43 /1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُه فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُوْنَ بِمَ؟ يَجْمَعُ اﷲُ الْأَوَّلِيْنَ وَالأخِرِيْنَ فِيْ صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُوْ مِنْهُمُ الشَّمْسُ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَ لَا تَرَوْنَ إِلٰی مَا أَنْتُمْ فِيْهِ إِلٰی مَا بَلَغَکُمْ؟ أَ لَا تَنْظُرُوْنَ إِلٰی مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلٰی رَبِّکُمْ؟ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَبُوْکُمْ آدَمُ فَيَأْتُوْنَـه فَيَقُوْلُوْنَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِه وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِه وَأَمَرَ الْمَـلَائِکَةَ فَسَجَدُوْا لَکَ وَأَسْکَنَکَ الْجَنَّةَ أَ لَا تَشْفَعُ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ أَ لَا تَرٰي مَا نَحْنُ فِيْهِ وَمَا بَلَغَنَا؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَه مِثْلَه وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَه مِثْلَه وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُه نَفْسِي نَفْسِي اِذْهَبُوْا إِلٰی غَيْرِي اِذْهَبُوْا إِلٰی نُوْحٍ فَيَآْتُوْنَ نُوْحًا فَيَقُوْلُوْنَ: يَا نُوْحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلٰی أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اﷲُ عَبْدًا شَکُوْرًا أَمَا تَرٰی إِلٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ أَ لَا تَرٰی إِلٰی مَا بَلَغَنَا أَ لَا تَشْفَعُ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَه مِثْلَه وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَه مِثْلَه نَفْسِي نَفْسِي، ائْتُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَيَأْتُوْنِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 /1215، الرقم: 3162، ويضًا في کتاب التفسير، باب ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدًا شکورًا، 4 /1745، الرقم: 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدني أهل الجنة منزلة فيها، 1 /184، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب ما جاء في الشفاعة، 4 /622، الرقم: 2434، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /435، الرقم: 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /307، الرقم: 31674، وابن منده في اليمان، 2 /847، الرقم: 879، وأبو عوانة في المسند، 1 /147، الرقم: 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /379، الرقم: 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /239، الرقم: 5510.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں بکری کی دستی کا گوشت پیش کیا گیا یہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت مرغوب تھ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا؟ تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گ۔ اس وقت بعض لوگ کہیں گے:کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے ربّ کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ پس بعض لوگ کہیں گے: تم سب کے باپ تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ پس وہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: اے سیدنا آدم! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو اُنہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی، کیا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آلیا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میرے رب نے آج ایسے غضب کا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا غضب نہ پہلے فرمایا، نہ آئندہ فرمائے گا۔ مجھے اُس نے ایک درخت (کا پھل کھانے) سے منع فرمایا تھا تو مجھ سے اُس کے حکم کی تعمیل میں لغزش سرزد ہوئی لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جائو۔ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جائو۔ لوگ حضرت نوح علیہ اسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے سیدنا نوح! آپ اہلِ زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’عبدًا شکورًا‘‘ (یعنی شکر گزار بندہ) رکھ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آلیا ہے؟ کیا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ وہ فرمائیں گے: میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔ مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کر کے فرمایا:) سو تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جائو۔ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا: یا محمد! اپنا سر (مبارک) اُٹھائیں اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
44 /2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مََالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ. فَيْتُوْنَ آدَمَ، فَيَقُوْلُوْنَ: اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ لَهَا، وَلٰـکِنْ عَلَيْکُمْ بِإِبْرَاهِيْمَ فَإِنَّه خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ. فَيَأْتُوْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ لَهَا، وَلٰـکِنْ عَلَيْکُمْ بِمُوْسٰی فَإِنَّـه کَلِيْمُ اﷲِ. فَيَأْتُوْنَ مُوْسٰی، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ لَهَا، وَلٰـکِنْ عَلَيْکُمْ بِعِيْسٰی فَإِنَّـه رُوْحُ اﷲِ وَکَلِمَتُه. فَيْتُوْنَ عِيْسٰی، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ لَهَا، وَلٰـکِنْ عَلَيْکُمْ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم .
فَيْتُوْنَنِي فَأَقُوْلُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُه بِهَا لَا تَحْضُرُنِيَ الْأنَ، فَأَحْمَدُه بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، وَأَخِرُّ لَه سَاجِدً. فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي. فَيَقُوْلُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِه مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ يْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُه بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَه سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلَ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي. فَيَقُوْلُ: اِنْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِه مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ يْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُه بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَه سَاجِدًا، فَيَقُوْلُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُوْلُ: اِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِه أَدْنٰی أَدْنٰی أَدْنٰی مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ يْمَانٍ، فَأَخْرِجْه مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ.… وزاد الحسن عنه: قَالَ: ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُه بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَه سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَه، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، اِئْذَنْ لِي فِيْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، فَيَقُوْلُ: وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي، وَکِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي: لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب کلام الرّبّ يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، 6 / 2727، الرقم: 7072، ومسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدني هل الجنة منزلة فيها، 1 /182.184، الرقم: 193، والنسائي في السنن الکبری، 6 /330، الرقم:11131، وأبو يعلي في المسند، 7 / 311، الرقم: 4350، وابن منده في اليمان، 2 /841، الرقم: 873.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: یہ (شفاعتِ کبری) میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰں کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اس (شفاعتِ کبریٰ کے) لائق نہیں تم حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اُس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اِس شفاعت (کبریٰ) کے قابل نہیں تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے ربّ سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا وہ کلمات اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں اِن محامد سے اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ سو اﷲ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت، پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے ہر ایسے اُمتی کو نکال لیں جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُن محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے اُسے بھی نکال لیں جس کے دل میں ذرّے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُنہی محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اُس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! میری اُمت، میری اُمت، پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: جائیں اور اُسے بھی جہنم سے نکال لیں جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گ۔(حضرت حسن بصری نے اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا پھر اُس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اُٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں اُنہیں ضرورجہنم سے نکالوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
45 /3. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: يَجْمَعُ اﷲُ الْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَذَالِکَ، فَيَقُوْلُوْنَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلٰی رَبِّنَا حَتّٰی يُرِيْحَنَا مِنْ مَکَانِنَا هٰذَ. فَيَأْتُوْنَ آدَمَ فَيَقُوْلُوْنَ: يَا آدَمُ، أَمَا تَرَی النَّاسَ، خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِه، وَأَسْجَدَ لَکَ مَـلَائِکَتَه، وَعَلَّمَکَ أَسْمَاءَ کُلِّ شَيئٍ، اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّنَا حَتّٰی يُرِيْحَنَا مِنْ مَکَانِنَا هٰذَا، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکَ، وَيَذْکُرُ لَهُمْ خَطِيْئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، وَلٰـکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا، فَإِنَّه أَوَّلُ رَسُوْلٍ بَعَثَهُ اﷲُ إِلٰی أَهْلِ الْأَرْضِ. فَيْتُوْنَ نُوْحًا، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکُمْ، وَيَذْکُرُ خَطِيْئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، وََلٰـکِنِ ائْتُوْا إِبْرَهِيْمَ خَلِيْلَ الرَّحْمٰنِ. فَيْتُوْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکُم، وَيَذْکُرُ لَهُمْ خَطَيَهُ الَّتِيْ أَصَابَهَا، وَلٰـکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی، عَبْدًا آتَهُ اﷲُ التَّوْرَةَ وَکَلَّمَه تَکْلِيْمً. فَيْتُوْنَ مُوْسٰی، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکُمْ، وَيَذْکُرُ لَهُمْ خَطِيْئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، وََلٰـکِنِ ائْتُوْا عِيْسٰی، عَبْدَ اﷲِ وَرَسُوْلَه وَکَلِمَتَه وَرُوْحَه. فَيْتُوْنَ عِيْسٰی، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکُمْ، وََلٰـکِنِ ائْتُوْا مُحَمَّدً صلی الله علیه واله وسلم ، عَبْدًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه وَمَا تَأَخَّرَ.
فَيْتُوْنَنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ، فَإِذَا رَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ لَه سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اﷲُ أَنْ يَدَعَنِي. ثُمَّ يُقَالُ لِي: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَه، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيْهَا، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ. ثُمَّ أَرْجِعُ فَإِذَا رَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اﷲُ أَنْ يَدَعَنِي. ثُمَّ يُقَالُ: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَه، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيْهَا رَبِّي، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَرْجِعُ فَإِذَا رَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اﷲُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ، قُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَه، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيْهَا، ثُمّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ. ثُمَّ أَرْجِعُ فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُوْدُ. قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَکَانَ فِي قَلْبِه مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيْرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ ِمنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَکَانَ فِي قَلْبِه مِنَ الْخَيْرِ ما يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَکَانَ فِي قَلْبِه مَا يَزِنُ مِنَ الْخَيْرِ ذَرَّةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی: لما خلقت بيدي، 6 /2695.2696، الرقم: 6975، ويضًا في کتاب التفسير، باب قول اﷲ تعالی: وعلّم آدم الأسماء کلها، 4 / 1624، الرقم: 4206، ويضًا في کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، 5 / 2401، الرقم:6197، ومسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدنی هل الجنة منزلة فيها، 1 /180، الرقم: 193، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2 /1442، الرقم:4312، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /116، الرقم: 12174، وإسناده صحيح علی شرط الشيخين.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسی طرح قیامت کے دن مومنوں کوجمع فرمائے گا۔ وہ کہیں گے: کاش ہم اپنے ربّ کے پاس کوئی سفارش لے جاتے تاکہ وہ ہمیں اس حالت سے آرام عطا فرماتا (یعنی انتظار کی زحمت ختم کر کے حساب و کتاب شروع فرما دے)۔ چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے آدم! کیا آپ لوگوں کا حال نہیںدیکھتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے لہٰذا ہمارے لئے اپنے ربّ سے سفارش کیجئے تاکہ وہ ہمیں ہماری اِس حالت سے آرام عطا فرمائے۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میں اِس (شفاعت کبری) کے لئے نہیں، پھر وہ اُن کے سامنے اپنی لغزش کا ذکر کریں گے جو اُن سے ہوئی (پھر فرمائیں گے:) البتہ تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا تھا۔ چنانچہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ فرمائیں گے: میں اِس (شفاعت کبریٰ) کا اہل نہیں اور وہ اپنی لغزش یاد کریں گے جو اُن سے ہوئی، (پھر فرمائیں گے:) البتہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں۔ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس (شفاعتِ کبریٰ) کے لئے نہیں اور اپنی لغزشوں کا ذکر لوگوں سے کریں گے۔ البتہ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں توریت دی تھی اور اُن سے کلام کیا تھ۔ سب لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اس (مقامِ شفاعتِ کبری) پر فائز نہیں ہوں اور ان کے سامنے اپنی لغزش کا ذکر کریں گے جو ان سے ہوئی، (وہ فرمائیں گے:) البتہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے، اُس کے رسول، اُس کا کلمہ اور اُس کی روح ہیں۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں بارگاہ الٰہی میں لب کشائی کے قابل نہیں، تم سب لوگ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ ایسے محبوب ہیں کہ ان کی عظمت کے صدقے اُن کی اُمت کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔
’’(آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:) چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں اُن کے ساتھ (اپنے ربّ کی بارگاہ میں شفاعت کرنے) جاؤں گا اور اپنے رب سے اِذن (شفاعت) چاہوں گا تو مجھے اذن دے دیا جائے گا۔ پھر اپنے ربّ کو دیکھتے ہی اُس کے لئے سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا اُسی حالت میںمجھے رہنے دے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! سرِ انور اُٹھائیں، اور زبانِ اقدس کھولیں، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں، عطا کیا جائے گا، شفاعت کریں آپ کی شفاعت منظور کی جائے گی، پس میں اپنے ربّ کی حمد و ثنا ان کلماتِ حمد سے کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لئے حد مقرر کی جائے گی تو میں اس کے مطابق لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں دوسری بار واپس لوٹوں گا اور اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اُٹھ کر لب کشائی کریں، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو دیا جائے گا، شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر میں اپنے رب کی حمد ان کلماتِ حمد سے کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی پس میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں تیسری بار لوٹوں گا تو اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر جاؤں گ۔ اﷲ تعالیٰ جب تک چاہے گا اسی حالت پر مجھے برقرار رکھے گا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اُٹھیے! کہیے آپ کو سنا جائے گا، سوال کیجئے عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی تو میں اپنے ربّ کی تعریف ان کلماتِ حمد سے کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا، پھر میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی تو میں اُنہیں جنت میں داخل کروں گا پھر میں لوٹ کر عرض کروں گا: اے رب! اب جہنم میں کوئی باقی نہیں رہا سوائے اس کے جسے قرآن نے روک لیا ہے اور اس پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو چکا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جہنم سے وہ نکل آئے گا جس نے لَا ِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کیا ہوگا اور اس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی خیر ہو گی، پھر جہنم سے وہ بھی نکل آئے گا جس نے لَا ِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہو گا اور اس کے دل میں گیہوں کے وزن کے برابر بھی خیر ہو گی، پھر جہنم سے وہ بھی نکلے گا جس نے لَا ِالٰهَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کیا ہوگا اور اُس کے دل میں ذرّہ برابر بھی خیر ہو گی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
46 /4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أُتِيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَکَانَتْ تُعْجِبُه، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُوْنَ مِمَّ ذَالِکَ؟ يَجْمَعُ اﷲُ النَّاسَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْأخِرِيْنَ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِيْ وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْکَرْبِ مَا لَا يُطِيْقُوْنَ وَلَا يَحْتَمِلُوْنَ. فَيَقُوْلُ النَّاسُ: أَ لَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَکُمْ؟ أَ لَا تَنْظُرُوْنَ مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلٰی رَبِّکُمْ؟ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْکُمْ بِآدَمَ. فَيْتُوْنَ آدَمَ، فَيَقُوْلُوْنَ لَه: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِه، وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِه، وَأَمََرَ الْمَـلَا ئِکَةَ فَسَجَدُوْا لَکَ، اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ. أَ لَا تَرَی إِلٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ؟ أَ لَا تَرَی إِلٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُوْلُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّيْ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَه مِثْلَه وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَه مِثْلَه، وَإِنَّه نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُه، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اِذْهَبُوْا إِلٰی غَيْرِيْ، اِذْهَبُوْا إِلٰی نُوْحٍ.…فذکر الحديث إلی أن قال:
فَيَأْتُوْنَ مُحَمَّدً صلی الله علیه واله وسلم ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ وَخَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غََفَرَ اﷲُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ. اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، أَ لَا تَرٰی إِلٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ؟ فَأَنْطَلِقُ، فَآتِيْ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِه وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلٰی أَحَدٍ قَبْلِي. ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَه، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُوْلُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَکَاءُ النَّاسِ فِيْمَا سِوٰی ذَالِکَ مِنَ الْأَبْوَابِ. ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيْعِ الْجَنَّةِ کَمَا بَيْنَ مَکَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ کَمَا بَيْنَ مَکَّةَ وَبُصْرٰی. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب ذرّيّة من حملنا مع نوح إنه کان عبدًا شکورًا، 4 /1745.1747، الرقم: 4435، ويضًا فيکتاب الأنبياء، باب قول اﷲ: ولقد أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 /1215.1216، الرقم: 3162، ويضًا في کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: واتّخذ اﷲ إبرهيم خليلا، 3 /1226، الرقم: 3182، ومسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدنی هل الجنة منزلة فيها، 1 /184، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة، باب ما جاء في الشفاعة، 4 /622، الرقم: 2434، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /435، الرقم: 9623، إسناده صحيح علی شرط الشيخين.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو دستی آپ کے سامنے پیش کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دستی کا گوشت بہت مرغوب تھ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے۔ پھر ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے وہ کون سا دن ہوگا؟ اس دن اﷲ تعالیٰ دنیا کی ابتداء سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع فرمائے گا کہ ایک پکارنے والا ان سب تک اپنی آواز سنا سکے گا اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گ۔ پس لوگوں کو غم اور کرب کی وہ کیفیت دامن گیر ہو گی جس کی برداشت کی طاقت وہ نہ رکھتے ہوں گے اور نہ ہی (کرب و غم) کی اِس حالت کے متحمل ہوں گے۔ لوگ کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں ہو کہ تمہیں کس طرح کی پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا برگزیدہ بندہ نہیں دیکھتے جو اﷲ ربّ العزت کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: تمہیں حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے۔ لہٰذا سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ تمام انسانوں کے جدِ امجد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے آپ میں روحِ (حیات) پھونکی اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا لہٰذا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کر دیجئے۔ آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں؟ حضرت آدم علیہ اسلام کہیں گے: بے شک میرا ربّ آج انتہائی غضب ناک ہے، اِس سے پہلے اتنا غضب ناک وہ کبھی نہ ہوا تھا اور نہ بعد میں کبھی اتنا غضب ناک ہوگا۔ ربّ العزت نے مجھے درخت سے روکا تھا تو میں نے اُس کے حکم سے سرتابی کی، مجھے اپنی پڑی ہے، مجھے اپنی فکر دامن گیر ہے، مجھے اپنی فکر لاحق ہے، کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ اِسی طرح آپ نے طویل حدیث بیان کی یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ بالآخر (ہر طرف سے ہو کر) سب لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: یا محمد! آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے اور بعد کے تمام گناہوں سے معصوم رکھا ہے، آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیے۔ کیا آپ ملاحظہ نہیں فرما رہے کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں؟ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:) میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے ربّ ل کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء اور حسنِ تعریف (کے کلمات) کے ایسے دروازے کھولے گا کہ مجھ سے پہلے کسی اور پر اس نے نہیں کھولے تھے۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد، اپنا سرِ (اقدس) اُٹھائیے، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت فرمائیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اُٹھا کر عرض کروں گا: میرے ربّ میری اُمت، میرے ربّ میری اُمت، میرے ربّ میری اُمت، تو کہا جائے گا: یا محمد، اپنی اُمت کے اُن لوگوں کو جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے جنت کے دائیں دروازے سے داخل فرما دیں، ویسے اُنہیںاختیار ہے کہ جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اِس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جنت کے اس دروازے کے دونوں کواڑوں کے درمیان جنت کے دیگر کواڑوں کی طرح اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر کے درمیان ہے یا جتنا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
47 /5. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَهُمْ کَذَالِکَ اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسٰی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم . رَوَهُ الْبُخَارِيُّ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکة، باب من سأل الناس تکثّرا، 2 /536، الرقم: 1405، وابن منده في کتاب اليمان، 2 /854، الرقم: 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /30، الرقم: 8725، والبيهقي في شعب اليمان، 3 /269، الرقم: 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /377، الرقم: 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /371، ووثّقه.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، لوگ اِس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
48 /6. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.
رَوَهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
6: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه واله وسلم، 5 /586، الرقم: 3613، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2 /1443، الرقم: 4314، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /137،138، الرقم: 021283 2129، والحاکم في المستدرک، 1 /143، الرقم: 240، 6969، وعبد بن حميد في المسند، 1 /90، الرقم: 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 /385، الرقم: 1179، والمزي في تهذيب الکمال، 3 /118.
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور یہ بطور فخر نہیں کہتا (بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کر رہا ہوں)۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
49 /7. عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضی الله عنه قَالَ: أَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ، فَصَلَّی الْغَدَةَ، ثُمَّ جَلَسَ حَتّٰی إِذَا کَانَ مِنَ الضُّحٰی ضَحِکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، ثُمَّ جَلَسَ مَکَانَه حَتّٰی صَلَّی الْأُوْلَی وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، کُلُّ ذَالِکَ لَا يَتَکَلَّمُ، حَتّٰی صَلَّی الْعِشَاءَ الْأخِرَةَ، ثُمَّ قَامَ إِلٰی هْلِه، فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِيْ بَکْرٍ: أَ لَا تَسْأَلُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مَا شَأْنُه؟ صَنَعَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ يَصْنَعْهُ قَطُّ. قَالَ: فَسَأَلَه، فَقَالَ: نَعَمْ، عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ کَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَأَمْرِ الْأخِرَةِ فَجُمِعَ الْأَوَّلُوْنَ وَالْأخِرُوْنَ بِصَعِيْدٍ وَاحِدٍ، فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَالِکَ، حَتَّی انْطَلَقُوْا إِلٰی آدَمَ، وَالْعَرَقُ يَکَادُ يُلْجِمُهُمْ. فَقَالُوْا: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، وَأَنْتَ اصْطَفَاکَ اﷲُ، اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، قَالَ: قَدْ لَقِيْتُ مِثْلَ الَّذِي لَقِيْتُمْ، اِنْطَلِقُوْا إِلٰی أَبِيْکُمْ بَعْدَ أَبِيْکُمْ إِلٰی نُوْحٍ: {إِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِيْنَo} [آل عمران، 3: 33]. قَالَ: فَيَنْطَلِقُوْنَ إِلٰی نُوْحٍ، فَيَقُوْلُوْنَ: اِشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَأَنْتَ اصْطَفَاکَ اﷲُ، وَاسْتَجَابَ لَکَ فِي دُعَائِکَ، وَلَمْ يَدَعْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِيْنَ دَيَارًا، فَيَقُوْلُ: لَيْسَ ذَاکُمْ عِنْدِي، اِنْطَلِقُوْا إِلٰی إِبْرَهِيْمَ، فَإِنَّ اﷲَ اتَّخَذَه خَلِيْـلًا، فَيَنْطَلِقُوْنَ إِلٰی إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُ: لَيْسَ ذَاکُمْ عِنْدِي، وَلٰـکِنِ انْطَلِقُوْا إِلٰی مُوْسٰی، فَإِنَّ اﷲَ کَلَّمَه تَکْلِيْمًا فَيَقُوْلُ مُوْسٰی: لَيْسَ ذَاکُمْ عِنْدِي، وَلٰـکِنِ انْطَلِقُوْا إِلٰی عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ، فَإِنَّه يُبْرِءُ الْأَکْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُحْيِي الْمَوْتٰی فَيَقُوْلُ عِيْسٰی: لَيْسَ ذَاکُمْ عِنْدِي، وَلٰـکِنِ انْطَلِقُوْا إِلٰی سَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، فَإِنَّه أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، اِنْطَلِقُوْا إِلٰی مُحَمَّدٍ، فَيَشْفَعَ لَکُمْ إِلٰی رَبِّکُمْ.
قَالَ: فَيَنْطَلِقُ، فَيَأْتِي جِبْرِيْلُ رَبَّه، فَيَقُوْلُ اﷲُ: اِئْذَنْ لَه وَبَشِّرْه بِالْجَنَّةِ. قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِه جِبْرِيْلُ، فَيَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ، وَيَقُوْلُ اﷲُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَيَرْفَعُ رَأْسَه، فَإِذَا نَظَرَ إِلٰی رَبِّه، خَرَّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ أُخْرٰی، فَيَقُوْلُ اﷲُ: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَيَذْهَبُ لِيَقَعَ سَاجِدًا، فَيْخُذُ جِبْرِيْلُ بِضَبْعَيْهِ، فَيَفْتَحُ اﷲُ عَلَيْهِ مِنَ الدُّعَاءِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلٰی بَشَرٍ قَطُّ فَيَقُوْلُ: أَي رَبِّ، خَلَقْتَنِي سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، وَأَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، حَتّٰی إِنَّه لَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَکْثَرُ مِمَّا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَيْلَةَ …إلی آخر الحديث.
رَوَهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو يَعْلٰی وَالْبَزَّارُ. وقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُمْ ثِقَاتٌ.
7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 /4.5، الرقم: 15، وابن حبان في الصحيح، 14 /393.395، الرقم: 6476، وأبو يعلی في المسند، 1 /44.45، الرقم: 52، والبزار في المسند، 1 /149.151، الرقم: 76، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /374.
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صبح کے وقت تشریف لائے تو نمازِ فجر ادا کر کے تشریف فرما ہوئے یہاں تک کہ چاشت کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کسی بات پر) مسکرائے، پھراپنی جگہ تشریف فرما رہے یہاں تک کہ نمازِ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء ادا فرمائی، اِس دوران آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی گفتگو نہ فرمائی یہاں تک کہ آپ عشاء ادا کر کے اپنے اہلِ خانہ کے پاس تشریف لے گئے۔ پس لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ اس کی کیا وجہ ہے آج آپ نے جو کیا اس سے قبل کبھی اس طرح نہیں کیا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہاں، دنیا اور آخرت کے معاملات میں سے جو کچھ ہونے والا تھا مجھ پر پیش کیا گیا، اوّلین اور آخرین کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا، پس لوگ گھبرا کر حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور قریب تھا کہ وہ پسینے میں ڈوب جاتے۔ عرض کریں گے: اے آدم! آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اور آپ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منتخب ہیں اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے۔ وہ فرمائیں گے: مجھے بھی اس طرح پریشانی ہے جس طرح تمہیں ہے۔ تم اپنے (پہلے) باپ کے بعد دوسرے باپ نوح علیہ اسلام کے پاس جاؤ {بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرمایا ہےo} آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پھر لوگ مل کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اورکہیں گے: اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت (کبریٰ) کیجئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا اور آپ کی دعا قبول فرمائی اور روئے زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا نہ چھوڑ۔ آپ فرمائیں گے: شفاعت (کبریٰ) کا منصب میرے پاس نہیں۔ تم حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاس چلے جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنا خلیل بنایا ہے تو وہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاس جائیں گے۔ آپ فرمائیں گے: یہ منصب میرے پاس نہیں البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے بلاواسطہ گفتگو فرمائی۔ حضرت موسیٰں فرمائیں گے: یہ منصب میرے پاس نہیں بلکہ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ انہوں نے مادر زاد اندھوں اور برص زدہ مریضوں کو (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) ٹھیک کر دیا اور مردوں کوزندہ کر دی۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ اسلام فرمائیں گے: میرے پاس شفاعت کا یہ منصب نہیں البتہ تم اولادِ آدم کے سردار کے پاس چلے جاؤ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جن کے لئے سب سے پہلے زمین پھٹ جائے گی تم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں چلے جاؤ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کریں گے۔
’’راوی بیان فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جائیں گے تو حضرت جبرائیل علیہ اسلام ربّ کے پاس آئیں گے، پس اللہ رب العزت فرمائے گا: اُنہیں شفاعت کی اجازت دے دو اورجنت کی خوشخبری سناؤ۔ فرمایا: پھر جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں جائیں گے۔ (یہ خبر سننے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مقدارِ جمعہ کے برابر سجدہ میں پڑے رہیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے مانا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا سرِ انور اُٹھائیں گے تو یکایک اپنے ربّ کا دیدار کرتے ہی پھر دوسری بار جمعہ کی مقدار کے برابر سجدہ میں پڑے رہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اٹھائیے، کہیے مانا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ آپ پھر سجدہ ریز ہونا چاہیں گے تو جبرائیل علیہ السلام آپ کو دونوں بازوؤں سے پکڑ لیں گے، پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایسے دعائیہ کلمات منکشف فرمائے گا کہ آج تک کسی فردِ بشر پر نہیں فرمائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرض کریں گے: اے پروردگار! تو نے مجھے اولادِ آدم کا سردار بنایا اور میں یہ بات بطور فخرنہیں کہتا اور سب سے پہلے قیامت کے دن مجھ ہی سے زمین شق ہوگی یہاں تک کہ روزِ قیامت (بعد ازاں) مجھ پر حوض پیش کیا جائے گا جس کی حدود صنعاء اور ایلہ کے درمیانی علاقہ کے برابر ہوں گی۔‘‘ الی آخر الحدیث۔
اسے امام احمد، ابنِ حبان، ابو یعلی اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقات ہیں۔
50 /8. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: إنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأُعْطٰی لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ.
وَإِنِّي آتِي بَابَ الْجَنَّةِ، فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا، فَيَقُوْلُوْنَ: مَنْ هٰذَا؟ فَأَقُوْلُ: أَنَا مُحَمَّدٌ. فَيَفْتَحُوْنَ لِي، فَأَدْخُلُ، فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ، وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُوْلَُ: أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيَقُوْلُ: اِذْهَبْ إِلٰی أُمَّتِکَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِه مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيْرٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ. فَأَقْبُلُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِه ذَالِکَ، فَأُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ.
فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ: اِرْفَعْ رأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ، وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُوْلَُ: أُمَّتِي أُمَّتِي أَي رَبِّ، فَيَقُوْلُ: اِذْهَبْ إِلٰی أُمَّتِکَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِه نِصْفَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيْرٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُمُ الْجَنَّةَ. فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِه مِثْقَالَ ذَالِکَ أُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ.
فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ: اِرْفَعْ رأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ، وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُوْلَُ: أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُوْلُ: اِذْهَبْ إِلٰی أُمَّتِکَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِه مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِه مِثْقَالَ ذَالِکَ أَدْخَلْتُهُمُ الْجَنَّةَ.
وَفَرَغَ اﷲُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ، وَأَدْخَلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي النَّارَ مَعَ هْلِ النَّارِ، فَيَقُوْلُ هْلُ النَّارِ: مَا أَغْنٰی عَنْکُمْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اﷲَ لَا تُشْرِکُوْنَ بِه شَيْئًا؟ فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ: فَبِعِزَّتِي لَأُعْتِقَنَّهُمْ مِنَ النَّارِ. فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ، فَيَخْرُجُوْنَ وَقَدِ امْتَحَشُوْا، فَيَدْخُلُوْنَ فِي نَهْرِ الْحَيَةِ، فَيَنْبُتُوْنَ فِيْهِ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبَّةُ فِي غُثَاءِ السَّيْلِ، وَيُکْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ: هٰـؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اﷲِ ، فَيَذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيَقُوْلُ لَهُمْ هْلُ الْجَنَّةِ: هٰـؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُوْنَ. فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ: بَلْ هٰـؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ.
رَوَهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ مَنْدَه. وَقَالَ ابْنُ مَنْدَه: هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مَشْهُوْرٌ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ.
8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /144، الرقم: 12491، والدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أعطي النبي صلی الله عليه واله وسلم من الفضل، 1 /41، الرقم: 52، وابن منده في اليمان، 2 /846، الرقم: 877، هذا حديث صحيح، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 /323، الرقم: 2345، والمروزي في تعظيم قدر الصلة، 1 /276، الرقم:268.
’’حضرت انس صسے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن جملہ مخلوقات میں سب سے پہلے میرے سرِ انور کے اوپر سے زمین شق ہوگی (اور میں اپنی قبرِ انور سے باہر نکلوں گا) اور میں یہ بات بطور فخر نہیں کہتا، حمد کا جھنڈا مجھے تھمایا جائے گا اور یہ بات بطور فخر نہیں کہتا، قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور یہ بات بطور فخر نہیں کہتا اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا اور میں یہ بات بطور فخر نہیں کہت۔
’’میں جنت کے دروازے کے پاس آؤں گ۔ پھر اس کی کنڈی پکڑ لوں گا تو فرشتے پوچھیں گے: یہ کون ہیں؟ میں کہوں گا: میں محمد ہوں۔ وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے تو میں اندر داخل ہوں گ۔ تو اللہ تعالیٰ میرے سامنے جلوہ افروز ہوگا تب میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے اور کلام کیجئے آپ کو سنا جائے گا، اور کہیے آپ کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب کریم! میری اُمت، میری اُمت۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر ایمان پائیں اس کو جنت میں داخل کیجئے ۔ میں آکر جس کے دل میں اتنا ایمان پاؤں گا تو اُسے جنت میں داخل کردوں گ۔
’’پھر اچانک دیکھوں گا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے جلوہ افروز ہے تو میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا لیجیے اور گفتگو کیجئے آپ سے سنا جائے گا، اور کہیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں آدھے جَو کے دانے کے برابر ایمان پائیں اس کو جنت میں داخل فرما دیں۔ پس میں جاؤں گا اور جس کے دل میں اتنی مقدار میں ایمان پاؤں گا ان کو بھی جنت میں داخل کر دوں گ۔
’’پھر اچانک دیکھوں گا کہ اللہ ربّ العزت میرے سامنے جلوہ افروز ہے تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: محمد! اپنا سر اٹھا لیجیے اور گفتگو کیجئے آپ کو سنا جائے گا، اور کہیے آپ کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: میری امت، میری امت۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان موجود ہو اس کو جنت میں داخل فرما دیں، میں جاؤں گا اورجن کے دل میں ایمان کی اتنی مقدار پاؤں گا ان کو بھی جنت میں داخل کر دوں گ۔
’’اللہ تعالیٰ لوگوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا اور میری امت میں سے باقی جو لوگ بچ جائیں گے وہ اہلِ نار کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے۔ پس دوزخ والے لوگ ان کو طعنہ دیں گے: تمہیں اس چیز نے کوئی فائدہ نہیں دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے؟ اس پر اللہ رب العزت فرمائے گا: مجھے اپنی عزت کی قسم! میں اُنہیں ضرور جہنم کی آگ سے نجات دوں گ۔ پس ان کی طرف فرشتہ بھیجے گا تو وہ اس حال میں اس سے نکلیں گے کہ بری طرح جُھلس گئے ہوں گے، پھر وہ نہرِ حیات میں داخل ہوں گے تو اس میں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح پانی کے کنارے دانہ اُگتا ہے۔ ان کے ماتھے کے درمیان لکھ دیا جائے گا یہ ’’عُتَقَاءُ اﷲ‘‘ (اللہ کے آزاد کردہ) ہیں۔ وہ فرشتہ ان کو لے جائے گا اور جنت میں داخل کرے گ۔ اہلِ جنت انہیں کہیں گے: یہ لوگ جہنمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ ’’عُتَقَاءُ الْجَبَّار‘‘ (اللہ تعالیٰ جبَّار کے آزاد کردہ) ہیں۔‘‘
اسے امام احمد، دارمی اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔ امام ابن مندہ نے فرمایا: یہ حدیث صحیح، مشہور ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا: اِس کی اِسناد صحیح ہے
51 /9. عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ: تُعْطَی الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَرَّ عَشَرَ سِنِيْنَ، ثُمَّ تَدْنُوْ مِنْ جَمَاجِمِ النَّاسِ حَتّٰی يَکُوْنَ قَابَ قَوْسَيْنِ فَيَغْرُقُوْنَ حَتّٰی يَرْشَحَ الْعَرَقُ قَامَةً فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يَرْتَفِعُ حَتّٰی يُغَرْغِرَ الرَّجُلُ. قَالَ سَلْمَانُ: حَتّٰی يَقُوْلَ الرَّجُلُ: غُرْغِرَ، فَإِذَا رَأَوْا مَا هُمْ فِيْهِ، قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَ لَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيْهِ؟ اِئْتُوْا أَبَاکُمْ آدَمَ فَلْيَشْفَعْ لَکُمْ إِلٰی رَبِّکُمْ. فَيْتُوْنَ آدَمَ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا أَبَانَا، أَنْتَ الَّذِي خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِه وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِه وَأَسْکَنَکَ جَنَّتَه، قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّنَا فَقَدْ تَرٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ. فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکَ وَلَسْتُ بِذَاکَ، فَيْنَ الْفِعْلَةُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: إِلٰی مَنْ تَأْمُرُنَا؟ فَيَقُوْلُ: اِئْتُوْا عَبْدًا جَعَلَهُ اﷲُ شَاکِرً. فَيْتُوْنَ نُوْحًا، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، أَنْتَ الَّذِي جَعَلَکَ اﷲُ شَاکِرًا، وَقَدْ تَرٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکَ وَلَسْتُ بِذَاکَ، فَيْنَ الْفِعْلَةُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: إِلٰی مَنْ تَأْمُرُنَا؟ فَيَقُوْلُ: اِئْتُوْا خَلِيْلَ الرَّحْمٰنِ إِبْرَهِيْمَ. فَيَأْتُوْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا خَلِيْلَ الرَّحْمٰنِ، قَدْ تَرٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکَ وَلَسْتُ بِذَاکَ، فَأَيْنَ الْفِعْلَةُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: إِلٰی مَنْ تَأْمُرُنَا؟ فَيَقُوْلُ: اِئْتُوْا کَلِمَةَ اﷲِ وَرُوْحَه عِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ. فَيْتُوْنَ عِيْسٰی، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا کَلِمَةَ اﷲِ وَرُوْحَه، قَدْ تَرٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَيَقُوْلُ: لَسْتُ هُنَاکَ وَلَسْتُ بِذَاکَ، فَأَيْنَ الْفِعْلَةُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: إِلٰی مَنْ تَأْمُرُنَا؟ فَيَقُوْلُ: اِِئْتُوْا عَبْدًا فَتَحَ اﷲُ بِه وَخَتَمَ، وَغَفَرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه وَمَا تَأَخَّرَ، وَنَحْنُ فِيْ هذَا الْيَوْمِ أُمَنَاءُ.
فَيْتُوْنَ مُحَمَّدً صلی الله عليه واله وسلم ، فَيَقُوْلُوْنَ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَتَحَ اﷲُ بِکَ وَخَتَمَ، وَغَفَرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ، وَجِئْتَ فِيْ هذَا الْيَوْمِ آمِنًا، وَقَدْ تَرٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ. فَيَقُوْلُ: أَنَا صَاحِبُکُمْ، فَيَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ حَتّٰی يَنْتَهِيَ إِلٰی بَابِ الْجَنَّةِ، فَيْخُذُ بِحَلْقَةٍ فِي الْبَابِ مِنْ ذَهَبٍ، فَيَقْرَعُ الْبَابَ فَيُقَالُ: مَنْ هذَا؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: فَيُفْتَحُ لَه فَيَجِيئُ حَتّٰی يَقُوْمَ بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ فَيَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُوْدِ فَيُؤْذَنُ لَه، فَيَسْجُدُ فَيُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَه وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ قَالَ: فَيَفْتَحُ اﷲُ عَلَيْهِ مِنَ الثَّنَاءِ وَالتَّحْمِيْدِ وَالتَّمْجِيْدِ مَا لَمْ يَفْتَحْ لِأَحَدٍ مِنَ الْخَـلَائِقِ، قَالَ: فَيَقُوْلُ: رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، ثُمَّ يَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُوْدِ فَيُؤْذَنُ لَه فَيَسْجُدُ فَيَفْتَحُ اﷲُ عَلَيْهِ مِنَ الثَّنَاءِ وَالتَّحْمِيْدِ وَالتَّمْجِيْدِ مَا لَمْ يَفْتَحْ لِأَحَدٍ مِنَ الْخَلَائِقِ، وَيُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، اِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَه وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ، فَيَرْفَعُ رَأْسَه وَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، قَالَ (سَلْمَانُ): فَيَشْفَعُ فِي کُلِّ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِه مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ حِنْطَةٍ مِنْ يْمَانٍ أَوْ مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ يْمَانٍ أَوْ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ يْمَانٍِ، فَذَالِکُمُ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ.
رَوَهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْأَلْبَانِي: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
9: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 /312، الرقم: 31666، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 384، الرقم: 813.
’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قیامت کے دن سورج کو دس سال کی مسافت جتنی گرمی عطا کی جائے گی، پھر (آہستہ آہستہ) وہ لوگوں کے سروں کے قریب ہو جائے گا یہاں تک کہ دو کمانوں جتنا فاصلہ ہوگ۔ لوگ پسینہ میں غرق ہوں گے یہاں تک کہ پسینہ زمین پر اُن کے سروں تک آجائے گا پھر سورج بلند ہوگا تو انسان اس کی حدت سے ہانڈی کے اُبلنے کی طرح اُبلنے لگے گ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہاں تک کہ کوئی شخص کہے گا: (ہمیں) ذبح کر دیا گی۔ پس جب وہ اپنی حالت دیکھیں گے، ان میں سے بعض بعض سے کہیں گے: کیا تم اپنی حالت نہیں دیکھ رہے؟ آؤ اپنے باپ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں کہ وہ تمہارے ربّ سے تمہاری شفاعت فرمائیں، پس تمام لوگ حضرت آدم علیہ اسلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے باپ! آپ ہی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرای۔ آپ اٹھیں اور اپنے رب کے حضور ہمارے لئے شفاعت فرمائیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس قدر تکلیف میں ہیں تو وہ فرمائیں گے: میں اس منصب پر فائز نہیں، میں اس کے لئے نہیں، تو تمہارا کام مجھ سے کہاں ہوگا؟ پس وہ عرض کریں گے: آپ ہمیں کس کی طرف جانے کا حکم فرماتے ہیں؟ وہ فرمائیں گے: تم اس (عظیم) بندے کے پاس جاؤ جس کو اﷲ رب العزت نے شکر گزار بندہ بنایا ہے۔ تو وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے اللہ کے نبی! آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کواللہ نے شکر گزار بنایا ہے، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں لہٰذا اپنے ربّ کے حضور ہماری شفاعت کریں۔ تو وہ فرمائیں گے: میں اس منصب پر فائز نہیں، میں اس کام کے لئے نہیں ہوں، تو مجھ سے یہ کام کہاں ہوگا؟ پس وہ عرض کریں گے: آپ ہمیں کس کی طرف جانے کا حکم فرماتے ہیں؟ وہ فرمائیں گے: رحمان کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ تو وہ حضرت ابراہیمں کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے خلیل الرحمان! آپ ہماری حالت ملاحظہ فرما رہے ہیں لہٰذا اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں تو وہ فرمائیں گے: میں اس منصب پر فائز نہیں، میں اس کام کے لئے نہیں ہوں تو کام کہاں ہوگا؟ پس وہ عرض کریں گے: آپ ہمیں کس کی طرف جانے کا حکم فرماتے ہیں تو وہ فرمائیں گے: تم اللہ کے کلمہ اور اس کی روح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس جاؤ تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے اللہ کے کلمہ اور اس کی روح! آپ ہماری حالت ملاحظہ فرما رہے ہیں لہٰذا اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں تو وہ فرمائیں گے: میں اس منصب پر فائز نہیں، میں اِس کام کے لیے نہیں تو کام کہاں ہوگا؟ پس وہ عرض کریں گے: آپ ہمیں کس کی طرف جانے کا حکم فرماتے ہیں؟ وہ فرمائیں گے: تم اس بندہ کے پاس جاؤ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بابِ نبوت کھولا اور نبوت ختم فرمائی اور اس کے صدقے پہلے اور پچھلے بخش دئیے گئے، اور آج کے دن ہم (ان کی عظمت کو متعارف کرانے کے) امین ہیں۔
’’پس وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے بابِ نبوت کھولا اور آپ پر نبوت کا خاتمہ فرمایا اور آپ کے صدقے آپ کی اُمت کے پہلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور آپ اس دن امن میں ہیں، آپ ہماری حالت ملاحظہ فرما رہے ہیں لہٰذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے۔ تو آپ فرمائیں گے: میں ہی تمہارا یہ کام کرنے والا ہوں، پس آپ لوگوں کے درمیان سے نکل کر جنت کے دروازے تک آئیں گے اور دروازے میں لگا سونے کا کنڈا پکڑ کر دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو پوچھا جائے گا: کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمائیں گے: محمد مصطفی! راوی فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے اسے کھول دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سجدہ ریز ہونے کی اجازت طلب کریں گے توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اذن دیا جائے گا، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سجدہ ریز ہوں گے تو ربّ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اُٹھائیے، مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور دعا کیجیے آپ کی دعا قبول کی جائے گی۔ پس آپ عرض کریں گے: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! پھر سجدہ ریز ہونے کی اجازت طلب کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اِذن دیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سجدہ ریز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنی حمد و ثنا اور بزرگی کے ایسے کلمات منکشف فرمائے گا کہ خلائق میں سے کسی اور پر منکشف نہیں کئے گئے ہوں گے۔ حضرت سلمان نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرض کریں گے: اے میرے رب کریم! میری امت، میری امت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سجدہ ریز ہونے کی اجازت طلب کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اذرن دیا جائے گا پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سجدہ ریز ہو جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنی ثنا اور تحمید و تمجید کے ایسے کلمات کھولے گا جو ساری مخلوق میں کسی کے لئے نہیں کھولے گئے ہوں گے۔ پس وہ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا سر اُٹھا کر عرض کریں گے: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! دو بار یا تین بار فرمائیں گے۔ (حضرت سلمان ص) فرماتے ہیں: پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر اـس شخص کی شفاعت فرمائیں گے جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوگا یا جَو کے برابر ایمان ہوگا یا رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا، تمہارے لئے یہ شفاعت مقامِ محمود ہوگا۔‘‘
اِسے امام ابنِ ابی شیبہ اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ البانی نے ’’السنۃ‘‘ کی تخریج میں اس حدیث کی اِسناد کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
52 /10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم تَـلَا قَوْلَ اﷲِ تَعَالٰی فِي إِبْرَهِيْمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَإِنَّه مِنِّيْ} [إبراهيم، 14: 36] وَقَالَ عِيْسٰی: {إِِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo} [المائدة، 5: 118] فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، وَبَکٰی، فَقَالَ اﷲُ: يَا جِبْرِيْلُ، اِذْهَبْ إِلٰی مُحَمَّدٍ وَرَبُّکَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا يُبْکِيْکَ؟ فَأَتَهُ جِبْرِيْلُ فَسَأَلَه فَأَخْبَرَه رَسُوْلُ اﷲِ بِمَا قَالَ وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اﷲُ تَعَالٰی: يَا جِبْرِيْلُ، اِذْهَبْ إِلٰی مُحَمَّدٍ ( صلی الله عليه واله وسلم )، فَقُلْ إِنَّا سَنُرْضِيْکَ فِي أُمَّتِکَ وَلَا نَسُؤْکَ. رَوَهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.
10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب دعاء النبي صلی الله عليه واله وسلم لأمته، 1 /191، الرقم: 202، والنسائي في السنن الکبری، 6 /373، الرقم: 11269، وأبو عوانة في المسند، 1 /138، الرقم: 415، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /367، الرقم:8894 وابن منده في اليمان، 2 /869، الرقم: 924، إسناده حسن.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرآن کریم سے حضرت ابرہیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: {اے میرے ربّ! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے پس جس نے میری پیروی کی تو وہ میرا ہے} اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کایہ قول ہے: {(اے اللہ!) اگر تو انہیں عذ اب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے۔} پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک اٹھا کر عرض کی: اے اللہ!میری امت! میری امت! اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آنسو جاری ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل! محمد مصطفی کے پاس جاؤ اور اُن سے معلوم کرو حالانکہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ علم والا ہے کہ کونسی چیز آپ کو اس قدر رُلا رہی ہے؟ حضرت جبرائیلں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو کہا تھا جبرائیل نے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں جا کر بتایا حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جبرائیل سے فرمایا: اے جبریل! محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت کی بخشش کے معاملہ میں ہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راضی کر دیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رنجیدہ خاطر نہیں کریں گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
53 /11. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنه يَقُوْلُ: غَابَ عَنَّا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمًا، فَلَمْ يَخْرُجْ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّه لَنْ يَخْرُجَ، فَلَمَّا خَرَجَ سَجَدَ سَجْدَةً، فَظَنَنَّا أَنَّ نَفْسَه قَدْ قُبِضَتْ فِيْهَا، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَه قَالَ: إِنَّ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی اسْتَشَارَنِي فِي أُمَّتِي مَاذَا أَفْعَلُ بِهِمْ؟ فَقُلْتُ: مَا شِئْتَ أَي رَبِّ، هُمْ خَلْقُکَ وَعِبَادُکَ، فَاسْتَشَارَنِيَ الثَّانِيَةَ، فَقُلْتُ لَه کَذَالِکَ، فَقَالَ: لَا أُحْزِنُکَ فِي أُمَّتِکَ يَا مُحَمَّدُ، وَبَشَّرَنِي أَنَّ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُوْنَ أَلْفًا لَيْسَ عَلَيْهِمْ حِسَابٌ … الحديث. رَوَهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
11: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 /393، الرقم: 23384، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /68، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 /122.
’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دن ہماری نظروں سے اُوجھل رہے، آپ تشریف نہ لائے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آج حجرہ مبارک سے باہر نہ نکلیں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے تو اتنا طویل سجدہ کیا کہ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وصال فرما گئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا سرِ انور اُٹھا کر فرمایا: میرے ربّ ذوالجلال نے مجھ سے میری اُمت کے بارے مشورہ طلب کیا کہ میں اُن سے کیا معاملہ کروں؟ تو میں نے عرض کیا: میرے ربّ کریم! جیسا تو چاہے، وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے دوبارہ مجھ سے مشورہ طلب کیا تو میں نے اِسی طرح عرض کی۔ پس اس نے فرمایا: یا محمد! میں آپ کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت کے بارے غمگین نہیں کروں گا اور اس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد جن میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید 70 ہزار ہوں گے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اِسناد حسن ہے۔
54 /12. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لِـلْأَنْبِيَاءِ مَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: فَيَجْلِسُوْنَ عَلَيْهَا وَيَبْقٰی مِنْبَرِي لَا أَجْلِسُ عَلَيْهِ أَوْ لَا أَقْعُدُ عَلَيْهِ، قَائِمًا بَيْنَ يَدَي رَبِّي مَخَافَةً أَنْ يَبْعَثَ بِي إِلَی الْجَنَّةِ وَيَبْقٰی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُوْلُ اﷲُ ل: يَا مُحَمَّدُ، مَا تُرِيْدُ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمَّتِکَ؟ فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، عَجِّلْ حِسَابَهُمْ، فَيُدْعٰی بِهِمْ فَيُحَاسَبُوْنَ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اﷲِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي فَمَا أَزَالُ أَشْفَعُ حَتّٰی أُعْطٰی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِهِمْ إِلَی النَّارِ، وَآتِي مَالِکًا خَازِنَ النَّارِ فَيَقُوْلُ: يَا مُحَّمَدُ، مَا تَرَکْتَ لِلنَّارِ لِغَضَبِ رَبِّکَ فِي أُمَّتِکَ مِنْ بَقِيَةٍ.
رَوَهُ الْحَاکِمُ والطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
12: أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 /135، الرقم: 220، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /208، الرقم: 2937، ويضًا في المعجم الکبير، 10 /317، الرقم: 10771، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /241، الرقم: 5515، وابن کثير في البدية والنهية، 10 /440.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے وہ اُن پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر خالی رہے گا میں اُس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے ربّ کریم کے سامنے کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری اُمت میرے بعد (کہیں بے یار و مددگار) رہ جائے۔ پس میں عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یا محمد! آپ کیا چاہتے ہیں جو میں آپ کی اُمت کے ساتھ سلوک کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: میں عرض کروں گا: میرے ربّ! اُن کا حساب جلدی فرما دے۔ سو اُن کو بلایا جائے گا اور اُن کا حساب ہو گا، اُن میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور کچھ میری شفاعت سے۔ میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ میں اُن لوگوں کی رہائی کا پروانہ بھی حاصل کر لوں گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہو گا، اور میں داروغہ جہنم مالک کے پاس آؤں گا تو وہ کہے گا: اے محمد! آپ نے اپنی اُمت میں سے کوئی بھی آگ میں باقی نہیں چھوڑا جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔‘‘
اِسے امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
55 /13. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: حَدَّثَنِي نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنِّي لَقَائِمٌ أَنْتَظِرُ أُمَّتِي تَعْبُرُ عَلَی الصِّرَاطِ، إِذْ جَائَنِي عِيْسٰی، فَقَالَ: هٰذِهِ الْأَنْبِيَاءُ قَدْ جَائَتْکَ؟ يَا مُحَمَّدُ، يَسْأَلُوْنَ. أَوْ قَالَ: يَجْتَمِعُوْنَ إِلَيْکَ. وَيَدْعُوْنَ اﷲَ أَنْ يُفَرِّقَ جَمْعَ الْأُمَمِ إِلٰی حَيْثُ يَشَاءُ اﷲُ لَهُمْ لِغَمِّ مَا هُمْ فِيْهِ، وَالْخَلْقُ مُلْجَمُوْنَ فِي الْعَرَقِ، وَأَمَّا الْمُوْمِنُ فَهُوَ عَلَيْهِ کَالزَّکْمَةِ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَيَتَغَشَّهُ الْمَوْتُ. قَالَ: قَالَ لِعِيْسٰی: اِنْتَظِرْ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَيْکَ. قَالَ: فَذَهَبَ نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حَتّٰی قَامَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَلَقِيَ مَا لَمْ يَلْقَ مَلَکٌ مُصْطَفًی وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ. فَأَوْحَی اﷲُ إِلٰی جِبْرِيْلَ: اِذْهَبْ إِلٰی مُحَمَّدٍ، فَقُلْ لَه: اِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. قَالَ: فَشُفِّعْتُ فِيْ أُمَّتِيْ أَنْ أُخْرِجَ مِنْ کُلِّ تِسْعَةٍ وَتِسْعِيْنَ إِنْسَانًا وَاحِدً. قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَتَرَدَّدُ عَلٰی رَبِّي، فَـلَا أَقُوْمُ مَقَامًا إِلَّا شُفِّعْتُ، حَتّٰی أَعْطَانِيَ اﷲُ مِنْ ذَالِکَ أَنْ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِکَ مِنْ خَلْقِ اﷲِ مَنْ شَهِدَ أَنَّه لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ يَوْمًا وَاحِدًا مُخْلِصًا وَمَاتَ عَلٰی ذَالِکَ.
رَوَهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
13: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /178، الرقم: 12847، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 /249، الرقم: 2695، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /235، الرقم: 5503، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /373.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں پل صراط پر کھڑا اپنی اُمت کے اُسے عبور کرنے کا انتظار کر رہا ہوں گا دریں اثنا میرے پاس عیسیٰ علیہ السلام تشریف لا کر کہیں گے: اے محمد! یہ انبیاء (کرام علیہم السلام) آپ کے پاس التجا لے کر آئے ہیں یا آپ کے پاس اکٹھے ہیں (راوی کو شک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں کہ وہ تمام گروہوں کو اپنی منشاء کے مطابق الگ کر دے تاکہ انہیں پریشانی سے نجات مل جائے۔ اس دن ساری مخلوق پسینے میں ڈوبی ہوگی، مومن پر اس کا اثر ایسے ہو گا جیسے زکام (میں ہلکا پُھلکا پسینہ)اور جو کافر ہوگا اس پر جیسے موت وارد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہوں گا: ذرا ٹھہرئیے جب تک کہ میں آپ کے پاس لوٹوں۔ راوی کہتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ عرش کے نیچے کھڑے ہوں گے، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ شرفِ باریابی حاصل ہو گا جو کسی برگزیدہ فرشتہ کو حاصل ہوا نہ کسی نبی مرسل کو۔ پھر اللہ تعالیٰ جبریلں کو وحی فرمائے گا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جا کر کہو: اپنا سر اُٹھائیے، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پس میری امت کے حق میں میری شفاعت قبول کی جائے گی کہ ہر ننانوے لوگوں میں سے ایک کو نکالتا جاؤں گ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں بار بار اپنے ربّ کے حضور جائوں گا اور جب بھی اس کے حضور کھڑا ہوں گا میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے شفاعت کا مکمل اختیار عطا کر کے فرمائے گا: یا محمد! اپنی اُمت اور اللہ کی مخلوق میں سے ہر اُس شخص کو بھی جنت میں داخل کر دیجیے جس نے ایک دن بھی اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اُسی پر اُسے موت آئی ہو۔‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
56 /14. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَشْفَعُ لِأُمَّتِي حَتّٰی يُنَادِيَنِي رَبِّي فَيَقُوْلُ: أَرَضِيْتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ رَضِيْتُ. رَوَهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
14: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 /307، الرقم: 2062، والبزار في المسند، 2 /239، الرقم: 638، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 /179، وابن کثير في نهية البدية والنهية، 10 /457، والسيوطي في الدر المنثور، 8 /543.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) میں اپنی اُمت کے لئے شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ میرا ربّ مجھے ندا دے کر پوچھے گا: یا محمد! کیا آپ راضی ہو گئے؟ میں عرض کروں گا: ہاں (میرے رب!) میں راضی ہو گی۔‘‘
اِسے امام طبرانی، بزار اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved