ لِأَهْلِ بَيْتٍ مَا لَهُمْ مَعِيْشَةٌ غَيْرُهُ. قَالَ: أَمَا إِذْ ذَکَرْتَ هَذََا مِنْ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ شَکَا کَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ الْعَلَفِ. فَأَحْسِنُوْا إِلَيْهِ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَجَائَتْ شَجَرَةٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّی غَشِيَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِهَا. فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: هِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّهَا أَنْ تُسَلِّمَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَذِنَ لَهَا. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا، بِهِ جِنَّةٌ. فَأَخَذَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بِمَنْخَرِهِ فَقَالَ: اخْرُجْ إِنِّي مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ سَفَرِنَا مَرَرْنَا بِذَلِکَ الْمَاءِ فَأَتَتْهُ الْمَرْأَةُ بِجُزُرٍ وَلَبَنٍ. فَأَمَرَهَا أَنْ تَرُدَّ الْجُزُرَ وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَشَرِبُوْا مِنَ اللَّبَنِ. فَسَأَلَهَا عَنِ الصَّبِيِّ. فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا رَأَيْنَا مِنْهُ رَيْبًا بَعْدَکَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /158، الرقم: 184، وعبد بن حميد فی المسند، 1: 154، الرقم: 405، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، الرقم: 3430، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5، وابن عساکر فی تاريخ مدينه دمشق، 4: 369.
’’حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں، حضور، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی پر سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا: نکل جاؤ میں محمد، اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت واپس کردیا اور اپنے صحابہ کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
7 /7. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ سَفَرٍ حَتَّی إِذَا دَفَعْنَا إِلَی حَائِطٍ مِنْ حِيْطَانِ بَنِي النَّجَّارِ إِذَا فِيْهِ جَمَلٌ لَا يَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ. قَالَ: فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَجَاءَ حَتَّی أَتَی الْحَائِطَ. فَدَعَا الْبَعِيْرَ، فَجَاءَ وَاضِعًا مِشْفَرَهُ إِلَی الْأَرْضِ حَتَّی بَرَکَ بَيْنَ يَدَيْهِ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : هَاتُوْا خِطَامًا. فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلَی صَاحِبِهِ. قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی النَّاسِ قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ شَيئٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُوْلُ اﷲِ إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالإِْنْسِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /310، الرقم: 14372، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /315، الرقم: 31719، وعبد ابن حميد فی المسند، 1 /337، الرقم: 1122، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /7، والتميمی فی الثقات، 4 /223، الرقم: 2615.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آئے۔ راستے میں ہم بنو نجار کے ایک باغ میں پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ باغ میں ایک سرکش اونٹ ہے جو باغ میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیتا اور جو باغ میں داخل ہونا چاہے اس پر حملہ کر دیتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے اس بات کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور باغ میں داخل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اونٹ کو بلایا تو وہ اپنی گردن کو زمین کے ساتھ گھسیٹتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کی لگام لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے لگام دی اور اسے اس کے مالک کے سپرد کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بے شک زمین و آسمان میں سوائے سرکش جنوں اور انسانوں کے کوئی چیز ایسی نہیں جو یہ تسلیم نہ کرتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
8 /8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ قَوْمٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ بَعِيْرًا لَنَا قَطَّ فِي حَائِطٍ. فَجَاء إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: تَعَالَ. فَجَاءَ مُطَأْطِئًا رَأْسَهُ حَتَّی خَطَمَهُ وَأَعْطَاهُ أَصْحَابَهُ. فَقَالَ لَهُ أَبُوْ بَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّکَ نَبِيٌّ! فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَحَدٌ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي نَبِيٌّ إِلَّا کَفَرَةُ الْجِنِّ وَالإِْنْسِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 /155، الرقم: 12744، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1: 129، الرقم: 139.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارا ایک اونٹ ہے جو سرکش ہو گیا ہے اور باغ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس اُونٹ کے پاس آئے اور اس سے فرمایا: میرے قریب آؤ۔ وہ اطاعت گزاری سے اپنا سر جھکاتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے لگام دے دی اور اسے اس کے مالکوں کے سپرد کر دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ایسے لگتا ہے جیسے وہ جانتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دو جہانوں میں سوائے نافرمان جنات اور انسانوں کے ہر کوئی جانتا ہے کہ میں اﷲ تعالیٰ کا نبی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
9 /9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ، وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَهُ. قَالَ أَبُوْبَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هَذِهِ الْغَنَمِ. فَقَالَ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ. وَلَوْ کَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.
رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَالْمَقْدَسِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ.
9: أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 2 /379، الرقم: 276، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 /130، الرقم: 2129، و في 6 /131، الرقم: 2130.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابونعیم اور مقدسی نے روایت کیا ہے اور الفاظ بھی امام مقدسی کے ہیں۔
10 /10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ جَعْفَرٍ رضی الله عنه قَالَ:فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اﷲَ فِي هَذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اﷲُ إِيَاهَا، فَإِنَّهُ شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
10: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: ما يومر به من القيام علی الدواب والبهائم، 3 /23، الرقم: 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /205، الرقم: 1754، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /159، الرقم: 135، وأبو عوانة فی المسند، 1: 197، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 2: 19، والمزی فی تهذيب الکمال، 6: 165، الرقم: 1232، والشافعی فی تاريخ مدينة دمشق، 27، 249، الرقم: 3222.
’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
11 /11. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابِتِهِمَا. وَجَاءَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ الْبَعِيْرُ؟ إِنَّهُ يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهُ يُرِيْدُ نَحْرَهُ. فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: أَوَاهِبُهُ أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ. قَالَ: اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوْفًا. فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُهُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. وَأَتَی عَلَی قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُهُ فَقَالَ: إِنَّهُ يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ. فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلَی قَبْرِهِ فَقَالَ: عَسَی أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً. رَوَاهُ أَحْمَدَُ.
11: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /6، والخطيب البغدادی فی موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 /272، الرقم: 271 وابن حميد في المسند، 1 /154، الرقم: 405، والنووي في رياض الصالحين، 1 /243، الرقم: 243 والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، 145، الرقم: 3431.
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
12 /12. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . قَالَ: فَتَـلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَنَا عَلَی نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْيَا، فَلَا يَکَادُ يَسِيْرُ. فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيْرِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَيِيَ. قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ. فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيْرُ. فَقَالَ لِي: کَيْفَ تَرَی بَعِيْرَکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: استئذان الرجل الإمام، 3 /1083، الرقم: 2805، ومسلم في کتاب: المساقاة، باب: بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 /1221، الرقم: 715، وأبوعوانة في المسند، 3 /249، الرقم: 4843.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اتفاق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے ساتھـ آملے میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھکاوٹ کے باعث چل نہیں رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا: یہ تھک گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیچھے کی جانب تشریف لائے، اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی تو وہ آسانی سے دوسرے اونٹوں سے آگے چلنے لگا۔ پھر ارشاد فرمایا: اب تم اپنے اونٹ کو کیسا دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کی: اب تو اچھا ہے۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
13 /13. عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ شَيْخًا مِنْ قَيْسٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ: جَائَنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَعِنْدَنَا بَکْرَةٌ صَعْبَةٌ لَا يُقْدَرُ عَلَيْهَا قَالَ: فَدَنَا مِنْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَمَسَحَ ضَرْعَهَا، فَحَفَلَ فَاحْتَلَبَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
13: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 /73، الرقم: 19777، والحارث في المسند، 1 /368، الرقم: 268، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 /25، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /29.
’’حضرت حماد بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس اونٹنی کے پاس گئے، اس کے تھنوں پر دستِ اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوہا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
14 /14. عَنْ تَمِيْمِ الدَّارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذْ أَقْبَلَ بَعِيْرٌ يَعْدُوْ حَتَّی وَقَفَ عَلَی هَامَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَقَالَ صلی الله عليه واله وسلم : أَيُهَا الْبَعِيْرُ، اسْکُنْ. فَإِنْ تَکُ صَادِقًا فَلَکَ صِدْقُکَ، وَإِنْ تَکُ کَاذِبًا فَعَلَيْکَ کَذِبُکَ مَعَ أَنَّ اﷲَ تَعَالَی قَدْ أَمَّنَ عَائِذَنَا وَلَيْسَ بِخَائِبٍ لَائِذُنَا. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا يَقُوْلُ هَذَا الْبَعِيْرُ؟ فَقَالَ: هَذَا بَعِيْرٌ قَدْ هَمَّ أَهلُهُ بِنَحْرِهِ وَأَکْلِ لَحْمِهِ فَهَرَبَ مِنْهُمْ وَاسْتَغَاثَ بِنَبِيِّکُمْ صلی الله عليه واله وسلم . فَبَيْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ أَقْبَلَ أَصْحَابُهُ يَتَعَادَوْنَ. فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِمُ الْبَعِيْرُ عَادَ إِلَی هَامَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَـلَاذَ بِهَا. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَذَا بَعِيْرُنَا هَرَبَ مُنْذُ ثَـلَاثَةِ أَيَامٍ. فَلَمْ نَلْقَهُ إِلَّا بَيْنَ يَدَيْکَ. فَقَالَ صلی الله عليه واله وسلم : أَمَّا إِنَّهُ يَشْکُوْ إِلَيَّ، فَبِئْسَتِ الشِّکَايَةُ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا يَقُوْلُ؟ قَالَ: يَقُوْلُ: إِنَّهُ رُبِّيَ فِي أَمْنِکُمْ أَحْوَالًا، وَکُنْتُمْ تَحْمِلُوْنَ عَلَيْهِ فِي الصَّيْفِ إِلَی مَوْضِعِ الْکَلَاءِ. فَإِذَا کَانَ الشِّتَاءُ رَحَلْتُمْ إِلَی مَوْضِعِ الدِّفَاءِ. فَلَمَّا کَبِرَ اسْتَفْحَلْتُمُوْهُ، فَرَزَقَکُمُ اﷲُ مِنْهُ إِبِلًا سَائِمَةً. فَلَمَّا أَدْرَکَتْهُ هَذِهِ السَّنَةُ الْخَصْبَةُ هَمَمْتُمْ بِنَحْرِهِ، وَأَکْلِ لَحْمِهِ. فَقَالُوْا: قَدْ وَاﷲِ، کَانَ ذَلِکَ، يَارَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: مَا هَذَا جَزَاءُ الْمَمْلُوْکِ الصَّالِحِ مِنْ مَوَالِيْهِ؟ فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَإِنَّا لَا نَبِيْعُهُ وَلَا نَنْحَرُهُ. فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: کَذَبْتُمْ. قَدِ اسْتَغَاثَ بِکُمْ فَلَمْ تُغِيْثُوْهُ، وَأَنَا أَوْلَی بِالرَّحْمَةِ مِنْکُمْ. فَإِنَّ اﷲَ نَزَعَ الرَّحْمَةَ مِنْ قُلُوْبِ الْمُنَافِقِيْنَ وَأَسْکَنَهَا فِي قُلُوْبِ المُؤْمِنِيْنَ. فَاشْتَرَاهُ عليه الصلاة والسلام مِنْهُمْ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ، وَقَالَ: يَا أَيُهَا الْبَعِيْرُ، انْطَلِقْ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اﷲِ تَعَالَی. فَرَغَی عَلَی هَامَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا فَقَالَ: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا فَقَالَ: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا الرَّابِعَةَ فَبَکَی عليه الصلاة والسلام. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا يَقُوْلُ هَذَا الْبَعِيْرُ؟ قَالَ: قَالَ: جَزَاکَ اﷲُ أَيُهَا النَّبِيُّ، عَنِ الإِسْلَامِ وَالْقُرْآنِ خَيْرًا. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: سَکَّنَ اﷲُ رُعْبَ أُمَّتِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَمَا سَکَّنْتَ رُعْبِي. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: حَقَنَ اﷲُ دِمَاءَ أُمَّتِکَ مِنْ أَعْدَائِهَا کَمَا حَقَنْتَ دَمِي. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: لَا جَعَلَ اﷲُ بَأْسَهَا بَيْنَهَا فَبَکَيْتُ. فَإِنَّ هَذِهِ الْخِصَالَ سَأَلْتُ رَبِّي فَأَعْطَانِيْهَا وَمَنَعَنِي هَذِهِ، وَأَخْبََرَنِي جِبْرِيْلُ عَنِ اﷲِ تَعَالَی أَنَّ فَنَاءَ أُمَّتِي بِالسَّيْفِ. جَرَی الْقَلَمُ بِمَا هُوَ کَائِنٌ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ.
14: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، 145، الرقم: 3431.
’’حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کئے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ! جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکر کوئی آواز نکالی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام منذری کہتے ہیں۔
15 /15. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ، وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَهُ. قَالَ أَبُوْبَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هَذِهِ الْغَنَمِ. فَقَالَ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ. وَلَوْ کَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.
رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَالْمَقْدَسِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ.
15: أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 2 /379، الرقم: 276، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 /130، الرقم: 2129، و في 6 /131، الرقم: 2130.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
اس حدیث کو امام ابو نعیم اور مقدسی نے روایت کیا ہے، اور مذکورہ الفاظ مقدسی کے ہیں۔
16 /16. عَنِ الْوَضِيْنِ بْنِ عَطَاءٍ رضی الله عنه أَنَّ جَزَّارًا فَتَحَ بَابًا عَلَی شَاةٍ لِيَذْبَحَهَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ حَتَّی أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَاتَّبَعَهَا. فَأَخَذَهَا يَسْحَبُهَا بِرِجْلِهَا. فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : اِصْبِرِي لِأَمْرِ اﷲِ وَأَنْتَ يَا جَزَّارُ، فَسُقْهَا إِلَی الْمَوْتِ سَوْقًا رَفِيْقًا. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
16: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4 /493، الرقم: 8609، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /102، الرقم: 1675، وابن رجب الحنبلی في جامع العلوم والحکم، 1 /156، والمناوي في فيض القدير، 6: 135.
’’حضرت وضین بن عطا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لئے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل بھاگی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں آ گئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بکری سے فرمایا: اللہ کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
17 /17. عَنْ سَعْدٍ مَوْلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً فَقَالَ لِي: يَا سَعْدُ، اذْهَبْ إِلَی تِلْکَ الْعَنْزِ فَاحْلِبْهَا وَعَهْدِي بِذَلِکَ الْمَکَانِ وَمَا فِيْهِ عَنْزٌ فَأَتَيْتُهُ فَإِذَا عَنْزٌ حَافِلٌ فَحَلَبْتُهَا لاَ أَدْرِي کَمْ مِنْ مَرَّةٍ ثُمَّ وَکَلْتُ بِهَا إِنْسَانًا وَشَغَلْتُ بِالرِّحْلَةِ فَذَهَبَتِ الْعَنْزُ فَاسْتَبْطَأَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: أَي سَعْدُ: قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ الرِّحْلَةَ شَغَلَتْنَا فَذَهْبَتِ الْعَنْزُ فَقَالَ: إِنَّ الْعَنْزَ ذَهَبَ بِهَا رَبُّهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
17: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 /55، الرقم: 5496، والشاشي فی المسند، 1 /215، الرقم: 174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /313.
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پر پڑاؤ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے سعد! اُس بکری کی طرف جاؤ اور اس کا دودھ دوھ کر لاؤ۔ میں اس مکان سے واقف تھا اور اس میں کوئی بکری نہیں تھی۔ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم پر ) میں اس مکان کی طرف آیا اور اچانک دیکھا کہ اس میں ایک دودھ سے بھرے ہوئے تھنوں والی بکری ہے۔ میں نے اس کا دودھ دوہا اور میں نہیں جانتا کہ کتنی بار دوہا۔ پھر میں نے اس بکری کی ذمہ داری ایک شخص کو سونپی اور خود سفر میں مشغول ہو گیا۔ وہ بکری (وہاں سے) چلی گئی۔ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونے میں تاخیر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! بے شک سفر نے ہمیں مشغول کر دیا اور بکری چلی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بے شک بکری کو اس کا مالک لے گیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
18 /18. عَنِ ابْنَةٍ لِخُبَابٍ رضي اﷲ عنهما قَالَتْ: خَرَجَ أَبِي فِي غَزَاةٍ فِي عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَتَعَاهَدُنَا فَيَحْلِبُ عَنْزًا لَنَا فَکَانَ يَحْلِبُهَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا فَتَمْتَلِئُ فَلَمَّا قَدِمَ خُبَابٌ حَلَبَهَا فَعَادَ حِلاَبُهَا کَمَا کَانَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
18: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 /322، الرقم: 31761، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /111، الرقم: 21108، والطبراني في المعجم الکبير، 25 /187، الرقم: 640، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /312.
’’حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیٹی روایت کرتی ہیں کہ میرے والد، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں کسی غزوہ میں (شرکت کی غرض سے گھرسے) باہر تشریف لے گئے۔(والد کی غیر موجودگی میں) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری دیکھ بھال فرماتے تھے اور ہماری بکری کا دودھ(بھی) دوہتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کا دودھ ہمارے پیالے میں دوہتے تھے یہاں تک کہ وہ بھر جاتا۔ جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ (واپس)گھر تشریف لائے اور بکری کا دودھ دوہا تو اس (کے تھنوں میں دوبارہ) دودھ لوٹ آیا جیسے وہ پہلے تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
19 /19. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ غُلَامًا يَافِعًا أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَا: يَا غُلَامُ، هَلْ عِنْدَکَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِيْنَا قُلْتُ: إِنِّي مُؤْتَمَنٌ وَلَسْتُ سَاقِيَکُمَا، فَقَالَ النَّبِيُِّ صلی الله عليه واله وسلم : هَلْ عِنْدَکَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ يَنْزُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَتَيْتُهُمَا بِهَا، فَاعْتَقَلَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَمَسَحَ الضَّرْعَ، وَدَعَا فَحَفَلَ الضَّرْعُ ثُمَّ أَتَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه بِصَخْرَةٍ مُنْقَعِرَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيْهَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُوْ بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: اقْلِصْ، فَقَلَصَ، فَأَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْتُ: عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ، قَالَ: إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمَ قَالَ: فَأَخَذْتُ مِنْ فِيْهِ سَبْعِيْنَ سُوْرَةً لَا يُنَازِعُنِي فِيْهَا أَحَدٌ.
رَوَاهُ أَحْمَد وَ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ وَ أَبُوْ يَعْلَی.
19: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 /462، الرقم: 4412، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /327، الرقم: 31801، وأبو يعلی في المسند، 8 /402، الرقم: 4985، وفي 9 /210، الرقم: 5311، والطيالسي في المسند، 1 /47، الرقم: 353، والشاشي في المسند، 2 /122، الرقم: 659، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 /125، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 /150، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /58، الرقم: 39، وابن حجر العسقلاني في مقدمة فتح الباري، 1 /299، والطبري في رياض النضرة، 1 /464، الرقم: 385، وابن جوزي في صفوة الصفوة، 12 /395.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ادھر تشریف لائے اور آپ دونوں مشرکین سے رائے فرار اختیار کر کے آئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لئے دودھ ہے؟ میں نے کہا: میں (کسی کی بکریوں پر) امین ہوں لہٰذا میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس ایک سالہ بکری ہے جس سے بکرے نے جفتی نہ کی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں (ہے)، میں ان دونوں کو اس بکری کے پاس لے کر آیا تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پکڑا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی تو وہ تھن دودھ سے بھر آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے دوہا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیندے والا پتھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ دودھ نوش فرمایا اور پھر میں نے وہ دودھ پیا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تھن کو حکم دیا کہ وہ سکڑ جائے تو وہ سکڑ گیا (جس طرح وہ دودھ دوہنے سے پہلے تھا) پھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی (یا رسول اللہ!) جو کلمات آپ نے پڑھے وہ) مجھے بھی سکھائیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک تو سیکھنے والا لڑکا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ستر سورتیں سیکھیں، اور اس چیز میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
20 /20. عَنْ جَيْشِ بْنِ خَالِدٍ صَاحِبِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حِيْنَ خَرَجَ مِنْ مَکَّةَ وَخَرَجَ مِنْهَا مُهَاجِرًا إِلَی الْمَدِيْنَةِ وَهُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَمَوْلَی أَبِي بَکْرٍ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةٍ رضي اﷲ عنهما وَدَلِيْلُهُمَا اللَّيْثِيُّ عَبْدُ اﷲِ بْنُ الْأَرِيْقَطِ، مَرُّوْا عَلَی خَيْمَتَي أُمِّ مَعْبَدٍ الْخُزَاعِيَةِ وَکَانَتْ بَرْزَةً جَلْدَةً تَحْتَبِیُ بِفَنَاءِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ تَسْقِي وَتُطْعِمُ، فَسَأَلُوْهَا لَحْمًا وَتَمْرًا لِيَشْتَرُوْهُ مِنْهَا فَلَمْ يَصِيْبُوْا عِنْدَهَا شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ وَکَانَ الْقَوْمُ مُرْمِلِيْنَ مُسْنِتِيْنَ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی شَاةٍ فِي کِسْرِ الْخَيْمَةِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الشَّاةُ يَا أُمَّ مَعْبَدٍ؟ قَالَتْ: شَاةٌ خَلَّفَهَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ قَالَ: فَهَلْ بِهَا مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَتْ: هِيَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ: أَتَأْذِنِيْنَ أَنْ أَحْلُبَهَا؟ قَالَتْ: بَلَی بَأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي نَعَمْ إِنْ رَأَيْتَ بِهَا حَلْبًا فَاحْلُبِهَا، فَدَعَا بِهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَحَ بِيَدِهِ ضَرْعَهَا وَسَمَّی اﷲَ، وَدَعَا لَهَا فِي شَاتِهَا، فَتَفَاجَّتْ عَلَيْهِ، وَدَرَّتْ وَاجْتَرَّتْ وَدَعَا بِإِنَاءٍ يُرْبِضُ الرَّهْطَ، فَحَلَبَ فِيْهَا ثَجًّا حَتَّی عَلَاهُ الْبَهَاءُ ثُمَّ سَقَاهَا حَتَّی رَوِيَتْ وَسَقَی أَصْحَابَهُ حَتَّی رَوُوْا وَشَرِبَ آخِرُهُمْ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ أَرَاضُوْا ثُمَّ حَلَبَ فِيْهِ ثَانِيًا بَعْدَ بَدْءٍ حَتَّی مَلَأَ الْإِنَاءَ ثُمَّ غَادَرَهُ عِنْدَهَا ثُمَّ بَايَعَهَا، ثُمَّ ارْتَحَلُوْا عَنْهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ.
20: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 /48، الرقم: 3605، والحاکم في المستدرک، 3 /10، الرقم: 4274، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /230، والطبري في رياض النضرة، 1 /470، الرقم: 387، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /59، 60، الرقم، 42، وابن عبد البر في الاستعاب، 4 /1958، الرقم: 4215، وابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 /137، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 /777، الرقم: 1437.
’’حضرت جیش بن خالد صحابی رسول سے مروی ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ابو بکر صدیق، آپ رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گائیڈ لیثی عبد اللہ بن اریقط مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے تو وہ اُم معبد خزاعیہ کے دو خیموں کے پاس سے گزرے اور وہ بڑی بہادر اور دلیر خاتون تھیں۔ وہ اپنے خیمے کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھتی تھیں اور لوگوں کو کھلاتی پلاتی تھیں۔ ان حضرات نے ان سے کھجور یا گوشت دریافت کیا کہ خریدیں مگر ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس نہ پائی۔ لوگوں کا زادِ راہ ختم ہوچکا تھا اور لوگ قحط کی حالت میں تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خیمہ کے ایک کونے میں ایک بھیڑ دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اُم معبد! یہ بھیڑ کیسی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ وہ بکری ہے جس کو تھکن نے بکریوں سے پیچھے کر دیا ہے (جس کی وجہ سے اور بکریاں چرنے گئیں اور یہ رہ گئی ہے)۔ فرمایا: اس کا کچھ دودھ بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: (اس بکری کے لئے دودھ دینا) اس سے (یعنی جنگل جانے سے) بھی زیادہ دشوار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں؟ انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، ہاں اگر آپ اس کے دودھ دیکھیں (تو دوہ لیجئے) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر تھن پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ! اُم معبد کو ان کی بکریوں میں برکت دے۔ اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور فرمانبردار ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا وہ برتن مانگا جو ساری قوم کو سیراب کر دے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دودھ کو سیلاب کی طرح دوہا یہاں تک کہ کف اس کے اوپر آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پلایا، اُم معبد نے پیا یہاں تک کہ وہ بھی سیراب ہوگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اصحاب کو پلایا، وہ بھی سیراب ہوگئے۔ سب سے آخر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی نوش فرمایا اور فرمایا کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پینا چاہیے۔ سب نے ایک بار پینے کے بعد دوبارہ پیا اور خوب سیر ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسی برتن میںابتدائی طریقہ پر دوبارہ دودھ دوہا اور اس کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
21 /21. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی قَوْمٍ قَدْ صَادُوْا ظَبْيَةً فَشَدُّوْهَا إِلَی عَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ. فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي وَضَعْتُ وَلِي خَشْفَانِ. فَاسْتَأْذِنْ لِي أَنْ أُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَعُوْدُ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هَذِهِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: نَحْنُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ: رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : خُلُّوْا عَنْهَا حَتَّی تَأْتِيَ خَشْفَيْهَا تُرْضِعُهُمَا وَتَأْتِيَ إِلَيْکُمْ. قَالُوْا: وَمَنْ لَنَا بِذَلِکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: أَنَا. فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ فَأَرْضَعَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَيْهِمْ فَأَوْثَقُوْهَا. فَمَرَّ بِهِمُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: أَيْنَ أَصْحَابُ هَذِهِ؟ قَالُوْا: هُوَ ذَا نَحْنُ، يَارَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: تَبِيْعُوْنِهَا؟ قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اﷲِ، هِيَ لَکَ. فَخَلُّوْا عَنْهَا فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
21: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 /358، الرقم: 5547، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 376، الرقم: 274، و ابن کثير في شمائل الرسول، 347.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا: یارسول اﷲ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کروگے؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کردیا اور وہ چلی گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
22 /22. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اﷲ صلی الله عليه واله وسلم فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِيْهِ: ’’يَارَسُوْلَ اﷲِ‘‘ فَالْتَفَتَ فَلَمْ يَرَ أَحَدًا. ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مُوْثَقَةٌ فَقَالَتْ: أُدْنُ مِنِّي، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَدَنَا مِنْهَا فَقَالَ: حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ: إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَلِکَ الْجَبَلِ. فَخَلِّنِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ. قَالَ: وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ: عَذَّبَنِيَ اﷲُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ. فَأَطْلَقَهَا فَذَهَبَتْ فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْهَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَأَوْثَقَهَا. وَانْتَبَهَ الأَعْرَابِيُّ فَقَالَ: لَکَ حَاجَةٌ، يَارَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: نَعَمْ، تُطْلِقُ هَذِهِ. فَأَطْلَقَهَا فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَهِيَ تَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلهَ إِلاَّ اﷲُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اﷲِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
22: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 /331، الرقم: 763، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /295، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1: 321، الرقم: 1176.
’’حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دفعہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ’یارسول اﷲ‘ کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بند ھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کردیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اﷲتعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔۔
23 /23. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاهُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم رَاجِعًا وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَی الصَّوْتِ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا قَالَ: وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ قَالَ: وَکَانَ فَرَسًا يُبَطَّأُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
23: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب:الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، باب: الْحَمَائِلِ وَتَعْلِيقِ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ، 3 /1065، الرقم: 2751، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، بَابُ فِي شجاعة النّبِي عليه السلَام وتقدمه للحرب، 4 /1802، الرقم: 2307، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /153، والروياني في المسند، 2 /488، الرقم: 1514، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 /157.158.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ (ایک دہشت ناک آواز کی وجہ سے)خوف زدہ ہوگئے۔ صحابہ کرام اس آواز کی طرف گئے۔ راستہ میں اُنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس جگہ سے واپس آتے ہوئے ملے، آپ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار(لٹک رہی) تھی اور آپ فرما رہے تھے! تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا، تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہم نے اس (گھوڑے) کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا، یا وہ سمندر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ گھوڑا بہت آہستہ چلتا تھا (مگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس پر سوار ہونے کی برکت سے یہ نہایت تیز رفتار ہو گیا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
24 /24. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوْا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ: لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ: وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ: إِنَّهُ لَبَحْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب:الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، باب: الْحَمَائِلِ وَتَعْلِيقِ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ، 3 /1065، الرقم: 2751، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ فِي شجاعة النّبِي عليه السلَام وتقدمه للحرب، 4 /1802، الرقم: 2307، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /153، والروياني في المسند، 2 /488، الرقم: 1514، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 /157.158.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے حسین و جمیل اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آواز کی جانب دوڑے تو آپ لوگوں کو واپس آتے ہوئے ملے اور صورتِ حال کی خبر بھی لے آئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور تلوار آپ کی گردن مبارک میں لٹک رہی تھی۔ آپ لوگوں سے فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے پھر ارشاد فرمایا: ہم نے اسے (گھوڑے کو ) دریا کی طرح (تیز رفتار) پایا ہے۔ یا یہ فرمایا: یہ تو دریا (کی طرح تیز رفتار) ہے (جبکہ اس سے پہلے وہ لاغرو کمزور گھوڑا تھا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
25 /25. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رضی الله عنه يَقُولُ: کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِيْنَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَرَسًا مِنْ أَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ الْمَنْدُوْبُ فَرَکِبَ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيئٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
25: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب:الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا، باب: الِاسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَائ، 2 /926، الرقم: 2484، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ: فِي شجاعة النّبِي عليه السلَام وتقدمه للحرب، 4 /1802، الرقم: 2307، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /153، والروياني في المسند، 2 /488، الرقم: 1514.
’’حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مدینہ منورہ میں حملے کا خطرہ محسوس ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے گھوڑا مستعار لیا، جس کو مندوب کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس پر سوار ہو گئے، جب واپس لوٹے تو فرمایا کہ ہم نے (خطرے والی)کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس (گھوڑے) کو دریا کی طرح پایا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
26 /26. عَنْ جُعَيْلٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم (فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ) وَأَنَا عَلَی فَرَسٍ لِي عَجْفَاءَ ضَعِيْفَةٍ. قَالَ: فَکُنْتُ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ. فَلَحِقَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: سِرْ، يَا صَاحِبَ الْفَرَسِ. فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، عَجْفَاءُ ضَعِيْفَةٌ. قَالَ: فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِخْفَقَةً کَانَتْ مَعَهُ فَضَرَبَهَا بِهَا وَقَالَ: اَللَّهُمَّ، بَارِکْ لَهُ فِيْهَا. قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي مَا أَمْسِکُ رَأْسَهُ إِلَی أَنْ أَتَقَدَّمَ النَّاسَ. قَالَ: فَلَقَدْ بِعْتُ مِنْ بَطْنِهَا بِاثْنَي عَشَرَ أَلْفًا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
26: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /153، والروياني في المسند، 2 /488، الرقم: 1514، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 /157.158.
’’حضرت جعیل اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ جہاد کیا۔ میں اپنی نڈھال و لاغر گھوڑی پر سوار تھا۔ میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے گھوڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، یہ نڈھال و لاغر گھوڑی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی: اے اللہ، جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ جعیل کہتے ہیں: میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کر سکا، یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا۔ نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
27 /27. عَنْ عِصْمَةَ بْنِ مَالِکٍ الْخَطَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ: زَارَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی قُبَاءٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْجِعَ جِئْنَاهُ بِحِمَارٍ قَحَاطِيٍّ قَطُوْفٍ فَرَکِبَهُ. قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَذَا غُلَامٌ يَأْتِي مَعَکَ يَرُدُّ الدَّابَةَ. قَالَ: صَاحِبُ الدَّابَةِ أَحَقُّ بِصَدْرِهَا. قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ارْکَبْ وَرُدَّهَا لَنَا. فَذَهَبَ فَرَدَّهُ عَلَيْنَا وَهُوَ هِمْلَاجٌ مَا يُسَايَرُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
27: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 /178، الرقم: 470، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /107، والحسيني في البيان والتعريف، 2 /79، والمناوي في فيض القدير، 4 /187.
’’حضرت عصمہ بن مالک خطمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم قُبَاء کی طرف ہمارے پاس تشریف لائے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو ہم آپ کے پاس ایک انتہائی خستہ حال اور سست رفتار دراز گوش(گدھا) لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس پر سوار ہوئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لڑکا آپ کے ساتھ آتا ہے تاکہ جانور واپس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جانور کا مالک اس کے اگلے حصہ کا زیادہ حقدار ہے (کہ وہ آگے بیٹھے)۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پر (صرف آپ ہی) سوار ہو جائیں اور پھر اسے ہماری طرف لوٹا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اس پر سوار ہو کر) چلے گئے اور جب ہمیں وہ جانور لوٹایا تو(آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے) وہ اس قدر تیز رفتار ہو چکا تھا کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
28 /28. عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ: زَارَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم سَعْدًا فَقَالَ عِنْدَهُ، فَلَمَّا أَبْرَدُوْ جَاؤُوْا بِحِمَارٍ لَهُمْ أَعْرَابِيٍّ قَطُوْفٍ، قَالَ: فَوَطَؤُا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِقَطِيْفَةٍ عَلَيْهِ فَرَکِبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَرَادَ سَعْدٌ أَنْ يَرْدِفَ ابْنُهُ خَلْفَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لِيَرُدَّ الْحِمَارَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنْ کُنْتَ بَاعِثَهُ مَعِي فَأَحْمِلْهُ بَيْنَ يَدَيَّ قَالَ: لَا بَلْ خَلْفَکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَهْلُ الدَّابَةِ هُمْ أَوْلَی بِصَدْرِهَا قَالَ سَعْدٌ: لَا أَبْعَثُهُ مَعَکَ وَلَکِنْ رُدَّ الْحِمَارَ قَالَ: فَرَدَّهُ وَهُوَ هِمْلَاجٌ فَرِيْغٌ مَا يُسَايَرُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
28: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 176.
’’حضرت اسحاق بن عبد اﷲ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سعد کو شرفِ ملاقات بخشا۔ جب گرمی کی حدّت کم ہوئی تو وہ ایک خستہ حال اور سست رفتا دراز گوش (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے) لے کر آئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے اس گدھے پر مخمل ڈال دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس پر سوار ہوئے، پس سعد نے چاہا کہ اس کا بیٹا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے بیٹھ جائے تاکہ وہ گدھا واپس لے آئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اسے میرے ساتھ بھیجنا ہی چاہتے ہو تو اسے میرے آگے سوار کرو۔ اس نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اﷲ! بلکہ آپ کے پیچھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سواری کا مالک اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اسے آپ کے ساتھ نہیں بھیجتا لیکن آپ خود ہی دراز گوش کو لوٹا دیجئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے واپس لوٹایا وہ نہایت تیز رفتار ہوچکا تھا اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
29 /29. عَنْ أَبِي مَنْظُوْرٍ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَعْنِي خَيْبَرَ… أَصَابَ فِيْهَا حِمَارًا أَسْوَدَ، مُکَبَّـلًا قَالَ: فَکَلَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْحِمَارَ فَکَلَّمَهُ الْحِمَارُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: يَزِيْدُ بْنُ شِهَابٍ أَخْرَجَ اﷲُ تَعَالَی مِنْ نَسْلِ جَدِّي سِتِّيْنَ حِمَارًا کُلَّهُمْ لَا يَرْکَبُهُمْ إِلَّا نَبِيٌّ قَدْ کُنْتُ أَتَوَقَّعُکَ أَنْ تَرْکَبَنِي لَمْ يَبْقَ مِنْ نَسْلِ جَدِّي غَيْرِي وَلَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُکَ. قَدْ کُنْتُ قَبْلَکَ لِرَجُلٍ يَهُوْدِيٍّ وَکُنْتُ أَتَعَثَّرُ بِهِ عَمَدًا، وَکَانَ يُجِيْعُ بَطْنِي وَيَضْرِبُ ظَهْرِي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : فَأَنْتَ يَعْفُوْرُ. يَا يَعْفُوْرُ، قَالَ: لَبَّيْکَ … قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَرْکَبُهُ فِي حَاجَتِهِ وَإِذَا نَزَلَ عَنْهُ بَعَثَ بِهِ إِلَی بَابِ الرَّجُلٍ فَيَأْتِي الْبَابَ فَيَقْرَعُهُ بِرَأْسِهِ، فَإِذَا خَرَجَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الدَّارِ أَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ أَجِبْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم جَاءَ إِلَی بِئْرٍ کَانَتْ لِأَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ فَتَرَدَّی فِيْهَا جَزِعًا عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَصَارَتْ قَبْرَهُ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
29: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق،4 /232، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 151 .
’’ابو منظور بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خیبر کو فتح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایااور وہ پابہ زنجیر تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے کلام فرمایا تو اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کلام کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میرا نام یزید بن شہاب ہے، اﷲ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کئے، ان میں سے ہر ایک پر سوائے نبی کے کوئی سوار نہیں ہوا۔ میں توقع کرتا تھا کہ آپ مجھ پر سوار ہوں، کیونکہ میرے دادا کی نسل میں سوائے میرے کوئی باقی نہیں رہا اور انبیاء کرام میں سوائے آپ کے کوئی باقی نہیں رہا۔ میں آپ سے پہلے ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا۔ وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مجھے مارتا پیٹتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے فرمایا: آج سے تیرا نام یعفور ہے۔ اے یعفور! اس نے لبیک کہا راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس پر سواری فرمایا کرتے تھے اور جب اس سے نیچے تشریف لاتے تو اسے کسی شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات سنے۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گئے تو وہ ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فراق کے غم میں اس میں کود پڑا۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
30 /30. عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْهَا أَسَدٌ فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِهِ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَطَأْطَأَ رَأْسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِهِ شِقِّي. فَمَا زَالَ يَغْمِزُنِي وَيَهْدِيْنِيِ إِلَی الطَّرِيْقِ حَتَّی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِيْقِ. فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَوَدِّعُنِي.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ:هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
30: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 /675، الرقم: 4235: 3 /702، الرقم: 6550، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 /195، الرقم: 663، والطبراني في المعجم الکبير، 7 /80، الرقم: 6432، وابن راشد في الجامع ، 11 /281، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 /158، الرقم: 114، والبغوي في شرح السنة، 13، 313، الرقم: 3732، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 /400، الرقم: 5949.
’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر) سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر کی کنیت)! میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا۔ پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی، بغوی اور بخاری نے تاریخ کبیر میں روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
31 /31. عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَنَّ سَفِيْنَةَ مَوْلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَخْطَأَ الْجَيْشَ بَأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فِي أَرْضِ الرُّوْمِ. فَانْطَلَقَ هَارِبًا يَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا بِالْأَسَدِ. فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَإِنَّ مِنْ أَمْرِي کَيْتَ وَکَيْتَ. فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَهُ بَصْبَصَةً حَتَّی قَامَ إِلَی جَنْبِهِ. کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَتَی إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي إِلَی جَنْبِهِ. فَلَمْ يَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ.
رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
31: أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11 /281، والبيهقي فيدلائل النبوة، 6 /46، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 /159، الرقم: 114، وابن کثير في شمائل الرسول، 346، 347،والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 /400، الرقم: 5949.
’’حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کردیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر ان کے سامنے آگیا۔ انہوں نے اس سے کہا: اے ابو حارث! میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا ان کی طرف آیا اور ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ جب بھی وہ (کسی درندے کی) آواز سنتا تو وہ شیر فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آجاتا اور ان کے پہلو میں چلنا شروع کردیتا۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔‘‘
اس حدیث کو ابن راشد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
32 /32. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: عَدَا الذِّئْبُ عَلَی شَاةٍ فَأَخَذَهَا، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي، فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَأَقْعَی الذِّئْبُ عَلَی ذَنَبِهِ. قَالَ: أَ لَا تَتَّقِي اﷲَ تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اﷲُ إِلَيَّ؟ فَقَالَ: يَا عَجَبِي، ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلَی ذَنَبِهِ يُکَلِّمُنِي کَلَامَ الإِنْسِ؟ فَقَالَ الذِّئْبُ: أَ لَا أُخْبِرُکَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِکَ؟ مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم بِيَثْرِبَ يُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ. قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّاعِي يَسُوْقُ غَنَمَهُ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ، فَزَوَاهَا إِلَی زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهَا، ثُمَّ أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَخْبَرَهُ. فَأَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَنُوْدِيَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِي: أَخْبِرْهُمْ. فَأَخْبَرَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : صَدَقَ. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی يُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَيُکَلِّمُ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاکُ نَعْلِهِ، وَيُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَدْ صَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: هَذَا إِسْنَادٌ عَلَی شَرْطِ الصَّحِيْحِ.
32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /83، 88، الرقم: 11809، 11859، والحاکم في المستدرک، 4: 514، الرقم: 8444، و عبد بن حميد في المسند ، 1: 277، الرقم: 877، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /41، 42، 43، وابن کثير في شمائل الرسول: 339، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /291، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 113، الرقم: 116.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھالیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کرلیا اور اس نے چرواہے سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہوکر کہا: بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کو اپنے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس معاملہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم پر با جماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
33 /33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالََ: جَاءَ ذِئْبٌ إِلَی رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً. فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّی انْتَزَعَهَا مِنْهُ. قَالَ: فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلَی تَلٍّ، فَأَقْعَی وَاسْتَذْفَرَ فَقَالَ: عَمَدْتَ إِلَی رِزْقٍ رَزَقَنِيْهِ اﷲُ انْتَزَعْتَهُ مِنِّي. فَقَالَ الرَّجُلُ: تَاﷲِ، إِنْ رَأَيْتُ کَالْيَوْمِ ذِئْبًا يَتَکَلَّمُ. قَالَ الذِّئْبُ: أَعْجَبُ مِنْ هَذَا رَجُلٌ فِي النَّخَلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ يُخْبِرُکُمْ بِمَا مَضَی وَبِمَا هُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ. وَکَانَ الرَّجُلُ يَهُوْدِيًّا. فَجَاءَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَأَسْلَمَ وَخَبَّرَهُ. فَصَدَّقَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّهَا أَمَارَةٌ مِنْ أَمَارَاتٍ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ. قَدْ أَوْشَکَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ فَـلَا يَرْجِعَ حَتَّی تُحَدِّثَهُ نَعْلَاهُ وَسَوْطُهُ مَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ رَاهَوَيْهِ.
وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ وَهُوَ عَلَی شَرْطِ السُّنَنِ.
33: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /306، الرقم: 8049، وعبد الرزاق في المصنف، 11: 383، الرقم: 20808، وابن راهويه في المسند، 1 /357، الرقم: 360، وابن کثير في شمائل الرسول: 341، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /291، والأزدي في الجامع، 11: 383، الرقم: 20808وعبد بن حميد في المسند ، 1: 277، الرقم: 877، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /41، 42، 43، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 113، الرقم: 116.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک بھیڑیا کسی چرواہے کی بکریوں کے پاس آیا اور اُن میں سے ایک بکری اٹھا کر لے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے بکری نکلوا لی۔ بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں اپنی پشت کے بل گھٹنے اوپر اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی دم اوپر اٹھا کر کہنے لگا: تم نے میرے منہ سے وہ رزق چھین لیا ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا تھا۔ اس چرواہے نے کہا: بخدا میں نے آج سا دن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ بھیڑیا باتیں کر رہا ہے۔ بھیڑئیے نے جواب دیا: اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک آدمی ( یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) دو میدانوں کے درمیان واقع نخلستانوں (مدینہ) میں بیٹھا جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے اُس کی خبریں لوگوں کو دے رہا ہے۔ وہ آدمی ( یعنی چرواہا) یہودی تھا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور پھر فرمایا: یہ قیامت سے قبل واقع ہونے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ وقت قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے گھر سے نکلے گا اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور اس کا چابک اسے بتائیں گے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیاکیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو تنہا امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ سنن کی شرائط پر ہے۔
34 /34. عَنْ أُهْبَانَ بْنِ أَوْسٍ: کُنْتُ فِي غَنَمٍ لِي، فَکَلَّمَهُ الذِّئْبُ، فَأَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَأَسْلَمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
34: أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 2 /44، الرقم: 1633، والعسقلاني في فتح الباری، 7 /452، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /44
’’حضرت اُھبان بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنی بکریوں کے پاس تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اس نے مجھ سے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کے متعلق) کلام کیا۔ پس وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
35 /35. عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ قَالَ: صَلَّی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيْبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وَفُوْدُ الذِّئَابِ. فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : تَرْضَخُوْا لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِکُمْ وَتَأْمَنُوْنَ عَلَی مَا سِوَی ذَلِکَ؟ فَشَکَوْا إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْحَاجَةَ. قَالَ: فَآذِنُوْهُنَّ. قَالَ: فَآذَنُوْهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
35: أخرجه الدارمي في السنن، 1 /25، الرقم: 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4: 376.
’’حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
36 /36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ الذِّئْبُ فَأَقْعَی بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ بَصْبَصَ بِذَنَبِهِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : هَذَا الذِّئْبُ وَهُوَ وَافِدُ الذِّئَابِ. فَهَلْ تَرَوْنَ أَنْ تَجْعَلُوْا لَهُ مِنْ أَمْوَالِکُمْ شَيْئًا؟ قَالَ: فَقَالُوْا بَأَجْمَعِهِمْ: لَا وَاﷲِ، مَا نَجْعَلُ لَهُ شَيْئًا. قَالَ: وَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حَجَرًا فَرَمَاهُ، فَأَدْبَرَ الذِئْبُ وَلَهُ عُوَاءٌ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : الذِّئْبُ وَمَا الذِّئْبُ. رَوَاهُ ابْنُ رَاهَوَيْهِ.
36: أخرجه ابن راهويه في المسند، 1 /269، الرقم: 239، البيهقي في دلائل النبوة، 6 /40، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /292، وابن کثير في شمائل الرسول: 344،وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /359.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک بھیڑیا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لئے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے بیک زبان کہا: خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔
37 /37. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ حَنْطَبٍ رضی الله عنه قَالَ: بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم جَالِسٌ بِالْمَدِيْنَةِ فِي أَصْحَابِهِ إِذْ أَقْبَلَ ذِئْبٌ فَوَقَفَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَعَوَی بَيْنَ يَدَيْهِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : هَذَا وَافِدُ السِّبَاعِ إِلَيْکُمْ. فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَفْرِضُوْا لَهُ شَيْئًا لَا يَعْدُوْهُ إِلَی غَيْرِهِ، وَإِنْ أَحْبَبْتُمْ تَرَکْتُمُوْهُ وَتحَرَّزْتُمْ مِنْهُ. فَمَا أَخذَ فَهُوَ رِزْقُهُ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا تَطِِيْبُ أَنْفُسُنَا لَهُ بِشَيئٍ. فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بِأَصَابِعِهِ أَيْ خَالِسْهُمْ. فَوَلَّی وَلَهُ عَسَلَانُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
37: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /359، وابن کثير في شمائل الرسول: 344، 345.
’’حضرت مطلب بن عبد اﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں، اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔‘‘
اس حدیث کو ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
38 /38. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ فَشَدَدْتُ عَلَی غَنَمِي. فَجَاءَ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً. فَاشْتَدَّ الرِّعَاءُ خَلْفَهُ. فَقَالَ: طُعْمَةٌ أَطْعَمَنِيْهَا اﷲُ تَنْزِعُوْنَهَا مِنِّي؟ قَالَ: فَبُهِتَ الْقَوْمُ. فَقَالَ: مَا تَعْجَبُوْنَ مِنْ کَلَامِ الذِّئْبِ، وَقَدْ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَی مُحَمَّدٍ، فَمَنْ مُصَدِّقٌ وَمُکَذِّبٌ. رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ کَمَا قَالَ ابْنُ کَثِيرٍ.
38: أخرجه ابن کثير في شمائل الرسول: 342، والعيني في عمدة القاري، 12 /160، الرقم: 4232.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں غزوہ تبوک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ میں اپنی بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا۔ چرواہوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس نے کہا: یہ میرا کھانا ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ تم مجھ سے یہ چھین رہے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ مبہوت ہوگئے۔ اس نے کہا: تم بھیڑئیے کے کلام کرنے پر تعجب کا اظہار کر رہے ہو جبکہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا ہے تو کون ہے جو ان کی تصدیق کرتا ہے اور کون ہے جو انہیں جھٹلاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام ابن کثیر نے فرمایا ہے۔
39 /39. عَنْ حَمَزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بِالْبَقِيْعِ، فَإِذَا الذِّئْبُ مُفْتَرِشًا ذِرَاعَيْهِ عَلَی الطَّرِيْقِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : هَذَا أُوَيْسٌ يَسْتَفْرِضُ فَافْرِضُوْا لَهُ. قَالُوْا: نَرَی رَأْيَکَ، يَارَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: مِنْ کُلِّ سَائِمَةٍ شَاةٌ فِي کُلِّ عَامٍ. قَالُوْا: کَثِيْرٌ. قَالَ: فَأَشَارَ إِلَی الذِّئْبِ أَنْ خَالِسْهُمْ. فَانْطَلَقَ الذِّئْبُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ عَدِيٍّ: قَالَ لَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنِ أَبِي دَاوُدَ: وَلَدُ هَذَا الرَّاعِي يُقَالُ لَهُمْ بَنُوْ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ. وَلَهُمْ أَمْوَالٌ وَنَعَمٌ، وَهُمْ مِنْ خَزَاعَةَ. وَاسْمُ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ أُهْبَانُ. قَالَ: وَمُحَمَّدُ بْنُ أَشْعَثَ الْخَزَاعِيُّ مِنْ وَلَدِهِ.
39: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /40، وابن کثير في البدية والنهية، 6 /146، وفي شمائل الرسول: 343، 344، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 /62.
’’حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن عدی کہتے ہیں: ’’ہمیں ابو بکر بن ابی داود نے بتایا کہ اس چرواہے کی اولاد کو ’’مکلم الذئب (بھیڑئیے سے کلام کرنے والا) کی اولاد کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا۔ اور ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا اور بھیڑئیے سے کلام کرنے والے شخص کا نام اُہْبَان تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ محمد بن اشعث خزاعی ان کی اولاد میں سے تھے۔‘‘
40 /40. رَوَی ابْنُ وَهْبٍ مِثْلَ هَذَا أَنَّهُ جَرَی لِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَةَ مَعَ ذِئْبٍ وَجَدَاهُ أَخَذَ ظَبْياً. فَدَخَلَ الظَّبْيُ الْحَرَمَ، فَانْصَرَفَ الذِّئْبُ، فَعَجِبَا مِنْ ذَلِکَ. فَقَالَ الذِّئْبُ: أَعْجَبُ مِنْ ذَلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بِالْمَدِيْنَةِ يَدْعُوْکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ وَتَدْعُوْنَهُ إِلَی النَّارِ. فَقَالَ أَبُوْ سُفْيَانَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی! لَئِنْ ذَکَرْتَ هَذَا بِمَکَّةَ لَتَتْرُکَنَّهَاخُلُوْفًا. رَوَاهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ.
40: أخرجه القاضي عياض في الشفاء: 379، وابن کثير في شمائل الرسول: 345
’’ابن وہب نے بھی اسی کی مثل حدیث روایت کی ہے کہ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کا بھی بھیڑیے کے ساتھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پس ہرن حرم میں داخل ہو گیا تو بھیڑیا واپس مڑ گیا (اور حرم میں داخل نہیں ہوا)۔ اس پر ان دونوں نے اس سے بڑا تعجب کیا۔ بھیڑیے نے کہا اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ محمد بن عبد اﷲ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مدینہ میں تمہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور تم انہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ اس پر ابو سفیان نے کہا: لات و عزّی کی قسم، اگر تویہ بات مکہ میں کہتا تو ضرور مکہ والوں کو خالی گھروں والا کردیتا (یعنی وہ یہ معجزہ دیکھ کر مدینہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں چلے جاتے)۔‘‘
اس حدیث کو قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
41 /41. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ ِلآلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَحْشٌ. فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ.فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ يَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي الْبَيْتِ، کَرَاهِيَةَ أَنْ يُؤْذِيَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْيَعْلَی.
41: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /112، 150، الرقم: 24862، 25210، وأبويعلی في المسند، 8 /121، الرقم: 4660، وابن راهويه في المسند، 3 /617، الرقم: 1192، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 /195، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /31، وابن عبد البر في التمهيد، 6 /314، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /3.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آل (یعنی اہلِ بیت) کے لئے ایک بیل رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آجاتا اور (حالتِ وجد میں) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا۔ اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر میں موجود رہتے اس ڈر سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
42 /42. عَنْ مُجاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَحْشٌ. فَکانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إذا خَرَجَ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ. فَإِذَا أَحَسَّ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ يَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي الْبَيْتِ، مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذِيَهُ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی.
42: أخرجه أبو يعلی في المسند، 8 /121، الرقم: 4660، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /112، الرقم: 24862، وابن راهويه في المسند، 3 /617، الرقم: 1192، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /31، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 /195، وابن عبد البر في التمهيد، 6 /314.
’’حضرت مجاہد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہلِ بیت کے لئے ایک بیل تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا اور (فرحتِ دیدار سے) جوش میں آجاتا اور(وجد کرتا ہوا) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا ۔ جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر اس ڈر سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف نہ ہو سکون سے کھڑا ہوجاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر میں موجود رہتے ۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
43 /43. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ فِي مَحْفَلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَدْ صَادَ ضَبًّا وَجَعَلَهُ فِي کُمِّهِ فَذَهَبَ بِهِ إِلَی رَحْلِهِ. فَرَأَی جَمَاعَةً فَقَالَ: عَلَی مَنْ هَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالُوْا: عَلَی هَذَا الَّذِي يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ. فَشَقَّ النَّاسَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا اشْتَمَلَتِ النِّسَاءُ عَلَی ذِي لَهْجَةٍ أَکَْذَبَ مِنْکَ وَلاَ أَبْغَضَ. وَلَوْ لَا أَنْ يُسَمِّيَنِي قَوْمِي عَجُوْلاً لَعَجِلْتُ عَلَيْکَ فَقَتَلْتُکَ، فَسَرَرْتُ بِقَتْلِکَ النَّاسَ جَمِيْعًا. فَقَالَ عُمَرُ: يَارَسُوْلَ اﷲِ، دَعْنِي أَقْتُلْهُ. فََقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحَلِيْمَ کَادَ أَنْ يَکُوْنَ نَبِيًّا ثُمَّ أَقْبَلَ ]الْأَعْرَابِيُّ[ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ. وَقَدْ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَا أَعْرَابِيُّ، مَاحَمَلَکَ عَلَی أَنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ، وَقُلْتَ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَمْ تُکْرِمْ مَجْلِسِي؟ فَقَالَ: وَتُکَلِّمُنِي أَيْضًا! اِسْتِخْفَافًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ أَوْ يُؤْمِنُ بِکَ هَذَا الضَّبُ. فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ کُمِّهِ وَطَرَحَهُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: إِنْ آمَنَ بِکَ هَذَا الضَّبُ آمَنْتُ بِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَاضَبُّ. فَتَکَلَّمَ الضَّبُ بِکَلاَمٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ فَهِمَهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا: لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، يَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ: الَّذِي فِي السَّمَاءِ عَرْشُهُ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيْلُهُ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ. قَالَ: فَمَنْ أَنَا، يَا ضَبُّ؟ قَالَ: أَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اﷲُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اﷲِ حَقًّا. لَقَدْ أَتَيْتُکَ وَمَا عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ هُوَ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْکَ، وَاﷲِ، لَأَنْتَ السَّاعَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مَنْ نَفْسِي وَمِنْ وَالِدِي. وَقَدْ آمَنَتْ بِکَ شَعَرِي وَبَشَرِي وَدَاخِلِي وََخَارِجِي وَسِرِّي وَعَـلَانِيَتِي. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي هَدَاکَ إِلَی هَذَا الدِّيْنِ الَّذِي يَعْلُوْ وَلاَ يُعْلَی. لَا يَقْبَلُهُ اﷲُ إِلاَّ بِصَلَاةٍ وَلاَ يُقْبَلُ الصَّلَاةُ إِلاَّ بِقِرَاءَ ةٍ. فَعَلَّمَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ’’اَلْحَمْدُ‘‘ وَ ’’قُلْ هُوَاﷲُ أَحَدٌ‘‘. فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اﷲِ، مَا سَمِعْتُ فِي الْبَسِيْطِ وَلاَ فِي الرَّجَزِ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ هَذَا کَلَامُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَلَيْسَ بِشِعْرٍ. إِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّةً فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّتَيْنِ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَيِ الْقُرْآنِ، وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ وَنِعْمَ الإِْلهُ إِلهُنَا، يَقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَيُعْطِي الْجَزِيْلَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَعْطُوْا الْأَعْرَابِيَّ. فَأَعْطُوْهُ حَتَّی أَبْطَرُوْهُ. فَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أُعْطِيَهُ نَاقَةً أَتَقَرَّبُ بِهَا إِلَی اﷲِ دُوْنَ الْبُخْتِي وَفَوْقَ الْأَعْرَابِيِّ وَهِيَ عُشَرَاءُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : قَدْ وَصَفْتَ مَا تُعْطِي، فَأَصِفُ لَکَ مَا يُعْطِيْکَ اﷲُ جَزَاءً؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: لَکَ نَاقَةٌ مِنْ دُرَّةٍ جَوْفَاءَ، قَوَائِمُهَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَخْضَرَ وَعُنُقُهَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَصْفَرَ. عَلَيْهَا هَوْدَجٌ، وَعَلَی الْهَوْدَجِ السُّنْدُسُ وَالإِْسْتَبْرَقُ تَمُرُّ بِکَ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ. فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَلَقِيَهُ أَلْفُ أَعْرَابِيٍ عَلَی أَلْفِ دَابَةٍ بِأَلْفِ رُمْحٍ وَأَلْفِ سَيْفٍ. فَقَالَ لَهُمْ: أَيْنَ تُرِيْدُوْنَ؟ فَقَالُوْا: نُقَاتِلُ هَذَا الَّذِي يَکْذِبُ وَيَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ. فَقَالُوْا لَهُ: صَبَوْتَ؟ قَالَ: مَا صَبَوْتُ وَحَدَّثَهُمُ الْحَدِيْثَ. فَقَالُوْا بِأَجْمِعِهِمْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ. فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَ صلی الله عليه واله وسلم ، فَتَلَقَّاهُمْ بِلَا رِدَاءٍ فَنَزَلُوْا عَنْ رِکَابِهِمْ يُقَبِّلُوْنَ مَا وَلَّوْا مِنْهُ وَهُمْ يَقَوْلُوْنَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ. فَقَالُوْا: مُرْنَا بِأَمْرٍ تُحِبُّهُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: تَکُوْنُوْنَ تَحْتَ رَايَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيْدِ. قَالَ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ آمَنَ مِنْهُمْ أَلْفُ رَجُلٍ جَمِيْعًا غَيْرَ بَنِي سُلَيْمٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
43: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 /126.129، الرقم: 5996، وفي المعجم الصغير، 2 /153.155، الرقم: 948، وأبو نعيم في دلائل النبوة: 377.379، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /36.38، والهيثمي فيمجمع الزوائد، 8 /292.294، وابن کثير في شمائل الرسول، 351.353، والسيوطی في الخصائص الکبری، 2 /65.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک اعرابی آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا: یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہوگا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا: کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے گوہ(کلام کر)! پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس گوہ نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا اور بخدا اس وقت آپ مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ پر ایمان لا چکا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ جل مجدہ کے لئے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے فرمایا: یہ رب دوجہاں کا کلام ہے، شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اور تم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ پھر اعرابی نے کہا ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں، اب میں تمہارے لئے اس اونٹنی کی صفات بیان کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے باہر نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار تیروں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ اس اعرابی نے ان سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے) پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں ملنے کے لئے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ کو پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
44 /44. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قاَلَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي سَفَرٍ فَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْهَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاهُمَا. قَالَ: فَجَاءَ تِ الْحُمَّرَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم وَهِيَ تَعَرَّضُ، فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِفَرْخَيْهَا؟ قَالَ: قُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: رُدُّوْهُمَا قَالَ: فَرَدَدْنَاهُمَا إِلَی مَوَاضِعِهِمَا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
44: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1.321، والهناد في الزهد، 2 /620، الرقم: 1337.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے۔ ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کس نے اس چَنڈُول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں: پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لئے تھے وہیں رکھ دیے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
45 /45. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَبْعَدَ الْمَشْيَ فَانْطَلَقَ ذَاتَ يَوْمٍ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَبِسَ أَحَدَ خَفَّيْهِ فَجَاءَ طَائِرٌ أَخْضَرُ فَأَخَذَ الْخُفَّ الْآخَرَ فَارْتَفَعَ بِهِ ثُمَّ أَلْقَاهُ فَخَرَجَ مِنْهُ أَسْوَدُ سَابِحٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : هَذِهِ کَرَامَةٌ أَکْرَمَنِيَ اﷲُ بِهَا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اَللَّهُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلَی بَطْنِهِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلَی رِجْلَيْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلَی أَرْبَعٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
45: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 121، الرقم: 9304، وأبونعيم في دلائل النبوة، 1 /198، الرقم: 150، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 /203.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو آبادی سے دور تشریف لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دن قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے پھر وضو فرمایا اور اپنے دو موزوں میں سے ایک موزہ پہنا کہ اچانک ایک سبز پرندہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دوسرا موزہ لے اڑا، پھر اسے نیچے پھینکا تو اس میں سے ایک سیاہ سانپ نکلا (اس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس موذی جانور سے حفاظت فرمائی) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے اﷲتعالیٰ نے میری تکریم فرمائی ہے۔ پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر اس (موذی جانور) سے جو پیٹ کے بل چلتاہے اور ہر اس کے شر سے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور اس کے شر سے جو چار ٹانگوں پر چلتاہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
46 /46. عَنْ أَبِيأُمَامَةَ قَالَ: دَعَا رَسُولُ اﷲ صلی الله عليه واله وسلم بِخُفَّيْهِ، يَلْبَسُهُمَا فَلَبِسَ أَحَدَهُمَا، ثُمَّ جَاءَ غُرَابٌ فَاحْتَمَلَ الآخَرَ فَرَمَی بَهِ، فَخَرَجَتْ مِنْهُ حَيَةٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه واله وسلم : مَنْ کَانَ يُؤمِنُ بِاﷲِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلا يَلْبَسْ خُفَّيْهِ حَتّی يَنْفُضَهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
46: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 /137، الرقم: 7620، وفي مسند الشاميين، 1 /312، الرقم: 547، والديلمي في مسند الفردوس، 3 /511، الرقم: 5591، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 /140، والمناوي في فيض القدير، 6 /211.
’’حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دونوں موزے پہننے کے لیے منگوائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک موزہ پہنا تھا کہ ایک کوا آیا اور دوسرا موزہ اُٹھا کر لے گیا اور اُوپر جا کر پھینک دیا۔ اس موزے میں سے ایک سانپ نکلا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اﷲ تعالیٰ اور یومِ آخرت پراِیمان رکھتا ہے تو وہ اپنے موزے جھاڑے بغیر نہ پہنے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved