60 / 1. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّه سَأَلَ عَائِشَةَ رضي الله عنها: کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَزِيْدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِه عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَـلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التهجد، باب قيام النبي صلی الله عليه وآله وسلم بالليل في رمضان وغيره، 1 / 385، الرقم: 1096، وأيضًا في کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 / 708، الرقم: 1909، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد رکعات النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الليل، 1 / 509، الرقم: 738، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في وصف صلاة النبي صلی الله عليه وآله وسلم بالليل، 2 / 302، الرقم: 439، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في صلاة الليل، 2 / 40، الرقم: 1341، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 159، الرقم: 393، ومالک في الموطأ، کتاب صلاة الليل، باب صلاة النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الوتر، 1 / 120، الرقم: 263.
’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ پہلے چار رکعتیں پڑھتے اُن کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور طوالت کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ دوسری مرتبہ پھر چار رکعت پڑھتے اُن کو ادا کرنے کے حُسن و طوالت کے متعلق کچھ نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
61 / 2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُوْنَةَ رضي الله عنها لَيْلَةً فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَّا کَانَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوْئًا خَفِيْفًا يُخَفِّفُه عَمْرٌو وَيُقَلِّلُه وَقَامَ يُصَلِّي فَتَوَضَّأْتُ نَحْوًا مِمَّا تَوَضَّأَ ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِه وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: عَنْ شِمَالِه فَحَوَّلَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِيْنِه ثُمَّ صَلّٰی مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتّٰی نَفَخَ ثُمَّ أَتَاهُ الْمُنَادِي فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ مَعَه إِلَی الصَّلَاةِ فَصَلّٰی وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قُلْنَا لِعَمْرٍو: إِنَّ نَاسًا يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم تَنَامُ عَيْنُه وَلَا يَنَامُ قَلْبُه؟ قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُوْلُ: رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ ثُمَّ قَرَأَ: {إِنِّي أَرَی فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ} [الصافات، 37: 102]. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوء، باب التخفيف في الوضوء، 1 / 64، الرقم: 138، وأيضًا في کتاب الآذان، باب وضوء الصبيان، 1 / 293، الرقم: 821، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، 1 / 527، الرقم: 763، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في الرجل يصلي ومعه رجل، 1 / 451، الرقم: 232، والنسائي في السنن، کتاب الغسل والتيمم، باب الأمر بالوضوء من القوم، 1 / 215، الرقم: 442.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا کے پاس رات گزاری تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام اللیل فرمایا۔ جب رات کا کچھ حصہ رہ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ (حضرت عمرو (راوی حدیث) وضو میں تخفیف اور پانی کے قلیل استعمال کو بیان کیا کرتے تھے)۔ (حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ) میں نے بھی آپ کی طرح وضو کیا اور پھر آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے دائیں جانب کر لیا۔ پھر نماز پڑھی جو اللہ نے چاہی۔ پھر لیٹ کر سو گئے اور خراٹے لینے لگے۔ پھر نماز (فجر) کے لئے بلانے والا خادم حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نماز ادا فرمائی لیکن وضو نہیں فرمایا۔ ہم نے حضرت عمرو سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا۔ حضرت عمرو کا بیان ہے کہ میں نے عُبید بن عُمیر کو فرماتے ہوئے سنا کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، پھر یہ آیت پڑھی: (میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ )‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
62 / 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه يُحَدِّثُ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ مَسْجِدِ الْکَعْبَةِ جَائَه ثَـلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوْحَی إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: أَوَّلُهُمْ أَيُهُمْ هُوَ؟ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ: هُوَ خَيْرُهُمْ وَقَالَ آخِرُهُمْ: خُذُوْا خَيْرَهُمْ فَکَانَتْ تِلْکَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتّٰی جَائُوْا لَيْلَةً أُخْرَی فِيْمَا يَرَی قَلْبُه وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم نَائِمَةٌ عَيْنَاه وَلَا يَنَامُ قَلْبُه وَکَذَالِکَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوْبُهُمْ فَتَوَلَّاهُ جِبْرِيْلُ ثُمَّ عَرَجَ بِه إِلَی السَّمَاءِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب کان النبي صلی الله عليه وآله وسلم تنام عينه ولا ينام قلبه، 3 / 1308، الرقم: 3377، وأيضًا في کتاب التوحيد، باب قوله: وکلّم اللہ موسٰی تکليمًا، 6 / 2730، الرقم: 7079، وابن منده في الإيمان، 2 / 715، الرقم: 712، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 122، الرقم: 597، وأيضًا، 7 / 62، الرقم: 13165، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 498.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کا ذکر فرما رہے تھے جو مسجد حرام سے شروع ہوئی تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے آنے سے پہلے تین افراد (فرشتے) آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد حرام کے اندر محوِ خواب تھے۔ اُن میں سے ایک کہنے لگا، وہ کون ہیں؟ دوسرے فرشتے نے کہا: وہ اُن میں سب سے بہتر ہیں۔ تیسرا بولا، اُن کے بہتر کو لے لو۔ پھر وہ غائب ہوگئے اور اُنہیں دیکھا نہیں گیا۔ یہاں تک کہ پھر کسی رات میں پہلے کی طرح نظر آئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن آپ کا قلب مبارک نہیں سوتا تھا اور جملہ انبیائے کرام علیھم السلام کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر آسمان کی طرف تشریف لے گئے۔‘‘ اِسے امام بخاری اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔
63 / 4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما يَقُوْلُ جَائَتْ مَـلَائِکَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّه نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوْا: إِنَّ لِصَاحِبِکُمْ هٰذَا مَثَـلًا فَاضْرِبُوْا لَه مَثَـلًا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّه نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوْا: مَثَلُه کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا وَجَعَلَ فِيْهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَکَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْکُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوْا: أَوِّلُوْهَا لَه يَفْقَهْهَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّه نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوْا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم فَقَدْ عَصَی اللهَ وَمُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 6 / 2655، الرقم: 6852.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا رہتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کے ان صاحب کی ایک مثال ہے لہٰذا وہ مثال بیان کرو۔ ایک نے کہا کہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا کہ آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ پس انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں دستر خوان بچھایا اور بلانے والے کو بھیجا۔ جس نے دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہوا اور دسترخوان سے کھانا کھایا اور جس نے دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہوا اور نہ دسترخوان سے کھانا کھا سکا۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آ جائے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ آنکھ سوتی ہے دل بیدار رہتا ہے۔ پس انہوں نے کہا کہ گھر سے مراد جنت ہے۔ بلانے والے سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد ہیں۔ پس جس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی تو اُس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
64 / 5. عَنْ کُرَيْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّه بَاتَ عِنْدَ خَالَتِه مَيْمُونَةَ فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوْئًا خَفِيْفًا قَالَ: وَصَفَ وُضُوْئَه وَجَعَلَ يُخَفِّفُه وَيُقَلِّلُه قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِه فَأَخْلَفَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِيْنِه فَصَلّٰی ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتّٰی نَفَخَ ثُمَّ أَتَاه بِـلَالٌ فَآذَنَه بِالصَّلَاةِ فَخَرَجَ فَصَلَّی الصُّبْحَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قَالَ سُفْيَانُ: وَهٰذَا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم خَاصَّةً لِأَنَّه بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم تَنَامُ عَيْنَاه وَلَا يَنَامُ قَلْبُه.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
وفي رواية له: فَتَکَامَلَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ثَـلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ نَامَ حَتّٰی نَفَخَ وَکُنَّا نَعْرِفُه إِذَا نَامَ بِنَفْخِه ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ فَصَلّٰی فَجَعَلَ يَقُوْلُ فِي صَلَاتِه أَوْ فِي سُجُوْدِه: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا وَفِي سَمْعِي نُوْرًا وَفِي بَصَرِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ شِمَالِي نُوْرًا وَأَمَامِي نُوْرًا وَخَلْفِي نُوْرًا وَفَوْقِي نُوْرًا وَتَحْتِي نُوْرًا وَاجْعَلْ لِي نُوْرًا أَوْ قَالَ وَاجْعَلْنِي نُوْرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالشَّافِعِيُّ.
5: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، 1 / 528، الرقم: 763، والشافعي في السنن المأثورة، 1 / 148، الرقم: 54، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 123، الرقم: 1401، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 122، الرقم: 596.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات اپنی خالہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا کے ہاں رہے، رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھے اور ایک پرانی لٹکی ہوئی مشک سے مختصر وضو فرمایا۔ حضرت ابن عباس نے اختصارِ وضو کی تشریح میں بتایا کہ آپ نے وضو میں کم پانی استعمال کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں بھی اُٹھا اور اُٹھ کر میں نے بھی وہی کچھ کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں (نماز کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پیچھے کی جانب سے دائیں طرف کھڑا کر دیا، نماز پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹ کر سو گئے حتٰی کہ خراٹے لینے لگے، پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمازِ (فجر) کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جا کر بغیر وضو کیے فجر کی نماز پڑھا دی۔ حضرت سفیان کہتے ہیں کہ بغیر وضو کے نماز پڑھانا صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے کیونکہ ہم تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور امام مسلم کی ہی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ رکعات نماز مکمل ادا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے اور خراٹے لینے لگے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خراٹوں سے جان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُٹھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز اور سجدہ میں یہ دعا مانگتے تھے: ’’اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میری آنکھوں میں نور کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے لیے نور کر دے یا فرمایا: مجھے (سر تا پا) نور بنا دے۔‘‘ اِسے امام مسلم اور شافعی نے روایت کیا ہے۔
65 / 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُوْدُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّا نَسْأَلُکَ عَنْ خَمْسَةِ أَشْيَاءَ فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِهِنَّ عَرَفْنَا أَنَّکَ نَبِيٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ فَأَخَذَ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِيْلُ عَلٰی بَنِيْهِ إِذْ قَالُوْا: {اللهُ عَلَی مَا نَقُوْلُ وَکِيْلٌ} ]يوسف، 12: 66[، قَالَ: هَاتُوْا، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَـلَامَةِ النَّبِيِّ؟ قَالَ: تَنَامُ عَيْنَاه وَلَا يَنَامُ قَلْبُه، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا کَيْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَةُ وَکَيْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: يَلْتَقِي الْمَائَانِ فَإِذَا عَـلَا مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ أَذْکَرَتْ وَإِذَا عَـلَا مَاءُ الْمَرْأَةِ آنَثَتْ، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيْلُ عَلٰی نَفْسِه؟ قَال: کَانَ يَشْتَکِي عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُـلَائِمُهُ إِلَّا أَلْبَانَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ: قَالَ أَبِي: قَالَ بَعْضُهُمْ: يَعْنِي الإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُوْمَهَا قَالُوْا: صَدَقْتَ قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا هٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: مَلَکٌ مِنْ مَـلَائِکَةِ اللهِ ل مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِيَدِه أَوْ فِي يَدِه مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ يَزْجُرُ بِهِ السَّحَابَ يَسُوْقُهُ حَيْثُ أَمَرَ اللهُ، قَالُوْا: فَمَا هٰذَا الصَّوْتُ الَّذِي يُسْمَعُ، قَالَ: صَوْتُه، قَالُوْا: صَدَقْتَ إِنَّمَا بَقِيَتْ وَاحِدَةٌ وَهِيَ الَّتِي نُبَايِعُکَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِهَا فَإِنَّه لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَه مَلَکٌ يَأْتِيهِ بِالْخَبَرِ فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: جِبْرِيْلُ عليه السلام قَالُوْا: جِبْرِيْلُ ذَاکَ الَّذِي يَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا لَوْ قُلْتَ مِيْکَائِيْلَ الَّذِي يَنْزِلُ بِالرَّحْمَةِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ فَأَنْزَلَ اللهُ: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّه نَزَّلَه عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِيْنَo} [البقرة، 2: 97]. الْآيَةَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 274، الرقم: 2483، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 336، الرقم: 9072، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 45، الرقم: 12429، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10 / 66، الرقم: 60. 61، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 305، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 131.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ یہود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے ابو القاسم (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیت)! ہم آپ سے پانچ چیزوں کا سوال کرتے ہیں، پس اگر آپ نے ہمیں ان کے بارے میں خبر دے دی تو ہم جان لیں گے کہ آپ نبی برحق ہیں اور آپ کی اتباع کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے وہی وعدہ لیا جو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے لیا تھا جب اُنہوں نے کہا: (جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اُس پر اللہ نگہبان ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لاؤ (پوچھو) اُنہوں نے کہا: ہمیں نبی کی علامت بتلائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس کی علامت یہ ہے کہ اُس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔ اُنہوں نے کہا: ہمیں بتلائیے کہ عورت بیٹا اور بیٹی کیسے جنتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عورت اور مرد کا پانی (مادہ منویہ) ملتا ہے پس اگر آدمی کا پانی غالب ہو تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی غالب ہو لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ہمیں وہ شے بتائیں جو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اُوپر حرام کی ہوئی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ عرق النساء (ایسی بیماری جس میں رانیں درد کرتی ہیں) میں مبتلا تھے، اُنہوں نے کوئی ایسی چیز نہ پائی جو اُس بیماری کے مناسب ہو سوائے فلاں فلاں چیزوں کے دودھ کے۔ حضرت عبد اللہ بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ بعض نے کہا ہے اِس سے مراد اُونٹ ہے کہ آپ نے اُس کا گوشت اپنے اُوپر حرام کر لیا تھا۔ اُنہوں نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: اُنہوں نے پوچھا: ہمیں (آسمانی) کڑک کے بارے میں بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے پاس بادلوں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ہاتھ میں آگ سے بنی ہوئی ایک تلوار ہے، جس کے ذریعے یہ بادلوں کو ڈراتا دھمکاتا اور ہانکتا ہے جہاں تک ہانکنے کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہوتا ہے، اُنہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنائی دیتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اُسی فرشتے کی آواز ہے۔ اُنہوں نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ ایک چیز رہ گئی ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ اگر آپ اُس کے بارے میں ہمیں بتا دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کر لیں گے، (اور وہ یہ ہے کہ) کوئی نبی ایسا نہیں جس کے پاس فرشتہ وحی لے کر نہ آتا ہو۔ آپ ہمیں اپنے پاس آنے والے فرشتے کے بارے میں بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل۔ وہ کہنے لگے: جبرائیل، جو جنگ و جدال اور عذاب کے ساتھ نازل ہوتا تھا۔ وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ کاش آپ میکائیل کہتے جو رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (آپ فرما دیں جو شخص جبریل کا دشمن ہے ( وہ ظلم کر رہا ہے) کیوں کہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مومنوں کے لیے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہےo)‘‘ اِسے امام اَحمد، نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
66 / 7. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ عَمْرٌو: إِنَّ عَبْدَ اللهِ قَالَ: اسْتَبْعَثَنِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَيْتُ مَکَانَ کَذَا وَکَذَا فَخَطَّ لِي خِطَّةً فَقَالَ لِي: کُنْ بَيْنَ ظَهْرَي هٰذِه لَا تَخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّکَ إِنْ خَرَجْتَ هَلَکْتَ قَالَ: فَکُنْتُ فِيْهَا قَالَ: فَمَضَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَذَفَةً أَوْ أَبْعَدَ شَيْئًا أَوْ کَمَا قَالَ: ثُمَّ إِنَّه ذَکَرَ هَنِيْنًا کَأَنَّهُمُ الزُّطُّ قَالَ عَفَّانُ أَوْ کَمَا قَالَ عَفَّانُ: إِنْ شَاءَ اللهُ لَيْسَ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ وَلَا أَرَی سَوْآتِهِمْ طِوَالًا قَلِيْلٌ لَحْمُهُمْ قَالَ: فَأَتَوْا فَجَعَلُوْا يَرْکَبُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَجَعَلَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ قَالَ: وَجَعَلُوْا يَأْتُوْنِي فَيُخَيِّلُوْنَ أَوْ يَمِيْلُوْنَ حَوْلِي وَيَعْتَرِضُوْنَ لِي قَالَ عَبْدُ اللهِ: فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ رُعْبًا شَدِيْدًا قَالَ: فَجَلَسْتُ أَوْ کَمَا قَالَ، قَالَ: فَلَمَّا انْشَقَّ عَمُوْدُ الصُّبْحِ جَعَلُوْا يَذْهَبُوْنَ أَوْ کَمَا قَالَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم جَاءَ ثَقِيْـلًا وَجِعًا أَوْ يَکَادُ أَنْ يَکُوْنَ وَجِعًا مِمَّا رَکِبُوْهُ قَالَ: إِنِّي لَأَجِدُنِي ثَقِيْـلًا أَوْ کَمَا قَالَ: فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأْسَه فِي حِجْرِي أَوْ کَمَا قَالَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ هَنِيْنًا أَتَوْا عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيْضٌ طِوَالٌ أَوْ کَمَا قَالَ: وَقَدْ أَغْفَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ عَبْدُ اللهِ: فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ أَشَدَّ مِمَّا أُرْعِبْتُ الْمَرَّةَ الْأُوْلَی قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيْثِه: قَالَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ أُعْطِيَ هٰذَا الْعَبْدُ خَيْرًا أَوْ کَمَا قَالُوْا إِنَّ عَيْنَيْهِ نَائِمَتَانِ أَوْ قَالَ عَيْنَه أَوْ کَمَا قَالُوْا وَقَلْبَه يَقْظَانُ ثُمَّ قَالَ: قَالَ عَارِمٌ وَعَفَّانُ: قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: هَلُمَّ فَلْنَضْرِبْ لَه مَثَـلًا أَوْ کَمَا قَالُوْا قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: اضْرِبُوْا لَه مَثَـلًا وَنُؤَوِّلُ نَحْنُ أَوْ نَضْرِبُ نَحْنُ وَتُؤَوِّلُوْنَ أَنْتُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مَثَلُه کَمَثَلِ سَيِّدٍ ابْتَنَی بُنْيَانًا حَصِيْنًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی النَّاسِ بِطَعَامٍ أَوْ کَمَا قَالَ فَمَنْ لَمْ يَأْتِ طَعَامَهُ أَوْ قَالَ: لَمْ يَتْبَعْهُ عَذَّبَه عَذَابًا شَدِيْدًا أَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ الْآخَرُوْنَ: أَمَّا السَّيِّدُ فَهُوَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ وَأَمَّا الْبُنْيَانُ فَهُوَ الْإِسْلَامُ وَالطَّعَامُ الْجَنَّةُ وَهُوَ الدَّاعِي فَمَنِ اتَّبَعَهُ کَانَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيْثِه أَوْ کَمَا قَالُوْا، وَمَنْ لَمْ يَتَّبِعْهُ عُذِّبَ أَوْ کَمَا قَالَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: مَا رَأَيْتَ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: رَأَيْتُ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَا خَفِيَ عَلَيَّ مِمَّا قَالُوْا شَيئٌ قَالَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: هُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِکَةِ أَوْ قَالَ: هُمْ مِنَ الْمَلَائِکَةِ أَوْ کَمَا شَاءَ اللهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ بِاخْتِصَارٍ وَرَوَاه أَحْمَدُ وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 399، الرقم: 3788، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 46 / 461، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 261، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 355.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ میں فلاں فلاں جگہ پر پہنچ گیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے ایک خط کھینچا اور مجھے فرمایا کہ اِس خط سے پیچھے رہو اور اِس سے باہر نہیں نکلنا۔ پس اگر تو اِس سے باہر نکلا تو تُو ہلاک ہو جائے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُسی میں رہا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دور چلے گئے یا جیسا راوی نے کہا۔ پھر آپ نے کچھ لوگوں کا ذکر کیا گویا وہ اہلِ ہند کی طرح کے ہیں یا جیسا راوی نے بیان کیا۔ عفان نے کہا: جیسا اللہ تعالیٰ نے چاہا نہ اُن پر کپڑے ہیں اور نہ ہی میں اُن کی شرمگاہیں دیکھ رہا ہوں، وہ دراز قد تھے اور وہ پُرگوشت نہیں تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ آئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (والہانہ انداز میں) گر پڑے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن پر کچھ پڑھنا شروع کیا۔ راوی کہتے ہیں پھر وہ لوگ میری طرف آنا شروع ہو گئے اور وہ مجھے میرے ارد گرد محسوس ہونے لگے یا میرے ارد گرد چکر لگانے لگے اور میرے سامنے نمودار ہونے لگے۔ حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُن سے سخت ڈر گیا۔ پھر کہتے ہیں: پس میں بیٹھ گیا یا جیسا راوی نے بیان کیا۔ پھر کہتے ہیں: جب صبح کی پو پھوٹی تو اُنہوں نے جانا شروع کر دیا یا جیسا راوی نے بیان کیا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درد میں مبتلا بوجھل طبیعت کے ساتھ آئے یا شاید آپ کا یہ درد اُن لوگوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُمڈنے کی وجہ سے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے آپ کو بوجھل محسوس کرتا ہوں یا جیسا آپ نے فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور میری گود میں رکھ لیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ پھر کچھ دراز قد لوگ آئے جنہوں نے سفید کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ لگ گئی۔ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں اُن سے پہلی بار سے زیادہ ڈر گیا۔ عارم نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے کہ اُن لوگوں میں سے بعض نے بعض سے کہا: اِس ہستی(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو خیرِ (نبوت) عطا ہوئی ہے یا جیسا اُنہوں نے کہا کہ اُن کی دونوں چشمانِ مقدسہ یا کہا کہ چشم مقدس سوتی ہے، یا جیسا اُنہوں نے کہا، اور آپ کا دل بیدار رہتا ہے۔ پھر راوی کہتے ہیں کہ عارم اور عفان نے کہا کہ بعض نے بعض سے کہا: آؤ ہم اِن کی مثال بیان کریں یا جیسا اُنہوں نے کہا کہ بعض نے بعض سے کہا: اُن کی مثال بیان کرو اور ہم اِس کی تاویل (تشریح) کریں گے یا ہم مثال بیان کرتے ہیں تم اُس کی تاویل کرنا۔ پس بعض نے بعض سے کہا: اِس ہستی کی مثال ایک سردار جیسی ہے جس نے ایک مضبوط عمارت تعمیر کی پھر لوگوں کی طرف کھانا بھیجا یا جیسا اُس نے کہا۔ پس جو شخص اِس کے کھانے کے پاس نہ آیا یا کہا: جس نے اِس شخص کی پیروی نہ کی اُسے اس نے سخت عذاب دیا یا جیسا کہ اُنہوں نے کہا۔ دوسروں نے کہا: رہا سردار تو وہ تمام جہانوں کو پالنے والا رب ہے اور رہی عمارت تو وہ اسلام ہے اور کھانا جنت ہے اور وہی دعوت دینے والا ہے۔ پس جس نے اس کی پیروی کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ عارم نے اپنی حدیث میں کہا یا جیسا اُنہوں نے کہا: جس شخص نے اِس کی پیروی نہ کی اُس کو عذاب دیا گیا یا جیسا اُنہوں نے کہا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور فرمایا: اے اُمِ عبد کے بیٹے! تو نے کیا دیکھا؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: میں نے فلاں فلاں چیز دیکھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ فرشتوں کا ایک گروہ تھا یا فرمایا: وہ ملائکہ میں سے تھے جیسا اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ نے فرمایا۔‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کو امام ترمذی نے مختصرا اور احمد نے روایت کیا ہے اور اِن کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
67 / 8. عَنْ رَبِيْعَةَ الْجُرَشِيِّ رضي الله عنه يَقُوْلُ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقِيْلَ لَه: لِتَنَمْ عَيْنُکَ وَلْتَسْمَعْ أُذُنُکَ وَلْيَعْقِلْ قَلْبُکَ. قَالَ: فَنَامَتْ عَيْنَايَ وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ وَعَقَلَ قَلْبِي. قَالَ: فَقِيْلَ لِي: سَيِّدٌ بَنَی دَارًا فَصَنَعَ مَأْدُبَةً وَأَرْسَلَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَکَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَطْعَمْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ قَالَ: فَاللهُ السَّيِّدُ وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِي وَالدَّارُ الإِسْـلَامُ وَالْمَأْدُبَةُ الْجَنَّةُ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْمَرْوَزِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
8: أخرجه الدارمي في السنن، باب صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الکتب قبل مبعثه، 1 / 18، الرقم: 11، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 65، الرقم: 4597، والمروزي في السنة، 1 / 34، الرقم: 109، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 196، وابن خلاد في أمثال الحديث، 1 / 19، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 260، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 / 125.
’’حضرت ربیعہ جرشی بیان کرتے ہیں کہ کوئی آنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا: چاہیے کہ آپ کی چشم مقدس سو جائے اور کان مبارک سنیں اور قلب انور سمجھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری آنکھ سو گئی، کانوں نے سنا اور دل نے سمجھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے کہا گیا: ایک سردار نے گھر بنایا، پھر کھانا بنایا اور دعوت دینے والے کو دعوت دینے کے لئے بھیجا۔ سو جس نے اس دعوت دینے والے کی دعوت پر لبیک کہا، وہ گھر میں داخل ہوا اور اُس کھانے سے کھایا، تو سردار اُس سے راضی ہوا۔ اور جس نے اس دعوت دینے والے کی دعوت کو جھٹلایا، وہ نہ گھر میں داخل ہوا، اور نہ ہی اُس نے اس کھانے سے کھانا کھایا تو سردار اُس سے ناراض ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سردار ہے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت دینے والے ہیں، گھر اسلام ہے اور کھانا جنت ہے۔‘‘
اِسے امام دارمی، طبرانی اور مروزی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند حسن ہے۔
68 / 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم نَامَ حَتّٰی سُمِعَ لَه غَطِيْطٌ فَقَامَ فَصَلّٰی وَلَمْ يَتَوَضَّأْ فَقَالَ عِکْرِمَةُ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَحْفُوْظًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حُمَيْدٍ.
9: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 244، الرقم: 2194، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 209، الرقم: 616، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 121.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے خراٹوں کی آواز بھی سنی گئی، پھر بیدار ہوئے اور تازہ وضو کئے بغیر نماز ادا فرمائی۔ حضرت عکرمہ نے بیان کیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے سے محفوظ تھے۔ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگتا تھا)۔‘‘ اِسے امام احمد اور ابنِ حمید نے روایت کیا ہے۔
69 / 10. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم تَنَامُ عَيْنَاه وَلَا يَنَامُ قَلْبُه. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
10: أخرجه الحاکم في المستدرک، تفسير سورة الصافات، 2 / 468، الرقم: 3614.
’’حضرت اَنس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس سوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب انور نہیں سوتا تھا۔‘‘
اِسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved