75/ 1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ غَزْوَةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَأَدْرَکَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي وَادٍ کَثِيْرِ الْعِضَهِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَعَلَّقَ سَيْفَهُ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، قَالَ: وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْوَادِي يَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ رَجُـلًا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَأَخَذَ السَّيْفَ، فَاسْتَيْقَظْتُ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلٰی رَأْسِي، فَلَمْ أَشْعُرْ، إِلَّا وَالسَّيْفُ صَلْتًا فِي يَدِهِ، فَقَالَ لِي: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: قُلْتُ: الله، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّانِيَةِ: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: قُلْتُ: الله. قَالَ: فَشَامَ السَّيْفَ (1)، فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ، ثُمَّ لَمْ يَعْرِضْ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
(1)قال النووي: واما شامه فبالشين المعجمة ومعناه غمده ورده في غمده، يقال: شام السيف إذا سله وإذا اغمده فهو من الاضداد والمراد هنا اغمده. (شرح النووي علی صحيح مسلم، 15:45)
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب من علق سيفه بالشجر في السفر عند القائلة، 3/ 1065.1066، الرقم: 2753.2756، وايضًا في کتاب المغازي، باب غزوة ذات الرقاع، 4/ 515، الرقم: 3905، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب توکله علی الله تعالی وعصمة الله تعالی له من الناس، 4/ 1786، الرقم: 843، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 311، الرقم: 14374، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 236،267، الرقم: 8772، 8852، والطبراني في مسند الشاميين، 3/ 66، الرقم: 1815، والبيهقي في السنن الکبری، 6/ 319، الرقم: 12613، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 15:45.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ نجد کی جانب سفرِ جہاد کیا (بیان کرتے ہیں کہ) پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں (اپنے ساتھ) ایک کانٹے دار درختوں والی بڑی وادی میں پایا۔ حضورنبی اکرم ﷺ ایک درخت کے نیچے جلوہ افروز ہوئے اور اپنی تلوار اس درخت کے ساتھ لٹکا دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ دیگر حضرات درختوں کے سائے میں ادھر اُدھر بکھر گئے۔ (اور آرام کرنے لگے) راوی بیان کرتے ہیں کہ (پھر جب ہم سب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو) حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب میں سو رہا تھا تو میرے پاس ایک شخص آیا، اور میری تلوار پکڑ لی، پس میں بیدار ہو گیا، (اور دیکھا کہ) وہ شخص میرے سر پر کھڑا تھا، پس میں نے دیکھا کہ سونتی ہوئی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: (اے محمد!) اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے جواب دیا: اللہ! پھر اس نے دوسری مرتبہ کہا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: الله! تو اُس نے تلوار نیام میں ڈال لی، پس وہ شخص یہ بیٹھا ہے پھر آپ ﷺ نے اُس سے کوئی باز پرس نہ کی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
76/ 2. عَنْ جَابِرٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: اَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ، قَالَ: کُنَّا إِذَا اَتَيْنَا عَلٰی شَجَرَةٍ ظَلِيْلَةٍ تَرَکْنَهَا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ . قَالَ: فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ، وَسَيْفُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُعَلَّقٌ بِشَجَرَةٍ فَاَخَذَ سَيْفَ نَبِيِّ اللهِ ﷺ ، فَاخْتَرَطَهُ، فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : اَتَخَافُنِي؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: الله يَمْنَعُنِي مِنْکَ. قَالَ: فَتَهَدَّدَهُ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَاَغْمَدَ السَّيْفَ وَعَلَّقَهُ…الحديث.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة ذات الرقاع، 4/ 1515، الرقم: 3906، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الخوف، 1/ 576، الرقم: 843، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 364، الرقم: 14970، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 196، الرقم: 146، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2/ 61، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 259، الرقم: 5829.
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ذات الرقاع کے مقام پر گئے، اور آپ ﷺ کو ایک سایہ دار درخت کے نیچے ٹھہرایا، آپ ﷺ کی تلوار درخت کے اوپر لٹکی ہوئی تھی، مشرکین میں سے ایک شخص آیا، اس نے آپ ﷺ کی تلوار اٹھا کر سونت لی، اور آپ ﷺ سے کہا کہ کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! اس نے کہا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے تم سے (میرا) اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب نے اس کو دھمکایا، اس نے تلوار میان میں ڈال کر اسے (اسی جگہ پر) لٹکا دیا (جہاں وہ لٹکی ہوئی تھی)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
77/ 3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ اَبُوْ جَهْلٍ: لَئِنْ رَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْکَعْبَةِ لَاَطَاَنَّ عَلٰی عُنُقِهِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: لَوْ فَعَلَهُ لَاَخَذَتْهُ الْمَـلَائِکَةُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب کلّا لئن لم ينته لنسفعا بالناصية، 4/ 1896، الرقم: 4675، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة اقرأ باسم ربک، 5/ 443، الرقم: 3848، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 368، الرقم: 3483.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: ایک دفعہ ابو جہل نے کہا: اگر میں محمد مصطفی ( ﷺ ) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں، تو (معاذ الله) اُن کی گردن کچل کر رکھ دوں گا۔ پس حضورنبی اکرم ﷺ وہاں تشریف لے آئے اور فرمایا: اگر اس نے ایسا کیا تو فرشتے اُسے پکڑ لیں گے۔‘‘
اِسے امام بخاری، ترمذی اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
78/ 4. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ اَبُوْ جَهْلٍ: هَلْ يُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ ( ﷺ ) وَجْهَهُ بَيْنَ اَظْهُرِکُمْ؟ قَالَ: فَقِيْلَ: نَعَمْ، فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی، لَئِنْ رَيْتُهُ يَفْعَلُ ذَالِکَ لَاَطَاَنَّ عَلٰی رَقَبَتِهِ، اَوْ لَاعَفِّرَنَّ وَجْهَهُ فِي التُّرَابِ، قَالَ: فَاَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ . وَهُوَ يُصَلِّي. زَعَمَ لِيَطَاَ عَلٰی رَقَبَتِهِ، قَالَ: فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ يَنْکُصُ عَلٰی عَقِبَيْهِ وَيَتَّقِي بِيَدَيْهِ، قَالَ: فَقِيْلَ لَهُ: مَا لَکَ؟ فَقَالَ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَاَجْنِحَةً، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَـلَائِکَةُ عُضْوًا عُضْوًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب قوله: إن الإنسان ليطغی ان رآه استغنی، 4/ 2154، الرقم: 2797، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 518، الرقم: 11683، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 370، الرقم: 8817، وابن حبان في الصحيح، 14/ 532.533، الرقم: 6571، وابو يعلی في المسند، 11/ 70، الرقم: 6207.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا کہ کیا (حضرت) محمد ( ﷺ ) (سجدے میں) تمہارے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں (یعنی تم سب کے سامنے اپنے معبودِ واحد کی عبادت کرتے ہیں؟) کہا گیا: ہاں! اس نے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم! اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو میں (العیاذ بالله) ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرے کو مٹی میں ملاؤں گا۔ پھر جس وقت حضور نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، وہ آپ ﷺ کے پاس گیا، اور آپ ﷺ کی گردن روندنے کا ارادہ کیا، وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک اُلٹے پاؤں یوں پلٹا جیسے اپنے ہاتھوں سے کسی چیز سے بچ رہا ہو۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق تھی، خوفناک صورتیں اور بڑے بڑے بازو تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو نوچ لیتے۔‘‘
اِسے امام مسلم، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
79/ 5. عَنْ عَائِشَهَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَحْرُسُ حَتّٰی نَزَلَتْ هٰذِهِ اليَةُ: {وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ} ]المائدة، 5: 67[، فَأَخْرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَأْسَهُ مِنَ الْقُبَّةِ، فَقَالَ لَهُمْ: يَا يُهَا النَّاسُ: انْصَرِفُوْا فَقَدْ عَصَمَنِيَ الله. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5/ 251، الرقم: 3046، والحاکم في المستدرک، 2/ 342، الرقم: 3221، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 8، الرقم: 17508، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 762، الرقم: 1417، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 206، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 82.
’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کی جاتی تھی یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ’’اور الله (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘ اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے خیمہ مبارک سے سر اقدس باہر نکالا اور فرمایا: لوگو! میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ خود لے لیا ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام عسقلانی نے بھی فرمایا: اِس کی اِسناد حسن ہے۔
80/ 6. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ يَهُوْدِيَةً مِنْ هْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَةً مَصْلِيَةً، ثُمَّ هْدَتْهَا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الذِّرَاعَ فَأَکَلَ مِنْهَا، وَأَکَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اِرْفَعُوْا يْدِيَکُمْ، وَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الْيَهُوْدِيَةِ، فَدَعَهَا، فَقَالَ لَهَا: أَسَمَمْتِ هٰذِهِ الشَّهَ؟ قَالَتِ الْيَهُوْدِيَةُ: مَنْ أَخْبَرَکَ؟ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي هٰذِهِ فِي يَدِي لِلذِّرَاعِ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَمَا اَرَدْتِ إِلٰی ذَالِکَ؟ قَالَتْ: إِنْ کَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَکُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا…الحديث.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الديات، باب فيمن سقی رجلاً سمًا أو أطعمه فمات أيقاظ منه، 4/ 17، الرقم: 4510، والدارمي في السنن، 1/ 46، الرقم: 68، والبيھقي في السنن الکبری، 8/ 46، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 1/ 72، وابن حزم في المحلی، 11/ 26، والعظيم آبادي في عون المعبود، 12/ 148.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اہلِ خیبر میں سے ایک یہودی عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا، پھر وہ (زہر آلود گوشت) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا۔ آپ ﷺ نے اس گوشت سے ران لی اور اس سے کھانے لگے اور بعض صحابہ کرام بھی ساتھ ہی کھانے لگے۔ اچانک حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو اور آپ ﷺ نے اس عورت کی طرف ایک آدمی بھیج دیا جو اُسے بلا کر لایا۔ آپ ﷺ نے اُس سے پوچھا: کیا تم نے اِس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودی عورت نے کہا: آپ کو کس نے بتایا ہے؟ فرمایا: مجھے اس دستی (بکری کی ران) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ عورت نے کہا: ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے کہا: (میں نے سوچا) اگر آپ نبی ہیں تو زہر ہرگز آپ کو کوئی نقصان نہیں دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔آپ ﷺ نے اسے معاف فرمادیا اور کوئی سزا نہیں دی۔‘‘
اِسے امام ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
81/ 7. عَنْ أَبِي إِسْرَائِيْلَ قَالَ: سَمِعْتُ جَعْدَهَ رَجُـلًا مِنْ بَنِي جُشَمِ بْنِ مُعَاوِيَهَ يَقُوْلُ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ جِيئَ إِلَيْهِ بِرَجُلٍ، فَقَالُوْا: إِنَّ هٰذَا أَرَادَ أَنْ يَقْتُلَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُوْلُ: لَمْ تُرَعْ، لَمْ تُرَعْ، لَوْ أَرَدْتَ ذَالِکَ لَمْ يُسَلِّطْکَ الله عَلَيْهِ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
7: أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6/ 263، الرقم: 10903، وايضًا في عمل اليوم والليلة/ 576، الرقم: 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 471، الرقم: 15908، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 284، الرقم: 2183، والطيالسي في المسند، 1/ 172، الرقم: 1236، وابن الجعد في المسند، 1/ 91، الرقم: 527، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 194، الرقم: 143، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 227.
’’حضرت ابو اسرائیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے جعدہ یعنی قبیلہ بنو جشم بن معاویہ کے ایک فرد کو کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا اور صحابہ کرام ث نے عرض کیا: (یا رسول الله!) بے شک اس آدمی نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ ﷺ (اسے) فرمانے لگے: ڈرنے یا خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر تو نے ایسا ارادہ کیا بھی تھا تو پھر بھی الله تعالیٰ تجھے مجھ پر کبھی تسلط و غلبہ نہ دیتا۔‘‘
اِسے امام نسائی، اَحمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
82/ 8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: إِنَّ الْمَـلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ اجْتَمَعُوْا فِي الْحِجْرِ، فَتَعَاقَدُوْا بِالـلَّاتِ وَالْعُزَّی وَمَنَهَ الثَّالِثَهَ الاخْرَی وَنَائِلَهَ وَإِسَافٍ لَوْ قَدْ رَيْنَا مُحَمَّدًا لَقَدْ قُمْنَا إِلَيْهِ قِيَامَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَلَمْ نُفَارِقْهُ حَتّٰی نَقْتُلَهُ فَأَقْبَلَتِ ابْنَتُهُ فَاطِمَةُ رضي الله عنها تَبْکِي، حَتّٰی دَخَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: هٰـؤُلَائِ الْمَـلَأُ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ تَعَاقَدُوْا عَلَيْکَ، لَوْ قَدْ رَأَوْکَ لَقَدْ قَامُوْا إِلَيْکَ فَقَتَلُوْکَ، فَلَيْسَ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا قَدْ عَرَفَ نَصِيْبَهُ مِنْ دَمِکَ فَقَالَ: يَا بُنَيَةُ، أَرِيْنِي وَضُوْئً ا، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِمُ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوْا: هَا هُوَ ذَا وَخَفَضُوْا أَبْصَارَهُمْ، وَسَقَطَتْ أَذْقَانُهُمْ فِي صُدُوْرِهِمْ وَعَقِرُوْا فِي مَجَالِسِهِمْ، فَلَمْ يَرْفَعُوْا إِلَيْهِ بَصَرًا، وَلَمْ يَقُمْ إِلَيْهِ مِنْهُمْ رَجُلٌ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَئُوْسِهِمْ، فَأَخَذَ قَبْضَةً مِنَ التُّرَابِ فَقَالَ: شَهَتِ الْوُجُوْهُ، ثُمَّ حَصَبَهُمْ بِهَا، فَمَا أَصَابَ رَجُـلًا مِنْهُمْ مِنْ ذَالِکَ الْحَصَی حَصَهٌ إِلَّا قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ کَافِرًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ قَدِ احْتَجَّا جَمِيْعًا. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادَيْنِ وَرِجَالُ أَحَدِهِمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 303، الرقم: 2762، وابن حبان في الصحيح، 14/ 430، الرقم: 6502، والحاکم في المستدرک، 1/ 268، الرقم: 583، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 192، الرقم: 139، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10/ 218.220، الرقم:230، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 65، الرقم: 48، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 228.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ سردارانِ قریش کا ایک گروہ خانہ کعبہ کے شمالی گوشہ میں جمع ہوا جو کہ حطیم کعبہ میں داخل ہے اور انہوں نے لات، عزی، منات ثالثہ، نائلہ اور اساف بتوں کی قسمیں کھا کر معاہدہ کیا کہ اگر ہم نے محمد ( ﷺ ) کو دیکھا تو ہم فرد واحد کی طرح ہو جائیں گے اور اُنہیں اُس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک اُنہیں قتل نہ کر لیں۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ کی لختِ جگر (سیدہ فاطمہ سلام الله علیہا یہ سن کر) روتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: (یا رسول الله!) سردارانِ قریش نے آپس میں پختہ عہد کر لیا ہے کہ وہ جب بھی آپ کو دیکھیں گے آپ کو قتل کر دیں گے تاکہ ان میں سے کوئی بھی ایک شخص پر آپ کے خون کا دعوی نہ ہو سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے میری بیٹی! میرے لیے پانی کا لوٹا لاؤ۔ پھر آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور ان کافروں کے سامنے مسجد میں داخل ہوئے۔ پس جب اُنہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے: یہ رہے وہ (یہ کہہ کر) اُنہوں نے اپنی نگاہیں پست کر لیں اور ان کے ارادے ان کے سینوں میں ہی دفن ہو گئے اور وہ اپنی اپنی جگہوں پر حیران و ششدر بیٹھے رہے۔ پس اُنہوں نے آپ ﷺ کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور نہ ہی اُن میں سے کوئی شخص آپ ﷺ کی طرف بڑھا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ خود آگے بڑھے یہاں تک کہ آپ ﷺ اُن کے سروں پر آ کر کھڑے ہو گئے اور مٹھی بھر مٹی اُٹھائی اور فرمایا: ان کے چہرے برے ہوں، پھر اُن کی طرف وہ کنکریاں ماریں، پس اُن میں جس آدمی کو اُن کنکریوں میں سے کوئی کنکری لگی وہ بدر کے دن حالتِ کفر میں قتل ہوا۔‘‘
اِسے امام احمد، ابن حبان، حاکم اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے تمام محدثین نے حجت پکڑی ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کو امام احمد نے دو اسناد سے روایت کیا ہے اور ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
83/ 9. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَاتَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مُحَارِبَ بْنَ خَصَفَهَ بِنَحْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ غِرَّةً، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ، حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَأْسِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: الله ل، فَسَقَطَ السَّيْفُ مِنْ يَدِهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: کُنْ کَخَيْرِ آخِذٍ قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ الله؟ قَالَ: لَا، وَلٰـکِنِّي أُعَهِدُکَ أَنْ لَا أُقَاتِلَکَ وَلَا أَکُوْنَ مَعَ قَوْمٍ يُقَاتِلُوْنَکَ، فَخَلّٰی سَبِيْلَهُ. قَالَ: فَذَهَبَ إِلٰی أَصْحَابِهِ قَالَ: قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ…الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلٰی. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 390، الرقم: 15227، وابن حبان نحوه في الصحيح، 7/ 136، الرقم: 2882، والحاکم في المستدرک، 3/ 31، الرقم: 4322، وأبو يعلی فيالمسند، 3/ 312، الرقم: 1778، وعبد بن حميد فيالمسند، 1/ 330، الرقم: 1096، والهيثمي فيمجمع الزوائد، 9/ 8.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے محارب بن خصفہ (کے قبیلہ کے) ساتھ مقامِ نحل پرجہاد کیا، تو انہوں نے مسلمانوں کی طرف سے غفلت اور ناتجربہ کاری محسوس کی۔ سو اُن میں سے ایک آدمی جس کا نام غورث بن حارث تھا، چپکے سے آیا اور حضورنبی اکرم ﷺ کے سرِ انور کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ل (یہ سنتے ہی) اُس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ جسے آپ ﷺ نے تھام لیا اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اب بتا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا: آپ عمدہ طریقے سے میرا مواخذہ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا: نہیں، مگر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے خلاف جنگ نہیں کروں گا اور نہ میں ان لوگوں کا ساتھ دوں گا، جو آپ کے ساتھ جنگ کریں گے۔ تو آپ ﷺ نے اسے جانے دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ بندہ اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا اور کہا: بے شک میں تمہارے پاس لوگوں میں سے سب سے بہترین شخص کے پاس سے آیا ہوں۔‘‘
اِسے امام احمد، ابن حبان، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
84/ 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضي الله عنهما قَالَ: لَمَّا أَنْزَلَ الله ل: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّتَبَّ} [اللهب، 111: 1]، جَائَتِ امْرَةُ أَبِي لَهَبٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ، فَلَمَّا رَهَا أَبُوْ بَکْرٍ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهَا امْرَهٌ بَذِيْئَهٌ وَأَخَافُ أَنْ تُؤْذِيَکَ، فَلَوْ قُمْتَ قَالَ: إِنَّهَا لَنْ تَرَانِي، فَجَائَتْ فَقَالَتْ: يَا أَبَا بَکْرٍ إِنَّ صَاحِبَکَ هَجَانِي. قَالَ: لَا، وَمَا يَقُوْلُ الشِّعْرَ. قَالَتْ: أَنْتَ عِنْدِي مُصَدَّقٌ وَانْصَرَفَتْ. فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ تَرَکَ؟ قَالَ: لَا، لَمْ يَزَلْ مَلَکٌ يَسْتُرُنِي عَنْهَا بِجَنَاحِهِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14/ 400، الرقم: 6511، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 323، الرقم: 31768، والبزار في المسند، 1/ 68، الرقم: 15، 1/ 213، الرقم: 2، وأبو يعلی في المسند، 1/ 33، الرقم: 25، 4/ 246، الرقم: 2358، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10/ 279، الرقم: 292، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 194، الرقم: 140.141، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 144، وقال البزار: إنه حسن الإسناد، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 738.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ: ’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔)‘‘ نازل فرمائی تو ابو لہب کی بیوی آپ ﷺ کے پاس آئی درآں حالیکہ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ پس جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُسے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ منہ پھٹ عورت ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہ (کچھ برا بھلا کہہ کر) آپ کو اذیت پہنچائے گی۔ لہٰذا اگر آپ یہاں سے تشریف لے جائیں (تو بہتر ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (ابو بکر!) یہ مجھے دیکھ ہی نہیں سکے گی۔ پس وہ عورت آئی اور کہنے لگی: اے ابو بکر! تمہارے صاحب (حضور نبی اکرم ﷺ ) نے میری مذمت کی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نہیں وہ شعر نہیں کہتے۔ اُس نے کہا: آپ میرے نزدیک سچے ہیں (یہ کہہ کر) وہ واپس چلی گئی۔ تو (حضرت ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں کے ساتھ اُس سے چھپائے رکھا تھا۔‘‘
اِسے امام ابن حبان، ابن ابی شیبہ، بزار، ابو یعلی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ اور اِس کی سند صحیح ہے۔
85/ 11. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله تعالیٰ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ سَاجِدًا بِمَکَّهَ فَجَائَ إِبْلِيْسُ، فَأَرَادَ أَنْ يَطَأَ عَلٰی عُنُقِهِ، فَنَفَحَهُ جِبْرِيْلُ عليه السلام نَفْحَةً بِجَنَاحِهِ، فَمَا اسْتَوَتْ قَدَمَهُ عَلَی الْاَرْضِ، حَتّٰی بَلَغَ الْارْدَنَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 176، الرقم: 2847، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 190، الرقم: 136، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 229.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں سجدہ ریز تھے کہ شیطان ابلیس وہاں آیا اور آپ ﷺ کی گردن مبارک کو روندنا چاہا۔ پس جبرائیل امین علیہ السلام نے اپنے پر کے ذریعے اُسے (اِس زور سے) دھکیلا کہ اُس کے دونوں پاؤں زمین پر قائم نہ رہ سکے یہاں تک کہ وہ سر زمینِ اُردن میں جا گرا۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
86/ 12. عَنْ شَيْبَهَ بْنِ عُثْمَانَ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: لَمَّا غَزَا النَّبِيُّ ﷺ حُنَيْنًا، تَذَکَّرْتُ أَبِي وَعَمِّي، قَتَلَهُمَا عَلِيٌّ وَحَمْزَةُ، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أُدْرِکُ ثَأْرِي فِي مُحَمَّدٍ، فَجِئْتُ مِنْ خَلْفِهِ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، وَدَنَوْتُ، حَتّٰی لَمْ يَبْقَ إِلَّا أَنْ أُسَوِّرَهُ بِالسَّيْفِ، رُفِعَ لِي شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ، کَأَنَّهُ الْبَرْقَ، فَخِفْتُ أَنْ يَحْبَسَنِي، فَنَکَصْتُ الْقَهْقَرِيَّ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: يَا شَيْبَةُ، قَالَ: فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَدَهُ عَلٰی صَدْرِي، فَاسْتَخْرَجَ الله الشَّيْطَانَ مِنْ قَلْبِي، فَرَفَعْتُ إِلَيْهِ بَصَرِي، وَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمِنْ کَذَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7/ 298، الرقم: 7192، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 195، الرقم: 144، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 183، الرقم: 236، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 256.258، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/ 728.
’’حضرت شیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اپنے قبول اسلام کا واقعہ) بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے حنین کے مقام پر جہاد کیا تو مجھے اپنے والد اور چچا کی یاد آ گئی کہ انہیں حضرت علی اور حمزہ نے قتل کیا تھا۔ پس میں نے کہا: آج میں ضرور اپنا بدلہ محمد ( ﷺ ) سے لوں گا۔ پس میں آپ ﷺ کے پیچھے کی جانب سے آیا اور آپ ﷺ کے قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ میں تلوار کے ساتھ آپ ﷺ پر وار کرنے ہی والا تھا کہ میرے سامنے آگ کا ایک شعلہ بلند ہوا گویا وہ آسمانی بجلی ہو۔ پس میں ڈر گیا کہ مبادا وہ شعلہ مجھے اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ پس میں اُلٹے پاؤں (بھاگنے کے لیے) مڑا، اِس دوران حضور نبی اکرم ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے شیبہ! آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر رکھا اور (اُس کی برکت سے) میرے دل سے شیطان کو نکال دیا پھر جو میں نے آپ ﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو آپ ﷺ مجھے میری سماعت و بصارت اور ہر ہر چیز سے محبوب لگنے لگے۔‘‘
اِسے امام طبرانی، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
87/ 13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَهَ أَبْعَدَ الْمَشْيَ، فَانْطَلَقَ ذَاتَ يَوْمٍ لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَلَبِسَ أَحَدَ خُفَّيْهِ، فَجَائَ طَائِرٌ أَخْضَرُ، فَأَخَذَ الْخُفَّ الْآخَرَ، فَارْتَفَعَ بِهِ، ثُمَّ أَلْقَهُ فَخَرَجَ مِنْهُ أَسْوَدُ سَابِحٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : هٰذِهِ کَرَامَهٌ أَکْرَمَنِيَ الله بِهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلٰی بَطْنِهِ، وَمِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلٰی رِجْلَيْنِ، وَمِنْ شَرِّ مَنْ يَمْشِي عَلٰی أَرْبَعٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 121، الرقم: 9304، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 198، الرقم: 150، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 203.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو آبادی سے کافی دور تشریف لے جاتے۔ پس آپ ﷺ ایک دن قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے پھر وضو فرمایا اور اپنے دو موزوں میں سے ایک موزہ پہنا تھا کہ اچانک ایک سبز پرندہ آیا اور آپ ﷺ کا دوسرا موزہ لے اُڑا، پھر اُسے نیچے پھینکا تو اُس میں سے ایک سیاہ سانپ نکلا (اِس طرح اللهتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی اُس موذی جانور سے حفاظت فرمائی) آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ بزرگی و شرف ہے جس کے ذریعے الله تعالیٰ نے میری تکریم فرمائی ہے۔ پھر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے الله! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر اُس (موذی جانور) کے شر سے جو پیٹ کے بل چلتاہے اور ہر اُس کے شر سے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور اُس کے شر سے جو چار ٹانگوں پر چلتاہے۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
88/ 14. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: کَانَ الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِيْمَنْ يَحْرُسُهُ، فَلَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ اليَةُ: {يَا يُهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ الله لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِيْنَ} [المائدة، 5: 67]، تَرَکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْحَرْسَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ عَسَاکِرَ نَحْوَهُ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 21، الرقم: 3510، وأيضًا في المعجم الصغير، 1/ 255، الرقم: 418، وأبو يعلی عن ابن عباس نحوه في المعجم، 1/ 138، الرقم: 148، وابن عساکر نحوه في تاريخ مدينة دمشق، 65/ 324، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 17.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورنبی اکرم ﷺ کے چچا اُن لوگوں میں تھے جو آپ ﷺ کی حفاظت پر مامور تھے، پس جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کیا گیاہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (رب) کاپیغام پہنچایا ہی نہیں، اور الله (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا بے شک الله کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا۔‘‘ (اس آیت کے نزول کے بعد) آپ ﷺ نے اپنی حفاظت کا التزام کرنا ترک کردیا۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور ابو یعلی نے اور اِسی کی مثل ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
89/ 15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : يُحْرَسُ فَکَانَ يُرْسِلُ مَعَهُ عَمَّهُ أَبُوْ طَالِبٍ کُلَّ يَوْمٍ رِجَالًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ يَحْرُسُوْنَهُ حَتّٰی نَزَلَتْ هٰذِهِ اليَةُ: {يَا يُهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ} إلی قوله: {وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ} [المائدة، 5: 67]، فَأَرَادُ عَمُّهُ أَنْ يُرْسِلَ مَعَهُ مَنْ يَحْرُسُهُ، فَقَالَ: يَا عَمِّ، إِنَّ الله قَدْ عَصَمَنِي مِنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَدِيٍّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11/ 256، الرقم: 11663، وابن عدي في الکامل، 7/ 22، الرقم: 11663، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 66/ 324، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 17.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ کی حفاظت و نگرانی کی جاتی تھی جبکہ آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب روزانہ بنو ہاشم میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ کے ساتھ بھیجتے جو آپ ﷺ کی حفاظت کرتے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: ’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔۔۔ اور الله (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘ پھر آپ ﷺ کے چچا نے آپ ﷺ کے ساتھ اُن لوگوں کو بھیجنا چاہا جو آپ کی حفاظت کرتے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے میرے چچا! بے شک اللهتعالیٰ نے جن و انس سے میری حفاظت فرمادی ہے(اب حفاظتی دستے کی ضرورت نہیں ہے)۔‘‘
اِسے امام طبرانی، ابن عدی اورابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
90/ 16. عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغَفَّارِيِّ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَنَامُ إِلاَّ وَنَحْنُ حَوْلَهُ مِنْ مَخَافَةِ الْغَوَائِلِ، حَتّٰی نَزَلَتْ يَةُ الْعِصْمَةِ: {وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ} [المائدة، 5: 67].
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.
أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 198، الرقم: 151.
’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی حضورنبی اکرم ﷺ آرام فرما ہوتے، تو ہم فتنہ و فساد کے ڈر سے آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ ﷺ کے اردگرد موجود رہتے۔ یہاں تک کہ آیتِ عصمت نازل ہوئی: ’’اور الله (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved