70 / 1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَلّٰی، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْنَاکَ تَنَاوَلُ شَيْئًا فِي مَقَامِکَ، ثُمَّ رَأَيْنَاکَ تکَعْکَعْتَ؟ فَقَالَ: إِنِّي أُرِيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا، وَلَوْ أَخَذْتُه لَأَکَلْتُمْ مِنْه مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب رفع البصر إلی الإمام في الصلاة، 1 / 261، الرقم: 715، وأيضًا في کتاب الکسوف، باب صلاة الکسوف جماعة، 1 / 357، الرقم: 1004، وأيضًا في کتاب النکاح، باب کفران العشير، 5 / 1994، الرقم: 4901، ومسلم في الصحيح، کتاب الکسوف، باب ما عرض علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 627، الرقم: 904، والنسائي في السنن، کتاب الکسوف، باب قدر قراء ة في صلاة الکسوف، 3 / 147، الرقم: 1493، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 578، الرقم: 1878، ومالک في الموطأ، 1 / 186، الرقم: 445، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 298، الرقم: 2711، 3374، وابن حبان في الصحيح، 7 / 73، الرقم: 2832، 2853، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 98، الرقم: 4925، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 321، الرقم: 6096، والشافعي في السنن المأثورة، 1 / 140، الرقم: 47.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کسوف کی) نماز پڑھائی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ کسی قدر پیچھے ہٹ گئے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جنت نظر آئی، میں نے اُس میں سے ایک خوشہ پکڑ لیا، اگر اُسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اُس سے کھاتے رہتے (اور وہ ختم نہ ہوتا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
71 / 2. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه، قَالَ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَتْلٰی أُحُدٍ، بَعْدَ ثَمَانِيَ سِنِيْنَ کَالْمُوَدِّعِ لِلأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ، ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيْکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَيْکُمْ شَهِيْدٌ، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْحَوْضُ، وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هٰذَا، وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشٰی عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا، وَلٰـکِنِّي أَخْشٰی عَلَيْکُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوْهَا قَالَ: فَکَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم: 3816، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796، الرقم: 2296، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الميت يصلي علی قبره بعد حين، 3 / 216، الرقم 3224، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 279، الرقم: 768، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 14، الرقم: 6601، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 5 / 45، الرقم: 2583.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: میں تمہارا پیش رو ہوں، اور تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری مرتبہ دیدار تھا جو میں نے (منبر پر) کیا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
72 / 3. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَه عَلَی الْمَيِّتِ تُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَإِنِّي وَاللهِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَآئِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللهِ، مَا أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي وَلٰـکِنْ أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوْا فِيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشهيد، 1 / 451، الرقم: 1279، وأيضًا في کتاب المغازي، باب أحد يحبنا ونحبه، 4 / 1498، الرقم: 3857، کتاب المناقب، باب علامات النّبوّة في الإسلام، 3 / 1317، الرقم: 3401، وأيضًا في کتاب الرقاق، باب ما يحذر من زهرة الدّنيا والتّنافس فيها، 5 / 2361، الرقم: 6062، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم: 2296، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 191، الرقم: 248.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز شہدائے اُحد (کے مزارات پر) نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا: روئے زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اِس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
73 / 4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ حِيْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّی الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُوْرًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيئٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ: فَوَاللهِ، لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِه مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هٰذَا‘ قَالَ أَنَسٌ: فَأََکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَاءَ، وَأَکْثَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي. فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: النَّارُ. فَقَامَ عَبْدُ اللهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَبُوْکَ حُذَافَةُ. قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي، سَلُونِي. فَبَرَکَ عُمَرُ عَلٰی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالإِسْـلاَمِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَسُوْلًا. قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ قَالَ عُمَرُ ذَالِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هٰذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما يکره من کثرة السؤال وتکلف ما لايعنيه، 6 / 2660، الرقم: 6864، وأيضًا في کتاب مواقيت الصلاة، باب وقت الظهر عند الزوال، 1 / 200، الرقم: 2001، 2278، وأيضًا في کتاب العلم، باب حسن برک علی رکبتيه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم: 93، وأيضًا في الأدب المفرد / 404، الرقم: 1184، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب توقيره صلی الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم: 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم: 12681، وأبو يعلی في المسند، 6 / 286، الرقم: 3201، وابن حبان في الصحيح، 1 / 309، الرقم: 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم: 9155.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک (منافق) شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوزخ میں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے: ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اِس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
74 / 5. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فِي خُطْبَتِه يَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَيئٍ کُنْتُ لَمْ أَرَه إِلَّا قَدْ رَأَيْتُه فِي مَقَامِي هٰذَا، حَتَّی الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ مِثْلَ أَوْ قَرِيْبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَالِکَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، يُؤْتٰی أَحَدُکُمْ فَيُقَالُ: مَا عِلْمُکَ بِهٰذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوْقِنُ فَيَقُوْلُ: هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، جَاءَ نَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدٰی، فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَالِکَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، فَيَقُوْلُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوء، باب من لم يتوضأ إلا من الغشي المثقل، 1 / 79، الرقم: 182، وأيضًا في کتاب الجمعة، باب صلاة النساء مع الرجال في الکسوف، 1 / 358، الرقم: 1005، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 6 / 2657، الرقم: 6857، ومسلم في الصحيح، کتاب الکسوف، باب ما عرض علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 624، الرقم: 905، ومالک في الموطأ، 1 / 189، الرقم: 447، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 345، الرقم: 26970.
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز کسوف سے) فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایسی چیز نہیں جسے میں نے اپنی اس جگہ پر دیکھ نہ لیا ہو یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہارا امتحان ہو گا۔ دجال کے فتنے جیسی آزمائش یا اُس کے قریب تر کوئی شے۔ (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اُس سے کہا جائے گا کہ اس شخص (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق تو کیا جانتا ہے؟ جو ایمان والا یا یقین والا ہو گا وہ کہے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کے ساتھ تشریف لائے۔ ہم نے ان کی بات مانی، اِن پر ایمان لائے اور اِن کی پیروی کی۔ اسے کہا جائے گا: آرام سے سو جا، ہمیں معلوم تھا کہ تو ایمان والا ہے۔ اگر وہ منافق یا شک کرنے والا ہو گا (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اَسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تو کہے گا: مجھے نہیں معلوم میں لوگوں کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی کہہ دیتا تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
75 / 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالنَّاسُ مَعَه فَقَامَ قِيَامًا طَوِيْـلًا قَدْرَ نَحْوِ سُوْرَةِ الْبَقَرَةِ…وذکر الحديث…ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِه فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِکَ فَاذْکُرُوا اللهَ قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْنَاکَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِکَ هٰذَا ثُمَّ رَأَيْنَاکَ کَفَفْتَ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ أَخَذْتُه لَأَکَلْتُمْ مِنْه مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوْا: بِمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: بِکُفْرِهِنَّ قِيْلَ أَيَکْفُرْنَ بِاللهِ؟ قَالَ: بِکُفْرِ الْعَشِيْرِ وَبِکُفْرِ الإِحْسَانِ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلٰی إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْکَ خَيْرًا قَطُّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الکسوف، باب صلاة الکسوف جماعة، 1 / 357، الرقم: 1004، وأيضًا في کتاب النکاح باب کفران العشير، 5 / 1994، الرقم: 4901، ومسلم في الصحيح، کتاب الکسوف، باب ما عرض علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 626، الرقم، (17) 907، والنسائي في السنن، کتاب الکسوف، باب قدر القراء ة في صلاة الکسوف، 3 / 146، الرقم: 1493، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 578، الرقم: 1878، ومالک في الموطأ، کتاب صلاة الکسوف، باب العمل في صلاة الکسوف، 1 / 186، الرقم: 445، والشافعي في المسند، 1 / 77، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 298، الرقم: 2711، 3374، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 98، الرقم: 4925.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں سورج کو گرہن لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ بقرہ کی قرآت کے برابر بہت طویل قیام کیا۔ پھر آگے طویل روایت بیان کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کر کے نماز سے فارغ ہو گئے درآں حالیکہ سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اُنہیں کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن کو دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے (نماز میں) آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ سے کسی چیز کو پکڑ رہے تھے، پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پکڑتے پکڑتے رک گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا، میں اُس سے ایک خوشہ توڑنے لگا اگر میں اُس خوشہ کو توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اُس کو کھاتے رہتے اور میں نے جہنم کو دیکھا اور میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا، میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! کس وجہ سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُن کی ناشکری کی وجہ سے۔ کہا گیا: اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتی ہیں؟ فرمایا: نہیں خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کا انکار کرتی ہیں۔ اگر تم ساری عمر اُن کے ساتھ نیکی کرتے رہو اور پھر تم سے کوئی ذرا سی (ناگوار) چیز دیکھ لیں تو کہیں گی میں نے تمہارے پاس کبھی اچھائی نہیں دیکھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
76 / 7. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: بَلَغَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَصْحَابِه شَيئٌ فَخَطَبَ فَقَالَ: عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ وَلَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِيْـلًا وَلَبَکَيْتُمْ کَثِيْرًا قَالَ: فَمَا أَتَی عَلٰی أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمٌ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ: غَطَّوْا رُؤُوْسَهُمْ وَلَهُمْ خَنِيْنٌ قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا قَالَ: فَقَامَ ذَاکَ الرَّجُلُ فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوْکَ فُـلَانٌ فَنَزَلَتْ: {يَا أَيُهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ} ]المائدة، 5: 101[. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله: لا تسألوا عن أشياء إن تبدلکم تسؤکم، 4 / 1689، الرقم: 4345، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب توقيره صلی الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤاله عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم: (134) 2359، والنسائي في السنن، کتاب الکسوف، باب نوع آخر منه، 3 / 132، الرقم، 1474، وأيضًا في باب کيف الخطبة في الکسوف، 3 / 152، الرقم: 1500، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 / 1402، الرقم: 4190، ومالک في الموطأ، کتاب صلاة الکسوف، باب العمل في صلاة الکسوف، 1 / 186، الرقم: 444، وابن حبان في الصحيح، 7 / 90، الرقم: 2846.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اصحاب سے کوئی (ناگوار) خبر پہنچی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئی، میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھا اگر تم اُن چیزوں کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور رؤو زیادہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ پر اس سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں آیا تھا وہ سب سر جھکا کر بیٹھ گئے اور اُن پر گریہ طاری ہوگیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے: ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی مان کر راضی ہو گئے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر وہ شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا: میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے، پھر یہ آیت نازل ہوئی: (اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اورمذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
77 / 8. عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: لَا تَسْأَلُوْنَنِي الْيَوْمَ عَنْ شَيئٍ إِلَّا بَيَنْتُه لَکُمْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِيْنًا وَشِمَالًا فَإِذَا کُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَه فِي ثَوْبِه يَبْکِي فَإِذَا رَجُلٌ کَانَ إِذَا لَاحَی الرِّجَالَ يُدْعَی لِغَيْرِ أَبِيْهِ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَبِي؟ قَالَ: حُذَافَةُ، ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ فَقَالَ: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَسُوْلًا نَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ کَالْيَوْمِ قَطُّ إِنَّه صُوِّرَتْ لِيَ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتّٰی رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ وَکَانَ قَتَادَةُ يَذْکُرُ عِنْدَ هٰذَا الْحَدِيْثِ هٰذِه الْآيَةَ: {يَا أَيُهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ} ]المائدة، 5: 101[. مُتَّفَقٌ عَليْهِ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من الفتن، 5 / 2340، الرقم: 6001، وأيضًا في کتاب الفتن، باب التعوّذ من الفتن، 6 / 2597، الرقم: 6678، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب توقيره صلی الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤاله عما لا ضرورة إليه، 4 / 1834، الرقم: (137) 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 254، الرقم: 13691، وأبو يعلی في المسند، 5 / 436، الرقم: 3134، وابن حبان في الصحيح، 14 / 338، الرقم: 6429، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 129، الرقم: 2698، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 6 / 1188، الرقم: 2245، والأصبھاني في دلائل النبوة، 1 / 99، الرقم: 97.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا یہاں تک کہ سوالات کا سلسلہ دراز ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور منبر پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آج تم مجھ سے کوئی ایسی چیز نہیں پوچھو گے جو میں تمہیں بتا نہ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں توجہ فرمائی تو ہر شخص کپڑے میں اپنا سر چھپا کر رو رہا تھا۔ چنانچہ ایک شخص جسے لوگ اُس کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرتے تھے، عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حذافہ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ ہم فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج کی طرح بھلائی اور برائی کو پہلے نہیں دیکھا۔ بیشک مجھے جنت اور دوزخ دکھائی گئیں، یہاں تک کہ میں نے اُنہیں اِس دیوار کے پرے دیکھا۔ حضرت قتادہ اِس حدیث کو بیان کرتے وقت اِس آیت کو بھی پڑھا کرتے: (اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
78 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: صَلّٰی لَنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَکُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قِبْلَةِ هٰذَا الْجِدَارِ فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ ثَـلَاثًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأذان، باب رفع البصر إلی الإمام في الصلاة، 1 / 261، الرقم: 716، وأيضًا في کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة علی العمل، 5 / 2374، الرقم: 6103، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، الرقم: 13744، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 163، الرقم: 1371، والعيني في عمدة القاري، 5 / 307، الرقم، 137، والمناوي في فيض القدير، 5 / 280.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر قبلہ کی سمت اشارہ کیا اور فرمایا: میں نے ابھی تمہیں نماز پڑھاتے ہوئے جنت اور دوزخ دونوں کو اُن کی مثالی شکلوں میں اِس دیوار کی سمت میں نہیں دیکھا۔ پھر تین مرتبہ فرمایا: میں نے آج کی طرح بھلائی اور برائی کو نہیں دیکھا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
79 / 10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ بَيْنِي وَبَيْنَ هٰذَا الْحَائِطِ فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت اور دوزخ دونوں میرے سامنے میرے اور اِس دیوار کے درمیان پیش کی گئیں اور میں نے آج کی طرح بھلائی اور برائی کو نہیں دیکھا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے التاریخ الکبير، اَحمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
80 / 11. وفي رواية: عَنْ سَمُرَةِ بْنِ جُنْدُبٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْلُ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفُ لِمَوْتِ أَحْدٍ مِنْکُمْ وَلَا لِشَيئٍ تُحْدِثُوْنَه وَلٰـکِنْ ذَالِکُمْ مِنْ آيَاتِ اللهِ يُعَبِّرُ بِهَا عِبَادَه لِيَشْکُرَ مَنْ يَخَافُه وَيَذْکُرُه فَإِذَا رَأَيْتُمْ بَعْضَ آيَاتِ اللهِ عزوجل فَافْزَعُوْا إِلٰی ذِکْرِ اللهِ فَاذْکُرُوْهُ وَاخْشَوْهُ وَکَانَ صَلّٰی لَنَا يَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ وَعَظَنَاَ وَذَکَّرَنَا ثُمَّ قَالَ: مَا رَأَيْتُمْ فِي شَيئٍ فِي الدُّنُيَا لَه لَوْنٌ وَلَا نُبِّئْتُمْ بِه فِي الْجَنَّةِ وَلَا فِي النَّارِ إِلَّا وَقَدْ صُوِّرَ لِي فِي قِبَلِ هٰذَا الْجِدَارِ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَکُمْ صَلَاتِي هٰذِه فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ مُصَوَّرًا فِي جِدَارِ الْمَسْجِدِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
1011: أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 7 / 373، الرقم: 1603، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم: 13313، وأبو يعلی في المسند، 7 / 124، الرقم: 4081، وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، 1 / 467، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 261، الرقم: 7063، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 209.
’’اور ایک روایت میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: بے شک سورج اور چاند کو تم میں سے کسی کی موت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے نہ کسی ایسی چیز کی وجہ سے جو تم کرتے ہو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو وہ اپنے بندوں کو دکھلاتا ہے، تاکہ جو اس سے ڈرتے ہیں وہ اس کے شکر گزار بنیں اور اس کو یاد کریں پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں دیکھو تو اس کے ذکر کی طرف لپکو اور اس سے ڈرو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج گرہن والے دن ہمیں نماز پڑھائی اور ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی پھر فرمایا: تم دنیا میں جو بھی رنگدار چیز دیکھتے ہو اور جس چیز کا بھی تمہیں جنت اور دوزخ میں پائے جانے کے متعلق بتایا جاتا ہے، اُسے بصورتِ تصویر مجھے اِس دیوار کی طرف سے دکھا دیا گیا ہے جب سے میں نے تمہیں یہ نماز پڑھائی ہے، پس میں نے تصویر کی صورت میں مسجد کی اِس دیوار میں اُسے دیکھ لیا ہے۔‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
81 / 12. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: کَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي يَوْمٍ شَدِيْدِ الْحَرِّ فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأَصْحَابِه فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتّٰی جَعَلُوْا يَخِرُّوْنَ ثُمَّ رَکَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَکَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاکَ فَکَانَتْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ثُمَّ قَالَ: إِنَّه عُرِضَ عَلَيَّ کُلُّ شَيئٍ تُوْلَجُوْنَه فَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتّٰی لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُه أَوْ قَالَ: تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا فَقَصُرَتْ يَدِي عَنْه وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَرَأَيْتُ فِيْهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَاءيْلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِکٍ يَجُرُّ قُصْبَه فِي النَّارِ وَإِنَّهُمْ کَانُوْا يَقُوْلُوْنَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيْمٍ وَإِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ يُرِيْکُمُوْهُمَا فَإِذَا خَسَفَا فَصَلُّوْا حَتّٰی تَنْجَلِيَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
82 / 13. وفي رواية له: مَا مِنْ شَيئٍ تُوْعَدُوْنَه إِلَّا قَدْ رَأَيْتُه فِي صَلَاتِي هٰذِه لَقَدْ جِيئَ بِالنَّارِ وَذَالِکُمْ حِيْنَ رَأَيْتُمُوْنِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيْبَنِي مِنْ لَفْحِهَا وَحَتّٰی رَأَيْتُ فِيْهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَه فِي النَّارِ کَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِه فَإِنْ فُطِنَ لَه قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي وَإِنْ غُفِلَ عَنْه ذَهَبَ بِه وَحَتّٰی رَأَيْتُ فِيْهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًا ثُمَّ جِيئَ بِالْجَنَّةِ وَذَالِکُمْ حِيْنَ رَأَيْتُمُوْنِي تَقَدَّمْتُ حَتّٰی قُمْتُ فِي مَقَامِي وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيْدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوْا إِلَيْهِ ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ فَمَا مِنْ شَيئٍ تُوْعَدُوْنَه إِلَّا قَدْ رَأَيْتُه فِي صَلَاتِي هٰذِه.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
12، 13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الکسوف، باب ما عرض علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 622، الرقم: (9. 10)904، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب من قال أربع رکعات، 1 / 306، الرقم: 1178، والنسائي في السنن، کتاب الکسوف، باب نوع آخر، 3 / 136، الرقم: 1478، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 317، 374، الرقم: 14457، 15060، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 217، الرقم: 8304، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 315، الرقم: 1381، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 311، الرقم: 1012، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 325، الرقم: 6113.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں سخت گرمی کے ایام میں سورج گرہن لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو نماز (کسوف) پڑھائی جس میں اس قدر طویل قیام کیا کہ لوگ گرنے لگے پھر بہت طویل رکوع کیا، پھر بہت طویل قومہ کیا، پھر بہت طویل رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اُٹھا کر بہت دیر تک کھڑے رہے، پھر دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہوئے، پھر اسی طرح ایک اور رکعت پڑھی یہ چار رکوع اور چار سجدے ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر وہ تمام چیزیں پیش کی گئیں جن میں تم داخل ہو گے، مجھ پر جنت پیش کی گئی حتیٰ کہ اگر میں اس سے کوئی خوشہ لینا چاہتا تو لے لیتا لیکن میں نے اپنا ہاتھ اس سے روک لیا، مجھ پر جہنم پیش کی گئی میں نے جہنم میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جس کو بلی کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، اس عورت نے بلی کو باندھ کے رکھا نہ اسے خود کچھ کھانے کو دیا نہ اسے چھوڑا تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے کچھ چیز کھا لیتی! اور میں نے جہنم میں ابو ثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے (معاذ اللہ) لوگ کہتے ہیں کہ کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتا ہے، حالانکہ سورج اور چاند کا گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں دکھاتا ہے۔ جب سورج یا چاند کو گرہن لگے تو تم نماز پڑھا کرو حتیٰ کہ وہ روشن ہو جائیں۔‘‘
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور جس چیز کا بھی تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اُس کو اُس نماز کے دوران دیکھ لیا، میرے سامنے جہنم کو لایا گیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے اِس خوف سے پیچھے ہٹتے دیکھا کہ اس کی لپٹ مجھ تک نہ آ جائے، یہاں تک کہ میں نے اس جہنم میں ایک خم دار سرے والی لاٹھی والے شخص کو دیکھا جو جہنم میں اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا، وہ شخص اُس خم دار سرے والی لاٹھی سے حاجیوں کی چوری کرتا تھا، اگر حاجی کو پتا چل جاتا تو کہتا یہ کپڑا میری لاٹھی میں اٹک گیا تھا، اگر اس کو پتا نہ چلتا تو (کپڑے) لے جاتا اور یہاں تک کہ میں نے جہنم میں بلی والی عورت کو دیکھا جس نے بلی کو باندھے رکھا تھا نہ اُسے خود کچھ کھلایا اور ہی نہ چھوڑا تاکہ وہ حشرات الارض میں سے کچھ کھا لیتی حتیٰ کہ وہ بلی بھوک سے مر گئی، پھر میرے پاس جنت لائی گئی، یہ اُس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے (نماز میں) آگے بڑھتے دیکھا، میں نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ہاتھ بڑھایا تاکہ جنت کے پھلوں میں سے کچھ لے لوں تاکہ تم انہیں دیکھ لو، پھر مجھے خیال آیا کہ میں ایسا نہ کروں بہرحال جس چیز کا بھی تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اس کو اپنی اس نماز میں دیکھ لیا۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
83 / 14. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في رواية طويلة قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَيُهَا النَّاسُ إِنَّه لَمْ يَبْقَ شَيئٌ لَمْ أَکُنْ رَأَيْتُه إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُه فِي مَقَامِي هٰذَا وَقَدْ أُرِيْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِکُمْ يُسْأَلُ أَحَدُکُمْ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ؟ وَمَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنْ قَالَ: لَا أَدْرِي رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُه وَيَصْنَعُوْنَ شَيْئًا فَصَنَعْتُه قِيْلَ لَه: أَجَلْ عَلَی الشَّکِّ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ هٰذَا مَقْعَدُکَ مِنَ النَّارِ وَإِنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ قِيْلَ لَه: عَلَی الْيَقِيْنِ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ هٰذَا مَقْعَدُکَ مِنَ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُه حَسَنٌ.
14: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 354، الرقم: 27037.
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے میں نے نہ دیکھا ہو لیکن یہ کہ اب میں اسے اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں اور تحقیق تمہیں اپنی قبروں میں آزمائش میں مبتلا ہوتے مجھے دکھایا گیا ہے۔ تم میں سے ہر کسی سے سوال کیا جائے گا: تو (دنیا میں) اس ہستی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ اور تو (دنیا میں) کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پھر اگر اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا میں نے جس طرح لوگوں کو (ان کے بارے میں) کہتے سنا میں نے بھی اسی طرح کہہ دیا اور جو کچھ اُنہیں کرتے ہوئے دیکھا اُسی طرح کر دیا تو اُس سے کہا جائے گا کہ ہاں تو شک پر زندہ رہا اور اِسی پر مرا پس اب یہ رہا تیرا آگ کا ٹھکانہ اور اگر اُس نے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے (پیارے) رسول ہیں‘‘ تو اُس سے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اور اُسی پر مرا لہٰذا تیرا ٹھکانہ یہ جنت ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اِس کی سند صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved