128/ 1. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ طَلَعَ لَهُ احُدٌ فَقَالَ: هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ. اَللّٰهُمَّ، إِنَّ إِبْرَهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّهَ وَإِنِّي احَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
129/ 2. وفي رواية لهما: قَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي احَرِّمُ مَا بَيْنَ جَبَلَيْهَا مِثْلَ مَا حَرَّمَ بِهِ إبْرَهِيْمُ مَکَّهَ.
130/ 3. وفي رواية لابن ماجه: قَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّ إِبْرَهِيْمَ خَلِيْلُکَ وَنَبِيُکَ وَإِنَّکَ حَرَّمْتَ مَکَّهَ عَلٰی لِسَانِ إبْرَهِيْمَ، اَللّٰهُمَّ، وَاَنَا عَبْدُکُ وَنَبِيُکَ وَإِنِّي احَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب احاديث الانبياء، باب قول ﷲ تعالی: واتخذ ﷲ إبراهيم خليلا، 3/ 1232، الرقم: 3187، وأيضًا في کتاب الاطعمة، باب الحيس، 5/ 2069، الرقم: 5109، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل المدينة ودعا النبي ﷺ فيها بالبرکة، 2/ 991، الرقم:1361،1363،1365، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل المدينة، 5/ 721، الرقم: 3922، وابن ماجه في السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 2/ 1039، الرقم: 3113، ومالک في الموطا، کتاب الجامع، باب ما جاء في تحريم المدينة، 2/ 889،1576، الرقم: 1645، واحمد بن حنبل في المسند، 3/ 149، الرقم: 12532، 12637، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 193.
’’حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! بیشک حضرت ابراہیم عليہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا اور میں ان دونوں پہاڑیوں کی درمیانی جگہ (یعنی واديِ مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور بخاری و مسلم کی ہی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے الله! میں ان دونوں پہاڑوں کی درمیانی جگہ (یعنی واديِ مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں، جیسا کہ حضرت ابراہیم عليہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘
’’اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے الله! بے شک حضرت ابراہیم عليہ السلام تیرے خلیل اور نبی ہیں، اور بے شک تو نے مکہ کو حضرت ابراہیم عليہ السلام کی زبانِ اقدس سے حرم قرار دیا، اور میں تیرا بندہ اورنبی ہوں اوربے شک میں ان دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ (یعنی مدینہ منورہ) کو حرم قرار دیتا ہوں۔‘‘
131/ 4. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: مَا عِنْدَنَا شَيئٌ إِلَّا کِتَابُ ﷲِ وَهٰذِهِ الصَّحِيْفَةُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ الْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلٰی کَذَا مَنْ اَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا اَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ وَالْمَـلَائِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
132/ 5. وفي رواية للبخاري: عَنْ عَاصِمٍ قَالَ: قُلْتُ لِاَنَسٍ: اَحَرَّمَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ الْمَدِيْنَهَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَا بَيْنَ کَذَا إِلٰی کَذَا لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا مَنْ اَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ وَالْمَـلَائِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.
133/ 6. وفي رواية لاحمدَ: قَالَ: لَا يُحْمَلُ فِيْهَا سِـلَاحٌ لِقِتَالٍ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب حرم المدينة، 2/ 661، الرقم:1771، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ذمة المسلمين وجوارھم واحدة يسعي بها ادناھم، 3/ 1157، الرقم: 3001، وأيضًا في باب إثم من آوی محدثا، 6/ 2665، الرقم: 6876، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل المدينة ودعا النبي ﷺ فيها بالبرکة، 2/ 994، الرقم: 1366، 1370،1371، وأيضًا في کتاب العتق، باب تحريم تولی العتيق غير مواليه، 2/ 1147، الرقم:1370، والترمذي في السنن، کتاب الولاء والهبة، باب ما جاء فيمن تولی غير مواليه او ادعی إلي غير ابيه، 4/ 438، الرقم: 2127، وقال: هذا حديث حسن صحيح، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 81،126، الرقم:615،1037، وأيضًا، 3/ 242، الرقم: 13564، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 486، الرقم: 4277.4278، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 193.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس صحیفہ (حدیث) کے سوا کوئی اور چیز نہیں کہ (جس میں) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مدینہ منورہ حرم ہے، عائر سے فلاں جگہ تک۔ جو اس میں کوئی فتنہ بپا کرے گا یا کسی فسادی کو پناہ دے تو اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔ اُس کی فرض اور نفلی کوئی عبادت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور امام بخاری کی ایک روایت میں حضرت عاصم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا حضور نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کو حرم قرار دیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، یہاں سے لے کر وہاں تک (یعنی دونوں پہاڑوں کے درمیانی وادی میں سے) کوئی درخت نہیں کاٹا جائے گا، جو اس میں کوئی فتنہ بپا کرے تو اس پر الله تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
’’اور امام اَحمد کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اس میں لڑائی کے لیے اسلحہ اُٹھانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔‘‘
134/ 7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّ إِبْرَهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّهَ، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِيْنَهَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا لَا يُقْطَعُ عِضَهُهَا وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.
7: اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل المدينة ودعا النبي ﷺ فيها بالبرکة، 2/ 992، الرقم: 1362.1363، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 181، 184، الرقم: 1573، 1606، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 486، الرقم: 4279، وابو يعلی في المسند، 2/ 58، الرقم: 699، وأيضًا، 4/ 113، الرقم: 2151، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 191، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 197، الرقم:9741، 9745، والدورقي في مسند سعد/ 82، الرقم: 38.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم عليہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں، مدینہ کی دونوں پتھریلی اطراف کے درمیان کسی درخت کو کاٹا جائے گا نہ ہی کسی جانور کا شکار کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، اَحمد، نسائی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔
135/ 8. عَنْ اَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا إِلٰی کَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيْهَا حَدَثٌ، مَنْ اَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ وَالْمَـلَائِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
136/ 9. وزاد مسلم: لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل المدينة، باب حرم المدينة، 2/ 661، الرقم: 1768، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب إثم من آوی محدثا، 6/ 2665، الرقم: 6876، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل المدينة ودعاء النبي ﷺ فيها بالبرکة وبيان تحريمها وتحريم صيدها وشجرها وبيان حدود حرمها، 2/ 994، الرقم: 1366، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 193، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 197، الرقم: 9739.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مدینہ منورہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے۔ نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے۔جو اس میں فتنہ کا کوئی کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور امام مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا:
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس (فتنہ گر) کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں فرمائے گا۔‘‘
137/ 10. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ، اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی امَّتِي اَوْ عَلَی النَّاسِ لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَةٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
138/ 11. وفي رواية: لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ وُضُوْءٍ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ.
139/ 12. وفي رواية: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ يَقُوْلُ: لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی امَّتِي لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَةٍ وَ لَاَخَّرْتُ صَـلَهَ الْعِشَائِ إِلٰی ثُلُثِ اللَّيْلِ. وفي رواية: أَوْ نِصْفِ اللَّيْلِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقاَلَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب السواک يوم الجمعة، 1/ 303، الرقم: 847، وأيضًا في کتاب الصوم، باب سواک الرطب واليابس للصائم، 2/ 682، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب السواک، 1/ 220، الرقم: 252، والترمذي في السنن، کتاب الطهارة، باب ما جاء في السواک، 1/ 34.35، الرقم: 22.23، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب ما جاء في تأخير صلاة العشاء الآخرة، 1/ 301، الرقم: 167، وأبو داود في السنن، کتاب الطهارة، باب السوک،1/ 12، الرقم: 47، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب الرخصة في السواک بالعشي للصائم،1/ 12، الرقم: 7، وأيضًا في کتاب المواقيت، باب ما يستحب من تأخير العشاء، 1/ 266، الرقم: 534، وابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب السواک، 1/ 105، الرقم: 287، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب وقت صلاة العشاء، 1/ 226، الرقم:690.691، ومالک في الموطأ، کتاب الطهارة، باب ما جاء في السواک، 1/ 66، الرقم: 145.146، وأحمد بن حنبل في المسند،1/ 80، 120، الرقم: 607، 967.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنی اُمت کے لیے مشقت نہ سمجھتا یا فرمایا: اگر میں لوگوں کے لیے مشقت شمار نہ کرتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور مالک نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنی اُمت کے لیے مشقت شمار نہ کرتا تو ضرور بالضرور انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور نماز عشاء کو رات کے تیسرے پہر اور ایک روایت میں فرمایا: رات کے دوسرے پہر تک مؤخر کر دیتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
140/ 13. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ تَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ ث عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أَتَو النَّبِيَّ ﷺ أَوْ أُتِيَ فَقَالَ: مَالِي أَرَاکُمْ تَاْتُوْنِي قُلْحًا اسْتَاکُوْا لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِي لَفَرَضْتُ عَلَيْهِمُ السِّوَاکَ کَمَا فَرَضْتُ عَلَيْهِمُ الْوُضُوْءَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی. وَقَالَ الْحَاکِمُ: وَهُوَ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِهِمَا جَمِيْعًا وَلَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 214، الرقم: 1835، وأيضًا، 3/ 442، الرقم: 15694، وابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب السواک، 1/ 106، الرقم: 289، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 196، الرقم: 3032، 3038، وأبو يعلی في المسند، 12/ 71، الرقم:6710، والحاکم في المستدرک،1/ 245، الرقم: 516.517، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 64، الرقم: 1301، والبيهقي في السنن الکبری،1/ 36، الرقم: 146، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 394، الرقم: 486، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 62، الرقم: 2349، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 100، الرقم: 321، وابن جعفر الکتاني في نظم المتناثر/ 54.
’’حضرت جعفر بن تمام بن عباس رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: کچھ لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے یا آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے، میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم میرے پاس اس حال میں آئے ہو کہ تمہارے دانت (میل کچیل کے سبب) پیلے پڑے ہوئے ہیں، مسواک کیا کرو، اگر مجھے اپنی اُمت کے مشقت میں پڑنے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک فرض کر دیتا جیسا کہ میں نے ان پر وضو فرض کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام اَحمد، ابن ماجہ، نسائی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ تمام اِسناد بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ اور اس میں کوئی علّت نہیں ہے۔
141/ 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَخَّصَ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ رضي الله عنهما فِي قَمِيْصٍ مِنْ حَرِيْرٍ مِنْ حِکَّةٍ کَانَتْ بِهِمَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب الحرير في الحرب، 3/ 1069، الرقم: 2762، ومسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب إباحة لبس الحرير للرجل إذا کان به حکة أو نحوها، 3/ 1646، الرقم: 2076، والنسائي في السنن، کتاب الزينة، باب الرخصة في لبس الحرير، 8/ 202، الرقم: 5310. 5311، وأيضًا في السنن الکبری، 5/ 476، الرقم: 9635.9636، وأبو يعلی في المسند، 6/ 20، الرقم: 3249.3250، والطيالسي في المسند، 1/ 265، الرقم:1972، وأبو عوانة في المسند، 5/ 234، الرقم: 8526، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 268، الرقم: 5869.5873، وابن سعد في الطبقات الکبری، 14/ 195.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی الله عنہما کو ریشمی قمیص پہننے کی اجازت مرحمت فرما دی تھی (حالانکہ عام مسلمان مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے) کیوں کہ ان دونوں حضرات کے جسم پر خارش (الرجی) تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
142/ 15. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرَ رضي الله عنهما شَکَوَا إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَعْنِي الْقَمْلَ فَاَرْخَصَ لَهُمَا فِي الْحَرِيْرِ فَرَيْتُهُ عَلَيْهِمَا فِي غَزَةٍ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب الحرير في الحرب، 3/ 1069، الرقم: 2763، ومسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب إباحة لبس الحرير للرجل إذا کان به حکة أو نحوها، 3/ 1647، الرقم: 2076، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 476، الرقم: 9637، وأبو يعلی في المسند، 6/ 20، الرقم: 3251، والطيالسي في المسند، 1/ 265، الرقم: 1973، وأبو عوانة في المسند، 5/ 235، الرقم: 8529.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے بارگاہِ نبوت میں جوؤں کی شکایت کی، تو آپ ﷺ نے دونوں کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت عطا فرما دی۔ ایک غزوہ میں، میں نے ان دونوں حضرات کو ریشمی کپڑے پہنے ہوئے دیکھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
143/ 16. عَنْ أَبِي سَلَمَهَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ شَکٰی إِلٰی رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ الدَّوَّابَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَلْبَسَ الْحَرِيْرَ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
16: أخرجه البزار في المسند، 3/ 258، الرقم: 1049، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5/ 144.
’’حضرت ابو سلمہ نے حضرت عبد الرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جووں کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے انہیں (علاج اور حفاظتی تدبیر کے طور پر) ریشم پہننے کا حکم (اور اجازت عطا) فرما دی ۔‘‘
اِس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔
144/ 17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، هَلَکْتُ قَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَاَتِي وَاَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيْعُ اَنْ تَصُوْمَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ: فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّيْنَ مِسْکِيْنًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَکَثَ النَّبِيُّ ﷺ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلٰی ذَالِکَ اتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِعَرَقٍ فِيْهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ قَالَ: يْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ: اَنَا، قَالَ: خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ: اَعَلٰی اَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُوْلَ ﷲِ، فَوَﷲِ، مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، يُرِيْدُ الْحَرَّتَيْنِ، هْلُ بَيْتٍ اَفْقَرُ مِنْ هْلِ بَيْتِي فَضَحِکَ النَّبِيُّ ﷺ حَتّٰی بَدَتْ اَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ: اَطْعِمْهُ هْلَکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
145/ 18. وَقَالَ أَبُوْ دَاوُدَ: زَادَ الزُّهْرِيُّ: وَإِنَّمَا کَانَ هٰذَا رُخْصَةً لَهُ خَاصَّةً فَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا فَعَلَ ذَالِکَ الْيَوْمَ لَمْ يَکُنْ لَهُ بُدٌّ مِنَ التَّکْفِيْرِ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب إذا جامع في رمضان ولم يکن له شيء فتصدق عليه فليکفر، 2/ 684، الرقم: 1834، وأيضًا في کتاب کفارات الأيمان، باب متی تجب الکفارة علی الغني والفقير، 6/ 2467، الرقم:6331، وأيضًا في باب يعطي في الکفارة عشرة مساکين قريبًا کان أو بعيدًا، 6/ 2468، الرقم: 6333، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب تغليظ تحريم الجماع في نهار رمضان علی الصائم ووجوب الکفارة الکبری فيه، 2/ 817، الرقم: 111، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في کفارة الفطر في رمضان، 3/ 102، الرقم: 724، وقال: حديث أبي هريرة رضی الله عنه حديث حسن صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب کفارة من أتی أهله في رمضان، 2/ 313، الرقم:2390، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في کفارة من أفطر يوما من رمضان،1/ 534، الرقم:1671، والنسائي في السنن الکبری، 2/ 212، الرقم: 3117، وأحمد بن حنبل في المسند،2/ 241، الرقم: 7288، وأيضًا، 6/ 276، الرقم: 26402.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ اس نے عرض کیا: میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس (بطور کفارہ) آزاد کرنے کے لیے ایک گردن (یعنی غلام)ہے۔اس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم دو مہینوں کے متواتر روزے رکھ سکتے ہو؟وہ عرض گزار ہوا: نہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔پس حضور نبی اکرم ﷺ کچھ دیر خاموش ہو رہے (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اور ہم بھی وہیں موجود تھے کہآپ ﷺ کی خدمت میں ایک عرق پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں (عرق ایک پیمانہ ہے)۔ فرمایا: سائل کہاں ہے؟ وہ عرض گزار ہوا کہ میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں لے جا کر خیرات کر دو۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اپنے سے (بھی) زیادہ غریب پر؟ خدا کی قسم! ان دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان (یعنی مدینہ منورہ میں) کوئی گھر ایسا نہیں جو میرے گھر سے زیادہ غریب ہو۔ تو آپ ﷺ مسکرا دیئے یہاں تک کہ پچھلے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: جاؤ اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو (تمہارا کفارہ ادا ہو جائے گا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور امام ابو داود نے فرمایا:
امام زہری نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ یہ رخصت (حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے) اس آدمی کے لیے خاص تھی، پس آج اگر کوئی آدمی اس طرح روزہ توڑ لے تو اس کے لیے (شرعی) کفارہ ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
146/ 19. عَنْ عَائِشَهَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ بَيْنَا هُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ فَارِعِ أُجُمِ حَسَّانَ جَائَ هُ رَجُلٌ فَقَالَ: احْتَرَقْتُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ، قَالَ: مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ، قَالَتْ: وَذَاکَ فِي رَمَضَانَ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : اِجْلِسْ فَجَلَسَ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ فَأَتٰی رَجُلٌ بِحِمَارٍ عَلَيْهِ غِرَارَةٌ فِيْهَا تَمْرٌ قَالَ: هٰذِهِ صَدَقَتِي يَارَسُوْلَ ﷲِ، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : ايْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا فَقَالَ: هَا هُوَ ذَا أَنَا يَا رَسُوْلَ ﷲِ، قَالَ: خُذْ هٰذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، قَالَ: وَيْنَ الصَّدَقَةُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ، إِلَّا عَلَيَّ وَلِي فَوَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أَجِدُ أَنَا وَعِيَالِي شَيْئًا قَالَ: فَخُذْهَا فَأَخَذَهَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 276، الرقم: 26402.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ، حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے مکان کی بلند دیوار کے سائے تلے تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جل گیا (یعنی تباہ ہو گیا)، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول الله!) میں نے روزے کی حالت میں اپنی اہلیہ سے ہم بستری کرلی ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں: یہ رمضان کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ پس وہ لوگوں کی ایک طرف بیٹھ گیا، پھر ایک آدمی گدھا لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس گدھے پر ایک تھیلہ تھا جس میں کھجوریں تھیں، اس آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میری طرف سے صدقہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی تھوڑی دیر پہلے آنے والا جلا ہوا آدمی کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول الله! میں یہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تھیلہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو، اس نے عرض کیا: یا رسول الله! کہاں صدقہ کروں درآنحالیکہ میں ہی اس صدقہ کا حق دار ہوں اور یہ میرے لیے ہی ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! میں اور میرے گھر والے (کھانے پینے کے لیے) کوئی چیز نہیں پاتے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو اسے تم ہی لے لو (تمہارا کفارہ ادا ہو جائے گا) سو اس نے وہ تھیلہ لے لیا۔‘‘ اس حدیث کو امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔
147/ 20. عَنِ الْبَرَائِ رضی الله عنه قَالَ: ذَبَحَ اَبُوْ بُرْدَهَ رضی الله عنه قَبْلَ الصَّلَةِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : اَبْدِلْهَا قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي إِلَّا جَذَعَةٌ قَالَ شُعْبَةُ: وَاَحْسِبُهُ قَالَ: هِيَ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ قَالَ: اجْعَلْهَا مَکَانَهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ اَحَدٍ بَعْدَکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب قول النبي ﷺ لأبي بردة بالجذع من المعز: ولن تجزي عن أحد بعدک، 5/ 2112، الرقم: 5237، وأيضًا في باب الذبح بعد الصلاة، 5/ 2113، الرقم: 5240، ومسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب وقتها، 3/ 1553.1554، الرقم: 1961، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب الخطبة يوم العيد، 3/ 182، الرقم: 1563، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 281،303، الرقم: 18504، 18715، وابن حبان في الصحيح، 13/ 227، الرقم: 5906، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 172، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 36، الرقم: 1158، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 311، الرقم: 6057.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کرلی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اس کے بدلے دوسری قربانی دو۔ وہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول الله!) میرے پاس تو ایک چھ مہینے کا (بکری کا) بچہ ہے۔ شعبہ کا قول ہے کہ میرے خیال میں انہوں نے یہ بھی عرض کیا کہ وہ ایک سال کی بکری سے بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی جگہ اسی کی قربانی دے دو لیکن تمہارے سوا کسی اور کے لیے ایسا کرنا جائز نہ ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
148/ 21. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَةِ فَلْيُعِدْ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: هٰذَا يَوْمٌ يُشْتَهٰی فِيْهِ اللَّحْمُ وَذَکَرَ مِنْ جِيْرَانِهِ فَکَاَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَدَّقَهُ قَالَ: وَعِنْدِي جَذَعَةٌ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَي لَحْمٍ فَرَخَّصَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَـلَا اَدْرِي اَبَلَغَتِ الرُّخْصَةُ مَنْ سِوَهُ اَمْ لَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الأکل يوم النحر، 1/ 325، الرقم:911، وأيضًا في باب کلام الإمام والناس في خطبة العيد، 1/ 334، الرقم: 941، وأيضًا في کتاب الأضاحي، باب ما يشتهي من اللحم يوم النحر، 5/ 2110، الرقم: 5229، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب ذبح الضحية قبل الإمام، 7/ 223، الرقم: 4396، وأيضًا في السنن الکبری، 3/ 60، الرقم: 4488، وأبو عوانة في المسند، 5/ 73، الرقم: 7836.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی وہ دوبارہ قربانی کرے۔ ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: (یا رسول الله!) اس روز گوشت کی خواہش ہوتی ہے اور اپنے ہمسایوں کا ذکر کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ وہ عرض گزار ہوا کہ میرے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے پیارا ہے۔ تو آپ ﷺ نے اسے (اس کی قربانی کی) اجازت مرحمت فرما دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
149/ 22. عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنهما قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الْاَضْحٰی بَعْدَ الصَّلَةِ فَقَالَ: مَنْ صَلّٰی صَلَاتَنَا وَنَسَکَ نُسُکَنَا فَقَدْ اَصَابَ النُّسُکَ وَمَنْ نَسَکَ قَبْلَ الصَّلَةِ فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلَةِ وَلَا نُسُکَ لَهُ. فَقَالَ اَبُوْ بُرْدَهَ بْنُ نِيَارٍ خَالُ الْبَرَائِ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، فَإِنِّي نَسَکْتُ شَاتِي قَبْلَ الصَّلَةِ وَعَرَفْتُ اَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ اَکْلٍ وَشُرْبٍ وَاَحْبَبْتُ اَنْ تَکُوْنَ شَاتِي اَوَّلَ مَا يُذْبَحُ فِي بَيْتِي فَذَبَحْتُ شَاتِي وَتَغَدَّيْتُ قَبْلَ اَنْ آتِيَ الصَّلَهَ قَالَ: شَاتُکَ شَةُ لَحْمٍ قَالَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، فَإِنَّ عِنْدَنَا عَنَاقًا لَنَا جَذَعَةً هِيَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْنِ اَفَتَجْزِي عَنِّي قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ اَحَدٍ بَعْدَکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الأکل يوم النحر، 1/ 325، الرقم: 912،940، وأيضًا في کتاب الأضاحي، باب سنة الأضحية، 5/ 2109، الرقم: 5225، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب ذبح الضحية قبل الإمام، 7/ 223، الرقم: 4395، وأيضًا في السنن الکبری، 3/ 60، الرقم: 4487، وأبو يعلی في المسند، 3/ 225، الرقم: 1662، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 283، الرقم: 5959.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید الاضحی کے روز نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قربانی کی، اس کی قربانی درست ہو گئی اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہے۔ لہٰذا اس کی قربانی نہیں ہوئی۔ حضرت براء کے ماموں جان حضرت ابو بُردہ بن نیار عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ذبح کر لی، یہ جانتے ہوئے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے اور میں نے چاہا کہ سب سے پہلے ذبح ہونے والی بکری میرے گھر کی ہو۔ لہٰذا میں نے اپنی بکری ذبح کی اور نماز کے لیے حاضر ہونے سے پہلے اسے کھا بھی لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بکری گوشت کھانے کے لیے ہوئی (قربانی کی نہیں)۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی پیارا ہے کیا وہ مجھے کفایت کرے گا (یعنی اس بکری کے بدلہ میں دوبارہ قربانی کے لیے کافی ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور(یاد رکھو) تمہارے بعد کسی کو کفایت نہیں کرے گا (یعنی تمہارے علاوہ کسی اور کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابو یعلی نے روایت کی ہے۔
150/ 23. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ امْرَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا ِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ ﷺ فَقَالَ: مَا لِي فِي النِّسَائِ مِنْ حَاجَةٍ فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيْهَا قَالَ: أَعْطِهَا ثَوْبًا قَالَ: لَا أَجِدُ قَالَ: أَعْطِهَا وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيْدٍ فَاعْتَلَّ لَهُ فَقَالَ: مَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: کَذَا وَکَذَا قَالَ: فَقَدْ زَوَّجْتُکَهَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
151/ 24. وفي روایة لابي داود: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : فَقُمْ، فَعَلِّمْهَا عِشْرِيْنَ يَةً وَهِيَ امْرَاَتُکَ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب خيرکم من تعلم القرآن وعلّمه، 4/ 1919، الرقم:4741، وأيضًا في باب القراء ة عن ظهر القلب، 4/ 1920، الرقم: 4742، ومسلم في الصحيح، کتاب النکاح، باب الصداق وجواز کونه تعليم قرآن، 2/ 104، الرقم: 1425، والترمذي في السنن، کتاب النکاح، باب: (23) منه، 3/ 421، الرقم: 1114، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وابو داود في السنن، کتاب النکاح، باب في التزويج علی العمل يعمل، 2/ 236، الرقم:2111، والنسائي في السنن، کتاب النکاح، باب ذکر امر رسول الله ﷺ في النکاح وازواجه وما اباح الله ل لنبيه ﷺ وحظره علی خلقه زيادة في کرامته وتنبيها الفضيلته، 6/ 54، الرقم: 3200، وأيضًا في باب الکلام الذي ينعقد به النکاح، 6/ 91، الرقم:3280، 3339، 33359، وابن ماجه في السنن، کتاب النکاح، باب صداق النساء، 1/ 608، الرقم: 1889، ومالک في الموطا، کتاب النکاح، باب ما جاء في صداق والحبائ، 2/ 526، الرقم: 1096، والشافعي في المسند/ 247، واحمد بن حنبل في المسند، 5/ 330، 336، الرقم: 22850، 22901.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں ایک عورت حاضر ہو کر کہنے لگی کہ (یارسول الله!) بے شک میں خود کو الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے تو عورتوں کی حاجت نہیں۔ تو ایک شخص نے عرض کیا: (یارسول الله!) اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے پاس اسے دینے کے لیے کپڑے ہیں؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کچھ نہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کچھ دو خواہ وہ لوہے کا چھلا (ring) ہی کیوں نہ ہو۔اس نے (مفلسی کے باعث) اس سے بھی اپنی معذوری ظاہر کی۔ تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟ وہ عرض گزار ہوا: (یا رسول الله!) مجھے فلاں فلاں سورتیں آتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا میں نے تمہارے قرآن مجید (اسے سکھانے) کے عوض اس کا نکاح تمہارے ساتھ کر دیا ہے۔ (یعنی تم بطورِ حق مہر اسے قرآن پڑھنا سکھا دینا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور امام ابو داود کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: چلو، اسے بیس آیات ہی (بطورِ حق مہر) سکھا دینا تویہ آج سے تمہاری بیوی ہے۔‘‘
152/ 25. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلٰی رَاْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِاَسْتَارِ الْکَعْبَةِ فَقَالَ: اقْتُلُوْهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
25: اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب دخول الحرم ومکة بغير إحرام، 2/ 655، الرقم:1749، وأيضًا في کتاب الجهاد والسير، 3/ 1107، الرقم: 2879، وأيضًا في کتاب المغازي، باب اين رکز النبي ﷺ الرأية يوم الفتح، 4/ 1561، الرقم: 4035، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب جواز دخول مکة بغير إحرام، 2/ 989، الرقم: 1357، والترمذي في السنن، کتاب الجهاد، باب ما جاء في المغفر، 4/ 202، الرقم: 1693، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وابو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب قتل الاسير ولايعرض عليه الإسلام، 3/ 60، الرقم: 2685، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب دخول مکة بغير إحرام، 5/ 200، الرقم: 2867، وأيضًا في السنن الکبری، 2/ 382، الرقم:3850، واحمد بن حنبل في المسند، 3/ 185،231.232، الرقم:12955، 13437،13461، 13542، وابن حبان في الصحيح، 9/ 37، الرقم: 3721، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2/ 259، والطبراني في المعجم الاوسط، 9/ 29، الرقم: 9034.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا۔ جب آپ ﷺ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آکر عرض کیا: (یا رسول الله! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لیے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ (ہمارے لیے کیا حکم ہے کیونکہ حرم کعبہ میں کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے (وہیں) قتل کر دو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
153/ 26. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوْهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُمَا.
26: اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب لا يعذب بعذاب الله، 3/ 1098، الرقم: 2854، والترمذي في السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء في المرتد، 4/ 59، الرقم: 1458، وابو داود في السنن، کتاب الحدود، باب الحکم فيمن ارتد، 4/ 126، الرقم: 4351، والنسائي في السنن، کتاب تحريم الدم، باب الحکم في المرتد، 7/ 103، الرقم: 4059، وابن ماجه في السنن، کتاب الحدود، باب المرتد عن دينه، 2/ 848، الرقم: 2535، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 322، الرقم: 2968، وابن حبان في الصحيح، 10/ 327، الرقم: 4475.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو (مسلمان) اپنا دین بدل لے (یعنی اس سے پھر جائے) اسے قتل کر دو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
154/ 27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ فَقَالَ: ايُهَا النَّاسُ، قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا. فَقَالَ رَجُلٌ: أَکُلَّ عَامٍ يَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَهَا ثَـلَاثًا. فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ. ثُمَّ قَالَ: ذَرُوْنِي مَا تَرَکْتُکُمْ، فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِـلَافِهِمْ عَلٰی أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيئٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُکُمْ عَنْ شَيئٍ فَدَعُوْهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، 2/ 975، الرقم: 1337، والترمذي في السنن، کتاب الحج، باب ما جاء کم فرض الحج، 3/ 178، الرقم: 814، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب وجوب الحج، 5/ 110، الرقم: 2619، وابن ماجه في السنن، کتاب المناسک، باب فرض الحج، 2/ 963، الرقم: 2884، وابن خزيمة في الصحيح، 4/ 129، الرقم: 2508.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے پس حج کیا کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ تین مرتبہ اس نے یہی سوال کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (تم پر ہر سال حج) فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا: میری اتنی ہی بات پر اکتفا کیا کرو جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں، اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہی ہلاک ہوئے تھے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی شے کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے بجا لایا کرو اور جب کسی شے سے منع کروں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔‘‘
اسے امام مسلم، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
155/ 28. عَنْ امِّ عَطِيَهَ رضي الله عنها قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذهِ اليَة: {يُبَيِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لَّا يُشْرِکْنَ بِﷲِ شَيْئًا}، {وَلَا يَعْصِيْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ} [الممتحنة، 60: 12]، قَالَتْ: کَانَ مِنْهُ النِّيَاحَةُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، إِلَّا آلَ فُـلَانٍ فَإِنَّهُمْ کَانُوْا اَسْعَدُوْنِي فِي الْجَهِلِيَةِ فَـلَا بُدَّ لِي مِنْ أَنْ اسْعِدَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : إِلَّا آلَ فُـلَانٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَاَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب التشديد في النياحة، 2/ 646، الرقم: 936، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 488، الرقم: 11587، واحمد بن حنبل في المسند، 5/ 85، الرقم:20815، وأيضًا، 6/ 407، الرقم: 27339، وابن حبان في الصحيح، 7/ 414، الرقم: 3145، والحاکم في المستدرک، 1/ 540، الرقم: 1414، وقال: هذا حديث صحيح، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6/ 114، الرقم: 3333، وابن راهويه في المسند، 5/ 215، الرقم: 17، وقال: رجاله ثقات، والبيهقي في السنن الکبری، 4/ 62، الرقم: 6898.
’’حضرت اُمّ عطیہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’مومن عورتیں اس بات پر آپ کی بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور (کسی بھی) امر شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔‘‘ (اور جن کاموں سے منع کیا گیا) ان میں سے ایک کسی پر نوحہ اور بین کرنا بھی تھا تو حضرت اُمّ عطیہ رضی الله عنھا نے عرض کیا: (یا رسول الله!) میں سوائے فلاں خاندان (کی اموات) کے کسی پر نوحہ نہیں کروں گی (اس کی مجھے رخصت عطا کردی جائے) کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں میرے ساتھ نوحہ کرنے میں تعاون کیا تھا، پس میرے لیے ضروری ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ تعاون کروں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (انہیں خصوصی اجازت عطا کرتے ہوئے) فرمایا: (ٹھیک ہے) سوائے اس خاندان (پر نوحہ کرنے) کے (باقی کسی کے لیے اجازت نہیں)۔‘‘ اسے امام مسلم، نسائی، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
156/ 29. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ لِعَلِيٍّ: يَا عَلِيُّ، لَا يَحِلُّ لِاَحَدٍ يُجْنِبُ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ: قُلْتُ لِضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ: مَا مَعْنٰی هٰذَا الْحَدِيْثِ؟ قَالَ: لاَ يَحِلُّ لِاَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُبًا غَيْرِي وَغَيْرِکَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5/ 639، الرقم: 3727، والبزار في المسند، 4/ 36، الرقم: 1197، وابو يعلی في المسند، 2/ 311، الرقم: 1042، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 65، الرقم:13181.
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حالتِ جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ امام علی بن منذرکہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کا معنی پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس سے مرادیہ ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ حالتِ جنابت میں کوئی اس مسجد کو بطور راستہ استعمال نہیں کرسکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
157/ 30. عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : اَلاَ، هَلْ عَسٰی رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيْثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّکِیئٌ عَلٰی اَرِيْکَتِهِ فَيَقُوْلُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ کِتَابُ ﷲِ فَمَا وَجَدْنَا فِيْهِ حَـلَالًا اسْتَحْلَلْنَهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اللهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما نهي عنه أن يقال عند حديث النبي ﷺ ، 5/ 38، الرقم: 2664، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول الله ﷺ والتغليظ علی من عارضه، 1/ 6، الرقم: 12، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 132، الرقم: 17233، والدارمي في السنن، 1/ 153، الرقم: 586، والدار قطني في السنن، 4/ 286. 287، الرقم: 58،63، والحاکم في المستدرک، 1/ 191، الرقم:13، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 76، الرقم: 13220.
’’حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سن لو! عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی اور وہ اپنی مسہری پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا کہے گا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب (ہی کافی ہے۔) ہم جو چیز اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اورجو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے جبکہ (جان لو!) رسول الله ﷺ کا کسی شے کو حرام قرار دینا بھی اللهتعالیٰ کے حرام قرار دینے کی طرح ہی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ، اَحمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
158/ 31. عَنْ عُبَيْدِ ﷲِ بْنِ اَبِي رَافِعٍ، عَنْ اَبِيْهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا الْفِيَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی اَرِيْکَتِهِ يَاْتِيْهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا اَمَرْتُ بِهِ اَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُوْلُ: لَا نَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي کِتَابِ ﷲِ اتَّبَعْنَهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما نهي عنه أن يقال عند حديث النبي ﷺ ، 5/ 37، الرقم: 2663، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4/ 200، الرقم: 4605، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول الله ﷺ والتغليظ علی من عارضه، 1/ 6، الرقم: 13، والشافعي في المسند / 151، 233، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 209، والطبراني في المعجم الکبير،1/ 316، الرقم: 934، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 76، الرقم: 13219.
’’حضرت عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ بذریعہ اپنے والد، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اس کی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے نہ پاؤں کہ اس کے پاس ان امور میں سے، جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے میں نے منع کیا ہے، کوئی آمر آئے اور وہ کہے: ہم نہیں جانتے، ہم نے تو جو قرآن میں پایا اسی کی اتباع کی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
159/ 32. عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيکَرِبَ، عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا إِنِّي أُوْتِيْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِيْکَتِهِ يَقُوْلُ: عَلَيْکُمْ بِهٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَـلَالٍ فَأَحِلُّوْهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْهُ أَلَا، لَا يَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْاَھْلِيِّ وَلَا کُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوْهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوْهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَهُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4/ 200، الرقم: 4604، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 130، الرقم: 17213، والطبراني في مسند الشاميين، 2/ 137، الرقم: 1061، والمروزي في السنة،1/ 70،111، الرقم: 244، 403، والخطيب البغدادي في الکفاية في علم الرواية/ 8.
’’حضرت مقدام بن معدیکرب، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: آگاہ رہو کہ مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اور بھی اسی جیسی چیز(یعنی حدیث پاک) اور خبر دار ہو جاؤ، عنقریب ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مسند سے ٹیک لگائے ہوئے کہے گا کہ تمہارے لیے صرف قرآن مجید ہے، لہذا جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ آگاہ رہو کہ میں تمہارے لیے گھریلو گدھے کو حلال قرار نہیں دیتا اور نہ درندوں میں سے کسی کو، اور نہ ذمی کے گرے پڑے ہوئے مال کو مگر جبکہ مالک اس کی ضرورت نہ سمجھے اور جب کوئی کسی قوم کے پاس مہمان بن کر جائے تو اس قوم پر اس کی مہمان نوازی لازم ہے۔ اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اپنی مہمان نوازی کے برابر ان سے (مال) لینے کا اسے حق ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، اَحمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
160/ 33. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَهَ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : يَحْسَبُ أَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی أَرِيْکَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هٰذَا الْقُرْآنِ أَلَا، وَإِنِّي وَﷲِ، قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَائَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَکْثَرُ…الحديث.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارة والفي، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3/ 170، الرقم: 3050، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 184، الرقم: 7226، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 204، الرقم: 18505، والمروزي في السنة، 1/ 111، الرقم: 405.
’’حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ خبردار ہو جاؤ، خداکی قسم! میں نے نصیحت، امر یا نہی بیان کرتے ہوئے جو بھی کہا ان (سب کی شرعی حیثیت) بھی قرآن کریم کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ہے ..... الحدیث۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
161/ 34. عَنْ عَمَارَهَ بْنِ خُزَيْمَهَ أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ فَأَسْرَعَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ الْمَشْيَ وأَبْطَأَ الْاَعْرَابِيُّ فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُوْنَ الْاَعْرَابِيَّ فَيُسَاوِمُوْنَهُ بِالْفَرَسِ وَلاَ يَشْعُرُوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ابْتَاعَهُ فَنَادَی الْاَعْرَابيُّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: إِنْ کُنْتَ مُبْتَاعًا هٰذَا الْفَرَسَ وَإِلاَّ بِعْتُهُ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ حِيْنَ سَمِعَ نِدَائَ الْاَعْرَابِيِّ فَقَالَ: أَوْ لَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْکَ؟ فَقَالَ الْاَعْرَابِيُّ: لاَ، وَﷲِ، مَا بِعْتُکَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : بَلٰی، قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْکَ فَطَفِقَ الْاَعْرَابِيُّ يَقُوْلُ: هَلُمَّ شَهِيْدًا فَقَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَيَعْتَهُ فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلٰی خُزَيْمَهَ فَقَالَ: بِمَ تَشْهَدُ؟ فَقَالَ: بِتَصْدِيْقِکَ يَا رَسُوْلَ ﷲِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ شَهَادَهَ خُزَيْمَهَ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ.
رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ بِاتِّفَاقِ الشَّيْخَيْنِ ثِقَاتٌ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأقضية، باب إذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد يجوز أن يحکم به، 3/ 308، الرقم: 3607، والنسائي في السنن، کتاب البيوع، باب التسھيل في ترک الإشھاد علی البيع، 7/ 301، الرقم: 4647، وأيضًا في السنن الکبری، 4/ 48، الرقم: 6243، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 215، الرقم: 21933، وعبد الرزاق في المصنف، 8/ 366، الرقم: 15565، وابن أبي شيبة في المصنف، 4/ 538، الرقم: 22933، والحاکم في المستدرک، 2/ 21، الرقم: 2187، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 146، والطبراني في المعجم الکبير، 22/ 379، الرقم: 946، والبيھقي في السنن الکبری، 7/ 66، الرقم: 13182.
’’حضرت عمارہ بن خزیمہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے چچا نے انہیں بتایا جو کہ رسول الله ﷺ کے صحابہ میں سے تھے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے کسی اعرابی سے گھوڑا خریدا اور آپ ﷺ اسے ساتھ لے کے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت اسے ادا کردی جائے،آپ ﷺ نسبتاً تیزی سے چل رہے تھے اور اعرابی آہستہ آہستہ (چلتا ہوا تھوڑا پیچھے رہ گیا) تو اعرابی کو چند لوگ ملے جو اس سے گھوڑے کا سودا کرنے لگے اور انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ ﷺ اس کا سودا کر چکے ہیں۔ چنانچہ اعرابی نے (زیادہ دام لینے کی لالچ میں) حضور ﷺ کو آواز دیتے ہوئے کہا: آپ اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے ہیں تو خرید لیں ورنہ میں اسے فروخت کرتا ہوں تو اعرابی کی یہ آواز سن کر حضور ﷺ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا میں نے اسے تم سے خرید نہیں لیا ہے؟ اعرابی نے کہا: خدا کی قسم! میں نے تو اسے آپ کے ہاتھوں فروخت نہیں کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں، میں نے تو اسے تم سے خرید لیا ہے۔ اعرابی نے کہنا شروع کر دیا: اچھا تو گواہ لے آئیے۔(اتنی دیر میں وہاں لوگ بھی جمع ہو گئے جن میں حضرت خزیمہص بھی شامل تھے) تو حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (یا رسول الله!) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے یہ گھوڑا خرید لیاہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: تم کس بنیاد پر گواہی دیتے ہو، انہوں نے عرض کیا: یا رسول الله! آپ کو سچا جانتے ہوئے (کہ آپ ﷺ ہی نے تو ہمیں راہِ خدا بھی دکھائی۔) تو حضور ﷺ نے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، اَحمد، عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اوراس کے رجال بخاری و مسلم کے متفقہ ثقہ راوی ہیں۔
162/ 35. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَهَ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا نَزَلَ الْحَرَّهَ وَمَعَهُ هْلُهُ وَوَلَدُهُ فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ نَاقَةً لِي ضَلَّتْ فَإِنْ وَجَدْتَهَا فَأَمْسِکْهَا فَوَجَدَهَا فَلَمْ يَجِدْ صَاحِبَهَا فَمَرِضَتْ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: انْحَرْهَا فَأَبٰی فَنَفَقَتْ فَقَالَتْ: اسْلُخْهَا حَتّٰی نُقَدِّدَ شَحْمَهَا وَلَحْمَهَا وَنَأْکُلَهُ فَقَالَ: حَتّٰی أَسْأَلَ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ فَأَتَهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَکَ غِنًی يُغْنِيْکَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَکُلُوْهَا قَالَ: فَجَاءَ صَاحِبُهَا فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: هَـلَّا کُنْتَ نَحَرْتَهَا قَالَ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْکَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
اخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأطعمة، باب في المضطر إلی الميتة، 3/ 358، الرقم: 3816، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 104، الرقم: 21031، والطيالسي في المسند، 1/ 105، الرقم: 776، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 356، الرقم: 19419، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 16.
163/ 36. وفي رواية عنه: وَأَتٰی رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ وَذَکَرَ لَهُ فَقَالَ: أَعِنْدَکُمْ مَا يُغْنِيْکُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَکُلُوْهَا وَکَانَتْ قَدْ مَاتَتْ قَالَ: فَأَکَلْنَا مِنْ وَدَکِهَا وَلَحْمِهَا وَشَحْمِهَا نَحْوًا مِنْ عِشْرِيْنَ يَوْمًا.
رَوَاهُ الطَّيَالِسِيُّ.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ حرہ کے مقام پر ٹھہرا۔ (وہاں) اسے ایک شخص (ملا) اور کہا کہ میری اونٹنی گم ہو گئی ہے، اگر تمہیں ملے تو اسے پکڑ لینا۔ پھر (ایک دن) اسے اونٹنی مل گئی لیکن اس کا مالک نہ ملا، وہ اونٹنی بیمار پڑ گئی۔ اس کی بیوی نے اسے کہا کہ اسے ذبح کر لوـ۔ اس نے انکار کر دیا اور اسی طرح وہ اونٹنی مر گئی۔ عورت نے کہا کہ اس کی کھال اتار دو تاکہ ہم اس کی چربی اور گوشت کو پکا کر کھا لیں۔ اس نے کہا کہ جب تک میں حضور نبی اکرم ﷺ سے اجازت نہ لے لوں (یہ کام نہیں کروں گا کیونکہ مردار حرام ہے) پھر وہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس بارے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ گزارے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول الله!) (کچھ) نہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو (تمہیں خصوصی اجازت ہے) تم اسے کھا لو۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس کا مالک آ گیا تو اس شخص نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ مالک نے کہا: تم نے اسے ذبح کیوں نہ کر لیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے تم سے حیا آتی تھی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، اَحمد، طیالسی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ وہ شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تمہیں اس (مردار گوشت) سے بے نیاز کر دے؟ اس نے عرض کیا: نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اسے کھا لو حالانکہ وہ مر چکی تھی؟ وہ شخص بیان کرتا ہے کہ پھر ہم نے تقریباً بیس دن اس کے گوشت اور چربی میں سے کھایا۔‘‘
اس حدیث کو امام طیالسی نے روایت کیا ہے۔
164/ 37. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَهَ رضی الله عنه قَالَ: مَاتَتْ نَاقَةٌ لِأُنَاسٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ أَوْ غَيْرِهِمْ مِنَ الْحَيِّ وَکَانُوْا هْلُ بَيْتٍ مُحْتَاجِيْنَ فَسَأَلُوا النَّبِيَّ ﷺ عَنْ أًکْلِهَا فَرَخَّصَ لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَکْلِهَا فَکَفَتْهُمْ شَتْوَتَهُمْ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَيْهَقِيُّ.
165/ 38. وفي رواية: عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: مَاتَتْ نَاقَةٌ بِالْحَرَّةِ إِلٰی جَنْبِهَا هْلُ بَيْتٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ مُحْتَاجُوْنَ فَرَخَّصَ لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَکْلِهَا فَکَانُوْا يَأْکُلُوْنَ مِنْهَا شِتَائَهُمْ فَأَذَابُوْهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
اخرجه أبو يعلی في المسند، 13/ 446، الرقم: 7448، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 228، الرقم: 1946، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 356، الرقم: 19418، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 2/ 112، الرقم: 1336.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو سلیم یا اس کے علاوہ کسی اور قبیلہ کی اونٹنی مر گئی اور وہ لوگ (جن کی اونٹنی مر گئی تھی) بہت زیادہ محتاج لوگ تھے، تو انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اس (مردار اونٹنی) کا گوشت کھانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے انہیں اس کا گوشت کھانے کی خصوصی اجازت عنایت فرما دی۔ وہ لوگ سردی کے اس سارے موسم میں اس (مردہ اونٹنی کا) گوشت کھاتے رہے (یہاں تک کہ) اسے ختم کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حرہ کے مقام پر ایک اونٹنی مر گئی، اس کے قریب ہی بنو سلیم قبیلہ کے ایک گھر والے تھے وہ لوگ بہت زیادہ محتاج تھے، تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس (مردار اونٹنی) کا گوشت کھانے کی خصوصی اجازت عطا فرما دی، پس وہ سردیوں کا تمام موسم اسے کھاتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اسے ختم کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
166/ 39. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : مَا أَلْقَی الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَکُلُوْهُ وَمَا مَاتَ فِيْهِ وَطَفَا فَـلَا تَأْکُلُوْهُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارَ قُطْنِيُّ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الطافي من السمک، 3/ 358، الرقم: 3815، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيد، باب الطافي من صيد البحر،2/ 1081، الرقم: 3247، والدار قطني في السنن، 4/ 268.269، الرقم: 8.10، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 255، الرقم: 18767.18769، وابن عبد البر في الاستذکار، 5/ 285.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس (سمندری جانور) کو سمندر (باہر) پھینک دے یا جو کنارے پر پڑا ہو تو اسے کھا لیا کرو اور جو اس کے اندر ہی مر جائے اور خراب ہو جائے تو اسے مت کھایا کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔
167/ 40. عَنْ عَبْدِ ﷲِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: احِلَّتْ لَکُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ فَاَمَّا الْمَيْتَتَانِ فَالْحُوْتُ وَالْجَرَادُ. وَاَمَّا الدَّمَانِ فَالْکَبِدُ وَالطِّحَالُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَاَحْمَدُ وَالشَّافِعِيُّ. وَقَالَ الْبَيْهَقِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ.
اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الاطعمة، باب الکبد والطحال، 2/ 1102، الرقم: 3314، والشافعي في المسند / 340، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 97، الرقم: 5723، والربيع في المسند، 1/ 243، الرقم: 618، والبيهقي في السنن الکبری، 1/ 254، الرقم: 1128، 9/ 257، الرقم: 18776، وأيضًا، 10/ 7، الرقم: 19481، وأيضًا في شعب الإيمان، 5/ 21، الرقم: 5627، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 8.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردیے گئے ہیں۔ وہ دو مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں، اور رہے دو خون تو وہ کلیجی اور تلی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، اَحمد اور شافعی نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے فرمایا: یہ اسناد صحیح ہے۔
168/ 41. عَنْ خُزَيْمَهَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ: جَعَلَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ لِلْمُسَافِرِ ثَـلَاثًا وَلَوْ مَضَی السَّائِلُ عَلٰی مَسْاَلَتِهِ لَجَعَلَهَا خَمْسًا.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَاَحْمَدُ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.
اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب ما جاء في التوقيت في المسح للمقيم والمسافر، 1/ 184، الرقم: 553، واحمد بن حنبل في المسند، 5/ 214. 215، الرقم: 21920،21931، وابن حبان في الصحيح، 4/ 158، الرقم: 1329، وابن ابي شيبة في المصنف، 1/ 162، الرقم: 1864، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 203، الرقم:790، وأيضًا في الامالي في آثار الصحابة، 1/ 71، الرقم: 93، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 92، الرقم: 3750، والبيهقي في السنن الکبری، 1/ 277، الرقم: 1234، والنيسابوري في الاوسط، 1/ 438، الرقم: 463، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 1/ 161، الرقم: 219.
’’حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسافر کے لیے (موزوں پر مسح کی مدت کے لیے) تین روز مقرر فرمائے ہیں، اور اگر سائل درخواست کرتا رہتا تو شاید آپ ﷺ پانچ روز مقرر فرما دیتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، اَحمد، ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
169/ 42. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: رَيْتُ عَلَی الْبَرَاءِ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ وَکَانَ النَّاسُ يَقُوْلُوْنَ لَهُ: لِمَ تَخَتَّمُ بِالذَّهَبِ وَقَدْ نَهٰی عَنْهُ النَّبِيُّ ﷺ ؟ فَقَالَ الْبَرَائُ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ وَبَيْنَ يَدَيْهِ غَنِيْمَةٌ يَقْسِمُهَا سَبْيٌ وَخُرْثِيٌّ قَالَ: فَقَسَمَهَا حَتّٰی بَقِيَ هٰذَا الْخَاتَمُ فَرَفَعَ طَرْفَهُ فَنَظَرَ إِلٰی اَصْحَابِهِ ثُمَّ خَفَّضَ ثُمَّ رَفَعَ طَرْفَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ: اَي بَرَائُ، فَجِئْتُهُ حَتّٰی قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاَخَذَ الْخَاتَمَ فَقَبَضَ عَلٰی کُرْسُوْعِي ثُمَّ قَالَ: خُذِ الْبَسْ مَا کَسَاکَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ، قَالَ: وَکَانَ الْبَرَاءُ يَقُوْلُ:کَيْفَ تَاْمُرُوْنِي اَنْ اَضَعَ مَا قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : الْبَسْ مَا کَسَاکَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَاَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَالطَّحَاوِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 4/ 294، الرقم: 18625، وابن ابي شيبة في المصنف مختصرًا، 5/ 195، الرقم: 25151، وابو يعلی في المسند، 3/ 259، الرقم: 1708، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 259، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 9/ 375، الرقم: 695، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5/ 151، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 3/ 196، والعيني في عمدة القاري، 8/ 11.
’’حضرت محمد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی اور لوگ آپ کو کہتے تھے کہ آپ سونے کی انگوٹھی کیوں پہنتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے؟ توحضرت براء نے فرمایا: ایک مرتبہ جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے اور آپ ﷺ کے سامنے مال غنیمت، قیدی عورتیں اور بچے اور گھر کا ساز و سامان پڑا ہوا تھا، تو آپ ﷺ نے اس مال غنیمت کو تقسیم فرما دیا یہاں تک یہ انگوٹھی بچ گئی، تو آپ ﷺ نے اپنی نگاہ مبارک بلند فرمائی اور اپنے صحابہ کو دیکھا اور پھر نگاہ نیچے کرلی، پھر نگاہ مبارک اٹھائی، اپنے صحابہ کو دیکھا اور پھر نیچے کرلی، پھر تیسری بار نگاہ بلند فرمائی اور ان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا: اے براء! تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی لی اور میری انگلی پکڑی اور فرمایا: یہ لو، اسے پہن لو جو تجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے پہنائی ہے۔ راوی بیان کرتے ہیںکہ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: تم مجھے کیسے اس انگوٹھی کے اتارنے کا حکم دیتے ہو جس کے بارے میں حضور ﷺ نے یہ فرمایا ہو کہ اسے پہن لو جو تجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے پہنائی ہے۔‘‘اس حدیث کو امام اَحمد، ابو یعلی، ابن ابی شیبہ اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں۔
170/ 43. عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ رضی الله عنه عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ اَنَّهُ اَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَاَسْلَمَ عَلٰی اَنَّهُ لَا يُصَلِّي إِلَّا صَـلَاتَيْنِ فَقَبِلَ ذَالِکَ مِنْهُ.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 5/ 24، 363، الرقم: 20302، 23129، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2/ 195، الرقم: 941، والعسقلاني في المطالب العالية، 9/ 537، الرقم: 2074، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 84، والشوکاني في نيل الاوطار، 8/ 12.
’’حضرت نصر بن عاصم رضی اللہ عنہ ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اَقدس میں حاضر ہوئے اور اس بات (کی خصوصی اِجازت ملنے) پر اسلام قبول کیا کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھیں گے تو آپ ﷺ نے (انہیں خصوصی رعایت دیتے ہوئے) ان کی یہ شرط قبول فرما لی۔‘‘
اس حدیث کو امام اَحمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved