تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی میں مُعجزۂ معراج ایک بنیادی پتھر کی حیثیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جسے بوسہ دیئے بغیر اِرتقاء کی کوئی منزل طے نہیں ہوسکتی۔ عروجِ آدمِ خاکی کا کوئی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ سفرِمعراج دراصل سفرِاِرتقاء ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم مُعجزہ ہے جس پر اِنسانی عقل آج بھی اَنگشت بدنداں ہے۔ اِنتہائی قلیل وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کی طویل مسافت طے ہو جاتی ہے۔ قرآن اِس کا ذکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
(بنی اِسرائيل، 17 : 1)
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo
اِس آیتِ مقدّسہ پر غور و تدبر کریں تو شکوک و شبہات کے تمام راستے خودبخود مُقفّل ہو جاتے ہیں، کسی اِلتباس کی گنجائش رہتی ہے اور نہ کسی اِبہام کا جواز باقی رہتا ہے۔ عقلی اور نقلی سوالات آنِ واحد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے اور حقیقت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف ہو جاتی ہے۔ اِیمان میں مزید اِستحکام پیدا ہوتا ہے، اِیقان کو مزید پختگی نصیب ہوتی ہے، نصِ قرآن سے بڑھ کر تو کوئی رِوایت نہیں ہو سکتی۔ جب باری تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو رات کے ایک قلیل عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اَقصیٰ تک لے گیا۔ اِس پر بھی عقلِ اِنسانی اِستعجاب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ذہنِ اِنسانی میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ سفر جو ہفتوں اور مہینوں کا تھا، وہ رات کے ایک تھوڑے سے وقت میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ اِس کا جواب یہی ہے کہ اِس کا اِنحصار تو لے جانے والے کی طاقت اور قوّت پر ہے۔ اُس سفر کا سارا اِنتظام ربِّ کائنات کی طرف سے ہو رہا ہے، وہ جو ہر چیز پر قادِر ہے۔ طاقت اور قُدرت اُس ذات کی کار فرما ہے جو اِس کائنات کا خالق و مالک ہے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ جس کے حکم کا پابند ہے۔ وہ ربّ جو إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کا مالک ہے۔ وہ ربّ جو اَمرِ كُن فَيَكُونُ کی طاقت رکھتا ہے اور اُس کے لئے کوئی چیز ناممکن اور محال نہیں۔ اِنسانی عقل اُس کی قُدرتِ مُطلقہ کے ساتھ بے بس اور عاجز ہے۔ اگر یہ نکتہ ذِہن نشین کر لیا جائے تو سفرِ مِعراج کی ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ جبرئیلِ اَمین کو اُس نے بھیجا کہ جاؤ! میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے آؤ۔ برّاق اور رفرف بھی مِن جانبِ اللہ بھیجے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سماوِی سفر کس رفتار سے طے کیا اور کیسے کیا، زمان و مکان کی قیودات سفرِ مِعراج پر اَثر اَنداز ہوئیں یا نہ ہوئیں، کیا برّاق اور رفرف کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تھی؟ اِن تمام سوالات کے جوابات لفظِ ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ‘‘ میں مضمر ہیں۔
قُدسیوں نے یہ سرِ عرش منادی کر دی
سیدہ آمنہ (رض) کا ماہِ تمام آتا ہے
مُستند جس کا ہر اِک نقشِ قدم ہونا ہے
آج کی شب وہ رسولوں کا اِمام آتا ہے
لفظِ سُبْحَان، پاکیزگی اور تقدیس کے معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ حکیم علم، حِکمت اور دانائی کی آخری آسمانی دستاویز ہے۔ یہ لفظ اپنے اَندر معانی کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ اِس کے اِستعمال میں اَن گنت حِکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اُن میں سے بعض ضروری حِکمتوں کا بیان ذیل میں کیا جاتا ہے تاکہ اِس آیتِ مقدّسہ کا مفہوم اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ذہنِ اِنسانی میں روشن ہو سکے۔
روز مرّہ زِندگی میں ہم یہ مُشاہدہ کرتے ہیں کہ عام تحریر کا اُسلوب یہ ہے کہ جب کسی شخص کی کوئی خاص فضیلت یا اُس کا کوئی خاص وصف بیان کیا جانا مقصود ہو تو حرفِ آغاز میں اُسی کا نام لیا جاتا ہے۔ اِس اُصول اور ضابطے کے مطابق آیتِ مذکورہ کا آغاز نبئ آخرالزّماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ گرامی سے ہونا چاہئے تھا لیکن پروردگارِ عالم نے اپنے ذِکر سے اِس آیت کا آغاز فرما کر اِنسان کو غورو فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے، اِس لئے کہ وہ خالقِ کائنات ہے اور اُس کی ذاتِ لاشریک ہر قسم کے وہم و گمان سے بالاتر اور ہر قسم کے نقص و عیب سے اِس قدر پاک ہے کہ اِنسانی ذِہن میں اُس کا تصوّر بھی محال ہے۔ اللہ ربّ العزّت نے سلسلۂ اَنبیاء کے آخری رسول جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی محبوبیت کی خِلعتِ فاخرہ عطا کی، اَنوارو تجلیات کے جلو میں آپ کو منصبِ رسالت سے نوازا، اُس کا لطف و کرم ہر لمحہ شاملِ حال رہا، ہر لمحہ اُس نے اپنے محبوب کی دستگیری فرمائی اور ہر طرح سے نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِلجوئی کی۔ معراج اُن نوازشاتِ پیہم کی نسبت عظیم تر نعمت تھی اور عظیم تر اِحسان تھا۔ خدائے علیم و خبیر کے علم میں تھا کہ کفار و مُشرکین واقعۂ معراج کو بھی تسلیم کرنے سے اِنکار کر دیں گے کیونکہ اِس عظیم سفر کا ہر ہر پہلو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رِفعتوں کا آئینہ دار ہے۔ مُشرکینِ مکہ جو پہلے ہی اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رِفعت کی بات کو وہ کیسے قبول کریں گے! دستورِ زمانہ ہے کہ جو شخص پسند نہ ہو اُس کے حسن و جمال کا کوئی پہلو بھی گوارا نہیں کیا جاتا بلکہ کمالات کو بھی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حقیقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کفار و مُشرکین کا یہی رویہ اللہ کے نبی کے ساتھ تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و اَمین تسلیم کرنے کے باوجود اآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ مقدّسہ کا تمسخر اُڑانے میں مصروف تھے۔ اِس کے برعکس اپنی کسی محبوب شخصیت کے عیوب بھی وجہِ کمال بن کر نظر آتے ہیں اور محبوب کے حسن و جمال کی تعریفوں میں مُبالغہ آرائی کی اِنتہا کر دی جاتی ہے، خواہ محبوب کے یہ اَوصاف معمولی سے ہی کیوں نہ ہوں۔
ربِّ کائنات کے علم میں تھا کہ مکہ میں بسنے والا ہر شخص اَبوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نہیں، ہر شخص عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھ نہیں رکھتا، ہر شخص عثمان رضی اللہ عنہ جیسا اَہلِ اِیمان نہیں، ہر شخص علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسا جاں نثار نہیں۔ یہاں اَیسے بدبخت اور بدطینت بھی موجود ہیں جو حضور پُرنور کو اَبوجہل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح اَہلِ مکہ میں آپ کے حاسِد بھی ہوں گے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اُس نے مُعجزۂ معراج سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کیا ہے، کفار و مُشرکین اپنے تمام تر حسد کے باوجود اُس پر اُنگلی اُٹھا سکیں۔ اللہ ربّ العزّت کی منشاء یہ تھی کہ حاسِدین اور مُنکرین بھی اس پر اِعتراض نہ کر سکیں۔ اِس لئے آیتِ مذکورہ کا آغاز اَپنے نام سے کیا کیونکہ کفار و مُشرکین کسی نہ کسی صورت میں خدائے واحد کا تصوّر رکھتے تھے۔ فرمایا کہ وہ ذات جس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مِعراج کی نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ ذات جو نقص اور عیب سے پاک ہے، جس کی کوئی اِبتدا ہے اور نہ کوئی اِنتہاء، وہ ذات جسے جو چاہتی ہے عطا کرتی ہے۔ اِس ساری بحث کو اِن اَلفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے گویا ذات باری تعالیٰ کہنا یہ چاہتی ہے کہ جو سفرِ معراج کا مُنکر ہے وہ اللہ کی قُدرتِ کاملہ کا مُنکر ہے۔ گویا یہ اللہ کے خلاف اِعلانِ جنگ ہے اور اُس سے پوچھئے کہ تو نے یتیمِ عبداللہ کو اِتنی بڑی نعمت کیوں عطا کی! یہ کتنی بڑی حِکمت ہے کہ مِعراج کا دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما ہی نہیں رہے۔ دعویٰ تو خود اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ گویا مِعراج کا اِنکار اللہ ربّ العزّت کی قُدرتِ کاملہ کا اِنکار ہے۔ آیتِ مذکورہ میں وُہی اُسلوب اِختیار کیا گیا ہے جو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِلجوئی کے لئے قرآن میں مختلف مقامات پر اِختیار کیا ہے کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دستگیری بھی فرمائی اور دُشمنانِ اِسلام کے ناپاک منصوبوں پر اُنہیں وعید بھی سنائی۔
ایک دفعہ چند روز کے لئے وحی کا نزول بند ہو گیا تو کفار و مُشرکین نے اُس بندش کو اُچھالتے ہوئے طعن و تشنیع کی بارِش کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ لیا ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناراض ہو گیا ہے۔ اِس پر اِرشاد ہوا :
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىO
(الضحی، 93 : 3)
آپ کے ربّ نے (جب سے آپ کو مُنتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo
بعض اُجڈ، گنوار اور جاہل دیہاتی حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ گرامی کو بگاڑ کر اَدا کرتے اور اپنے طور پر تضحیک و تحقیر کا پہلو نکالتے۔ اُن جہلاء کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا بلکہ دفاعِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود ربّ ُالعالمین نے فرمایا :
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍO
(القلم، 68 : 13)
(وہ شخص) سرکش ہے اور پھر یہ کہ اُس کی اَصل بھی خراب ہے (یعنی حلال زادہ نہیں)o
ایک اور مقام پر اللہ ربّ العزّت کی طرف سے اپنے جلیل القدر نبی اور رسول کا دِفاع اِن اَلفاظ میں کیا جا رہا ہے :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO
(اللهب، 111 : 1)
اَبو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o
وہ ذاتِ لاشریک خود فرما رہی ہے کہ اَبو لہب! تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش رہتا ہے، تو آمنہ کے لال کی راہ میں کانٹے بچھاتا ہے، تو میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خِلاف سازشوں کے جال بُنتا ہے، تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں۔
سُبْحَان کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ ربِّ کائنات تمہارے ہر اِعتراض سے پاک ہے۔ گویا اللہ ربّ ُالعزّت کفار و مُشرکین کو خبردار کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے بندے اور رسول کو عظمتِ معراج سے نوازا ہے اور عالمِ بیداری میں رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیکرِ بشری کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس عظمت کا اِنکار کرنا اور نہ اِس پر کوئی اِعتراض کرنا کہ یہ دعویٰ کرنے والے خود ہم ہیں اور ہماری ذات عیب و نقص سے پاک ہے۔
لفظ سُبْحَان سے آیتِ مقدسہ کا آغاز کرنے میں ایک حِکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ معترض اور مُنکر واقعۂ معراج کو عقلِ ناقص کی کسوٹی پر پرکھنے کی حماقت نہ کرے۔ وہ ظاہر کی آنکھ سے نہیں قلب کی چشمِ بینا سے ربّ ُالعالمین کی قُدرتِ مُطلقہ کا مُشاہدہ کرے۔ سفرِ معراج ایک مُعجزہ ہے اور مُعجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقلِ اِنسانی کو عاجز اور بے بس کر دے۔ یہ تو اُس ذاتِ پاک کی قُدرتوں کا کرِشمہ ہے جو خود بھی عقلِ ناقص کے دائرۂ پرواز سے باہر ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے :
سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَO
(المؤمنون، 23 : 91)
اللہ اُن باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیںo
دعویٰ اُسی کا ہے جو ربِّ کائنات ہے اور کائنات کی ہر چیز جس کے حکم کی پابند ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اَپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائی۔ ۔ ۔ اِس لئے مادّی دُنیا کے قواعد و ضوابط کا اِطلاق نبیوں اور رسولوں کے مُعجزات پر نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی قُدرتِ کاملہ کا کلی اِدراک عقلِ اِنسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ پاسبانِ عقل کا دِل کے ساتھ رہنا درُست ہی سہی لیکن کبھی کبھی دِل کو تنہا بھی چھوڑ دینا چاہئے۔ عشق کے کسی معاملے کی توجیہہ عقل سے ممکن ہی نہیں، اِس لئے واقعۂ معراج کو بھی اُسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ یہ کرمِ خدائے وحدہ لاشریک کا کرم ہے، جس کی بارگاہ میں لب کشائی کا تصوّر بھی کفر ہے۔
جب کوئی کام ہماری پہنچ یا دسترس سے باہر ہوتا ہے تو عموماً خیال کر لیا جاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِنسان کی قوّت اور اُس کا دائرۂ عمل محدود ہے۔ کارخانۂ قُدرت میں اُسے ایک معمولی سی اِکائی کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں لفظِ سُبْحَان اِستعمال کر کے اللہ ربّ ُالعزّت نے مُنکرین کا منہ بند کر دیا ہے کہ یہ اَمر عقل کے حیطۂ اِدراک میں آ ہی نہیں سکتا۔ عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی شخص اَپنے جسدِ خاکی کے ساتھ بیداری کی حالت میں حرمِ کعبہ سے مسجدِ اَقصیٰ تک کا سفر طے کرے اور پھر لامکاں کی وُسعتوں کو چیرتا ہوا قَابَ قَوْسَیْن کی بلندیوں پر جلوہ اَفروز ہو اور آنِ واحِد میں زمین پر واپس بھی آ جائے۔ عقل ناقص ہے اور اِنسان کمزور و ناتواں، وہ کسی چیز کو ردّ کرنے یا اُسے تسلیم کرنے میں اپنی ناقص صلاحیتوں کا سہارا لیتا ہے۔ اِس سے آگے کا سوچنا اُس کی عقلِ ناقص کے دائرۂ عمل میں نہیں آتا، اِس لئے ذہنِ اِنسانی میں شکوک و شبہات کی گرد اُٹھتی ہے اور غبارِ تشکیک اُس کی سوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے لیکن ربِّ کائنات کی ذات لامحدود ہے۔ مشیتِ اَیزدی جو چاہتی ہے ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ ناممکن یا محال کے لفظ کا اِطلاق اللہ ربّ ُالعزت کی قُدرتِ کاملہ پر ہوتا ہی نہیں۔ وہ قادرِ مُطلق ہے اور ہر چیز پر قادِر ہے۔ سفرِ معراج بھی اُسی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
تاریخِ اَنبیاء میں جابجا مُعجزات کا ذِکر ملتا ہے۔ خرقِ عادت واقعات جن پر عقلِ اِنسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ لفظِ سُبْحَان کے اِستعمال میں یہ حِکمت بھی پوشیدہ ہے کہ مُنکرین کو یہ باوَر کرا دِیا جائے کہ اُسے اپنی عقلِ ناقص کے پیمانے پر نہ پرکھیں۔ مِعراج ایک مُعجزہ ہے اور مُعجزات کی مادّی توجیہہ بعض اَوقات اِنسان کو گمراہیوں کی دلدل میں لے جاتی ہے اور وہ صراطِ مُستقیم سے دُور ہونے لگتا ہے۔ ظاہری اَسباب کے بغیر رُونما ہونے والے واقعات اگر ہر کسی کی محدُود عقل کے دائرے میں سمانے لگیں تو پھر مُعجزہ مُعجزہ نہیں رہے گا۔
جب ہم اپنی کسی محبوب ترین ہستی کا ذِکر کرتے ہیں تو اُس کی کسی اَدا پر سبحان اللہ کہہ کر اپنی محبت کا اِظہار کرتے ہیں۔ یہ حرفِ تحسین ہماری چاہت کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے اور محبوب کے کمال کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ بچہ اپنے قدموں پر چلنے کی کوشش کرے یا اپنی توتلی زبان سے کوئی لفظ اَدا کرے تو ماں باپ بے ساختہ سبحان اللہ کے حرفِ تحسین کے ساتھ بچے کی ننھی منھی اَداؤں پر اِظہارِ مسرّت و محبت کرتے ہیں۔ اِسی طرح حلقۂ اَحباب میں دوستوں کے کمالِ فن کا اِعتراف یہی لفظ اَدا کر کے کیا جاتا ہے۔ یہ کلمات ایک طرف اِظہار محبت پر دلالت کرتے ہیں تو دُوسری طرف اپنے محبوب کے حسن و جمال کے کسی پہلو کو سندِ جواز بھی عطا کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ کبریا ہیں، اَقلیمِ اَنبیاء کے آخری تاجدار ہیں، خدا کے بعد مخلوقات میں سے سب سے بزرگ و برتر، سفرِ مِعراج آپ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے لئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ عظیم سعادت حاصل ہو رہی ہے تو قُدرتی طور پر دِل میں یہ خواہش کروٹیں لیتی ہے کہ کاش اِس موقع پر کوئی سبحان اللہ کہہ کر حصولِ عظمت کے اِس واقعہ کی پذیرائی کرے۔ یہ لفظ وُہی اَدا کر سکتا تھا جو عمر، علم، عمل اور عظمت میں بڑا ہوتا۔ عمر میں بڑا ہونے کا اِعزاز آپ کے والدین کو حاصل تھا اور وہ اُس وقت دُنیا میں موجود نہ تھے اور جن شخصیتوں نے آپ کی پرورش کی وہ بھی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں، اِس لئے سبحان اللہ کہنے والا کوئی بڑا بظاہر موجود نہیں تھا۔ اَب ربِّ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی یہ لفظ اَدا کر سکتا تھا کہ سب تعریفوں کے لائق وُہی ذاتِ وحدہ لاشریک ہے۔ گویا ربِّ کائنات نے اپنے سب سے بڑے شاہکار یعنی اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کے آغاز پر یوں فرمایا : ’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ حرفِ تحسین اَدا کرنے کے لئے اگر کوئی اور موجود نہیں تو کیا ہوا۔ پیارے کمالِ شفقت اور محبت کے ساتھ یہ حرفِ محبت ہم اَدا کئے دیتے ہیں‘‘۔
لفظِ سُبْحَان کی تشریح و توضیح کے بعد اَب ہم آیتِ کریمہ کے اگلے اَلفاظ الَّذِیْ اور بِعَبْدِہِ کے مفہوم کو متعین کرتے ہوئے اِن اَلفاظ کے اَسرار و رُموز اور اُن میں پوشیدہ حِکمتوں کے بارے میں اِظہارِ خیال کریں گے۔
الَّذِیْ بمعنی ’’وہ‘‘ عربی لُغت اور اَدب کے اِعتبار سے اِسمِ موصول ہے۔ ضابطہ اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی ذات کا ذِکر مقصود ہو تو الَّذِیْ کا لفظ اِستعمال کیا جاتا ہے۔ عَبْد کا معنی بندہ ہے لیکن جب اِسے وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو کائنات کی ہر ذِی شعور اور غیر ذِی شعور، ہر جاندار اور غیر جاندار گویا کائنات کی ہر شئے پر اِس لفظ کے مفہوم کا اِطلاق ہو گا، اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے خالق کی حمد بیان کر رہا ہے۔ گویا ہر چیز فریضۂ بندگی کی اَدائیگی میں مصروف ہے۔ اِس میں اِنسان، حیوان، چرند اور پرند حتی کہ بے جان اَجسام کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ اِرشادِ خداوندی ہے :
إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلاَّ آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًاO
(مريم، 19 : 93)
آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی (آباد) ہیں (خوہ وہ فرشتے ہیں یا جن و اِنس) وہ اللہ کے حضور محض بندہ کے طور پر حاضر ہونے والے ہیںo
اللہ ربّ ُالعزّت نے سفرِ معراج کا ذِکر کرتے وقت اپنا نام لیا اور نہ اپنے محبوب کا۔ ۔ ۔ اِشارے کِنائے میں بات کی ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ اُسلوب اِظہار کی دِلکشی اور بیان کی رعنائیوں کا آئینہ دار ہے۔ ’’پاک ہے وہ ذات (اللہ) جس نے سیر کرائی اپنے بندۂ خاص کو‘‘۔ اِشارے اور کِنائے میں بات کرنا شدید محبت اور اَپنائیت کی علامت ہوتا ہے۔ گویا الَّذِیْ کہنے میں اُس کے چاہنے اور عَبْدِہِ میں اُس کے چاہے جانے کی طرف اِشارہ ہے۔ الَّذِیْ اور عَبْدِہِ میں بھی پوشیدہ حِکمتوں سے علم و دانش کی پرتیں کھلتی ہیں۔ اَسرار و رُموز، حقائق کی روشنی میں آتے ہیں اور تفہیم کی بے شمار صورتیں صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتی ہیں۔
عربی زبان کے قواعد و ضوابط کے مطابق ’’الَّذِیْ‘‘ اور ’’عَبْد‘‘ کے اَلفاظ اپنے اِطلاق کے اِعتبار سے تخصیص کی بجائے عمومیت کے حامل ہیں، یعنی قادرِ مطلق کے علاوہ بھی کوئی شخص الَّذِیْ ہو سکتا ہے۔ دُوسری طرف تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ بھی کائنات کی ہر شئے عَبْد ہے۔ بالفاظِ دیگر ہر ذات، ہر وُجود الَّذِیْ تو ہے لیکن الَّذِیْ نقص اور عیب سے مبرّا نہیں، یعنی اُس میں عیب بھی ہوتا ہے، نقص بھی پایا جاتا ہے، اُس میں کمی اور کجی بھی ضرور ہوتی ہے۔ جبکہ یہ الَّذِیْ کامل الَّذِیْ ہے، اِس میں کوئی نقص ہے اور نہ کوئی عیب۔ یہ ہر قسم کی کمی اور کجی سے بھی پاک ہے۔ فرمایا پاک ہے وہ الَّذِیْ ہر عیب، نقص، کمی اور کجی سے۔ اِسی طرح ہر شئے عَبْد ہے اور ہر عَبْد اپنی عبدیت میں ناقص اور عاجز ہے لیکن جس عَبْد کا ذِکرِجمیل اِس آیتِ کریمہ میں ہو رہا ہے وہ کوئی عام عَبْد نہیں ہے۔ یہ اُس رحیم و کریم خدا کا خاص عَبْد ہے جس عَبْد کی عبدیت پر اُسے ناز ہے۔ جس عَبْد کو اُس نے کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، جس عَبْد کے سرِ اَقدس پر ختمِ نبوّت کا تاج سجایا، اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کیا اور جسے مُعجزۂ معراج عطا کر کے آسمانوں کی سیر کرائی کہ پوری دنیا ورطۂ حیرت میں ڈُوب گئی۔ یہ رسول عبدیت میں کامل و اَکمل، کوئی نقص اور نہ کوئی عیب، کسی قسم کی کوئی کمی نہ کجی، اپنی عبدیت میں یکتا و تنہا۔ فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے خاص بندے کو، گویا اِشارے کِنائے میں بات اِس لئے کی تاکہ واضح ہو جائے۔ ایک ذات ربِّ کائنات کی ہے اور ایک رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔ ۔ ۔ وہ اُلوہیت میں یکتا تو یہ عبدیت میں یکتا۔ ۔ ۔ اُس جیسا کوئی ربّ نہیں، وہ ربوبیت میں بے مثال و بے نظیر۔ ۔ ۔ اِن جیسا کوئی عَبْد نہیں، یہ اپنی بندگی میں بے مثال و بے نظیر ہے۔
معراجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اُس سفر میں اللہ ربّ ُالعزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ اِعزاز بنا رہا۔ کرۂ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سرتاپا عشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.
(البقره، 2 : 165)
اور جو لوگ اِیمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اپنے ربّ سے ٹوٹ کر محبت کرنا ہی بلندئ درجات کا باعث بنتا ہے۔ توحید کا پرچم سینوں میں بھی لہرائے تو بات بنتی ہے۔ اِرشادِ ربانی ہے :
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًاO
(المزمل، 73 : 8)
اور آپ اپنے ربّ کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (نماز میں) سب سے الگ ہو کر اُسی کے ہو رہیں۔
مقامِ بندگی کا حصول اُسی وقت ممکن ہے جب اِنسان ہر شئے سے منہ موڑ کر اپنے خالق سے لَو لگا لے۔ اَپنے دِل سے ہر کسی کی محبت کو نکال دے اور اپنے مولا سے رِشتہ جوڑ لے کہ اُس کی چوکھٹ بندے کی منزلِ مقصود ہے۔ اپنے مالکِ حقیقی کی بندگی کا کیف ہر کیف پر محیط ہے۔ اِقبال نے کہا تھا :
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
بندے کو اگر مقامِ بندگی عطا ہو جائے تو پھر وہ ہر منصب سے بے نیاز ہو جاتا ہے، ہر چیز کو ہیچ گردانتا ہے، لہٰذا اَپنے عبد کو آسمانوں کی سیر کرانے اور اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جس بندے کو اِعزازِ معراج سے نوازا گیا وہ کوئی عام بندہ نہ تھا بلکہ وہ اللہ کا آخری رسول تھا، جو ہر شئے سے کٹ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ رشتۂ بندگی کو اَپنی اِنتہاؤں تک لے جا چکا تھا۔ جو ساری ساری رات اللہ کے حضور قیام کرتا کہ پاؤں سُوجھ جاتے اور اُن میں وَرم آ جاتا لیکن مقامِ بندگی کی حلاوتوں میں کچھ اور اِضافہ ہو جاتا۔ کیف و مستی کی کیفیتوں میں دِل ڈُوب جاتا اور جبینِ اَقدس میں سجدوں کا سرُور سما جاتا، بندگی کا حسن خدا کو چاہنے سے ہی قائم رہتا ہے۔ گویا آسمانوں کا یہ سفرِ عظیم محض حسنِ اِتفاق نہ تھا بلکہ یہ سفر ایک چاہت کا سفر تھا۔ محبت و مؤدّت کا سفر تھا۔ عظمت و رِفعت کا سفر تھا۔ ایک آرزو کی تکمیل اور ایک خواہش کے اِتّمام کا سفر تھا۔ وہ سفر کہ جس کے بعد تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی کا یہ سفر اُس سفر کی گردِ پا کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا کر اِعتبار کی سند حاصل کیا کرے گا۔
کائنات کی کوئی شئے الذّی کے دائرے سے باہر نہیں، یہ ہر شئے پر محیط ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر شئے عَبْد ہے اور عَبْد بھی ہر شئے پر محیط ہے۔ آیتِ مقدسہ میں الذّی سے مراد خالقِ کائنات کی ذاتِ والا صفات ہے اور عَبْد سے مراد سردارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس ہے۔ ہم نے دیکھا کہ الذّی کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی ذات اپنی خالقیت، مالکیت، منتہائیت، معبودیت اور قدرت کے اعتبار سے کائنات کی ہر شئے پر حاوی اور محیط ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :
أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ.
(حم السجده، 41 : 54)
خبردار! بے شک وہ (اپنے علم و قدرت سے) ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے۔
اسی طرح چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ عبد ہے اور عبد یعنی ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کائنات کی تمام اشیاء حتی کہ ایک ایک ذرے پر محیط ہے۔ گویا کائنات کا ایک ذرہ بھی عبد کامل یعنی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت سے خارج نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
(الانبياء، 21 : 107)
اور (اے رسول محتشم! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہےo
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات خالق کائنات ہے، وہ کل جہانوں کا پالنے والا ہے، وہ لائق بندگی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اپنی خلاقیت کے اعتبار سے ہر شئے پر محیط ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ تمام عالمین آپ کے دامن رحمت میں آ کر اپنے وجود کو معتبر بناتے ہیں۔ رحمت کے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شئے پر محیط ہیں، اس لئے اگر کسی کو وجود کی حاجت ہو تو وہ اپنے وجود کی رحمت آپ کی ذات اقدس سے طلب کرتا ہے۔ ہر خیرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے ملتی ہے۔ فرمایا کہ اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ چنانچہ جسے اپنی بقا کی حاجت ہو، وہ بقا کی رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمہ حیات سے لیتا ہے۔ وہ شخص جسے کمال کی ضرورت ہو وہ کمال کی رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال سے حاصل کرتا ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب رسول کو سب کچھ عطا کیا ہے۔ وہ عطا ہی عطا ہیں، وہ سخا ہی سخا ہیں، کائنات کی ہر شئے دامن خیرالبشر میں ہے۔
بادئ النظر میں الذی اور عبد کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ کون الذی اور کون عبد؟ دونوں لفظوں میں ابہام پایا جاتا ہے اور جب تک نشاندہی نہ کی جائے ابہام دور نہیں ہوتا۔ مثلاً جب الذی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کس ہستی کی بات ہو رہی ہے اور جب عبد کا لفظ زبان سے نکالا جاتا ہے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس بندے کی بات کی جا رہی ہے۔ الذی کے اس ابہام کا معنی یہ ہے کہ اس مقام پر الذی ایک ایسے مکمل حسن کا نام ہے جو اپنے حسن و جمال کے اعتبار سے ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، لیکن عقل کے دائرہ اختیار سے باہر اور اس کی نظروں سے اوجھل ہے۔ کوئی آنکھ ربّ کائنات کے جلووں کا نظارہ نہیں کر سکتی۔ اسے جاننے کی قوت کوئی نہیں رکھتا۔ ارشاد ربانی ہے :
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ.
(الانعام، 6 : 103)
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ عبد میں بھی ابہام پایا جاتا ہے کہ کون عبد؟ اس ابہام کا مطلب بھی یہ ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا جلوہ بھی عام ہے۔ ہر آنکھ دیکھنے والی نہیں مگر ہر کسی نے اپنی بصارت کے مطابق اکتساب نور کیا۔ ظاہر ہونے کے باوجود بھی اس حسن کی حقیقت سمجھ سے بالا اور آنکھ سے اوجھل ہے۔ کوئی مقام محمدی کو پا سکا ہے اور نہ حقیقت محمدی جان سکا ہے۔
چپ کر مہر علی ایتھے جا نئیں بولن دی
یہ جو کائنات کی وسعتوں میں ہر لمحہ رنگ و نور کی بارش ہو رہی ہے، کہکشاؤں کے جھرمٹ اپنے ہی ہالہ نور میں سمٹ رہے ہیں، ہر لحظہ عجائبات کا ظہور ہو رہا ہے اور قدم قدم پر امکانات کی نئی دنیاؤں کا انکشاف ہو رہا ہے، کارکنان قضا و قدر ہر آن مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، کرہ ارضی نجانے کب سے اپنے محور پر محو خرام ہے۔ زمین پر سبزے کی نرم و گداز چادر نجانے کب سے اولاد آدم کے قدموں کی پذیرائی کا اعزاز حاصل کر رہی ہے۔ گھٹائیں پانی کی چھاگلیں بھر بھر کر بنجر زمینوں کی طرف رواں دواں ہیں، پھول رعنائیوں کے پیکر جمیل میں لپٹے ہوئے ہیں۔ الغرض حسن و جمال کا جو بھی مرقع ہے وہ یا تو خدائے عظیم و کریم کے حسن قدرت کی جلوہ گاہ ہے یا تاجدار ارض و سما جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت کی خیرات ہے اس لئے کہ ’’الذی‘‘ اور ’’عبدہ‘‘ الگ الگ ہر شئے پر محیط ہیں۔ ہر شئے پر حاوی ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر حسن، ہر جمال اور ہر کمال نور کے انہی دو سرچشموں سے سیراب ہوتا ہے۔ آب خنک کا ہر جرعہ انہی شاداب موسموں کی عطا ہے۔ یہ حسن کسی کو دکھائی دے یا نہ دے یہ اس کی بصارت کی کجی ہے ورنہ حسن تو ہر آن موجود ہے۔ کائنات کی ہر شئے انہی دو ذاتوں الذی (اللہ ربّ العزت) اور عبدہ (حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حسن و جمال کی آئینہ دار ہے۔ کارخانہ قدرت کی ہر چیز اور آئینہ خانے کا ہر عکس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا دریوزہ گر ہے۔ کائنات کا ہر حسن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہگزر میں آنکھیں بچھا رہا ہے۔
آسمان سے اترنے والا ہر لفظ اور قلب اطہر پر نازل ہونے والا ہر پیغام، علم و حکمت اور دانائی کا حرف آخر ہے۔ آیت مقدسہ میں اگر ذات باری چاہتی تو اس مقام پر عبدہ کی جگہ نبیہ یا رسولہ کے الفاظ بھی استعمال کر سکتی تھی کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے نبی یا رسول کو سیر کے لئے لے گئی۔ ربّ کائنات نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل بندہ کہہ کر کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ نبوت اور مقام رسالت کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جدا نہیں کیا جا سکتا مگر سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بلایا جانا بندگی کی شان کے ساتھ ہے کیونکہ دونوں کے فرائض جدا جدا ہیں۔ نبی یا رسول خالق سے مخلوق کی طرف آتا ہے۔ وہ خود ہی خدا کے قرب و وصال کی لذتوں سے آشنا ہونے کا خواہش مند نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ مخلوق کو بھی یہ لذتیں اور حلاوتیں عطا کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس عبد مخلوق سے خالق کی طرف جاتا ہے۔ وہ خدا کی محبت اور اس کے مشاہدہ جمال میں غرق ہوتا ہے۔ اسی کے ذکر و فکر میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کی عبدیت اس وقت درجہ کمال کو پہنچتی ہے جب وہ اللہ کی ذات میں گم ہو جاتا ہے۔ گویا عبد مخلوق سے جتنا دور ہوتا ہے اتنا ہی خالق کے نزدیک ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے اس کا مرتبہ عبدیت بھی اتنا ہی بلند ہو گا تو چونکہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق سے خالق کی طرف گئے لہٰذا اس مقام پر عبد کا لفظ ہی استعمال کیا گیا کہ اس میں قرب اور وصل کی حلاوتیں اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی ہیں۔
عربی زبان کے محاورے اور گرائمر کے قواعد و ضوابط کی رو سے لفظ عبد اگر کسی زندہ شخص کے لئے مستعمل ہو تو اس سے جسم اور روح کا مجموعہ مراد ہو گا۔ اگر جسم زمین پر ہی رہے اور تنہا روح پرواز کر جائے تو اسے اسریٰ بروحہ کہا جائے گا، اسری بعبدہ نہیں ہوتا۔ گویا لفظ عبد کے استعمال سے بتانا یہ مقصود تھا کہ ربّ ذوالجلال نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جسم اور روح کے ساتھ سفر معراج کی عظمتوں سے ہمکنار کیا اور اقلیم رسالت کے اس آخری تاجدار معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معجزہ معراج عطا کر کے اس خلعت فاخرہ سے نوازا جس کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری حقدار ٹھہرے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ معجزہ کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں ہوا۔ یہ اعزاز صرف اور صرف نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آیا کہ انہیں ان کے ربّ نے روح و جسم کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرائی اور انہیں فضیلت کی ساری دستاروں کے لئے مختص کر دیا۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس صناع ازل کا شاہکار بے مثال کہ نہ کوئی نظیر نہ کوئی مثیل۔ جس طرح خدائے لم یزل اپنی ربوبیت میں یکتا و تنہا اسی طرح یتیم عبداللہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اقلیم رسالت میں یکتا و تنہا۔ پوری کائنات رسول ازل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا تصدق، تمام روشنیاں انہی کی زلف معنبر کا عکس جمیل، نہ کوئی نقص نہ کوئی عیب، نہ کوئی کجی نہ کوئی کمی، کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں کسی بھی پیمانے یا کسوٹی پر پرکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدائے لاشریک کی تخلیق بے مثال، شاہکار لازوال، رسول اول و آخر، نبی امروز و فردا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ تخلیق کار بہت سی چیزیں تخلیق کرتا ہے لیکن اس کی ہر تخلیق شاہکار نہیں ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرت کا وہ شاہکار بے مثال ہیں جس پر ربّ کائنات بھی مفتخر ہے اور اس پر خالق کائنات اور ملائکہ بھی درود بھیجتے ہیں۔ بلاتمثیل و بلا مثال اس مقام پر اللہ ربّ العزت نے یہ فرمانے کی بجائے کہ جس نے ’’بندے‘‘ کو سیر کرائی بلکہ یوں فرمایا کہ جس نے ’’اپنے بندے کو سیر کرائی‘‘ گویا فرمایا جا رہا ہے کہ خبردار! یہ میرا کوئی عام بندہ نہیں۔ اپنے میں جو اپنائیت ہے، جو چاہت ہے، وہ محبوبیت کے ہزار رخ آشکار کر رہی ہے۔ ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ بندہ تو ہر کوئی ہے لیکن ہر بندہ ایسا بندہ نہیں ہوتا کہ اس پر فخر کیا جا سکے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا جائے۔ میرے اس بندے کو ہر پہلو سے دیکھو، ہر حوالے سے جانچو، تمہیں کوئی نقص نظر نہیں آئے گا، کوئی کجی دکھائی نہیں دے گی کہ یہ میرے حسن تخلیق کا شاہکار ہے۔ کسی تخلیق کو اپنانا اسے اپنے تعارف میں پیش کرنا یقینا غیر معمولی بات ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
عبد دیگر عبدہ چیز دگر
ایں سراپا انتظار اُو منتظر
نالہ ہائے نیم شبی ندامت کے آنسوؤں کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور احساس ندامت کیساتھ چشم تر کا سجدہ اللہ کے ہاں بے حد مقبول ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنے اور انکی توبہ قبول کرنیوالا ہے۔ لفظ ’’اسری‘‘ اسراء سے ہے۔ عربی لغت کے مطابق اسراء کا معنی ’’رات کے وقت سیر کرنا ہے‘‘ رات کیلئے اس لفظ کا استعمال غالب ہے۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا۔
فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا.
(الدخان، 44 : 23)
(ہم نے فرمایا) تو لے جاؤ میرے بندوں کو راتوں رات۔
آیت مذکورہ کی روشنی میں لفظ اسری کا معنی یہ ہوا کہ اس (اللہ تبارک و تعالیٰ) نے رات کے وقت سیر کرائی۔ ذہن انسانی میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سفر رات کے وقت ہی کیوں کرایا گیا۔ اس میں کونسی حکمت کارفرما تھی۔ ان حکمتوں میں سے چند کا بیان ذیل میں کیا جاتا ہے :
رات کو دن پر کئی حوالوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ ان گنت اعزازات، بے شمار امتیازات اس کے دامن خوش رنگ میں روشن ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ قرآن پاک رات کے وقت نازل کیا گیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO
(القدر، 97 : 1)
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہےo
علیم و خبیر ربّ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملاقات سے قبل ایک مجاہدے سے گزارنے کا فیصلہ کیا تو انہیں پروردگار عالم کی طرف سے تیس دن کے اعتکاف کا حکم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیس دن کے لئے دنیا کی مصروفیتوں سے ناطہ توڑ کر اپنے مالک حقیقی کی یاد کا چراغ روشن کرو۔ توبہ استغفار میں ایک ایک لمحہ گزارو، بعد میں تیس دن کی بجائے چالیس دن کر دیئے گئے۔ ان چالیس دنوں میں رات کو بھی مجاہدے اور ریاضت کا عمل جاری رہتا اور دن کو بھی۔ دن کو بھی انہیں کہیں جانے کی اجازت نہ تھی۔ حصول مقصد کے لئے رات چونکہ دن سے افضل ہے لہٰذا اس مجاہدے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا :
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
(البقره، 2 : 51)
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔
آخر شب کی دعاؤں کی رقت انگیزی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بندہ راتوں کو پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو رحمت خداوندی اسے اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے، اس لئے عرفائے کرام اور اولیائے عظام فرماتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے لئے رات تخت سلطنت کی طرح ہوتی ہے کہ اس تخت پر بیٹھ کر وہ ندامت کے آنسو بہاتے ہیں اور گڑگڑا کر اپنے خالق سے اپنی مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ جو احوال دن میں طے نہیں ہوتے وہ رات کی تنہائیوں میں طے ہوتے ہیں۔ مشعل آرزو رات کے طاقچوں ہی میں فروزاں ہوتی ہے۔ قرب الٰہی کے لمحات اور وہ ساعتیں (جن میں خدائے رحیم و کریم کی خاص عنایتوں سے نوازا جاتا ہے اور خصوصی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں) بھی رات ہی کے دامن میں رکھی گئی ہیں :
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ.
(الاسراء، 17 : 79)
اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی) قرآن کے ساتھ (شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں۔
معراج کا سفر بھی رات ہی کو اختیار کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنی فضیلتیں عطا کی گئیں معراج کی فضیلت ان سب سے بڑھ کر تھی اور یہ فضیلت بھی رات ہی کے وقت دامن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سجائی گئی۔
تقویٰ، پرہیزگاری اور تزکیہ نفس کے چراغ رات کے دامن ہی میں روشن ہوتے ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے، یہاں تک کہ پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ دن کو جلوت میسر آتی ہے اور رات کو خلوت، خاص طور پر آخر شب کا وقت انتہائی خلوت کا ہوتا ہے۔ خالق ارض و سماوات اپنی شان کے مطابق آخر شب ہی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا سچی محبت کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ محبوب تو جاگ رہا ہے اور وہ سو رہے ہیں۔
لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ.
(البقره، 2 : 255)
نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
محبوب کی تو یہ شان ہے اور ادھر محبت کا دعویدار غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ اللہ ربّ العزت اپنے بندے کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرا رہے ہیں کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے بھی گزریں۔ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ محبت الٰہی کے دعوے میں کس حد تک سچے ہیں۔ کیا وہ اپنے محبوب سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل کرنے کے لئے اپنے نرم و گداز بستروں سے اٹھ جاتے ہیں یا ان کی محبت کے دعوے پر نیند غالب رہتی ہے۔ ویسے بھی رات میں دو لمحوں کی ملاقات بھی کئی سالوں کی محنت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO
(القدر، 97 : 3)
شب قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo
معراج کا سفر عظمت سفر محبت بھی تھا، محب اور محبوب کی ملاقات کا سفر تھا۔ اس سفر کا مقصد جلیلہ اس صاحب شعور کے ذہن میں آ سکتا ہے جو خود بھی رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہو۔ آخر شب سجدہ ریزی جس کا معمول ہو، جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی چشم بصیرت رکھتا ہو اور جو شب کی خلوتوں میں اترنے والے انعامات و اکرامات کا عینی شاہد ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر شب معراج رونما ہونیوالے عجائبات کی تصدیق کر دی اور وہ لوگ جو رات کی خلوتوں کی اہمیت کے شناسا نہ تھے اور تمام تر واقعات کا ابوجہل کی چشم کور سے مشاہدہ کر رہے تھے، واقعہ معراج کا انکار کر بیٹھے اور دولت ایمان سے محروم رہے۔
سفر معراج رات کے وقت کرایا گیا۔ یہ سفر عظمت پوری رات کا سفر نہ تھا بلکہ رات کے انتہائی قلیل عرصے پر محیط تھا۔ چونکہ اسری کے اندر رات کا معنی بھی پایا جاتا ہے لہٰذا اس آیت میں لیلاً کا باقاعدہ اضافہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے جس سے کسی خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرنا مقصود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ سفر اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے کرایا لہٰذا اسکی جملہ جزئیات کا انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ یہ سفر اس تیزی سے طے ہوا کہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ عقل اس معجزہ پر بھی عاجز اور بے بس ہے۔ اگر کوئی عقل کی کسوٹی پر ان واقعات کو پرکھے گا تو سوائے گمراہی کے اسے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سفر کی اسی تیزی کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
ما فقد جسد رسول الله ليلة المعراج.
(طبری، 15 : 13)
(الشفاء، 1 : 246)
معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اقدس (گویا) کہیں گیا ہی نہیں تھا۔
آیت مقدسہ میں لیلاً (رات) کا لفظ استعمال کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ رات کا وقت سورج اور اس کی روشنی سے پاک ہوتا ہے جبکہ دن کا وقت سورج کی روشنی ہر شئے پر محیط ہوتی ہے۔ گویا مخلوق کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سفر نظام شمسی کے دائرے میں نہیں تھا بلکہ نظام شمسی کے دائرے سے باہر کا سفر ہے۔ حتیٰ کہ یہ سفر اس زمین اور آسمان کا بھی نہیں بلکہ یہ سفر تو لامکاں کی وسعتوں کا سفر ہے، حدود وقت سے آگے نکل جانے کا سفر ہے۔ خدا کے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عظیم سفر عرش معلی اور سدرۃ المنتہی کا سفر ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved