29 / 1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکْتَنُوْا بِکُنْيَتِي فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وفي رواية لهما: فَإِنَّمَا بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب قول اللہ تعالی: فأن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1133، الرقم: 2946، ومسلم في الصحيح، کتاب الآداب، باب النهي عن التکني بأبي القاسم، 3 / 1682، الرقم: 2133، وأبو داود نحوه في السنن، کتاب الآداب، باب في الرجل يتکنی بأبي القاسم، 4 / 291، الرقم: 4965، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 303، الرقم: 14288، والحاکم في المستدرک، 4 / 308، الرقم: 7735 وقال: هذا حديث صحيح، وأبو يعلی في المسند، 3 / 424، الرقم: 1915.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا نام رکھو اور میری کنیت (ابو القاسم) نہ رکھو، میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور میں ہی تم میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں فرمایا: ’’میں قاسم بنا کر ہی بھیجا گیا ہوں اور میں ہی تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔‘‘
30 / 2. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: سَمُّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْيَتِي فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
وَقَالَ حُصَيْنٌ (قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ): بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وفي رواية لهما: فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب قول اللہ تعالی: فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1133، الرقم: 2946، وأيضًا في کتاب الأدب، باب من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2290، الرقم: 5843، وأيضًا في الأدب المفرد / 292، الرقم: 839، الرقم: 5843، ومسلم في الصحيح، کتاب الآداب، باب النهي عن التکني بأبي القاسم، 3 / 1683، الرقم: 2133، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 313، 369، الرقم: 14403، 15006، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 338، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 264، الرقم: 25927، وأبو يعلی في المسند، 3 / 434، الرقم: 1923، والحاکم في المستدرک، 4 / 308، الرقم: 7735، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 38.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا نام رکھو اور میری کنیت نہ رکھو، پس بے شک میں ہی قاسم (تقسیم کرنے والا) بنایا گیا ہوں، اور میں ہی تم میں (اللہ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں اور حضرت حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے قاسم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، میں ہی تمہارے درمیان (اللہ تعالیٰ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔۔
اور بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میں تو قاسم ہی ہوں اور تمہارے درمیان (اللہ تعالیٰ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں۔‘‘
31 / 3. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ يُرِدِ اللهُ بِه خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية لمسلم: وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللهُ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اللَّه به خيرا يفقّهه في الدين، 1 / 39، الرقم: 71، وأيضًا في أبواب فرض الخمس، باب قول اللّٰه تعالٰی: فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1134، الرقم: 2948، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق وهم أهل العلم، 6 / 2667، الرقم: 6882، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهي عن المسألة، 2 / 718، الرقم: 1037، والترمذي عن ابن عباس رضی اللہ عنهما في السنن، کتاب العلم، باب إذا أراد اللہ بعبد خيرًا فقهه في الدين، 5 / 28، الرقم: 2645، وابن ماجه عن معاوية وأبي هريرة رضی اللہ عنهما في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 / 80، الرقم: 220. 221، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 425، الرقم: 5839، ومالک في الموطأ، 2 / 900، الرقم: 1599، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 234، الرقم: 793، والدارمي في السنن، 1 / 85، الرقم: 224. 225.
’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور امام مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میں ہی تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘
32 / 4. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّمَا أَنَا خَازِنٌ فَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ طِيْبِ نَفْسٍ فَيُبَارَکُ لَه فِيْهِ وَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ وَشَرَهٍ کَانَ کَالَّذِي يَأْکُلُ وَلَا يَشْبَعُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحَمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهي عن المسألة، 2 / 718، الرقم: 1037، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 99. 100، الرقم: 16956. 16965، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 372، الرقم: 555، وابن حبان في الصحيح، 8 / 193، الرقم: 3401، وأبو يعلی في المسند، 13 / 340، الرقم: 7354، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 370. 371، الرقم: 869، 872. 873، وأيضًا في مسند الشاميين، 3 / 129، الرقم: 1933، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 337، الرقم: 1243.
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں ہی تو (اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا) خزانچی ہوں، پس جس شخص کو میں اپنی خوشی سے عطا کرتا ہوں، تو اُس کے لیے اُس میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور جس شخص کو میں اس کے سوال کرنے اور اس کے طمع کرنے کی وجہ سے دیتا ہوں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کھانا کھاتا ہو لیکن اس کی بھوک نہ مٹتی ہو۔‘‘
اِسے امام مسلم، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
33 / 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا أُوْتِيْکُمْ مِنْ شَيئٍ وَمَا أَمْنَعُکُمُوْهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
5: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارة والفي، باب فيما يلزم الإمام من أمر الرعية والحجبة عنه، 3 / 135، الرقم: 2949، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 314،، الرقم: 8140، وابن راهويه في المسند، 1 / 425، الرقم: 486.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں کوئی شے دیتا ہوں نہ اُسے تم سے روکتا ہوں۔ میں ہی (اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا) خزانچی ہوں۔ میں (ہر چیز کو وہیں) رکھتا ہوں جہاں مجھے (اُسے رکھنے کا) حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اِسے امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
34 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَاهُ؟ قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُه، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّهُ. فَضَمَمْتُه، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب حفظ العلم، 1 / 56، الرقم: 119، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هريرة الدوسي رضي الله عنه، 4 / 1939، الرقم: 2491، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب لأبي هريرة رضي الله عنه، 5 / 684، الرقم: 3834. 3835، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 247، الرقم: 881، وأبو يعلی في المسند، 11 / 121، الرقم: 6248.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا سے) دونوں ہاتھ بھر کر اُس میں ڈال دیئے اور فرمایا: اُسے سینے سے لگا لو۔ میں نے ایسا ہی کیا: پس اُس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
35 / 7. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْـلًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ: يَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ وَکَانَ عَامِرٌ رَجُـلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُوْ بِالْقَوْمِ يَقُوْلُ:
اَللّٰهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ هٰذَا السَّائِقُ قَالُوْا: عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ: يَرْحَمُهُ اللهُ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1537، الرقم: 3960، وأيضًا في کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5 / 2277، الرقم: 5796، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة خيبر، 3 / 1427، الرقم: 1802، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 227، الرقم: 20823، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 32، الرقم: 6294، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 101، الرقم: 5.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی جانب (سفر پر) نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے (میرے بھائی) حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا۔ اے عامر! کیا آپ ہمیں اپنے پسندیدہ شعر نہیں سنائیں گے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اُتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے:
’’اے اللہ! اگر تیرا لطف و کرم نہ ہوتا تو ہم ہدایت (بھی) نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نمازپڑھتے۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: عامر بن اکوع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) کہنے لگے کہ(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان کے باعث) اُن کے لئے (جنت) واجب ہو گئی ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
36 / 8. عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ رضي الله عنه: لَوْ حَرَکْتَ بِنَا الرِّکَابَ فَقَالَ: قَدْ تَرَکْتُ قَوْلِي. قَالَ لَهُ عُمَرُ رضي الله عنه: أَسْمِعْ وَأَطِعْ قَالَ:
اَللّٰهُمَّ لَولَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَ
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَ
فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَ
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَ
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ ارْحَمْهُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ.
8: أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5 / 69، الرقم: 8250، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 44، الرقم: 146، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 395، الرقم: 32327، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 527، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 381، الرقم: 264، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 146، الرقم: 389، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 28 / 104، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 236.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: کاش تم (اپنے اشعار کے ساتھ) ہماری سواریوں کو (تیزی سے) حرکت دیتے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سناؤ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی اطاعت بجا لاؤ۔ اُنہوں نے یہ شعر سنائے:
’’اے اللہ! اگر تیری مہربانی نہ ہوتی تو ہم ہدایت (بھی) نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب ہم دشمن سے نبرد آزما ہوں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔‘‘
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اُس پر رحم فرما تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اِس کے لئے جنت) واجب ہو گئی ہے۔‘‘
اِسے امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
37 / 9. عَنْ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ رضي الله عنها قَالَتْ: نَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا قَرِيْبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَتَبَسَّمُ فَقُلْتُ: مَا أَضْحَکَکَ قَالَ: أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوْا عَلَيَّ يَرْکَبُوْنَ هٰذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ کَالْمُلُوْکِ عَلَی الْأَسِرَّةِ. قَالَتْ: فَادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. فَدَعَا لَهَا ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا. فَقَالَتْ: مِثْلَ قَوْلِهَا فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا. فَقَالَتْ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. فَقَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ. فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه غَازِيًا أَوَّلَ مَا رَکِبَ الْمُسْلِمُوْنَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ. فَلَمَّا انْصَرَفُوْا مِنْ غَزْوِهِمْ قَافِلِيْنَ، فَنَزَلُوْا الشَّأْمَ، فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْکَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فضل من يصرع في سبيل اللہ فمات فهو منهم، 3 / 1030، الرقم: 2646، وأيضًا في باب غزوة المرأة في البحر، 3 / 1055، الرقم: 2722، 2737، ومسلم في الصحيح کتاب الإمارة، باب فضل الغزو في البحر، 3 / 1518، الرقم: 1912، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في غزو البحر، 4 / 178، الرقم: 1645، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل الغزو في البحر، 3 / 6، الرقم: 2490، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل الجهاد في البحر، 6 / 40، الرقم: 3171. 3172، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل غزوة البحر، 2 / 927، الرقم: 2776، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 264، الرقم: 13816، 6 / 361، الرقم: 2077.
’’حضرت اُمّ حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز میرے گھر میںآرام فرما تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے بیدار ہوئے میں عرض گزار ہوئی: (یا رسول اللہ!) آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر میری اُمت کے کچھ لوگ پیش کئے گئے جو اِس سمندر پر اس طرح سوار ہیں جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر۔ وہ عرض گزار ہوئیں: (یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شمار فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور پھر دوبارہ سو گئے۔ اِس دفعہ بھی پچھلے واقعہ کی طرح نظر آیا اور سوال و جواب ہوا۔ وہ پھر عرض گزار ہوئیں: (یا رسول اللہ!) بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اِس گروہ میں شامل فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پہلے گروہ میں ہو۔ پس یہ اپنے خاوند حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلیں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سمندری سفر کیا جب وہ اپنے جہاد سے فارغ ہو کر قافلوں کی صورت میں واپس لوٹے تو ملک شام میں اُترے۔ اُن (حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہا) کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا تو وہ اُس سے گر کر اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
38 / 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ فَأَخَذَ النَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْأُمَّةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ النَّفَرُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْعَشَرَةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ وَحْدَه فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ قُلْتُ: يَا جِبْرِيْلُ، هٰؤُلَاءِ أُمَّتِي قَالَ: لَا وَلٰـکِنِ انْظُرْ إِلَی الْأُفُقِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ قَالَ: هٰؤُلَاءِ أُمَّتُکَ وَهٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ أَلْـفًا قُدَّامَهُمْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: کَانُوْا لَا يَکْتَوُوْنَ وَلَا يَسْتَرْقُوْنَ وَلَا يَتَطَيَرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَ فَقَامَ إِلَيْهِ عُکَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْه مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ: سَبَقَکَ بِهَا عُکَّاشَةُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، 5 / 2396، الرقم: 6175. 6176، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب، 1 / 197، الرقم: 216، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: (16) منه، 4 / 631، الرقم: 2446، وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 378، الرقم: 7604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 271، الرقم: 2448، 3819، والدارمي في السنن، 2 / 422، 430، الرقم: 2807، 2823، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 408، الرقم: 19519.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر اُمتیں پیش کی گئیں۔ پس ایک ایک نبی گزرنے لگے اور اُن کے ساتھ اُن کی اُمت تھی، ایک نبی ایسے بھی گزرے کہ اُن کے ساتھ چند اُمتی تھے۔ ایک نبی کے ساتھ دس آدمی۔ ایک نبی کے ساتھ پانچ سو۔ ایک نبی صرف تنہا گزرے۔ میں نے نظر دوڑائی تو ایک بڑی جماعت نظر آئی۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! کیا یہ میری اُمت ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یہ نہیں بلکہ آپ اُفق کی جانب توجہ فرمائیں۔ میں نے دیکھا تو وہ بہت ہی بڑی جماعت تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ آپ کی اُمت ہے اور یہ جو ستر ہزار ان کے آگے ہیں، ان کے لئے نہ حساب ہے اور نہ عذاب۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ کس وجہ سے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، غیر شرعی جھاڑ پھونک نہیں کرتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی اُن لوگوں میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں شامل فرما۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
39 / 11. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضي الله عنهما أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ رضي الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُه فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُه فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ: يَا حَکِيْمُ، إِنَّ هٰذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَه بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُوْرِکَ لَه فِيْهِ وَمَنْ أَخَذَه بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَکْ لَه فِيْهِ کَالَّذِي يَأْکُلُ وَلَا يَشْبَعُ. اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی. قَالَ حَکِيْمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَکَ شَيْئًا حَتّٰی أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه يَدْعُوْ حَکِيْمًا إِلَی الْعَطَاءِ فَيَأْبَی أَنْ يَقْبَلَه مِنْهُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رضي الله عنه دَعَاه لِيُعْطِيَه فَأَبَی أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ، عَلٰی حَکِيْمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّه مِنْ هٰذَا الْفَيئِ فَيَأْبَی أَنْ يَأْخُذَه فَلَمْ يَرْزَأْ حَکِيْمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی تُوُفِّيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الاستعفاف عن المسألة، 2 / 535، الرقم: 1403، وأيضًا في کتاب الوصايا، باب تأويل قول اللہ تعالی: من بعد وصية يوصي بها أو دين، 3 / 1010، الرقم: 2599، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 717، الرقم: 1035، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: (29)، 4 / 641، الرقم: 2463، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب اليد العليا، 5 / 60، الرقم: 2531، والدارمي في السنن، 1 / 475، الرقم: 1650.
’’حضرت عُروہ بن زُبیر اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر عطا فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حکیم! یہ مال سرسبز اور شیریں ہے۔ جو اسے نفس کی لا تعلقی سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے قلبی لالچ سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہے کہ کھائے اور سیر نہ ہو۔ (جان لو!) اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ دنیا کو خیر باد کہہ دوں پھر (اپنے دورِ خلافت میں) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت حکیم کو مال دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے گروہ مسلمین! میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس مال فئی سے حضرت حکیم کو ان کا حق دیا لیکن انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سے بھی مال لینا قبول نہیں کیا یہاں تک کہ (اسی حال میں) وفات پا گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
40 / 12. عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَکَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَکَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيْلِ فَقَالَ: يَا عَدِيُّ، هَلْ رَأَيْتَ الْحِيْرَةَ؟ قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ: فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللهَ قُلْتُ: فِيْمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّيئٍ الَّذِيْنَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِـلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ کُنُوْزُ کِسْرَی قُلْتُ: کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ؟ قَالَ: کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ. وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّه مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُه مِنْه فَـلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُه مِنْه…قَالَ عَدِيٌّ: فَرَأَيْتُ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللهَ وَکُنْتُ فِيْمَنِ افْتَتَحَ کُنُوْزَ کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ. وَلَئِنْ طَالَتْ بِکُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم: يُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّه. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1316، الرقم: 3400، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 96، الرقم: 91، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 225، الرقم: 9911، والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 83.
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر فاقہ کی شکایت کی پھر دوسرا شخص آیا اور ڈاکہ زنی کا شکوہ کیا۔ (اُن کے مسائل حل کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عدی! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) دیکھا تو نہیں لیکن اُس کے متعلق سنا ضرور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھ لو گے کہ ایک اُونٹ سوار عورت حیرہ سے چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اُسے خدا کے سوا کسی دوسرے کا خوف نہیں ہوگا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اُس وقت قبیلہ طے کے ڈاکوؤں کو کیا ہو گا جنہوں نے آج کل شہروں میں ہر طرف آگ لگا رکھی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو ضرور تم کسریٰ کے خزانوں پر قابض ہو جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کیا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز کے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھو گے کہ آدمی ہتھیلی بھر سونا لے کر نکلے گا یا چاندی لے کر تلاش کرے گا کہ کوئی اسے قبول کرے لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک سچ ہوتے) دیکھ لیا کہ ایک عورت نے حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ تھا اور میں ان حضرات میں خود شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو فتح کیا تھا اور اگر تمہاری عمروں نے وفا کی تو تم حضور نبی اکرم ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ایک آدمی ہتھیلی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا (لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ہوگا)، اسے بھی ضرور دیکھ لو گے۔‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
41 / 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِه فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ: {اَلنَّبِيُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} ]الأحزاب، 33: 6[، فَأَيُمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالًا فَلْيَرِثْه عَصَبَتُه مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير / الأحزاب، باب النّبيّ أولی بالمؤمنين من أنفسهم، 4 / 1795، الرقم: 4503، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، 2 / 592، الرقم: (43)867، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب کيف الخطبة، 3 / 188، الرقم: 1578، والدارمي في السنن، 2 / 341، الرقم: 2594، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 143، الرقم: 1785، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 238، الرقم: 12148.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ (قرض خواہ یا بچے) میرے پاس آئیں میں اُن کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد میرا نظامِ حکومت یہ دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
42 / 14. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَه، فَقَالَ: مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَه فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِه کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا، قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا، کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم: 3383، وأيضًا في کتاب المغازي، باب غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم: 3921. 3923، وأيضًا في کتاب الأشربة، باب شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم: 5316، وأيضًا في کتاب التفسير / الفتح، باب إِذْ يُبَايعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، 4 / 1831، الرقم: 4560، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 329، الرقم: 14562، والدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم: 27، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 65، الرقم: 125، وابن حبان في الصحيح، 14 / 480، الرقم: 6542، وأبو يعلی في المسند، 4 / 82، الرقم: 2107، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272، وابن الجعد في المسند، 1 / 29، الرقم: 82.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے چمڑے کے پیالے میں پانی رکھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے وضو فرمایا: لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چمڑے کے پیالے میں رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘
اِسے امام بخاری، اَحمد، دارمی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
43 / 15. عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ، فَنَزَحْنَاهَا حَتّٰی لَمْ نَتْرُکْ فِيْهَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی شَفِيْرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ، فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتّٰی رَوِيْنَا، وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1311، الرقم: 3384.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنویں کی منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا: اُس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اِس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اُس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔‘‘ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
44 / 16. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُه، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْزِعُوْهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1312، الرقم: 3387، وأيضًا في کتاب البيوع، باب الکيل علی البائع والمعطي، 2 / 748، الرقم: 2020، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 365، الرقم: 14977.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ ) وفات پا گئے اور اُن کے اوپر قرض تھا۔ سو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اُس کی ادائیگی کے لئے) کھجور کے (چند) درختوں سے حاصل ہونے والی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اُن سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈھیر کے سامنے بیٹھ گئے اور فرمایا: قرض خواہوں کو تول کر دیتے جاؤ سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔‘‘
اِسے امام بخاری اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
45 / 17. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيِّ أَنَّه أَتَی عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رضي الله عنه وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَه وَمَعَه أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ: فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوْا. قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَا فِيْهِمْ؟ قَالَ: أَنْتِ فِيْهِمْ. ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَهُمْ. فَقُلْتُ: أَنَا فِيْهِمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: لَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
17: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب ما قيل في قتال الروم، 3 / 1069، الرقم: 2766، والطبراني في المعجم الکبير، 25 / 133، الرقم: 323، وأيضًا في المعجم الأوسط، 7 / 48، الرقم: 6812، وأيضًا في مسند الشاميين، 1 / 257، الرقم: 444. 445، والحاکم في المستدرک، 4 / 599، الرقم: 8668، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 662، الرقم: 284، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 6 / 98، الرقم: 3313، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 62، 5 / 156، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 41، الرقم: 92، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 10 / 93.
’’حضرت عمیر بن اسود عنسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ وہ ساحل حمص پر اپنے مکان میں فروکش تھے اُن کے ساتھ (اُن کی اہلیہ) حضرت اُمّ حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اُمّ حرام کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں سے جو گروہ سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا، اُن کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ حضرت اُمّ حرام رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اُن میں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم بھی اُن میں ہو۔ اُس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر روم کے پایہ تخت میں جنگ کرے گا اس کی مغفرت فرما دی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔‘‘ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
46 / 18. عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَيْتُه بِوَضُوْئِه وَحَاجَتِه فَقَالَ لِي: سَلْ، فَقُلْتُ: أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ: أَوْ غَيْرَ ذَالِکَ؟ قُلْتُ: هُوَ ذَاکَ، قَالَ: فَأَعِنِّي عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
18: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه، 1 / 353، الرقم: 489، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب وقت قيام النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الليل، 2 / 35، الرقم: 1320، والنسائي في السنن، کتاب التطبيق، باب فضل السجود، 2 / 227، الرقم: 1138، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 242، الرقم: 724، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 59، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 56، الرقم: 4570، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 486، الرقم: 4344، والمنذري فی الترغيب والترهيب، 1 / 152، الرقم: 564.
’’حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لئے پانی لاتا ایک مرتبہ (میری خدمت سے خوش ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں آپ سے جنت میں بھی آپ کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘ میں نے عرض کیا: مجھے یہی کافی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جاؤ جنت تو عطا کر دی اب) تم بھی کثرتِ سجود سے اپنے معاملہ میں میری مدد کرو۔‘‘
اِسے امام مسلم، ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
47 / 19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ: خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هٰذَا أَوْ فِي هٰذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَالِکَ التَّمْرِ کَذَا وَکَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اللهِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي حَتّٰی کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ رضي الله عنه فَإِنَّه انْقَطَعَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
19: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب لأبي هريرة رضي الله عنه، 5 / 685، الرقم: 3839، وأحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 352، الرقم: 8613، وابن حبان في الصحيح، 14 / 467، الرقم: 6532، وابن راهويه في المسند، 1 / 75، الرقم: 3، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 527، الرقم: 2150، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 117، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 231، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 85.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیںکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے اُن میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا: اُنہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ لو اور جب اُنہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی وہ کھجوریں ختم نہ ہوئیں) یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘
اِسے امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
48 / 20. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَبُوْ بَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هُوَ أَصَحُّ.
20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب عبد الرحمن بن عوف الزهري رضي الله عنه، 5 / 647، الرقم: 3747. 3748، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 211، الرقم: 4649، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضائل العشرة، 1 / 48، الرقم: 133، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 56، الرقم: 8194، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 193، الرقم: 1675، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 229، الرقم: 278، وابن حبان في الصحيح، 15 / 463، الرقم: 7002، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 351، الرقم: 31953، وأبو يعلی في المسند، 2 / 147، الرقم: 835، والحاکم في المستدرک، 3 / 409، الرقم: 5562، والبزار في المسند، 3 / 60، الرقم: 818، والشاشي في المسند، 1 / 235، الرقم: 192، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 339، الرقم: 4374، وابن سليمان من حديث خيثمة، 1 / 93، 95.
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر جنتی ہے، عمر جنتی ہے، عبد الرحمن بن عوف جنتی ہے، سعد جنتی ہے، سعید (بن زید) جنتی ہے اور ابو عبیدہ بن جراح جنتی ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابو داود، ابنِ ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح تر ہے۔
49 / 21. عَنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ فَنَهَضَ إِلٰی صَخْرَةٍ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ تَحْتَه طَلْحَةَ فَصَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی اسْتَوَی عَلَی الصَّخْرَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: أَوْجَبَ طَلْحَةُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
21: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب طلحة بن عبيد اللہ رضي الله عنه، 5 / 643، الرقم: 3738، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 165، الرقم: 1417، وابن حبان في الصحيح، 15 / 436، الرقم: 6979، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 376، الرقم: 32160، والحاکم في المستدرک، 3 / 328، 421، الرقم: 4312، 5602. 5623، والشاشي في المسند، 1 / 94، الرقم: 31، وأبويعلی في المسند، 2 / 33، الرقم: 670، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 370، الرقم: 12878، 9 / 46، والبزار في المسند، 3 / 188، الرقم: 972، وابن المبارک في الجهاد، 1 / 80، الرقم: 93.
’’حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگِ اُحد کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو زرہیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن نہ چڑھ سکے چنانچہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو نیچے بٹھا کر اُوپر چڑھے، یہاں تک کہ چٹان پر تشریف فرما ہوئے، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے (اپنے لیے جنت) واجب کر لی ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، احمد، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
50 / 22. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ: طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَزَّارُ وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
22: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب طلحة بن عبيد اللہ رضي الله عنه، 5 / 644، الرقم: 3741، وأبو يعلی في المسند، 1 / 395، الرقم: 515، والحاکم في المستدرک، 3 / 409، الرقم: 5562، والبزار في المسند، 3 / 60، الرقم: 818، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 560. 564، الرقم: 1309، 1320، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 453، الرقم: 3949.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے کانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: طلحہ اور زبیر دونوں جنت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابو یعلی اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
51 / 23. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضي الله عنه أَنَّه أُصِيْبَتْ عَيْنُه يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُه عَلٰی وَجْنَتِه، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: لَا، فَدَعَا بِه، فَغَمَزَ حَدَقَتَه بِرَاحَتِه، فَکَانَ لَا يُدْرَی أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ سَعْدٍ.
23: أخرجه أبو يعلی في المسند، 3 / 120، الرقم: 1549، وأبو عوانة في المسند، 4 / 348، الرقم: 6929، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 187، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 333، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 361، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم: 814، وأيضًا في الإصابة، 4 / 208، الرقم: 4888، وابن کثير في البداية والنهاية، 3 / 291.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) اُن کی آنکھ ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔‘‘
اِسے امام ابو یعلی، ابو عوانہ اورابن سعد نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved