اِسلام میانہ روی اور اعتدال کا دین ہے۔ اللہ تبارک و تعاليٰ نے ملتِ اسلامیہ کا تعارف یوں فرمایا ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا.
البقرة، 2: 143
’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا۔‘‘
امت وسط سے مراد ہی میانہ روی اور اعتدال والی امت ہے۔ یہ اعتدال فکر و نظر میں بھی ہے اور عمل و کردار میں بھی۔ یہی اسلام کا وصف ہے۔ جو گروہ یا طبقہ میانہ روی سے جتنا دور ہوتا گیا وہ روحِ اسلام سے بھی اتنا دور چلا گیا۔ مختلف ادوار میں کچھ ایسے گروہ بھی مسلمانوں میں سے ظاہر ہوئے جو اسلام کی راہ اعتدال سے اتنا دور ہوگئے کہ اسلام کی بات کرنے، اسلامی عبادات انجام دینے اور اسلامی شکل و صورت اختیار کرنے کے باوجود اسلام سے خارج تصور کیے گئے۔ انہی طبقات میں سرِفہرست گروہ ’’خوارج‘‘ کا ہے۔
خوارج کی ابتداء دورِ نبوی میں ہی ہوگئی تھی۔ بعد ازاں دورِ عثمانی میں ان کی فکر پروان چڑھی اور پھر دورِ مرتضوی میں ان کا عملی ظہور منظم صورت میں سامنے آیا۔ اللہ تبارک و تعاليٰ نے قرآن حکیم میں کئی مقامات پر ان خوارج کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی کثیر احادیث مبارکہ میں ان کی واضح علامات اور عقائد و نظریات بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ خوارج دراصل اسلام کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرتے تھے اور مسلمانوں کے خون کو اپنے انتہاء پسندانہ اور خود ساختہ نظریات و دلائل کی بناء پر مباح قرار دیتے تھے۔ لہٰذا اس حصہ بحث میں خوارج کی علامات و خصوصیات کے تفصیلی مطالعے سے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ موجود دور کے دہشت گرد عناصر کا فکری و عملی طور پر خوارج سے کیا تعلق ہے۔
قبل اس کے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں خوارج کی علامات اور عقائد و نظریات کا جائزہ لیا جائے، بعض کتب اسلاف سے خوارج کی چند واضح تعریفات درج کی جا رہی ہیں تاکہ ابتداء میں ہی واضح ہوجائے کہ خارجی کسے کہا جاتا ہے۔
1۔ امام محمد بن عبد الکریم شہرستانی، خوارج کی تعریف میں لکھتے ہیں:
کل من خرج عن الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمی خارجيًا سواءً کان الخروج في أيام الصحابة علی الأئمة الراشدين أو کان بعدهم علی التابعين بإحسان والأئمة في کل زمان.
شهرستانی، الملل والنحل: 114
’’ہر وہ شخص جو عوام کی متفقہ مسلمان حکومتِ وقت کے خلاف مسلح بغاوت کرے اسے خارجی کہا جائے گا؛ خواہ یہ خروج و بغاوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں خلفاے راشدین کے خلاف ہو یا تابعین اور بعد کے کسی بھی زمانہ کی مسلمان حکومت کے خلاف ہو۔‘‘
2۔ امام نووی، خوارج کی تعریف یوں کرتے ہیں:
الخوارج: صنف من المبتدعة يعتقدون أن من فعل کبيرة کفر، وخلد فی النار، ويطعنون لذلک فی الأئمة ولا يحضرون معهم الجمعات والجماعات.
نووی، روضة الطالبين، 10: 51
’’خوارج بدعتیوں کا ایک گروہ ہے۔ یہ لوگ گناهِ کبیرہ کے مرتکب کے کافر اور دائمی دوزخی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم اُمراء و حکام پر طعن زنی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین وغیرہ کے اجتماعات میں شریک نہیں ہوتے۔‘‘
3۔ علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:
کانوا أهل سيف وقتال، ظهرت مخالفتهم للجماعة؛ حين کانوا يقاتلون الناس. وأما اليوم فلا يعرفهم أکثر الناس.. . . ومروقهم من الدين خروجهم باستحلالهم دماء المسلمين وأموالهم.
ابن تيمية، النبوات: 222
’’وہ اسلحہ سے لیس اور بغاوت پر آمادہ تھے، جب وہ لوگوں سے قتال کرنے لگے تو اُن کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مخالفت و عداوت ظاہر ہوگئی۔ تاہم عصرِ حاضر میں (بظاہر دین کا لبادہ اوڑھنے کی وجہ سے) لوگوں کی اکثریت انہیں پہچان نہیں پاتی۔ ۔ ۔ ۔ وہ دین سے نکل گئے کیوں کہ وہ مسلمانوں کے خون اور اَموال (جان و مال) کو حلال و مباح قرار دیتے تھے۔‘‘
علامہ ابنِ تیمیہ مزید بیان کرتے ہیں:
وهؤلاء الخوارج ليسوا ذلک المعسکر المخصوص المعروف فی التاريخ، بل يخرجون إلی زمن الدجّال (1). وتخصيصه صلی الله عليه وآله وسلم للفئة التی خرجت فی زمن علی بن أبی طالب، إنما هو لمعان قامت بهم، وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم، لأن التخصيص بالذکر لم يکن لاختصاصهم بالحکم، بل لحاجة المخاطبين فی زمنه عليه الصلاة والسلام إلی تعيينهم (2).
(1) ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28: 495، 496
(2) ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28: 476، 477
اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میںمعروف ہے بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ کا اُس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ حضور ﷺ کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی حاجت تھی۔‘‘
4۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:
الخوارج: فهم جمع خارجة أی طائفة، وهم قوم مبتدعون سموا بذلک لخروجهم عن الدين، وخروجهم علی خيار المسلمين.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 283
’’خوارج، خارجۃ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے: ’’گروہ۔‘‘ وہ ایسے لوگ ہیں جو بدعات کا ارتکاب کرتے۔ ان کو (اپنے نظریہ، عمل اور اِقدام کے باعث) دینِ اسلام سے نکل جانے اور خیارِ اُمت کے خلاف (مسلح جنگ اور دہشت گردی کی) کارروائیاں کرنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔‘‘
5۔ امام بدر الدین عینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:
طائفة خرجوا عن الدين وهم قوم مبتدعون سموا بذلک لأنهم خرجوا علی خيار المسلمين.
عينی، عمدة القاری، 24: 84
’’وہ ایسے لوگ ہیں جو دین سے خارِج ہوگئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو بدعات کا ارتکاب کرتے تھے (یعنی وہ اُمور جو دین میں شامل نہ تھے ان کو دین میں شامل کرتے تھے)۔ (دینِ اِسلام سے نکل جانے اور) بہترین مسلمانوں کے خلاف (مسلح بغاوت اور دہشت گردی کی) کارروائیاں کرنے کی وجہ سے اُنہیں خوارِج کا نام دیا گیا۔‘‘
6۔ علامہ ابنِ نجیم حنفی، خوارج کی تعریف یوں کرتے ہیں:
الخوارج: قومٌ لَهم منعة وحمية خرجوا عليه بتأويل يرون أنه علی باطل کفر أو معصية توجب قتاله بتأويلهم يستحلون دماء المسلمين وأموالهم.
ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 234
’’خوارج سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت اور (نام نہاد دینی) حمیت ہو اور وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ کفر یا نافرمانی کے ایسے باطل طریق پر ہے جو ان کی خود ساختہ تاویل کی بنا پر حکومت کے ساتھ قتال کو واجب کرتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے قتل اور ان کے اموال کو لوٹنا جائز سمجھتے ہیں۔‘‘
اِس ابتدائی تعارف کے بعد ہم خوارج کی دہشت گردی، انتہاء پسندی اور مسلم اُمّہ کے خلاف بربریت اور ظالمانہ کاررَوائیوں کی مذمت میں ترتیب وار آیاتِ مقدسہ اور احادیثِ مبارکہ کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے مفاہیم سے آگاہ ہونے کے لئے کتبِ تفاسیر، شروحاتِ حدیث اور دیگر مصادر و مآخذ کا بھی مطالعہ کریں گے۔
قرآن حکیم نے کئی مقامات پر لوگوں کے ناحق بے دردانہ قتل، دہشت گردانہ بمباری، پُراَمن آبادیوں پر خود کش حملوں جیسے انتہائی سفاکانہ اقدامات اور انسانی قتل و غارت گری کی نفی کی ہے۔ دہشت گردی کی یہ ساری بہیمانہ صورتیں شرعی طور پر حرام اور اسلامی تعلیمات سے صریح اِنحراف ہیں اور اَز رُوے قرآن بغاوت و محاربت، فساد فی الارض اور اِجتماعی قتلِ انسانی میں داخل ہیں (جیسا کہ گزشتہ ابواب میں بالتفصیل ان پر بحث ہو چکی ہے)۔ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کئی مقامات پر بالصراحت خوارج کی علامات و بدعات اور ان کی فتنہ پروری و سازشی کارروائیوں اور بغاوت کے بارے میں واضح ارشادات ملتے ہیں۔ سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے ذیل میں چند ارشاداتِ باری تعاليٰ ملاحظہ ہوں:
سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے:
هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِه ج وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهُ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِه کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo
آل عمرآن، 3: 7
’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیر اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہل دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
1۔ امام ابنِ ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ آیت مذکورہ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم رازی، تفسير القرآن العظيم، 2: 594
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِی قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ﴾ (سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے) کی تفسیر میں حضور نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ اِن سے مراد خوارج ہیں۔‘‘
2۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس آیت کی تفسیر میں جو حدیث بیان فرمائی ہے، اس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اہل زیغ ۔ جو متشابہات کی پیروی کرتے ہیں ۔ سے مراد ’’خوارج‘‘ ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 347
3۔ مفسر شہیر امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر لباب التاویل میں اہلِ زَیغ کی تفسیر فرماتے ہوئے جن گمراہ فرقوں کا نام لیا ہے ان میں خوارج کا نام بھی شامل ہے.
خازن، لباب التأويل، 1: 217
4۔ ابو حفص الحنبلی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی جو مفصل روایت بیان فرمائی ہے، وہ بڑی ہی فکر انگیز، حقیقت کشا اور قابلِ غور ہے۔ یہ روایت اہلِ زَیغ کی اصلیت اور ان کے باطنی انجام کو پوری طرح بے نقاب کر دیتی ہے۔ ابو حفص الحنبلی مذکورہ آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
وقال الحسن: هم الخوارج، وکان قتادة إذا قرأ هذه الآية ﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِی قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ﴾ قال: إن لم يکونوا الحرورية فلا أدري مَنْ هُمْ. . . . وعن أبي غالب قال: کنت أمشی مع أبي أمامة، وهو علی حمار حتی إذا انتهی إلی درج مسجد دمشق، فقال أبو أمامة: کلابُ النار، کلابُ النار، کلابُ النار، أو قتلی تحت ظل السماء، طوبی لمن قَتَلهم وقتلوه . يقولها ثلاثاً. ثم بکی، فقلت: ما يُبْکيک يا أبا أمامة؟ قال: رحمةً لهم، إنهم کانوا من أهل الإسلام (فصاروا کفارًا) فخرجوا منه. فقلت: يا أبا أمامة، هم هؤلاء؟ قال: نعم، قلت: أشیء تقوله برأيک، أم شیء سمعته من رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فقال: إنی إذَنْ لَجرِيء، إنی إذاً لَجَريءٌ، بل سمعته من رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم غيرَ مرةٍ ولا مرّتين، ولا ثلاث، ولا أربع، ولا خمس، ولا ست، ولا سبع، ووضع أصبعيه في أذنيه، قال: وإلّا فَصُمَّتَا . قالها ثلاثاً.
أبو حفص الحنبلی، اللباب في علوم الکتاب، 3: 437
’’حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ (آیت مذکورہ میں اہل زَیغ سے) مراد خوارج ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ جب بھی یہ آیت کریمہ تلاوت کرتے تو فرماتے: میں نہیں سمجھتا کہ اہل زیغ سے خوارج کے علاوہ کوئی اور گروہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ابو غالب روایت کرتے ہیں: میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد کی طرف چل رہا تھا اور وہ دراز گوش پر سوار تھے۔ جب وہ مسجد کے دروازے کے قریب پہنچے تو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: خوارج دوزخ کے کتے ہیں۔ انہوں نے یہ تین بار فرمایا۔ پھر انہوں نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور بتایا: آسمان کے نیچے یہ بدترین لوگ ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے انہیں قتل کیا اور وہ بھی خوش نصیب ہیں جو ان کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ یہ بتا کر ابو امامہ رونے لگ گئے۔ ان کی بد نصیبی پر بہت ہی افسردہ ہوئے اور بتایا: یہ مسلمان تھے لیکن اپنی کرتوتوں سے کافر ہو گئے۔ پھر یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں ’’اہل زیغ‘‘ کا ذکر ہے۔ ابو غالب روایت کرتے ہیں: میں نے ابو امامہ سے پوچھا: کیا یہی (خوارج) وہ (اہل زیغ) لوگ ہیں؟ بولے: ہاں! میں نے پوچھا: آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا ان کے بارے میں آپ نے یہ سب کچھ حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر ایسی بات ہو تب تو میں بڑی جسارت کرنے والا کہلاؤں گا۔ میں نے ایک، دو یا سات بار نہیں بلکہ بارہا یہ حضور ﷺ سے سنا ہے، اگر یہ بات سچی نہ ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین بار فرمائے۔‘‘
5۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو امام سیوطی نے بھی اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ حضور ﷺ نے اہل زیغ سے ’’خوارج‘‘ مراد لیے ہیں.
سیوطی، الدر المنثور، 2: 148
6۔ النّحاس نے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اہل زیغ، خوراج ہی ہیں۔
النحاس، معانی القرآن، 1: 349
سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے:
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo
آل عمران، 3: 106
’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا:) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لو۔‘‘
1۔ امام ابنِ ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے آیتِ مذکورہ کے ذیل میں حدیث روایت کی ہے:
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2: 594
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘
2۔ حافظ ابن کثیر نے بھی آیت مذکورہ کے تحت اس سے خوارج ہی مراد لیے ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 347
یہ قول ابن مردویہ نے حضرت ابو غالب اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے مرفوعاً روایت کیا ہے، امام احمد نے اسے اپنی مسند میں، امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں ابو غالب کے طریق سے روایت کیا ہے۔
3۔ امام سیوطی کا بھی یہی موقف ہے۔ انہوں نے بھی اس آیت میں مذکور لوگوں سے ’’خوارج‘‘ ہی مراد لئے ہیں۔
سيوطی، الدر المنثور، 2: 148
سورۃ آل عمران میں فرمان باری تعاليٰ ہے:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا يَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًاط وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ج وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَکْبَرُط قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَo
آل عمرآن، 3: 118
’’اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لیے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو۔‘‘
1۔ امام ابن ابی حاتم رازی نے آیت مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، أَنَّهُ قَالَ: هُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 3: 742
’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان (فتنہ انگیزی کرنے والوں) سے مراد ’’خوارج‘‘ ہیں۔‘‘
2۔ امام قرطبی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد خوارج ہیں۔ وہ تمہارے درمیان فساد پھیلانے سے باز نہیں آئیں گے۔ اگر دہشت گردی نہ کر سکے، تو مکر و فریب اور دھوکہ بازی ترک نہیں کریں گے۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 4: 179
سورۃ المائدۃ میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے:
اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo
المائدة، 5: 33
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔‘‘
1۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
من شهر السلاح في فئة الإسلام، وأخاف السبيل ثم ظفر به، وقدر عليه فإمام المسلمين فيه بالخيار، إن شاء قتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع يده ورجله.
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6: 214
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 51
’’جس نے مسلم آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پر امن طریقے سے گزرنا دشوار کر دیا، تو مسلمانوں کے حاکم کو اختیار ہے چاہے تو اسے قتل کرے، چاہے تو پھانسی دے اور چاہے تو حسبِ قانون کوئی اذیت ناک سزا دے۔‘‘
2۔ امام طبری اور حافظ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ سعید بن مسیب، مجاہد، عطاء، حسن بصری، ابراہیم النخعی اور ضحاک نے بھی اسی معنی کو روایت کیا ہے۔
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 51
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6: 214
3۔ اس کو امام سیوطی نے بھی ’’الدر المنثور (3: 68)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
4۔ امام قرطبی نے ’’الجامع لأحکام القرآن (6: 148)‘‘ میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک ایسے گروہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ کے باہر دہشت گردی کا ارتکاب کیا، قتل اور املاک لوٹنے کے اقدامات کیے جس پر انہیں عبرت ناک سزا دی گئی۔
5۔ علامہ زمخشری نے اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
يُحَارِبُون رسُول اللہ، ومحاربة المُسْلِمِين فی حکم مُحَارَبَتِه.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 661
’’ يُحَارِبُون رسُول اللهِ (یعنی) مسلمانوں کے ساتھ جنگ برپا کرنا رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کے حکم میں ہے۔‘‘
6۔ علامہ ابو حفص الحنبلی، علامہ زمخشری کی مذکورہ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں:
أنَّ المقصود أنَّهم يُحَارِبون رَسُول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وإنما ذکر اسْم اللہ تبارک وتعالی تَعْظِيماً وتَفْخِيماً لمن يُحَارَبُ، کقوله تعالی: ﴿إِنَّ الذين يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ﴾(1) - (2)
(1) الفتح، 48: 10
(2) أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 7: 303
’’مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرتے ہیں اور (اس آیت میں) اللہ تعاليٰ کا نام جنگ کا نشانہ بننے والوں کی عظمت اور قدر و منزلت بڑھانے کے لئے مذکور ہوا۔ جیسا کہ بیعتِ رضوان کے حوالے سے قرآن مجید میں فرمایا گیا: ((اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔)‘‘
7۔ اس آیت سے یہ مفہوم بھی اَخذ ہوتا ہے کہ راہزنی کرنے والوں کا اذیت ناک قتل جائز ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:
أجمعوا علی أن المراد بالمحاربين المفسدين فی هذه الآية قطاع الطريق سواء کانوا مسلمين أو من أهل الذمة. واتفقوا علی أن من برزو شهر السلاح مخيفا مغيرا خارج المصر بحيث لا يدرکه الغوث فهو محارب قاطع للطريق جارية عليه أحکام هذه الآية. . . . وقال البغوي: المکابرون فی الأمصار داخلون فی حکم هذه الآية.
قاضی ثناء اللہ، تفسير المظهری، 3: 86
’’اس پر سب کا اجماع ہے کہ محاربین سے مراد فساد بپا کرنے والے اور راہ زن ہیں؛ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سب کے لئے حکم برابر ہے۔ اس اَمر پر بھی اتفاق ہے کہ جو کھل کر ہتھیار اٹھالیں یا شہر سے باہر لوگوں کو خوفزدہ کریں اور غارت گری کریں جہاں کوئی مددگار بھی نہ پہنچ سکے، ایسا شخص جنگجو اور راہ زن ہے۔ اُس پر اس آیت کے احکام جاری ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ امام بغوی فرماتے ہیں۔: شہروں میں دہشت گردی کرنے والے بھی اس آیت کے حکم میں شامل ہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ اور اکابرین کے بیان کردہ تفسیری اقوال سے یہ مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ مسلمان ریاست کی رعایا میں سے مسلمانوں کو اسلحہ کے ذریعے خوف زدہ کرنے والوں کا خاتمہ ضروری ہے کیوں کہ جو زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں وہ پوری انسانیت کے قاتل ہیں۔ جو کسی مسلم ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں اور اس کے خلاف مسلح بغاوت کرتے ہیں، ان کے لیے اذیت ناک سزائیں اور دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
سورۃ الرعد میں ارشاد باری تعاليٰ ہے:
وَيُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ج اُولٰئِکَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْءُ الدَّارِo
الرعد، 13: 25
’’اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔‘‘
یہ آیت صراحتاً بتا رہی ہے کہ زمین میں فساد پھیلانے والے خارجی ہیں۔ اس کی تائید درج ذیل روایت سے ہوتی ہے، جسے امام قرطبی نے بیان کیا ہے:
1. وقال سعد بن أبي وقاص: واللہ الذی لا إله إلا هو! إنهم الحرورية.
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9: 314
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، فساد انگیزی کرنے والوں سے مراد الحروریہ یعنی خوارج ہیں۔‘‘
2۔ انسانی جان کی ہلاکت اور اموال و املاک کی تباہی فساد فی الارض ہے، جیسا کہ ابو حفص الحنبلی کی درج ذیل روایت سے عیاں ہوتا ہے:
قال: ﴿وَيُفْسِدُونَ فِی الأَرض﴾ إما بالدعاء إلی غير دين اللہ، وإما بالظلم کما فی النفوس والأموال وتخريب البلاد.
أبو حفص الحنبلی، اللباب في علوم الکتاب، 9: 425
’’اللہ تعاليٰ نے فرمایا: (اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں)۔ یا تو اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور طرف جبراً دعوت دینے سے یا لوگوں کی جان و مال پر ظلم سے اور ملک میں تخریب کاری سے۔‘‘
علامہ ابو حفص کی اس تصریح سے معلوم ہوا کہ جان و مال لوٹنے کے علاوہ اسلام سے ہٹ کر اپنے خود ساختہ عقائد کی طرف جبراً دعوت دینا بھی فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے۔
3۔ امام رازی نے بھی ’’التفسیر الکبیر (9: 176)‘‘ میں اسی معنی کو نقل فرمایا ہے۔
خوارج نماز، روزے اور تلاوت قرآن جیسے اعمال کی ادائیگی میں بظاہر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی آگے نظر آتے تھے۔ (اِس پر آئندہ صفحات میں احادیث مبارکہ آئیں گی۔) یہی حالت دور حاضر کے خوارج کی ہے۔ وہ بھی بظاہر شکل و صورت اور حسن عمل میں بڑے نیک، پرہیزگار اور پابندِ شریعت نظر آتے ہیں مگر باطن میں اعتقادی اور تشدد پسندانہ فتنوں کا شکار ہیں جن سے امت مسلمہ کو نقصان ہورہا ہے اور باہمی خون خرابے سے اس کی قوت و شوکت متاثر ہورہی ہے۔
1۔ سورۃ الکہف میں ارشاد باری تعاليٰ ہے:
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo
الکهف، 18: 103، 104
’’فرما دیجیے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں۔‘‘
امام طبری نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں درج ذیل روایات نقل کی ہیں:
(1) اس آیت میں ان اہلِ کتاب کا ذکر ہے جو اپنا سماوی دین چھوڑ کر کفر کی راہ پر چل نکلے اور دین میں باطل بدعات کو شامل کر لیا۔
(2) دوسری روایت یہ ہے کہ ان خسارہ پانے والوں سے مراد ’’خوارج‘‘ ہیں کیونکہ جب ابن الکواء خارجی نے حضرت علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أنت وأصحابک (تو اور تیرے ساتھی)۔
(3) ایک روایت میں ہے جسے حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن الکواء نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا (اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والوں) سے کون لوگ مراد ہیں تو آپ نے فرمایا: اے اہلِ حروراء! تم مراد ہو۔(1)
(1) طبری، جامع البيان، 16: 33، 34
اِسی آیت کے ذیل میں علامہ سمرقندی اپنی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
قال علی بن أبی طالب: هُمُ الْخوارِجُ.
سمرقندی، بحر العلوم، 2: 364
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے خوارج مراد ہیں۔‘‘
2۔ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ان کے اس زعم باطل کی مذمت یوں بیان کی گئی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَo اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ يَشْعُرُوْنَo
البقرة، 2: 11، 12
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں۔‘‘
سورۃ فاطر میں اِرشاد ہوتا ہے:
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوْءُ عَمَلِه فَرَاٰهُ حَسَنًا.
فاطر، 35: 8
’’بھلا جِس شخص کے لیے اس کا برا عمل آراستہ کر دیا گیا ہو اور وہ اسے (حقیقتاً) اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ مومنِ صالح جیسا ہو سکتا ہے)۔‘‘
علامہ ابو حفص الحنبلی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فقال قتادة: منهم الخوارج الذين يستحلون دماء المسلمين وأموالهم.
ابو حفص الحنبلي، اللباب فی علوم الکتاب، 13: 175
’’حضرت قتادہ نے فرمایا: ایسے لوگوں میں سے خوارج بھی ہیں جو مسلمانوں کا خون بہانا اور ان کے اموال لوٹنا حلال سمجھتے ہیں۔‘‘
3۔ فتنۂ خوارج کا آغاز: عہد رسالت مآب ﷺ میں دور رسالت مآب ﷺ میں ہی فتنہ خوارج کا آغاز ہوگیا تھا۔ امام بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اعْدِلْ، قَالَ: وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ: اِئْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ: لَا، إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب ماجاء في قول الرجل ويلک،
5: 2281، رقم: 5811
2. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب من ترک قتال الخوارج
للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6: 2540، رقم: 6534
3. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2: 744، رقم: 1064
’’ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو بنو تمیم کے ذوالخویصرہ نامی شخص نے کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے اجازت دیں کہ اس (گستاخ) کی گردن اڑا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، (اس اکیلے کی گردن اُڑانا کیوں کر) بے شک اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے۔‘‘
بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں ذوالخویصرہ تمیمی نامی گستاخ شخص کی گستاخی ہی دراصل اس بدترین فتنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس نے بعد ازاں امت مسلمہ میں انتشار و افتراق پیدا کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اَدوارِ خلافت میں اسلامی ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے باغی اور مسلح گروہ در حقیقت اُسی ذو الخویصرہ تمیمی کی فکر کا تسلسل تھے۔
1. امام ابو بکر الآجُرِی (م 360ه) کتاب الشريعة کے باب ذم الخوارج وسوء مذهبهم وإباحة قتالهم، وثواب من قتلهم أو قتلوه میں لکھتے ہیں:
وأوّل قرن طلع منهم علی عهد رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: هو رجل طعن علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وهو يقسم الغنائم بالجعرانة، فقال: اعدل يا محمد، فما أراک تعدل، فقال صلی الله عليه وآله وسلم: ويلک، فمن يعدل إذا لم أکن أعدل؟
’’خوارج کا اَوّلین فرد عہدِ رسالت مآب ﷺ میں نمودار ہوا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضور نبی اکرم ﷺ پر اس وقت طعنہ زنی کی جب آپ ﷺ جعرانہ کے مقام پر مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس بد بخت نے کہا: اے محمد! عدل کیجیے! میرے خیال میں آپ عدل نہیں کر رہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: تو ہلاک ہو! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟‘‘
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اسی ذو الخویصرہ تمیمی کا ہم خیال گروہ ہی بعد ازاں خوارج کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔
عن عبد الرزاق فقال: ذی الخويصرة التميمی وهو حرقوص بن زهير، أصل الخوارج.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 292
’’عبد الرزاق سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ذو الخویصرہ تمیمی کا اصل نام حرقوص بن زہیر تھا اور وہ خوارج کا بانی تھا۔‘‘
3۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (2: 49)‘‘ میں بھی یہی تحقیق بیان کی ہے۔
4۔ علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
وقال الذهبی: ذو الخويصرة القائل: فقال: يا رسول اللہ، إعدل. يقال هو حرقوص بن زهير، رأس الخوارج، قتل فی الخوارج يوم النهر. (1) . . . وفی تفسير الثعالبي: بينا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم يقسم غنائم هوازن، جاء ه ذو الخويصرة التميمی، أصل الخوارج.(2)
(1) بدر الدين العينی، عمدة القاری، 15: 62
(2) بدر الدين العينی، عمدة القاری، 16: 142
’’امام ذہبی فرماتے ہیں: ذو الخویصرہ نے ہی یہ کہا تھا: یا رسول اللہ! عدل کیجیے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حرقوص بن زہیر تھا۔ یہ خوارج کا فکری قائد اور بانی تھا جو کہ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں) مقام نہروان (پر ہونے والی جنگ) میں مارا گیا۔ ۔ ۔ ۔ تفسیر ثعلبی میں ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ معرکہ ہوازن کے غنائم تقسیم فرما رہے تھے تو آپ ﷺ کے پاس ذو الخویصرہ تمیمی آیا اور وہ خوارج کا بانی تھا۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد اُمت میں کئی فتنوں نے جنم لیا، جن میں جھوٹی نبوت کے دعوے، دین سے ارتداد، زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار اور دیگر کئی بنیادی تعلیمات اسلام سے انحراف شامل ہے۔ انہی فتنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خارجی فکر کے حاملین اپنے باغیانہ نظریات کی ترویج کرتے رہے اور اپنے آپ کو ایک منظم شکل دینے کی طرف سرگرم عمل رہے۔ یہاں تک کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ اواخر میں بلوائیوں کی تحریک میں آپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے والے لوگ بھی اس انتہاء پسندانہ رجحان کے حامل تھے جن میں سے ایک نمایاں شخص عبد اللہ بن سباء تھا۔ اس انتہاء پسند دہشت گرد گروہ نے پہلی مرتبہ مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ حکومت میں خالص اسلامی حکومت کی اتھارٹی اور ریاستی نظم کو چیلنج کیا۔
امام حاکم المستدرک میں ایک تابعی حسین بن خارجہ رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
لمّا کانت الفتنة الأولی أشکلت عليّ فقلتُ: اللّهم أَرني أمراً من أمر الحق أتمسک به. قال: فأريت الدنيا والآخرة و بينهما حائط غير طويل، و إذا أنا بجائز فقلت: لو تشبثت بهذا الجائز لعلي أهبط إلی قتلی أشجع ليخبروني قال: فهبطت بأرض ذات شجر وإذا أنا بنفرجلوس فقلت: أنتم الشهدائ؟ قالوا: لا نحن الملائکة. قلت: فأين الشهدائ؟ قالوا: تقدم إلی الدرجات العلی إلی محمد صلی الله عليه وآله وسلم ، فتقدمت فإذا أنا بدرجة اللہ أعلم ما هي السعة والحسن؟ فإذا أنا بمحمد صلی الله عليه وآله وسلم و إبراهيم عليه السلام وهو يقول لإبراهيم عليه السلام: استغفر لأمّتي. فقال له إبراهيم عليه السلام: إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک؟ أراقوا دماء هم وقتلوا إمامهم، ألا فعلوا کما فعل خليلي سعد. قلت: أراني قد أريت أذهب إلی سعد، فأنظر مع من هو، فأکون معه فأتيته، فقصصت عليه الرؤيا، فما أکثر بها فرحا. وقال: قد شقي من لم يکن له إبراهيم عليه السلام خليلا. قلت: في أي الطائفتين أنت؟ قال: لست مع واحد منهما. قلت: فکيف تأمرني؟ قال: ألک ماشية؟ قلت: لا. قال: فاشتر ماشية واعتزل فيها حتی تنجلي.
1. حاکم، المستدرک، 4: 499، رقم: 8394
2. ابن عبد البر، التمهيد، 19: 222
3. ذهبی، سير أعلام النبلاء، 1: 120
’’(حضرت حسین بن خارجہ فرماتے ہیں: ) جب پہلا فتنہ ظاہر ہوا تو مجھ پر فیصلہ مشکل ہوگیا (کہ اس میں حصہ لوں یا نہ لوں)۔ پس میں نے کہا: اے اللہ! مجھے امر حق دکھا جسے میں تھام لوں۔ فرماتے ہیں: پس مجھے (خواب میں) دنیا اور آخرت دکھائی گئی اور ان دونوں کے درمیان ایک دیوار تھی جو کہ زیادہ لمبی نہ تھی اور میں نے اپنے آپ کو دیوار پر دیکھا تو میں نے کہا کہ اگر میں اس دیوار پر معلق رہا تو ہوسکتا ہے کہ میں اشجع کے مقتولوں پر اتروں تاکہ وہ مجھے خبر دیں۔ فرماتے ہیں: پس میں ایسی زمین پر اُترا جو کہ شجردار یعنی سر سبز و شاداب تھی، تو میں نے ایک گروہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا، میں نے کہا: تم شہداء ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں ہم فرشتے ہیں۔ میں نے کہا: شہید کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: بلند درجات کی طرف تم حضرت محمد ﷺ کے پاس چلے جاؤ۔ جب میں آگے بڑھا تو ایسا مقام دیکھا جس کی وسعت اور حسن و جمال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، تو میں نے وہاں حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ آپ ﷺ ابراہیم علیہ السلام سے فرما رہے تھے: آپ میری اُمت کے لیے مغفرت کی دعاکیجیے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ نہیں جانتے کہ ان میں سے بعضوں نے آپ کے بعد کیا نئے فتنے شروع کیے؟ انہوں نے اپنوں کا خون بہایا اور اپنے حاکم کو قتل کیا ہے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے جیسا میرے دوست سعد نے کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے جو دکھا دیا ہے اس میں یہ راہ سمجھائیہے کہ میں سعد کے پاس جاؤں۔ پس اس کا معاملہ دیکھوں تو اس کے ساتھ ہوجاؤں۔ لہٰذا میں ان کے پاس آیا اور ان کو خواب کا واقعہ سنایا تو وہ اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا: وہ شخص بدنصیب ہے جس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نہ ہوں۔ میں نے کہا: آپ ان دو گروہوں میں سے کس کے ساتھ ہیں؟ انہوں نے کہا: میں ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں نے کہا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیا آپ کے پاس مویشی ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے فرمایا: مویشی خرید کر علیحدہ ہوجاؤ یہاں تک کہ صورتِ حال واضح ہو جائے۔‘‘
امام ابنِ عبد البر نے التمہید(1) میں اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(2) میں روایت میں مذکور الفتنۃ الاولی سے مراد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر امت مسلمہ میں پیدا ہونے والا فتنہ لیا ہے۔ یہی فتنہ پرور دہشت گرد لوگ ہی ظاہراً دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے، جن دو گروہوں کا اشارہ مذکورہ بالا روایت میں ہے۔
(1) ابن عبد البر، التمهيد، 19: 222
(2) عسقلانی، الإصابة فی تمييز الصحابة، 2: 172، رقم: 1979
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے لوگ فتنہ کی آگ بھڑکانے والے تھے۔ یہی دین میں بدعت کے مرتکب ہوئے اور یہی لوگ بدعتی کہلائے، یہی وہ فتنہ پرور، متعصب اور اِنتہا پسند لوگ تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ صفین کے بعد خارجی گروہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی تھی۔
فتنہ خوارج کے علم برداروں کے پیشِ نظر دین کے نام پر مسلم ریاست کو destabilize کرنا اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ حکومت وقت کے خلاف مسلح جد و جہد اور بغاوت کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں اور مساجد و عبادت گاہوں، گھروں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور public places پر شہریوں کا خون بہاتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خوارج کا احتجاج مذاکرات (dialogue) اور پر امن مصالحت (peaceful settlement of dispute) کے خلاف تھا جسے سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے موقع پر ’’تحکیم‘‘ کی صورت میں اپنایا تھا۔ جب تک فضا جنگ جاری رہنے کے حق میں تھی خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں لڑنے کے لئے پیش پیش تھے۔ جونہی آپ رضی اللہ عنہ نے خون خرابے سے بچنے کے لئے تحکیم یعنی ثالثی (arbitration) کے راستے کو اپنایا تو وہ پُر اَمن مصالحت اور ثالثی کے عمل کو رَد کرتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے نکل گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ کافر کہنے لگے اور واضح طور پر باغی اور دہشت گرد گروہ تیار کر کے نام نہاد جہاد کے نام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امت مسلمہ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ اپنے منظم ظہور کے وقت انہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا:
لَا حُکْمَ إِلاَّ ﷲِ.
’’اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں کر سکتا۔‘‘
1۔ خوارج کے اس عمل سے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آگاہی ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج،
2: 749، رقم: 1066
2. نسائي، السنن الکبری، 5: 160، رقم: 8562
3. ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 557، رقم: 37907
4. بيهقی، السنن الکبری، 8: 171، رقم: 16478
’’بات تو حق ہے لیکن اس کا مقصود باطل ہے۔‘‘
2۔ بعض کتب میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
إن سکتوا غممناهم وإن تکلموا حججناهم وإن خرجوا علينا قاتلناهم.
1. ابن أثير، الکامل فی التاريخ، 3: 212، 213
2. طبری، تاريخ الأمم والملوک، 3: 114
’’اگر وہ خاموش رہے تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان سے دلیل کے ساتھ بات کریں گے، اور اگر انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف مسلح بغاوت کرتے ہوئے خوارج نے عراق کی سرحد پر واقع علاقے حروراء کو اپنا مرکز بنا لیا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ’’شرک‘‘ اور ’’بدعت‘‘ کے الزامات لگائے، آپ کو کافر قرار دیا اور آپ کے خلاف مسلح بغاوت کر دی۔ یہ قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی ابتداء تھی۔ اُن کا ابتدائی نقطہ نظر ہی یہ تھا:
تحکمون فی أمر اللہ الرجال؟ لاحکم إِلَّا ﷲ!
ابن اثير، الکامل فی التاريخ، 3: 196
’’تم اللہ کے امر میں آدمیوں کو حکم بناتے ہو؟ سوائے اللہ تعاليٰ کے کوئی حکم نہیں کر سکتا۔‘‘
4۔ ایک خارجی لیڈر یزید بن عاصم محاربی نے خروج کرتے ہوئے خطبہ پڑھا:
’’تمام حمد اللہ تعاليٰ کو سزاوار ہے جس سے ہم مستغنی نہیں ہوسکتے۔ یا اللہ! ہم اس امر سے پناہ مانگتے ہیں کہ اپنے دین کے معاملے میں کسی قسم کی کمزوری اور خوشامد سے کام لیں کیونکہ اس میں ذلت ہے جو اللہ تعاليٰ کے غضب کی طرف لے جاتی ہے۔ اے علی! کیا تم ہمیں قتل سے ڈراتے ہو؟ آگاہ رہو! اللہ کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ ہم تمہیں تلواروں کی دھار سے ماریں گے تب تم جان لوگے کہ ہم میں سے کون عذاب کا مستحق ہے۔‘‘
ابن أثير، الکامل فی التاريخ، 3: 313
5۔ اسی طرح ایک اور خارجی لیڈر کے خطبہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
أخرجوا بنا من هذه القرية الظالم أهلها إلی بعض کُوَر الجبال أو إلی بعض هذه المدائن منکرين لهذه البدع المضلة.
ابن أثير، الکامل فی التاريخ، 3: 313، 314
’’اِس شہر کے لوگ ظالم ہیں، اِس لیے تم (اِس شہر کو چھوڑ کر) ہمارے ساتھ پہاڑوں یا دوسرے شہر وں کی طرف نکل جاؤ جہاں کے مکین ان گمراہ کُن بدعتوں سے انکاری ہوں۔‘‘
6۔ جب سب سرکردہ خوارج شریح ابنِ اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو اس مجلس میں ابنِ وہب نے کہا:
اشخصوا بنا إلی بلدة نجتمع فيها لإنفاذ حکم اللہ، فإنکم أهل الحق.
ابن أثير، الکامل فی التاريخ، 3: 314
’’اب تم ہمارے ساتھ کسی ایسے شہر کی طرف کوچ کرو جس میں ہم سب جمع ہوکر اللہ تعاليٰ کا حکم جاری کریں کیونکہ اہلِ حق اب تمہی لوگ ہو۔‘‘
7۔ اب خوارج کا وہ بیان پڑھیے جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خط کے جواب میں دیا:
فانک لم تغضب لربک وإنما غضبت لنفسک، فان شهدت علی نفسک بالکفر واستقبلت التوبة، نظرنا فيما بيننا وبينک، وإلا فقط نبذناک علی سواء أن اللہ لا يحب الخائنين.
ابن اثير، الکامل فی التاريخ، 3: 217
’’اب تمہارا غضب خدا کے واسطے نہیں ہے اس میں تمہاری نفسانیت شریک ہے۔ تم اب بھی اگر اپنے کفر کا اقرار کرتے ہو اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تم کو دور کر دیا کیونکہ اللہ تعاليٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
خوارج کے ان خطبات اور جوابی خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہوئے خود کو توحید اور حق کے علم بردار جب کہ سیدنا علی مرتضيٰ رضی اللہ عنہ کو (معاذ اللہ) شرک اور بدعت کا نمائندہ تصور کر رہے تھے۔ بدعت اور شرک سے ان کی بزعم خویش نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شہر کو بھی اس خیال سے کہ یہ بدعتیوں کا شہر ہے، چھوڑ دیا اور جنگلوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں گھات لگا کر بیٹھ گئے جہاں وہ اپنے مخالفین کو پکڑ کر ظلم و ستم کا نشانہ بناتے اور انہیں قتل کر دیتے۔ بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر لے کر خوارج کی ریشہ دوانیوں، دین دشمن کارروائیوں اور سازشوں کے جواب میں ان کے خلاف عسکری کارروائی کی اور انہیں شکست فاش سے دوچار کیا۔ کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے ارشادات گرامی میں ان کا قلع قمع کر دینے کی پیشین گوئی اور حکم فرمایا تھا۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ریاستی سطح پر ان کی سرکوبی کی۔
امام مسلم اور دیگر محدّثین نے یہ پورا واقعہ بالتفصیل حضرت زید بن وہب جہنی سے روایت کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:
أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوْا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوْا إِلَی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه: أَيَّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَائَ تِهِمْ بِشَيءٍ وَلَا صَلَاتُکُمْ إِلَی صَلَاتِهِمْ بِشَيءٍ وَلَا صِيَامُکُمْ إِلَی صِيَامِهِمْ بِشَيئٍ، يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيْبُوْنَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صلی الله عليه وآله وسلم لَاتَّکَلُوا عَنِ الْعَمَلِ وَآيَةُ ذٰلِکَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ عَلَی رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْیِ عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيْضٌ. فَتَذْهَبُونَ إِلَی مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُکُوْنَ هٰؤُلَاءِ يَخْلُفُونَکُمْ فِی ذَرَارِيِّکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَاللهِ إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ يَکُوْنُوْا هٰؤُلَاءِ الْقَوْمَ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَکُوا الدَّمَ الْحَرَامَ وَأَغَارُوا فِی سَرْحِ النَّاسِ فَسِيرُوا عَلَی اسْمِ اللهِ.
قَالَ سَلَمَةُ بْنُ کُهَيْلٍ فَنَزَّلَنِی زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا حَتَّی قَالَ مَرَرْنَا عَلَی قَنْطَرَةٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَی الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا سُيُوفَکُمْ مِنْ جُفُونِهَا فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوکُمْ کَمَا نَاشَدُوکُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوْا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ وَسَلُّوا السُّيُوفَ وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ. قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَی بَعْضٍ وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ فَالْتَمَسُوْهُ فَلَمْ يَجِدُوْهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رضی الله عنه بِنَفْسِهِ حَتَّی أَتَی نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَی بَعْضٍ قَالَ: أَخِّرُوْهُمْ فَوَجَدُوْهُ مِمَّا يَلِی الْأَرْضَ فَکَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللّٰهُ، وَبَلَّغَ رَسُوْلُهُ. قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ: فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! هُوَ اللهِ الَّذِی لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعْتَ هٰذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: إِی وَاللهِ الَّذِی لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ! حَتَّی اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج،
2: 748، رقم: 1066
2. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4: 244، رقم: 4768
3. نسائي، السنن الکبری، 5: 163، رقم: 8571
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 91، رقم: 706
5. عبد الرزاق، المصنف، 10: 147
6. بزار، المسند، 2: 197، رقم: 581
’’وہ (حضرت زید بن وہب) اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں ایک گروہ ظاہر ہوگا وہ ایسا (خوبصورت) قرآن پڑھے گا کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت نہ ہوگی، ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے حق میں ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف حجت ہوگا۔ نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی اور وہ اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ جو لشکر ان کی سرکوبی کے لیے جا رہا ہوگا اگر وہ اس ثواب کو جان لے جس کا وعدہ اللہ تعاليٰ نے ان کے نبی ﷺ کی زبان پر کیا ہے تو وہ باقی اعمال کو چھوڑ کر اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے شانہ میں ہڈی نہیں ہوگی اور اس کے شانہ کا سر عورت کے پستان کی طرح ہوگا جس پر سفید رنگ کے بال ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (اپنے لشکر سے) فرمایا: تم معاویہ اور اہلِ شام کی طرف جاتے ہو مگر ان خوارج کو چھوڑ جاتے ہو تاکہ یہ تمہارے پیچھے تمہاری اولاد اور تمہارے اَموال کو ایذا دیں، بخدا! مجھے امید ہے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے ناحق خون بہایا اور لوگوں کی چراگاہوں یعنی اَموال کو لوٹ لیا، تم اللہ کا نام لے کر ان سے قتال کے لیے روانہ ہو جاؤ۔
’’سلمہ بن کہیل کہتے ہیں: پھر مجھ سے (اس کے راوی) زید بن وہب نے ایک ایک منزل کا تذکرہ کیا اور بیان کیا کہ جب ہم جا کر ان سے ملے تو ہمارا ایک پل سے گزر ہوا، اس وقت خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسبی تھا، اس نے حکم دیا کہ اپنے نیزے پھینک دو اور تلواریں میان سے نکال لو کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ تم پر اس طرح حملہ کریں گے جس طرح یومِ حروراء میں کیا تھا۔ چنانچہ وہ پھرے، انہوں نے اپنے نیزے پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں، لوگوں نے ان پر اپنے نیزوں سے حملہ کیا اور بعض نے بعض کو قتل کرنا شروع کر دیا، اس روز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے صرف دو آدمی شہید ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان میں اسی ناقص آدمی کو تلاش کرو، انہوں نے اسے ڈھونڈا لیکن وہ نہ ملا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اٹھے اور وہاں گئے جہاں ان کی لاشیں ایک دوسرے پر پڑی تھیں، آپ نے فرمایا: ان لاشوں کو اٹھاؤ۔ تو اس (علامت والے مطلوب) شخص کو زمین پر لگا ہوا پایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ تعاليٰ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول ﷺ نے ہم تک صحیح احکام پہنچائے۔ عبیدہ سلمانی کھڑے ہوئے اور کہا: امیر المؤمنین! اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ کیا آپ نے خود حضور نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث سنی تھی؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اللہ رب العزت کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تین مرتبہ حلف لیا اور آپ نے تین مرتبہ قسم کھائی۔‘‘
بعض روایات میں اس ناقص بازو والے شخص کی علامات بھی بیان کی گئی ہیں کہ وہ شخص سیاہ رنگ کا ہوگا اور اُس کا ہاتھ بکری کے تھن یا عورت کے پستان کے سر کی طرح ہوگا۔ جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گروہ خوارج کا قلع قمع کر چکے تو فرمایا: اس نشانی والے آدمی کو تلاش کرو۔ انہوں نے اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا، فرمایا: اس کو پھر جا کر تلاش کرو، بخدا نہ میں نے جھوٹ بولا ہے نہ مجھے جھوٹ بتایا گیا ہے، یہ بات انہوں نے دو یا تین بار کہی، حتيٰ کہ لوگوں نے اسے ایک کھنڈر میں ڈھونڈ لیا اور اس کی لاش لا کر حضرت علی کے سامنے رکھ دی۔ اِس واقعے کے راوی عبید اللہ کہتے ہیں: میں اس سارے معاملہ میں ان کے پاس موجود تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ان خوارج کے بارے میں ہی تھا۔
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج،
2: 749، رقم: 1066
2. نسائي، السنن الکبری، 5: 160، رقم: 8562
3. ابن حبان، الصحيح،15: 387، رقم: 6939
4. بيهقی، السنن الکبری، 8: 171، رقم: 16478
خوارج کا یہ حال دیگر کتبِ حدیث میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے جسے حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
لما فارقت الخوارج عليًّا خرج في طلبهم وخرجنا معه، فانتهينا إلی عسکر القوم فإذا لهم دوي کدوي النحل من قراء ة القرآن، وفيهم أصحاب الثفنات وأصحاب البرانس، فلما رأيتهم دخلني من ذلک شدة فتنحيت فرکزت رمحي ونزلت عن فرسي ووضعت برنسي، فنشرت عليه درعي، وأخذت بمقود فرسي فقمت أصلي إلی رمحي وأنا أقول في صلاتي: اللّٰهم إن کان قتال هؤلاء القوم، لک طاعة فإذن لي فيه، وإن کان معصية فأرني براء تک فأنا کذلک إذا أقبل عليٌّ بن أبي طالب رضی الله عنه علی بغلة رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم. فلما حاذاني قال: تعوذ باللہ يا جندب، من شر الشک. فجئت أسعی إليه، ونزل، فقام يصلي إذا أقبل رجل علی برذون يقرب به. فقال: يا أمير المؤمنين. قال: ما شأنک حاجة في القوم؟ قال: وما ذاک؟ قال: قد قطعو النهر، فذهبوا، قلت: اللہ أکبر. فقال عليٌّ: ما قطعوه، ثم جاء آخر يستحضر بفرسه. فقال: يا أمير المومنين. قال: ما تشائ؟ قال: ألک حاجة في القوم؟ قال وما ذاک؟ قال: قد قطعوا النهر. فقال عليٌّ: ما قطعوه ولا يقطعوه، وليقتلن دونه عهد من اللہ ورسوله صلی الله عليه وآله وسلم . ثم رکب، فقال لي: يا جندب! أما أنا فأبعث إليهم رجلا يقرأ المصحف، يدعو إلی کتاب ربهم وسنة نبيهم، فلا يقبل علينا بوجه حتی يرشقوه بالنبل، يا جندب، أما أنه لا يقتل منا عشرة ولا ينجو منهم عشرة. ثم قال: من يأخذ هذا المصحف فيمشي به إلی هؤلاء القوم فيدعوهم إلی کتاب ربهم وسنة نبيهم وهو مقتول وله الجنة فلم يجبه إلا شاب من بني عامر بن صعصعة. فقال له عليٌّ: خذ. فأخذ المصحف، فقال: أما إنک مقتول، ولست تقبل علينا بوجهک حتی يرشقوک بالنبل. فخرج الشاب يمشي بالمصحف إلی القوم، فلما دنا منهم حيث سمعوا القتال قبل أن يرجع فرماه إنسان، فأقبل علينا بوجه، فقعد فقال عليٌّ: دونکم القوم. قال جندب: فقتلت بکفي هذه ثمانية قبل أن أصلي الظهر وما قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.
1. طبرانی، المعجم الأوسط، 4: 227، رقم: 4051
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 4: 227
3. عسقلانی، فتح الباری، 12: 296
4. شوکانی، نيل الأوطار، 7: 349
’’جب خوارج علیحدہ ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی تلاش میں نکلے اور ہم بھی ساتھ تھے۔ جب ہم ان کے لشکر کے قریب پہنچے تو قرآن شریف پڑھنے کا ایک شور سنائی دیا۔ ان خوارج کی یہ حالت تھی کہ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات نمایاں تھے۔ وہ ٹوپیاں اوڑھے ہوئے کمال درجہ کے زاہد و عابد نظر آرہے تھے۔ ان کا یہ حال دیکھ کر تو ان سے قتال مجھ پر نہایت شاق ہوا۔ میں اپنے گھوڑے سے اُترا اور الگ ہو کر اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور اپنی ٹوپی اس پر رکھ دی اور زِرہ لٹکا دی۔ پھر میں نے گھوڑے کی لگام پکڑی اور نیزہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی اور میں نماز کے دوران میں دل میں کہ رہا تھا: ’’الٰہی! اگر اس قوم کا قتل کرنا تیری طاعت ہے تو مجھے اجازت مل جائے اور اگر معصیت ہے تو مجھے اس رائے پر اطلاع ہو۔‘‘ ہنوز اس دعا سے فارغ نہ ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: اے جندب! شک کے شرسے پناہ مانگو۔ میں یہ سنتے ہی ان کی طرف دوڑا تو وہ اتر کر نماز پڑھنے لگے۔ اتنے میں ایک شخص گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور کہا: یا امیر المومنین! کیا آپ کو ان لوگوں سے جنگ کی ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اُس نے کہا: وہ سب نہر عبور کر کے پار چلے گئے ہیں، (اب ان کا تعاقب مشکل ہے)۔ میں نے کہا: اللہ اکبر۔ پھر ایک اور شخص گھوڑا دوڑاتا ہوا حاضر ہوا، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ کہنے لگا: کیا آپ کو اس قوم سے جنگ کی ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا: انہوں نے نہر عبور کر لی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، وہ پار گئے ہیں نہ جاسکیں گے۔ جو ان کے مقابلے میں مارا جائے گا، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ پھر آپ سوار ہوئے اور مجھے فرمایا: اے جندب! میں ان کی طرف آدمی بھیجوں گا جو انہیں قرآنی احکام پڑھ کر سنائے گا اور انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی دعوت دے گا۔ وہ رُخ نہیں پھیرے گا حتی کہ وہ لوگ اس کو تیروں کی باڑ پر رکھ لیں گے۔ اے جندب! ہمارے دس شہید نہیں ہوں گے اور ان کے دس آدمی نہیں بچیں گے۔ پھر فرمایا: کوئی ہے جو یہ مصحف (قرآن) اس قوم کی طرف لے جائے اور ان کو اللہ کی کتاب اور حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت کی طرف بلائے، وہ مارا جائے گا اور اس کے لیے جنت ہوگی۔ بنی عامر کے ایک جوان کے سوا کسی نے جواب نہ دیا۔ آپ نے اسے فرمایا: یہ مصحف لے جاؤ! اُس نے مصحف لے لیا۔ آپ نے فرمایا: اب تم لوٹ کر نہیں آؤگے، وہ تمہیں تیروں کی باڑ پر رکھ لیں گے۔ وہ جوان قرآن لے کر ان کی طرف روانہ ہوا اور جب ایسی جگہ پہنچا جہاں سے وہ ان کی آواز سن سکتا تھا تو وہ اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور تیر چلانے شروع کر دیے،پس اُس نے ہماری طرف رُخ کیا اور (تیر لگنے کی وجہ سے) گر گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آدمیوں سے فرمایا: اب تم بھی حملہ کردو۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نمازِ ظہر تک ان کے آٹھ ساتھی قتل کر ڈالے۔ (جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا) ہمارے دس آدمی شہید نہ ہوئے اور ان کے دس آدمی نہ بچے۔‘‘
حضرت جندب رضی اللہ عنہ پر خوارج کی ظاہری پارسائی، ان کی دین داری اور عبادت و ریاضت کا بہت اثر تھا باوجودیکہ وہ تمام علامات ان میں موجود تھیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی تھیں اور ساری پیشین گوئیاں بھی صحیح ثابت ہوئی تھیں مگر ان کی وضع قطع اور پرہیزگاری دیکھ کر پھر بھی ان کا دل ڈرتا تھا کہ کہیں ان کے ہاتھ سے حق پرست لوگ قتل نہ ہو جائیں۔
مسند احمد بن حنبل، السنن الکبری للنسائی اور دیگر کتب میں طارق بن زیاد کا بیان ہے:
خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه إِلَی الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: انْظُرُوْا فَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَومٌ يَتَکَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لاَ يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ، يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْحَقِّ کَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمْ أَنَّ فِيْهِمْ رَجُلًا أَسْوَدَ مُخْدَجَ الْيَدِ، فِي يَدِهِ شَعَرَاتٌ سُودٌ، إنْ کَانَ هُوَ فَقَدْ قَتَلْتُمْ شَرَّ النَّاسِ وَإِن لَّمْ يَکُنْ هُوَ فَقَدْ قَتَلْتُمْ خَيْرَ النَّاسِ. فَبَکَيْنَا ثُمَّ قَالَ: اطْلُبُوا. فَطَلَبْنَا، فَوَجَدْنَا الْمُخْدَجَ، فَخَرَرْنَا سُجُودًا وَخَرَّ عَلِیٌّ رضی الله عنه مَعَنَا.
1. نسائي، السنن الکبری، 5: 161، رقم: 8566
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 107، رقم: 848
3. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 714، رقم: 1224
4. خطيب بغدادی، تاريخ بغداد، 14: 362، رقم: 7689
5. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1: 256، رقم: 247
’’ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا خاتمہ کیا، پھر فرمایا: دیکھو بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی، وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں ایک شخص سیاہ فام ہوگا جس کا ہاتھ ناقص اور اس پر سیاہ بال ہوں گے۔ اس کو ڈھونڈو۔ اگر وہ شخص ان میں ہے تو سمجھ جاؤ کہ تم نے بدترین لوگوں کو مارا اور اگر وہ نہ ملا تو سمجھ لو کہ تم نے بہترین لوگوں کو قتل کرڈالا۔ یہ سن کر ہمیں سخت پریشانی ہوئی اور ہم رونے لگے۔ آپ نے فرمایا: ڈھونڈو تو سہی۔ جب خوب تلاش کی گئی تو اس شخص کی لاش مل گئی۔ تمام اہلِ لشکر سجدۂ شکر میں گر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہمارے ساتھ سجدۂ شکر ادا کیا۔‘‘
اب تک کی گئی بحث سے واضح ہو گیا کہ بعض اوقات معاشرے میں ایسا کج فہم اور تنگ نظر طبقہ بھی پیدا ہوجاتا ہے، جو بالکل نادان، دینی حکمت و بصیرت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری طور پر صالح اَعمال کی سختی سے پابندی کرتا ہے جس کے باعث وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ پکا مسلمان اور دین کا پاسبان ہے اور اسے اللہ کے مقرب ہونے کا درجہ حاصل ہے، اس کے سوا باقی سب کفر و شرک میں مبتلا اور خدا کے نافرمان ہیں۔ اس لئے اس کا حق بنتا ہے کہ وہ بزورِ بازو دوسروں کو بھی راہ راست پر لائے، وہ گروہ اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ(1) (اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت کے ساتھ بلائیے) اور لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ(2) (دین میں کوئی زبردستی نہیں) کو بالکل بھول جاتاہے۔ شیطان اس کے ذہن میں ڈال دیتا ہے کہ وہ سب سے افضل و اعليٰ اور سچا مسلمان ہے بلکہ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ مسلمان ہی نہیں۔ اس لئے اس کا حق بنتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں پر شیطان ان کو اپنے ڈھب پر لے آتا ہے اور ان کے ذہن میں یہ فاسد خیال ڈال دیتا ہے کہ تم جیسا کوئی نہیں۔ تم ان بے عمل مسلمانوں کو اپنے طریق پر لانے یا انہیں ختم کرنے کے لیے ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو، خوں ریزی اور دہشت گردی کرو، مال و متاع لوٹو، تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا، تم جو کچھ کروگے سب جہاد ہوگا۔ ان ہی کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اللہ کے ہاں یہ خسارہ پانے والا گروہ ہوگا، مگر وہ خود کو بڑا نیکوکار سمجھے گا اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگا کہ وہ بڑی خیر پھیلا رہا ہے۔(3)
(1) النحل، 16: 125
(2) البقرة، 2: 256
(3) قُلْ هَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(1)
الکهف، 18: 103، 104
’’فرما دیجیے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں۔‘‘
1۔ خوارج کے باطل عقائد و مزعومات کے بارے میں امام شہرستانی (م 548ھ) الملل والنحل میں لکھتے ہیں:
کبار فرق الخوارج ستة: الأزارقة والنجدات والعجارة والثعالبة والإباضية والصفرية والباقون فروعهم، ويرون الخروج علی الإمام إذا خالف السنة حقا واجبا. . . . هم الذين خرجوا علی أمير المؤمنين علي رضی الله عنه حين جري أمر الحکمين واجتمعوا بحروراء من ناحية الکوفة ورئيسهم عبد اللہ بن الکواء وعتاب بن الأعور وعبد اللہ بن وهب الراسبی وعروة بن جرير ويزيد بن عاصم المحاربی وحرقوص بن زهير البجلی المعروف بذی الثدية وکانوا يومئذ فی اثنی عشر ألف رجل أهل صلاة وصيام أعنی يوم النهروان. . . . وهم الذين أولهم ذو الخويصرة وآخرهم ذو الثدية.
شهرستانی، الملل والنحل: 115
’’خوارج کے بڑے بڑے گروہ چھ ہیں: ازارقہ، نجدات، عجارہ، ثعالبہ، اباضیہ، صفریہ اور بقیہ خوارج ان کی فروع ہیں (اس طرح ان کے کل فرقے بیس بن جاتے ہیں) اور جب کوئی حکومت، سنت کی مخالفت کرے تو یہ اس کے مقابلہ میں بغاوت کو واجب سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اَمیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اس وقت بغاوت کی جب تحکیم (arbitration؛ ثالثی) کا حکم جاری ہوا تھا، اور جو لوگ حروراء کے مقام پر کوفہ کی ایک جانب جمع ہو گئے تھے۔ ان کے بانیان عبد اللہ بن الکواء، عتاب بن الاعور، عبد اللہ بن وہب راسبی، عروہ بن جریر، یزید بن عاصم محاربی، حرقوص بن زہیر بجلی المعروف بہ ذو الثدیہ تھے۔ اُس وقت یعنی نہروان کی جنگ کے وقت ان کی تعداد بارہ ہزار تھی اور یہ صوم و صلاۃ کے بہت پابند تھے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا پہلا شخص ذوالخویصرہ اور (پہلے منظّم ظہور میں) آخری ذو الثدیہ ہے۔‘‘
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
وقال القاضی أبو بکر بن العربی: الخوارج صنفان أحدهما يزعم أن عثمان وعليا وأصحاب الجمل وصفين وکل من رضی بالتحکيم کفار والآخر يزعم أن کل من أتی کبيرة فهو کافر مخلد فی النار أبدا، وزاد نجدة علی معتقد الخوارج أن من لم يخرج ويحارب المسلمين فهو کافر، ولو اعتقد معتقدهم.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 283، 285
’’قاضی ابو بکر بن عربی نے فرمایا: خوارج کی دو قسمیں ہیں۔ جن میں سے ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضيٰ، جنگ جمل و صفین میں حصہ لینے والے تمام لوگ اور ہر وہ شخص جو تحکیم (arbitration) سے راضی ہوا، سب کافر ہیں۔ اور دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جس شخص نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ کافر ہے جو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ اور (یمامہ کے خارجی لیڈر) نجدہ بن عامر نے خوارج کے ان مذکورہ بالا عقائد پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص امتِ مسلمہ کے خلاف بغاوت اور ان (خوارج) کے ساتھ مل کر مسلح جنگ نہ کرے تو وہ بھی کافر ہے چاہے وہ ان (خوارج) جیسے عقائد ہی رکھتا ہو۔‘‘
3۔ خوارج کے کفریہ عقائد اور مسلمانوں کے خلاف ان کے انتہاء پسندانہ، ظالمانہ اور متعصبانہ رویے کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ تیمیہ نے لکھا ہے:
فکانوا کما نعتهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم: ’’يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان‘‘(1) وکفروا علي بن أبي طالب وعثمان بن عفان ومن والاهما. وقتلوا علي بن أبي طالب مستحلين لقتله. قتله عبد الرحمن بن ملجم المرادي منهم، وکان هو وغيره من الخوارج مجتهدين فی العبادة، لکن کانوا جهالاً فارقوا السنة والجماعة: فقال هؤلاء: ما الناس إلا مؤمن أو کافر؛ والمؤمن من فعل جميع الواجبات وترک جميع المحرمات: فمن لم يکن کذلک فهو کافر: مخلد فی النار. ثم جعلوا کل من خالف قولهم کذلک . فقالوا: ان عثمان وعلياً ونحوهما حکموا بغير ما أنزل اللہ، وظلموا فصاروا کفاراً.(2)
(1) 1. بخاری، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قصة يأجوج ومأجوج،
3: 1219، رقم: 3166
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب إعطاء المؤلفة، 2: 741، رقم: 1064
3. ابو داود، السنن،4: 243، رقم: 2764
4. نسائی، السنن، 5: 87، رقم: 2578
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 68، رقم: 11666
(2) ابن تيميه، مجموع فتاويٰ، 7: 481
’’خوارج ایسے لوگ تھے جن کی صفت حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ بیان کی تھی کہ ’’وہ اہلِ اسلام سے لڑیں گے اور بت پرستوں سے صلح رکھیں گے۔‘‘ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور اُن کا ساتھ دینے والوں کی تکفیر کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خون کو مباح قرار دیتے ہوئے اُنہیں شہید کیا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عبد الرحمٰن بن ملجم المرادی نے شہید کیا جو کہ خارجیوں میں سے تھا۔ یہ اور اِس کے علاوہ دیگر خوارج بہت عبادت گذار تھے لیکن حقیقت میں وہ حکمتِ دین سے نابلد تھے کیوں کہ انہوں نے سنت اور جماعت کو چھوڑ دیا تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق انسان مؤمن ہوگا یا کافر۔ لہٰذا ان کے نزدیک مؤمن وہ ہے جو تمام واجبات پر عمل کرے اور تمام محرمات کو ترک کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا وہ کافر اور دائمی جہنمی ہے۔ پھر انہوں نے ہر اُس شخص کی بھی اسی طرح تکفیر کرنا شروع کر دی جس نے ان کی باتوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی طرح دیگر لوگوں نے اللہ تعاليٰ کے نازل کردہ احکام کے خلاف حکومت کی ہے اور وہ ظلم کا اِرتکاب کرتے رہے۔ پس یہ سارے کافر ہو گئے ہیں۔ (نعوذ باللہ۔)‘‘
اگر خوارج کے عقائد اور ان کی خصوصیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ ثابت ہوگا کہ خوارج نے نہ صرف سنت نبوی ﷺ سے بغاوت کی بلکہ مسلمانوں کا خون بہانا بھی جائز قرار دے دیا۔ علامہ ابنِ تیمیہ خوارج کی معروف و مشہور خصوصیات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
ولهم خاصتان مشهورتان فارقوا بهما جماعة المسلمين وأئمتهم: أحدهما: خروجهم عن السنة، وجعلهم ما ليس بسيئة سيئة، أو ما ليس بحسنة حسنة.
الفرق الثانی فی الخوارج وأهل البدع: إنهم يکفرون بالذنوب والسيئات. ويترتب علی تکفيرهم بالذنوب استحلال دماء المسلمين وأموالهم وإن دار الإسلام دار حرب ودارهم هي دار الإيمان.
ابنِ تيميه، مجموع فتاويٰ، 19: 72، 73
’’خوارج میں دو بدعات ایسی ہیں جو ان ہی کا خاصہ ہیں اور جن کی آڑ لے کر انہوں نے اہلِ اسلام اور اسلامی ریاست کا ساتھ چھوڑا: ایک یہ کہ انہوں نے سنت سے انحراف کیا؛ دوسری یہ کہ ’’امورِ حسنہ‘‘ کو ’’امور سیئہ‘‘ اور ’’امور سیئہ‘‘ کو ’’امور حسنہ‘‘ بنا دیا۔
’’خوارج اور اہل بدعت میں دوسرا گروہ وہ ہے جو گناہوں اور معصیتوں پر بھی لوگوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اس بنا پر یہ مسلمانوں کا خون بہانا اور ان کے اموال لوٹنا مباح جانتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دار الاسلام، دار الحرب ہے اور صرف ان کے اپنے گھر ہی دار الایمان ہیں۔‘‘
4۔ خوارج کا ایک نام حروریہ بھی ہے کیوں کہ دہشت گردوں کا پہلا گروہ عہد علوی رضی اللہ عنہ میں حروراء کے مقام پر خوارج کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی فتح الملہم میں لکھتے ہیں:
قوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’عَن الحرُورِيَّةِ‘‘ إلخ: هم الخوارج، جمع خارجة، أي طائفة، وهم قوم مبتدعون سُمّوا بذلک، لخروجهم عن الدين، وخروجهم علی خيار المسلمين، وأصل ذلک أنّ بعض أهل العراق أنکروا سيرة بعض أقارب عثمان، فطعنوا علی عثمان بذلک، وکان يقال لهم: القُرَّاء، لشدّة اجتهادهم في التلاوة والعبادة، إلّا أنهم کانوا يتأوّلون القرآن علی غير المراد منه، ويستبدُّون برأيهم، ويتنطعون في الزهد والخشوع و غير ذلک، فلمَّا قتل عثمان قاتلوا مع عليّ رضی الله عنه، واعتقدوا کفر عثمان ومن تابعه، واعتقدوا إمامة علي رضی الله عنه وکفر من قاتله من أهل الجمل. (فانکروا التحکيم، فترکوه بصفين وصاروا خوارج).
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 158
’’آپ ﷺ کا قول عن الحروریۃ میں حروریہ سے مراد خوارج ہیں اور خوارج خارجۃ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے ’’گروہ۔‘‘ یہ بدعتی لوگ ہیں جنہیں یہ نام ان کے دین سے خارج ہونے اور نیکوکار مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی وجہ سے دیا گیا۔ اس واقعہ کی اصل یہ ہے کہ بعض اہل عراق نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض قرابت داروں کے کردار پر اعتراض کیا اور اس وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی برا بھلا کہا، ان خارجیوں کو ان کی تلاوت اور عبادت میں سخت ریاضت کی وجہ سے ’’قراء‘‘ کہا جاتا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کی من مانی تاویلیں کرتے تھے، اپنی رائے کو حتمی سمجھتے تھے اور زہد و خشوع وغیرہ میں غلو سے کام لیتے تھے۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر قتال کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے پیروکاروں کے کفر کا عقیدہ بنا لیا، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کو مانا اور اہل جمل میں سے جن لوگوں نے آپ کے ساتھ لڑائی کی ان کو کافر قرار دیا۔ (پھر انہوں نے تحکیم (arbitration اور peaceful settlement of dispute) کا انکار کیا اور صفین کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور خوارج قرار پائے)۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
وهم ثمانية آلاف. وقيل: کانوا أکثر من عشرة آلاف. . . . فتنادوا من جوانب المسجد: لا حکم إلّا ﷲ، فقال: کلمة حق يراد بها باطل، فقال لهم: لکم علينا ثلاثة: أن لا نمنعکم من المساجد، ولا من رزقکم من الفيء، ولا نبدؤکم بقتال ما لم تحدثوا فساداً، وخرجوا شيئاً بعد شيء إلی أن اجتمعوا بالمدائن، . . . فأصرُّوا علی الامتناع حتی يشهد علی نفسه بالکفر لرضاه بالتحکيم . . . ، ثم اجتمعوا علی أن من لا يعتقد معتقدهم يکفر ويباح دمه وماله وأهله، . . . فقتلوا من اجتاز بهم من المسلمين.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 158
’’ان کی تعداد آٹھ ہزار تھی ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس ہزار سے زیادہ تھی۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ جب خطاب فرما رہے تھے) تو انہوں نے مسجد کے ایک کونے سے نعرہ لگایا: لا حکم إلا ﷲ. تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات تو حق ہے مگر اس کا مقصود باطل ہے۔ پھر آپ نے انہیں فرمایا: تمہاری تین باتیں ہم اپنے ذمے واجب کرتے ہیں: ایک یہ کہ ہم تمہیں مساجد سے نہیں روکیں گے۔ اور (دوسرا) نہ ہی مال غنیمت میں سے تمہارے رزق کو روکیں گے۔ اور (تیسرا) ہم تمہارے ساتھ جنگ میں پہل نہیں کریں گے جب تک کہ تم فساد انگیزی کے مرتکب نہ ہوئے۔ پھر وہ تھوڑے تھوڑے نکلتے رہے یہاں تک کہ مدائن میں جمع ہوگئے۔ پھر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے (اور یہ شرط رکھی) کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تحکیم (arbitration اور peaceful settlement of disputes) پر راضی ہونے کی وجہ سے اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں (نعوذ باللہ)۔ پھر وہ تمام خوارج اس بات پر متفق ہوئے کہ جو کوئی بھی ان کا عقیدہ نہ رکھے وہ کافر ہے اور اس کا خون، مال اور اہل و عیال مباح اور حلال ہیں۔ پھر جو مسلمان بھی ان کے قریب سے گزرتا اسے قتل کر دیتے۔‘‘
اس کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی مزید بیان کرتے ہیں:
فهذا ملخّص أوّل أمرهم، فکانوا مختفين في خلافة علي رضی الله عنه حتی کان منهم عبد الرحمن بن ملجم الذي قتل عليًّا رضی الله عنه بعد أن دخل عليّ رضی الله عنه في صلاة الصبح. . . . فظهر الخوارج حينئذٍ بالعراق مع نافع بن الأزرق، وباليمامة مع نجدة بن عامر، وزاد نجدة علی معتقد الخوارج أن من لم يخرج ويحارب المسلمين فهو کافر، ولو اعتقد معتقدهم. . . . وکفروا من ترک الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر إن کان قادراً، وإن لم يکن قادراً فقد ارتکب کبيرة، وحکم مرتکب الکبيرة عندهم حکم الکافر. قال أبو منصور البغدادي في ’’المقالات‘‘: عدة فرق الخوارج عشرون فرقة.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 159
’’یہ ان کے آغاز کا خلاصہ ہے۔ پس یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں روپوش ہوگئے تھے یہاں تک کہ ان میں سے عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُس وقت شہید کردیا جب آپ رضی اللہ عنہ صبح کی نماز شروع کر چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ پس اس وقت خوارج نافع بن ازرق کے ساتھ عراق میں اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کے ساتھ ظاہر ہوگئے۔ اور نجدہ نے خوارج کے عقیدہ میں یہ اضافہ بھی کیا کہ جو شخص (مسلمانوں کی جماعت سے) بغاوت نہ کرے اور مسلمان کے ساتھ جنگ نہ کرے وہ بھی کافر ہے اگرچہ وہ خوارج کا عقیدہ بھی مانتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے قدرت کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تارک کو کافر قرار دیا اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب کا حکم بھی ان کے نزدیک کافر کا ہے۔ ابو منصور بغدادی نے ’’المقالات‘‘ میں خوارج کے فرقوں کی تعداد بیس بتائی ہے۔‘‘
امام ابن اثیر ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں خوارج کے منظم ہونے، دین کے نام پر لوگوں کو جمع کرنے، صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کو بدعتی اور کافر و مشرک قرار دینے اور اپنے آپ کو ہی حق پر سمجھتے ہوئے مسلم علاقوں پر بزور شمشیر قبضہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثم إن الخوارج لقی بعضهم بعضاً واجتمعوا فی منزل عبد اللہ بن وهب الراسبی، فخطبهم فزهّدهم فی الدنيا وأمرهم بالأمر بالمعروف والنهی عن المنکر، ثم قال: اخرجوا بنا من هذه القرية الظالم أهلها إلی بعض کور الجبال أو إلی بعض هذه المدائن منکرين لهذه البدع المضلة. ثم اجتمعوا فی منزل شريح بن أوفی العبسی، فقال ابن وهب: اشخصوا بنا إلی بلدة نجتمع فيها لإنفاذ حکم اللہ فإنکم أهل الحق. قال شريح: نخرج إلی المدائن فننزلها ونأخذها بأبوابها ونخرج منها سکانها.
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 213، 214
’’پھر خوارج ایک دوسرے کے ساتھ ملتے گئے اور وہ عبد اللہ بن وہب راسبی کے گھر میں جمع ہوئے تو اس نے انہیں خطبہ دیا اور انہیں دنیا سے بے رغبتی کی تلقین کی۔ انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا۔ پھر اس نے کہا: تم ہمارے ساتھ اِس بستی ۔ جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں ۔ سے الگ تھلگ کسی پہاڑی علاقے یا ان شہروں میں سے کسی ایسے شہر کی طرف نکل چلو جس کے رہنے والے ان گمراہ کن بدعتوں کو مسترد کرتے ہوں۔ پھر وہ شریح بن اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو وہاں ابن وہب نے کہا: ہمارے ساتھ ایسے شہر کی طرف نکل چلو جہاں ہم حکمِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لئے جمع ہو جائیں کیونکہ تم ہی اہلِ حق ہو۔ شریح نے کہا: ہم مدائن کی طرف نکلتے ہیں ہم وہاں جا کر پڑاؤ ڈالیں گے اور اس شہر پر قبضہ کر کے اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔‘‘
آگے چل کر امام ابن اثیر اس خط کا ذکر کرتے ہیں کہ جو منظم ہو کر مسلح گروہ تشکیل دینے کے بعد خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف تحریر کیا، جس کا ذِکر گذشتہ صفحات میں ’’عہد علوی میں خوارج کا تحریکی آغاز‘‘ کے تحت ہوچکا ہے۔
امام ابن الاثیر نے خوارج کی اسی ذہنی کیفیت اور دہشت گردی و بربریت کو واضح کرنے کے لیے چند واقعات بیان کیے ہیں:
1۔ خوارج نے حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر نہ کہنے پر ذبح کر دیا۔ امام طبری، امام ابن الاثیر اور حافظ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:
فأضجعوه، فذبحوه، فسال دمه في الماء، وأقبلوا إلی المرأة. فقالت: أنا امرأة، ألا تتقون اللہ؟ فبقروا بطنها، وقتلوا ثلاث نسوة من طئ.
1. ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 219
2. طبری، تاريخ الأمم والملوک، 3: 119
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 288
’’پس خوارج نے حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو چت لٹا کر ذبح کر دیا۔ آپ کا خون پانی میں بہ گیا تو وہ آپ کی زوجہ کی طرف بڑھے۔ انہوں نے خوارج سے کہا: میں عورت ہوں، کیا تم (میرے معاملے میں) اللہ سے نہیں ڈرتے؟ (لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور) اُنہوں نے ان کا پیٹ چاک کر ڈالا اور (ان سے ہمدردی جتانے پر) قبیلہ طے کی تین خواتین کو بھی قتل کر ڈالا۔‘‘
2۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے حارث بن مُرہ العبدی کو خوارج کے پاس دریافتِ احوال کے لیے بھیجا کہ معلوم کریں کیا ماجرا ہے؟ جب وہ خوارج کے پاس پہنچے اور حضرت عبد اللہ کو شہید کرنے کا سبب پوچھا تو خوارج نے انہیں بھی شہید کر دیا۔
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 219
3۔ حافظ ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ میں لکھتے ہیں کہ خوارج نے اِس واقعے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جواب بھجوایا کہ:
کلنا قتل إخوانکم، ونحن مستحلون دماء هم ودماء کم.
ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 288، 289
’’ہم سب نے تمہارے بھائیوں کو قتل کیا ہے اور ہم تمہارے خون کو بھی جائز سمجھتے ہیں اور ان کے خون کو بھی۔‘‘
4۔ خوارج اسلامی ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے اور صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کو مشرک قرار دیتے ہوئے ان کا خون جائز سمجھتے تھے۔ اس کا اندازہ اُس واقعے سے بھی ہوتا ہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت قیس بن سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کو خوارج کی طرف مذاکرات کے لیے روانہ کیا تو انہوں نے خوارج سے کہا:
عباد اللہ، أخرجوا إلينا طلبتنا منکم، وادخلوا في هذا الأمر الذي خرجتم منه، . . . فإنکم رکبتم عظيما من الأمر تشهدون علينا بالشرک وتسفکون دماء المسلمين.
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 219
’’اے اللہ کے بندو! تم ہمارے مطلوبہ افراد ہمارے حوالے کردو اور اس ریاست کی اتھارٹی میں داخل ہوجاؤ جس کے نظم اور عمل داری کو تم نے چیلنج کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بے شک تم نے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، تم ہمیں مشرک گردانتے ہو اور مسلمانوں کا خون بہاتے ہو۔‘‘
5۔ اسی طرح حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نمائندہ کے طور پر خوارج کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان سے یہ کہا:
عباد اللہ، إنا وإياکم علی الحال الأولی التی کنا عليها، ليست بيننا وبينکم عداوة، فعلام تقاتلوننا؟
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 219
’’اے اللہ کے بندو! بے شک ہم اور تم بنیادی طور پر اسی حالت پر ہیں جس پر ہم پہلے تھے! ہمارے اور تمہارے درمیان اصلاً کوئی دشمنی نہیں ہے۔ پھر تم کس بنیاد پر ہمارے ساتھ قتال کرتے ہو؟‘‘
6۔ خوارج کی دہشت گردانہ اور باغیانہ ذہنی کیفیت کی وضاحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خوارج سے درج ذیل خطاب سے بھی ہوتی ہے:
فبينوا لنا بم تستحلون قتالنا والخروج عن جماعتنا، وتضعون أسيافکم علی عواتقکم، ثم تستعرضون الناس تضربون رقابهم، إن هذا لهو الخسران المبين، واللہ لو قتلتم علی هذا دجاجة لعظم عند اللہ قتلها، فکيف بالنفس التی قتلها عند اللہ حرام.
1. ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 220
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 226
’’ہمیں بتاؤ کہ تم کس وجہ سے ہمارے ساتھ جنگ کو حلال سمجھتے ہو اور ریاست کی اتھارٹی سے خارج ہوئے ہو اور ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہو؟ پھر تم معصوم لوگوں کی گردنیں مارنے کے لئے سامنے آجاتے ہو۔ یقینا یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت کی قسم! اگر تم اس ارادے سے کسی مرغی کو بھی قتل کروگے تو اللہ تبارک و تعاليٰ کے ہاں یہ برا کام ہوگا۔ اس لیے غور کرو کہ پھر اُس انسان کو قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا جس کا خون بہانا اللہ نے حرام قرار دیا ہے؟‘‘
7۔ جب حضرت علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو امن کا جھنڈا عطا فرمایا تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جا کر منادی کی:
من جاء تحت هذه الراية فهو آمن، ومن لم يقتل ولم يستعرض فهو آمنٌ، ومن انصرف منکم إلی الکوفة أو إلی المدائن وخرج من هذه الجماعة فهو آمن.
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 221
’’جو کوئی اس جھنڈے کے نیچے آجائے گا وہ امن والا یعنی محفوظ و مامون ہو جائے گا؛ اور جس نے کوئی قتل کیا نہ مقابلہ کے لیے سامنے آیا اُسے بھی امان ہوگی اور تم میں سے جو کوئی کوفے یا مدائن کی طرف چلا گیا اور (خوارج کی) اس جماعت سے نکل گیا اُسے بھی امان مل جائے گی۔‘‘
مذکورہ بالا تمام بیانات اور استفسارات سے اس امر کی تصریح ہوجاتی ہے کہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے والے جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور عامۃ المسلمین کو کافر و مشرک قرار دیتے اور واجب القتل اور مباح الدم سمجھتے تھے، اور موقع ملنے پر انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
خوارج اپنی دعوت کی بنیاد قرآنی آیات پر استوار کرتے۔ وہ دینی غیرت و حمیت کو بھڑکا کر سادہ لوح مسلمانوں کا اپنا ہم نوا بناتے۔ اُنہیں جہاد کے نام پر مسلمانوں کے قتل عام کے لیے تیار کرتے اور ان کو جنت کا لالچ دے کر مرنے مارنے کے لیے تیار کرتے۔ حافظ ابن کثیر ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ میں خوارج کے ایک گروہ سے زید بن حصن طائی سنبسی کے خطبہ کا ذکران الفاظ میں کرتے ہیں:
واجتمعوا أيضا فی بيت زيد بن حصن الطائی السنبسی فخطبهم وحثهم علی الأمر بالمعروف والنهی عن المنکر، وتلا عليهم آيات من القرآن منها قوله تعالی: ﴿يٰدَاودُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِيْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی فَيُضِلَّکَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ﴾(1) وقوله تعالی: ﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾(2) وکذا التی بعدها وبعدها الظالمون الفاسقون. ثم قال: فأشهد علی أهل دعوتنا من أهل قبلتنا أنهم قد اتبعوا الهوی، ونبذوا حکم الکتاب، وجاروا فی القول والأعمال، وأن جهادهم حق علی المؤمنين. فبکی رجل منهم يقال له عبد اللہ بن سخبرة السلمی، ثم حرض أولئک علی الخروج علی الناس، وقال فی کلامه: واضربوا وجوههم وجباههم بالسيوف حتی يطاع الرحمن الرحيم، فإن أنتم ظفرتم وأطيع اللہ کما أردتم أثابکم ثواب المطيعين له العاملين بأمره، وإن قتلتم فأي شیء أفضل من المصير إلی رضوان اللہ وجنته.(3)
(1) ص، 38: 26
(2) المائدة، 5: 44
(3) ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 286
’’خوارج کا گروہ زید بن حصن طائی سنبسی کے گھر میں جمع ہوا تو اس نے انہیں خطبہ دیا اور اُنہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ترغیب کے ذریعے تیار کیا اور ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کیں جن میں اللہ تبارک و تعاليٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے: (اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راہ خدا سے بھٹکا دے گی۔) اور اللہتبارک وتعاليٰ کا ارشاد ہے: (اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے، سو وہی لوگ کافر ہیں۔) اس کے بعداگلی آیت (اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں۔) اور پھر اس سے اگلی آیت (اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں۔)۔ یہ آیاتِ مبارکہ ان پر تلاوت کرنے کے بعد اس نے کہا: پس میں مسلمانوں میں سے اپنے مخاطبینِ دعوت پر گواہی دیتا ہوں کہ بے شک انہوں نے خواہشِ نفس کی پیروی کی اور کتاب اللہ کا حکم ترک کر دیا۔ انہوںنے قول اور عمل میں ظلم کا ارتکاب کیا، سو مومنوں پر ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔ (اس خطاب میں وہ خود کو یعنی گروہ خوارج کو مومن کہہ رہا تھا اور خواہشِ نفس کی پیروی کرنے والے ظالم، جن کے خلاف جہاد واجب ہے، سے اس کی مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔) اس پر سامعین میں سے ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن سخبرہ السلمی تھا رو پڑا۔ پھر اس (زید بن حصن طائی) نے سامعین یعنی خوارج کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف خروج و بغاوت پر اکسایا اور دوران کلام کہا: ان کے چہروں اور پیشانیوں پر تلواروں سے وار کرتے رہو یہاں تک کہ خدائے رحمن و رحیم کی اطاعت کی جائے۔ پس اگر تم کامیاب و کامران ہو گئے اور اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت تمہارے حسبِ منشا کی گئی تو اللہ رب العزت تمہیں اپنی اطاعت کرنے والوں اور اس کے حکم پر عمل پیرا ہونے والوں کا ثواب عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم قتل کر دیے گئے تو اللہ کی رضا اور اس کی جنت حاصل کر لینے سے افضل کون سی چیز ہو سکتی ہے؟‘‘
آج ہم اپنے گرد و پیش ہونے والی دہشت گردوں کی سرگرمیوں اور ان کے طریقہ کار کا جائزہ لیں تو یہ بھی ناپختہ ذہنوں، کم عمروں اور جوانوں کی brain washing کے لئے بالکل وہی حربہ اور طریقہ استعمال کر رہے ہیں جو اُس دور کے خوارج کرتے تھے۔ اِن دہشت گردوں کے تصور اسلام کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ایک طرف تو مسلمانوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے لیکن دوسری طرف اسلام کی تعلیمات پر نہایت سختی سے عمل پیرا ہوتے۔ حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران کسی درخت سے ایک کھجور گری، ایک خارجی نے وہ اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ دوسرا خارجی معترض ہوا کہ تو نے مالک سے اجازت لیے اور قیمت دیے بغیر یہ کھجور منہ میں کیوں ڈال لی ہے؟ اس نے فوراً پھینک دی۔
ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 288
اسی طرح امام ابن الاثیر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خارجیوں کے پاس سے غیر مسلم شہریوں کا ایک خنزیر گزرا تو ان میں سے ایک خارجی نے اسے تلوار سے مار ڈالا۔ دیگر خارجیوں نے اسے سخت ملامت کی کہ ایک غیر مسلم شہری کے خنزیر کو کیوں مار ڈالا۔ جب خنزیر کا مالک آیا تو اُس خارجی نے خنزیر کے مالک سے معافی مانگی اور اُسے (قیمت دے کر) راضی کیا۔
ابن الأثير، الکامل فی التاريخ، 3: 218
ایک طرف خوارج کی ظاہری دین داری دیکھیے اور دوسری طرف ان کی دہشت گردی، سفاکی اور بربریت ملاحظہ کیجیے۔ حافظ ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ میں مزید لکھتے ہیں:
ومع هذا قدموا عبد اللہ بن خبّاب فذبحوه، وجاؤوا إلی امرأته فقالت: إنی امرأة حبلی، ألا تتقون اللہ، فذبحوها وبقروا بطنها عن ولدها، فلما بلغ الناس هذا من صنيعهم خافوا إن هم ذهبوا إلی الشام واشتغلوا بقتال أهله أن يخلفهم هؤلاء فی ذراريهم وديارهم بهذا الصنع، فخافوا غائلتهم، وأشاروا علی علي بأن يبدأ بهؤلاء، ثم إذا فرغ منهم ذهب إلی أهل الشام بعد ذلک والناس آمنون من شر هؤلاء فاجتمع الرأی علی هذا وفيه خيرة عظيمة لهم ولأهل الشام أيضا. فأرسل علي رضی الله عنه إلی الخوارج رسولا من جهته وهو الحرب بن مرة العبدی، فقال: أخبر لی خبرهم، وأعلم لی أمرهم واکتب إلی به علی الجلية، فلما قدم عليهم قتلوه ولم ينظروه، فلما بلغ ذلک عليا عزم علی الذهاب إليهم أولا قبل أهل الشام. فبعثوا إلی علی يقولون: کلنا قتل إخوانکم ونحن مستحلون دماء هم ودماء کم. فتقدم إليهم قيس بن سعد بن عبادة فوعظهم فيما ارتکبوه من الأمر العظيم، والخطب الجسيم، فلم ينفع وکذلک أبو أيوب الأنصاري وتقدم أمير المؤمنين علی بن أبی طالب إليهم، فإنکم قد سولت لکم أنفسکم أمرا تقتلون عليه المسلمين، واللہ لو قتلتم عليه دجاجة لکان عظيما عند اللہ، فکيف بدماء المسلمين.
ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 288
’’وہ حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو نہر کے کنارے پر لائے اور ذبح کر دیا اور پھر ان کی اہلیہ کے پاس آئے تو اُس نے کہا: میں حاملہ ہوں، کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ہو؟ انہوں نے اس کو بھی ذبح کر ڈالا اور اس کا پیٹ چاک کر کے بچہ باہر نکال پھینکا۔ جب لوگوں تک ان کے یہ کرتوت پہنچے تو وہ ڈر گئے کہ اگر وہ شام کی طرف چلے گئے اور اہل شام کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوگئے تو یہ لوگ ان کے پیچھے ایسی ہی دہشت گردی ان کے اہل خانہ کے ساتھ انجام دیں گے۔ وہ اپنے اہل و عیال کے انجام سے ڈر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ جنگ کا آغاز ان ہی دہشت گردوں سے کریں، پھر جب ان کے خاتمہ سے فارغ ہو جائیں تب اہل شام کی طرف متوجہ ہوں۔ اس طرح ان کے خاتمہ کے بعد لوگ ان کے شر سے محفوظ ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس رائے پر اتفاق ہوگیا کیونکہ سب کی بہتری اسی میں تھی۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حرب بن مرہ عبدی کو سفارت کار بنا کر خوارج کی طرف بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا: مجھے اُن کی خبر دینا اور اُن کے معاملہ سے آگاہ کرتے رہنا اور میری طرف واضح طور پر لکھ بھیجنا۔ پس جب وہ ان (خارجیوں) کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان کو قتل کردیا اور انہیں کچھ بھی مہلت نہ دی۔ جب ان کے قتل کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُن (خارجیوں) کی طرف ملک شام سے پہلے جانے کا عزم کر لیا۔ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف یہ پیغام بھیجا۔ ہم نے مل کر تمہارے بھائیوں کو قتل کیا ہے اور ہم تمہارے اور ان کے خون کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر حضرت قیس بن سعد بن عبادہ ان (خارجیوں) کے پاس تشریف لے گئے اور اُنہیں سمجھایا کہ تم نے بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے لیکن آپ کے سمجھانے کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی اُنہیں سمجھایا مگر بے سود! پھر امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اُن کی طرف پیغام بھیجا کہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لئے حرام کو آراستہ کر دیا ہے اور اس بنا پر تم مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھنے لگ گئے ہو۔ بخدا! اگر اس انداز فکر سے مرغی بھی مارتے تو گناہ عظیم ہوتا، بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے جرم کی سنگینی کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘
کتب تاریخ کے مذکورہ اِقتباسات سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خوارج اِنسانی خون کو نہایت ارزاں گردانتے تھے اور اِنسانی جان کو قتل کرنا ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا تھا حتی کہ انہوں نے اُن نفوس قدسیہ کی خوں ریزی سے بھی گریز نہیں کیا جنہوں نے براہِ راست حضور نبی اکرم ﷺ کے زیر سایہ تربیت و پرورش پائی تھی۔
چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر یہ بات سمجھا دی تھی کہ ’’لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ‘‘ (یہ خوارج ہمیشہ نکلتے رہیں گے) اس لئے موجودہ دور کے خوارج (دہشت گرد) بھی انہی صفات سے متصف ہونے کی بنا پر پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنے پیش رؤوں کی طرح لوگوں کا خون بہاتے ہیں، خواتین اور بچوں پر حملے کرکے انہیں اذیت ناک موت دیتے ہیں، ریاستی بالادستی اور نظام کو تسلیم نہیں کرتے، مساجد پر حملے کرکے انہیں مسمار کرتے ہیں، آبادیوں اور عوام الناس کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوگ اپنے نظریات کے مخالف لوگوں کو قتل کرنے اور تباہی پھیلانے کو جہاد سمجھتے ہیں۔ یہ تمام انسانیت کُش کارروائیاں بلاشک و شبہ ان خوارج کے فکر و عمل کا ہی تسلسل ہیں۔
گزشتہ صفحات میں دی گئی بنیادی مباحث سے یہ اَمر مترشح ہو جاتا ہے کہ خوارج دین میں نئی نئی بدعات ایجاد کرتے تھے۔ وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کا خود ساختہ اطلاق کرتے اور غلط تاویل کے ذریعے اپنے مخالف مسلمانوں کو واجب القتل ٹھہراتے تھے۔ ذیل میں ان کی چند نمایاں بدعات درج کی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے پہلے ہی آگاہ فرما دیا تھا:
1۔ وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مومنین پر کریں گے۔
بخاری، الصحيح، کتاب، استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6: 2539
2۔ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔
بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالی: تعرج الملائکة والروح إليه، 6: 2702، رقم: 6995
3۔ غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔
حاکم، المستدرک، 2: 166، رقم: 2657
4۔ عبادت میں بہت متشدد اور غلو کرنے والے (extremist) ہوں گے۔
أبويعلی، المسند، 1: 90، رقم: 90
5۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو دائمی جہنمی اور اس کا خون اور مال حلال قرار دیں گے۔
6۔ جس نے اپنے عمل اور غیر صائب رائے سے قرآن کی نافرمانی کی وہ کافر ہے۔
7۔ ظالم اور فاسق حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج کو فرض قرار دیں گے۔
1. عبد القاهر بغدادی، الفرق بين الفرق: 73
2. ابن تيميه، مجموع فتاوی، 13: 31
ابتدائی تاریخ سے ہی یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ خوارج اپنے عقائد و نظریات اور بدعات میں اس قدر انتہاء پسند تھے کہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی (نعوذ باللہ) کافر خیال کرتے اور ان پر کفر کے فتوے لگانے سے نہ ہچکچاتے۔ امام شہرستانی نے المِلَل والنحل میں لکھا ہے کہ زیاد بن اُمیہ نے عروہ بن ادیہ / اذینہ نامی خارجی سے پوچھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کیا حال تھا؟ اُس نے کہا: اچھے تھے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اُس نے کہا: ابتدا کے چھ سال تک اُن کو میں بہت دوست رکھتا تھا، پھر جب انہوں نے نئی نئی باتیں اور بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہوگیا اس لئے کہ وہ آخر میں کافر ہو گئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا تو اُس نے کہا: وہ بھی اوائل میں اچھے تھے، جب اُنہوں نے حَکَم (arbitrator) بنایا تو (نعوذ باللہ) کافر ہو گئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہو گیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا تو اُس نے اُن کو سخت گالی دی۔(1) (العیاذ باللہ۔)
(1) شهرستانی، الملل والنحل، 1: 118
امام شہرستانی نے مزید لکھا ہے کہ خوارج حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سمیت تمام اہل اسلام کی جو اُن کے ساتھ تھے سب کی تکفیر کیا کرتے تھے اور سب کو دائمی دوزخی کہتے تھے۔(2) (نعوذ باللہ من ذالک۔)
(2) شہرستانی، الملل والنحل، 1: 121
امام ابو بکر الآجری (م 360ھ) نے کتاب الشریعۃ میں خوارج کی نمایاں بدعات سیئہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مذمت میں نہایت مفصل تحقیق درج کی ہے اور اس کا عنوان یوں قائم کیا ہے:
باب ذم الخوارج وسوء مذهبهم وإباحة قتالهم، وثواب من قتلهم أو قتلوه:
’’خوارج کی مذمت، ان کی بد عقیدگی، ان کے ساتھ جنگ کرنے کے جواز اور ان کو قتل کرنے والے یا ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے کے اجر و ثواب کا بیان۔‘‘
امام ابوبکر الآجری لکھتے ہیں:
لم يختلف العلماء قديماً وحديثاً أن الخوارج قوم سوء، عصاة ﷲ عزوجل ولرسوله صلی الله عليه وآله وسلم ، وإن صلوا وصاموا، واجتهدوا فی العبادة، فليس ذلک بنافع لهم، وإن أظهروا الأمر بالمعروف والنهی عن المنکر، وليس ذلک بنافع لهم، لأنهم قوم يتأولون القرآن علی ما يهوون، ويموهون علی المسلمين. وقد حذرنا اللہ عزوجل منهم، وحذرنا النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وحذرناهم الخلفاء الراشدون بعده، وحذرناهم الصحابة رضی الله عنهم ومن تبعهم بإحسان رحمة اللہ تعالی عليهم.
الخوارج هم الشراة الأنجاس الأرجاس، ومن کان علی مذهبهم من سائر الخوارج، يتوارثون هذا المذهب قديماً وحديثاً، ويخرجون علی الأئمة والأمراء ويستحلون قتل المسلمين.
وأوّل قرن طلع منهم علی عهد رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: هو رجل طعن علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وهو يقسم الغنائم بالجعرانة، فقال: اعدل يا محمد، فما أراک تعدل، فقال صلی الله عليه وآله وسلم: ويلک، فمن يعدل إذا لم أکن أعدل؟ فأراد عمر رضی الله عنه قَتْلَه، فمنعه النبی صلی الله عليه وآله وسلم من قتله، وأخبر عليه الصلاة والسلام: أن هذا وأصحاباً له يحقر أحدکم صلاته مع صلاتهم، وصيامه مع صيامهم، يمرقون من الدين کما يمرق السهم من الرمية.
وأمر عليه الصلاة والسلام فی غير حديث بقتالهم، وبين فضل من قتلهم أو قتلوه. ثم إنهم بعد ذلک خرجوا من بلدان شتی، واجتمعوا وأظهروا الأمر بالمعروف والنهی عن المنکر، حتی قدموا المدينة، فقتلوا عثمان بن عفان رضی الله عنه. وقد اجتهد أصحاب رسول اللہ رضی الله عنه ممن کان فی المدينة فی أن لا يقتل عثمان، فما أطاقوا ذلک. ثم خرجوا بعد ذلک علی أمير المؤمنين علی بن أبی طالب رضی الله عنه، ولم يرضوا بحکمه، وأظهروا قولهم. وقالوا: لا حکم إلا ﷲ، فقال علی رضی الله عنه: کلمة حق أرادوا بها الباطل، فقاتلهم علی رضی الله عنه فأکرمه اللہ عزوجل بقتلهم، وأخبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم بفضل من قتلهم أو قتلوه، وقاتل معه الصحابة رضی الله عنهم. فصار سيف علی بن أبی طالب فی الخوارج سيف حق إلی أن تقوم الساعة.
’’ائمہ متقدمین و متاخرین کا اس امر پر اجماع ہے کہ خوارج ایک فساد انگیز گروہ ہے۔ یہ اللہ تعاليٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کے نافرمانوں کا گروہ ہے۔ یہ صوم و صلوٰۃ کی خواہ کتنی پابند ی کریں اور عبادت میں کتنی ہی محنت و ریاضت کریں، یہ سب انہیں کچھ نفع نہ دے گا اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا خواہ کتنا پرچار کریں، انہیں یہ بھی کچھ فائدہ نہ پہنچائے گا کیونکہ یہ ایسا گروہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق قرآن کی تفسیر و تاویل کرتا ہے اور مسلمانوں پر امور دین خلط ملط کر دیتا ہے۔ اللہ گ اور حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں ان سے خبردار فرمایا ہے، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے ہمیں ان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور تابعین و تبع تابعین رحمھم اللہ تعالی نے ہمیں ان سے خبردار رہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔‘‘
’’خوارج فتنہ پرور، شر انگیز اور پلید و ناپاک افراد کا گروہ ہے، اور باقی تمام خوارج میں سے جس کسی نے بھی ان کا مذہب اور طریق اختیار کیا، وہ بھی ان کے حکم میں ہے کیونکہ قدیم خوارج ہوں یا آج کے دور کے جدید؛ یہ مذہب انہیں ایک دوسرے سے وراثت میں ملتا ہے۔ یہ حکومت وقت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور عامۃ المسلمین کی خوں ریزی کو جائز قرار دیتے ہیں۔‘‘
’’خوارج کا اَوّلین فرد عہد رسالت مآب ﷺ میں نمودار ہوا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضور نبی اکرم ﷺ پر اس وقت طعنہ زنی کی جب آپ ﷺ جعرانہ کے مقام پر مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس بد بخت نے کہا: اے محمد! عدل کیجیے! میرے خیال میں آپ عدل نہیں کر رہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: تو ہلاک ہو! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر حضور ﷺ نے انہیں اس کے قتل سے (حکمتِ نبوت کے تحت) روک دیا اور آپ ﷺ نے اس شخص سے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا: اس کے ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر کوئی ان کے مقابلے میں اپنی نمازوں اور روزوںکو حقیر جانے گا، یہ دین سے اس طرح صاف نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
’’آپ ﷺ نے ایک حدیث میں ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم فرمایا اور ان کو قتل کرنے والے اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے کی فضیلت بیان فرمائی۔ پھر یہ لوگ مختلف علاقوںسے نکل کر جمع ہوئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پرچار کرنے لگے تاآنکہ یہ مدینہ منورہ پہنچے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ کے جو صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں موجود تھے انہوں نے بہت کوشش کی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو قتل ہونے سے بچا لیں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر انہی لوگوں نے بعد ازاں (جنگِ صفین میں اَمرِ تحکیم کے بعد) حضرت علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک نعرے کا پرچار شروع کر دیا کہ ’’حکومت صرف اللہ کی ہے‘‘ یا ’’قانون صرف اللہ کا ہے۔‘‘ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بات تو حق ہے مگر ان کی مراد باطل ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کی اور اللہ تعاليٰ نے آپ کو انہیں قتل کرنے کی سعادت بخشی کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں قتل کرنے والوں اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والوںکی اَفضلیت کی بشارت دی تھی۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ان کے خلاف جنگ کی۔ پس حضرت علیص کی خوارج کے خلاف مسلح جد و جہد قیامت تک کے لیے حق کی مثال بن گئی۔‘‘
امام ابو بکر الآجری مزید فرماتے ہیں:
فلا ينبغی لمن رأی اجتهاد خارجی قد خرج علی إمام ، عادلاً کان الإمام أم جائراً ، فخرج وجمع جماعة وسل سيفه، واستحل قتال المسلمين ، فلا ينبغی له أن يغتر بقراء ته للقرآن، ولا بطول قيامه فی الصلاة، ولا بدوام صيامه، ولا بحسن ألفاظه فی العلم إذا کان مذهبه مذهب الخوارج.
’’حکومت وقت عدل و انصاف کی علم بردار ہو یا فسق و فجور کی راہ پر گامزن ہو، دونوں صورتوں میں جب کوئی شخص کسی خارجی کو دیکھے کہ اس نے حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کر دی ہے اور اس کے خلاف کوئی لشکر تشکیل دے کر ہتھیار اٹھا لئے ہیں اور پر امن مسلمان شہریوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز قرار دے دیا ہے، تو جو شخص یہ سب کچھ دیکھے اس پر لازم ہے کہ وہ کسی خارجی کے قرآن پڑھنے، نماز میں طویل قیام کرنے، دائمی روزے رکھنے اور خوبصورت الفاظ میں علمی نکات بیان کرنے سے مرعوب نہ ہو اور نہ ہی اس کے دھوکے میں آئے۔ جب کہ ایسے اعمال کرنے والاشخص خوارج کے مذہب پر چلنے والا ہو۔‘‘
زیرِ بحث موضوع سے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں جنہیں امت مسلمہ کے کثیر علماء نے قبول کیا ہے۔
اس کے بعد امام آجری نے خوارج کے ساتھ جنگ کرنے، ان کو واصل جہنم کرنے اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے کے اجر و ثواب کے حوالے سے باب قائم کیا ہے اور اس میں احادیث بیان کی ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَومٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الِإسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، مَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ عِنْدَ اللہ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم،
باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6: 2539، رقم: 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2: 746، الرقم: 1066
3. ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب في صفة المارقة، 4: 481، رقم: 2188
امام ترمذی نے السنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں ایسے لوگ (ظاہر ہوں گے یا) نکلیں گے جو کم عمر (نوجوان)، ناپختہ ذہن اور عقل سے کورے ہوں گے۔ وہ بظاہر لوگوں سے اچھی بات کریں گے مگر دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس دورانِ جنگ جہاں بھی ان سے سامنا ہو انہیں قتل کیا جائے کیونکہ ان کو قتل کرنا اللہ کے ہاں اَجر و ثواب کا باعث ہوگا۔‘‘
2. عَنْ أبي أمامة: طُوْبٰی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوْهُمْ.
1. أبوداود، السنن، کتاب السنة، 4: 243، رقم: 4765
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 224، رقم: 13362
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 161، رقم: 2649
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا): خوشخبری ہو اُسے جو اُنہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔‘‘
3. وَعَنْهُ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم: کِلَابُ أَهْلِ النَّارِ، کِلَابُ النَّارِ، کِلَابُ النَّارِ، ثَلَاثًا. ثُمَّ قَالَ: شَرُّ قَتْلٰی قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَخَيْرُ قَتْلَی الَّذِيْنَ قَتَلُوْهُمْ.
1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1: 62، رقم:
176
2. حاکم، المستدرک، 2: 163، رقم: 2654
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (خوارج) اہل دوزخ کے کتے ہیں، دوزخ کے کتے ہیں، دوزخ کے کتے ہیں۔ تین بار فرمایا۔ پھر فرمایا: یہ آسمان کے سائے تلے (یعنی زمین پر) قتل ہونے والے بدترین مقتول ہیں، اور بہترین مقتول وہ ہیں جنہیں یہ لوگ قتل کریں گے۔‘‘
4. عَنْ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم،
باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6: 2539، رقم: 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2: 746، رقم: 1066
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دو کیونکہ ان کے قاتلوں کو بروزِ قیامت بے حد و حساب اجر ملے گا۔‘‘
5. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنها قَالَتْ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ: هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي.
هيثمی، مجمع الزوائد ، 6: 239
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں قتل کرنے والے میری اُمت کے بہترین لوگ ہوں گے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved