مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ علامہ اقبال رح کا خواب اور قائد اعظم رح کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو؛ معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں؛ جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں؛ جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو؛ جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو؛ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو؛ جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتے تھے اور اُس قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی جب کہ آج 64 برس بعد ملک موجود ہے مگر اِس ملک کو قوم کی تلاش ہے۔ 1947ء میں ہم ایک قوم تھے، اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال ہوئی اور اُس قوم کی متحدہ جد و جہد کے نتیجے میں ہمیں یہ ملک ملا۔ ابھی 25 برس بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم نے باہمی اِختلافات کے باعث آدھا ملک کھو دیا۔ آج آدھا ملک موجود ہے مگر کس قدر دکھ کی بات ہے کہ قوم مفقود ہے۔ طلباء کے اِس اِجتماع کے ذریعے میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اب جب کہ ہماری قوم منتشر ہو چکی ہے، یہ کروڑوں اَفراد کا بے ہنگم ہجوم بن چکا ہے، ہماری قومیت گم ہوگئی ہے، محبت کا جو جذبہ ہم اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں دیکھا کرتے تھے وہ بھی ناپید ہوگیا ہے؛ ہم دوبارہ اس قوم کو وحدت میں پرونا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کو مسلمانوں کی اُمیدوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ جرات مندانہ کام کرنے پڑیں گے اور کچھ احتیاطیں برتنی پڑیں گی۔ ہمیں سنجیدہ ہو کر اس ملک میں جاری نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ پاکستانی قوم کو بے شعور بنا دیا گیا ہے۔ اِنصاف اس وقت مقتدر طبقات کی لونڈی ہے، جمہوریت ان کی عیاشی ہے، اِنتخاب اِن کا کاروبار ہے اور عوام ان کے غلام ہیں۔ 5 سال کے بعد انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے یہ کسی طرح بھی جمہوریت نہیں ہے۔ نہ یہ حقیقی نظامِ اِنتخاب ہے اور نہ ہی اس طریقے سے کبھی تبدیلی آئے گی۔ آپ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا راستہ الگ ہے۔ یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔
اِس وقت پاکستانی قوم جن بڑی اور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے :
پاکستان کے عوام اس بنیادی تبدیلی کے آرزو مند ہیں، لیکن ہر چار پانچ سال کے بعد تبدیلی کے نام پر انہیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اس کرپٹ سسٹم، نااَہل قیادتوں اور غیر شفاف نظام اور غیر مؤثر حکومتوں کے نتیجے میں اس قوم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو کر خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ جان و مال کی ہلاکت اور دہشت گردی، قتل وغارت اور لوٹ مار اِن کا مقدر بن چکا ہے۔ لوگ بجلی، سوئی گیس اور پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، بے روزگاری نئی نسل کو چور ڈاکو بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ نسلی، علاقائی، لسانی تعصبات نے ملک کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ پانچ سال تک اِس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غیظ و غضب کو پالتے رہتے ہیں اور اپنے دشمن کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ آئندہ ان سے نجات حاصل کریں مگر بدقسمتی سے جوں ہی چار یا پانچ سال پورے ہوتے ہیں، اُن کا وہی دشمن نئے انداز سے دوستی، وفاداری، ہم دردی اور محبت کا لباس اوڑھ کر اور یہی رہزن ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محافظ کا روپ دھار کر سامنے آجاتے ہیں۔ اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی بے سمت، تباہ حال اور بدنصیب قوم پھر اُنہی رہزنوں کو دوست اور مسیحا سمجھ کر اگلے پانچ سال کے لیے منتخب کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ تمام نفرت اور غیظ و غصب جو ان کی گزشتہ پانچ سالوں کی لوٹ مار کے باعث لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کی آنکھوں سے پردے اٹھ رہے تھے اور وہ حقائق سے آگاہ ہو رہے تھے - سب بے کار چلا جاتا ہے اور شعور کا چراغ پھر بجھ جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کا وہ دشمن کون ہے جس نے دائماً اِنہیں پچھلے 64 برس سے تبدیلی اور خوش حالی سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم ملک کے سترہ کروڑ عوام کو اس دشمن کی شناخت کروانا چاہتے ہیں جس نے ان کو باعزت زندہ رہنے کے حق سے محروم کر رکھا ہے حتی کہ اس قوم کو اپنی شناخت سے بھی محروم کر دیا ہے۔ وہ دشمن کون ہے؟ آج طلباء اور طالبات کے اس عظیم اجتماع میں اسی دشمن کی پہچان کروانا مقصود ہے تاکہ قوم کے بیٹے بیٹیاں، قوم کی آئندہ نسلیں اپنے مستقبل کو سنوارنے اور محفوظ رکھنے کے لیے صحیح سمت پر جد و جہد جاری رکھ سکیں اور اس کے خلاف ایک پُراَمن جنگ لڑنے کے لیے صف آرا ہو سکیں۔ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی تمہاری دشمن ہے، کوئی کہہ دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمہاری دشمن ہے، اسی طرح بعض دوسری سیاسی پارٹیوں کا نام لے دیتے ہیں جس سے سیاسی گروہ یا جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتی ہیں اور عوام اس جنگ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ میں categorically بتا دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، ق لیگ ہو یا ایم کیو ایم، اے این پی ہو یا کوئی مذہبی جماعت یا بلوچستان اور دیگر صوبوں کی مقامی جماعتیں، یہ سب آپ کی حقیقی دشمن نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی جماعت یا قیادت بھی عوام کی حقیقی دشمن نہیں تو دشمن کون ہے؟ وہ کون ہے جس نے اِس قوم کو کچل رکھا ہے؟ اِس قوم کو محرومی کی آگ میں جھونک رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو تباہی اور ہلاکت کی راہ پر گامزن کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو اس کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو خود کشیوں کی راہ پر ڈالا ہے؟ اُسی دشمن کی شناخت کروانے کے لیے ہم نے بیداریِ شعور کی تحریک شروع کی ہے۔
یاد رکھیں! آپ کا دشمن یہ کرپٹ اور اِجارہ دارانہ نظامِ انتخاب ہے؛ وہ نظامِ سیاست جو گزشتہ چھ دہائیوں سے مخصوص لوگوں کو اس ملک میں پال رہا ہے، مخصوص اجارہ داریوں کے نیچے جس کی پرورش ہو رہی ہے، جس نے اس قوم کے ننانوے فیصد عوام کو حقیقی جمہوریت سے محروم کر رکھا ہے اور جس نے ایک فی صد سے بھی کم پر مشتمل مخصوص طبقے کو حکومت کا پیدائشی اور موروثی حق دے رکھا ہے۔ اگلے سال پھر انتخابات کا اِمکان ہے اور اس کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ یہی وہ کرپٹ اِجارہ دارانہ نظامِ انتخاب (monopolistic electoral system) ہے جس کے اردگرد ملک کی پوری سیاست گھومتی ہے اور جس monopolistic electoral system کے نتیجے میں اس ملک میں ایک جعلی جمہوریت جنم لیتی ہے۔ موجودہ پاکستانی سیاست اِس فرسودہ اِجارہ دارانہ نظامِ اِنتخاب کے گرد گھومتی ہے اور اس نام نہاد monopolistic electoral system کے نتیجے میں جو حکومتیں وجود میں آتی ہیں بدقسمتی سے ان حکومتوں کا نام جمہوری حکومت (democratic government) رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ سیاست میں بھی دھوکا ہے اور اس نام نہاد جمہوریت میں بھی دھوکہ ہے۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ ہم اس نظام کو کرپٹ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اِس نظام کو اِجارہ دارانہ کہنے اور کرپٹ قرار دینے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ ان دلائل میں سے بعض کا تعلق تاریخی شواہد کے ساتھ ہے اور بعض کا عملی کارکردگی کے ساتھ۔ آپ 1934ء کے زمانے کا مطالعہ کریں جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا تو جو لوگ اس بمبئی کی حکومت کے وزیر تھے، سندھ کی سیاست اس دن سے لے کر آج تک کم و بیش اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ انہی خاندانوں کی اجارہ داری میں رہی اور انہیں کو منتقل ہوئی۔ پارلیمنٹ کا بہت بڑا حصہ آج تک انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی حال بہاول پور، بلوچستان اور دیگر بیشتر حلقہ جات کا ہے۔ میں کسی شخص کا نام نہیں لوں گا، یہ میرا منصب نہیں اور نہ میرا مقصود ہے۔ میں تو conceptual clarity دینا چاہتا ہوں اور قوم کو ایک پیغام (message) دینا چاہتا ہوں۔ لوگ پہلے سے ان اجارہ دار خاندانوں اور سیاست دانوں کو جانتے ہیں، بہاول پور میں جو لوگ 1906ء میں وزیر اعلیٰ تھے اُنہی کے خاندان کے پاس آج تک سیاست و اِنتخابات کی اجارہ داری ہے۔ تاجِ برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں جو بڑے بڑے خانوادے آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسند اقتدار پر فائز تھے، جن کے پاس 1930ء کے اقتدار کی مسند تھی، آپ کو اُن ہی شخصیتوں کی نسلیں اقتدار پر بیٹھی نظر آئیں گی۔ یعنی اِقتدار نسل در نسل اُنہی کو منتقل ہوتا نظر آئے گا۔ اس دوران میں الیکشن ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، جمہوریت کے نام پر اَدوار بدلتے رہے، کبھی فوجی آمریتیں آئیں اور کبھی سیاسی آمریتیں، مگر اسمبلیاں اور اقتدار ان خانوادوں سے باہر کبھی نہیں گیا اور گیا تو بہت شاذ گیا۔
اس کے بعد جب شہر آباد ہوگئے تو شہروں کی contribution بھی politics میں شروع ہوگئی۔ چنانچہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور تاجر سیاست اور اقتدار میں جاگیرداروں کے شیئر ہولڈرز بن گئے۔ وہ لاہور ہو یا فیصل آباد، سرگودھا ہو یا گوجرانوالہ، سیال کوٹ ہو یا راول پنڈی، کوئٹہ ہو یا حیدر آباد یا پشاور اور کراچی جہاں چلے جائیں آپ کو بیس بیس حلقوں تک مخصوص لوگ ہی براجمان نظر آئیں گے، دیہی علاقوں میں جاگیردار ہیں اور شہری علاقوں میں سرمایہ دار۔
اس نظام انتخاب کو قائم رکھنے میں موجودہ الیکشن کمیشن بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے حقیقتِ حال سے لاتعلق ہو کر بیٹھا ہوا ہے۔ آج قومی اسمبلی کا الیکشن دس سے بیس کروڑ روپے سے کم سرمائے سے نہیں لڑا جا سکتا جبکہ اس ملک کے نام نہاد الیکشن کمیشن نے پانچ لاکھ سے دس لاکھ کی حد مقرر کی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں پچھلے چالیس سال سے نابینا چلا آرہا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، انتخاب میں تین لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی حد ہوتی تھی جب کہ تین کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے، کبھی کوئی شخص نااَہل نہیں ہوا۔ پانچ لاکھ کی حد ہوتی تھی تو پانچ کروڑ خرچ ہوتے تھے۔ آج اگر دس لاکھ کی حد ہے تو دس سے بیس کروڑ خرچ ہوتے ہیں، سب دنیا جانتی ہے مگر کون disqualify ہوتا ہے؟ یہی لوگ براجمان ہیں اور پندرہ پندرہ، بیس بیس سیٹیں ایک جیسے طبقے کے ہاتھ میں نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد جا کر کوئی ایک آدھ ایسا سیاسی کارکن نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر اس طبقے میں سے تو نہیں تھا مگر ایک کارکن اور حلقے میں کام کرنے کے ناطے اس نے اپنی political stability کو develop کر لیا اور حکومتی عہدوں کے ذریعے معاشی طور پر مستحکم ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ وہ وہاں کا نمائندہ ہوگیا۔ پورے ملک میں کئی درجن سیٹوں کے بعد آپ کو ایک دو لوگ ایسے دکھائی دیں گے جو کارکن سے لیڈر بنے ہیں۔ نتیجتاً شہر سرمایہ داروں اور مال داروں کے ہاتھ میں آگئے اور دیہات جاگیرداروں کے پاس چلے گئے۔
پھر سیاست میں تیسرے عنصر کا اضافہ ہوا اور وہ establishment کا وجود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہمارے ہاں مکمل اجارہ داری ہے۔ یہ ملکی سیاست پر کبھی اقتدار کو بلاواسطہ اور کبھی بالواسطہ کنٹرول کرتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جو باہم جنگ نظر آتی ہے وہ محض ایک نورا کشتی ہوتی ہے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں - جو اِس وقت ملک میں موجود ہیں۔ one way or the other اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیداوار ہیں۔ اسی نے حسب ضرورت اِن کی پرورش کی ہے۔ ہر دور کی فوجی آمریت نے اپنے سائے کے نیچے سیاست دانوں کو تیار کیا ہے اور ایک نئی جماعت کو جنم دیا ہے۔ دس دس سال لگا کے ان کو launch کیا اور بعد ازاں جب وہ جماعتیں مضبوط ہو جاتی ہیں تو پھر وہ جمہوریت کے حق میں فوجی آمریت کے خلاف نعرہ بلند کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں کیونکہ اس وقت سیاسی و جمہوری دور آچکا ہوتا ہے۔ فوجی آمریت کے دور میں یہ لوگ ان سے مل کر ساز باز کرتے ہیں، لبیک کہتے ہیں اور جب سیاسی دور آجاتا ہے تو ان میں سے بہت سے لوگ indirectly اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ کبھی ختم نہیں ہوتا، اِس کی ایک مضبوط، مستحکم اور مؤثر اجارہ داری ہے۔
ایک طرف جاگیردار اور وڈیرے ہیں، ایک طرف سرمایہ دار و مال دار ہیں اور ایک طرف اسٹیبلشمنٹ۔ یہ تین طبقات اس ملک میں status quo کے مہرے ہیں اور نظام انہی کے دامِ فریب میں پھنسا ہوا ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ میں اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ بھی داخل ہوتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ملکی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر زیادہ عمل پیرا رہتی ہے۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کہ جو انتخاب پندرہ سے بیس کروڑ روپے کے سرمائے سے ایک سیٹ کے لیے لڑا جائے، وہ اس ملک میں کیسے change لائے گا؟ ایسے اراکینِ اسمبلی کیسی تبدیلی کے علم بردار ہوں گے؟ کیا انہیں ذاتی مفادات سے ہٹ کر قومی اور عوامی مفادات کے متعلق سوچنے اور ان کی حالت میں بہتری لانے کی فکر ہوگی؟ ہرگز نہیں! وہ status quo کی پیداوار ہیں اور ہمیشہ status quo کی حفاظت کریں گے، اگرچہ نعرہ تبدیلی کا لگائیں گے تاکہ عوام انہیں انقلابی سمجھتے ہوئے ان پر بھروسہ رکھیں۔ مروّجہ نظامِ سیاست میں executive اور سیاست دانوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں ساری ناانصافیوں، کرپشن، اقربا پروریوں کا ماحول ان کے اس joint venture کے باعث وقوع پذیر ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لیے انہیں یہ موقع مہیا کرتی ہے۔
یہاں وہی سیاستدان کامیاب ترین ہے جو جھوٹ بولنے میں ماہر ہے۔ ساری سیاست جھوٹے نعروں پر کی جاتی ہے۔ ان نعروں میں اسلام، جمہوریت، غریب عوام اور ملک میں تبدیلی جیسے موضوعات اہم ہیں مثلاً بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نعرہ صرف مسند اقتدار اور ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک آلہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے غریب عوام کے نعرے بھی لگے، مگر غریب عوام کے کندھے صرف مسند اقتدار پر پہنچنے کے لے تھے۔ غریب عوام کی اقتدار کے اندر کوئی participation اور شراکت نہ تھی۔ اِسی طرح جمہوریت کے نعرے بھی لگتے ہیں۔ یہاں جمہوریت بھی ایک سلوگن ہے۔ محض ایک دھوکہ ہے مسندِ اقتدار اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے! اور پھر پانچ سال تک وہ جمہوریت عوام میں سے کسی غریب کا حال پوچھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یہاں احتساب کا نعرہ بھی لگتا ہے۔ غرضیکہ جس کو جو نعرہ suit کرتا ہے وہ لگاتا ہے۔ جب فوجی آمریت آتی ہے تو وہ احتساب اور good governance کے نعرے لگا کر اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے اور جب سیاسی آمریت آتی ہے تو وہ عوام اور جمہوریت کا نعرہ لگا کر ملکی اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں، مگر جہاں تک عوام کی حقیقی زندگیوں میں تبدیلی کا تعلق ہے تو دونوں اَدوار میں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔
فوجی آمریت میں ایوب خان اور یحییٰ کا دور دیکھ لیں، جنرل ضیاء الحق کا دور دیکھ لیں، جنرل پرویز مشرف کا دور دیکھ لیں؛ احتساب کے نام پر بھی آئے، اسلام کے نام پر بھی آئے اور good governance کے نام پر بھی آئے، devolution of powers کے نام پر بھی آئے اور بالآخر democracy کے نام پر بھی آئے لیکن یہ سب یکے بعد دیگرے دھوکے دے کر چلتے بنے۔ فوجی آمریت کے دور میں بھی اس ملک کے کروڑوں عوام میں سے مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی ایک شخص کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ کسی کو محرومیوں کے اندھیروں سے نکالنے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
پھر سیاسی دور میں جمہوریت کے نام پر نمائندہ پارلیمنٹ create کی گئی اور اب جب یہ نمائندگانِ قوم پارلیمنٹ میں آگئے تو اب آپ اپنا حال دیکھ لیں! لوگ قتل ہو رہے ہیں، ملک کی سا لمیت اور خود مختاری گروی رکھ دی گئی ہے، پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی کالونی بنا دیا گیا ہے، پاکستان نہ اپنے داخلی اُمور کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور نہ اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہے، نہ اپنے دفاعی فیصلے لینے میں آزاد ہے اور نہ ملکی دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد۔ حتی کہ اسمبلیاں rubber stamp بن چکی ہیں۔
نام نہاد انتخاب کے نام پر لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں، لہٰذا وہ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ عوام ہی ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ اس ملک میں جمہوریت کی غرض و غایت اور جمہوریت کا تعلق عوام سے صرف اتنا ہے کہ انہیں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کے ان وارثوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ ہے عوام کی طاقت!
پانچ سال کے بعد دوبارہ ایک میلہ لگتا ہے، کروڑوں روپے خرچ کرنے والے پھر وہی خانوادے، کبھی ان کے بیٹے، کبھی بیٹیاں، کبھی بھتیجیاں اور کبھی بھانجے بھانجیاں یعنی تھوڑے سے plus، minus کے فرق کے ساتھ یہی لوگ involve ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جو کروڑوں لگا کے اسمبلی میں آئے گا وہ عوام کا پیٹ بھرے گا یا اپنا پیٹ بھرے گا؟ وہ پہلا خرچہ برابر کرنے کے بعد اگلے الیکشن کے لیے کروڑوں کیوں نہیں بنائے گا؟ کیونکہ اس نے اپنی ساکھ رکھنے کے لیے لوگوں کو آٹے کے تھیلے بھی دینے ہیں۔ اس نے سڑکیں بھی بنانی ہیں، کھمبے بھی لگانے ہیں، نالیاں بھی بنوانی ہیں، لوگوں کے گھر اناج بھی بھیجنا ہیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن بھی کرنی ہے تاکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کا مالی تحفظ بھی ہو جائے۔ کیا خبر کل ملک کی حالت کیا ہو، بیرونِ ملک اکاؤنٹ بھی کھلوانے ہیں اور جائیدادیں بنانی ہیں۔ وہ پورے ملک کو لوٹے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟
کئی سال پرانی بات ہے (اب اُس دور کے مقابلے میں اَخراجات میں سیکڑوں گنا فرق آچکا ہے) کہ اُس وقت کسی شخص نے براہِ راست مجھ سے کہا تھا کہ وہ اُس وقت تک وہ اپنی پارٹی کے الیکشن پر دو ارب روپے سے زائد خرچ کرچکا ہے جو کہ آج کے حساب سے کھرب ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے invest کی گئی یہ رقم واپس بھی لینی ہے اور پھر آئندہ انتخابات کا وقت آنے تک کئی گنا اخراجات بڑھ چکے ہوں گے۔ میں نے اُس کے لیے بھی سرمایہ جمع کرنا ہے۔ مجھے بتائیے ایک ایک شخص جب کروڑوں روپے لگا کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو کیا وہ آپ کا نمائندہ ہوگا؟ وہ اس ملک کے محنت کشوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ طلبا کا نمائندہ ہوگا؟ وہ غریب عوام کا نمائندہ ہوگا؟ وہ کسانوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ تاجروں کا نمائندہ ہوگا؟ کس کا نمائندہ ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات اور اپنی ذاتی ترجیحات کا نمائندہ ہوگا۔
یہ الیکشن جس میں ایک ایک اُمیدوار کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری (investment) کرنے کے بعد اسمبلی میں پہنچتا ہے وہ الیکشن ہی پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ کبھی عوام کے دکھ اور مصائب حل کرنے میں کسی قسم کا relief دینے میں کام یاب نہیں ہوسکا۔ پہلے پہل تو ظاہر داری کرتے ہوئے جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیتی تھیں لیکن اب تو جماعتوں کا منشور بھی ختم ہو چکا ہے۔ پبلک نے دھوکے کھا کھا کر اس روِش کو بھی قبول کر لیا ہے۔ اب نہ کوئی منشور چھاپتا ہے اور نہ کوئی منشور پوچھتا ہے۔ اکثر اوقات یک نکاتی منشور چل پڑتا ہے۔ بس ایک کہہ دے گا کہ کرپشن کا خاتمہ میرا منشور ہے، قوم کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ خاتمہ کس طرح ہوگا؟ اُس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اُس کی داخلہ پالیسی کیا ہوگی؟ اِس ملک کو کیسے خسارے سے نکالا جائے گا؟ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں کیسے بہتری ہوگی؟ کتنا روزگار مہیا کیا جائے گا؟ ایجوکیشن پہ کتنا خرچ کرے گا؟ ہیلتھ پر کیا خرچ ہوگا؟ Infrastructure پر کیا خرچ ہوگا؟ Regional relations کیا ہوں گے؟ بین الاقوامی پالیسی کیا ہوگی؟ کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔
دوسرے نے کہہ دیا کہ سوئٹزر لینڈ کے اکاونٹس واپس لاؤں گا۔ بس کسی کو اس کے علاوہ کوئی منشور پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک شخص کہہ دے گا کہ فلاں ملک دشمن جماعت ہے اور وہ نظریہ پاکستان بحال کرے گا۔ قائداعظم کی فکر دے گا، اُس کا پاکستان واپس دلائے گا۔ ایک نے کہا کہ جمہوریت دوں گا، کچھ نے کہہ دیا ہم اسلام لائیں گے۔ کوئی کہہ دے گا کہ بی بی کے خون کا بدلہ لیں گے، کوئی کہہ دے گا کہ لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کریں گے۔ یہ جملے آپ غور سے سنیں، یہ سب یک لفظی منشور ہیں۔ کسی حقیقی منشور کی اس نظامِ اِنتخاب میں ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب انتخابی جنگ جماعتوں سے ہٹ کر دھڑوں کے درمیان شروع ہوگئی ہے۔ آج سے نہیں بلکہ 1989ء میں چلے جائیے وفاقی حکومتوں اور صوبائی حکومتوں میں جنگ ہوتی تھی۔ کئی بار اسمبلیاں ٹوٹیں، سیاست دان آپس کی جنگ اور باہمی منافرتوں کے ذریعے اور اپنی کرپشن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے لیے میدان ہموار کرتے رہے۔
اب آج کی موجودہ پارلیمنٹ سے پوچھیں کہ جس کو چار سال ہونے کو ہیں، جس میںوفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں شامل ہیں، اِنہوں نے اس قوم کو کیا دیا ہے؟ سترہ کروڑ عوام کو بجلی نہیں مل رہی، پانی نہیں مل رہا، آٹا نہیں مل رہا، کھانا نہیں مل رہا، روزگار نہیں مل رہا، لوگوں کی عزت و ناموس اور جان و مال محفوظ نہیں، ہر وقت خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ عوام کو اس کی قانون سازی (legislation) نے کیا دیا؟ اسمبلیوں میں ammendments اور قانونی موشگافیاں اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے، اپنی کرپشن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسی لیے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ایک حکومت جاتی ہے تو اس سے منسوب تمام منصوبے اور ادارے اٹھا کر سمندر میں غرق کر دیے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعت اور حکومت بدلنے سے ملک کی main ڈائریکشن ہی تبدیل ہو جائے۔ جمہوری ممالک میں سیاسی حکومت بدلتی ہے لیکن قومی ڈائریکشن وہی رہتی ہے۔ اہم کلیدی عہدوں پر سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، نہ تقرری میں اور نہ برطرفی میں۔ قومی سلامتی کے اہم منصوبے بدستور جاری رہتے ہیں مگر پاکستان میں قومی سطح کے کسی ادارے کی ایک بھی سیٹ ایسی نہیں ہے کہ حکومت بدلتے ہی جس کے سربراہ بدل نہ جاتے ہوں۔ حکومت بدلے گی تو PIA کی ساری اعلیٰ قیادت بدل جائے گی۔ یہی حال سٹیل ملز، واپڈا، اسٹیٹ بینک اور ریلوے کا ہے، حتیٰ کہ فوجی اداروں کی اعلیٰ قیادت میں بھی اپنی مرضی سے ردّ و بدل کیا جائے گا۔ نئی حکومت آئے گی تو پھر سارے heads بدل جائیں گے اور اہم سیٹوں پر نئی تقرریاں ہوں گی، ماتحت بدل جائیں گے، سارے جاری منصوبے تعطل کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ ہر چار سال کے بعد نیا پلان جاری ہوگا، جو کام تین چار سال کے دوران مکمل ہو رہا ہوتا ہے دوبارہ نئے سے شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ہر تین چار سال کے بعد ملک zero پہ کھڑا ہوتا ہے۔ کنوئیں کے بیل کی طرح قوم وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ کیا اس قوم نے کبھی محاسبہ کیا کہ سیاسی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی اداروں اور قومی منصوبوں کو تاخت و تاراج اور برباد کریں؟
مثلاً یہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہے؛ ہر جگہ ان کے leader آجائیں گے، مسلم لیگ کے لگائے ہوئے سارے افراد برطرف ہو جائیں گے۔ نیچے تک نئی بھرتیاں ہو جائیں گی، پچھلے لوگ بر طرف اور نوکریاں بھی ختم۔ پولیس میں اور تھانوں میں تقرریاں اپنی مرضی سے ہوتی ہیں، اوپر IG، DC، سیکرٹری حتی کہ عدلیہ تک میں تقرریاں کرنے میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح ان تمام اداروں کی آزادانہ اور غیر جانب درانہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ غرضیکہ عدلیہ ہو یا انتظامیہ ہر جگہ ہر سطح پر اپنے لوگوں کولائیں گے۔ پھر مسلم لیگ آجائے گی یا دوسری کوئی اور جماعت آجائے گی تو نئے سرے سے تمام قومی اداروں کے سارے سربراہ تبدیل ہو جائیں گے۔ ایسا تماشا مشرق سے مغرب تک، ترقی اور جمہوریت کا نام لینے والے ملکوں میں کبھی نہیں ہوتا۔ وہاں قومی پالیسیاں برقرار رہتی ہیں۔ ان کے تاب ناک روشن مستقبل کے لیے سالانہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ یہاں وہ بھی نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے ہاں ایک پانچ سالہ منصوبہ بندی ہوتی ہے تاکہ الیکشن کے ذریعے جب وہ پانچ سال کے لیے اقتدار میں آئے تو پانچ سال میں یہ deliver کریں گے۔ لیکن یہاں نہ کوئی deliver کرنے والا ہے، نہ اس پر مؤاخذہ کرنے والا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ جب کبھی قوم کے اندر پوچھنے کا شعور بیدار ہوتا ہے تو اُن کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کے لیے بم بلاسٹ کرا دیے جاتے ہیں۔ قتل و غارت گری کے دس پندرہ واقعات کرا دیے جاتے ہیں تاکہ میڈیا اور قوم کی ساری توجہ اس طرف لگ جائے۔
حال ہی میں کراچی کی صورت حال کے حوالے سے میری request پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تو رفتہ رفتہ قتل و غارت گری بند ہوگئی، وہ قتل و غارت گری کے ذمہ دار اور وہ دہشت گرد کہاں گئے؟ کہا جاتا ہے کہ وہ بیرونی عناصر تھے۔ اگر وہ بیرونی عناصر تھے اور ملک کی سالمیت کے خلاف سازش کرنے کے لیے داخل کیے گئے تھے تو سپریم کورٹ کی سماعت کے ساتھ وہ قتل و غارت گری اور دہشت گردی کیسے ختم ہوگئی؟ حقیقتاً ہمارا پورا نام نہاد جمہوری نظام ایک black mailing کا نظام ہے۔ یہ ایک گھناؤنا کھیل ہے جو سیاسی قیادت تسلسل کے ساتھ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کے ساتھ کھیلتی رہی ہے تاکہ اصل issues پر توجہ نہ رہے۔ اسی طرح جب وہ رو پیٹ کر گھروں سے باہر احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے اُن کو بجلی میں سہولت دے دی جاتی ہے تاکہ اُن کا غیض و غضب ٹھنڈا ہو اور وہ گھر چلے جائیں۔ چار پانچ دن کے بعد پھر وہی حالات اور وہی معاملات۔
انتخابات کے نتیجے میں جو جمہوری حکومتیں بنیں انہوں نے اپنے اپنے اَدوار میں بے تحاشہ بدعنوانیاں کیں۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری بھی رہی اور دہشت گردی بھی فروغ پاتی رہی۔ یہ سیاسی دور ہی تھے جن میں سپریم کورٹ پر حملے ہوئے، پھر دو سپریم کورٹس بنیں۔ اور یہ بھی سیاسی دور ہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔ آج سپریم کورٹ فیصلہ کرنے میں آزاد ہے مگر عمل درآمد کرانے میں مقید ہے۔ سپریم کورٹ قیدی بن کے رہ گئی ہے، اس کے کسی فیصلے کا عملی اِحترام نہیں اور پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان ایک تضاد اور تصادم کی فضا بھی آج کے اِسی جمہوری دور میں جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس یہ مینڈیٹ یا اتھارٹی ہی نہیں ہے کہ وہ حکومت کو عمل کرنے پر مجبور کرے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مختلف سلگتے مسائل پر سپریم کورٹ صرف تجاویز اور سفارشات دے دیتی ہے؛ یہ تو وعظ کرنا ہوا، عدل و انصاف دینا تو نہ ہوا۔ جب تک ان پر عمل در آمد نہ ہو انہیں عدالتی احکام کیسے کہا جائے؟ جب کہ عمل درآمد انہی بااثر حکومتی طبقوں کے ہاتھوں میں ہے جس کے بارے میں کراچی کے واقعات کی تحقیقات کے دوران سپریم کورٹ نے خود لکھا کہ ان میں سے ہر ایک جماعت کے پاس دہشت گردی کی مسلح تنظیمیں ہیں جو خود اس دہشت گردی اور قتل و غارت گری، تباہی اور ہلاکت کی ذمہ دار ہیں۔ عمل درآمد کون کرے گا؟ جو سپریم کورٹ حکومت کے حوالے سے کسی بیرونی ملک کی کورٹ کو ایک خط نہیں لکھ سکتی، اس سپریم کورٹ کی آزادی کیا آزادی ہے؟ اب اگر کہیں کہ سپریم کورٹ آزاد ہے تو اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے؟ وہ فیصلہ کرنے میں کیسے آزاد ہے جب وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں قیدی ہے، اپاہچ اور مفلوج ہے۔ وہ ایک جمہوری معاشرے کے قیام میں کیسے متحرک اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکے گی؟
میں تبدیلی کی بات کر رہا ہوں، جو آج کے اس طلباء کنونشن کا عنوان ہے۔ اب آپ کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ آخر تبدیلی کے راستے کیا ہیں؟ پہلے سے موجود ان راستوں اور طریقوں کی بھی میں وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ تبدیلی بذریعہ فوج آسکتی ہے؟ اس پر میرا جواب no ہے۔ فوج کے ذریعے کئی بار تبدیلی آئی لیکن فوجی آمریت ملکی مسائل کو نہ کبھی حل کر سکی نہ کبھی کرے گی۔ اُلٹا اس کا نقصان یہ ہے کہ اس سے خود فوج کے ادارہ کی قوم کے دلوں میں ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ چونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے اس میں بھی کرپشن انتہا درجے کی ہوتی ہے ۔ بیرونی طاقتوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ فردِ واحد سے بات کر رہے ہوتے ہیں، پارلیمنٹ سے نہیں۔ اور فردِ واحد سے بات کر کے فیصلہ کروانا ان کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے، خصوصاً military dictatorship بیرونی طاقتوں کے لیے انتہائی سازگار ہوتی ہے جبکہ ملک اور قوم کے لیے اتنی ہی تباہ کن ہے۔ لہٰذا بذریعہ فوج تبدیلی آمریت کا راستہ ہے، یہ تبدیلی کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔
2۔ دوسرا طریقہ بعض انتہا پسند ذہنوں میں آتا ہے کہ تبدیلی بذریعہ طاقت یا بذریعہ بندوق لائی جائے۔ یہ دہشت گردی کا راستہ ہے، اس پر بھی میرا جواب absolutely no ہے۔ ہم لوگ اس ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جلتا دیکھ چکے ہیں کہ اس کے کتنے نقصانات ہوئے، اس لیے ہم اس ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ بندوق قوم کے جوانوں کے ہاتھ سے لے لینا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں امن اور ترقی کی بندوق دینا چاہتے ہیں اور وہ علم ہے۔ انہیں شعور کا اسلحہ اور اعلیٰ کردار کی طاقت دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا یہ دہشت گردوں کا راستہ ہے، انتہاء پسندوں کا راستہ ہے، یہ militancy ہے۔ مسلم ملک میں militancy نہ اسلام میں جائز ہے اور نہ پاکستان میں اس کا کوئی مستقبل ہے۔ پاکستان کو ایک moderate، پُراَمن ریاست ہونے کا تاثر دنیا کو پیش کرنا ہے جو tolerance اور patience کی حامل ہو، جس کے اندر progress اور development ہو، جہاں باہمی اِفہام و تفہیم اور گفت و شنید کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں، جس کے اندر شفافیت ہو۔ پھر اس کے اندر intra-faith dialogue کی گنجائش ہو اور مسلمانوں کے فرقوں کے اندر بھی ہم آہنگی ہو۔ وہ ایک دوسرے کا گلہ نہ کاٹیں، مسلمانوں کے مختلف قسم کے فرقے ایک دوسرے کو کافر ہونے کا فتوی نہ دیں، بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیاد پر مسلمان ایک گروہ اور ایک فرقہ کے طور پر رہیں۔
اسی طرح interfaith harmony کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی بھی اہم ہے۔ یہ ملک فتح نہیں کیا گیا کہ فتح کرنے کے بعد اقلیتوں کو اَمان اور ذِمّی کا status دیں۔ بلکہ تمام غیر مسلم اقلیتیں پاکستان کے مسلمانوں کی طرح برابر درجے کی شہری ہیں۔ اُنہوں نے بھی قیامِ پاکستان میں اسی طرح حصہ لیا تھا جس طرح یہاں کی مسلم اکثریت نے حصہ لیا تھا۔ مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت نے مل کر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی جنگ لڑی تھی۔ وہ برابر درجے کے شہری ہیں، ہر ایک کو اپنی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ آقا e نے جب ریاستِ مدینہ قائم کی تو آپ e نے یہود اور ان کے تمام clients کے ساتھ ایک political alliance قائم کیا تھا اور میثاقِ مدینہ کی صورت میں پہلا آئین اور دستور دیا تھا جس میں مسلمانوں اور یہود کو مل کر ایک single nation قرار دیا تھا۔ (حوالہ جات کے لیے ملاحظہ ہوں : سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، کتاب الاموال لابی عبید قاسم بن سلام، کتاب الاموال لابن زنجویہ اور دیگر کتبِ سیر و تاریخ۔)
إنَّ يَهُودَ بَنِی عَوْفٍ أُمّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ، لِلْيَهُودِ دِينُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِين دِينُهُمْ، مَوَالِيهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ.
(سيرت ابن هشام، 2 : 499. کتاب الأموال لابن زنجويه، 1 : 394. البداية والنهايه، 3 : 225)
’بے شک یہودِ بنی عوف، مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی اُمت قرار دیے جاتے ہیں مگر یہود کے لیے ان کا اپنا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا اپنا۔ اُمت ہونے میں وہ خود بھی شامل ہوں گے اور دونوں طبقات کے موالی بھی۔‘
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں ایک قوم اور ایک political entity بنا دیا تھا اور فرمایا کہ ہر کوئی اپنے مذہب میں آزاد ہوگا۔ ہمارا ملک رواداری کا ملک ہے، اسے برداشت اور رواداری کا ملک ہونا چاہیے، بین المذاہب اور بین الفرقہ ہم آہنگی کا ملک ہونا چاہیے، ہم یہاں برداشت کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ البتہ اقلیتوں کو اکثریت کے جذبات، احساسات، مذہبی نظریات اور متفقہ آئین کی پابندی کرنا ہوگی ورنہ پُرامن بقاے باہمی ناممکن ہوگی۔ لہٰذا تبدیلی کبھی طاقت، بندوق اور انتہا پسندی سے نہیں آئے گی۔ یہ راستہ اسلام دشمن بھی ہے اور عوام دشمن و پاکستان دشمن بھی۔ ہمیں یہاں امن کے ساتھ تبدیلی لانی ہے۔
3۔ اب اِس کے بعد تیسرا اور آخری راستہ بچ جاتا ہے جو ذہنوں میں آتا ہے، وہ تبدیلی بذریعہ انتخاب ہے۔ اب یہ بات بڑی اہم ہے۔ ہر شخص آج اس انداز سے سوچتا ہے، یہ ایک سوچ ہے جسے ٹیلی ویژن چینلز پر anchorpersons بھی بہت discuss کر رہے ہیں، اخبارات و رسائل کے آرٹیکلز میں discuss ہورہا ہے۔ جیسے کہ پہلے بیان کر چکا ہوں الیکشن کے نتائج نے نہ اس ملک کو گرداب سے نکالا ہے اور نہ اس کو صحیح قیادت عطا کی ہے، نہ اس ملک کو استحکام دیا ہے اور نہ ہی اس کی معیشت کو مستحکم کیا ہے۔ لہٰذا آئندہ اگر اسی نظام کے تحت یہ الیکشن ہوتے رہے تو اس طریقے سے سو بار الیکشن بھی ملک میں تبدیلی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ انتخابات معروف سیاسی و جمہوری خصوصیات کے حامل ہی نہیں رہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تبدیلی بذریعہ انتخاب کیسے ہوگی؟ انتخاب بے شک ایک آئیڈیل چیز ہے، میں اس کا قائل ہوں، مگر یاد رکھ لیں محض انتخاب کا نام جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت ایک بڑی کلیت ہے اور انتخاب اس کا ایک جزو ہے۔ آپ UN اور جنرل اسمبلی کی resolution پڑھیں جس میں انہوں نے جمہوریت کو define کیا ہے۔ انہوں نے صرف ان انتخابات کو حقیقی انتخاب کہا ہے جو درج ذیل دو شرائط کو پورا کرتے ہوں :
یہاں آزادانہ حق رائے دہی کہاں ہے؟ ہمارے مروجہ نظام سیاست نے تو 5 سال کے بعد ایک دن کی پولنگ کو جمہوریت کا نام دے رکھا ہے اور اس دن کی حالت بھی یہ ہوتی ہے کہ جتھے اور کنبے بھیڑ بکریوں کے طرح چودھریوں اور ٹھیکے داروں کے ذریعے گاڑیوں پر بٹھا کر پولنگ سٹیشن لائے جاتے ہیں اور سماجی دباؤ کے تحت اپنے اپنے پسندیدہ انتخابی نشان پر مہریں لگوائی جاتی ہیں۔ ووٹ لے کر پھر ان سے کوئی واسطہ تعلق نہیں رہتا۔ اگلے الیکشن تک حکومت جو بھی ظالمانہ، نامنصفانہ، عوام دشمن رویہ اختیار کرے جمہوریت اور جمہوری عمل ہی کہلاتا ہے۔ انتخابات اسی وقت حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں جب مندرجہ بالا دونوں شرائط پر پورے اترتے ہوں۔
بین الاقوامی ادارے اور ماہرین ایک concept پر متفق ہیں کہ جمہوریت صرف انتخاب کا نام نہیں بلکہ پورے نظام کا نام ہے۔
1۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ الیکشن صحیح معنوں میں شفاف ہو۔ پاکستان میں ووٹنگ کی credibility ہمیشہ مشکوک رہی ہے سابقہ الیکشن میں کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں سے پونے چار کروڑ ووٹوں کو الیکشن کمیشن نے جعلی declare کر دیا ہے۔ اس ملک میں الیکشن کی شفافیت کہاں تلاش کی جا سکتی ہے جو کہ جمہوریت کی پہلی شرط ہے۔
2۔ لوگوں کی participation یعنی شراکت بھی شفاف ہو اور grass root level سے کر top level تک عوام کی شراکت کے تسلسل سے جمہوریت وجود میں آتی ہے۔ ترقی پذیر جمہوری ممالک میں اس سے مراد یہ ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں پر عوام کو مواخذے کا حق ہو اور پالیسی ساز جب بھی پالیسیاں بنائیں تو ان پالیسیوں کو عوام چیلنج کر سکیں اور اگر ان کے مقاصد پورے نہ ہوں تو مؤاخذہ کر کے انہیں withdraw کروا سکیں۔ چنانچہ جمہوری ترقی پذیر ممالک میں عوام کی گرفت اور مؤثریت اتنی سخت ہوتی ہے کہ پارٹیز کو ایکشن لینا پڑ جاتا ہے۔ بسا اوقات کورٹس کو بھی ایکشن لینا پڑ جاتا ہے؛ تو یہ جمہوریت کی حقیقی تعریف ہے۔
3۔ جمہوری نظام تب کامیاب ہوتا ہے جب اس میں جمہوری حکمرانی ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو وہ نظام جمہوری نہیں۔ جمہوری حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ جان و مال کے تحفظ سمیت تمام human rights کی گارنٹی قوم کو حاصل ہو اور good governance قوم کو ملے۔ بین الاقوامی طور پر یہ امر طے شدہ ہے کہ اگر انتخاب کے نتیجے میں جمہوری حکمرانی وجود میں نہ آئے تو وہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت کا معنی شراکت (participation) یعنی عوام کی شراکت ہے۔ اس لیے جمہوریت کا economic democtaric ہونا ضروری ہے، social democracy ہونا ضروری ہے تب ہی political democracy وجود میں آئے گی۔ ان تمام طبقات کی شراکت کو یقینی بنانا جمہوریت کے لوازِم میں سے ہے۔
پاکستان کے نظامِ جمہوریت میں عوام کی شراکت کہاں ہے؟ پانچ سال کے اندر ایک دفعہ ووٹ ڈالنے کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ عوام کی سیاسی نظام میں مکمل (full fledge) شراکت چاہیے۔ جمہوری حکومت میں قانون کی حکمرانی چاہیے، جبکہ اس ملک میں قانون صرف غریب کے لیے بنتا ہے۔ اُمرائ، اراکینِ اسمبلی اور صاحبانِ اِقتدار قانون سے ماوراء ہیں۔ یہ اس لیے کہ طاقت ور حکمران طبقات کے بالمقابل قانون کمزور ہے۔ ان کے پاس قانون کو by pass کرنے کے ہزار ہتھ کنڈے ہیں۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ لاکھ بار فیصلہ دے، کمیٹیاں اور کمیشن بنا دے۔ حکومت سالہا سال انہیں لٹکاتی چلی جائے گی۔ دس دس سال تک فیصلے pending پڑے رہتے ہیں اس لیے کہ ملک میں قانون کمزور ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی سبھی باتیں کرتے ہیں مگر ہمارے ملک کی سیاست صرف نعرے دیتی ہے۔
4۔ اگلی شرط شفافیت (transparaency) ہے جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہر ایک کو ایک ایک چیز کی خبر ہوتی ہے کہ کیا فیصلے ہوئے ہیں، کیا پالیسیز ہیں اور یہاں کیا حد بندیاں ہیں۔ پھر اس حد کو کوئی کراس نہیں کرتا تا کہ کسی کے مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ نظام بھی شفاف ہے اور سیاسی نمائندے بھی اسے پراگندہ کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔
اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں کی اَوّلیں کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقائق کسی طرح بھی عوام تک نہ پہنچیں۔ ظاہر کچھ کرتے ہیں جبکہ پس پردہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ الیکشن ہوں یا اہم قومی معاملات حقائق ہمیشہ چھپائے جاتے ہیں۔ یہاں کرکٹ میچ تک fixed ہوتے ہیں۔ قوم کو ان تمام حقائق سے بے خبر رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی پر مبنی نظام چلتا رہے۔ جبکہ شفاقیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اِحتساب کا ایک مضبوط نظام قائم ہو اور عدل و انصاف ہر جگہ نظر آئے تاکہ عوام حکومتوں کا احتساب کر سکے۔
5۔ جمہوری نظام کا ایک حصہ آزادیِ رائے بھی ہے۔ مغربی دنیا میں شوہر کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی کس کو ووٹ دینے جا رہی ہے، شوہر کسی اور پارٹی کو ووٹ دیتا ہے عورت کسی اور کو، والدین کسی کو دے رہے ہیں اور اولاد کسی کو؛ یعنی اس حد تک اظہارِ رائے میں آزادی اور خودمختاری ہے۔ ایک شخص دوسرے کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتا، نہ پولیس اثر انداز ہوتی، نہ میڈیا، نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ طاقت ور لیڈرز اور نہ ان کے نمائندے۔ وہاں بندوق کے زور پر ووٹ لینے کا کوئی تصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے بغیر جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ لوگوں کو حقوق ملیں۔ طاقت اداروں کے ہاتھوں میں ہو۔ عام لوگوں کو بنیادی سہولیات ملیں۔ بجلی، گیس، ہیلتھ، تعلیم، روزگار، عدل و انصاف وغیرہ سب جمع ہوں تو پھر جمہوری حکومت بنتی ہے۔
آپ اپنے ایمان سے کہیے کہ جس ملک میں ننانوے فیصد افراد قوم کے وکلائ، تاجر، پروفیسرز، intelligentsia، پڑھا لکھا نوجوان، سائنٹسٹ، تعلیم یافتہ سفید پوش افراد یعنی جن طبقات کے پاس حرام کے ذرائع سے کمائے ہوئے کروڑوں روپے الیکشن میں جھونکنے کے لیے نہیں، وہ الیکشن میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟ پھر ان موجودہ سیاسی جماعتوں میں خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو یا درجنوں مسلم لیگز ہوں یا کوئی اور یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی کارکنوں کو جو ایم۔ اے ہوں، PhDs ہوں، ماہر scientists ہوں، economists ہوں، social sciences میں ماہر ہوں، financial management میں ماہر ہوں، مگر ہوں بالکل متوسط سفید پوش طبقہ سے۔ بفرض محال ان کو ٹکٹ دے دیں تو کیا وہ الیکشن جیت سکیں گے؟ سادہ جواب ہے : No۔ جو جماعت بھی ان باکردار، تعلیم یافتہ کارکنوں کو سیٹوں کے لیے ٹکٹ دے گی وہ جماعت الیکشن ہار جائے گی۔ سوال پھر یہ پیدا ہوا کہ دشمن کون ہوا؟ جماعت یاelectoral system monopolistic ۔ اس الیکشن میں باکردار، سفید پوش اور تعلیم یافتہ آدمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ یہی لوگ اپنے علم، تجربے اور پلاننگ سے حقیقی طور پر اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس الیکشن کے نظام میں ایسا کوئی شخص انتخاب نہیں لڑسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صالح اور نظریاتی کارکنوں کو مروجہ نظامِ سیاست قبول ہی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے آپ جب سیاسی جماعتوں سے بات کرتے ہیں کہ آپ پھر انہی کو ٹکٹ دے رہے ہیں جن سے قوم مایوس ہے تو ہر سیاست دان یہی جواب دیتا ہے کہ ’کیا کریں ان کے بغیر الیکشن نہیں لڑا جا سکتا!‘ بس یہاں جا کر ساری کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی اس انتخابی نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ چنانچہ یہ نظامِ انتخاب ہی عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے جس نے اسے سر سے پاؤں تک لوہے کی بیڑیوں سے جکڑ رکھا ہے۔ اس نظام میں جو جیتنے کے قابل ہیں ان کو winning horses کہتے ہیں، ان کو ہی put کریں گے تو آپ جیتیں گے۔ میں نے 1990ء میں بھی تعلیم یافتہ کارکنان پر مشتمل لوگ الیکشن کے لیے چنے تھے۔ جن میں ڈاکٹرز بھی تھے، لیکچررز بھی تھے پروفیسرز بھی تھے۔ PhDs بھی تھے اور وکیل بھی تھے۔ اور 2002ء میں بھی ایسے ہی بہترین صلاحیتوں کے حامل دیانت دار پڑھے لکھے لوگ ہمارے اُمیدوار تھے مگر کوئی نہیں جیت سکا۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اُن کے پاس بڑی بڑی برادریاں نہیں تھیں۔ ان کے پاس کروڑوں کا سرمایہ نہیں تھا۔ ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہیں تھی۔ ان کے پاس برادریوں کی بنیاد پر، دہشت گردی کی بنیاد پر، غنڈہ گردی کی بنیاد پر، پیسوں کی بنیاد پر ووٹ خریدنے کا اہتمام نہیں تھا۔ ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟ اُس کے پاس علم ہے، دیانت ہے، سفید پوشی ہے اور ملک و قوم کا درد ہے۔ اس کے پاس دماغ ہے، صلاحیت ہے، deliver کرنے کی capability بھی ہے یعنی وہ سارا کچھ ہے جس پر قوم فخر کر سکتی ہے۔ لیکن اس انتخابی نظام کے سامنے ان کی تمام صلاحیتیں صفر ہیں۔ حالانکہ اس ملک کی عوام میں talent کی کمی نہیں۔ اس میں امریکی قوم سے بھی بہتر talent ہے۔ خدا کا فضل ہے اس سرزمین پاکستان پر کہ یہاں کے ڈاکٹرز، انجینئرز، قانون دان، economists، sociologists وغیرہ مغربی اور یورپی اقوام سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں، کسی شعبے میں ہم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں لیکن نظام ہم سب کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہاں تو سیاست وہی کر سکتا ہے جس کے پاس طاقت ور گھوڑے یعنی winning horses ہوں۔ جہاں حکومت سازی کے لیے گھوڑوں کی سی مار دھاڑ پر مبنی طاقت درکار ہو وہاں دانش و حکمت اور علم و بصیرت وغیرہ کی کیا قدر ہوگی؟ فکر کی صلاحیت اور ذہنی قابلیت کو کتنا weight مل سکے گا؟
آپ کھیلوں کے میدان دیکھیں، ساٹھ کی دہائی میں پاکستان پوری دنیا میں فٹ بال میں آگے تھا۔ آج دنیا میں پاکستان کا فٹ بال کہاںہے؟ اس کے بعد ہاکی آگئی، ہاکی میں پاکستان ورلڈ چیمپین ہوتا تھا۔ آج کہاں گئی ہاکی۔ قوم وہی ہے، talent وہی ہے۔ پھر اس کے بعد کرکٹ نے جگہ لی۔ ایک طویل وقت تک پاکستان نے کرکٹ کے میدانوں میں راج کیا۔ آج کرکٹ کہاں ہے؟ یہی حال اسکواش اور اسنوکر کا ہوا۔ اس طرح یکے بعد دیگر ے مختلف گیمز کو دیکھتے چلے آئیں ورلڈ چیمپین رہے۔ اب کسی گیم میں پاکستان سرفہرست نظر نہیں آتا اور کل ہی کی بات ہے کہ کبڈی میں پاکستان کینیڈاسے ہار گیا۔ کھیلوں کے میدان میں پاکستان کے زوال کی مثالیں اس لیے بیان کیں تاکہ اس بڑے cause کو سمجھ سکیں جس نے کھیلوں کی طرح ملک کے ہر شعبے کو رُو بہ زوال کر رکھا ہے۔
ان پے در پے ناکامیوں کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادتیں جب اقتدار پر براجمان ہوتی ہیں تو وہ ہر شے سے پیسہ بناتی ہیں۔ انہیں کرکٹ سے بھی پیسہ چاہیے، ہاکی سے بھی پیسہ چاہیے، فٹ بال سے بھی پیسہ چاہیے، ہر میچ سے پیسہ چاہیے اور ہر کاروبار ہر dealing سے پیسہ چاہیے۔ جب پیش نظر صرف حصولِ زر رہ جائے تو پھر خودغرضی کے باعث معیار، talent، عزت و ناموس، خودداری اور ملکی وقار و سا لمیت سب کچھ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ سیاست و انتخاب ایک انڈسٹری بن گیا ہے۔ یہ ایک کارو بار ہے، جس پر سیاست دان پیسے لگا کر سرمایہ کاری کرتے ہیں، پھر کماتے ہیں۔ جب سیاست اور انتخاب انڈسٹری اور بزنس بن جائے تو اس سے قوم کس قسم کی تبدیلی کی توقع کر سکتی ہے۔ Talent برباد کر دیا گیا ہے، grooming نہیں ہے، نوجوانوں کے لیے کھیلنے کے میدان نہیں، گلیوں میں ہاکی کھیلتے ہیں، گلی ڈنڈا کی طرح گلیوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں، یوتھ کی مثبت سرگرمیوں کو فروغ نہیں دیا گیا۔ پاکستانی انجینئرز کے مستقبل کے لیے - جو دنیا کو جدید ٹیکنالوجی دینے کے قابل ہیں - کچھ نہیں کیا گیا، چاہے وہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ حالانکہ ٹی وی پر آئے روز ہمارے نوجوانوں کے کارنامے بتائے اور دکھائے جاتے ہیں۔ من حیث القوم انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑا talent ہے مگر اس talent کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ جن ممالک میں حقیقی جمہوری حکومتیں قائم ہیں وہاں ذاتی مفادات آڑے نہیں آتے، وہ ذاتی مفادات اور کرپشن سے پاک ہو کر اپنے عوام کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہیں، وہاں غیر جانب داری، انصاف، شفافیت اور خالصتاً میرٹ پر نظام قائم ہے۔ یہی وہ بنیادی صفات ہیں جن سے قومیں نشو و نما پاکر ترقی کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے کسی ایک فیلڈ میں بھی پاکستانی نوجوانوں کو facilitate کرنے کا نظام موجود نہیں۔ ان کو تو یہاں مارے جانے اور خود کشیوں پر تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ منتخب ہونے والے یہ لوگ سیاست کو بطور سرمایہ کاری اختیار کرتے ہیں تو 5 سال تک ان کا دھیان الیکشن پر خرچ کیے ہوئے مال کی واپسی اور آئندہ کے لیے اقتدار کو قابو میں رکھنے پر ہی لگا رہتا ہے۔
آنے والے انتخابات کا نقشہ کیا ہوگا؟ اس کا متوقع منظر نامہ بالکل واضح ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ کا تناسب (ratio) کم و بیش وہی رہے گا، دو فیصد سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کی اسی حیثیت کے ساتھ چند سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ آئے گی۔ سندھ میں اس کی جو اپنی پوزیشن ہے وہی رہے گی پنجاب میں تھوڑا فرق پڑے گا، سرحد اور بلوچستان میں تھوڑے فرق کے ساتھ مینڈیٹ ملے گا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ ملے گا اگرچہ نئی قوتوں کے میدان میں آنے سے یقینا کچھ plus، minus ہوگا۔ پنجاب میں کچھ سیٹیں مسلم لیگ (ن) لے گی، کچھ (ق) لیگ والے اور کچھ نئے امید وار بھی لیں گے؛ لہٰذا یہاں مینڈیٹ پہلے سے بھی زیادہ split ہو جائے گا۔ کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی جو شہری آبادیوں میں MQM کا مینڈیٹ ہے وہی رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اور سندھ کی چند سیٹیں جو باقی سندھی لے جاتے ہیں دوبارہ وہی لے جائیں گے۔ بلوچستان کی مختلف مقامی جماعتوں کا مینڈیٹ بھی اُسی طرح برقرار رہے گا۔ یعنی جو پارٹی رہنماؤں کی اپنی سیٹیں ہیں اور جہاں جماعتوں کی involvement ہے وہ اسی طرح same رہے گی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ANP ہے، مذہبی جماعتیں اور پیپلز پارٹی ہے وہاں بھی مینڈیٹ split ہوگا۔ اس طرح پہلے سے زیادہ split مینڈیٹ کے ساتھ نئی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جو فیصلوں میں مزید کمزور اور بے اختیار ہوگی۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات میں سویپ کر جائے گی تو اس خواب سے باہر آجائے۔ یہ پاکستان کے کل موجودہ انتخابات کا متوقع انجام ہے۔
جب بڑی بڑی پارٹیاں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں رہ کر قوم کی بہتری، بھلائی اور ترقی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں تو اب جب اکثریت کم ہوگی تو وہ بلیک میلنگ کا شکار ہوں گی اور اگلے پانچ سال compromising اور جوڑ توڑ میں صرف کر دیں گی۔ کیونکہ جب چھ چھ اور سات سات اراکین پر مشتمل گروپس کو ملا کر اکثریت بناتے ہیں تو پارٹی کے اندر بھی مفادات کے حصول میں بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ سارا دھیان ملک بچانے کی بجائے حکومت بچانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا اقتدار بچانے اور حکومت چلانے کے لیے 80 کی تعداد تک وزارتیں کرنی پڑتی ہیں لیکن اس پر بھی صبر نہیں ہوتا۔ پھر ملکی وسائل کے لوٹنے پر بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے۔ بجٹ بوجھ برداشت نہیں کرتا چنانچہ ملک کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ سارا بوجھ غریب عوام کی جیبوں پر پڑتا ہے۔ جب اس طرح حکومت بنتی ہے تو باقی اراکین اپوزیشن میں آجاتے ہیں۔ اقتدار والا اقتدار کو بچانے کے لیے دوسری پارٹیوں کے ارکان سے ساز باز کر کے انہیں توڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ اپنی پوزیشن مستحکم کرے۔ دوسری طرف اپوزیشن اس کو گرانے کے لیے ساز باز اور جوڑ توڑ کرتی رہتی ہے۔ یوں اگلے الیکشن تک کا دورانیہ کشمکش میں گزر جاتا ہے۔
Split مینڈیٹ جتنا زیادہ آتا ہے اسٹیبلشمنٹ کو اُسی قدر کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور ملکی سیاست کے جوڑ توڑ میں اس کا عمل دخل بہت بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو جوڑتے ہیں، ملاتے ہیں اور اگر ان کی براہِ راست مداخلت اتنی نہ بھی ہو تو بہر حال گورنمنٹ تو چونکہ بنانی ہے جب اکثریت کسی کے پاس نہیں ہوتی تو مختلف دھڑے وجود میں آتے ہیں اور ان کا اتحاد مفادات کا اتحاد ہوتا ہے۔ قومی ترجیحات کی انہیں کیا پروا! اس میں کرپشن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ چنانچہ بلا تخصیص چھوٹے بڑے علی الاعلان دونوں ہاتھوں سے قومی دولت سمیٹتے ہیں۔
سب برسرِ اقتدار سیاسی جماعتیں دراصل کسی واضح منشور کے بغیر بس یک نکاتی ایجنڈے - اقتدار و مفادات - کے تحت حکومت میں آتی ہیں اس لیے قومی فلاحی منصوبے ان کے ایجنڈے پر کبھی نہیں ہوتے۔ ان کا ایجنڈا صرف اقتدار ہوتا ہے۔ حکومت میں شامل سارے گروپ اقتدار کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔ یہ تعلق ان کو اکٹھا رکھتا ہے، وہ اس کو بچانے کی فکر میں 5 سال گزار دیتے ہیں؛ اور اپوزیشن اس کے برعکس یہ پانچ سال ان کو گرانے میں لگا دیتی ہے۔ اس لیے میں یہ بات categorically کہہ رہا ہوں کہ اس کرپٹ نظامِ اِنتخاب سے مثبت تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ تبدیلی کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔
کوئی شک نہیں کہ انتخابات جمہوریت کی ایک گاڑی ہے، قوم اِس میں اس لیے بیٹھتی ہے کہ یہ جمہوریت کی منزل تک لے جائے۔ لیکن اگر گاڑی میں خطرناک قسم کی خرابیاں آجائیں، انجن فیل ہو جائے، یا اس سے تیل بہ کر آگ لگ جائے، یا گاڑی کی بریکس فیل ہو جائیں تو اس سے مہلک حادثہ ہو سکتا ہے اور سواریوں کی ہلاکت اور جان کے تلف ہونے کا ڈر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب گاڑی میں خرابی واقع ہو تو اس کے چلانے پر اصرار نہ کیا جائے بلکہ اسے ورکشاپ بھیجا جاتا ہے تاکہ جو جو خرابیاں موجود ہیں انہیں دور کرکے محفوظ سفر کے لیے تیار کیا جاسکے۔ چنانچہ مرمت کرا کے اس گاڑی کو پھر track پہ ڈالتے ہیں اور سفر پر روانہ کرتے ہیں، تب سلامتی کے ساتھ منزل تک پہنچنے کا امکان ہوتا ہے۔
نظامِ انتخاب کی جس گاڑی کے ذریعے آپ جمہوریت کی آئیڈیل منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں اس میں بڑی خطرناک خرابیاں آچکی ہیں۔ یہ خرابیاں موجودہ دور سے نہیں بلکہ پچھلے چالیس پچاس برس سے مسلسل بڑھتی جارہی ہیں اور اب انتہا پر جا چکی ہیں۔ بنابریں اس گاڑی کے اب مزید سلامتی کے ساتھ چلنے اور منزل تک پہنچنے کے کوئی امکانات نہیں رہے۔
اس سیاسی نظام میں شراکت داری کی مثال ان مسافروں کی مانند ہے جو کراچی جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے اس ٹرین کا رُخ پشاور کی طرف ہوتا ہے۔ اب اگر وہ سالوں تک اس پر سوار رہیں مگر منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔
پاکستان میں موجود نظام انتخاب کے ذریعے قائم ہونے والی اسمبلیوں کی مثال نمک کی کان کی طرح ہے ہر کہ در کان نمک می رود نمک می شود (جو اس میں گیا وہ نمک بن کر رہ گیا)۔ اب اگر 20 یا 25 منتخب افراد حقیقی تبدیلی کے خواہاں بھی ہوں تو چار سو کی اسمبلی میں ان کی آواز کون سنے گا! نتیجہ یہ ہوگا کہ گندے انڈوں میں رہ کر وہ بھی گندے ہو کر غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ ان کو یقینا دو میں سے کسی ایک پلڑے میں جانا ہوگا؛ اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے گورنمنٹ میں شامل ہونا ہو گا یا اپوزیشن میں۔ اگر حکومت میں شامل ہوئے تو بس اقتدار تمام تر برائیوں سمیت ان کی منزل ہوگی اور 5 سال اقتدار بچانے پر صرف ہوں گے اور قوم کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر اپوزیشن میں ہوں گے تو 5 سال اقتدار پر بیٹھی حکومت کو گرانے پر صرف ہوں گے ۔ اس کے سوا اس اسمبلیوں نے کچھ نہیں دینا۔ میں خود اسمبلی ممبر رہا مگر جب یہ اَمر مجھ پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا تو میں نے اس کو چھوڑنے میں ایک لمحے کا توقف نہیں کیا۔ اگر کوئی جماعت یہ سوچے کہ 400 کی اسمبلی میں وہ دو سو سیٹیں یا سوا دو سو سیٹیں لے کے آجائے تو اِس وقت سہانے خواب کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
اگر خرابی کی شکل میں گاڑی کو ورکشاپ بھیجنے پر آپ متفق ہیں تاکہ مرمت کرانے کے بعد اسے ٹریک پر ڈالا جائے تو میں تجویز کروں گا کہ موجودہ نظامِ انتخابات کی خطرناک حد تک خراب گاڑی کو اِس وقت ٹریک پر چلنے سے روک دیا جائے۔ لیکن سوال یہ پیداہو گا کہ اسے چلنے سے روکے گا کون؟ سیاسی جماعتیں کبھی نہیں روکیں گی، ان کا مفاد اور مستقبل اور ان کی سیاسی زندگی کا تحفظ اور ان کا بزنس غرضیکہ ان کا جینا مرنا انہی انتخابات پر منحصر ہے۔
سیاسی لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کا اس مروّجہ سیاسی نظام کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لیے وہ اس نظام کو بچاتے ہیں اور ہر وقت نظام بچانے کی رٹ لگائے رہتے ہیں کیونکہ یہ نظام اُن کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ذرا سوچیے! یہ کیسا نظام ہے جہاں عوام دو وقت کی روٹی کو ترس جائیں؟ عزتِ نفس اور بنیادی حقوق تک سے محروم کر دیے جائیں اور جس میں ناانصافی اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہو، ملکی سا لمیت اور خود مختاری کا سودا کر دیا جائے، قومی اداروں اور ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں اس حکومت نے اپنے مفادات کی خاطر ہمیں غیروں کے ہاتھوں غلام بنا دیا ہو؟ جب وہ اس نظام کو قائم رکھنے کی بات کرتے ہیں تو دراصل اِس کرپٹ نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اس کرپٹ نظام کے حمایتی دانش ور جمہوریت کی خوبیاں بیان کر کے دراصل پاکستانی عوام کو ورغلاتے ہیں۔ وہ جمہوریت کے ثمرات کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ یاد رکھیں! یہ ان کی بدنیتی ہے۔ ورنہ جن ملکوں کی وہ مثالیں دیتے ہیں اُن میں امریکہ کو لیں تو وہاں دو پارٹیز سسٹم ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی جو اس وقت حکومت کر رہی اور ری پبلکن پارٹی۔ ایک کے پاس 240 سیٹیں ہیں اور دوسرے کے پاس 192۔ بلیک میلنگ کے امکانات نہیں ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کی پوری تاریخ میں دو پارٹیز رہی ہیں : کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی۔ ایک حکومت میں جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہوتی ہے۔ اب پہلی دفعہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی 57 سیٹیں لے کر سیاست میں آئی ہے تو کنزویٹو اور لبرل دونوں نے مل کر حکومت بنائی ہے۔ ان ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں کبھی 10، 15 جماعتوں اور دھڑوں کو ملاکر حکومت بنانے کی نوبت نہیں آتی۔ لہٰذا ان کی جمہوریت پائداری کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔
کینیڈا کو لے لیں تو وہاں تین بھی پارٹیاں ہیں : کنزویٹو پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی اور لبرل پارٹی آف کینیڈا۔ بالعموم دو پارٹیوں سے کام چل جاتا ہے لیکن ضرورت پڑے توتیسری چھوٹی پارٹی کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے، کوئی جوڑ توڑ نہیں کیا جاتا، عموماً ایک پارٹی ہی حکومت بناتی ہے۔
جرمنی میں اگرچہ زیادہ پارٹیاں ہیں مگر بڑی پارٹیاں دو ہی ہیں ان میں کبھی ایک پارٹی تنہا یا ایک آدھ پارٹی کو ملا کر حکومت بناتی ہے۔
اِسی طرح اٹلی میں دو بڑی پارٹیاں ہیں، 276 سیٹیں ایک کے پاس ہیں اور 217 دوسری کے پاس۔ کسی دوسری پارٹی کو ملانے کی ضرورت نہیں۔ اگر کبھی ساتھ ملانے کی ضرورت ہو جائے تو صرف ایک پارٹی کا اِضافہ ہوتا ہے اور کوئی بلیک میلنگ کے امکانات نہیں ہوتے۔
اسپین میں دو پارٹیز سسٹم ہے : Spanish Socialist Worker اور پیپلز پارٹی۔ ایک کی 169 سیٹیں ہیں، دوسری کی152۔ تیسری پارٹی 10 سیٹوں کے ساتھ ہے لیکن اُسے ملانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
اب جنوبی کوریا کو لیں۔ اس میں گرینڈ نیشنل پارٹی کی 171 سیٹیں ہیں جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی 87 سیٹیں ہیں۔ تیسری پارٹی کی 16 سیٹیں ہیں اس کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں۔
ان ممالک میں عموماً مجموعی طور پر two پارٹیز سسٹم ملتا ہے جس سے مجموعی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ چند مثالیں اس لیے دیں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ جہاں حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے عوام مستفید ہوتے ہیں وہاں عموماً دو پارٹیز سسٹم ہے، اس لیے وہاں بلیک میلنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
اِس کے برعکس پاکستان کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں کئی سیاسی جماعتیں اور سیاسی دھڑے ہیں۔ ہر دھڑا چند سیٹیں لے کر حکومت میں شامل ہونے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بسا اوقات 10، 12 سیٹوں والے سودے بازی کر کے صوبے کے وزیر اَعلیٰ کے عہدے کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں کیونکہ وہ جس کے ساتھ ملتے تھے حکومت اُسی کی بنتی تھی۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور سادہ اکثریت کے لیے کسی پارٹی کو 5 یا 7 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا 5 یا 7 سیٹوں والے بھی اسے بلیک میل کرتے ہیں اور اپنی پسند کی وزارتوں اور مفادات کے لیے سودے بازی کرتے ہیں، وہ کبھی حکومت چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی پھر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ گئے کیوں تھے اور اب آئے کیوں ہیں؟ یہ ساری بلیک میلنگ کی سیاست ہے۔ اس میں قوم کے لیے کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ جو شخص اور جو پارٹی تبدیلی کے لیے اس کرپٹ نظام کا حصہ بنے گی وہ بھی اِسی میں مل کر خاک ہو جائے گی اور تبدیلی کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی۔ نوجوان نسل پھر مایوس ہوگی۔ اس نظامِ اِنتخاب نے نہ پہلے اس قوم کو کچھ دیا ہے نہ آئندہ دے گا۔ جو تباہی اور بربادی فوجی آمروں نے پیدا کی ہے، وہی تباہی اور بربادی مختلف شکلوں میں ان دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی پیدا کی ہے، نتائج ملے جلے ہیں اگرچہ دونوں کی خرابیوں کی نوعیت جدا جدا ہے لیکن اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ملک و قوم کو برباد کرنے میں دونوں برابر کے حصے دار ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کی گاڑی کیوں ٹریک سے نہیں اُترتی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ جمہوریت کے ثمرات کے باعث وہاں عوام خوش حال ہیں اور جمہوری سسٹم مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہاں جمہوریت مقدم ہے، شعور کی بیداری مقدم ہے۔ ان ممالک میں اسکول جانے والے چھوٹے بچوں کو بھی اپنی سیاسی پارٹیوں کے منشورات اور ترجیحات کا پتہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ووٹ ڈالنے کی عمر میں پہنچنے تک ان میں مناسب آگہی پیدا ہوچکی ہوتی ہے۔ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا۔ میرے ووٹ سے کیا change آئے گی اور کیا نقصان ہوگا؟ مغربی دنیا میں ووٹرز کو پتہ ہے کہ اُس پارٹی کی ہیلتھ پالیسی کیا ہے؟ اسی طرح ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے جس پارٹی کو وہ ووٹ دے رہے ہیں، اس کے آنے سے immigration پالیسیز میں کیا فرق آئے گا؟ ووٹرز کو پتہ ہوتا ہے کہ jobs پر کیا فرق پڑے گا؟ دہشت گردی یا inland security کی پالیسیوں میں کتنا فرق آئے گا؟ سوشل انکم سپورٹ کی کیا پالیسی بنے گی؟ ٹیکسز اور محصولات کی مدّ میں کیا فرق آئے گا؟ الغرض جمہوریت کی تعریف ہی یہ ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے ایک ایک ووٹر کو یہ پتہ ہو کہ میرا ووٹ ایک change لائے گا اور میں اپنا ووٹ کس پالیسی کے لیے دے رہا ہوں۔ وہ زرداری صاحب کو، نواز شریف صاحب، اسفند یار ولی صاحب، الطاف حسین صاحب کو ووٹ نہیں دیتے؛ وہ چوہدری صاحب کو، خان صاحب کو بلوچستان کی جماعتوں کو یا علماء کو ووٹ نہیں دیتے۔ وہ فقط ایک نعرے کو سارا منشور سمجھ کر کبھی دھوکہ نہیں کھاتے۔ انہیں اپنے حقوق کے بارے میں سو فیصد clarity ہوتی ہے۔ اُن کی پالیسز، ان کی ترجیحات میں واضح فرق ہوتا ہے، ان کے واضح نظریات ہوتے ہیں۔ بھلے سو فی صد کامیاب ہوں یا نہ ہوں، مگر کچھ نہ کچھ results آتے ہیں۔
لہٰذا وہ نام نہاد پاکستانی نظامِ جمہوریت کے دانش ور جو جمہوریت کا نام لیتے نہیں تھکتے اور پاکستان میں موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں ان سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ نظام ہے کیا؟ اگر اسی کا نام نظام ہے تو پھر بد نظمی کسے کہتے ہیں؟ آپ کس نظام کی بات کرتے جو قوم کو کرپشن، فراڈ، ناانصافی، جہالت، قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ دے اور اسے ذلت و رُسوائی سے ہم کنار کرے۔
اِنتخاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ ووٹر کو ووٹ ڈالتے ہوئے یہ پتہ ہو کہ میرے ووٹ سے کیا change آسکتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام اور طرزِ انتخاب ہے کہ اگر پارٹیوں کی پالیسیز میں کوئی فرق اگر ہے تو وہ گالیوں کا فرق ہے، دنگے فساد کا فرق ہے۔ وہ فرق برادری اِزم اور خاندانی وابستگیاں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو آج تک سیاسی طور پر پوجتے ہوئے ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں کسی منشور سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں شعور کا عالم یہ ہو اور یہ بھی کوئی نہ پوچھے اور نہ جانے اور سمجھے کہ ان پارٹیز کی پالیسیز میں کیا فرق ہے تو وہاں کس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے؟ پیپلز پارٹی 70ء میں جب پہلی بار آئی تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دور تھا، مسلم لیگیں اور دوسرے لوگ ایک طرف تھے۔ اس وقت نظریات کا ایک فرق ضرور تھا، بعد میں نتائج کیا آئے یہ الگ بحث ہے۔ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی اور ایک ڈائریکشن بنی، قومی پالیسی کا ایک نقشہ تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور جانے کے بعد آنے والے سب اَدوار دیکھ لیں ان میں سوائے الفاظ کے، نعروں کے، تقریروں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔ اب ترجیحات ہیں نہ پالیسیز ہیں اور نہ ہی پلاننگ۔ صرف ایک دوسرے کو گالی گلوچ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تہمتیں ہی پارٹیوں کا کل منشور ہے۔
کیا اس نظام سے آپ اِس ملک کو بچانا چاہتے ہیں؟ اِس سیاسی اور انتخابی روِش سے تبدیلی کی اُمید رکھتے ہیں کہ روشن سویرا طلوع ہو؟ خدارا! اِس سازش کو سمجھیں۔ ابھی تین چار سال میں جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا کیا یہ بھیانک مستقبل کی خبر نہیں دے رہا؟ اب پھر وہی پرانا میلہ لگے گا، ٹکٹیں بکیں گی، پارٹیاں میدان میں کودیں گی، جلسے شروع ہو جائیں گے اور لوگ جوش و خروش سے آجائیں گے، کہیں ایمانی جوش ہوگا تو کہیں جمہوری جوش ہوگا اور کہیں نظریاتی جوش ہوگا۔ بس پوری قوم دوبارہ بے وقوف بنے گی، الیکشن ہوگا، ووٹ ڈالیں گے، جب نتائج آئیں گے تو اِسی طرح کی ایک نئی پارلیمنٹ تمام تر خرابیوں کے ہمراہ دوبارہ آپ کے سامنے کھڑی ہوگی۔ Split mandate کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کے لیے پھر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گا اور قوم گئی جہنم میں! یہ ہے پاکستان کا نظام جمہوریت اور طرز انتخاب۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے قوم کو کیا دیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ آپ کون ہیں پوچھنے والے، ہمیں قوم نے mandate دیا ہے۔ لوگوں کے ووٹوں سے آئے ہیں۔ اگر ہم نے کچھ نہ دیا تو اگلے الیکشن میں قوم ہمیں مسترد کردے گی۔ اس جملے کے سوا سترہ کروڑ عوام کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ حالانکہ الیکشن کیا ہے؟ یہ دراصل 5 سال کے بعد اس قوم کو پھر سے بے وقوف بنا کر انہیں اس بات کا علم ہے کہ مروّجہ باطل سیاسی نظامِ اِنتخاب کے ہوتے ہوئے کسی میں ان کو مسترد کرنے کی طاقت نہیں۔ تبھی تو دس دس مرتبہ منتخب ہو کر تیس تیس سالوں سے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اے اہلیانِ پاکستان! جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا، ہمیں اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوگی اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا؛ سب کچھ لا حاصل ہے۔
عزیزانِ وطن! جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تبدیلی مسلح طاقت سے نہیں آسکتی، یہ دہشت گردی کا راستہ ہے۔ نہ فوج کے ذریعے آسکتی ہے کیونکہ یہ آمریت کا راستہ ہے اور نہ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے کیونکہ یہ کرپشن کھولنے کا راستہ ہے۔ اب آخری بات سن لیجیے! اگر قوم عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے، اس قوم کے نوجوان پڑھے لکھے لوگ وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بزرگوں کا حاصل کیا ہوا یہ وطنِ عزیز غیروں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس نظامِ انتخاب کے خلاف بغاوت کے لیے کھڑے ہو جایئے، یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اس نظامِ انتخاب کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کی مثالیں خلیج اور عرب ممالک کی حالیہ لہر میں موجود ہیں جس کے تحت مصر، لیبیا اور تیونس کے لوگوں نے تبدیلی کو ممکن بنایا۔ جس طرح ایران کے عوام نے شہنشاہیت کو رخصت کیا۔ یہ نظامِ انتخاب آپ کا رضا شاہ پہلوی ہے جس کے خلاف ایرانی قوم اٹھی تھی، یہ نظام انتخاب آپ کے ملک کا قذافی ہے جس کے خلاف لیبیا کی عوام اُٹھی، اِس نظام کے خلاف اُس طرح اُٹھیے جس طرح تیونس اور مصر کے لوگ اُٹھے اور عشروں سے قائم آمریت کا تختہ الٹ دیا۔
اب ایک ہی چوائس ہے : سیاست بچائیے یا ریاست بچائیے۔ یہ ملک ہمارے بزرگوں نے سیاست کی اس خود غرضانہ مشق کے لیے نہیں بنایا تھا، لہٰذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس ملک کی سیاست نہیں بلکہ ریاست بچائیں، اس کے آئین و دستور کو بچائیں۔ اس نظامِ اِنتخاب کے خلاف بغاوت ہی واحد تبدیلی کا راستہ ہے۔ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کون لیڈر ہے جو یہ تحریک برپا کرے؟ سن لیں! مصر میں کوئی لیڈر نہیں تھا، لیبیا میں کوئی لیڈر نہیں تھا، تیونس میں کوئی لیڈر نہیں تھا۔ لیڈروں کا انتظار نہ کریں، وہ خود بخود قوم میں پیدا ہوجائیں گے۔ بات صرف اٹھنے کی ہے اگر گھر بیٹھ کر مرجانا ہے تو یہ بزدلوں اور کم حوصلہ لوگوں کی موت ہے، بے مقصد موت ہے، ہمیں عزت و ناموس کی خاطر باہر نکلنا پڑے گا۔ اس الیکشن کو مسترد کریں اور پوری قوم سڑکوں پر آجائے۔ جب پوری قوم سڑکوں پر آجائے گی اور کہے گی کہ یہ نظام ہمیں نہیں چاہیے تو سپریم کورٹ قوم کی آواز پر ایکشن لینے کی پابند ہو جائے گی۔ قومی اتفاق رائے سے (جس کا طریقہ موجود ہے) ایک غیر سیاسی اور غیر فوجی قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں اعلی کردار کی بے داغ سیاسی شخصیات یا عدلیہ کے اچھی شہرت کے ایماندار ریٹائرڈ جج صاحبان، فوجی، سماجی حلقوں کے صالح اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل اَشخاص اور مذہبی حلقوں سے خوفِ خدا رکھنے والے مصلحین شامل ہوں۔ جو ملک سے برائیوں کا قلع قمع کریں۔ کرپشن اور لوٹ مار کی اندھیر نگری کو روکیں اور مقروض معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کریں۔ اس کے بعد حقیقی جمہوری طریق پر ایمان دار، مخلص اور دردِ دل رکھنے والے اَرکانِ اسمبلی کا چناؤ عمل میں لایا جائے جو ملک کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیں۔
لوگو!۔۔۔۔۔۔ اُٹھو! پاکستان کو بچانے کے لیے میدانِ عمل میں کود جاؤ، ۔۔۔۔۔ یہی ملک کو بچانے اور اس میں change لانے کی واحد سبیل ہے۔ میڈیا اور قوم اس نقطہ نظر پر مباحث کا آغاز کریں تاکہ ایک قومی اتفاق رائے develop ہو۔ اس سے قوم کے اندر شعور پیدا ہوگا اور وہ تبدیلی کے لیے تیار ہوں گے۔ اس موقع پر میڈیا کے سامنے یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ انقلاب ہرگز سول نافرمانی کی کوئی تحریک نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی مشینری کے خلاف کوئی کوشش ہوگی۔ یہ ایک پُرامن اِنقلابی جد و جہد ہے تاکہ قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہو اور انتخابات میں حصہ لینے سے صاف انکار کر دے۔ قوم کو متحد ہو کر گھروں سے باہر نکلنے کی دعوت یہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے دی ہے کہ اسے یہ باطل، غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظامِ سیاست ناپسند ہے اور وہ تبدیلی چاہتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved