168 / 1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
169 / 2. وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِلْقَتَيْنِ. فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
1-2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية، فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم: 3437. 3439، وأيضًا في کتاب التفسير / القمر، باب وَانْشَقَّ الْقَمَرُ: وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوْا، ]1، 2[، 4 / 1843، الرقم: 4583. 4587، ومسلم في الصحيح، کتاب صفات المنافقين وأحکامهم، باب انشقاق القمر، 4 / 2158. 2159، الرقم: 2800. 2801، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة القمر، 5 / 398، الرقم: 3285. 3289، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 476، الرقم: 1552. 1553، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 377، الرقم: 3583، 3924، 4360، وابن حبان في الصحيح، 4 / 420، الرقم: 6495، والحاکم في المستدرک، 2 / 513، الرقم: 3758. 3761، وقال الحاکم: هذا حديث صحيح، والبزار في المسند، 5 / 202، الرقم: 1801. 1802، وأبو يعلی في المسند، 5 / 306، الرقم: 2929، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 132، الرقم: 1559. 1561، والطيالسي في المسند، 1 / 37، الرقم: 280، والشاشي في المسند، 1 / 402، الرقم: 404.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اُوپر تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
170 / 3. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَارَ فِرْقَتَيْنِ فَقَالَ لَنَا: اشْهَدُوْا اشْهَدُوْا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، 4 / 1843، الرقم: 4584، وأيضًا في کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم: 3437، ومسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب انشقاق القمر، 4 / 2158، الرقم: 2800، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة القمر، 5 / 398، الرقم: 3285، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 37، الرقم: 3583.
’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر) چاند شق کیا گیا اُس وقت ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے پس چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا: گواہ رہنا، گواہ رہنا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
171 / 4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّه حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم: 3437، وأيضًا في کتاب التفسير، باب وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، 4 / 1844، الرقم: 4586، ومسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب انشقاق القمر، 4 / 2159، الرقم: 2802، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة القمر، 5 / 397، الرقم: 3286.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھا دئے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
172 / 5. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلٰی هٰذَا الْجَبَلِ وَعَلٰی هٰذَا الْجَبَلِ فَقَالُوْا: سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَئِنْ کَانَ سَحَرَنَا فَمَا يَسْتَطِيْعُ أَنْ يَسْحَرَ النَّاسَ کُلَّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
5: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة القمر، 5 / 398، الرقم: 3289، والعيني في عمدة القاري، 16 / 163، والسيوطي في الدر المنثور، 7 / 671.
’’حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوت میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا ایک ٹکڑا پہاڑ کی اُس طرف اور ایک دوسری جانب ہو گیا تو کفار نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ہم پر جادو کر دیا ہے۔ بعض لوگ کہنے لگے: اگر ہم پر جادو کیا تو وہ سب لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے۔‘‘ اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
173 / 6. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، دَعَانِي، إِلَی الدُّخُوْلِ فِي دِيْنِکَ أَمَارَةٌ لِنُبُوَّتِکَ رَأَيْتُکَ فِي الْمَهْدِ تُنَاغِي الْقَمَرَ وَتُشِيْرُ بِاصْبَعِکَ فَحَيْثُ أَشَرْتَ إِلَيْهِ مَالَ قَالَ: إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُه وَيُحَدِّثُنِي وَيُلْهِيْنِي عَنِ الْبُکَاءِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
6: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة ودمشق، 4 / 360، والسيوطی في الخصائص الکبری، 1 / 53.
’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی ایک خاص نشانی نے مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایام طفولیت میں گہوارے کے اندر چاند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور انگلی مبارک کے ساتھ جس طرف اشارہ فرمایا کرتے چاند اُسی طرف جھک جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اُس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اور وہ میرے ساتھ باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے نہیں دیتا تھا۔‘‘
اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
174 / 7. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُه فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي الله عنها: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
7: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 / 147، الرقم: 390، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 205، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 83، والقاضي عياض في الشفاء، 1 / 400، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبي في السيرة الحلبية، 2 / 103، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197.
رواه الطبراني بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوي في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388. 389) وللحديث طرق أخري عن أسماء، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدري.
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اللہ بن عبد اللہ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي في الخصائص الکبری (2 / 137): أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبراني بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193): أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإسنادين صحيحين.
وقال الإمام النووي فی شرحه علی مسلم (12 / 52): ذکر القاضي رضي الله عنه: أن نبينا صلی الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال: رواته ثقات.
’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
اِسے امام طحاوی اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
175 / 8. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللهَ يَسْقِيْنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيْحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتّٰی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلٰی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَالِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَادْعُ اللهَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلٰی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّه إِکْلِيْلٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3389، ومسلم في الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، وأبو داود في السنن، کتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين في الاستسقاء، 1 / 304، الرقم: 1174، والبخاري في الأدب المفرد / 214، الرقم: 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 95، الرقم: 2601، وأيضًا في الدعاء، 1 / 596. 597، الرقم: 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 26، الرقم: 957.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن تیز ہوا چلنے لگی، بادل اُٹھے اور گھر آئے اور آسمان نے ایسا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برس۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
176 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، مَا وَضَعَهَا حَتّٰی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِه حَتّٰی رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلٰی لِحْيَتِه صلی الله عليه وآله وسلم فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَالِکَ وَمِنَ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيْهِ حَتّٰی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَالِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ: غَيْرُه فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيْرُ بِيَدِه إِلٰی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِيئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم: 891، وأيضًا في باب من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم: 986، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، والنسائي في السنن، کتاب الاستسقاء، باب رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم: 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم: 256، والطبراني في الدعاء، 1 / 297، الرقم: 957.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے (بارش کی) دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے دستِ مبارک بلند فرمائے۔ ہم نے اُس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، لیکن قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ مبارک کیا بلند فرمائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اُترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اُس روز بارش ہوئی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ (اگلے جمعہ کے روز) وہی اعرابی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اُٹھائے اور کہا: اے اللہ! ہمارے ارد گرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے اُدھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک جھیل سا بن گیا۔ وادی ایک ماہ تک نہر کا منظر پیش کرتی رہی اور جو بھی کسی گوشے سے آتا وہ اِس موسلا دھار بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
177 / 10. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَخْطُبُ بِالْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ، فَاسْتَسْقِ رَبَّکَ. فَنَظَرَ إِلَی السَّمَاءِ وَمَا نَرَی مِنْ سَحَابٍ، فَاسْتَسْقٰی، فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُه إِلٰی بَعْضٍ، ثُمَّ مُطِرُوْا حَتّٰی سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِيْنَةِ، فَمَا زَالَتْ إِلَی الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذَالِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُه وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ، فَقَالَ: غَرِقْنَا، فَادْعُ رَبَّکَ يَحْبِسْهَا عَنَّا، فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا. مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، فَجَعَلَ السَّحَابُ يَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِيْنَةِ يَمِيْنًا وَشِمَالًا، يُمْطَرُ مَا حَوَالَيْنَا وَلَا يُمْطَرُ مِنْهَا شَيئٌ، يُرِيْهِمُ اللهُ کَرَامَةَ نَبِيِّهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَإِجَابَةَ دَعْوَتِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 / 2261، الرقم: 5742، وأيضًا في کتاب الدعوات، باب الدعاء غير مستقبل القبلة، 5 / 2335، الرقم: 5982، وأيضًا في کتاب الجمعة، باب الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم: 891، وأيضًا في کتاب الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، 1 / 343، الرقم: 967، وأيضًا في باب الاستسقاء في خطبة مستقبل القبلة، 1 / 344، الرقم: 968، وأيضًا في باب إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 / 346، الرقم: 974، وأيضًا في باب من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم: 986، وأيضًا في کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3389، ومسلم في الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، 2 / 612. 614، الرقم: 897، وأبو داود في السنن، کتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين في الاستسقاء، 1 / 304، الرقم: 1174، والنسائي في السنن، کتاب الاستسقاء، باب کيف يرفع، 3 / 159. 166، الرقم: 1515، 1517، 1527. 1528، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 404، الرقم: 1269، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 558، الرقم: 1818.
178 / 11. قال الإمام السُّيُوطي في الخصائص: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَتْ حَلِيْمَةُ رضي الله عنها لَا تَدَعُهُ يَذْهَبُ مَکَانًا بَعِيْدًا فَغَفَلَتْ عَنْه فَخَرَجَ مَعَ أُخْتِه الشَّيْمَاءِ فِي الظََّهِيْرَةِ إِلٰی الْبَهْمِ فَخَرَجَتْ حَلِيْمَةُ تَطْلُبُهُ حَتّٰی تَجِدَه مَعَ أُخْتِه فَقَالَتْ: فِي هٰذَا الْحَرِّ فَقَالَتْ أُخْتُه: يَا أُمَّه، مَا وَجَدَ أَخِي حَرًّا رَأَيْتُ غُمَامَةً تُظِلُّ عَلَيْهِ إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ، وَإِذَا سَارَ سَارَتْ، حَتَّی انْتَهٰی إِلٰی هٰذَا الْمَوْضِعِ، قَالَتْ: أَحَقًّا يَا بُنَيَةُ؟ قَالَتْ: أَي وَاللهِ.
11: أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 58.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لہٰذا اپنے رب سے بارش مانگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے: (یا رسول اللہ!) ہم تو غرق ہونے لگے لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور دعا کی: اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا، ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘
’’امام سیوطی نے ’’الخصائص الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا آپ کا بہت خیال رکھتی تھیں ایک روز قدرے غافل ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت ریوڑ کی طرف نکل گئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا بے قرار ہو گئیں اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلیں۔ جب بہن کے ساتھ دیکھا تو اُن کی جان میں جان آئی۔ وہ بیٹی سے ناراض ہوئیں کہ اتنی سخت دھوپ میں اُنہیں لے کر کیوں آئی ہو؟ شیماء نے جواب دیا: امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نے کچھ نہیں کہا۔ بادل اُن پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا یہ سن کر خوشگوار حیرت کے عالم میں کہنے لگیں: میری بیٹی! کیا یہ سچ ہے؟ شیما نے جواب دیا: ہاں، امی جان یہ بالکل سچ ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved