حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقدس مرحلہ وار سفر کے باب میں اپنی کتاب ’’فوائد الفوائد‘‘ میں تین اصطلاحات استعمال فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
(فوائدالفوائد، 4 : 350)
سفر معراج کے ان تینوں مراحل کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں کی انتہائی قرب و مناسبت کا پتہ چلتا ہے جسے اچھی طرح ذہن نشین کر لینے کے بعد حقیقت و فلسفہ معراج کی تفہیم ممکن ہے اور اس سلسلے میں پیدا کئے گئے اشکالات خودبخود رفع ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ یہ تینوں شانیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا جزولاینفک ہونے کے ناطے سے پہلو بہ پہلو موجود ہیں لیکن ان میں سے ہر ہر شان کا اظہار اپنے اپنے مقام و مرحلے پر ہوا۔ بحیثیت مجموعی معراج مصطفوی بشریت، نورانیت اور مظہریت و حقیقت کے تمام کمالات کی بدرجہ اتم جامع ہے۔ درآنحالیکہ کوئی شان دوسری شان سے متناقض نہیں ہے اور ان تمام کمالات کی انتہاء کو پہنچنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام عبدیت و معبودیت کا امتیاز بہرحال قائم رہا۔ انوار و تجلیات کی بارش میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام بندگی پر ہی رونق افروز رہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں بشریت، نورانیت اور حقیقت کو الگ الگ معراج نصیب ہوئی۔ اس پر ذہن میں ایک سوال آ سکتا ہے۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان کو دوسری سے ممیز کیسے کیا جا سکتا ہے یعنی جب بشریت محمدی معراج سے مستفیض ہو رہی تھی تو دوسری شانیں کہاں تھیں اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت و حقیقت کو معراج کرائی جا رہی تھی تو بشریت کہاں تھی؟
اس سوال کے جواب میں روز مرہ زندگی میں انسان کے فطری احوال کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا۔
مثال : جب کوئی آدمی بات کر رہا ہوتا ہے تو اس سے تکلم بالفعل کی حالت ظاہر ہو رہی ہوتی ہے حالانکہ اس میں تکلم کے ساتھ ساتھ خموشی اور سکوت کی حالت بھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے۔
مثال : جب ایک باپ غصے کی حالت میں اپنے بچے کو اس کی خطا پر سزا دے رہا ہوتا ہے، اسے زد و کوب کر رہا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں پیار و محبت اور شفقت کا مادہ موجود نہیں ہے بلکہ اس وقت غصہ کی حالت غالب اور پیار و محبت کی صفت مغلوب ہوتی ہے۔
روز مرہ کے ان دو واقعات کو مثال (Analogy) کے طور پر پیش کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بشریت کی معراج کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری کمالات غالب تھے جبکہ آپ کی ملکیت اور حقیقت کی شانیں ابھی مغلوب تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کو معراج نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اوصاف و کمالات غالب اور بشریت و حقیقت کی شانیں مغلوب تھیں۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت و مظہریت کو معراج سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان حقیقت و محمدیت کا غلبہ تھا اور باقی دو شانیں مغلوب تھیں جبکہ تینوں شانیں اپنی اپنی جگہ موجودہ تھیں۔ کبھی ایک کا غلبہ ہو جاتا اور کبھی ایک کا۔
حاصل کلام یہ کہ معراج کے توسط سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات کے ہر پہلو اور ہر شان کی تکمیل بدرجہ اتم کر دی گئی اور آپ اوصاف وکمالات ایزدی کا مظہر اتم بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے لیکن ان کا کماحقہ ادراک عقل انسانی کی گرفت سے باہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر جلوہ گر ہوئے جس مقام عظمت کا تصور بھی تمام نورانی اور خاکی مخلوقات کے لئے ممکن نہیں۔ بقول غالب
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
معراج کی شب کوئی چیز براہ غیب میں نہ رہی۔ جب دیدار خداوندی کی سعادت نصیب ہو گئی، محب اور محبوب کے درمیان دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور دوئی کا ہر تصور مٹ گیا تو وہ کونسی چیز تھی جو اس کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں سے اوجھل رہی۔
معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کا علم عطا کر دیا گیا۔ جنت و دوزخ اور عالم اخروی کے حقائق کا مشاہدہ کروایا گیا۔ کتب حدیث میں ان کی تفصیلات شرح وبسط سے بیان کی گئی ہیں۔ ان مشاہدات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم عرش معلی پر پہنچے اور پھر سدرۃ المنتہی سے آگے بڑھنے کا مرحلہ آیا۔ جبرئیل علیہ السلام اس مقام پر رک گئے اور بڑے ادب سے عرض کیا کہ اس سے آگے مجھے بڑھنے کی مجال نہیں۔ اگر میں سوئی کی نوک کے برابر بھی آگے قدم رکھوں گا تو انوار الٰہی کی تجلیات سے جل کر راکھ ہو جاؤں گا۔ آپ تنہا آگے تشریف لے جائیے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ جبرئیل امین کے اس جواب کو اپنے شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
اگر یکسر موئے برتر پرم
فروغ تجلے بسوزد پرم
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا۔
هل من حاجت ربک
(السيرة الحلبيه، 2 : 120)
کیا تیرے دل میں کوئی حاجت اور آرزو ہے جسے میں آپ کے رب تک پہنچا دوں۔
جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے دل میں فقط ایک آرزو ہے جو آپ میرے رب تک پہنچا دیجئے۔ وہ یہ کہ قیامت کے دن جب آپ کی گنہگار امت پل صراط سے گزرنے لگے اور گزرتے وقت اس کے قدم لڑکھڑانے لگیں تو باری تعالیٰ مجھے اس امر کی اجازت دیدیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے پل صراط پر اپنے پر بچھا دوں تاکہ وہ سلامتی سے گزر سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کی یہ خواہش آپ کے رب تک پہنچا دوں گا اور وہ اسے ضرور پورے فرمائے گا۔
جواب : جبرئیل علیہ السلام کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنے کا طریقہ آپ کی امت کو خوش کرنے کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس سے اس بات کا علم بھی ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اپنی امت کی فلاح، بہتری اور خوشی میں مضمر ہے۔ سفر لا مکاں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رفرف پیش کیا گیا جو کہ سبز رنگ کا ایک تخت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہو کر اپنے رب کے قرب کی منزلیں طے کرنے لگے۔ سفر کا تیسرا مرحلہ آپ نے مظہریت و حقیقت کی طاقت سے سر کر لیا جبکہ بشریت و نورانیت دونوں اوصاف یہاں مغلوب تھے۔
سفر معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں یعنی بشریت، نورانیت اور حقیقت کو علیحدہ علیحدہ معراج نصیب ہوا۔ یہ تینوں شانیں جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق اپنے اپنے مقام پر غالب تھیں۔ اس ارضی دنیائے آب و گل میں آپ کی بشریت غالب تھی جبکہ باقی دو اوصاف مغلوب تھے۔ دنیائے ملکیت میں نورانیت کا رنگ غالب تھا اور عالم مظہریت میں حقیقت کا غلبہ تھا۔
شب معراج اللہ رب العزت نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسرت و انبساط کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے محبوب نے بلوایا تھا۔ جس طرح عام انسان اپنے دوست کے بلانے پر خوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست ہے۔ ایسا دوست کہ جس کی دوستی پر کائنات کی ساری دوستیاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ اس محبوب حقیقی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاوا بھیجا۔ یہ اعزاز آج تک کسی اور کو نصیب ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا کیونکہ عشق کی نگاہ میں وہی اول بھی ہیں اور وہی آخر بھی ہیں۔
کسی کو دعوت دینے کے مندرجہ ذیل تین مختلف انداز اور ڈھنگ ہوتے ہیں۔
1۔ پیغام بھیجنا : کسی کو بلانے کا ایک انداز یہ ہے کہ دوست فقط خط کے ذریعے یا فون کر کے دوسرے دوست کو دعوت یا پیغام بھیج دے۔ مدعو (جانیوالا) اپنی سواری کا بندوبست کر کے اپنی کوشش سے دوست کے پاس پہنچ جائے۔
2۔ سواری بھیجنا : جہاں پیار و محبت کا لحاظ اور پاسداری زیادہ ہو وہاں فقط پیغام بھیجتے بلکہ ساتھ گاڑی بھی بھیجی جاتی ہے تاکہ دوست اس پر سوار ہو کر ملنے کے لئے چلا آئے۔ دوست کو بلانا اور ساتھ گاڑی بھی بھیجنا یہ فقط بلاوا بھیجنے سے کہیں زیادہ عزت اور احترام و اکرام کی بات ہوتی ہے۔
3۔ نمائندہ بھیجنا : فقط گاڑی بھیج دینا بھی خوشی کی بات ہے لیکن اگر بلوانے والا اپنی بارگاہ سے نہایت مقرب شخص کو بطور نمائندہ بھی بھیج دے، اس شان اور انداز سے بلایا جائے تو پھر خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔
شب معراج محبوب حقیقی نے اپنے محبوب کو بلانے کے لئے پیغام نہ بھیجا بلکہ اپنی کائنات کی سب سے بڑھ کر سواری بھیجی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس نئے ماحول میں جہاں ہر طرف اللہ کی تجلیات اور جلوہ ہائے صفات موجزن تھے، میں نے کچھ اجنبیت سی محسوس کی اور ایسا ہونا بتقاضائے شان بشریت تھا جو اگرچہ مغلوب تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا حصہ تھا۔
سفر معراج میں ہر قدم پر محبت الٰہی کا جمال نظر آتا ہے۔ محبوبیت کا یہ مقام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص رہے گا کیونکہ نہ کوئی ان کا مماثل اور نہ کوئی ان کا مثیل، تنہا وہی مقام محبوبیت پر رونق افروز ہیں۔ ہم غلاموں کی محبت بھی رب کائنات کی اسی محبت کا ہلکا سا پرتو ہے اور اصل میں محبت رسول بھی سنت رب جلیل ہے۔ شب معراج پروردگار عالم اپنے مہمان ذی حشم پر صلوۃ پڑھ رہا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ میرے بندو میرے رسول کی محبت میں فنا ہو جاؤ، سینوں میں اسی رسول کے عشق کے چراغ جلاؤ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نامانوس ماحول میں اجنبیت اور تنہائی کا احساس ہونا ہی تھا کہ میرے کانوں میں دلنواز، میٹھی اور سریلی پیار بھری آواز آئی، کوئی نرم اور شفقت آمیز لہجے میں کہہ رہا تھا‘‘۔
قف يا محمد ان رب يصلی
(البواقيت والجواهر، 2 : 35)
اے محمد! ٹھہر جا تیرا رب تجھ پر صلوٰۃ پڑھ رہا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کے صلوٰۃ پڑھنے پر قدرے تعجب ہوا لیکن دوسری بار پھر یہی شیریں آواز کانوں میں رس گھولی ہوئی آئی تو وحشت اور پریشانی کا اثر زائل ہو گیا اور اس کی جگہ سکون و اطمینان نے لے لی۔
صلوٰۃ سے عام طور پر درود بھیجنے اور برکت کے معانی مراد لئے جاتے ہیں لیکن مندرجہ بالا حدیث میں صلوٰۃ کے یہ معانی نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا رہتا ہے جس کی تائید قرآن کے ان الفاظ سے ہوتی ہے۔
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.
(الاحزاب، 33 : 56)
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں۔
اس آیت کی رو سے اللہ رب العزت اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ رہا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی سفر معراج کے لئے روانہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت بھی پڑھ رہا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے لئے روانہ ہو کر مسجد حرام سے بیت المقدس پہنچے۔ وہاں سے عالم بشریت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عالم نورانیت کی طرف رواں دواں ہوئے۔ سدرۃ المنتہی اور عرش معلی پر پہنچے تھے۔ خدا تو ہر لمحہ درود پڑھ رہا تھا لہٰذا اس مقام پر صلوٰۃ کا معنی درود پڑھنا نہیں لیا جا سکتا۔ یہ مقام کسی اور معنی کا متقاضی ہے۔
صلوٰۃ کا ایک معنی قرب چاہنا اور قریب کرنا بھی ہوتا ہے۔ یہاں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو روکا جا رہا تھا کہ محبوب رک جاؤ۔ آپ کا رب آپ پر صلوٰۃ پڑھ رہا ہے تو اس سے مراد درود نہیں بلکہ قریب ہونا ہے۔
دستور یہی ہے کہ جب کسی مہمان ذی وقار کو اپنے گھر دعوت دی جاتی ہے تو گھر کے در و دیوار میں مہمان گرامی کی راہ میں اپنی پلکیں بچھا دیتے ہیں۔ گھر بار کی آرائش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور خاطر مدارت کے بعد تحائف دے کر اسے رخصت کیا جاتا ہے کہ مہمان اپنی اس عزت پر سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔
جب کوئی شخص کسی مہمان کو بلاتا ہے تو وہ اس آنے والے مہمان کا گھر سے نکل کر استقبال کرتا ہے۔ بلاتمثیل اللہ تعالیٰ نے شب معراج اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلایا تھا اس لئے فرمایا محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں تک چل کر آئے ہیں۔ اب آپ رک جائیں۔ دستور میزبانی کے مطابق اب میری رحمت اور شان بندہ نوازی تیرا استقبال کرے گی اور اپنی شان کے لائق آگے بڑھ کر تیرا استقبال کر کے حق میزبانی ادا کرے گی تاکہ تیری عظمت و محبوبیت کا اظہار ہو۔ اس معنی کی تائید قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ملتی ہے۔
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO
(النجم، 53 : 8)
پھر یہ قریب ہوا پھر وہ اور قریب ہوا۔
1۔ دنٰی کا معنی ’’قرب‘‘ ہے اور تدلّٰی کا معنی بھی ’’قریب ہونا‘‘ ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ دنی میں تین حروف (د، ن، ی) ہیں جبکہ تدلی میں حروف (ت، د، ل، ی) کی تعداد چار ہے۔ عربی کا قاعدہ ہے کہ کثرت حروف کثرت معنی پر دلالت کرتی ہے اور قلت حروف قلت معنی پر دلالت کرتی ہے۔ دنی فعل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور تدلی فعل خدا۔ دنی کے کم حروف سے پتہ چلتا ہے کہ محبوب چونکہ مخلوق میں سے تھا اور مخلوق محدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی محدود ہے اور رب چونکہ خالق اور لامحدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی لامحدود تھا۔ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ۔ اللہ خالق ہے اور بندہ اس کی مخلوق۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے لیکن اللہ تعالیٰ اتنا قریب ہوا کہ کوئی حد باقی نہ رہی۔ ’’دنی‘‘ کا جواب باری تعالیٰ نے ’’تدلی‘‘ کی صورت میں دیا اور ایسا کیوں نہ ہو۔ حدیث قدسی میں اللہ کا اپنا فیصلہ ہے۔
من تقرب منی شبرا تقربت منه ذراعا. . . . . . الخ
1. صحيح البخاری، 2 : 110، کتاب التوحيد، رقم : 6970
2. صحيح لمسلم، 2 : 343، کتاب الذکر و لدعاء، رقم : 22
3. جامع الترمذی، 2 : 200، کتاب الدعوات، رقم : 3603
4. سنن ابن ماجه، 2 : 1255، رقم : 3821
جو شخص ایک بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے میں پورا گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف پیدل چل کر آتا ہے میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں (اپنی شان کے مطابق)۔ جس طرح یہاں شبراً کا جواب ذراعاً سے دیا۔ اسی طرح زیر بحث آیہ کریمہ میں دنی کا جواب تدلی سے دیا۔
2۔ سورہ نجم میں ثم دنی فتدلی میں قرب کا ذکر دو دفعہ بتکرا آیا ہے حالانکہ ایک دفعہ کہنا بھی مکتفی ہو سکتا تھا۔
شیخ بقلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دیگر عرفاء کاملین نے اس پر لطیف نکات بیان کئے ہیں۔ انہوں نے بحر عرفان میں غواصی کر کے بہت سارے گہر ہائے نایاب دریافت کئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قرب کا ذکر یہاں دو مرتبہ اس لئے ہوا کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو قرب نصیب ہوئے۔ قرب صفات اور قرب ذات یعنی اللہ رب العزت کی صفات اور ذات دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حصار التفات میں لے لیا۔
اس قرب میں ثم دنی کی صورت میں ذات باری تعالیٰ نے اپنی صفات تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات سے اتنا قریب کر لیا کہ صفات محمدیہ پر صفات الہٰیہ کا رنگ چڑھ گیا یہاں تک کہ آپ صفات الہٰیہ کے مظہر اتم بن گئے۔ یہ صفات الہٰیہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔
جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفاتی قرب سے مکمل طور پر بہروہ ور کر دیا گیا تو پھر تجلیات ذات آپ پر جلوہ فگن ہوئیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ملکہ حاصل ہو گیا کہ آپ چشم سر اور چشم دل دونوں سے خدا کا دیدار کر سکیں۔ یہ قرب تدلی کی صورت میں عطا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کی ذات کے سائبان کرم میں تھے۔ یہ مقام حاصل کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری بندے اور رسول ہیں۔
جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن گئے تو آواز آئی کہ اے حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھیئے۔ آپ آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ کم ہوتے ہوتے دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ مقام قاب قوسین پر قرب و وصال کی وہ منزل آ گئی جو معراج کا نقطہ کمال (Climax) تھا۔ اس سے زیادہ قرب ممکن ہی نہ تھا۔ بایں ہمہ عبد کامل اور معبود حقیقی کے مابین وہ فرق و امتیاز قائم و دائم رہا جو نکتہ توحید کی اساس ہے۔
سفر معراج میں قاب قوسین کا ذکر جمیل اس تواتر سے ہوا ہے کہ ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟ اس کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی قرب و وصال کو قاب قوسین کی بلیغ و جمیل عام فہم تمثیل سے بیان فرمایا ہے تاکہ عرب اپنی روز مرہ زبان اور محاورے کے مطابق اس بات کا مفہوم پوری طرح سمجھ سکیں۔ قوسین سے مراد کمانیں یا ابرو یا بازو ہیں اور ’’قاب‘‘ فاصلے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو دو کمانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ جب دو بچھڑے ہوئے دوست مدت بعد ملتے ہیں تو ان کے ملنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کمان کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور دوسرا دوست اسی طرح قریب آ کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے تو نصف دائرے کی شکل میں دوسری کمان بن جاتی ہے۔ جب دونوں کے مابین معانقے کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے تو ان میں دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خدا کی ذات معانقے اور ان لوازمات سے پاک ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب کی انتہائی صورت کو بیان کرنے کے لئے اس تمثیل کے ذریعے بات ذہن نشین کرائی گئی ہے ورنہ باری تعالیٰ تو ہر مثل سے پاک ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ.
(شوریٰ، 42 : 11)
اس کی مثل کوئی شئے نہیں۔
ہر شئے سے پاک ہونے کے باوجود پھر فرمایا۔
مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.
(النور، 24 : 35)
اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ ہمیں سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرماتا ہے۔ خود اسے مثال کی حاجت و ضرورت نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
إِنَّ اللهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.
(البقره، 2 : 26)
بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو۔
اسلام دین فطرت ہے۔ ہر مرحلہ پر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتا ہے۔ قرآن کا اسلوب ہدایت بھی یہ ہے کہ جب وہ کوئی بات اپنے بندوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تو ان کے سماجی پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتا اور وہ ان کے ماحول کے مطابق انہیں مخاطب کر کے یا کسی تمثیل یا محاورے کے ذریعہ اپنی ہدایت کی ترسیل کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔ چونکہ اہل عرب قرآن کے اولین مخاطبین ہیں اس لئے عرب رسم و رواج کا ثقافتی پس منظر قرآن میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔
اہل عرب کے قدیم دستور و رواج کا مطالعہ کرنے سے قاب قوسین کی معنویت کی ایک اور پرت کھلتی نظر آتی ہے۔ جب دو متحارب عرب قبیلے دشمنی کی راہ ترک کر کے ایک دوسرے سے شیر و شکر ہونا چاہتے تو ان کے سردار معاہدہ دوستی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علامتی طور پر دو کمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر تیر چلاتے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ آج کے بعد دونوں حلیف قبیلوں کا دوست اور دشمن ایک ہو گا۔ ایک کا دوست دوسرے کا دوست اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن متصور ہو گا اور صلح و جنگ کے معاملوں میں دونوں کا رویہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گا۔
1. (معارج النبوة، 3 : 146)
2. (تفسير حسينی، 2 : 358)
3. (کمالين حاشيه جلالين : 437)
4. (روح المعانی، 67 : 48)
تاج عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر رکھا گیا۔ معراج کی شب فضیلتیں قدم قدم پر آپ کے ہمرکاب رہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام قاب قوسین پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے مزید قریب کر کے سریر آرائے او ادنیٰ پر متمکن ہونے کا شرف بخشا۔ قاب قوسین کے بعد او ادنیٰ کہہ کر قرآن خاموش ہو گیا کیونکہ اگر قاب قوسین تک بات ختم ہو جاتی تو قرب متعین ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ تو سب فاصلہ مٹانا چاہتا ہے اسی لئے فرمایا او ادنیٰ دو کمانوں کی مثال لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی حالانکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ تو اس سے بھی کم تر ہے۔ ادنیٰ کے بعد حتی یا الٰی نہیں لگایا اس لئے کہ یہ حد بھی مقرر نہ ہو جائے کہ کہاں تک فاصلہ کم ہوا۔ او ادنٰی کا لفظ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان فقط ایک فرق عبد و معبود کا قائم رہا۔ باقی سب فاصلے اور امتیازات ختم ہو گئے۔
سفر معراج میں اللہ رب العزت کے جلال و جمال کی رعنائیاں لامکاں کی وسعتوں میں ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ رب کائنات کی الوہیت کے پرچم ہر سمت لہرا رہے ہیں۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سے اگلی آیت فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ہمیں الوہیت کا درس دے رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’پس اس (خدا) نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی‘‘ یعنی باوجود اس انتہائی قرب کے وہ عبد اور میں معبود، وہ مخلوق اور میں خالق، وہ مملوک اور میں مالک رہا۔ میں نے ہی اسے عالم انسانیت کی طرف مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کے اجالوں کی طرف لے جائے لیکن یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اب الوہیت و رسالت ایک دوسرے کے اتنا قریب ہیں کہ کفر و ایمان کے معاملوں میں ایک پر ایمان دوسرے پر ایمان اور ایک کا انکار دوسرے کا انکار کے متراف ہے۔ اب تم میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو کر میری اطاعت کا اقرار کر سکو گے۔ اگر تم نے اس کی غلامی سے انحراف کی راہ اختیار کی تو تم فی الواقعہ اپنے اس فعل سے میری توحید سے منحرف ہو جاؤ گے۔ توحید و رسالت پر ایمان میں کسی قسم کا فرق روا رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ احدیت و احمدیت کی قوسین باہم ایک دوسرے سے اتنی متصل ہو گئیں کہ ان سے میرے قرب و وصال اور عشق و محبت ہی کا پتہ چل رہا ہے۔ تقرب الی اللہ کا دعویٰ بغیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، بے بنیاد ہے۔
مقام قاب قوسین پر جب حجابات اٹھا دیئے گئے اور ما زاغ البصر و ما طَغٰی کے مصداق شان محبوبیت یہ تھی کہ نگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہٹی اور نہ ہی حد سے بڑھی بلکہ وصال و دید کا وہ عالم تھا کہ چشم نظارہ ایک لحظہ بھی جمال جہاں آراء سے نہ ہٹنے پائی اور احدیت و احمدیت کی قوسین اس طرح مل گئیں کہ باہمی قرب کی کیفیت ثم دنی فتدلی کی آئینہ دار بن گئی اور آخر میں قاب قوسین کے مقام پر دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے کہ درمیانی فاصلہ برائے نام رہ گیا۔
یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قربت کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں فاصلہ رہنے کا ذکر لابدی اور ضروری سمجھا گیا اس لئے کہ خالق و مخلوق میں چاہے کتنا ہی قرب کیوں نہ ہو، ان کی ہستی جدا جدا ہے اور دونوں کا ایک وجود (Entity) نہیں مانا جا سکتا کہ محبوبیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچ کر بھی عبدیت اور معبودیت کا فرق برقرار رہتا ہے۔ یہاں ایک بات خاص طور پر ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو شخص عبد و معبود کے فرق کو مٹاتا ہے، کافر ہے۔ عقیدے میں، عقل میں یا ایمان میں، عشق میں یا محبت میں الغرض کسی درجے میں بھی یا کسی سطح پر بھی بندہ رب ہو سکتا ہے نہ رب بندہ ہو سکتا ہے جو عبد کو معبود بنائے یا معبود کو عبد، وہ کافر ہے اور جس طرح عبد اور معبود کا فرق مٹانا کفر ہے اسی طرح فرق عبد و معبود کے سوا کوئی اور فرق ڈالنا بھی کفر ہے۔ سو اعتقاد یہی رکھنا چاہئے کہ مقام او ادنیٰ پر پہنچ کر بھی خدا خدا ہے اور نبی نبی ہے۔
اللہ رب العزت کائنات ارض و سماوات کا خالق ہے۔ ہر چیز اس کے دائرہ قدرت میں ہے۔ اس نے معراج کی شب اپنے بندے اور رسول پر عنایات کی بارش کر دی اور اسے وہ عظمت عطا کی جو آج تک نہ کسی رسول کا مقدر بن سکی اور نہ قیامت تک بن سکے گی۔
اس مقام پر پہنچ کر جہاں تمام دوریاں ختم ہو گئی تھیں قرآن زبان حال سے یوں گویا ہوا۔
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم، 53 : 10)
پھر (اللہ رب العزت نے بلاواسطہ) اپنے بندہ کو جو وحی فرماتا تھا فرمائی (جو دینا تھا دیا جو بتانا تھا بتایا)
معلوم ہوا کہ مخلوق میں عبدیت سے بہتر کوئی مقام نہیں مگر افسوس کہ آج لوگ اسی پر جھگڑتے پھرتے ہیں۔ اے کاش! انہیں حقیقت عبدیت سمجھ آ جاتی۔
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
عقیدہ توحید مومن کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ شرک کا سایہ بھی انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ رب کائنات کی قدرت مطلقہ کا مظہر ہوتا ہے۔ سفر معراج میں بھی توحید ربانی کے پرچم ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ آدم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء جس آسمانی ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے اس کا مرکزی نقطہ بھی توحید ہی تھا کہ وہی ذات بندگی کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس کا ہمسر ہے نہ ثانی، نہ اس کی کوئی انتہا ہے اور نہ ابتداء ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد کے بعد بھی وہی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا جب کچھ نہ ہو گا تو پھر بھی اس کی ذات یکتا و تنہا ہو گی۔ اس ذات کو نہ اونگھ ہے نہ زوال، وہ ہر حاجت سے پاک اور مبرا ہے اور وہ ہر کسی کا حاجت روا ہے۔
امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ’’ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی‘‘ اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختار کل بنا دیا جائے تو پھر بندہ رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved