بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِس کائناتِ ارض و سماء میں عجائبات کی ایک دُنیا آباد ہے۔ ہر لمحہ پھیلتی ہوئی یہ کائنات جو اربوں، کھربوں کہکشاؤں پر مشتمل ہے، وُسعت پذیری کے عمل سے گزرنے کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی حوالوں سے بھی تغیر پذیر ہے۔ گویا ہر لمحہ تغیرّات کا لمحہ ہے، ہر ساعت نت نئے اِنکشافات کی ساعت ہے۔ اِس کائناتِ رنگ و بو میں خالقِ کائنات کے فرستادہ رسولانِ مکرّم اور اَنبیائے محتشم کے دستِ حق پرست پر قدرتِ خداوندی سے رُونما ہونے والے ماورائے عقل واقعات کو ’’معجزہ‘‘ کہتے ہیں۔ معجزے کی کاملاً مادّی توجیہہ کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اس کا تعلق اِیمان، اِیقان اور وِجدان سے ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی سبک سیر ترقی کے باعث جدید تر سائنسی اِنکشافات قدم قدم پر حیران کن حقائق پر سے پردہ اُٹھا رہے ہیں کہ اِنسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور تصویرِ حیرت بن کر اپنے دامنِ شعور کی تنگی کے اِحساس کا ماتم کرنے لگتی ہے۔ اگرچہ سائنس کائنات کے اَن گنت راز ہائے سربستہ سے بھی پردہ اُٹھاتی دِکھائی دیتی ہے لیکن اِس کے باوجود وہ اِن معجزانہ حقائق کی مادّی توجیہات پیش کرنے سے یکسر عاجز ہے جو خالقِ ارض و سماء نے اپنے اَنبیائے محتشم کے دستِ حق پرست پر صادِر فرمائے۔ عقل اُنہیں تسلیم کرے یا نہ کرے یا خود بھی اِشکالات کا شِکار ہو یا ذہنِ اِنسانی کو بھی غبارِ تشکیک سے آلودہ کرے، حقائق بہرحال حقائق ہیں، اُن کے اِنکار سے اُن کی نفی لازِم نہیں آتی۔ اگر ہم غور و فکر اور تدبّر سے مادّے ہی کے اَسرار و رُموز پر سے پردہ اُٹھائیں تو کائنات میں رُونما ہونے والے محیرالعقول واقعات کی توثیق بھی ملتی نظر آتی ہے۔ سائنس جو مادّے کی کائناتی سچائیوں کی تعبیر اور اِنسانی زِندگی میں اُس کے عملی اِطلاق پر مامور ہے، واضح اور روشن زبان میں دراصل عالمِ اَسباب و علل کے تحت رُونما ہونے والے اُنہی محیرالعقول واقعات کی مادّی توجیہہ و تعبیر کا فریضہ سراِنجام دے رہی ہے۔ سائنسدان مادّے کی اِرتقائی صورتوں کے مسلسل مُشاہدے کے ذرِیعے اِس نتیجے پر پہنچتے دِکھائی دے رہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔
سائنس عالمِ اَسباب اور اللہ ربّ العزّت کی طے کردہ فطرت کے قوانین کے مطالعہ کا نام ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں دُنیا میں اور خود اُن کی ذات میں (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں دِکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
عالمِ اَسباب کو اپنا موضوعِ بحث بنانے والی سائنس عالمِ مافوق الفطرت کے مطالعہ سے تو کجا اُس کی اَبجد کے شعور سے بھی محروم ہے۔ آج جو اَعمال و اَفعال ہم اَسباب اِختیار کر کے سراِنجام دیتے ہیں اور اُنہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے مظہر قرار دیتے ہیں، اُن میں سے بہت سے اَعمال اَسباب و عِلل کے بغیر سائنسی زبان میں یکسر ناممکن قرار پاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سائنس اپنے مخصوص دائرۂ کار (عالمِ اسباب) میں مقیّد ہونے کے سبب مادُون الاسباب اور مافوق الفطرت اَفعال کا سراِنجام دینا تو کجا اُن کی تعبیرو توجیہہ اور تفہیم و توثیق کے قابل بھی کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ معجزہ کسی مادّی تعبیر و تفہیم یا توجیہہ و توثیق کا محتاج نہیں، مقصود صرف اِس اَمر کی نشاندہی ہے کہ جن حقائق کا اِنکشاف حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل وحی اِلٰہی اور علمِ نبوت کی بنیاد پر کیا تھا، آج سائنس اپنے اِرتقائی سفر کے اَن گنت مراحل طے کرنے کے بعد اُن حقائق کی اپنی سی جزوی تعبیر و توجیہہ کرنے کے قابل ہوئی ہے۔ یقیناً اِس بات کا اِمکان موجود ہے کہ سائنس آگے چل کر اپنے موجودہ نظریات سے رُجوع کر لے یا اُن میں ترمیم و اِضافہ کو ضروری گردانے، لیکن ہمارے لئے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اَقدس سے نکلا ہوا ہر حرف، حرفِ آخر ہے اور یہی ہماری اِیمانیات کا بنیادی پتھر ہے۔
لفظِ معجزہ کا مادّۂ اِشتقاق : عَجِزَ، یَعْجَزُ عَجْزًا ہے، جس کے معنی : ’’کسی چیز پر قادِر نہ ہونا‘‘، ’’کسی کام کی طاقت نہ رکھنا‘‘ یا ’’کسی اَمر سے عاجز آ جانا‘‘ وغیرہ ہیں۔ محاورۂ عرب میں کہتے ہیں : عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ ’’ فُلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آ گیا‘‘۔ ای کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد : 488) یعنی اُس کام کا بجا لانا مشکل بھی ہے اور وہ اُس کام کو کرنے کی اِستعداد بھی نہیں رکھتا۔ ۔ ۔ اُسے رُو بہ عمل لانے کی بنیادی صلاحیت اُس میں موجود نہیں، اِس لئے وہ یہ کام کرنے سے عاجز ہے۔ المفردات میں اِمام راغب اِصفہانی معجزے کا مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
و العجز أصله التّأخرعن الشئ‘
و حصوله عند عجز الأمر‘ أی :
مؤخره. . . و صار فی التّعارف
إسماً للقصور عن فعل الشئ‘ وهو ضد القدرة.
’’عجز‘‘ کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے یا اُس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اُس کا وقت نکل چکا ہو۔ ۔ ۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ ’’القدرۃ‘‘ کی ضد ہے۔
(المفردات‘ بذيل عجز : 547)
مختلف اَدوار میں اَربابِ علم و فن نے معجزہ کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں۔ چند اہم تعریفات یہ ہیں :
1. أمر خارق العادة يعجز البشر عن أن يأتوا بمثله.
(المنجد : 488)
معجزہ اُس خارقُ العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مِثل لانے سے فردِ بشر عاجز آ جائے۔
2۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
إعلم أنّ معنٰی تسميتنا ماجاء ت به الأنبياء معجزة هو أن الخلق عجزوا عن الإتيان بمثلها.
(الشفاء، 1 : 349)
یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ جو کچھ انبیاء علیھم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اُسے ہم نے معجزے کا نام اِس لئے دیا ہے کہ مخلوق اُس کی مِثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔
3۔ اِمام خازن رحمۃ اللہ علیہ معجزہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
المعجزة مع التحدّی من النبی
قائمة مقام قول الله عزّوجلّ :
’’صَدَقَ عَبْدِيْ فَأَطِيْعُوْه وَ
اتَّبَعُوْه‘‘ و لأن معجز النبی
شاهدٌ علٰی صدقه فيما يقوله و سُمِّيت المعجزةُ معجزةً لأن الخلق عجزوا عن الإتيانِ
بمثلها.
(تفسير الخازن، 2 : 124)
معجزہ اللہ کے نبی اور رسول کی طرف سے (جملہ اِنسانوں کے لئے) ایک چیلنج ہوتا ہے اور باری تعالیٰ کے اِس فرمان کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ :
’’میرے بندے نے سچ کہا، پس تم اُس کی (کامل) اِطاعت اور پیروی کرو‘‘۔ اِس لئے کہ نبی و رسول کا معجزہ جو کچھ اُس نے فرمایا ہوتا ہے اُس کی حقّانیت اور صداقت پر دلیلِ ناطق ہوتا ہے اُسے (عرفاً و شرعاً) معجزہ کا نام اِس لئے دیا گیا ہے کہ اُس کی مِثل (نظیر) لانے سے مخلوقِ اِنسانی عاجز ہوتی ہے۔
4. المعجزة عبارةٌ عن إظهار قدرة الله سبحانه و تعالٰی و حکمته علٰی يد نبی مرسل بين أُمّته بحيث يعجز أهل عصره عن إيراد مثلها.
(معارج النبوة، 4 : 377)
معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اُس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اِظہار ہے تاکہ وہ اپنی اُمت اور اہلِ زمانہ کو اُس کی مِثل لانے سے عاجز کر دے۔
5۔ ابوشکورسالمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی معجزہ کی بڑی جامع تعریف کی ہے، فرماتے ہیں :
حد المعجزة أن يظهر عقيب
السوال و الدّعوىٰ ناقضاً للعادة
من غير إستحالة بجميع الوجوه
و يعجز الناس عن إتيان مثله
بعد التجهد و الإجتهاد إذا کان
بهم حذاقة و رزانة فی مثل تلک الصنيعة.
(کتاب التمهيد فی بيان التوحيد از ابو شکور : 71)
معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ سوال اور دعویٰ کے بعد (اللہ کے رسول اور نبی کے ہاتھ پر) کوئی ایسی خارقِ عادت چیز ظاہر ہو جو ہر حیثیت سے مُحال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش اور تدبیر کے اُس قسم کے معاملات میں پوری فہم و بصیرت رکھتے ہوئے بھی اُس کے مقابلے سے عاجز ہوں۔
مندرجہ بالا تعریفات سے یہ بات اظہر مِن الشمس ہو جاتی ہے کہ
محدّثین، مفسّرین اور مفکّرین نے ہر ہر مسئلہ کے ہر ہر پہلو پر علم و حِکمت کے موتی بکھیرے ہیں اور کمالِ عرق ریزی سے اُمور و مسائل کی گتھیاں سُلجھانے کی سعی کی ہے۔ اَربابِ علم و دانش نے اپنے محدود پیرائے میں معجزہ کے بارے میں بھی عِلمی، فِکری اور اِعتقادی سطح پر حرفِ حق کی تلاش کا سفر جاری رکھا ہے اور تحقیق و جستجو کے محاذ پر دادِ شجاعت دی ہے۔ اِس ضمن میں بعض اہلِ سیر نے لکھا ہے کہ ’’معجزہ‘‘ کا لفظ اللہ ربّ العزّت نے قرآنِ مجید میں کسی ایک مقام پر بھی اِستعمال نہیں کیا۔ اِس لئے وہ اِحتیاطاً معجزات کے بیان اور اُن کے اِثبات کے لئے قرآنی لفظ ’’آیات‘‘ کا اِستعمال کرتے ہیں۔ یہ اِستعمال یقیناً درُست ہے لیکن قرآن کا اُسلوب ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہیئے۔ یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہئے کہ قرآن اِصطلاحات اور مخصوص اَلفاظ کو بیان نہیں کرتا بلکہ وہ فقط نفسِ مضمون دیتا ہے اور اِیمانیات کے بنیادی تصوّرات سے بحث کرتا ہے۔ بعد اَزاں اہلِ عِلم اُسے اِصطلاحی زبان دے کر ترسیلِ مفہوم کی سعی کرتے ہیں۔ یہی حال تصوّف کا بھی ہے۔ قرآنِ مجید میں تصوف کے لئے لفظ ’’تزکیہ‘‘ اور حدیث میں ’’اِحسان‘‘ کا لفظ آیا ہے مگر جب وہ باقاعدہ عِلم بنا تو اُسے تصوّف کا نام دیا گیا۔ اِسی طرح دیگر اِصطلاحاتِ علوم تشکیل پذیر ہوئیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ لفظِ آیات میں لفظِ معجزہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’آیات‘‘ میں عمومیت ہے جبکہ لفظِ ’’معجزہ‘‘ میں خصوصیّت ہے۔ لفظِ ’’معجزہ‘‘ اصل فعل کے صدُور اور وُقوع کی کیفیّت کو بھی بیان کرتا ہے۔ اِنسان کی ساری ظاہری اور باطنی صلاحیتیں اور قوّتیں معجزہ کے صدُور پر عاجز رہ جاتی ہیں۔
اللہ ربّ العزّت نے قرآن مجید میں اِس فعل کو فقط آیات سے تعبیر نہیں کیا بلکہ متعدّد دُوسرے الفاظ کے ذریعہ بھی اُس کے بنیادی تصوّر کو واضح کیا ہے۔
لفظِ آیت کا معنیٰ عموماً نشانی (علامت) لیا جاتا ہے، تاہم یہ لفظ تین معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے :
خدائے بزرگ و برتر نے کفّار و مُشرکین کو کھلا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا :
قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَO
(يونس، 10 : 38)
آپ فرما دیجئے : ’’پھر تم اُس کی مِثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ اور (اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سِوا جنہیں تم بُلا سکتے ہو بُلالو، اگر تم سچے ہو‘‘o
قرآن کے مُنفرد اُسلوب اور غیرمتزلزل اِعتماد کی نظیر ممکن ہی نہیں۔ کفّار و مُشرکین اور اُن کے حواریوں کو قرآن کا کھلا چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایک سورت یا آیت یا جملہ ہی بنا کر لائیں۔ قرآن بذاتِ خود حضور ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک دائمی معجزہ ہے اور کسی معجزہ کی مِثال پیش کرنے سے عقلِ اِنسانی عاجز رہتی ہے۔
قرآن میں آیت کا لفظ واضح نشانی کے معنوں میں بھی اِستعمال ہوا ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’المفردات‘‘ میں لکھا ہے :
هی العلامة الظاهرة و حقيقته لکل شئ ظاهر هو ملازم لشئ لا يظهر ظهوره.
(المفردات‘ بذيل أَیّ : 101)
اِس کے معنی علامتِ ظاہرہ یعنی واضح علامت کے ہیں۔ دراصل ’’آیۃ‘‘ ہر اُس ظاہر شئے کو کہتے ہیں جو دُوسری ایسی شئے کو لازِم ہو جو اُس کی طرح ظاہر نہ ہو۔
اِس معنی کے لحاظ سے اللہ ربّ العزّت نے اِنسان کو مطالعۂ اَنفس و آفاق کی طرف قرآنِ حکیم میں یوں مخاطب کیا ہے :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
ہم عنقریب انہیں دنیا میں اور خود اُن کی ذات میں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر کھل جائیگا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
(السجده، 41 : 53)
آیت کا لفظ قرآنِ حکیم میں خارقِ عادت کے معنوں میں بھی اِستعمال ہوا ہے۔ خارقِ عادت اَیسے خِلافِ معمول اَفعال و واقعات کو کہتے ہیں جو عادتِ جاریہ کے برعکس ہوں اور اَسباب و عِلل کے اِحاطہ و اِدراک میں نہ آ سکیں۔ جیسا کہ اِرشادِ ربّانی ہے :
وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ لَوْلاَ يُكَلِّمُنَا اللّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ.
(البقره، 2 : 118)
اور جو لوگ علم نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ : ’’اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں فرماتا یا ہمارے پاس (براہِ راست) کوئی نشانی کیوں نہیں آتی‘‘؟
گویا ہمیں ایسے واقعات کیوں نہیں دِکھائے جاتے جو ہماری عقل کو عاجز کر دیں اور ہم اُنہیں دیکھ کر دائرۂ اِیمان میں داخل ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے براہِ راست اُن سے گفتگو کرنے کو یہ اللہ کی نشانیوں یعنی معجزات میں شمار کرتے۔ آیتِ مذکورہ میں اللہ کے نبی سے معجزہ طلب کیا جا رہا ہے۔ باری تعالیٰ سے ہمکلامی خارقِ عادت بات ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ.
(المومن، 40 : 78)
اور کسی رسول کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی (کوئی آیت، کوئی معجزہ) اللہ کے حکم کے بغیر لے آئے۔
خارقِ عادت واقعات کے لئے کلامِ مجید میں لفظِ ’’آیت‘‘ کے علاوہ تین اَلفاظ اور بھی مذکور ہیں :
یہ لفظ بھی قرآن میں معجزہ کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے، یعنی اَیسی بیّن و واضح نِشانی جو بذاتِ خود اِس طرح ظاہر ہو کہ اُس کے دیکھنے سے دیکھنے والے کی آنکھیں کھل جائیں اور اُس پر حقیقت اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ واضح اور رَوشن ہو جائے، تشکیک و شبہات کا غبار چھٹ جائے اور کسی قسم کا اِبہام باقی نہ رہے :
وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً.
(بنی اِسرائيل، 17 : 59)
اور ہم نے قومِ ثمود کو (صالح علیہ السلام کی) اُونٹنی (کی) کھلی نِشانی دِی تھی۔
قومِ ثمود کی فرمائش پر اُونٹنی کا ظہور ایک معجزہ تھا۔ وہ ایک ایسی اُونٹنی تھی جو اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کی آئینہ دار تھی۔
دُوسرا لفظ جو قرآن میں معجزہ کے مفہوم کی وضاحت کے لئے اِستعمال ہوا ہے ’’بَیِّنَۃٌ‘‘ ہے۔ بینۃ اَیسی کھلی دلیل کو کہتے ہیں جو فریقِ مخالف کو اِنکار کی صورت میں حجت و ثبوت کے طور پر پیش کی جائے۔ اِس لحاظ سے اِس کا اِطلاق معجزہ پر بھی ہوتا ہے۔ جب اِس لفظ کے ساتھ آیت کا لفظ بھی آ جائے تو اِس کے معنی کی مزید تائید بھی ہوتی ہے اور اِس مفہوم کو تقویت بھی عطا ہوتی ہے :
قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً.
(الاعراف، 7 : 73)
بیشک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک رَوشن دلیل آ گئی ہے۔ یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ.
(الاسراء، 17 : 101)
اور بیشک ہم نے موسی (علیہ السلام) کو نو روشن نشانیاں دیں۔
مذکورہ بالا دونوں آیاتِ کریمہ میں بینۃ اور آیۃ کے اَلفاظ تقدیم و تاخیر کے ساتھ اِستعمال ہوئے ہیں۔ دونوں اَلفاظ معجزہ کے مفہوم کو واضح کر رہے ہیں۔ بینۃ اور آیۃ کے اَلفاظ سے معجزہ کے علاوہ کوئی دُوسرا مفہوم اَخذ نہیں کیا جا سکتا۔
قرآنِ حکیم میں معجزہ کے لئے اِستعمال ہونے والا تیسرا لفظ ’’بُرْھَانٌ‘‘ ہے۔ برھان ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو فریقِ مخالف کے تمام دلائل سے زیادہ وزنی اور ان پر حاوی ہو اور کسی تنازعہ کا فیصلہ کر دینے والی ہو :
أُسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَO
اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر ڈالو (اور پھر نکالو) وہ بِلا کسی عیب (یعنی بیماری وغیرہ) کے سفید (روشن ہو کر) نکل آئے گا اور خوف (کو دُور کرنے) کے لئے اپنے بازو اپنے پہلو سے ملا لیا کرو۔
(القصص، 28 : 32)
پس یہ دو دلیلیں (یعنی دو معجزے) تمہارے ربّ کی طرف سے فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف ہیں۔ بیشک وہ بڑے نافرمان لوگ ہیںo
یہاں قرآنِ حکیم میں معجزہ کے لئے لفظِ برھان اِستعمال ہوا ہے یعنی ایسی دلیل جس کے سامنے کوئی دلیل کام نہ آ سکے۔ یہ ایسی برھانِ قاطعہ تھی جس کے سامنے بنی اِسرائیل کے سارے جادُوگروں کا نشہ ہرن ہو گیا۔ اُن کے طلسم کا حِصار ٹوٹ گیا، اُن کا فنِ جادوگری ناکام و لاجواب ہو گیا اور اُن کی جملہ قوّتیں بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئیں۔
اِس کارخانۂ قدرت میں اَن گنت دُنیائیں آباد ہیں۔ اِنسان اَشرفُ المخلوقات ہے لیکن اِس کائنات میں وہ تنہا ہی مخلوقِ خدا نہیں۔ خالقِ کائنات کی مخلوقات کا شمار ممکن ہی نہیں۔ نجانے اِن خلاؤں میں گردش کرنے والے اَربوں کھربوں سیّاروں میں زِندگی کن اَشکال اور کن مراحل میں اِرتقاء پذیر ہے! اگر ہم صرف اِس کرۂ ارضی پر بسنے والی مخلوقات، چرند، پرند، حشرات الارض اور آبی مخلوقات کی دُنیاؤں کی سیر کو نکلیں اور اِن مخلوقات کے معمولات کا مُشاہدہ کریں تو صنّاعِ اَزل کی قوّتِ تخلیق کے تصوّر کا ہلکا سا پرتو بھی ذہنِ اِنسانی کی تنگناؤں میں سماتا نظر نہیں آتا۔ اِسی طرح اِس کرۂ ارضی پر خلافِ معمول رُونما ہونے والے واقعات کا تسلسل بھی حیطۂ شعور میں آنا ممکن نہیں، یہ سلسلہ اِس حیرت کدے میں اَزل سے جاری ہے اور اَبد تک جاری رہے گا، البتّہ نبوّت کی طرح معجزات کا دروازہ بھی نبی آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدّسہ کے بعد بند ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ تصرّفاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سِلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا کہ قیامت کے دِن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے پرچم شفاعت کے سائے تلے اَولادِ آدم کو رِدائے عافیّت نصیب ہو گی۔
اِنسانی زِندگی میں دو طرح کے اَفعال وُقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایک وہ اَفعال جو معمول کے مطابق اِنجام پاتے ہیں اور تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے اُن کی توجیہہ ممکن ہوتی ہے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان افعال و واقعات کی اَن گِنت مثالیں پائی جاتی ہیں جیسے کسی شخص کا بیماری کی وجہ سے فوت ہو جانا۔ دُوسرے وہ اَفعال جو معمول سے ہٹ کر بلکہ خلافِ معمول ہوتے ہیں اور اُن کی کامل توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اُنہیں خارقِ عادت اَفعال کہا جاتا ہے۔ یہ خلافِ معمول واقعات مختلف لوگوں سے مختلف شکلوں میں صادِر ہوتے ہیں۔ ان خلافِ معمول واقعات کو چار مختلف اَقسام میں تقسیم کیا گیا ہے :
جب کسی نبی اور رسول کو خِلعتِ نبوّت و رِسالت سے سرفراز کیا جاتا تو کفّار و مُشرکین دعویٰ نبوّت کی صداقت کے طور پر اُس سے دلیل طلب کرتے۔ اِس پر قدرتِ خداوندی سے جو خارقِ عادت واقعہ اُس نبی یا رسول کے دستِ حق پرست سے صادِر ہوتا اُسے معجزہ کہتے ہیں۔
وہ خلافِ معمول واقعات یا عجائبات جن کا ظہور کسی نبی یا رسول کی وِلادتِ باسعادت کے وقت یا پیدائشِ مبارکہ سے پہلے ہوتا، اِرھاص کہلاتے ہیں۔ اُن واقعات کا رُونما ہونا اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ پیدائش ایک غیرمعمولی پیدائش ہے۔ مثلاً حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادتِ پاک سے پہلے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آسمان سے سِتارے سائبان کی طرح زمین پر اُتر آئے ہیں اور کعبہ کے بت سجدہ ریز ہو گئے ہیں۔ سیدۂ کائنات بی بی آمنہ رضی اللہ عنھا کا اِرشادِ گرامی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت میں نے سرزمینِ مکہ سے ہزاروں میل کے بُعد پر واقع شام کے محلات دیکھے اور یہ کہ میں نے اپنے اِرد گرد خوشبوئیں محسوس کیں۔ کفّار و مشرکینِ مکہ چونکہ لڑکیوں کو زِندہ درگور کر دیتے تھے اِس لئے اِس ظلم کے مستقل خاتمے کی علامت کے طور پر جس سال سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی، اُس سال شہرِ مکہ میں کوئی لڑکی پیدا نہ ہوئی۔ آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ربِّ کائنات نے سب کو فرزند عطا فرمائے۔ گویا کارکنانِ قضا و قدر زبانِ حال سے اِعلان کر رہے تھے کہ والی کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کسی عام اِنسان کی آمد نہیں۔ یہ تمام خارقِ عادت واقعات اِرھاص کہلاتے ہیں۔
کرامت اُن خارقِ عادت اَفعال کو کہتے ہیں جو مومنین، صالحین اور اولیائے کرام کے ہاتھوں سے صادِر ہوتے ہیں۔ تاریخِ اِسلام اَولیاء و صوفیاء کی کرامات سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے سے قبل ملکہ سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا، امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دورانِ خطبہ منبر پر ہی میدانِ جنگ کا مشاہدہ کرنا اور لشکرِ اسلام کے سپہ سالار کو عسکری ہدایات دینا اور حضرت خواجۂ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر لاکھوں ہندوؤں کا قبولِ اِسلام اُن کی کراماتِ جلیلہ میں سے ہے۔
یہ وہ خلافِ عادت اَفعال ہوتے ہیں جو کسی کافر، مُشرک، فاسق، فاجر اور ساحر کے ہاتھ سے صادِر ہوں۔ مثلاً : حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر اُس کے منہ سے آواز پیدا کر لی جس کے نتیجے میں بنی اِسرائیل نے اُس کی پرستش شروع کر دی۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوائے نبوّت کو چیلنج کرتے ہوئے فِرعون کے دربار میں جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں زمین پر پھینکیں تو وہ اَژدھا بن گئیں۔ اِس قبیل کے تمام اَعمال اِستدراج کی ذیل میں آتے ہیں۔
جہاں عقل عاجز آ جاتی ہے وہاں سے معجزے کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ معجزہ ربِّکائنات کی قدرت اور جلالت کا اِظہار ہوتا ہے۔ یہ وہ خارقِ عادت واقعات ہوتے ہیں جو اللہ کے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں سے صادِر ہوتے ہیں۔ اُن کا بظاہر کوئی سبب نظر آتا ہے اور نہ کوئی اُن کی علّت دِکھائی دیتی ہے۔ یہ عقل کے دائرۂ اِدراک اور حیطۂ شعور میں نہیں آتے، لیکن جب اِنسان اپنے سر کی آنکھوں سے اُن کا ظہور ہوتے دیکھتا ہے تو سرِتسلیم خم کرنے کے سِوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ معجزہ اللہ کے نبی سے صادِر ہوا ہے، اِس لئے یہ حق ہے۔ وہ لوگ جو معجزات و کرامات کے ردّ و قبول کا مِعیار اپنی سوچ، عقل، تجربہ اور مطالعہ کو قرار دیتے ہیں نہ صرف بہت بڑے اِعتقادی مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ علم کے تکبّر میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر لکڑی آگ کے الاؤ میں گر کر جلا نہ کرے تو عقل کبھی بھی ذہنِ اِنسانی کی یہ رہنمائی نہ کرے کہ آگ جلانے والی شئے ہے۔ اِس لئے کہ جو بات مُشاہدہ اور تجربہ کے خِلاف ہو عقل اُسے ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتی۔ مثلاً : اللہ کے برگزیدہ نبی سیدنا اِبراھیم علیہ السلام بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑیں اور آگ گلزار بن جائے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام قُمْ بِاذْنِ اللهِ کہیں تو قبر سے مُردہ اُٹھ کھڑا ہو، حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اپنی آنکھوں سے لگائیں تو آپ علیہ السلام کی بِینائی لوٹ آئے، حضرت صالح علیہ السلام پہاڑ پر اپنی چھڑی مبارک ماریں تو اُس کے اندر سے اُونٹنی برآمد ہو جائے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک درباری پلک جھپکنے سے پہلے اور جسم کو غائب کئے بغیر ہزاروں میل دُور سے ملکہ بلقیس کا تخت لا کر حاضر کر دے یا پھر انگشتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھے اور چاند دو ٹکڑے ہو جائے، ڈوبتے سورج کی سمت دستِ اَقدس اُٹھائیں تو وہ غروب ہونے کے بعد واپس لوٹ آئے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کے لمس سے کھجور کا مرا ہوا درخت پھر سے زِندہ ہو جائے تو عقل اپنے دامنِ شعور کو تارتار نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی! ورائے عقل سرزد ہونے والے اِنہی واقعات کو معجزہ کہتے ہیں۔ عقل اِن معجزات کو سمجھنے سے معذور ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved