179 / 1. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِي صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتّٰی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ: هٰذِه طَابَةُ وَهٰذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب نزول النبي صلی الله عليه وآله وسلم الحجر، 4 / 1610، الرقم: 4160، وأيضًا في کتاب الزکاة، باب خرص التمر، 2 / 539، الرقم: 1411، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1785، الرقم: 1392، وأيضًا في کتاب الحج، باب أحد جبل يحبنا ونحبه، 2 / 1011، الرقم: 1392، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 424، الرقم: 23652، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 423، الرقم: 37006، وابن حبان في الصحيح، 10 / 355، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 372، الرقم: 12889، وأبو نعيم في دلائل النبوة / 171، الرقم: 212.
’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اُس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
180 / 2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی أُحُدٍ وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَه بِرِجْلِه وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ، أَوْ شَهِيْدَانِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 3 / 1348، الرقم: 3483، وأيضًا في باب لو کنت متخذًا خليلاً، 3 / 1344، الرقم: 3472، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان رضي الله عنه، 5 / 624، الرقم: 3697، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الرقم: 4651، وابن حبان في الصحيح، 15 / 280، الرقم: 6865، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 43، الرقم: 8135.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم تھے۔ اُن سب کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ (جوشِ مسرت سے) وجد میں آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘
اِسے امام بخاری، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
181 / 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُوْ بَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير رضي الله عنهما، 4 / 1880، الرقم: 2417، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، 5 / 624، الرقم: 3696.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘
اِسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
182 / 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی جَبَلِ حِرَاءٍ فَتَحَرَّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اسْکُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير رضي الله عنهما، 4 / 1880، الرقم: 2417، وأبو داود عن سعيد بن زيد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 211، الرقم: 4648، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 419، الرقم: 9420، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 55، الرقم: 8190، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 351، الرقم: 31948.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے، وہ ہلنے لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حرا ٹھہرجا! تجھ پر صرف نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
183 / 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی حِرَاءٍ فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اثْبُتْ حِرَاءُ مَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رضي الله عنهم. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ.
5: أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 333، الرقم: 2445، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 159، الرقم: 11671، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 622، الرقم: 1446، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 / 222.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبلِ حراء پر قیام فرما تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حراء ٹھہرجا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اور اس وقت وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ث تھے۔‘‘ اِسے امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
184 / 6. عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُـلَانٌ إِلَی الْکُوْفَةِ أَقَامَ فُـلَانٌ خَطِيْبًا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ رضي الله عنه فَقَالَ: أَلَا تَرَی إِلٰی هٰذَا الظَّالِمِ فَأَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ إِيْثَمْ قَالَ ابْنُ إِدْرِيْسَ: وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ آثَمُ قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ عَلٰی حِرَاءٍ: اثْبُتْ حِرَاءُ إِنَّه لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رضي الله عنهم قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَکَّأَ هُنَيَةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
6: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 211، الرقم: 4648، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم: 1638، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 351، الرقم: 31948، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 55، الرقم: 8190، والبزار في المسند، 4 / 91، الرقم: 2163، وابن حبان في الصحيح، 15 / 457، الرقم: 6996، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 273، الرقم: 890.
’’حضرت عبد اللہ بن سالم مازنی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب فلاں شخص کوفے میں آیا اور اُس نے فلاں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑا کیا تو حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تم اِس ظالم کو نہیں دیکھتے۔ نو (9) حضرات کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے متعلق بھی گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ ابن ادریس نے کہا: عرب (ایثم کی بجائے) آثَمُ کہا کرتے تھے۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ نو حضرات کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ حراء کے اوپر تھے: اے حراء! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اُن نو حضرات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ہیں۔ میں عرض گزار ہوا کہ دسواں کون ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: میں ہوں۔‘‘
اِسے امام ابو داود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
185 / 7. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيِّ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِه ثُمَّ قَالَ: أُذَکِّرُکُمْ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَاءَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اثْبُتْ حِرَاءُ، فَلَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قَالُوْا: نَعَمْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، 5 / 625، الرقم: 3699، والنسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 236، الرقم: 3609، وابن حبان، 15 / 348، الرقم: 6916، والدار قطني في السنن، 4 / 198، 199، الرقم: 8، 11، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 167، الرقم: 11714، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 482، الرقم: 358، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 540، الرقم: 2198.
’’حضرت ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ مکان کے اُوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب حراء پہاڑ حرکت کرنے لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حراء ٹھہر جا تجھ پر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں۔ حاضرین نے کہا: ہاں۔‘‘
اِسے امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
186 / 8. عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ. . . . أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما وَأَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتّٰی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُه بِالْحَضِيْضِ قَالَ: فَرَکَضَه بِرِجْلِه وَقَالَ: اسْکُنْ ثَبِيْرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيْدَانِ قَالُوْا: اَللّٰهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: اللهُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِي وَرَبِّ الْکَعْبَةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَـلَاثًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
قَالَ الْقَاضِي أَبُوْ بَکْرِ بْنُ الْعَرَبِيِّ رحمه الله فِي الْعَارِضَةِ: … إِنَّمَا اضْطَرَبَتِ الصَّخْرَةُ وَرَجَفَ الْجَبَلُ اسْتِعْظَامًا لِمَا کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الشَّرَفِ، وَبِمَنْ کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْأَشْرَافِ. (1)
قَالَ ابْنُ الْمُنِيْرِ - فِيْمَا نَقَلَهُ الْقُسْطَـلَانِيُّ- رحمهما الله، فِي الإِرْشَادِ: اَلْحِکْمَةُ فِي ذَالِکَ أَنَّه لَمَّا ارْتَجَفَ أَرَادَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُبَيَنَ أَنَّ هٰذِهِ الرَّجْفَةَ لَيْسَتْ مِنْ جِنْسِ رَجْفَةِ الْجَبَلِ بِقَوْمِ مُوْسٰی عليه السلام لَمَّا حَرَّفُوْا الْکَلِمَ، فَتِلْکَ رَجْفَةُ الْغَضَبِ، وَهٰذِه هَزَّةُ الطَّرَبِ، وَلِهٰذَا نَصَّ عَلٰی مَقَامِ النُّبُوَّةِ وَالصِّدِّيْقِيَةِ وَالشَّهَادَةِ، الَّتِي تُوْجِبُ سُرُوْرَ مَا اتَّصَلَتْ بِه، فَأَقَرَّ الْجَبَلُ بِذَالِکَ، فَاسْتَقَرَّ. (2)
8: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، 5 / 627، الرقم: 3703، والنسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 235، الرقم: 3608، وأيضًا في السنن الکبری، 4 / 97، الرقم: 6435، والدار قطني في السنن، 4 / 196، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 446، 447، الرقم: 321، 322، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 594، الرقم: 1305.
(1) عارضة الأحوذي، 13 / 151-154.
(2) إرشاد السّاري، 6 / 97، ولامع الدراري، 6 / 97.
’’حضرت ثمامہ بن حزم قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دولت کدہ کے پاس آیا۔ اُس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرما رہے تھے۔۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ عنھما اور میں بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پاؤں کی ٹھوکر مار کر فرمایا: ٹھہر ثبیر! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ محاصرین نے عرض کیا: جی ہاں (ایسا ہی ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اکبر! اِن لوگوں نے میرے حق میں گواہی دی۔ ربّ کعبہ کی قسم میں شہید ہوں، یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دوہرائے۔‘‘
اِسے امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
’’قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ ’’العارضہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بے شک چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، اُس شرف کو بڑا جانتے ہوئے جو اشرافِ عرب کے اُس پر جلوہ افروز ہونے سے اُسے ملا۔‘‘
’’امام ابن منیر نے فرمایا: جسے امام قسطلانی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ’’ارشاد الساري‘‘ میں نقل کیا ہے: اِس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا کہ وہ یہ بیان فرما دیں کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ علیہ السلام پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے کلمات(الٰہیہ) میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا، پس وہ تھرتھراہٹ غضبِ الٰہی کی تھی، اور یہ (قربِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے) رقصِ مسرت تھا، اِسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، جو موجبِ سرور و فرحت ہیں، پس پہاڑ نے بھی اُس چیز کا اقرار کیا اور پھر استقرار پکڑ لیا۔‘‘
187 / 9. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّةَ کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
9: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي وتسليم الحجر عليه صلی الله عليه وآله وسلم قبل النبوة، 4 / 1782، الرقم: 2277، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ، 5 / 592، الرقم: 3624، والدارمي في السنن، 1 / 24، الرقم: 20، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 89، 95، 105، الرقم: 20860، 20931، 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم: 7469، وابن حبان في الصحيح، 14 / 402، الرقم: 6482، ومالک في المدونة الکبری، 1 / 144، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم: 31705، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 291، الرقم: 2012، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 115، الرقم: 167، وأيضًا في المعجم الکبير، 2 / 220، 231، 238، الرقم: 1907، 1961، 1995، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم: 781، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 58، الرقم: 161، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 89.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مکّہ مکرّمہ کے اُس پتھر کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھ پر سلام بھیجا کرتا تھا یقینا میں اُسے اب بھی (اُسی طرح) پہچانتا ہوں۔‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی، دارمی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
188 / 10. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَه جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ: اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
10: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب: (6)، 5 / 593، الرقم: 3626، والدارمي في السنن، باب ما أکرم اللہ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم: 21، والحاکم في المستدرک، 2 / 677، الرقم: 4238، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم: 502، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم: 1880، والمزي في تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم: 3103، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم: 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک جانب چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یوں سلام) عرض کرتا: {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ} ‘ (یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو)۔‘‘
اِسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
189 / 11. عَنْ عَبَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يَقُوْلُ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَدْخُلُ مَعَه يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم الْوَادِيَّ. فَـلَا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَنَا أَسْمَعُه. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
11: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 2 / 154، وابن کثير في شمائل الرسول، 1 / 259، 260، وأيضًا في البداية والنهاية، 3 / 16.
’’حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں وادی کا سفر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ عرض کرتا: {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ} (یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو) اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔‘‘
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
190 / 12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ. فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطَ فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَکَانُوْا قَبْلَ ذَالِکَ يَمُرُّوْنَ بِه فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ. قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتّٰی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ: هٰذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هٰذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ. فَقَالَ لَه أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ…الحديث.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
12: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في بدء نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 317، الرقم: 31733، وأيضًا، 7 / 327، الرقم: 36541، والبزار في المسند، 8 / 97، الرقم: 3096، والحاکم في المستدرک، 2 / 672، الرقم: 4229، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم: 19.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو حضرت ابو طالب اپنی سواری سے نیچے اُتر آئے۔ باقی لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف نکلا حالانکہ اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کا سردار اور رب العالمین کا رسول ہے! وہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا۔ روسائے قریش نے اُس سے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ اُس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے اُتر رہے تھے تو تمام درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے تھے اور وہ سوائے نبی کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے‘‘
اِسے امام ترمذی، ابن ابی شیبہ، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
191 / 13. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ. فَأَتَاهُ، فَمَسَحَ يَدَه عَلَيْهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3390، وابن حبان في الصحيح، 14 / 435، الرقم: 6506، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 797، الرقم: 1469.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون گریہ و زاری کرنے لگا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا۔‘‘
اِسے امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
192 / 14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم خَطَبَ إِلٰی عِذْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوْا لَه مِنْبَرًا. فَخَطَبَ عَلَيْهِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ. فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَّه فَسَکَنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
14: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فيآيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ به، 5 / 594، الرقم: 3627.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کجھور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر بنوا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اُس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ (خشک) تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُس پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔‘‘ اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
193 / 15. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ. فَحَنَّ الْجِذْعُ، فَأَتَاه، فَاحْتَضَنَه، فَسَکَنَ. فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْه لَحَنَّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
194 / 16. وفي رواية عن جابر رضي الله عنه: حَتّٰی سَمِعَه أَهْلُ الْمَسْجِدِ حَتّٰی أَتَاه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَه فَسَکَنَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ لَمْ يَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
1516: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1415، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 26، الرقم: 108، وأبو يعلی في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 396، الرقم: 1336، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 37، الرقم: 1643.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف تشریف لے گئے تو وہ ستون رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرمیں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، ابو یعلی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے: اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف نہ لاتے تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
195 / 17. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍِ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي إِلٰی جِذْعٍ إِذْ کَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيْشًا وَکَانَ يَخْطُبُ إِلٰی ذَالِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه: هَلْ لَکَ أَنْ نَجْعَلَ لَکَ شَيْئًا تَقُوْمُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتّٰی يَرَاکَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَکَ قَالَ: نَعَمْ، فَصَنَعَ لَه ثَـلَاثَ دَرَجَاتٍ فَهِيَ الَّتِي أَعْلَی الْمِنْبَرِ فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَضَعُوْهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيْهِ فَلَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَقُوْمَ إِلَی الْمِنْبَرِ مَرَّ إِلَی الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ خَارَ حَتّٰی تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَه بِيَدِه حَتّٰی سَکَنَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ إِذَا صَلّٰی صَلّٰی إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ ذَالِکَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ رضي الله عنه وَکَانَ عِنْدَه فِي بَيْتِه…الحديث. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ بْنُ مَاجَه عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ عَبْدِ اللهِ لَه شَاهِدٌ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَلَه طُرُقٌ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِسْنَادُه حَسَنٌ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ وَرَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی الْمُوْصِلِيُّ فِي مُسْنَدِه.
17: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1414، والدارمي في السنن، 1 / 30، الرقم: 36، والشافعي في المسند، 1 / 65، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137. 138، الرقم: 21285، 21289، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 252، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 393، الرقم: 1192، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 392، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم: 3390، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 9، والعيني في عمدة القاري، 6 / 215، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 16، الرقم: 504.
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور اُس وقت مسجد نبوی چھپر کی تھی۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لئے ایسی چیز تیار کر دیں جس پر آپ جمعہ کے دن قیام فرما ہوں تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھی کر سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ تو منبر تیار کیا گیا جس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ صحابہ کرام نے اُس منبر کو اس مقام پر رکھ دیا جہاں منبر کی جگہ ہے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا اور اُس ستون کے قریب سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے تو اُس ستون میں سے (ہجر و فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) رونے کی آواز آئی اور وہ ستون درمیان سے شق ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے رونے کی یہ حالت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا جس سے اُس ستون کی حالتِ گریہ ختم ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تو اُس کی طرف نماز پڑھتے جب مسجد منہدم کی گئی تو اُس ستون کو حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور پھر وہ اُنہی کے گھر میں رہا۔ الحدیث۔‘‘ اِسے امام ابن ماجہ، دارمی، شافعی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
امام مقدسی نے فرمایا: اِسے امام ابو عبد اللہ ابن ماجہ نے حضرت اسماعیل بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور اس کے شواہد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث صحیح (بخاری و مسلم) میں بھی ہیں اور بے شمار صحابہ کرام سے اِس کے دیگر طرق بھی مروی ہیں اور اِس کی اسناد حسن ہیں۔ امام کنانی نے فرمایا: یہ اسناد حسن ہے اور اسے امام ابو یعلی الموصلی نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
196 / 18. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما وَعَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاه فَاحْتَضَنَه فَسَکَنَ فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْه لَحَنَّ إِلٰی يَوْم ِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
18: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1415، وأحمد بن حنبل عن ابن عباس رضي الله عنهما في المسند، 1 / 249، 363، الرقم: 2236، 3430، والدارمي في السنن، 1 / 31، 442، الرقم: 39، 1563، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 26، الرقم: 108، وابن أبي شيبة عن ابن عباس رضی اللہ عنهما في المصنف، 6 / 319، الرقم: 31746، وأبو يعلی في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 187، الرقم: 12841، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 396، الرقم: 1336، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 252، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 37. 38، الرقم: 1643. 1645، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 602، الرقم: 3390، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 16، الرقم: 505.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اِس پر وہ ستون (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں زار و قطار) رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لائے اور اُسے تشفی دی حتی کہ وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا: اگر میں اُسے تسلی نہ دیتا تو وہ قیامت تک یونہی روتا رہتا۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، احمد، دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا: اِس کی سند صحیح ہے۔ امام کنانی نے بھی فرمایا: اِس کی سند صحیح اور رجال ثقات ہیں۔
197 / 19. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي کَانَ يَقُوْمُ عِنْدَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيْهَا: فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهَا فَسَکَنَتْ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه وَرِجَالُه مُوَثَّقُوْنَ.
19: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 32، 442، الرقم: 40، 1565، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 319، الرقم: 31747، وأبو يعلی في المسند، 2 / 328، الرقم: 1067، 4 / 128، الرقم: 2177، 5 / 142، الرقم: 2756، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776، وابن حبان في الصحيح، 14 / 436، الرقم: 6507، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 108، الرقم: 1408، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم: 3219، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 180. 181.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (کھجور کے تنے کی خشک) لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں رونے لگی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا دستِ اقدس اُس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گئی۔‘‘
اِسے امام دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام ابو یعلی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
198 / 20. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْمُ إِلَی الْخَشَبَةِ يَتَوَکَّأُ عَلَيْهَا يَخْطُبُ کُلَّ جُمُعَةٍ حَتّٰی أَتَاهُ رَجُلٌ مِنَ الرُّوْمِ وَقَالَ: إِنْ شِئْتَ جَعَلْتُ لَکَ شَيْئًا إِذَا قَعَدْتَ عَلَيْهِ کُنْتَ کَأَنَّکَ قَائِمٌ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَجَعَلَ لَهُ الْمِنْبَرَ فَلَمَّا جَلَسَ عَلَيْهِ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ عَلٰی وَلَدِهَا حَتّٰی نَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهَا فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ فَرَأَيْتُهَا قَدْ حُوِّلَتْ فَقُلْنَا: مَا هٰذَا؟ قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَحَوَّلُوْهَا. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه مُوَثَّقُوْنَ.
199 / 21. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْمُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُسْنِدُ ظَهْرَه إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ خَشَبٍ أَوْ جِذْعٍ أَوْ نَخْلَةٍ (شکّ المبارک) فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ: ابْنَوْا لِي مِنْبَرًا فَبَنَوْا لَهُ الْمِنْبَرَ فَتَحَوَّلَ إِلَيْهِ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ الْوَالِهِ فَمَا زَالَتْ حَتّٰی نَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَأَتَاهَا فَاحْتَضَنَهَا فَسَکَنَت. رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.
2021: أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 128، الرقم: 2177، وأيضًا، 2 / 328، الرقم: 1067، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 181.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعہ کو ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو کر اس کا سہارا لے کر خطاب فرماتے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس روم کا ایک شخص آیا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لئے ایک ایسی چیز تیار کر دوں کہ جب آپ اس پر تشریف فرما ہوں تو یوں لگے جیسا کہ آپ قیام فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ تب اُس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کر دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر تشریف فرما ہوئے تو اُس لکڑی نے (جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے) یوں رونا اور تڑپنا شروع کر دیا جیسے اُونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے تڑپتی ہے۔ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنا دستِ شفقت اس پر رکھا، پھر اگلے دن میں نے اسے دیکھا کہ اسے وہاں سے منتقل کر دیا گیا، پس ہم نے کہا: یہ کیا ہے؟ کسی نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تھے اور اس (لکڑی) کو یہاں سے (اس (منبر کے نیچے) منتقل کر کے (دفن) کر دیا ہے۔‘‘
اِسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔
’’اور ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ کے لئے قیام فرما ہوتے اور اپنی پشت مبارک لکڑی یا کھجور کے خشک تنے یا کھجور کے درخت کے ساتھ بطور سہارا لگا لیتے (ان میں سے کون سی چیز تھی راوی ابن مبارک کو شک گزرا ہے) پھر جب رفتہ رفتہ لوگوں کی تعداد کثیر ہوگئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے ایک منبر تیار کر دو، تو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر تیار کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف منتقل ہو گئے تو لکڑی نے اس طرح رونا دھونا کیا جس طرح ایک ایسی ماں روتی ہے جس کا بچہ فوت ہوگیا ہو، یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُسے اپنے سینے سے لگا لیا تو وہ پر سکون ہو گئی۔‘‘
اِسے امام ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
200 / 22. عَنِ الْحَسَنِ عليه الرحمة عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلٰی جَنْبِ خَشَبَةٍ يُسْنِدُ ظَهْرَه إِلَيْهَا. فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ: ابْنُوْا لِي مِنْبَرًا. فَبَنَوْا لَه مِنْبَرًا، لَه عَتَبَتَانِ. فَلَمَّا قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِيَخْطُبَ، حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ أَنَسٌ: وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِيْنَ الْوَلَدِ. فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ، حَتّٰی نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَاحْتَضَنَهَا فَسَکَنَتْ. قَالَ: وَکَانَ الْحَسَنُ عليه الرحمة إِذَا حَدَّثَ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ بَکَی ثُمَّ قَالَ: يَا عِبَادَ اللهِ، اَلْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَکَانِه مِنَ اللهِ. فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلٰی لِقَائِه. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
22: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14 / 436، الرقم: 6507، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 108، الرقم: 1409، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم: 3219، وأبو يعلی في المسند، 5 / 142، الرقم: 2756، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 289، الرقم: 6507، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 151، الرقم: 574، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 602، وابن کثير في شمائل الرسول / 240.
’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ اپنی پشت مبارک کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے منبر تیار کرو۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا جس کے دو درجے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ (خشک) لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے خود اُس (خشک) لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے لئے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔‘‘
’’راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شوقِ ملاقات میں اور بارگاہِ الٰہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے گریہ کناں ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کا (شدید) اشتیاق رکھو۔‘‘
اِسے امام ابن حبان، طبرانی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
201 / 23. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ فَکَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ قِيَامُه فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَه وَأُقِيْمَ إِلٰی جَنْبِه قَائِمًا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِيَامُ عَلَيْهِ وَغَلَبَهُ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّکَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِه رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِيْنَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلٰی جَنْبِ ذَالِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ يَلِيْهِ مِنَ النَّاسِ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ يَرْفُقُ بِه لَصَنَعْتُ لَه مَجْلِسًا يَقُوْمُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ. فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اِئْتُوْنِي بِه. فَأَتَوْهُ بِه فَأُمِرَ أَنْ يَصْنَعَ لَه هٰذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّـلَاثَ أَوِ الْأَرْبَعَ هِيَ الآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِيْنَةِ فَوَجَدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي ذَالِکَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلٰی هٰذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَه جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِيْنَ فَارَقَه النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ سَمِعَ حَنِيْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهِ وَقَالَ: اِخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُيُوْنِهَا فَيَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَيَأْکُلَ أَوْلِيَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ. فَزَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ لَه: نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ. فَسُئِلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اِخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَه فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
202 / 24. وفي رواية: عَنْ عَمْرِو بْنِ يَخْلُو السِّرَحِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رضي الله عنه قَالَ: مَا أَعْطَی اللهُ نَبِيًّا مَا أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقُلْتُ: أَعْطَی عِيْسٰی عليه السلام إِحْيَاءَ الْمَوْتٰی فَقَالَ: أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم حَنِيْنَ الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جَنْبِه هُيِّیَ لَهُ الْمِنْبَرُ حَنَّ الْجِذْعُ حَتّٰی سُمِعَ صَوْتُه فَهٰذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَالِکَ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
2324: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 29، الرقم: 32، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 116، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 271، وأيضًا في دلائل النبوة، 6 / 68، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 391، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم: 3393، وابن کثير في شمائل الرسول / 251، والعيني في عمدة القاري، 16 / 129، الرقم: 5853.
’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے اور دوران خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ پر گراں گزرتی، تب ایک کھجور کا خشک تنا ایک گڑھا کھود کر گاڑھ دیا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کھجور کے خشک تنے کا سہارا لے لیتے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پس ایک شخص نے جو کہ مدینہ منورہ میں باہر سے آیا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کھجور کے تنے کے پہلو میں کھڑے ہیں، تو اس شخص نے اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو ان کے لئے آرام دہ ہو گی تو میں اُن کے لئے ایک ایسی مسند تیار کردوں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما ہو سکیں اور اگر چاہیں تو اُس پر تشریف فرما بھی جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ صحابہ کرام اُس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے۔ اُس شخص کو حکم دے دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے، جسے آج ’’منبر المدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں راحت محسوس کی۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو ان کے لئے بنایا گیا تھا، تو وہ خشک لکڑی کا تنا غمناک ہو گیا، اور ایسے رونے لگا جیسے اُونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے روتی ہے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اُس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اُس پر رکھا اور فرمایا: تم چاہے یہ چیز اختیار کر لو کہ میں تمہیں اِسی جگہ دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ایسے ہی سرسبز ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (اپنی اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے میری کچھ عرصہ کی ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کے نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری پیداوار بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تیرا پھل کھائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ شاید اُس تنے نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سن لی تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دو مرتبہ فرمایا: ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس کھجور کے تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگاؤں۔‘‘
اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عمرو بن ابی یخلو السرحی، امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مقام و مرتبہ اور شرفِ منزلت عطا فرمائی ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں کی۔ میں نے اُن سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا ہے تو امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھجور کا وہ (خشک) تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا تو وہ کھجور کا خشک تنا (فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) رونے لگا یہاں تک کہ اُس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ (خشک اور بے جان تنے کا رونا جس میں کبھی جان تھی ہی نہیں) مردے زندہ کرنے سے بھی بڑا معجزہ ہے۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
203 / 25. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه في رواية طويلة قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ، فَذَهَبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْضِي حَاجَتَه. فَاتَّبَعْتُه بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ. فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِه فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِيئِ الْوَادِي. فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَه کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ. حَتّٰی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرَی. فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَه کَذَالِکَ، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا، لَأَمَ بَيْنَهُمَا يَعْنِي جَمَعَهُمَا فَقَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا. قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ يُحِسَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِقُرْبِي فَيَبْتَعِدَ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي. فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَه، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُقْبِـلًا. وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا. فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلٰی سَاقٍ. فَرَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَفَ وَقْفَةً فَقَالَ بِرَأْسِه هٰکَذَا وَأَشَارَ أَبُوْ إِسْمَاعِيْلَ بِرَأْسِه يَمِيْنًا وَشِمَالًا ثُمَّ أَقْبَلَ فَلَمَّا انْتَهٰی إِلَيَّ قَالَ: يَا جَابِرُ، هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. فَأَقْبِلْ بِهِمَا. حَتّٰی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِکَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِکَ. قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُه وَحَسَرْتُه. فَانْذَلَقَ لِي. فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتّٰی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُه فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِي أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ…الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
25: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليسر، 4 / 2306، الرقم: 3012، وابن حبان في الصحيح، 14 / 455. 456، الرقم: 6524، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 94، الرقم: 452، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 53. 55، الرقم: 37، وابن عبد البر في التمهيد، 1 / 222، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 383، الرقم: 5885.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اُس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اُس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اِس خیال سے وہاں سے دور ہٹ گیا کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے قریب دیکھ کر مزید دور نہ چلے جائیں، میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک توجہ کی تو دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت جُدا ہو کر اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر سیدھے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دیکھا ایک لحظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں کھڑے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا: (راوی ابو اسماعیل نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف رخ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس پہنچے تو نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُن دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور اُن میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک ایک شاخ توڑی، پھر میں اُنہیں گھسیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اُس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر (کیا میں جان سکتا ہوں کہ) اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اُس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب اُن سے تخفیف کی جائے سو جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں گی اُن کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔‘‘
اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
204 / 26. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: بِمَ أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هٰذَا الْعِذْقَ مِنْ هٰذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتّٰی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
26: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ، 5 / 594، الرقم: 3628، والحاکم في المستدرک، 2 / 676، الرقم: 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 110، الرقم: 12622، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 3، الرقم: 6، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 538، 539، الرقم: 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 48.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اُس درخت پر لگے ہوئے فلاں گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے بلایا تو وہ درخت سے اُترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا: واپس چلے جاؤ تو وہ واپس چلا گیا۔ اُس اعرابی نے (نباتات کی محبت و اطاعتِ رسول کا یہ منظر) دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔‘‘
اِسے امام ترمذی، حاکم، طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
205 / 27. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَه، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلٰی مَنَابَتِهِمَا وَجَاءَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِه إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَه فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ الْبَعِيْرُ إِنَّه يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَه يُرِيْدُ نَحْرَه فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أَوَاهِبُه أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، قَالَ: اسْتَوْصِ بِه مَعْرُوْفًا، فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُه يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَتَی عَلٰی قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُه فَقَالَ: إِنَّه يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی قَبْرِه فَقَالَ: عَسٰی أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 / 272، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 205، 9 / 6.
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے دو چھوٹے چھوٹے پودوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اُونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر گھسٹتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اُس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اُونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اِس کا خیال ہے کہ اِس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے مالک کو بلابھیجا۔ (جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا: کیا یہ اُونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اِس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے اِس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اُس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اِس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اُسے اُس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اِسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اسناد حسن اور رجال ثقات ہیں۔
206 / 28. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم کَأَنَّه يُدَاوِي وَيُعَالِجُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَقُوْلُ أَشْيَاءَ، هَلْ لَکَ أَنْ أُدَاوِيَکَ؟ قَالَ: فَدَعَاه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی اللهِ ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَکَ أَنْ أُرِيَکَ آيَةً؟ وَعِنْدَه نَخْلٌ وَشَجَرٌ. فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عِذْقًا مِنْهَا، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ وَهُوَ يَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَه وَيَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَه حَتَّی انْتَهٰی إِلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ. ثُمَّ قَالَ لَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: ارْجِعْ إِلٰی مَکَانِکَ. فَقَالَ الْعَامِرِيُّ: وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُکَ بِشَيئٍ تَقُوْلُه أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: يَا آلَ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُه بِشَيئٍ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
28: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14 / 454، الرقم: 6523، وأبو يعلی في المسند، 4 / 237، الرقم: 2350، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 100، الرقم: 12595، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 2 / 506، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 520، الرقم: 2111، وأيضًا في مجمع الزوائد، 9 / 10.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اُس نے کہا: اے محمد مصطفی! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا: ) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دی پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آس پاس کھجور اور کچھ دیگر درخت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا، وہ ٹہنی (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اُٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اُٹھاتے ہوئے آئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسيُ حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ (یہ واقعہ دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اُس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اُس نے برملا اعلان کر کے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں اِنہیں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔‘‘
اِسے امام ابن حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
207 / 29. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضي الله عنه قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَجَائَتْ شَجَرَهٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتّٰی غَشِيَتْه، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلٰی مَکَانِهَا. فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَه، فَقَالَ: هِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّهَا أَنْ تُسَلِّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَذِنَ لَهَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادَيْنِ وَالطَّبَرَانِيُّ بِنَحْوِه وَأَحَدُ إِسْنَادَي أَحْمَدَ رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
29: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 158، الرقم: 184، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 154، الرقم: 405، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 144، الرقم: 3430، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 368، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 5.
’’حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ (ایک سفر کا واقعہ) بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں استراحت فرما ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس درخت نے اپنے ربّ ّسے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اللہ تعالیٰ نے اُسے اجازت دے دی۔‘‘ اِسے امام احمد، ابو نعیم اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔
امام ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کو امام احمد نے دو اسناد سے اور اِسی طرح امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور امام احمد کی ایک سند کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔
208 / 30. عَنْ بَرَّةَ بِنْتِ أَبِي تِجْرَاةَ رضي الله عنها قَالَتْ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ أَرَادَ اللهُ کَرَامَتَه وَابْتَدَائَه بِالنُّبُوَّةِ کَانَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِه أَبْعَدَ حَتّٰی لَا يَرَی بَيْتًا وَيَقْضِي إِلَی الشِّعَابِ وَبُطُوْنِ الْأَوْدِيَةِ فَـلَا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا بِشَجَرَةٍ إِلَّا قَالَتْ: اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَانَ يَلْتَفِتُ عَنْ يَمِيْنِه وَعَنْ شِمَالِه وَخَلْفِه فَـلَا يَرَی أَحَدًا.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْفَاکِهِيُّ.
30: أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، ذکر برة بنت أبي تجراة رضي الله عنها، 4 / 79، الرقم: 6942، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 157، 8 / 246، والفاکهي في أخبار مکة، 5 / 95، الرقم: 2902، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 76.
’’حضرت برہ بنت ابو تجراۃ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگی اور شرفِ نبوت (کو لوگوں پر ظاہر کرنے کا) ارادہ فرمایا تو اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضائے حاجت کے لئے آبادی سے دور چلے جاتے جہاں گھاٹیاں اورکھلی وادیاں شروع ہو جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پتھر اور درخت کے پاس سے بھی گزرتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں سلام عرض کرتا (اُن کی آواز سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے مگر کوئی ذی روح نظر نہ آتا۔‘‘
اِسے امام حاکم، ابن سعد اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔
209 / 31. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: جَاَء أَعْرَابِيٌّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَأَرِنِي شَيْئًا أَزْدَدْ بِه يَقِيْنًا قَالَ: مَا الَّذِي تُرِيْدُ؟ قَالَ: اُدْعُ تِلْکَ الشَّجَرَةَ فَلْتَأْتِکَ. قَالَ: اِذْهَبْ فَادْعُهَا قَالَ: فَأَتَاهَا الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ: أَجِيْبِي رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فَمَالَتْ عَلٰی جَانِبٍ مِنْ جَوَانِبِهَا فَقَطَعَتْ عُرُوْقَهَا ثُمَّ مَالَتْ عَلَی الْجَانِبِ الآخَرِ فَقَطَعَتْ عُرُوْقَهَا ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَنْ عُرُوْقِهَا وَفُرُوْعِهَا مُغْبَرَّةً فَقَالَتْ: عَلَيْکَ السَّـلَامُ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: حَسْبِي حَسْبِي يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ لَهَا: اِرْجِعِي فَرَجَعَتْ فَحَامَتْ عَلٰی عُرُوْقِهَا وَفُرُوْعِهَا کَمَا کَانَتْ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَرِجْلَکَ فَأَذِنَ لَه ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اِئْذَنْ لِي أَنْ أَسْجُدَ لَکَ. فَقَالَ: لَا يَسْجُدُ أَحَدٌ لِأَحَدٍ وَلَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمُرْتُ الْمَرْأَةَ تَسْجُدُ لِزَوْجِهَا بِعِظَمِ حَقِّه. رَوَاهُ ابْنُ الْمُقْرِي وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الزَّيْلَعِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ فِي مُسْنَدِه وَقَالَ فِيْهِ: فَقَبَّلَ رَأْسَه وَيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ.
31: أخرجه ابن المقري في تقبيل اليد، 1 / 64، الرقم: 5، والحاکم في المستدرک، کتاب البر والصلة، 4 / 190، الرقم: 7326، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 365، والزيلعي في نصب الراية، 4 / 259، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 10، وقال: رواه البزار، والعسقلاني في الدراية في تخريج أحاديث الهداية، 2 / 233، الرقم: 261، وقال: أخرجه البزار، قلت: وجمع ابن المقري جزء في تقبيل اليد، فيه أحاديث وآثار سمعناه، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 519.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن آپ مجھے کوئی ایسی نشانی دکھائیں جس سے میرے یقین میں اضافہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: اُس درخت کو پکاریں کہ وہ آپ کی خدمت میں (خود چل کر) حاضر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (تم خود) جاؤ اور اُسے بلاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ اعرابی اُس درخت کے پاس آیا اور کہا: اے درخت! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر لبیک کہو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ درخت اپنی ایک جانب جھکا اور اپنی جڑوں کو اکھاڑا پھر دوسری جانب جھکا اور اپنی (باقی ماندہ) جڑوں کو اُکھاڑا، پھر اپنی جڑوں اور شاخوں کے ساتھ خاک آلود ہوتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’عَلَيْکَ السَّلَامُ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس اعرابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اتنا ہی کافی ہے، مجھے اتنا ہی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت سے فرمایا: واپس لوٹ جاؤ، تو وہ واپس لوٹ گیا اور اپنی جڑوں اور شاخوں پر یوں ایستادہ ہوگیا جیسے وہ پہلے سے تھا۔ اعرابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں آپ کا سرِ انور اور قدم مبارک چوموں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اجازت عنایت فرما دی۔ پھر اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھ اجازت عنایت فرمائیں میں آپ کو سجدہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو سجدہ نہ کرے۔ اور اگر میں کسی انسان کے کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں لازماً عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو اُس کے عظیم حق کی وجہ سے سجدہ کرے۔‘‘
اِسے امام مقری اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ اور امام زیلعی اور ہیثمی نے فرمایا: اسے امام بزار نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، اور اِن الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ اُس اعرابی نے (فرطِ محبت میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور، دستِ مبارک اور قدم مبارک چومے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved