1 / 1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَه أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوْا تُجَّارًا بِالشَّامِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَادَّ فِيْهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيْلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِه، وَحَوْلَه عُظَمَاءُ الرُّوْمِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِه، فَقَالَ: أَيُکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهٰذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّه نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُوْ سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ: أَدْنُوْهُ مِنِّي وَقَرِّبُوْا أَصْحَابَه، فَاجْعَلُوْهُمْ عِنْدَ ظَهْرِه، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِه: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هٰذَا عَنْ هٰذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ کَذَبَنِي، فَکَذِّبُوْهُ، فَوَاللهِ، لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوْا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: کَيْفَ نَسَبُهُ فِيْکُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِيْنَا ذُوْ نَسَبٍ…فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَه: سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِه فَذَکَرْتَ: أَنَّه فِيْکُمْ ذُوْ نَسَبٍ، فَکَذَالِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا…الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب کيف کان بدء الوحي إلی رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 7، الرقم: 7، وأيضًا في کتاب الجهاد والسير، باب دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم الناس إلی الإسلام والنبوة، 3 / 1074، الرقم: 2782، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 309، الرقم: 11064، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 262، الرقم: 2370، وأبو يعلی في المسند، 5 / 7، الرقم: 2617، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 16، 20، الرقم: 7270، 7272، وابن منده في الإيمان، 1 / 288، الرقم: 143، وأبو عوانة في المسند، 4 / 268، الرقم: 6727، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 177، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، وأيضًا في البداية والنهاية، 2 / 204.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ انہیں ہرقل (شاہ روم) نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا جب کہ وہ شام میں بغرضِ تجارت موجود تھے۔ اس زمانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان اور کفارِ قریش سے معاہدئہ امن (صلح حدیبیہ) کیا ہوا تھا۔ یہ لوگ ہرقل کے پاس پہنچے اور ہرقل مع اپنی جماعت کے ایلیا (بیت المقدس) میں تھا۔ ہرقل نے ان لوگوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ اس کے اردگرد عمائدین روم بیٹھے تھے، اس نے انہیں بلایا اور پھر اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور کہا: تم میں سے بلحاظ نسب کون اس شخص سے زیادہ قریب ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں نسبی لحاظ سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔ اس نے کہا: اسے میرے قریب کر دو اور ان کے ساتھیوں کو اس کے قریب اس کی پشت کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان کے ساتھیوں سے کہو میں اس سے اس نبوت کے دعویدار شخص کے متعلق پوچھنے لگا ہوں، اگریہ غلط بیانی کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابو سفیان نے کہا) خدا کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ وہ (یعنی میرے ساتھی) بعد میں لوگوں سے میرے جھوٹ بیان کریں گے تو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور جھوٹ بولتا پھر اس نے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق مجھ سے جو بات پوچھی وہ یہ تھی کہ تم میں اس شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا مقامِ نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا: وہ ہم میں سے نہایت عالی نسب ہیں اس (شاہ ھر قل) نے ترجمان سے کہا: ان سے کہو میں نے تم سے ان کے نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم میں نہایت عالی نسب ہیں اور اسی طرح تمام رسولوں کی (نشانی یہ ہے) کہ وہ اپنی قوم کے ایسے ہی (سب سے اعلیٰ) نسب میں مبعوث کیے جاتے ہیں۔ (آگے طویل حدیث ہے۔ )‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2 / 2. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رضي الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ اصْطَفٰی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفٰی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1782، الرقم: 2276، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 583، الرقم: 3605، وابن حبان في الصحيح، 14 / 135، الرقم: 6242، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 107، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 317، الرقم: 31731، وأبو يعلی في المسند، 13 / 469، الرقم: 7485، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 66، الرقم: 161، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 751، الرقم: 1400، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 365، الرقم: 12852، 3542، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم: 1391، وأيضًا في دلائل النبوة، 1 / 165، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.
’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
3 / 3. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَأَنَّه سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ فَقَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ عَلَيْکَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: (99)، 5 / 543، الرقم: 3532، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 210، الرقم: 1788 والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 149، والديلمي فيمسند الفردوس، 1 / 41، الرقم: 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم: 466، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم: 31950، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.
’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس وقت کافروں سے) کوئی ناگوار بات سنی تھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت جلال کی حالت میں تھے، پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ پر سلامتی ہو، آپ رسولِ خدا ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (رسولِ خدا تو ہوں ہی اس کے علاوہ نسبًا) میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں رکھا۔ پھر اُن کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا کیا، پھر اُن کے گھرانے بنائے تو مجھے (اُن میں سے) بہترین گھرانہ میں پیدا کیا اور اُن میں سے بہترین نسب والا بنایا، (یعنی میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
4 / 4. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُـلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
4: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم: 6285، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 632، الرقم: 1494، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 628، الرقم: 1073، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 752، الرقم: 1402، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 187، الرقم: 4516، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 176، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 122، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 257، وأيضًا في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والمناوي في فيض القدير، 4 / 499، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217.
’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام نے (خدمت اقدس میں حاضر ہو کر) عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھرانہ سے بڑھ کر بہتر کسی گھرانے کو دیکھا۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
5 / 5. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوْا فَتَذَاکَرُوْا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ، فَجَعَلُوْا مَثَلَکَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي کَبْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ، مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ وَخَيْرِ الْفَرِيْقَيْنِ، ثُمَّ تَخَيَرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيْلَةٍ، ثُمَّ خَيَرَ الْبُيُوْتَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوْتِهِمِ، فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا، وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
5: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 584، الرقم: 3607، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 937، الرقم: 1803، والبزار في المسند، 4 / 140، الرقم: 1316، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 216، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم: 31950، والحسينی في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم: 466، والمناوي في فيض القدير، 2 / 232.
’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا پھر ان کے گروہ بنائے تو مجھے سب سے بہتر مخلوق (انسانوں) میں پیدا فرمایا اور انسانوں کے دو گروہ (عرب و عجم) میں سے بہترین گروہ (یعنی عربوں) میں پیدا فرمایا۔ پھر تمام قبائل (میں سے) چنا (اور) مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا فرمایا۔ پھر اس نے (اس قبیلہ میں سے) گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانے (بنو ہاشم) میں پیدا فرمایا، سو (جان لو!) میں ان میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں (یعنی ذات کے اعتبار سے بھی اور اصل و نسب کے اعتبار سے بھی ان سب سے برتر ہوں)۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، احمد نے ’’فضائل الصحابۃ‘‘، بزار اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
6 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ حِيْنَ خَلَقَ الْخَلْقَ بَعَثَ جِبْرِيْلَ فَقَسَمَ النَّاسَ قِسْمَيْنِ، فَقَسَمَ الْعَرَبَ قِسْمًا، وَقَسَمَ الْعَجَمَ قِسْمًا، وَکَانَتْ خِيْرَةُ اللهِ فِي الْعَرَبِ، ثُمَّ قَسَمَ الْعَرَبَ قِسْمَيْنِ، فَقَسَمَ الْيَمَنَ قِسْمًا، وَقَسَمَ مُضَرَ قِسْمًا، وَقُرَيْشًا قِسْمًا، فَکَانَتْ خِيْرَةُ اللهِ فِي قُرَيْشٍ، ثُمَّ أَخْرَجَنِي مِنْ خَيْرِ مَنْ أَنَا مِنْهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
6: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 135، الرقم: 3802، 8 / 155، الرقم: 8252، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217 والحلبي في السيرة، 1 / 44.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرما لیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا سو انہوں نے لوگوں کو دو اقسام میں بانٹ دیا۔ ان میں سے ایک قسم عرب اور دوسری قسم عجم بنائی اور عرب میں اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ تھے، پھر عرب کو دو قسموں میں بانٹا تو یمن کو ایک قسم بنایا۔ مضر کو ایک قسم بنایا اور قریش کو ایک قسم بنایا اور اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ قریش میں تھے، پھر مجھے قریش میں سے بہترین فرد پیدا فرمایا میں ان ہی میں سے (سب سے افضل) ہوں۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7 / 7. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی قَسَمَ الْخَلْقَ قِسْمَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمَا قِسْمًا، فَذَالِکَ قَوْلُه: {اَصْحَابُ الْيَمِيْنِ} [الواقعة، 56: 27] {وَاَصْحَابُ الشِّمَالِ} [الواقعة، 56: 41]، فَأَنَا مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِيْنِ وَأَنَا مِنْ خَيْرِ أَصْحَابِ الْيَمِيْنِ، ثُمَّ جَعَلَ الْقِسْمَيْنِ بُيُوْتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمَا بَيْتًا، فَذَالِکَ قَوْلُه: {فَاَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا اَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ وَاَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا اَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ} [الواقعة، 56: 8. 10]، فَأَنَا مِنْ خَيْرِ السَّابِقِيْنَ، ثُمَّ جَعَلَ الْبُيُوْتَ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهَا قَبِيْلَةً، فَذَالِکَ قَوْلُه: {شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ} [الحجرات، 49: 13]، فَأَنَا أَتْقَی وَلَدِ آدَمَ وَأَکْرَمُهُمْ عَلَی اللهِ وَلَا فَخْرَ، ثُمَّ جَعَلَ الْقَبَائِلَ بُيُوْتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهَا بَيْتًا، فَذَالِکَ قَوْلُه: {اِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا} [الأحزاب، 33: 33].
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ إِلاَّ قَالَ: فَأَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي مُطَهَرُوْنَ مِنَ الذُّنُوْبِ.
7: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 56، الرقم: 2674، 12 / 103، الرقم: 12604، والبيهقي في دلائل االنبوة، 1 / 170، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 215، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 330، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 257، والحلبي في السيرة، 1 / 44.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو دو قسموں میں تقسیم کیا تو مجھے اُن میں بہترین قسم میں پیدا فرمایا: اِس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور دائیں جانب والے‘‘، ’’اور بائیں جانب والے۔‘‘ سو میں دائیں جانب والوں میں سے ہوں اور میں دائیں جانب والوں میں سے بہترین ہوں۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) گھروں کی دو اقسام بنائیں تو مجھے اُن میں سے بہترین گھرانہ میں پیدا فرمایا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سو (ایک) دائیں جانب والے، دائیں جانب والوں کا کیا کہنا اور (دوسرے) بائیں جانب والے، کیا (ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے (یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔‘‘ سو میں ان سبقت لے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے گھروں کو (باہمی ملا کر) قبائل بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ میں پیدا کیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اور ہم نے تمہیں بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا۔‘‘ سو میں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز و مکرم ہوں اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا، پھر اللہ تعالیٰ نے قبائل کو گھرانوں میں بنایا تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانہ میں پیدا فرمایا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا۔ امام بیہقی نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’سو میں اور میرے اہلِ بیت گناہوں سے پاک کر دیئے گئے ہیں۔‘‘
8 / 8. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: إِنَّا لَقُعُوْدٌ بِفَنَاءِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فذکر الحديث إلی أن قال: عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ سَبْعًا، فَاخْتَارَ الْعُلْيَا فَسَکَنَهَا وَأَسْکَنَ سَائِرَ سَمَاوَاتِه مَنْ شَاءَ مِنْ خَلْقِه وَخَلَقَ الْأَرْضِيْنَ سَبْعًا، فَاخْتَارَ الْعُلْيَا وَأَسْکَنَهَا مَنْ شَاءَ مِنْ خَلْقِه، ثُمَّ خَلَقَ الْخَلْقَ وَاخْتَارَ مِنَ الْخَلْقِ بَنِي آدَمَ، فَاخْتَارَ مِنْ بَنِي آدَمَ الْعَرَبَ، وَاخْتَارَ مِنَ الْعَرَبِ مُضَرَ، وَاخْتَارَ مِنْ مُضَرَ قُرَيْشًا، وَاخْتَارَ مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاخْتَارَنِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَأَنَا مِنْ خِيَارٍ إِلٰی خِيَارٍ، فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَلِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَلِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 199، الرقم: 6182، وأيضًا في المعجم الکبير، 12 / 455، الرقم: 13650، والحاکم في المستدرک، 4 / 83، الرقم: 6953، وأيضًا في معرفة علوم الحديث، 1 / 166، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 139، 229، الرقم: 1393، 1606، وأيضًا في دلائل النبوة، 1 / 170، وابن عدي في الکامل، 2 / 248، الرقم: 422، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 215.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر اُنہوں نے طویل حدیث بیان کی، یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو پیدا فرمایا، تو ان میں سب سے بلند آسمان کو چن لیا اور اس پر (اپنی شان کے لائق) سکونت اختیار کی اور اپنے تمام (دیگر) آسمانوں پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا قیام بخشا اور اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں پیدا کیں تو ان میں سے سب سے بلند کو چنا اور اس پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا سکونت بخشی، پھر مخلوقات کو پیدا فرمایا تو مخلوقات میں سے بنی آدم کو منتخب کیا، بنی آدم میں سے عرب کو چنا اور عرب میں سے مضر کو چنا اور مضر میں سے قریش کو چنا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا، سو میں نسل در نسل بہترین سے بہترین کی طرف منتقل ہوتا رہا لہٰذا جو عرب سے محبت رکھتاہے وہ میری محبت کی وجہ سے اُن سے محبت رکھتا ہے اور جو عرب سے بغض رکھتا ہے وہ میری وجہ سے اُن سے بغض رکھتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی، حاکم، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
9 / 9. عَنِ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبَ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَا أَعْرَبُ الْعَرَبِ، وَلَدَتْنِي قُرَيْشٌ، وَنَشَأْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ، فَأَنَّی يَأْتِيْنِي اللَّحْنُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
9: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 35، الرقم: 5437، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 42، الرقم: 98، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 218.
’’حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ہی (سچا) نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب (جیسے سردار) کا لختِ جگر ہوں، میں عربوں میں سے بہترین عربی ہوں، مجھے قریش نے جنم دیا اور میں نے بنو سعد بن بکر میں پرورش پائی۔ پس میری زبان میں لحن کیسے آ سکتا ہے؟‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
10 / 10. عَنْ طَاوُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما يَرْفَعُه إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: قَرَأَ: {لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} ]التوبة، 9: 128[، يَعْنِي مِنْ أَعْظَمِکُمْ قَدْرًا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
10: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 262، الرقم: 2945، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 420.
’’طاووس حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے مرفوعاً بیان کیا کہ اُنہوں نے پڑھا: ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ فرمایا: یعنی تم میں سے مقام و مرتبہ (اور نسب) کے لحاظ سے سب سے افضل رسول (تشریف لائے)۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
11 / 11. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: { لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} ]التوبة، 9: 128[، قَالَ: لَمْ يُصِبْهُ شَيئٌ مِنَ وِلَادَةِ الْجَاهِلِيَةِ. قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنِّي خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالْبَغَوِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
11: أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 7 / 190، الرقم: 13855، والطبري في جامع البيان، 11 / 56، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 404، والبغوي في معالم التنزيل، 2 / 341، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227، وابن الجوزي في زاد المسير، 3 / 520، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 327 وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256 والشوکاني في فتح القدير، 2 / 419.
’’حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان: ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ کی تفسیر میں روایت کیا اُنہوں نے فرمایا: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دورِ جاہلیت کی ولادت (یعنی بدکاری) سے معمولی ذرہ تک نہیں پہنچا۔ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں نکاح سے پیدا ہوا اور میں بدکاری سے پیدا نہیں ہوا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی، طبری، بغوی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
12 / 12. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه وَعَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ رضي الله عنهما قَالَا: بَلَغَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّ رِجَالًا مِنْ کِنْدَةَ يَزْعَمُوْنَ أَنَّه مِنْهُمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا کَانَ يَقُوْلُ ذَاکَ الْعَبَّاسُ، وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ إِذَا قَدِمَا الْمَدِيْنَةَ لِيَأْمَنَا بِذَالِکَ، وَإِنَّا لَنْ نَنْتَفِيَ مِنْ أبَائِنَا، نَحْنُ بَنُو النَّضْرِ بْنِ کِنَانَةَ. قَالَ: وَخَطَبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، بْنِ هَاشِمِ، بْنِ عَبْدِ مَنَافِ، ابْنِ قُصَيِّ، بْنِ کِلَابِ، بْنِ مُرَّةَ، بْنِ کَعْبِ، بْنِ لُؤَيِّ، بْنِ غَالِبِ، بْنِ فِهْرِ، بْنِ مَالِکِ، بْنِ النَّضْرِ، بْنِ کِنَانَةَ، بْنِ خُزَيْمَةَ، بْنِ مُدْرِکَةَ، بْنِ إِلْيَاسَ، بْنِ مُضَرَ، بْنِ نِزَارٍ، وَمَا افْتَرَقَ النَّاسُ فِرْقَتَيْنِ إِلَّا جَعَلَنِيَ اللهُ فِي خَيْرِهِمَا، فَأُخْرِجْتُ مِنْ بَيْنِ أَبَوَيْنِ، فَلَمْ يُصِبْنِي شَيئٌ مِنْ عَهْرِ الْجَاهِلِيَةِ. وَخَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ، حَتّٰی انْتَهَيْتُ إِلٰی أَبِي وَأُمِّي، فَأَنَا خَيْرُکُمْ نَفْسًا وَخَيْرُکُمْ أَبًا.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَابْنُ عَسَاکِرَ.
12: أخرجه الحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 171، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 174، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 29، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 294، الرقم: 784، والمناوي في فيض القدير، 3 / 37، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 255.
’’حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام سے مروی ہے وہ دونوں فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو کندہ کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس طرح عباس اور ابو سفیان بن حرب بھی کہا کرتے تھے جب وہ مدینہ منورہ آئے تاکہ اُنہیں اس طرح کہنے سے پناہ ملے (آگاہ ہو جاؤ) ہم اپنے آباء و اجداد سے جدائی اختیار نہیں کرتے ہم بنو نضر بن کنانہ میں سے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب میں فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لوئ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں اور جب بھی لوگوں کے دو گروہ بنے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں رکھا۔ پس میں اپنے والدین سے پیدا ہوا ہوں میری (نسل در نسل) پیدائش میں زمانہ جاہلیت کی بدکاری میں سے ایک ذرہ بھی شامل نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے والدین تک نسل در نسل میں بطریقِ نکاح پیدا ہوا ہوں نہ کہ بدکاری سے لہٰذا میں خاندان اور اصل کے اعتبار سے تم سب سے بہترین ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم، بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
13 / 13. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلٰی أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
13: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 80، الرقم: 472، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 303، الرقم: 31641، والبيهقي عن ابن عباس رضي الله عنهما في السنن الکبری، 7 / 190، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 24، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 190، الرقم: 2949، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 214، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 294، الرقم: 784، والهندي في کنز العمال، 11 / 402، الرقم: 31870.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر، اور میرا (یہ نسبی تقدس) حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر میرے ماں باپ (حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما) کے مجھے جننے تک برقرار رہا (یعنی زمانہ جاہلیت کی بدکرداریوں اورآوارگیوں کی ذرا بھر ملاوٹ بھی میرے نسب میں نہیں پائی گئی)۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
14 / 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: {وَتَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} [الشعراء، 26: 219] قَالَ: مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ إِلٰی نَبِيٍّ حَتّٰی صِرْتَ نَبِيًّا.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَلَفْظُه: مِنْ نَبِيٍّ إِلٰی نَبِيٍّ حَتّٰی أُخْرِجْتَ نَبِيًّا.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
14: أخرجه البزار في المسند (کشف الأستار)، الرقم: 2362، الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 362، الرقم: 12021، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 24، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 226، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 86، 8 / 214، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 144، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 353، وقال: رواه البزار وابن أبي حاتم من طريقين عن ابن عباس رضي الله عنهما.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اُنہوں نے اِس آیہ مبارکہ: ’’اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (نور مبارک) کو ایک نبی کی پشت سے دوسرے نبی کی پشت میں (نسل در نسل) منتقل کرتا رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود نبوت سے سرفراز کر کے (مبعوث) فرمایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ طبرانی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے نورِ اقدس) کو ایک نبی سے دوسرے نبی تک (نسل در نسل) اس وقت تک منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کر کے پیدا فرمایا۔‘‘
امام ہیثمی نے فرمایا: بزار اور طبرانی دونوں کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
15 / 15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا وَلَدَنِي مِنْ سِفَاحِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَةِ شَيئٌ، وَمَا وَلَدَنِي إِلَّا نِکَاحٌ کَنِکَاحِ الإِسْلَامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه وَثِّقُوْا.
15: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 329، الرقم: 10812، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 190، الرقم: 13854، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، باب ذکر طهارة مولده وطيب أصله وکرم محتده صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 400، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 63، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256، وأيضًا في تفسير القرآن العظيم، 2 / 257، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 214، وقال: ورجاله وثقوا، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 213، والعسقلاني في الدراية، 2 / 65.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری ولادت میں دورِ جاہلیت کی بدکاری کا ذرہ تک شامل نہیں اور میری ولادت اسلامی طریقہ نکاح سے ہوئی۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال کو ثقہ کہا گیا ہے۔
16 / 16. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه: {الَّذِي يَرَاکَ حِيْنَ تَقُوْمُo وَتَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} ]الشعراء، 26: 218. 219[، قَالَ: فِي أَصْلَابِ الْآبَاءِ مِنَ الرُّسُلِ مِنْهُمْ: آدَمُ وَمِنْهُمْ نُوْحٌ وَمِنْهُمْ إِبْرَاهِيْمُ وَإِسْمَاعِيْلُ عليهم السلام.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: أَي فِي أَصْلَابِ الآبَاءِ آدَمَ وَنُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ عليهم السلام حَتّٰی أَخْرَجَهُ نَبِيًّا.
16: أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 423، الرقم: 1719، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 144.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اس آیہ مبارکہ: ’’ جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لئے) قیام کرتے ہیں۔ اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: یعنی رسولوں میں سے آپ کے آباء و اجداد کی پشتوں میں (آپ کا منتقل ہونا دیکھتا رہا) ان میں سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’یعنی آپ کو آپ کے آباء و اجداد حضرت آدم، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کی پشتوں میں (منتقل ہوتا) دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو نبی بنا کر پیدا کیا۔‘‘
17 / 17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا وَلَدَتْنِي بَغِيٌّ قَطُّ مُذْ خَرَجْتُ مِنْ صُلْبِ أَبِي آدَمَ، وَلَمْ تَزَلْ تُنَازِعُنِيَ الْأُمَمُ کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ حَتّٰی خَرَجْتُ مِنْ أَفْضَلِ حَيَيْنِ مِنَ الْعَرَبِ: هَاشِمٌ وَزُهْرَةُ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
17: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 226، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 329، وأيضًا في الخصائص الکبری، 1 / 66.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جننے والی (میری اُمہات میں سے) کوئی عورت بدکار نہ تھی۔ جب سے میں حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے پیدا ہوا ہوں، اور میں ہمیشہ (نسل در نسل) اعلیٰ سے اعلیٰ (افراد) کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ میں عرب کے سب سے افضل دو قبیلوں ہاشم و زہرہ میں پیدا ہوا۔‘‘ اِسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
18 / 18. عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رِبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {وَتَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} ]الشعراء، 26: 219[، قَالَ: مَا زَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَقَلَّبُ فِي أَصْلَابِ الْأَنْبِيَاءِ حَتّٰی وَلَدَتْهُ أُمُّه صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَغَوِيُّ وَاللَّفْظُ لَه: أَرَادَ تَقَلُّبَکَ فِي أَصْلَابِ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ نَبِيٍّ إِلٰی نَبِيٍّ حَتّٰی أَخْرَجَکَ فِي هٰذِهِ الْأُمَّةِ.
18: أخرجه البغوي في معالم التنزيل، 3 / 402، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، وابن الجوزي في زاد المسير، 6 / 148، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 353.
’’حضرت عطاء بن ابی رباح نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیہ مبارکہ: ’’اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسیر میں روایت کیا، انہوں نے فرمایا: ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کا نور) انبیاء کرام کی پشتوں میں منتقل کیا جاتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا۔‘‘
اسے امام ابونعیم اور امام بغوی نے روایت کیا ہے اُن کی روایت کے الفاظ ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے نور) کو انبیاء کرام علیہم السلام کی پشتوں میں نسل در نسل ایک نبی سے دوسرے نبی کی طرف منتقل کرنے کا ارادہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس امت میں (نبی بنا کر) پیدا کیا۔‘‘
19 / 19. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ أَخْرَجَنِي مِنَ النِّکَاحِ وَلَمْ يُخْرِجْنِي مِنَ السِّفَاحِ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
20 / 20. وفي رواية: عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ} ]التوبة، 9: 128[، قَالَ: لَمْ يُصِبْهُ شَيئٌ مِنْ شِرْکٍ فِي وِلَادَتِه. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
19-20: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227، والطبري في جامع البيان، 11 / 56، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256.
’’حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا اُنہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے نکاح سے پیدا کیا اور مجھے بدکاری سے کبھی پیدا نہیں کیا (یعنی میرے اجداد میں سے بھی کبھی کسی نے بدکاری نہیں کی)۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: یعنی شرک (یا مشرکین) کا ذرہ تک بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ میں شامل نہیں ہوا۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
21 / 21. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ غَيْرَ سِفَاحٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
22 / 22. وفي رواية: عَنْ هِشَامِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْکَلْبِيِّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کَتَبْتُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم خَمْسَمِائَةِ أُمٍّ فَمَا وَجَدْتُ فِيْهِنَّ سِفَاحًا وَلَا شَيْئًا مِمَّا کَانَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَةِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
21-22: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 60. 61، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227. 228، والسيوطي فيالخصائص الکبری، 1 / 63. 64، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256، والحلبي في السيرة، 1 / 65، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 419.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں (اسلامی طریقہ) نکاح سے پیدا ہوا نہ کہ بدکاری سے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت ہشام بن محمد کلبی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اُنہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) پانچ سو ماؤں کے اسماء (و حالات) لکھے۔ سو میں نے ان میں سے کسی کو بھی بدکار نہیں پایا اور نہ ہی اُمورِ جاہلیت کا کوئی ذرہ تک اُن میں پایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
23 / 23. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَهَبَطَ عَلَيْهِ جِبْرِيْلُ فَقَالَ: يَا أَبَا إِبْرَاهِيْمَ، اللهُ يُقْرِءکَ السَّـلَامَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: نَعَمْ، أَنَا أَبُوْ إِبْرَاهِيْمَ، وَإِبْرَاهِيْمُ جَدُّنَا وَبِه عُرِفْنَا، وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالٰی فِي مُحْکَمِ کِتَابِه: {مِلَّةَ أَبِيْکُمْ إِبْرَاهِيْمَ هُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ} ]الحج، 22: 78[. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
23: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 28، وابن عدی في الکامل، 4 / 93.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کہا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوئے، اُنہوں نے عرض کیا: اے ابو ابراہیم! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں ابو ابراہیم ہوں اور ابراہیم علیہ السلام ہمارے دادا بھی تھے اور وہی ہماری پہچان ہیں، اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب (قرآن پاک) میں فرمایا: ’’(یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
24 / 24. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، قُلْتُ: فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي، أَيْنَ کُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ حَتّٰی بَدَتْ ثَنَايَاهُ (وفي رواية: نَوَاجِذُهُ) ثُمَّ قَالَ: کُنْتُ فِي صُلْبِه وَرُکِبَ بِي السَّفِيْنَةَ فِي صُلْبِ أَبِي نُوْحٍ، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ، لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ قَطُّ عَلٰی سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلِ اللهُ تَعَالٰی يَنْقُلُنِي مِنْ الْأَصْلَابِ الْحَسَنَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
24: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 230. 231، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 332، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 258، والمناوي في فيض القدير، 3 / 437.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اس وقت کہاں تھے جب حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم کناں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر آپ نے فرمایا: میں اُن کی پشت میں تھا اور اپنے باپ حضرت نوح علیہ السلام کی پشت میں (کشتی میں) سوار کرایا گیا اور میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں (اُنہیں آگ میں ڈالتے وقت) چھپایا گیا۔ (اَجداد میں) میرے والدین کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن عساکر، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
25 / 25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ فِي سِفَاحٍ لَمْ يَزَلِ اللهُ عزوجل يَنْقُلُنِي مِنْ أَصْلَابٍ طَيِّبَةٍ إِلٰی أَرْحَامٍ طَاهِرَةٍ صَافِيًا مُهَذَّبًا لَا تَتَشَعَّبُ شُعْبَتَانِ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.
25: أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 24، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 328، والمناوي في فيض القدير، 3 / 437.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے والدین کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مجھے پاک پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل فرماتا رہا، جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے تو مجھے اُن میں سے بہترین گروہ میں رکھا گیا۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
26 / 26. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَتَانِي جِبْرِيْلُ عليه السلام فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي فَطُفْتُ شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبَهَا وَسَهْلَهَا وَجَبَلَهَا فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنَ الْعَرَبِ، ثُمَّ أَمَرَنِي فُطُفْتُ فِي الْعَرَبِ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْراً مِنْ مُضَرَ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي مُضَرَ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ کِنَانَةَ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي کِنَانَةَ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ قُرُيْشٍ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي قُرَيْشٍ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، ثُمَّ أَمَرَنِي أَنْ أَخْتَارَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَلَمْ أَجِدْ فِيْهِمْ نَفْسًا خَيْرًا مِنْ نَفْسِکَ. رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
26: أخرجه الحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 332، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298 وأيضًا في جامع الأحاديث، 1 / 76، الرقم: 366، والهندي في کنز العمال، 1 / 2409، الرقم: 34101، والحلبي في السيرة، 1 / 43.
’’حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے عرض کیا: اے محمد! بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تو میں نے زمین کے شرق و غرب اور میدانی و پہاڑی تمام علاقے گھومے اور میں نے عرب سے افضل کوئی قبیلہ نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا، میں تمام عرب گھوما تو قبیلہ مضر سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا تو میں تمام مضر میں گھوما تو قبیلہ کنانہ سے بڑھ کر کوئی افضل قبیلہ نہیں پایا، پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا میں تمام کنانہ میں گھوما تو میں نے قریش سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا تو میں تمام قریش میں گھوما تو بنو ہاشم سے بڑھ کر کسی قبیلہ کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا کہ ان میں سے کسی ایک ذات کو پسند کروں تو (یا رسول اللہ!) میں نے ان میں آپ کی ذات اقدس سے بڑھ کر کسی کو بہتر و افضل نہیں پایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام حکیم ترمذی اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
27 / 27. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ قُرَيْشًا کَانَتْ نُوْرًا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ تَعَالٰی قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ بِأَلْفَي عَامٍ يُسَبِّحُ ذَالِکَ النُّوْرُ وَتُسَبِّحُ الْمَـلَائِکَةُ بِتَسْبِيْحِه، فَلَمَّا خَلَقَ اللهُ آدَمَ عليه السلام. أَلْقَی ذَالِکَ النُّوْرَ فِي صُلْبِه. قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: فَأَهْبَطَنِيَ اللهُ إِلَی الْأَرْضِ فِي صُلْبِ آدَمَ عليه السلام. وَجَعَلَنِي فِي صَُلْبِ نُوْحٍ عليه السلام، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام ثُمَّ لَمْ يَزَلِ اللهُ يَنْقُلُنِي مِنَ الْأَصْلَابِ الْکَرِيْمَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ حَتّٰی أَخْرَجَنِي مِنْ بَيْنِ أَبَوَيَّ لَمْ يَلْتَقِيَا عَلٰی سِفَاحٍ قَطُّ.
رَوَاهُ أَبُوْ سَعْدٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
27: أخرجه أبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 304، الرقم: 78، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298 وأيضًا في الخصائص الکبری، 1 / 66، والحلبي في السيرة، 1 / 42.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک مخلوقات کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل قریش اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک نور تھا۔ یہ نور (اللہ تعالیٰ کی) تسبیح بیان کیا کرتا، اور فرشتے بھی اس کی تسبیح جیسی تسبیح بیان کیا کرتے تھے، سو جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس نور کو ان کی پشت میں رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں مجھے زمین پر اُتار دیا۔ پھر مجھے حضرت نوح علیہ السلام کی پشت میں رکھا گیا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مکرم پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کیا، یہاں تک کہ مجھے اپنے والدین سے پیدا فرمایا۔ وہ دونوں بدکاری پر کبھی بھی نہیں ملے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو سعد نیشاپوری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
28 / 28. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَرَأَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: {لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} [التوبة، 9: 128[، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا مَعْنَی مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالَ: نَسَبًا وَصَهْرًا وَحَسَبًا لَيْسَ فِيَّ وَلَا فِي آبَائِي مِنْ لَدُنْ آدَمَ سِفَاحٌ کُلُّنَا نِکَاحٌ. رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ وَالشَّوْکَانِيُّ.
28: أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 420.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیہ مبارکہ پڑھی: ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (مِنْ أَنْفُسِکُمْ) کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نسب، سسرال اور حسب (ہر ایک) کے اعتبار سے (میں سب سے افضل ہوں) نہ میرے والدین اور نہ ہی میرے آباء و اجداد میں سے حضرت آدم علیہ السلام تک کسی نے بدکاری کی ہم سب (اسلامی طریقہ) نکاح سے پیدا ہوئے۔‘‘
اِسے امام سیوطی اور شوکانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved