52 /1. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَاسِعَ الْجَبِيْنِ، أَزَجَّ الْحَوَاجِبِ، سَوَابِغَ فِي غَيْرِ قَرَنٍ، بَيْنَهُمَا عِرْقٌ، يُدِرُّهُ الْغَضَبُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
1: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية /37، الرقم: 8، وابن حبان في الثقات، 2 /145.146، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /155156، الرقم: 414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /154.155، الرقم: 1430، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /422، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /273.
’’حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کشادہ پیشانی والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اَبرو مبارک (کمان کی طرح) خم دار، باریک، گنجان اور جدا جدا تھے اور دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو حالتِ جلال میں نمایاں ہو جاتی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں اور ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
53 /2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرضی الله عنه قَالَ: کَانَ صلی الله عليه واله وسلم أَجْلَی الْجَبِيْنِ إِذَا طَلَعَ جَبِيْنُه مِنْ بَيْنِ الشَّعَرِ، إِذَا طَلَعَ فِي فَلْقِ الصُّبْحِ أَوْ عِنْدَ طِفْلِ اللَّيْلِ أَوْ طَلَعَ بِوَجْهِه عَلَی النَّاسِ تَرَاؤا جَبِيْنَه کَأَنَّه ضَوْءُ السِّرَاجِ الْمُتَوَقِّدِ قَدْ يَتَـلَأْلَأُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
2: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 /302، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /359.
’’حضرت ابو ہریرہرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی مبارک جب بالوں کے بیچ میں سے نمودار ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے روشن پیشانی والے ہوتے، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صبح صادق کے وقت یا سرِ شام لوگوں کی طرف تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی مبارک کو یوں دیکھتے گویا وہ روشن چراغ کی روشنی ہے جو چمک رہی ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
54 /3. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کُنْتُ قَاعِدَةً أَغْزِلُ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَخْصِفُ نَعْلَه، فَجَعَلَ جَبِيْنُه يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُه يَتَوَلَّدُ نُوْرًا، فَبُهِتُّ، فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: مَا لَکِ يَا عَائِشَةُ، بُهِتِّ؟ قُلْتُ: جَعَلَ جَبِيْنُکَ يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُکَ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا. وَلَوْ رَآکَ أَبُوْ کَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ لَعَلِمَ أَنَّکَ أَحَقُّ بِشِعْرِه. قَالَ: وَمَا يَقُوْلُ، يَا عَائِشَةُ، أَبُوْ کَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ؟ فَقَالَتْ: يَقُوْلُ:
وَمُبَرَّئٍ مِنْ کُلِّ غُبَّرِ حَيْضَة
وَفَسَادِ مُرْضِعَةٍ وَدَائِ مُغْيَلِ
فَإِذَا نَظَرْتَ إِلٰی أَسِرَّةِ وَجْهِه
بَرِقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَهَلَّلِ
قَالَتْ: فَقَامَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيَّ، وَقَالَ: جَزَاکَ اﷲُ يَا عَائِشَةُ عَنِّي خَيْرًا، مَا سُرِرْتِ مِنِّي کَسُرُوْرِي مِنْکِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْخَطِيْبُ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْمِزِّيُّ: قَالَ أَبُوْ عَلِيٍّ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ: حَسَنٌ عِنْدِي.
3: أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 2 /46، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /422، الرقم: 15204، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 13 /252.253، الرقم: 7210، وابن عساکر فی تاريخ مدينة دمشق، 3 /307.308، 59 /424، والمزي في تهذيب الکمال، 28 /319، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 /76.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں بیٹھی سوت کات رہی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے نعلین مبارک گانٹھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک سے نور پھوٹنے لگا، میں اس (حسین) منظر میں مستغرق ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مبہوت سی ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپک رہا ہے اور وہ پسینہ نور پیدا کر رہا ہے۔ اگر (عرب کا مشہور شاعر) ابو کبیر ہذَلی اس وقت آپ کو دیکھ لیتا تو یقینا وہ جان لیتا کہ اس کے شعر کے اصل حق دار تو آپ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! ابوکبیر ہذَلی کیا کہتا ہے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:
’’میرا ممدوح حیض و نفاس اور ولادت و رضاعت ہر ایک قسم کی آلودگیوں سے پاک ہے، جب تو اس کے چہرے کے (منور) نقوش دیکھے تو (تجھے محسوس ہو گا) گویا ’’عارضِ تاباں‘‘ ہے جو چمک رہا ہے۔‘‘
’’سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میری طرف تشریف لائے اور میری آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تجھے جزاے خیر عطا فرمائے اتنا تم مجھ سے کبھی خوش نہیں ہوئیں، جس قدر میں تم سے خوش ہوا ہوں۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم، بیہقی، خطیب بغدادی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام مزی نے فرمایا: امام ابو علی صالح بن محمد بغدادی نے فرمایا ہے: میرے نزدیک یہ حدیث حسن ہے۔
55 /4. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ أَنَّه سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَرضی الله عنه يَصِفُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: کَانَ رَجُـلًا رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَی الطُّوْلِ أَقْرَبُ، شَدِيْدَ الْبَيَاضِ، أَهْدَبَ أَشْفَارِ الْعَيْنَيْنِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
4: أخرجه الطبراني في مسند الشاميين، 3 /19، الرقم: 1717، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /269، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /214، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 6 /17، والسيوطی في الخصائص الکبری، 1 /125.
’’حضرت سعید بن مسیبرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت ابوہریرہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میانہ قد تھے جو کہ طوالت کے زیادہ قریب تھا، نہایت سفید رنگت والے تھے، دراز پلکوں والے تھے۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved