1/ 1. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو ا اللهُ بِيَ الْکُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول الله ﷺ ، 3/ 1299، الرقم: 3339، وأيضًا في کتاب التفسير، باب تفسير سورة الصف، 4/ 1858، الرقم: 4614، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في اسمائه ﷺ ، 4/ 828، الرقم: 2354، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في اسماء النبي ﷺ ، 5/ 135، الرقم:2840، وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 489، الرقم:11590، ومالک في الموطأ، کتاب اسماء النبي ﷺ ، باب اسماء النبي ﷺ ، 2/ 1004، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، 84، والدارمي في السنن، 2/ 409، الرقم: 2775.
’’حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد اور اَحمد ہوں اور میں ماحی (یعنی مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں سب لوگ میری پیروی میں ہی (روزِ حشر) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب سے آخری نبی) ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2/ 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله تعالیٰ عنه انَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْانْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ: هَـلَّا وُضِعَتْ هٰذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَانَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب خَاتَم النبييِن ﷺ ، 3/ 1300، الرقم: 3341-3342، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه ﷺ خاتم النبيين، 4/ 1791، الرقم: 2286، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 436، الرقم: 11422، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 398، الرقم: 9156، وابن حبان في الصحيح، 14/ 315، الرقم: 6405.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائِ کرام کی مثال اُس آدمی جیسی ہے کہ جس نے ایک مکان بنایا اور اُسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3/ 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍرضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ: اعْدِلْ يَارَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ: دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِّهِ فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ… الحديث.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين، باب من ترک قتال الخوارج للتألف، ولئلا ينفر الناس عنه، 6/ 2540، الرقم: 6534، 6532، وأيضًا في کتاب المناقب،باب علامات النبوة في الإسلام، 3/ 1321، الرقم: 3414، وأيضًا في کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قرائة القرآن، 4/ 1928، الرقم: 4771، وأيضًا في کتاب الادب، باب ما جاء في قول الرجل: ويلک، 5/ 2281، الرقم: 5811، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2/ 744، الرقم: 1064، والنسائي عن ابي برزة رضي الله تعالیٰ عنهفي السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7/ 119، الرقم: 4103، وأيضًا في السنن الکبری، 6/ 355، الرقم: 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1/ 61، الرقم: 172، واحمد بن حنبل في المسند، 3/ 56، الرقم: 11554، 14861، وابن حبان في الصحيح، 15/ 140، الرقم: 6741، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 562، الرقم: 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10/ 146، وابو يعلی في المسند، 2/ 298، الرقم: 1022.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبد اللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! عدل سے تقسیم کیجیے۔ (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کم بخت! اگر میں عدل نہیں کرتا تو اور کون عدل کرے گا؟ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیں کہ میں اس (خارجی منافق) کی گردن اُڑا دوں، آپ ﷺ نے فرمایا: رہنے دو۔ اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں(یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں کے سامنے تم اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے تم اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گوبر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی حضور ﷺ کی ذات اقدس میں نکتہ چینی کرنے والوں کی مثال ہے کہ حقیقتِ ایمان کے ساتھ اُن کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4/ 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله تعالیٰ عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا اوْلَی النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ: {اَلنَّبِيُّ اوْلٰی بِالْمُؤْمنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} [الأحزاب، 33: 6]، فَيُمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضَيَاعًا فَلْيْتِنِي وَأَنَا مَوْلَهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير/ الأحزاب، باب النّبيّ أولی بالمؤمنين من أنفسهم، 4/ 1795، الرقم: 4503، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة،2/ 592، الرقم: (43)867، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب کيف الخطبة، 3/ 188،الرقم: 1578، والدارمي في السنن، 2/ 341، الرقم: 2594، وابن خزيمة في الصحيح، 3/ 143، الرقم: 1785، والبيهقي في السنن الکبری، 6/ 238، الرقم: 12148.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن ایسا نہیں کہ میں دنیا و آخرت میں جس کی جان سے بھی زیادہ قریب نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’نبی مکرم ﷺ مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ (قرض خواہ یا بچے) میرے پاس آئیں میں اُن کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد اسلامی ریاست یہ دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گی)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5/ 5. عَنْ ابِي مُوْسَی الْاشْعَرِيِّ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُسَمِّي لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَاحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في اسمائه ﷺ ، 4/ 1828، الرقم: 2355، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 395، 404، 407، وابن ابي شيبة في المصنف، 6/ 311، الرقم: 31692.31693، والحاکم في المستدرک، 2/ 659، الرقم: 4185.4186، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد، والطبراني في المعجم الاوسط، 4/ 327، الرقم: 4338، 4417، وابن الجعد في المسند، 1/ 479، الرقم: 3322.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اپنے کئی اَسماء گرامی بیان فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں اَحمد ہوں اور مقفّی (یعنی بعد میں آنے والا) اور حاشر ہوں (یعنی جس کی پیروی میں روزِ حشر سب جمع کیے جائیں گے) اور نبی التوبہ اور نبی الرحمہ ہوں۔‘‘
اِسے امام مسلم، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
6/ 6. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْاسْقَعِ رضي الله تعالیٰ عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ ا اللهَ اصْطَفٰی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفٰی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي ﷺ ، 4/ 1782، الرقم: 2276، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي ﷺ ، 5/ 583، الرقم: 3605، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 107، وابن حبان في الصحيح، 14/ 135، الرقم: 6242، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 317، الرقم: 31731، وأبو يعلی في المسند، 13/ 469، الرقم: 7485، والطبراني في المعجم الکبير، 22/ 66، الرقم: 161، والبيهقي في السنن الکبری، 6/ 365، الرقم: 12852، 3542، وأيضًا في شعب الإيمان، 2/ 139، الرقم: 1391، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 751، الرقم: 1400.
’’حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے بنی کنانہ کو اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا۔‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
7/ 7. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: جَائَ الْعَبَّاسُ رضي الله تعالیٰ عنه إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَيْکَ السَّـلَامُ، قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ ا اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: (99)، 5/ 543، الرقم: 3532، وأيضًا في کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5/ 584، الرقم: 3607.3608، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 210، الرقم: 1788، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 149، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 41، الرقم: 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 178، الرقم: 466، والھندي في کنز العمال، 11/ 415، الرقم:31950.
’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور شاید اُنہوں نے (کافروں سے) کچھ ناشائستہ کلمات سنے تھے۔ (پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: آپ پر سلامتی ہو، آپ الله تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے اُن میں سب سے بہترین گروہ (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا۔ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانے (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لیے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘
اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
8/ 8. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، بِابِي انْتَ وَامِّي، اخْبِرْنِي عَنْ اوَّلِ شَيئٍ خَلَقَهُ ا اللهُ تَعَالٰی قَبْلَ الْاشْيَاءِ؟ قَالَ: يَا جَابِرُ، إِنَّ ا اللهَ تَعَالٰی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْاشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُورِهِ، فَجَعَلَ ذَالِکَ النُّوْرَ يَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ ا اللهُ تَعَالٰی، وَلَمْ يَکُنْ فِي ذَالِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ، وَلَا ارْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ، وَلَا إِنْسِيٌّ، فَلَمَّا ارَادَ ا اللهُ تَعَالٰی انْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَّمَ ذَالِکَ النُّوْرَ ارْبَعَةَ اجْزَاءٍ: فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْاوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: اللَّوْحَ، وَمِنَ الثَّالِثِ: الْعَرْشَ، ثُمَّ قَسَّمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ ارْبَعَةَ اجْزَاءٍ فَخَلَقَ مِنَ الْاوَّلِ: حَمَلَةَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْکُرْسِيَّ، وَمِنَ الثَّالِثِ: بَاقِيَ الْمَـلَائِکَةِ، ثُمَّ قَسَّمَ الْجُزْئَ الرَّابِعَ ارْبَعَةَ اجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْاوَّلِ: السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْارْضِيْنَ، وَمِنَ الثَّالِثِ: اَلْجَنَّةَ وَالنَّارَ…الحديث.
رَوَاهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ.
اخرجه القسطلاني في المواهب اللدنية، 1/ 71، وقال: اخرجه عبد الرزاق بسنده، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1/ 89.91، والعجلوني في کشف الخفائ، 1/ 311، الرقم: 827، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، والعيدروسي في تاريخ النور السافر، 1/ 8، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده، والحلبي في السيرة، 1/ 50، والتهانوي في نشر الطيب/ 13.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا: میں نے بارگاہِ رسالتمآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ الله تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک الله تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب الله تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کیے۔ پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی۔۔۔۔‘‘
اِسے امام قسطلانی نے روایت کیا ہے۔
9/ 9. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام، قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْارْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُـلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 6/ 237، الرقم: 6285، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 752، الرقم: 1402، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 217.
’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے حضورنبی اکرم ﷺ سے اور آپ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے روایت کیا کہ اُنہوں نے عرض کیا: (یا رسول الله!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔
10/ 10. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله تعالیٰ عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلٰی أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 80، الرقم: 4728، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 303، الرقم: 31641، والبيهقي عن ابن عباس رضي الله عنهما في السنن الکبری، 7/ 190، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 190، الرقم: 2949، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 294، الرقم: 784، والهندي في کنز العمال، 11/ 402، الرقم: 31870، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 214.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر میرے والدین کے مجھے جنم دینے تک، میں نکاح کے ساتھ پیدا ہوا ہوں، غیر شرعی طریقہ سے نہیں۔‘‘
اِسے امام طبرانی، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved