کشورِ اِیمان و اِیقان تسلیم و رضا کی خوئے دِلنواز سے آباد ہے، لیکن حق و صداقت کو قبول کرنا عقلی اور رُوحانی دونوں حوالوں سے اِنسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ عقل و شعور کے سارے دائرے اِنسان کے اِسی بنیادی مسئلے کی ماہیّت اور اصلیّت کو سمجھنے کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی اِس اَمر کی شاہد عادل ہے کہ حق و صداقت کو قبول و تسلیم کرنے کے حوالے سے اِنسانی فطرت ہمیشہ دو طریقوں سے مانوس رہی ہے۔ ایک یہ کہ مدّعی حق کی صداقت اور حقّانیت دلائل وبراہین کے ذرِیعہ ثابت ہو جائے اور ذہنِ اِنسانی اُسے دِل و جان سے قبول کر لے۔ دُوسرا یہ کہ دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ عقلی بنیادوں کے علاوہ اِذنِ اِلٰہی سے اللہ کے نبی یا اُس کے رسول کے دستِ اَقدس سے ایسے عجیب اور حیرت انگیز اُمور صادِر ہوں جو عام قوانینِ قدرت کے تابع ہوں اور نہ ظاہری اَسباب و عِلل ہی کے محتاج، حتیٰ کہ اُن کا تعلق اِکتسابِ علم و فن سے بھی نہ ہو۔ عوام و خواص اُن کے مقابلے میں نہ صرف عاجز آ جائیں بلکہ اَسباب و عِلل کے دائرے میں رہتے ہوئے اُن کی تخلیق و اِیجاد سے بھی کلیتاً بے بس ہو جائیں۔
پہلے طریق کے ساتھ دُوسرا طریق اِنسانی عقل و فکر اور ہوش و تدبیر کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ داعی حق (نبی یا رسول) کا یہ فعل ہرگز ہرگز اُس کا ذاتی فعل نہیں بلکہ اِس واقعہ کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کار فرما ہے۔ اِس حقیقت کو قرآنِ مجید نے اِن اَلفاظ میں بیان کیا ہے :
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى.
(الانفال، 8 : 17)
(اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (اُن پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھےo
فرمایا جا رہا ہے کہ : ’’اے حبیب! یہ فعل آپ کا نہ تھا بلکہ ہمارا تھا۔ آپ کے دُشمنوں پر خاک آپ نے نہیں ہم نے پھینکی تھی‘‘۔ دُوسرے لفظوں میں اللہ معجزے کے ذرِیعے اپنے نبی کا دِفاع بھی کرتا ہے اور اُس کی عظمت کا سِکّہ بھی اِنحراف کرنے اور قبول کرنے والوں کے دِلوں پر بٹھاتا ہے۔
مذکورہ دونوں طریق کی قبولیّت کے حوالے سے دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا گروہ اُن اَصحابِ علم و دانش پر مشتمل ہے جو اُمور و مسائل پر غور وفکر کرنے اور سوچنے سمجھنے میں اعلیٰ صلاحیّتوں کے مالک ہیں۔ اُن کے نزدِیک قبولیّت کا پہلا طریق زیادہ مؤثر اور کارگر ہے، جبکہ دُوسرے طریق کو وہ پہلے کی تائید و تصدیق کی حیثیّت سے قبول کرتے ہیں۔ دعویٰ نبوّت کی صداقت پر عملی دلیل دیکھنے سے اُن کے یقین میں اِضافہ ہوتا ہے اور وہ بلاتامّل دائرۂ اِیمان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دُوسرا گروہ اُن اَربابِ قوّت و اِقتدار اور عام اِنسانوں پر مشتمل ہے جو عجائب سے متاثر ہوتے ہیں۔ محیرالعقول واقعات سے اَثر پذیری اُن کے مِزاج کا حصّہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے طریقِ ثانی زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے معجزانہ اَفعال کا کھلی آنکھوں سے مُشاہدہ کرتے ہیں اور اُنہیں قوانینِ قدرت اور ظاہری اَسباب و عِلل سے ماوراء دیکھتے ہیں تو وہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ نبی یا ر سول کے اُس معجزانہ فعل میں اللہ کا اِرادہ ضرور کار فرما ہے۔ یہ اُسی کی قدرتِ کاملہ سے ظہور پذیر ہو رہا ہے جو ہر چیز پر قادِر اور اِس کائناتِ رنگ و بو کا خالق و مالک ہے۔ یوں وہ اُس معجزے کو ’’آیۃ اللہ‘‘ تصوّر کرتے ہوئے دِل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔ قرآنِ حکیم فرقانِ مجید نے اکثر مقامات پر پہلے طریق ہی کو ’’حجۃ اللہ‘‘، ’’برہان‘‘ اور ’’حکمۃ‘‘ کے اَلفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ سورۂ اَنعام میں اِسلام کے بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد فرمایا :
قُلْ فَلِلّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ.
(الانعام، 6 : 149)
فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اللہ ہی کی ہے۔
ایک دُوسرے مقام پر سیدنا حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے تذکرے میں فرمایا :
وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ.
(الانعام، 6 : 83)
اور یہی ہماری (توحید کی) دلیل تھی جو ہم نے اِبراہیم علیہ السلام کو اپنی (مخالف) قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔
نبیوں اور رسولوں کے حوالے سے ایک اور مقام پر اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ.
(النساء، 4 : 165)
رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے (اِس لئے بھیجے گئے) تاکہ (اُن) پیغمبروں (کے آ جانے) کے بعد لوگوں کے لئے اللہ پر کوئی عذر باقی نہ رہے۔
سورۂ نساء میں ہی ایک اور مقام پر فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ.
(النساء، 4 : 174)
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جلّ مجدہ کی سب سے مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آ گئی ہے۔
سورۂ یوسف میں فرمایا :
لَوْلاَ أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ.
(يوسف، 12 : 24)
اگر اُنہوں نے اپنے ربّ کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔
سورۂ نحل میں فرمایا :
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.
(النحل، 16 : 125)
(اے رسولِ معظم!) آپ اپنے ربّ کی راہ کی طرف حِکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور اُن سے بحث (بھی) ایسے اَنداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔
سورۂ نساء ہی میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا :
وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ.
(النساء، 4 : 113)
اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حِکمت نازل فرمائی ہے۔
قرآن کے کائناتی اُسلوب کا ایک مُنفرد وصف یہ بھی ہے کہ اُس میں گنجلک سے گنجلک مسئلہ بھی کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے تاکہ ذہنِ اِنسانی پر ہر مسئلہ اور مسئلے کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں دُوسرے طریقِ دلیل کو اکثر آیۃُ اللہ یا آیاتُ اللہ اور بعض مقامات پر آیاتِ بیّنات یا صرف بیّنات کے اَلفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی کے بارے میں فرمایا :
قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً.
(الاعراف، 7 : 73)
بیشک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک روشن دلیل آ گئی ہے۔ یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذِکر کرتے ہوئے بیان فرمایا :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ.
(بنی اِسرائيل، 17 : 101)
اور بے شک ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو نو روشن نشانیاں دیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہاالسلام کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا :
وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَO
(الانبياء، 21 : 91)
اور ہم نے اُسے اور اُس کے بیٹے (عیسیٰ) کو جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیاo
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے حوالے سے فرمایا :
إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌO
(المائده، 5 : 110)
جب تم اُن کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو اُن میں سے کافروں نے (یہ) کہہ دیا کہ : ’’یہ تو کھلے جادُو کے سِوا کچھ نہیں‘‘o
سورۂ بقرہ میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ.
(البقره، 2 : 253)
اور ہم نے مریم کے فرزند عیسٰی (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں۔
بلاشبہ باری تعالیٰ نے ہر دَور میں اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو آیات و معجزات سے نوازا کیونکہ اللہ ربّ العزّت کو اپنے اُن مقرّب نبیوں اور رسولوں کی عظمت کا اِظہار مقصود تھا کہ لوگ اُنہیں اِحترام اور تقدّس کی نگاہ سے دیکھیں۔ ساری کائناتِ اِنسانی ہر دَور میں معجزاتِ انبیاء علیہم السلام کے سامنے بے بسی اور عاجزی کی تصویر بنی رہی۔ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو اگرچہ اِبتلاء و آزمائش کے اَن گِنت مراحل سے گزرنا پڑا، اِعلانِ حق پر باطل اپنے تمام تر مادّی وسائل کے ساتھ حرکت میں آتا اور روشنی کی راہ میں دِیوار بننے کی کوشش کرتا رہا، ذِہنوں میں فتنے پرورش پاتے رہے، سازشیں تیار ہوتی رہیں، اکثر و بیشتر اُن مقرّبانِ خدا کو مرحلۂ ہجرت سے بھی گزرنا پڑا، تاہم اُن کے منصبِ رسالت و نبوّت کے گِرد جلال و جمال کا ہالہ پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہا اور کفر اپنی تمام تر مخالفتوں اور چیرہ دستیوں کے باوجود اُن پیکرانِ وفا کو جھٹلانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کفّار و مشرکین پیغمبرانہ جلال اور معجزات کے ظہور کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ عقل و خِرد ہر دَور میں متعجب و حیران ہوئی، کبھی تسلیم کرنے کے لئے آگے بڑھی اور کبھی اِنکار پر اُتر آئی، کبھی زبانیں تعصّب کے زہر سے آلودہ ہو کر سحر سحر کا راگ الاپنے لگیں اور کبھی غرور و تکبر اور گھمنڈ قبولِ حق کی راہ میں آن کھڑا ہوا۔ دِل اِقرار اور زبانیں اِنکار کرتی رہیں۔ چونکہ معجزہ ایک اَبدی حقیقت ہے اِس لئے قبولِ حق سے اِنکار کے باوجود اُسے دِل سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
مقصد، ضرورت اور افادیت ہی ارض و سماوات کی تمام تر گردشوں کا مرکز و محور ہے۔ خالقِ کائنات نے کوئی چیز بھی مقصد کے بغیر پیدا نہیں کی، یہ الگ بات کہ ہماری عقل کسی چیز کی غایتِ تخلیق کے تمام تر پہلوؤں کا اِحاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضرورتِ معجزہ کیا ہے؟ عقل کو عاجز کر دینے والے واقعات اور مشاہدات کے ظہور سے کیا مقصود ہے؟ دوسرے لفظوں میں منزلِ حق کے لئے ہدایتِ آسمانی کے فروغ میں اور نبی یا رسول کی عظمت و فضیلت کے اِظہار میں معجزے کی اَہمیت و اِفادیّت کیا ہے؟ نبی اور رسول کی بعثت کا مقصد کائناتِ انسانی کی رُشد و ہدایت اور خیر و فلاح ہوتا ہے۔ اَنبیاء و رُسل وحی اِلٰہی کے ذرِیعہ ہدایاتِ خداوندی وُصول کر کے اپنے فرائضِ منصبی اَدا کرتے ہیں اور علم و برہان اور محبتِ حق کے ذرِیعہ اللہ کی وحدانیّت اور اپنے مِشن کی صداقت و حقّانیت کا یقین دلاتے ہیں۔ وہ ہرگز ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ فطرت اور ماورائے فطرت اُمور میں تصرّف اور تغیر کی مُستقل بالذّات قدرت رکھتے ہیں۔ یہ معجزات خدائے دوجہاں کی قدرتِ کاملہ کے مظہر ہوتے ہیں۔ انبیاء بارہا یہ اِعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ ربّ العزّت کی طرف سے بشیر و نذیر اورداعی اِلیٰ اللہ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
تاریخِ اِنسانی گواہ ہے کہ جب اللہ کا نبی یا اُس کا رسول اپنی نبوّت کا اِعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ منصبِ نبوت یا منصبِ رسالت پر مامور مِن اللہ ہے، یعنی یہ منصب اُسے ربِّ کائنات نے عطا کیا ہے تو اُس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ منصب اُسے عِبادات و مجاہدات اور نیک اَفعال و اَعمال کے صلے میں عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منصب محض عطائے اِلٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ نبی یا رسول اُس عظیم منصب پر فائز ہو کر اِنسانوں کی رَہنمائی کا فریضہ سراِنجام دیتا ہے اور اِنسان کے مقصدِ تخلیق کا اِحیاء کرتا ہے، فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتا ہے اور اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ معاشرے میں آسمانی ہدایت کے نِفاذ کی بھرپور سعی کرتا ہے، اپنی جدّوجہد کو نتیجہ خیز بناتا ہے اور کرۂ ارضی پر پُرامن معاشرے کے قیام کے بعد اُس کی کامیابی کو ہدایتِ آسمانی کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کرنے سے مشروط کرتا ہے۔
متکلمین نے دعویٰ نبوّت اور معجزہ کے مابین تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ مثال بیان کی ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں بادشاہ نے اُسے اپنا نائب مقرّر کرکے بھیجا ہے تو اُس علاقے کے لوگ قدرتی طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مُدّعی نیابت اپنے دعویٰ کی صداقت میں کوئی سند یا علامت پیش کرے، اُنہیں شاہی فرمان دِکھائے تاکہ وہ مطمئن ہو کر اُسے اپنا حاکم تسلیم کر لیں۔ اُس کی حاکمیّت کو تسلیم کرنا دراصل بادشاہ کی حاکمیّت کے سامنے گردن جُھکانا ہے، جس کا وہ نمائندہ ہوتا۔ کسی نبی یا رسول پر اِیمان لانا یا اُس کے دستِ حق پرست سے کسی معجزے کو رُونما ہوتے دیکھ کر اُس کی صداقت پر اِیمان لانا دراصل اُس قادرِمطلق کی توحید پر اِیمان لانا ہے جس کی قدرتِ کاملہ سے اُس نبی سے یہ معجزہ صادِر ہو رہا ہے۔ یا یوں کہئے کہ مُدّعی نیابت ایک طرف لوگوں کو اگر اپنی سند دِکھاتا ہے تو دُوسری طرف اُنہیں اپنی کسی خاص نشانی کا مُشاہدہ بھی کراتا ہے تاکہ دیکھنے والی آنکھ کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ یہ شاہی نِشانی بادشاہ کی توثیق کی مظہر ہے۔ بادشاہ کی اَنگشتری (مہرِحکومت) اُس شخص کو مل سکتی ہے جس کو بادشاہ اپنی نیابت کے اِعزاز سے سرفراز کرے۔
معجزہ اُس عظیم ہستی کے ہاتھوں سے صادِر ہوتا ہے جسے منصبِ نبوّت و رِسالت پر فائز کیا گیا ہو۔ معجزہ کا صدُور اللہ کے نبی اور رسول ہی سے ممکن ہے۔ معجزہ کسی غیرِ نبی سے صادِر نہیں ہوتا۔ معجزہ ’’آیتِ اِلٰہی‘‘ ہوتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتِ مطلقہ کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اُس کا ظہور اُسی پروردگار کے اِذن سے انبیاء و رُسل سے صادِر ہوتا ہے۔ اُن سے معجزے کا مطالبہ یا تو تلاشِ حق کے لئے ہوتا ہے کہ معجزے کا ظہور دیکھ کر دولتِ اِیمان نصیب ہو یا پھر یہ مطالبہ محض تعصّب، حسد اور بُغض کی بناء پر ہوتا ہے تاکہ مُنحرفین اور مُنکرین بزعمِ خویش معجزے کی عدم دستیابی کی صورت میں اللہ کے برگزیدہ رسول کو جُھٹلا سکیں، یہی وجہ ہے کہ صدورِ معجزہ کی صورت میں معجزہ دیکھ کر بھی وہ اِیمان کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ اُن کے تعصّب، حسد اور بغض میں اِنکار کا مزید عنصر داخل ہو جاتا ہے اور اُن کے دِلوں پر قُفل پڑ جاتے ہیں جبکہ سعید رُوحیں معجزے کو دیکھ کر پُکار اُٹھتی ہیں :
آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىO
(طهٰ، 20 : 70)
ہم ہارون اور موسیٰ کے ربّ پر اِیمان لے آئے۔
اس کے برعکس بدبخت اور دولتِ اِیمان و اِیقان سے محروم رُوحیں عِناد و دُشمنی کی تارِیکی میں ڈوب کر کہتی ہیں :
إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌO
(الانعام، 6 : 7)
یہ صریح جادو کے سِوا (کچھ) نہیںo
عقل والے سوچتے رہ جاتے ہیں اور عشق والے جُھک کر اَوجِ ثریا کو پا لیتے ہیں اور بامِ فلک کو چھو لیتے ہیں۔ اِقرارِ نبوّت بذاتِ خود ایک بہت بڑا اِعزاز ہے، اِس اِقرار کے سامنے سب اِقرار ہیچ ہیں کیونکہ اِس اِقرار کی بدولت دِین بھی ملتا ہے اور دُنیا بھی، توحید کی دولت بھی مقدّر بنتی ہے اور رِسالت کی ثروت بھی نصیب ہوتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved