260/ 1. عَنْ اَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَکَّهَ وَالْمَدِيْنَةِ وَمَعَهُ بِـلَالٌ فَاَتَی النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم اَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: اَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ: اَبْشِرْ، فَقَالَ: قَدْ اَکْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ اَبْشِرْ فَاَقْبَلَ عَلٰی اَبِي مُوْسٰی وَبـِلَالٍ کَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ: رَدَّ الْبُشْرٰی فَاقْبَـلَا اَنْتُمَا قَالَا: قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيْهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيْهِ وَمَجَّ فِيْهِ ثُمَّ قَالَ: اشْرَبَا مِنْهُ وَاَفْرِغَا عَلٰی وُجُوْهِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا وَاَبْشِرَا فَاَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَـلَا، فَنَادَتْ امُّ سَلَمَهَ رضي اه عنها مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ اَنْ اَفْضِلَا لِامِّکُمَا فَاَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، 4/ 1573، الرقم: 4073، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین رضي الله عنھما، 4/ 1943، الرقم: 2497، وأبو یعلی في المسند، 13/ 301، الرقم: 7314، والفاکهي في أخبار مکة، 5/ 63، الرقم: 2845، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 32/ 39-41، والعیني في عمدة القاري، 17/ 306، الرقم: 4328.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جبکہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر قیام پذیر تھے اور اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں موجود تھے تو بارگاہِ نبوت میں ایک اعرابی آکر کہنے لگا: (یارسول الله!) کیا آپ اپنا وہ وعدہ پورا نہیں فرمائیں گے جو آپ نے مجھ سے کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (جنت کی) بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگا کہ آپ اکثر مجھے صرف یہی فرما دیتے ہیں۔ پس آپ ﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس نے تو بشارت قبول نہیں کی، کیا تم دونوں اسے قبول کرتے ہو؟ دونوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ہم اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے پانی کا ایک برتن منگایا اس میں اپنے دستِ اقدس اور چہرہ مبارک دھویااور پھر اس میں کلی فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا: تم دونوں اسے پی لو۔ باقی اپنے چہروں اور سینوں پر چھڑک لو اور دونوں (جنت کی) بشارت حاصل کرو۔ پس دونوں حضرات نے برتن لے کر حکم کی تعمیل کی۔ تو حضرت اُمّ سلمہ رضی الله عنھا نے (جو کہ پردے کے اندر سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہیں تھیں) انہیں آواز دی کہ اس (بابرکت) پانی میں سے (کچھ حصہ) اپنی ماں کے لیے بھی ضرور چھوڑنا۔ تو ان دونوں صحابہ نے (وہ پانی بچا کر) ان کی خدمت میں بھی بطورِ تبرک پیش کر دیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
261/ 2. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ اَتٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَبْدَ اللهِ بْنَ ابَيٍّ بَعْدَ مَا ادْخِلَ حُفْرَتَهُ، فَاَمَرَ بِهِ، فَاخْرِجَ، فَوَضَعَهُ عَلٰی رُکْبَتَيْهِ، وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيْقِهِ وَاَلْبَسَهُ قَمِيْصَهُ، فَاللهُ اَعْلَمُ. وَکَانَ کَسَا عَبَّاسًا رضی الله عنه قَمِيْصًا. قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ اَبُوْ هَارُوْنَ: وَکَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَمِيْصَانِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللهِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اَلْبِسْ اَبِي قَمِيْصَکَ الَّذِي يَلِي جِلْدَکَ، قَالَ سُفْيَانُ: فَيُرَوْنَ اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم اَلْبَسَ عَبْدَ اللهِ قَمِيْصَهُ مُکَافَةً لِمَا صَنَعَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب هل یخرج المیت من القبر واللحد لعلة، 1/ 453، الرقم: 1285، وأیضًا في کتاب اللباس، باب لبس القمیص، 5/ 2184، الرقم: 5459، ومسلم في الصحیح، کتاب صفات المنافقین وأحکامهم، 4/ 2140، الرقم: 2773، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب أخراج المیت من اللحد بعد أن یوضع فیہ، 4/ 84، الرقم: 2019، وأبو یعلی في المسند، 3/ 458، الرقم: 1958، وابن کثیر في تفیسر القرآن العظیم، 2 / 380، والعیني في عمدة القاري، 8/ 164، وأیضًا، 21/ 310.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ عبد الله بن اُبی کی قبر پر تشریف لے گئے جبکہ اسے گڑھے میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ کے حکم پر اسے باہر نکالا گیا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا۔ اس پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اپنی قمیص اسے پہنائی۔ الله تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اس (عبد الله بن اُبی) نے (حضور ﷺ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو (غزہ بدر کے موقع پر جب وہ قیدی بن کر آئے تھے) اپنی قمیص پہنائی تھی۔ حضرت سفیان سے روایت ہے کہ حضرت ہارون نے فرمایا: اس وقت رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو قمیصیں تھیں۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی تھے) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ کو وہ قمیص پہنائیں جو جسم اطہر سے لگی ہوئی ہے۔ حضرت سفیان نے بیان کیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس لیے عبد الله بن اُبی کو اپنی قمیص پہنائی کہ اس کے اس احسان کا بدلہ ہو جائے (جو اس نے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دے کر کیا تھا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
262/ 3. عَنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: مَرِضْتُ مَرَضًا، فَاَتَانِي النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم يَعُوْدُنِي وَاَبُوْ بَکْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَوَجَدَانِي اغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّاَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم، ثُمَّ صَبَّ وَضُوْئَهُ عَلَيَّ، فَاَفَقْتُ، فَإِذَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ اَصْنَعُ فِي مَالِي کَيْفَ اَقْضِي فِي مَالِي، فَلَمْ يُجِبْنِي بِشَيئٍ حَتّٰی نَزَلَتْ يَةُ الْمِيْرَاثِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المرضی، باب عیادة المغمی علیه، 5/ 2139، الرقم: 5327، وأیضًا فيکتاب الفرائض، باب قول الله تعالی: یوصیکم الله في اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین، 6/ 2473، الرقم: 6344، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب قوله: یوصیکم الله في أولادکم، 4/ 1669، الرقم:4301، وأیضًا فيکتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما کان النبي صلی الله علیه وآله وسلم یسأل مما لم ینزل علیه الوحي، 6/ 2666، الرقم: 6879، ومسلم في الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الکلالة، 3/ 1234-1235، الرقم: 1616، والترمذي في السنن، کتاب الفرائض، باب میراث الأخوات، 4/ 417، الرقم: 2097، وقال أبو عیسی: ھذا حدیث حسن صحیح، وأبو داود في السنن، کتاب الفرائض، باب في الکلالة، 3/ 119، الرقم: 2886، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 69، الرقم: 6322-6323، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 307، الرقم: 14337، وأبو یعلی في المسند، 4/ 15، الرقم: 2018.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بہت زیادہ بیمار پڑ گیا، تو حضورنبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے پیدل تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور اپنے وضو سے بچا ہوا (متبرک) پانی میرے اوپر چھڑکا جس سے مجھے ہوش آگیا۔ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ تشریف فرما ہیں تو میں عرض گزار ہوا: یارسول الله! (مرنے سے قبل) میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ یا میں اپنے مال کا فیصلہ کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے مجھے کوئی جواب مرحمت نہ فرمایا یہاں تک کہ آیتِ میراث نازل ہو گئی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
263/ 4. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه اَنَّ امْرَةً سَوْدَاءَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ اَوْ شَابًّا، فَفَقَدَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَسَاَلَ عَنْهَا اَوْ عَنْهُ فَقَالُوْا: مَاتَ. قَالَ: اَفَـلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي؟ قَالَ: فَکَاَنَّهُمْ صَغَّرُوْا اَمْرَهَا اَوْ اَمْرَهُ. فَقَالَ: دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِهِ فَدَلُّوْهُ، فَصَلّٰی عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْءَ ةٌ ظُلْمَةً عَلٰی اَهْلِهَا وَإِنَّ اللهَ ل يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَـلَاتِي عَلَيْهِمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وفي روایة لابن ماجه: قَالَ: فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ لَهُ رَحْمَةٌ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصلاة، باب کنس المسجد، 1/ 175-176، الرقم: 446، 448، وأیضًا في کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما یدفن، 1/ 448، الرقم: 2172، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2/ 659، الرقم: 956، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 3/ 211، الرقم: 3203، وابن ماجہ في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1/ 489، الرقم: 1527-1529، والنسائي في السنن الکبری، 1/ 651، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 388، الرقم: 9025، وأبو یعلی في المسند، 11/ 314، الرقم: 6429، وابن حبان في الصحیح، 7/ 355، الرقم: 3086، والبیهقي في السنن الکبری، 4/ 46-47، الرقم: 6802-6806.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے (عورت یا جوان کو کچھ عرصہ ) مفقود پایا، تو آپ ﷺ نے اس عورت یا نوجوان کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو آپ لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں: گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کو اس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ ﷺ نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا: یہ قبریں ان قبروں والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی قبور میں) روشنی فرما دے گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میرا اس نوجوان کا جنازہ پڑھنا اس کے لیے باعث رحمت (و برکت) ہے۔‘‘
264/ 5. عَنْ امِّ عَطِيَهَ رضي الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ فَقَالَ: اغْسِلْنَهَا ثَـلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ اَکْثَرَ مِنْ ذَالِکَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ کَافُوْرًا، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا، آذَنَّهُ فَاَلْقٰی إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ: اَشْعِرْنَهَا يَهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما یستحب أن یغسل وترًا، 1/ 423، الرقم: 1196، وأیضًا في باب یجعل الکافور في آخره، 1/ 424، الرقم: 1200، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب في غسل المیت، 2/ 646، الرقم: 939، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في غسل المیت، 3/ 315، الرقم: 990، وقال أبو عیسی: حدیث أم عطیة حدیث حسن صحیح، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب غسل المیت وترًا، 4/ 30-33، الرقم: 1885-1894، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في غسل المیت، 1/ 468، الرقم: 1458، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 84، الرقم: 20809.
’’حضرت اُمّ عطیہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ ﷺ کی صاحبزادی (حضرت رقیہ رضی الله عنہا) کو (ان کے وصال کے بعد) غسل دے رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ بار غسل دینا، اور کافور کو آخر میں رکھنا۔ اورجب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کر دینا۔ جب ہم فارغ ہوئیں تو آپ ﷺ کو اطلاع کر دی گئی۔ آپ ﷺ نے (بطور تبرک) اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور فرمایا: انہیں اس میں لپیٹ دو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
265/ 6. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: اتِيَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِيْنِهِ غُـلَامٌ اَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْاَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا غُـلَامُ، اَتَاْذَنُ لِي اَنْ اعْطِيَهُ الْاَشْيَاخَ؟ قَالَ: مَا کُنْتُ لِاوْثِرَ بِفَضْلِي مِنْکَ اَحَدًا يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَاَعْطَهُ يَهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَقَالَ النَّوَوِيُّ: وَهٰذَا الْغُـلَامُ هُوَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المساقاة الشرب، باب في الشرب، 2/ 829، الرقم: 2224، وأیضًا في کتاب المظالم والغصب، باب إذا أذن له أو أحله ولم یبین کم هو، 2/ 865، الرقم: 2319، وأیضًا في کتاب الهبة وفضلها والتحریض علیها، باب الهبة المقبوضة وغیر المقبوضة والمقسومة وغیر المقسومة، 2/ 920، الرقم: 2464، وأیضًا في کتاب الأشربة، باب هل یستأذن الرجل من عن یمینه في الشرب لیعطي الأکبر، 5/ 2130، الرقم: 5297، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربة، باب استحباب إدارة الماء واللبن ونحوهما عن یمین المبتدء، 3/ 1604، الرقم: 2030، ومالک في الموطأ، 2/ 926، الرقم: 1656، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 333، 338، الرقم: 22875، 22918، وابن حبان في الصحیح، 12/ 151، الرقم: 5335، والربیع في المسند،1/ 149، الرقم: 375، والنووي في ریاض الصالحین، 1/ 162.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور آپ ﷺ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بزرگ صحابہ بائیں طرف تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) بزرگوں کو پہلے عطا کروں؟ اس لڑکے نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ سو آپ ﷺ نے پہلے اُس لڑکے کو وہ تبرک عنایت فرمایا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’امام نووی نے فرمایا: وہ نوجوان حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما تھے۔‘‘
266/ 7. عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوْئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1/ 81، الرقم: 187، وأیضًا في کتاب المناقب، باب کنیة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1301، الرقم: 3347، وأیضًا في باب خاتم النبوة، 3/ 1301، الرقم: 3348، وأیضًا في کتاب المرضی، باب من ذهب بالصبي المریض لیدعی له، 5/ 2146، الرقم: 5346، وأیضًا في کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبیانِ بالبرکة ومسحِ رؤوسهم، 5/ 2337، الرقم: 5991، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتم النبوة وصفته ومحله من جسده صلی الله علیه وآله وسلم، 4/ 1823، الرقم: 2345، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 361، الرقم: 7518، والطبراني في المعجم الکبیر، 7/ 157، الرقم: 6682، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4/ 379، الرقم: 2420-3430.
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر وضو فرمایا تو میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پیا۔ پھر آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
267/ 8. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّهُ قَالَ: رَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَحَانَتْ صَلَةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوْءَ، فَلَمْ يَجِدُوْهُ، فَاتِيَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِوَضُوْءٍ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي ذَالِکَ الْإِنَائِ يَدَهُ وَاَمَرَ النَّاسَ اَنْ يَتَوَضَّئُوْا مِنْهُ. قَالَ: فَرَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ اَصَابِعِهِ حَتّٰی تَوَضَّئُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب التماس الوضوء إذا حانت الصلاة، 1/ 74، الرقم: 167، وأیضًا في کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/ 1310، الرقم:3380، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 4/ 1783، الرقم: 2279، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في آیات إثبات نبوة النبي صلی الله علیه وآله وسلم وما قد خصه الله، 5/ 596، الرقم: 3631، وقال: وحدیث انس حدیث حسن صحیح، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب الوضوء من الإناء، 1/ 60، الرقم: 76، ومالک في الموطا، 1/ 32، الرقم: 62، والشافعي في المسند، 1/ 15، وابن حبان في الصحیح، 14/ 477، الرقم: 6539، والربیع في المسند، 1/ 63، الرقم: 131، والبیهقي في السنن الکبری، 1/ 193، الرقم: 878، والفریابي في دلائل النبوة/ 55، الرقم: 19، والعیني في عمدة القاري، 3/ 33، وأیضًا، 16/ 118، الرقم: 3753.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ لوگوں نے پانی تلاش کیا تو نہ ملا۔ پس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس برتن میں اپنا دستِ مبارک ڈالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ ﷺ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی کو (چشمے کی طرح) پھوٹتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آخری آدمی نے بھی وضو کرلیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
268/ 9. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ، فَاتِيَ بِقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فِیهِ شَيئٌ مِنْ مَاءٍ، فَوَضَعَ اَصَابِعَهُ فِيْهِ. قَالَ اَنَسٌ رضی الله عنه: فَجَعَلْتُ اَنْظُرُ إِلَی الْمَاءِ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ اَصَابِعِهِ. قَالَ اَنَسٌ رضی الله عنه : فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّاَ مَا بَيْنَ السَّبْعِيْنَ إِلَی الثَّمَانِيْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب الوضوء من التور، 1/ 84، الرقم: 197، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 4/ 1783، الرقم: 2279، وابو یعلی في المسند، 6/ 74، الرقم: 3329، وابن حبان في الصحیح، 14/ 483، الرقم: 6546، والبیهقي في السنن الکبری، 1/ 30، الرقم: 117، وأیضًا في الاعتقاد/ 274، والفریابي في دلائل النبوة/ 57، الرقم: 22، والنووي في ریاض الصالحین/ 206، الرقم: 206، والعیني في عمدة القاري، 3/ 93، الرقم: 200.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے پانی کا برتن منگوایا تو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں کھلے منہ کا پیالہ پیش کیا گیا جس میں ذرا سا پانی تھا۔ آپ ﷺ نے اس میں اپنی انگلیاں مبارک ڈالیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پانی کو دیکھ رہا تھا جو آپ ﷺ کی انگلیوں سے پھوٹ کر بہہ رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے وضو کرنے والوں کا اندازہ کیا تو وہ سترّ سے اَسّی افراد تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
269/ 10. عَنْ اَبِي جُحَيْفَهَ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ إِلَی الْبَطْحَاءِ، فَتَوَضَّاَ، ثُمَّ صَلَّی الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، قَالَ شُعْبَةُ: وَزَادَ فِيْهِ عَوْنٌ عَنْ اَبِيْهِ اَبِي جُحَيْفَهَ قَالَ: کَانَ يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْمَرْةُ وَقَامَ النَّاسُ، فَجَعَلُوْا يَأَخُذُوْنَ يَدَيْهِ، فَيَمْسَحُوْنَ بِهَا وُجُوْهَهُمْ. قَالَ: فَاَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَوَضَعْتُهَا عَلٰی وَجْهِي، فَإِذَا هِيَ اَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، وَاَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْکِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1304، الرقم: 3360، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاة، باب سترة المصلي، 1/ 360، الرقم: 503، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 309، الرقم: 18789، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/ 115، الرقم: 294.
’’حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک روز وادی بطحاء کی جانب تشریف لے گئے۔ پس آپ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ ﷺ کے سامنے (بطور سترہ) ایک نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت عون نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا کہ اس نیزے کے پیچھے سے عورتیں گزر گئیں اور مرد کھڑے رہے پھر صحابہ کرام اپنے ہاتھوں کو آپ ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے مس کر کے اپنے چہروں پر مل لیتے، میں نے بھی آپ ﷺ کا دستِ مبارک تھاما اور اپنے چہرے سے مس کیا تو دیکھا کہ وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ عمدہ تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
270/ 11. عَنْ أَبِي جُحَيْفَهَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّی النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، وَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی: دَعَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِقَدَحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيْهِ وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلٰی وُجُوْهِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1/ 80، الرقم: 185، وأیضًا في کتاب الصلاة في الثیاب، باب الصلاة في الثوب الأحمر، 1/ 147، الرقم: 369، وأیضًا في کتاب الصلاة، باب سترة الإمام سترة من خلفه، 1/ 187، الرقم: 473، وأیضًا في باب الصلاة إلی العنزة، 1/ 188، الرقم: 477، وأیضًا في باب السترة بمکة وغیرھا، 1/ 188، الرقم: 479، وأیضًا في کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعة والإقامة وکذالک بعرفة وجمعٍٍ، 1/ 227، الرقم: 607، وأیضًا في کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1304، الرقم: 3373، وأیضًا في کتاب اللباس، باب التشمیر في الثیاب، 5/ 2182، الرقم:5449، وأیضًا في کتاب الوضوء، باب الغسل والوضوء في المخضب والقدح والخشب والحجارة، 1/ 83، الرقم: 193، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین رضي الله عنهما، 4/ 1943، الرقم: 2497، والعیني في عمدة القاري، 3/ 75، الرقم: 187، والشوکاني في نیل الأوطار، 1/ 24، والعسقلاني في تغلیق التعلیق، 2/ 128.
’’حضرت ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ ﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پھر اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی۔ پھر اُن دونوں حضرات (یعنی حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو عامر اشعری) سے فرمایا: اس میں سے پی لو اور اسے اپنے چہروں اور سینوں پر بھی ڈال لو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
271/ 12. وفي روایة عنه: قَالَ: رَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَيْتُ بِـلَالًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَرَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَيْتُ بِـلَالًا أَخَذَ عَنَزَةً فَرَکَزَهَا، َوخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، صَلّٰی إِلَی الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَيْنِ، وَرَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ، يَمُرُّوْنَ مِنْ بَيْنِ يَدَي الْعَنَزَةِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1/ 80، الرقم: 185، وأیضًا في کتاب الصلاة في الثیاب، باب الصلاة في الثوب الأحمر، 1/ 147، الرقم: 369، وأیضًا في کتاب الصلاة، باب سترة الإمام سترة من خلفه، 1/ 187، الرقم: 473، وأیضًا في باب الصلاة إلی العنزة، 1/ 188، الرقم: 477، وأیضًا في باب السترة بمکة وغیرھا، 1/ 188، الرقم: 479، وأیضًا في کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعة والإقامة وکذالک بعرفة وجمعٍٍ، 1/ 227، الرقم: 607، وأیضًا في کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1304، الرقم: 3373، وأیضًا في کتاب اللباس، باب التشمیر في الثیاب، 5/ 2182، الرقم:5449، وأیضًا في کتاب الوضوء، باب الغسل والوضوء في المخضب والقدح والخشب والحجارة، 1/ 83، الرقم: 193، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین رضي الله عنهما، 4/ 1943، الرقم: 2497، والعیني في عمدة القاري، 3/ 75، الرقم: 187، والشوکاني في نیل الأوطار، 1/ 24، والعسقلاني في تغلیق التعلیق، 2/ 128.
’’اور حضرت ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں آپ نے بیان فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور پھر میں نے دیکھا کہ لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپک رہے ہیں۔ جسے اس پانی میں سے کچھ مل گیا اُس نے اسے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے کچھ نہ مل سکا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ (پر ہاتھ مل کر اس) سے تری حاصل کی (اور اسے اپنے جسم پر مل لیا)۔ پھر میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر (بطور سترہ) گاڑ دیا تو حضور ﷺ سُرخ لباس میں جوڑے کو سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے اور نیزے کی طرف منہ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے دیکھا کہ نیزے سے پرے آدمی اور جانور گزر رہے ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
272/ 13. عَنْ عَائِشَهَ رضي الله عنها اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ يُؤْتٰی بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّکُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّکُهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبیان بالبرکة ومسح رؤسهم، 5/ 2338، الرقم: 5994، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه، 3/ 1691، الرقم: 2147، وأیضًا في کتاب الطهارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسله، 1/ 237، الرقم: 286، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الصبي یولد فیؤذن فيأذنه، 4/ 328، الرقم: 5106، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 212، الرقم: 25812، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/ 37، الرقم: 23484، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1/ 93، وابن حبان في الصحیح، 4/ 208، الرقم: 1372، وأبو یعلی في المسند، 8/ 88، الرقم: 4623، وابن أبي الدنیا في العیال/ 345، الرقم: 183، وقال: حدیث صحیح.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس (نو مولود) بچے لائے جاتے تو آپ ﷺ انہیں برکت کی دعا دیتے اور (اپنے مبارک لعابِ دہن سے انہیں) گھٹی دیتے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
273/ 14. عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما اَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما بِمَکَّهَ قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَاَنَا مُتِمٌّ، فَاَتَيْتُ الْمَدِيْنَهَ، فَنَزَلْتُ قُبَائً، فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ اَتَيْتُ بِهِ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيْهِ، فَکَانَ اَوَّلَ شَيئٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيْقُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، ثُمَّ حَنَّکَهُ بِالتَّمْرَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ، فَبَرَّکَ عَلَيْهِ، وَکَانَ اَوَّلَ مَوْلُوْدٍ وُلِدَ فِي الإِسْـلَامِ، فَفَرِحُوْا بِهِ فَرَحًا شَدِيْدًا، لِاَنَّهُمْ قِيْلَ لَهُمْ: إِنَّ الْيَهُوْدَ قَدْ سَحَرَتْکُمْ، فَـلَا يُوْلَدُ لَکُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد عنه وتحنیکه، 5/ 2081، الرقم: 5152، وأیضًا في کتاب المناقب، باب هجرة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1422، الرقم: 3697، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه، 3/ 1691، الرقم: 2146، والبخاري في التاریخ الکبیر، 5/ 6، الرقم: 9، والبیهقي في السنن الکبری، 6/ 204، الرقم: 11927، وأیضًا في المدخل إلی السنن الکبری، 1/ 155، الرقم: 130، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 28/ 152، والعسقلاني في الإصابة، 4/ 91.
’’حضرت اَسماء بنت ابو بکر رضی الله عنہما بیان فرماتی ہیں کہ مکّہ مکرّمہ میں قیام کے دوران حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما ان کے شکم مبارک میں تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے ہجرت کی تو پورے دنوں سے تھی۔ پس میں مدینہ منورہ پہنچ گئی اور قبا میں ٹھہری تو وہیں ان کی ولادت ہو گئی۔ پس میں انہیں لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور انہیں آپ ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر حضرت عبد الله کے منہ میں رکھ دیا۔ پس سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں گئی وہ رسول الله ﷺ کا مبارک لعابِ دہن تھا۔ آپ ﷺ نے کھجور کے ساتھ انہیں گھٹی دی اور ان کے لیے دعا کر کے مبارک باد دی۔ اسلام میں (ہجرت کے بعد) پیدا ہونے والا یہ سب سے پہلا بچہ تھا۔ پس اس کی پیدائش پر مسلمانوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا کیوں کہ یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ یہودیوں نے (مسلمانوں پر) جادو کر رکھا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
274/ 15. عَنْ اَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ وُلِدَ لِي غُـلَامٌ، فَاَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم فَسَمَّهُ إِبْرَهِيْمَ، فَحَنَّکَهُ بِتَمْرَةٍ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ وَدَفَعَهُ إِلَيَّ، وَکَانَ اَکْبَرَ وَلَدِ اَبِي مُوْسٰی. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن لم یعق عنه وتحنیکه، 5/ 2081، الرقم: 5150، وأیضًا في کتاب الأدب، باب من تسمی بأسماء الأنبیاء، 5/ 2290، الرقم: 5845، ومسلم في الصحیح، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه، 3/ 1690، الرقم: 2145، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 399، الرقم: 19588، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/ 37، الرقم: 23482، وأبو یعلی في المسند، 13/ 302، الرقم: 7315، والبخاري في الأدب المفرد/ 292، الرقم:840.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور مجھے واپس دے دیا۔ یہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
275/ 16. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَهَ وَمَرْوَانَ رضي الله عنهما قَالَا: إِنَّ عُرْوَهَ جَعَلَ يَرْمُقُ اَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ: فَوَاللهِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا اَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا اَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّاَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلٰی اَصْحَابِهِ فَقَالَ: اَي قَوْمِ، وَاللهِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلٰی قَيْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللهِ، إِنْ رَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ اَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم مُحَمَّدًا، وَاللهِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ…الحدیث.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2/ 974، الرقم: 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 329، وابن حبان في الصحیح، 11/ 216، الرقم: 4872، والطبراني في المعجم الکبیر،20/ 9، الرقم: 13، والبیهقي في السنن الکبری، 9/ 220.
’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ (قبولِ اسلام سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر جب) عروہ بن مسعود (بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرامث (کے معمولاتِ محبت و تعظیم مصطفی ﷺ ) کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ بیان کیا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا مبارک لعابِ دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ جب آپ ﷺ اُنہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ اُس حکم کی فوراً تعمیل کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ (متبرک) پانی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ پانی اسے مل جائے)۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی آوازوں کو آپ ﷺ کے سامنے انتہائی پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! الله ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے شان و شوکت والے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن، خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد مصطفی ﷺ کے صحابہ کرام ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور غایت درجہ تعظیم کے باعث ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
276/ 17. عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ الرَّبِيْعِ رضی الله عنه قَالَ: وَهُوَ الَّذِي مَجَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي وَجْهِهِ - وَهُوَ غُـلَامٌ - مِنْ بِئْرِهِمْ. وَقَالَ عُرْوَةُ، عَنِ الْمِسْوَرِ وَغَيْرِهِ، يُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1/ 81، الرقم: 186، وأیضًا فيکتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر، 1/ 41، الرقم: 77، وأیضًا فيکتاب الدعوات، باب الدعاء للصبیانِ بالبرکة ومسح رؤوسهم، 53/ 2338، الرقم: 5993، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 329، وابن حبان في الصحیح، 11/ 221، الرقم: 4872، وعبد الرزاق في المصنف، 5/ 336، الرقم: 9720، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 12، الرقم: 13، والبیهقي في السنن الکبری، 9/ 220، وأیضًا في شعب الإیمان، 5/ 333، الرقم: 6829، والعسقلاني في فتح الباري، 11/ 151، الرقم: 5993.
’’حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جب یہ بچے تھے تو آپ ﷺ نے ان کے کنویں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی فرمائی تھی۔ اور عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب وضو فرماتے تو قریب تھا کہ لوگ اس (متبرک) پانی کے حصول کے لیے آپس میں لڑ مرتے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
278/ 18. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ: بَعَثَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم إِلٰی أَبِي رَافِعٍ الْيَهُوْدِيِّ رِجَالاً مِنَ الْاَنْصَارِ، فأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَتِيْکٍ ص، وَکَانَ أَبُوْ رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَيُعِيْنُ عَلَيْهِ، وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ … (قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَتِيْکٍ رضی الله عنه فِي قِصَّةِ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ:) وَضَعْتُ ظِبَهَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتّٰی اَخَذَ فِي ظَهْرِهِ فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْاَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلٰی دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَاَنَا ارَی أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَی الْاَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ … فَانْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَحَدَّثْتُهُ، فَقَال: ابْسُطْ رِجْلَکَ. فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَکَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَکِهَا قَطُّ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب المغازي، باب قتل أبي رافع عبد الله بن أبي الحُقَيْقِ، 4/ 1482، الرقم: 3813، والبیهقي فيالسنن الکبری، 9/ 80، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 125، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3/ 946، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2/ 56، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 4/ 139، وابن تیمیة في الصارم المسلول/ 294.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لیے اس کی) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبد الله بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع یہودی، آپ ﷺ (کی شان مبارک میں گستاخی کر کے آپ ﷺ ) کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ ﷺ کے (دین کے) خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا... (حضرت عبدالله بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:) پس میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر زور دیا تو اس کی کمر سے پار نکل گئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ملک عدم میں پہنچ گیا ہے۔ تو میں ایک، ایک دروازے کو کھول کر باہر نکلتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک منزل سے اترتے ہوئے جب میں نے اپنا پیر آگے رکھا اور میں چاندنی رات میں یہی محسوس کر رہا تھا کہ زمین پر آ پہنچا ہوں، پس میں اوپر سے زمین پر گرا اور میری پنڈلی (کی ہڈی) ٹوٹ گئی میں نے اسے عمامہ سے باندھ لیا... پھر میں حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پاؤں آگے کرو۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا دستِ کرم پھیرا تو (وہ ٹوٹی ہوئی پنڈلی یوں جڑ گئی) جیسے اس میں کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
279/ 19. عَنْ قَتَادَهَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهُ عَلٰی وَجْنَتِهِ، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: لَا، فَدَعَا بِهِ، فَغَمَزَ حَدَقَتَهُ بِرَاحَتِهِ، فَکَانَ لاَ يُدْرٰی أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ.
280/ 20. وفي روایة: فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِيَدِهِ فَاسْتَوَتْ وَرَجَعَتْ وَکَانَتْ أَقْوٰی عَيْنَيْهِ وَأَصَحَّهُمَا بَعْدَ أَنْ کَبُرَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
281/ 21. وفي روایة: عَنْ قَتَادَهَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَوَقَعَتْ عَلٰی وَجْنَتِهِ، فَرَدَّهَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِيَدِهِ فَکَانَتْ أَصَحُّ عَيْنَيْهِ وَأَحَدُّهُمَا. وفي روایة: فَکَانَتْ أَحْسَنُ عَيْنَيْهِ وَأَحَدُّهُمَا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
اخرجه أبو یعلی في المسند، 3/ 120، الرقم: 1549، وأیضًا في المفارید/ 63، الرقم: 61، والحاکم في المستدرک، 3/ 334، الرقم: 5281، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 400، الرقم: 32364، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 8، الرقم: 12، وأبو عوانة في المسند، 4/ 348، الرقم: 6929، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 187، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 49/ 279-282، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 2/ 333، والعسقلاني في تهذیب التهذیب، 7/ 430، الرقم: 814، وأیضًا في الإصابة، 4/ 208، الرقم: 4888، وابن قانع في معجم الصحابة، 2/ 361، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 3/ 291، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 297، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/ 464.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) اُن کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی اور آنکھ کی سیاہی چہرے پر بہہ گئی۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دعا فرما کر آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔‘‘
اِسے امام ابو یعلی اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے واپس (اپنی جگہ پر) لوٹا دیا اور اسے اس کی (اصل) جگہ برابر کر دیا اور ان کی یہ آنکھ بڑھاپے میں بھی دوسری آنکھ سے (بینائی اور خوب صورتی میں) قوی تر اور صحیح تر تھی۔‘‘
اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ اُحد کے روز اُن کی ایک آنکھ میں کوئی چیز لگی اور ان کی آنکھ (کا ڈھیلا نکل کر) ان کے رخسار پر گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اسے لوٹا دیا تو یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سے زیادہ بہتر اور تیز تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سے بھی حسین تر اور زیادہ بصارت رکھنے والی تھی۔‘‘
اِسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
282/ 22. عن يَزِيْدَ بْنِ اَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: رَيْتُ اَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَهَص فَقُلْتُ: يَا اَبَا مُسْلِمٍ، مَا هٰذِهِ الضَّرْبَةُ؟ فَقَالَ: هٰذِهِ ضَرْبَةٌ اَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّاسُ: اصِيْبَ سَلَمَةُ فَاَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَنَفَثَ فِیهِ ثَـلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَکَيْتُهَا حَتَّی السَّاعَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَاَحْمَدُ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب غزوة خیبر، 4/ 1541، الرقم: 3969، وابو داود في السنن، کتاب الطب، باب کیف الرقي، 4/ 12، الرقم: 3894، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 48، الرقم: 16562، وابن حبان في الصحیح، 14/ 439، الرقم: 6510، والرویاني في المسند، 2/ 248، الرقم: 1139، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 22/ 94-95.
’’حضرت یزید بن ابو عبید بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع صکی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو اُن سے دریافت کیا: اے ابومسلم! یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ زخم مجھے غزوۂ خیبر میں آیا تھا۔ لوگ تو یہی کہنے لگے تھے کہ سلمہ کا آخری وقت آن پہنچا ہے لیکن میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اس پر تین مرتبہ دم فرمایا تو مجھے اب تک کبھی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
اسے امام بخاری، ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
283/ 23. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَوْهَبٍ رضوان الله علیهم اجمعین قَالَ: اَرْسَلَنِي اَهْلِي إِلٰی امِّ سَلَمَهَ رضي الله عنہا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ وَقَبَضَ إِسْرَائِيْلُ ثَـلَاثَ اَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ فِيْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، وَکَانَ إِذَا اَصَابَ الْإِنْسَانَ عَيْنٌ اَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب اللباس، باب ما یذکر في الشیب، 5/ 2210، الرقم: 5557، وابن ماجه في السنن، کتاب اللباس، باب الخضاب بالحناء، 2/ 1196، الرقم: 3623، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 296، الرقم: 26581، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/ 182، الرقم: 25009، والبیهقي في شعب الإیمان، 5/ 213، الرقم: 6400، والعسقلاني في فتح الباري،10/ 353، الرقم: 5557، والعیني في عمدة القاري، 22/ 48، الرقم: 5896، والشوکاني في نیل الأوطار، 1/ 69، 82، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 5/ 510.
’’حضرت عثمان بن عبد الله بن موہب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: میرے گھر والوں نے مجھے ایک پیالے میں پانی دے کر اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی الله عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ (راوی) حضرت اسرائیل نے اپنی تین انگلیاں بند کرکے اس پیالی کی طرح بنائیں جس کے اندر حضور نبی اکرم ﷺ کا موئے مبارک ڈالا گیا تھا (اور بیان کیا کہ) جب کسی آدمی کو نظر لگ جاتی یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی الله عنہا کے پاس ایک برتن میں پانی بھیج دیا جاتا (تو وہ اس میں آپ ﷺ کا وہ موئے مبارک ڈال دیتیں اور بیمار شخص کو وہ پانی پینے سے فوراً شفاء ہو جاتی)۔ پس میں نے اس بوتل میں جھانک کر دیکھا تو میں نے (آپ ﷺ کے) چند سرخ موئے مبارک کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
284/ 24. عَنِ ابْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ: قُلْتُ لِعُبَيْدَهَ: عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، اَصَبْنَهُ مِنْ قِبَلِ اَنَسٍص، اَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ اَنَسٍ ص، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الإنسان وکان عطاء لا یری، 1/ 75، الرقم: 168، والبیهقي في السنن الکبری، 7/ 67، الرقم: 13188.
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم ﷺ کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سب سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
285/ 25. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: جَائَتِ امْرَاَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِبُرْدَةٍ فَقَالَ سَهْلٌ لِلْقَوْمِ: اَتَدْرُوْنَ مَا الْبُرْدَةُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: هِيَ الشَّمْلَةُ. فَقَالَ سَهْلٌ: هِيَ شَمْلَةٌ مَنْسُوْجَةٌ فِيْهَا حَاشِيَتُهَا فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اَکْسُوْکَ هٰذِهِ، فَاَخَذَهَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَلَبِسَهَا، فَرَآهَا عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا اَحْسَنَ هٰذِهِ فَاکْسُنِيْهَا. فَقَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم لَامَهُ اَصْحَابُهُ. قَالُوْا: مَا اَحْسَنْتَ حِيْنَ رَيْتَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم اَخَذَهَا مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَاَلْتَهُ يَاهَا وَقَدْ عَرَفْتَ اَنَّهُ لَا يُسْاَلُ شَيْئًا فَيَمْنَعَهُ. فَقَالَ: رَجَوْتُ بَرَکَتَهَا حِيْنَ لَبِسَهَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم لَعَلِّي اکَفَّنُ فِيْهَا. وفي روایة: قَالَ سَهْلٌ: فَکَانَتْ کَفَنَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ الطَّبَرَانِيُّ: قَالَ قُتَيْبَةُ: کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الآداب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکره من البخل، 5/ 2245، الرقم: 5689، وأیضًا في کتاب الجنائز، باب من استعد الکفن في زمن النبي صلی الله علیه وآله وسلم فلم ینکر علیه، 1/ 429، الرقم: 1218، وأیضًا في کتاب البیوع، باب ذکر النساج، 2/ 737، الرقم: 1987، وأیضًا في کتاب اللباس، باب البرود والحبرة والشملة، 5/ 2189، الرقم: 5473، والنسائي في السنن،کتاب الزینة، باب لبس البرود، 8/ 204، الرقم: 5321، وأیضًا في السنن الکبری، 5/ 480، الرقم: 9659، وابن ماجه في السنن، کتاب اللباس، باب لباس رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، 2/ 1177، الرقم: 3555، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 333، الرقم: 22876، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 170، الرقم: 462، والطبراني في المعجم الکبیر، 6/ 143، 169، 200، الرقم: 5785، 5887، 5997، والبیهقي في السنن الکبری، 3/ 404، الرقم: 6489، وأیضًا في شعب الإیمان، 5/ 170، الرقم: 6234.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک عورت چادر لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئی۔ حضرت سہل نے دوسرے حضرات سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چادر کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ شملہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ ایسی شملہ ہے جس پر حاشیے بنے ہوئے ہیں۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہ چادر آپ کے اوڑھنے کی خاطر لائی ہوں۔ تو آپ ﷺ نے وہ چادر قبول فرما لی اور آپ ﷺ کو اس وقت چادر کی ضرورت بھی تھی اور اسے پہننے کا شرف بخشا، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک شخص نے اسے آپ ﷺ کے جسم اَطہر پر دیکھا تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو بہت اچھی ہے، لہٰذا یہ مجھے اوڑھا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لے لو (اور اسے چادر عطا فرمادی)۔ جب حضور ﷺ اٹھ کر تشریف لے گئے تو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہیں ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ کیوں کہ جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے قبول فرما لیا اور آپ ﷺ کو اس چادر کی ضرورت بھی ہے اس کے باوجود تم نے وہی مانگ لی جبکہ تم یہ جانتے بھی تھے کہ جب آپ ﷺ سے سوال کیا جائے تو آپ ﷺ انکار نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا کہ میں اس چادر سے حصولِ برکت کا امیدوار ہوں کیوں کہ اسے حضور ﷺ کے جسم اطہر سے لگنے کا شرف حاصل ہو گیا ہے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اسی میں کفنایا جاؤں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر وہی چادر اس صحابی کا کفن بنی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام طبرانی نے بیان فرمایا: امام قتیبہ نے فرمایا: وہ (بطور تبرک چادر مانگنے والے شخص) جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘
286/ 26. عَنْ اَبِي بُرْدَهَ رضی الله عنه قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِيْنَهَ فَلَقِيَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ سَـلَامٍ رضی الله عنه فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ فَاَسْقِيَکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَتُصَلِّي فِي مَسْجِدٍ صَلّٰی فِيْهِ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَسَقَانِي سَوِيْقًا وَاَطْعَمَنِي تَمْرًا وَصَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما ذکر النبي صلی الله علیه وآله وسلم وحض علی اتفاق أهل العلم وما اجتمع علیه الحرمان مکة والمدینة، 6/ 2673، الرقم:6910، والبیهقي في السنن الکبری، 5/ 349، الرقم: 10708، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 131، الرقم: 3603، وأیضًا في تغلیق التعلیق، 5/ 32، والعیني في عمدة القاري، 25/ 61، الرقم: 7342.
’’حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے۔ انہوں نے مجھے فرمایا: آؤ میرے ساتھ میرے گھر چلو تاکہ میں (بطورِ تبرک) تمہیں اس پیالے میں پلاؤں جس میں حضورنبی اکرم ﷺ نوش فرمایا کرتے تھے اور اس مسجد میں نماز پڑھاؤں جس میں حضورنبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھی ہے۔ پس میں ان کے ساتھ چلا گیا تو اُنہوں نے مجھے (اس متبرک پیالے میں) ستُّو پلائے اور کھجوریں کھلائیں اور میں نے اُن کی مسجد میں نماز بھی پڑھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے۔
287/ 27. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا رَمٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم الْجَمْرَهَ وَنَحَرَ نُسُکَهُ وَحَلَقَ، نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَهَ الْاَنْصَارِيَّ فَأَعْطَهُ يَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْيْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَهُ أَبَا طَلْحَهَ، فَقَالَ: اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَهَ.
اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمی ثم ینحر ثم یحلق، 2/ 948، الرقم: 1305، والترمذي في السنن، کتاب الحج، باب ما جاء بأي جانب الرأس یبدأ في الحلق، 3/ 255، الرقم: 912، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 449، الرقم: 4116، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 111، الرقم: 12113، وابن خزیمة في الصحیح، 4/ 299، الرقم: 2928، وابن حبان في الصحیح، 9/ 191، الرقم: 1743، والحاکم في المستدرک، 1/ 647، الرقم: 1743، وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبیهقي في السنن الکبری، 5/ 134، الرقم: 9363، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 19/ 413، والعسقلاني في فتح الباري، 1/ 274، الرقم: 169.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو (سر مبارک منڈوانے کے لیے) آپ ﷺ نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے (دائیں طرف کے) بال مبارک مونڈے پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہص کو بلایا اور انہیں وہ بال مبارک عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا: یہ بھی مونڈو، تو اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے۔ پھر آپ ﷺ نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا: یہ بال بھی لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی، اَحمد اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
288/ 28. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم اَتٰی مِنًی فَاَتَی الْجَمْرَهَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ اَتٰی مَنْزِلَهُ بِمِنًی وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ: خُذْ وَاَشَارَ إِلٰی جَانِبِهِ الْيْمَنِ ثُمَّ الْيْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيْهِ النَّاسَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2/ 947، الرقم: 1305، والبیهقي في السنن الکبری، 5/ 103، الرقم: 9183، والنووي في ریاض الصالحین/ 198، الرقم: 198، وأیضًا في شرحه علي صحیح مسلم، 9/ 52، والعیني في عمدة القاري، 10/ 62، الرقم: 6271، وأیضًا، 15/ 31، الرقم: 5013، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2/ 258، الرقم: 1055، والوادیاشي في تحفة المحتاج، 2/ 181، الرقم: 1129، والزیلعي في نصب الرایة، 3/ 79.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب منٰی کے مقام پر تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منٰی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔ وہاں قربانی ادا کی اور حجام سے سر مونڈنے کے لیے فرمایا اور اسے دائیں جانب کی طرف اشارہ فرمایا (کہ پہلے اس طرف سے مونڈو)، پھر بائیں جانب اشارہ فرمایا (اور اس طرف سے) مونڈنے کا حکم دیا، پھر اپنے موئے مبارک لوگوں کو (تبرکاً) عطا فرمائے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
289/ 29. وفي روایة: فَقَالَ لِلْحَلَّاقِ: هَا وَاَشَارَ بِيَدِهِ إِلَی الْجَانِبِ الْيْمَنِ هٰکَذَا، فَقَسَمَ شَعَرَهُ بَيْنَ مَنْ يَلِيْهِ، قَالَ: ثُمَّ اَشَارَ إِلَی الْحَلَّاقِ وَإِلَی الْجَانِبِ الْيْسَرِ فَحَلَقَهُ فَاَعْطَهُ امَّ سُلَيْمٍ: وَاَمَّا فِي رِوَيَةِ اَبِي کُرَيْبٍ قَالَ: فَبَدَاَ بِالشِّقِّ الْيْمَنِ فَوَزَّعَهُ الشَّعَرَهَ وَالشَّعَرَتَيْنِ بَيْنَ النَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: بِالْيْسَرِ فَصَنَعَ بِهِ مِثْلَ ذَالِکَ، ثُمَّ قَالَ: هَهُنَا اَبُوْ طَلْحَهَ فَدَفَعَهُ إِلٰی اَبِي طَلْحَهَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2/ 947، الرقم: 1305، وأبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب الحلق والتقصیر، 2/ 203، الرقم: 1981، وابن حبان في الصحیح، 4/ 206، الرقم: 1371، وأبو یعلی في المسند، 5/ 210، 227، الرقم: 2827، 2840، والبیهقي في السنن الکبری، 2/ 427، الرقم: 4031، وابن عبد البر في التمهید، 7/ 267، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 19/ 413، وابن حزم في حجة الوداع، 1/ 123، 194، 201، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 608، وأیضًا في فتح الباري، 1/ 274، الرقم: 169، وأیضًا، 3/ 566، الرقم: 1643، والعیني في عمدة القاري، 3/ 38، 10/ 62، 67.
’’اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے دائیں جانب اشارہ کر کے حجام سے فرمایا: یہاں سے (مونڈو)، پھر جو لوگ آپ ﷺ کے قریب تھے، آپ ﷺ نے ان میں وہ بال مبارک تقسیم فرما دیئے، پھر آپ ﷺ نے حجام کو بائیں جانب اشارہ کیا، اس نے اس طرف سے بال مبارک مونڈے تو آپ ﷺ نے وہ موئے مبارک حضرت اُمّ سلیم رضی الله عنہا کو عطا فرمائے۔ اور ابو کریب کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے دائیں جانب سے شروع کیا اور لوگوں میں ایک ایک دو دو بال مبارک تقسیم فرمائے، پھر بائیں جانب اشارہ کیا اور اس طرف بھی ایسا کیا (یعنی سر اقدس منڈوایا)۔ پھر دریافت فرمایا: یہاں ابو طلحہ ہیں؟ اور (ان کے حاضر ہونے پر) وہ بال مبارک حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
290/ 30. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم رَمٰی جَمْرَهَ الْعَقَبَةِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْبُدْنِ، فَنَحَرَهَا وَالْحَجَّامُ جَالِسٌ وَقَالَ بِيَدِهِ عَنْ رَاْسِهِ، فَحَلَقَ شِقَّهُ الْيْمَنَ فَقَسَمَهُ فِيْمَنْ يَلِيْهِ ثُمَّ قَالَ: احْلِقْ الشِّقَّ الْآخَرَ. فَقَالَ: يْنَ اَبُوْ طَلْحَهَ؟ فَاَعْطَهُ يَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، 2/ 947، الرقم: 1305، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 445، الرقم: 4102، والعسقلاني في فتح الباري، 1/ 274، الرقم: 169، والعیني في عمدة القاري، 3/ 38، 10/ 62، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 2/ 32.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جمرہ عقبہ میں کنکریاں ماریں، پھر اونٹوں کی طرف گئے اور انہیں نحر (یعنی قربان) کیا، حجام بیٹھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے اپنے سر مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس نے دائیں جانب مونڈ دی۔ جو لوگ قریب بیٹھے تھے آپ ﷺ نے وہ بال مبارک ان میں تقسیم فرما دیئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: دوسری جانب مونڈو اور دریافت فرمایا: ابو طلحہ کہاں ہیں؟ (ان کی آمد پر) آپ ﷺ نے وہ موئے مبارک انہیں عطا فرمائے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
291/ 31. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَهَ رضی الله عنه قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَـلَهَ الْاوْلٰی، ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی أَهْلِهِ وَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَاسْتَقْبَلَهُ وِلْدَانٌ فَجَعَلَ يَمْسَحُ خَدَّي أَحَدِهِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا، قَالَ: وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدِّي. قَالَ: فَوَجَدْتُ لِيَدِهِ بَرْدًا أَوْ رِيْحًا کَأَنَّمَا أَخْرَجَهَا مِنْ جُؤْنَةِ عَطَّارٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبي صلی الله علیه وآله وسلم ولین مسه والتبرک بمسحه، 4/ 1814، الرقم: 2329، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 323، الرقم: 31765، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 228، الرقم: 1944، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 573، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 9/ 253، الرقم: 4829، والسیوطي في الدیباج، 5/ 325.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل پڑا، سامنے سے کچھ بچے آئے، آپ ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر ہاتھ مبارک پھیرا، اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ مبارک پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کے دست اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ ﷺ نے (ابھی ابھی) عطار کے ڈبہ سے ہاتھ باہر نکالا ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
292/ 32. عَنْ اَنَسٍ عَنْ امِّ سُلَيْمٍ رضي الله عنها اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ يَاْتِيْهَا فَيَقِيْلُ عِنْدَهَا، فَتَبْسُطُ لَهُ نِطْعًا فَيَقِيْلُ عَلَيْهِ وَکَانَ کَثِيْرَ الْعَرَقِ فَکَانَتْ تَجْمَعُ عَرَقَهُ، فَتَجْعَلُهُ فِي الطِّيْبِ وَالْقَوَارِيْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم : يَا امَّ سُلَيْمٍ، مَا هٰذَا؟ قَالَتْ: عَرَقُکَ اَدُوْفُ بِهِ طِيْبِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلی الله علیه وآله وسلم والتبرک به، 4/ 1816، الرقم: 2332، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 287، الرقم: 14091، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/ 429، والنووي في شرحه علی صحیح مسلم، 15/ 87، والجزري في النهایة، 2/ 140، وابن منظور في لسان العرب، 9/ 108.
’’حضرت اُمّ سلیم رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ ان کے گھر تشریف لاتے اور وہاں قیلولہ فرماتے تھے، وہ آپ ﷺ کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھا دیتی تھیں اور آپ ﷺ اُس پر قیلولہ فرماتے، آپ ﷺ کو پسینہ مبارک بہت آتا تھا، وہ آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کو جمع کر کے خوشبو اور بوتلوں میں ڈال دیتیں۔ (ایک مرتبہ ) آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اے سلیم! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے جسے میں اپنی خوشبو میں ملاتی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
293/ 33. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَاءَ تْ امِّي بِقَارُوْرَةٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِيْهَا، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: يَا امَّ سُلَيْمٍ، مَا هٰذَا الَّذِي تَصْنَعِيْنَ؟ قَالَتْ: هٰذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُهُ فِي طِيْبِنَا وَهُوَ مِنْ اَطْيَبِ الطِّيْبِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ.
اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلی الله علیه وآله وسلم والتبرک به، 4/ 1815، الرقم: 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 136، الرقم: 12419، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 2/ 61، والطبراني في المعجم الکبیر، 25، 119، الرقم: 289، 297، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/ 154، الرقم: 1429، والفریابي في دلائل النبوة، 1/ 59، الرقم:40، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 9/ 359، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/ 428.
294/ 34. وفي روایة: عَنِ الْبَرَائِ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنهما اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ فِي بِيْتِ امِّ سُلَيْمٍ رضي الله عنها عَلٰی نِطْعٍ، فَعَرِقَ فَاسْتَيْقَظَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَامُّ سُلَيْمٍ تَمْسَحُ الْعَرَقَ فَقَالَ: يَا امَّ سُلَيْمٍ، مَا تَصْنَعِيْنَ؟ قَالَ: فَقَالَتْ: آخَذُ هٰذَا لِلْبَرَکَةِ الَّتِي تَخْرُجُ مِنْکَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلی الله علیه وآله وسلم والتبرک به، 4/ 1815، الرقم: 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 136، الرقم: 12419، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 2/ 61، والطبراني في المعجم الکبیر، 25، 119، الرقم: 289، 297، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/ 154، الرقم: 1429، والفریابي في دلائل النبوة، 1/ 59، الرقم:40، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 9/ 359، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/ 428.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، اور قیلولہ کے لیے آرام فرما ہو گئے، آپ ﷺ کو پسینہ آیا، میری والدہ ایک شیشی لے کر آئیں اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں تو حضور ﷺ بیدار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اے امّ سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے، جسے ہم اپنی خوشبو میںڈالیں گے اور یہ سب سے بہترین خوشبو ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت براء بن زید رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اُمّ سلیم رضی الله عنہا کے گھر میں چمڑے کے بستر پر قیلولہ فرمایا تو آپ ﷺ کو پسینہ مبارک آیا۔ جب رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو حضرت اُمّ سلیم رضی الله عنہا وہ پسینہ مبارک پونچھ کر (بوتل میں جمع) کرنے لگیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اُمّ سلیم! تم اسے کیا کرو گی؟ وہ عرض کرنے لگیں: (یا رسول الله!) جو پسینہ مبارک آپ کے جسدِ اقدس سے نکلا ہے (اسے بطور خوشبو استعمال کروں گی)۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
295/ 35. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم يَدْخُلُ بَيْتَ امِّ سُلَيْمٍ رضي الله عنها فَيَنَامُ عَلٰی فِرَاشِهَا، وَلَيْسَتْ فِيْهِ. قَالَ: فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَامَ عَلٰی فِرَاشِهَا. فَاتِيَتْ، فَقِيْلَ لَهَا: هٰذَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم نَامَ فِي بَيْتِکِ عَلٰی فِرَاشِکِ. قَالَ: فَجَائَتْ وَقَدْ عَرِقَ، وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُهُ عَلٰی قِطْعَةِ اَدِيْمٍ، عَلَی الْفِرَاشِ. فَفَتَحَتْ عَتِيْدَتَهَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَالِکَ الْعَرَقَ، فَتَعْصِرُهُ فِي قَوَارِيْرِهَا. فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: مَا تَصْنَعِيْنَ، يَا امَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، نَرْجُوْ بَرَکَتَهُ لِصِبْيَانِنَا. قَالَ: اَصَبْتِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي صلی الله علیه وآله وسلم والتبرک به، 4/ 1815، الرقم: 2331، واحمد بن حنبل في المسند، 3/ 221، الرقم: 1334، 1339.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت اُمّ سُلیم رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ ﷺ تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر اِستراحت فرما ہو گئے، حضرت اُمّ سُلیم آئیں تو انہیں بتایا گیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمہارے گھر میں بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ ﷺ (محو اِستراحت ہیں اور جسدِ اقدس) پسینے میں شرابور ہے اور وہ پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی (خوشبو کی) بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا: اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
296/ 36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تُعِيْنَنِي بِشَيئٍ قَالَ: مَا عِنْدِي شَيئٌ وَلٰـکِنْ إِذَا کَانَ غَدًا فَائْتِنِي بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ وَعُوْدِ شَجَرَةٍ، وَيَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَکَ أَنْ تَدُقَّ نَاحِيَهَ الْبَابِ. قَالَ: فَلَمَّا کَانَ فِي الْغَدِّ أَتَهُ بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ، وَعُوْدِ شَجَرَةٍ، فَيَجْعَلُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم يَسْلِتُ الْعَرَقَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ حَتّٰی امْتَـلْاَتِ الْقَارُوْرَهَ. فَقَالَ: خُذْهَا وَاْمُرْ ابْنَتَکَ أَنْ تَغْمِسَ هٰذَا الْعُوْدَ فِي الْقَارُوْرَةِ وَتَطَيَبُ بِهِ. قَالَ: فَکَانَتْ إِذَا تَطَيَبَتْ شَمَّ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ رَائِحَهَ ذَالِکَ الطِّيْبِ، فَسُمَّوْا بَيْتَ الْمُطَيِّبِيْنَ.
رَوَاهُ اَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْاَصْبَهَانِيُّ.
أخرجه ابو یعلی في المسند، 1/ 117، الرقم: 118، وایضًا، 11/ 186، الرقم: 6295، والطبراني في المعجم الاوسط، 3/ 190، الرقم: 2895، والاصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 59، الرقم: 41، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 6/ 23، الرقم: 3055، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 4/ 48، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4/ 256، 8/ 283، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/ 44، والمناوي في فیض القدیر، 5/ 80.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کی شادی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم کل ایک کھلے منہ والی شیشی اور ایک لکڑی لے کر آنا اور میرے لیے تمہاری پہچان یہ ہوگی کہ تم دروازے پر دستک دینا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دن وہ کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر آیا۔ آپ ﷺ نے لکڑی سے اپنے بازوؤں پر سے پسینہ اکٹھا کر کے اس شیشی میں ڈالنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: یہ لے جاؤ اور اپنی بیٹی سے جاکر کہو کہ اس لکڑی کو اس شیشی میں ڈبوکر نکالے اور پھر اپنے جسم پر اس لکڑی سے خوشبو لگا لے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اس لڑکی نے وہ خوشبولگائی تو پورا شہر مدینہ اس خوشبو سے مہک اٹھا اور اسی بناء پر ان کے گھر کا نام ’خوشبو والوں کا گھر‘ پڑگیا۔‘‘
اسے امام ابو یعلی، طبرانی اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔
297/ 37. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِي عَمْرَهَ عَنْ جَدَّةٍ لَهُ، يُقَالُ لَهَا کَبْشَةُ الْاَنْصَارِيَةُ رضي الله عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا، وَعِنْدَهَا قِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَشَرِبَ مِنْهَا وَهُوَ قَائِمٌ، فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَةِ تَبْتَغِي بَرَکَهَ مَوْضِعِ فِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الأشربة، باب ما جاء في الرخصة في ذلک، 4/ 306، الرقم: 1892، وأیضًا في الشمائل المحمدیة / 174، الرقم: 212، وابن ماجه في السنن، کتاب الأشربة، باب الشرب قائمًا، 2/ 1132، الرقم: 3423، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 6/ 138، الرقم: 3365، والحمیدي في المسند،1/ 172، الرقم: 354، والطبراني في العجم الکبیر، 25/ 15، الرقم: 8، وأیضًا في مسند الشامیین، 1/ 369، الرقم: 639، والبیهقي في شعب الإیمان، 5/ 118، الرقم: 6024-6025، والبغوي في شرح السنة، 11/ 379، وابن عبد البر في الاستیعاب،4/ 1907، الرقم: 4077، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 84، 92، والنووي في شرحه علی صحیح مسلم، 13/ 194، وأیضًا في ریاض الصالحین/ 204، الرقم: 204، والعیني في عمدة القاري، 21/ 192، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 3/ 200، الرقم: 1577، والصنعاني في سبل السلام، 3/ 161، والعظیم آبادي في عون المعبود، 10/ 131.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی عمرہ رضی اللہ عنہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی الله عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے، وہاں ان کے پاس ایک مشکیزہ لٹکاہوا تھا۔ آپ ﷺ نے کھڑے کھڑے اس لٹکے ہوئے مشکیزہ کے منہ سے پانی نوش فرمایا توانہوں نے اس مشکیزے کا دہانہ حضورنبی اکرم ﷺ کے منہ مبارک لگنے کی وجہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
298/ 38. وقال النَّوَوِيُّ في شرحہ علی صحیح مسلم وأیضًا في الرِّیاض: وَقَدْ رَوَی التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ کَبْشَهَ بِنْتِ ثَابِتٍ رضي الله عنہا وَهِيَ أُخْتُ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَشَرِبَ مِنْ قِرْبَةٍ مُعَلَّقَةٍ لِوَجْهَيْنِ قَائِمًا، فَقُمْتُ إِلٰی فِيْهَا فَقَطَعْتُهُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَطْعٌ لِفَمِ الْقِرْبَةِ فَعِلَّتُهُ لِوَجْهَيْنِ، أَحَدُهُمَا: أَنْ تَصُوْنَ مَوْضِعًا أَصَابَهُ فَمُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ أَنْ يَبْتَذِلَ وَيَمَسَّهُ کُلُّ أَحَدٍ. وَالثَّانِيُّ: أَنْ تَحْفَظَهُ لِلتَّبَرُّکِ بِهِ وَالِاسْتِشْفَائِ. وَاللهُ أَعْلَمُ.
ذکرہ النووي في شرحہ علی صحیح مسلم، 13/ 194، وأیضًا في ریاض الصالحین/ 204، الرقم: 204.
’’امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں اور ریاض الصالحین میں بیان فرمایا: امام ترمذی اور دیگر اَئمہ محدثین نے حضرت کبشہ بنت ثابت رضی الله عنہا سے روایت کیا ہے جو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ایک مشکیزہ جس کے دو منہ تھے اس میں سے کھڑے ہوکر پانی نوش فرمایا۔ میں نے اس مشکیزہ کے منہ کو کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور مشکیزے کے منہ کو کاٹ کر رکھنے کے دو سبب تھے۔ پہلا سبب تو یہ تھا کہ جس جگہ سرکار دوعالم ﷺ کا دہن مبارک لگا تھا اس جگہ کو بے ادبی سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کی حفاظت کو یقینی بنایاجائے کہ ہر کوئی اسے نہ چھوئے اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے ذریعے تبرک اور شفا حاصل کریں۔‘‘
299/ 39. عن اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: بَعَثَنِي اَبُوْ طَلْحَهَ رضی الله عنه إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم لِاَدْعُوَهُ وَقَدْ جَعَلَ طَعَامًا قَالَ: فَاَقْبَلْتُ وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم مَعَ النَّاسِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَاسْتَحْيَيْتُ فَقُلْتُ: اَجِبْ اَبَا طَلْحَهَ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: قُوْمُوْا: فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَهَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ لَکَ شَيْئًا قَالَ: فَمَسَّهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَدَعَا فِيْهَا بِالْبَرَکَةِ ثُمَّ قَالَ: اَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ اَصْحَابِي عَشَرَةً. وَقَالَ: کُلُوْا وَاَخْرَجَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ بَيْنِ اَصَابِعِهِ، فَاَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، فَخَرَجُوْا فَقَالَ: اَدْخِلْ عَشَرَةً، فَاَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا فَمَا زَالَ يُدْخِلُ عَشَرَةً وَيُخْرِجُ عَشَرَةً حَتّٰی لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ اَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ فَاَکَلَ حَتّٰی شَبِعَ ثُمَّ هَيَاَهَا فَإِذَا هِيَ مِثْلُهَا حِيْنَ اَکَلُوْا مِنْهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیره إلی دار من یثق برضاه بذلک وبتحققه تحققا تامًا، 3/ 1612، الرقم: 2040، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 218، الرقم: 13307، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 313، الرقم: 31707، وأبو یعلی في المسند، 7/ 170، الرقم: 4145،4331، والفریابي في دلائل النبوة، 1/ 41، الرقم: 10، والنووي في ریاض الصالحین/ 151، الرقم: 151.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بھیجا کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کو بلا لاؤں، درآں حالیکہ انہوں نے کھانا تیار کر رکھا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب گیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف فرما تھے، آپ ﷺ جب میری جانب متوجہ ہوئے تو مجھے (کچھ عرض کرتے ہوئے) جھجھک محسوس ہوئی۔ تاہم میں نے عرض کیا: حضرت ابو طلحہ کی دعوت قبول کیجیے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: اٹھو چلو۔ (آپ ﷺ جب ان کے گھر پہنچے تو) حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے تو آپ کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کھانے کو چھوا اور اس پر برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: میرے صحابہ میں سے دس افراد کو بلاؤ، اور ان سے فرمایا: کھاؤ، اور اپنی انگلیوں کے درمیان سے کچھ نکالا، سو انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے، پھر وہ چلے گئے، آپ ﷺ نے فرمایا: دس اور آدمیوں کو بلاؤ، پھر انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے اور چلے گئے۔ پھر اسی طرح دس، دس کر کے صحابہ کرام آتے اور کھانا کھا کر جاتے رہے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا اور سب نے سیر شکم ہو کر کھا لیا، پھر آپ ﷺ نے کھانا منگوایا تو وہ اتنا ہی باقی تھا جتنا ان کے کھانے سے قبل تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، اَحمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
300/ 40. وفي روایة عنه: قَالَ: بَعَثَنِي اَبُوْ طَلْحَهَ رضی الله عنه إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَسَاقَ الْحَدِيْثَ بِنَحْوِ حَدِيْثِ ابْنِ نُمَيْرٍ غَيْرَ اَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهِ: ثُمَّ اَخَذَ مَا بَقِيَ، فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيْهِ بِالْبَرَکَةِ قَالَ: فَعَادَ کَمَا کَانَ. فَقَالَ: دُوْنَکُمْ هٰذَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیره إلی دار من یثق برضاه بذلک وبتحققه تحققا تامًا، 3/ 1612، الرقم: 2040، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 218، الرقم: 13307، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 313، الرقم: 31707، وأبو یعلی في المسند، 7/ 170، الرقم: 4145،4331، والفریابي في دلائل النبوة، 1/ 41، الرقم: 10، والنووي في ریاض الصالحین/ 151، الرقم: 151.
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی مروی ہے کہ مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں (آپ ﷺ کو دعوت کے لیے بلانے) بھیجا، اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس کے بعد جو کھانا بچا آپ ﷺ نے اس کو جمع فرمایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، وہ کھانا پھر پہلے جتنا ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا: لو یہ اپنا کھانالے لو۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
301/ 41. وفي روایة عنہ: قَالَ: اَمَرَ اَبُوْ طَلْحَهَ رضی الله عنه امَّ سُلَيْمٍ رضي الله عنہا اَنْ تَصْنَعَ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم طَعَامًا لِنَفْسِهِ خَاصَّةً، ثُمَّ اَرْسَلَنِي إِلَيْهِ وساق الحدیث وقال فیہ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم يَدَهُ وَسَمَّی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اِئْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَاَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوْا، فَقَالَ: کُلُوْا وَسَمُّوا اللهَ، فَاَکَلُوْا حَتّٰی فَعَلَ ذَالِکَ بِثَمَانِيْنَ رَجُـلًا، ثُمَّ اَکَلَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بَعْدَ ذَالِکَ وَاَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَکُوْا سُؤْرًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیره إلی دار من یثق برضاه بذلک وبتحققه تحققا تامًا، 3/ 1612، الرقم: 2040، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 218، الرقم: 13307، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 313، الرقم: 31707، وأبو یعلی في المسند، 7/ 170، الرقم: 4145،4331، والفریابي في دلائل النبوة، 1/ 41، الرقم: 10، والنووي في ریاض الصالحین/ 151، الرقم: 151.
’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت اُمّ سلیم رضی الله عنہا سے یہ کہا کہ تم خود خصوصی طور پر حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے کھانا تیار کرو۔ پھر مجھے آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، اس کے بعد وہی بیان ہے، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (کھانے پر) اپنا دستِ اقدس رکھا اور بسم اللہ پڑھی، پھر فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ، انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا، وہ آ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: بسم اللہ پڑھو اور کھاؤ۔ سو انہوں نے کھایا یہاں تک کہ اسی (80) آدمیوں نے وہ کھانا کھایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ اور گھر والوں نے کھایا اور (پھر بھی) کھانا باقی بچ گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
302/ 42. عَنْ أَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ رضی الله عنه قَالَ: مَسَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم يَدَهُ عَلٰی وَجْهِي وَدَعَا لِي، قَالَ عَزْرَةُ: إِنَّهُ عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِيْنَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ إِلَّا شَعَرَاتٌ بِيْضٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب: (6)، 5/ 594، الرقم: 3629، والطبراني المعجم الکبیر، 17/ 27، الرقم: 45، 18/ 21، الرقم: 35، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4/ 199، الرقم: 2182، والھیثمي في مجمع الزوائد، 9/ 412.
’’حضرت ابو زید اَخطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لیے دعا فرمائی۔ عزرہ (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت ابو زید ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے۔ اور (آپ ﷺ کے دستِ مبارک کی برکت سے) ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
303/ 43. وفي روایة: عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم : اُدْنُ مِنِّي قَالَ: فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلٰی رَاْسِهِ وَلِحْيَتِهِ. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ، جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ. قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِئَهَ سَنَةٍ، وَمَا فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ إِلاَّ نَبْذٌ يَسِيْرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتّٰی مَاتَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 77، الرقم: 21013، والعسقلاني في الإصابة، 4/ 599، الرقم: 5763، والمزي في تھذیب الکمال، 21/ 542، الرقم: 4326.
’’ایک روایت میں حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ پھر میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی: الٰہی! اسے زینت بخش اور اس کے حسن و جمال کو دوام عطا فرما۔ (راوی کہتے ہیں کہ) حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی لیکن ان کے سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے۔ ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘ اسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔
304/ 44. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِي لَيْلٰی عَنْ اسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ ص، رَجُلٍ مِنْ الْاَنْصَارِ، قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَکَانَ فِيْهِ مِزَاحٌ، بَيْنَا يُضْحِکُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فِي خَاصِرَتِهِ بِعُوْدٍ، فَقَالَ: اَصْبِرْنِي. فَقَالَ: اصْطَبِرْ. قَالَ: إِنَّ عَلَيْکَ قَمِيْصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيْصٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ قَمِيْصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ کَشْحَهُ، قَالَ: إِنَّمَا اَرَدْتُ هٰذَا يَا رَسُوْلَ اللهِ.
رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في قبلة الجسد، 4/ 356، الرقم: 5224، والحاکم في المستدرک، 3/ 327، الرقم: 5262، والطبراني في المعجم الکبیر، 1/ 205-206، الرقم: 556-557، والبیهقي في السنن الکبری، 7/ 102، الرقم: 13364، وأیضًا، 8/ 49، الرقم: 15800، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 4/ 276، الرقم: 1471، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 9/ 76، والزیلعي في نصب الرایة، 4/ 259، وابن قیم في حاشیة علی سنن ابي داود، 12/ 175.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت اُسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں سے ہنسی مزاح کی بات چیت کر کے انہیں ہنسا رہے تھے تو حضور ﷺ نے ان کی کمر میں لکڑی سے کچوکا لگایا تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے بدلہ دیجیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم بدلہ لے لو۔ اس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کے بدن پرقمیض مبارک ہے جبکہ میرے بدن پر قمیض نہیں تھی۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی قمیض مبارک اوپر اٹھالی تو وہ شخص آپ ﷺ کے قریب ہوا اور آپ ﷺ کے پسلیوں (اور شکم) مبارک کو چومنے لگا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہی (حصول برکت کا) ارادہ تھا (کہ میں آپ کے جسم اقدس سے مس ہونے کی سعادت حاصل کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ سے نجات پا جاؤں)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
305/ 45. وفي روایة: عَنْ صَفِيَهَ بِنْتِ مَجْزَهَ رضي الله عنہا أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَهَ رضی الله عنه کَانَتْ لَهُ قُصَّةٌ فِي مُقَدَّمِ رَأْسِهِ، إِذَا قَعَدَ أَرْسَلَهَا، فَتَبْلُغُ الْاَرْضَ، فَقَالُوْا لَهُ: أَلَا تَحْلِقُهَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم مَسَحَ عَلَيْهَا بِيَدِهِ، فَلَمْ أَکُنْ ِلاَحْلِقَهَا حَتّٰی أَمُوْتَ فَلَمْ يَحْلِقْهَا حَتّٰی مَاتَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ.
اخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 589، الرقم: 6181، والبخاري في التاریخ الکبیر، 4/ 177، الرقم: 2403، والطبراني في المعجم الکبیر، 7/ 176، الرقم: 6746، وابن حبان في الثقات، 4/ 386، الرقم: 3489، والمزي في تہذیب الکمال، 34/ 258، والذھبي في سیر اعلام النبلائ، 3/ 119، والہیثمي في مجمع الزوائد، 5/ 165.
’’حضرت صفیہ بنت مجزاة رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصے میں بالوں کی ایک طویل لٹ تھی۔ جب وہ بیٹھتے تھے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے تھے اور بالوں کی وہ لٹ زمین تک پہنچ جاتی تھی۔ لوگ ان سے کہتے کہ آپ اسے منڈواتے کیوں نہیں؟ تو وہ بتاتے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان بالوں پر اپنا دست شفقت پھیرا تھا۔ پس میں ان بالوں کو اپنی موت تک نہیں کٹواؤں گا پس انہوں نے اپنی موت تک بالوں کی اس لٹ کو نہیں کٹوایا (جسے رسول اللہ ﷺ نے مَس فرمایا تھا )۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
306/ 46. عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا وَفْدًا إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَبَيَعْنَهُ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَأَخْبَرْنَهُ أَنَّ بِأَرْضِنَا بِيْعَةً لَنَا فَاسْتَوْهَبْنَهُ مِنْ فَضْلِ طَهُوْرِهِ. فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّهُ لَنَا فِي إِدَاوَةٍ وَأَمَرَنَا فَقَالَ لَنَا: اخْرُجُوْا فَإِذَا أَتَيْتُمْ أَرْضَکُمْ فَاکْسِرُوْا بِيْعَتَکُمْ وَانْضَحُوْا مَکَانَهَا بِهٰذَا الْمَائِ وَاتَّخِذُوْهَا مَسْجِدًا، قُلْنَا: إِنَّ الْبَلَدَ بَعِيْدٌ وَالْحَرَّ شَدِيْدٌ وَالْمَاءَ يَنْشُفُ، فَقَالَ: مُدُّوْهُ مِنَ الْمَائِ فَإِنَّهُ لَا يَزِيْدُهُ إِلَّا طِيْبًا. فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَکَسَرْنَا بِيْعَتَنَا، ثُمَّ نَضَحْنَا مَکَانَهَا وَاتَّخَذْنَاهَا مَسْجِدًا فَنَادَيْنَا فِيْهِ بالْاَذَانِ، قَالَ: وَالرَّهِبُ رَجُلٌ مِنْ طَيِّیئٍ، فَلَمَّا سَمِعَ الْاَذَانَ قَالَ: دَعْوَةُ حَقٍّ. ثُمَّ اسْتَقْبَلَ تَلْعَةً مِنْ تَـلَاعِنَا فَلَمْ نَرَهُ بَعْدُ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَابْنُ حِبَّانَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
307/ 47. وفي روایة: فَخَرَجْنَا فَتَشَاحَحْنَا عَلٰی حَمْلِ الْإِدَاوَةِ يُنَا يَحْمِلُهَا فَجَعَلَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نَوْبًا لِکُلِّ رَجُلٍ مِنَّا يَوْمًا وَلَيْلَةً.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب المساجد، باب اتخاذ البیع المسجد، 2/ 38، الرقم: 701، وأیضًا في السنن الکبری، 1/ 258، الرقم: 780، وابن حبان في الصحیح، 3/ 405، الرقم: 1123، 4/ 479، الرقم: 1602، وابن أبي شیبة في المصنف، 1/ 423، الرقم: 4870، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 332، الرقم: 8241، وابن سعد في الطبقات الکبری، 5/ 552، والنمیري في أخبار المدینة، 1/ 317، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 8/ 162-163، الرقم: 175-176، إسنادہ صحیح، وابن عبد البر في التمہید، 5/ 229، وأیضًا في الاستیعاب، 2/ 776، الرقم: 1300، والقزویني في التدوین، 2/ 281.
’’حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم وفد کی صورت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگهِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: (یارسول الله!) ہماری بستی میں ایک گرجا ہے (اب ہم اجتماعی طور پر قبولِ اسلام کے بعد اسے گرا کر اس جگہ ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں)۔ پھر ہم نے آپ ﷺ سے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی برکت کے لیے مانگا۔ آپ ﷺ نے پانی طلب کر کے ہاتھ دھوئے اور کلی فرمائی۔ پھر ایک ڈول میں پانی ڈال دیا اور حکم فرمایا: جاؤ، اور جب تم اپنی بستی میں پہنچو تو (اپنے) اس گرجے کو گرا کر اس جگہ یہ پانی چھڑک کر مسجد تعمیر کر لینا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا شہر دور ہے اور راستے میں بھی سخت گرمی پڑتی ہے، پانی خشک ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس میں مزید پانی ملاتے رہنا یہ پانی اس (نئے پانی کی) پاکیزگی (اور برکت) میں بھی اضافہ ہی کرے گا۔ بہرحال ہم وہاں سے چل کر اپنے شہر پہنچے اس گرجے کو مسمار کیا اور اس جگہ وہ پانی چھڑکا اور مسجد تعمیر کی۔ پھر ہم نے وہاں اذان دی۔ قبیلہ بنی طی میں سے ایک پادری نے جب اذان سنی توکہنے لگا: یہی حق کی صدا ہے۔ پھر وہ ایک جانب بلندی پر چلاگیا اور اس کے بعد ہم نے اسے کبھی (وہاں) نہیں دیکھا۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں بیان کیا کہ پھر ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو ہم میں سے ہر ایک اس بات کی حرص و تمنا رکھتا تھا کہ اس مقدس پانی کو اُٹھا کر لے جانے کی سعادت اُسے مل جائے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم میں سے ہر ایک کی دن، رات میں اسے اٹھانے کے لیے باری مقرر فرما دی۔‘‘ اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
308/ 48. عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيْدَ بْنِ الْاَسْوَدِ السُّوَائِيِّ عَنْ اَبِيْهِ اَنَّهُ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم الصُّبْحَ، فذکر الحدیث، قَالَ: ثُمَّ ثَارَ النَّاسُ يَاْخُذُوْنَ بِيَدِهِ يَمْسَحُوْنَ بِهَا وُجُوْهَهُمْ. قَالَ: فَاَخَذْتُ بِيَدِهِ فَمَسَحْتُ بِهَا وَجْهِي فَوَجَدْتُهَا اَبْرَدَ مِنَ الثَّلْجِ وَاَطْيَبَ رِيْحًا مِنَ الْمِسْکِ.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
309/ 49. وفي روایة: قَالَ: قَبَّلْتُ يَدَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم فَإِذَا هِيَ اَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَاَطْيَبُ رِيْحًا مِنَ الْمِسْکِ.
رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ.
310/ 50. وفي روایة: قَالَ: اَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَوَضَعْتُهَا عَلٰی صَدْرِي، فَمَا وَجَدْتُ کَفًّا اَبْرَدَ وَلَا اَطْيَبَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم لَهِيَ اَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَاَطْيَبُ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 4/ 161، الرقم: 17513، والدارمي في السنن، 1/ 366، الرقم: 1367، وابن خزیمة في الصحیح، 3/ 67، الرقم: 1638، والبخاري في التاریخ الکبیر، 8/ 317، الرقم: 3154، وابن قانع في معجم الصحابة، 3/ 221، الرقم: 1201، وابن عبد البر في الاستیعاب، 4/ 1571، الرقم: 2755، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 573، والعیني في عمدة القاري، 4/ 100، 16/ 108، والشوکاني في نیل الاوطار، 2/ 354-355.
’’حضرت جابر بن یزید بن اسود سوائی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں فجر کی نماز ادا کی۔ پھر آگے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: پھر (نماز سے فراغت کے بعد) لوگ جوش و خروش سے آپ ﷺ کے دستِ مبارک کو تھامتے اور اسے اپنے چہروں پر پھیرتے جاتے۔ راوی نے بیان کیا کہ میں نے بھی آپ ﷺ کا دستِ اقدس تھاما اور (حصولِ برکت کے لیے) اسے اپنے چہرے پر پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کے دستِ مبارک کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار پایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد، دارمی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں بیان کیا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس کو بوسہ دیا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘
اسے امام ابن قانع نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میں نے آپ ﷺ کے دستِ مبارک کو پکڑا اور اسے اپنے سینے پر رکھا۔ میں نے آپ ﷺ کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ ٹھنڈی اور خوشبو دار ہتھیلی کہیں نہیں پائی۔ یہ برف سے زیادہ ٹھنڈی اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھی۔‘‘ اس 7حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved