معجزات کے ظہور سے اَنبیاء کی حاکمیّت و تصرّفات کو اُجاگر کرنا اور شکوک و شبہات کی گرد میں اَٹے ہوئے اَذہان کو نورِ اِیمان سے منوّر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ معجزات اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا پرتو ہوتے ہیں۔ ہدایتِ آسمانی کی روشنی میں اللہ اپنے بندوں کو صراطِ مُستقیم دِکھاتا ہے اور ہر حوالے سے اپنے بندوں کی دِلجوئی و دستگیری اور رَہنمائی فرماتا ہے۔ اگرچہ نبی کو ہدایتِ آسمانی کی حقّانیت ثابت کرنے کے لئے محیرالعقول واقعات کی حاجت نہیں ہوتی تاہم اہلِ اِیمان کے اِیمان کی پختگی کے لئے نبی اور رسول کے ہاتھ پر معجزات کا صدُور ہوتا ہے، تاکہ قصرِ اِیمان اور غبارِتشکیک میں اِیمان اور تیقّن کے چراغ رَوشن ہوں اِس لئے کہ مقصدیت ہر حوالے سے تخلیقِ کائنات کا اَساسی رویہ قرار پاتی ہے۔ معجزات کے صدُور سے اَنبیاء کی تصدیق کے ساتھ ساتھ اِنسانی اَذہان میں اِس عقیدے کو پختہ کرنا ہوتا ہے کہ اِس کائناتِ رنگ و بو کا خالق ہر چیز پر قادِر ہے اور چونکہ معجزات عطائے ربی ہوتے ہیں اِس لئے اُن کا اِنکار خدائے دوجہاں کی قدرتِ کاملہ کا اِنکار ہے۔ قرآنِ حکیم اور اَحادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ باری تعالیٰ نے اِنسانوں کی رُشد و ہدایت کے لئے جتنے بھی اَنبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اُنہیں اپنے دعوی نبوّت کی صداقت و حقّانیت کے لئے ظاہری و باطنی معجزات سے بھی نوازا۔ ظاہری معجزات وہ ہیں جو خرقِ عادت کی صورت میں گاہے گاہے رُونما ہوتے ہیں جبکہ باطنی معجزات وہ ہیں جو اللہ کے نبی کے اَخلاقِ حمیدہ اور اَوصافِ جلیلہ کے ساتھ اِرشاداتِ جمیلہ پر مُشتمل ہوتے ہیں۔ نبی کا کردار اور اُس کی شخصیت ہی معجزاتی جمال کا مظہر ہوتی ہے۔ قرآن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کو تمام اِنسانیت کے لئے بالعموم اور اہلِ اِیمان کے لئے بالخصوص اُسوۂ حسنہ سے تعبیر کرتا ہے اور رہتی دُنیا تک اِس مِینارۂ نور سے اِکتسابِ شعور کی تلقین کرتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
(الاحزاب، 33 : 21)
بے شک تمہارے لئے رسول اللہ (کی زِندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔
کردار کی روشنی کے ساتھ تمام اَنبیاء کو ظاہری معجزات کی خِلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا گیا اور معجزہ لازمہ نبوّت قرار پایا۔ قرآنی حوالوں سے چند ایک جلیل القدر اَنبیاء و رُسل کے معجزات کا ذِکر کیا جا رہا ہے :
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلاَ تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَO
(هود، 11 : 37)
اور تم ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے (کوئی) بات نہ کرنا وہ ضرور غرق کئے جائیں گےo
وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍO سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍO
اور رہی (قومِ) عاد تو وہ ایک نہایت تندوتیز (اور) سخت ہوا سے تباہ کر دیئے گئےo جس کو اللہ نے سات رات اور آٹھ دِن تک متواتر مسلّط رکھا پھر (اے مخاطب! اگر) تو اُن لوگوں کو اُس (آندھی) میں دیکھتا تو اُن کو اَیسا گِرا ہوا پاتا جیسے کھجور کے (بے حس و حرکت) کھوکھلے تنے (پڑے ہوتے ہیں)o
(الحاقه، 69 : 6، 7)
هَـذِهِ نَاقَةُ اللهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
(الاعراف، 7 : 73)
یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اِسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اِسے برائی (کے اِرادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آ پکڑیگاo
قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO
(البقره، 2 : 260)
اِرشاد فرمایا سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر اُنہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (اُنہیں ذِبح کر کے) اُن کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر اُنہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان لو کہ یقیناً اللہ بڑا غالب، بڑی حکمت والا ہےo
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَO
(يوسف، 12 : 96)
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا، اُس نے وہ قمیض یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دی تو اُسی وقت اُن کی بینائی لوٹ آئی۔ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا : ’’کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘o
فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌO وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَO
پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اُسی وقت صریحاً اَژدھا بن گیاo اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اُسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمکدار) سفید ہو گیاo
(الاعراف، 7 : 107، 108)
وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَO
(الأنبياء، 21 : 79)
اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد علیہ السلام کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا۔ وہ (سب اُن کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھےo
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَO
(ص، 38 : 36)
پھر ہم نے (اُن کی اُس دعا کو قبول فرمایا اور) ہوا کو اُن کا تابع (فرمان) کر دیا کہ وہ اُن کے حکم سے جہاں وہ جانا چاہتے نرم اَنداز سے چلتیo
قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ.
(مريم، 19 : 8، 9)
(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا : ’’اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے، درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (اِنتہائی ضعف میں) سُوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں‘‘o فرمایا : ’’(تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہو گا، تمہارے ربّ نے فرمایا ہے : یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے‘‘۔
أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ.
(آل عمران، 3 : 49)
بیشک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر میں اُس میں پھونک مارتا ہوں۔ ۔ ۔ سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اُڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
(الاسراء، 17 : 1)
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اُس) مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، تاکہ ہم اُس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دِکھائیں۔ بیشک وُہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo
خالقِ کون و مکاں نے اپنی آخری اِلہامی کتاب میں اُن معجزات کا ذِکر کیا ہے جن کا اُس کے اَنبیاء و رُسل کے ہاتھ پر ظہور ہوا۔ ان کے علاوہ بھی بعض ایسے انبیاء علیھم السلام کا ذِکر موجود ہے جن کے معجزات کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ مثلاً حضرت اِسحاق علیہ السلام، حضرت اِسماعیل علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام اور حضرت اِلیاس علیہ السلام۔ اِن اَنبیاء کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں موجود ہے لیکن ان کے معجزات کا بیان درج نہیں۔ قرآن کی اِس خاموشی سے ہرگز ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اِن اَنبیاء علیھم السلام کو اللہ ربّ العزّت نے معجزات سے سرفراز نہیں کیا اور اُنہیں کسی بُرہان سے نہیں نوازا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیثِ مُبارکہ ہے کہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
ما من الأنبياء نبی إلّا أعطی من الآيات ما مثله أومن. أو أمن، عليه البشر.
جملہ اَنبیائے کرام میں سے ہر نبی کو اُس (کے زمانے) کی مثل معجزات عطا کئے گئے جس کے سبب اُس پر اِیمان لایا گیا یا لوگ اُس پر اِیمان لے آئے۔
1. صحيح البخاری، 2 : 1080، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة،
رقم : 6846
2. صحيح لمسلم،1 : 86، کتاب الايمان، رقم : 239
3. مسند احمد بن حنبل، 2 : 341
اللہ ربّ العزّت نے اپنے اَنبیاء و رُسل میں سے ہر کسی کو معجزات کی خِلعتِ فاخرہ سے نوازا، باطنی معجزات کو اُن کے کِردار اور شخصیت کا حصہ بنایا اور ظاہری معجزات کا صدُور اُن کے ہاتھ پر کیا۔ ہر نبی اور رسول کو اپنی دَعوت کے حوالے سے جس سطح کے معاندین اور مُنکرین کا سامنا تھا اُسی اِعتبار سے اہمیت کے حامل معجزات کا صدُور ہوا۔ زمانے اور علاقے کی آبادی کے اِعتقادی حوالوں اور ذِہنی اِستعداد کے مطابق معمولی اور غیرمعمولی معجزات کا ظہور ہوتا رہا اور عقلِ اِنسانی اُنہیں اپنے اِحاطے میں لینے سے عاجز آتی رہی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved