روزے کے متعلق چند ضروری اور اہم مسائل و احکامات قارئین کے استفادے کے لئے درج ذیل ہیں۔
روزہ جن شرائط کے ساتھ فرض ہوتا ہے وہ یہ ہیں:
دوسرے لفظوں میں کافر‘ پاگل یا مجنون‘ بچے‘ بیمار‘ مسافر اور حائضہ پر روزہ فرض نہیں‘ تاآنکہ پاگل عقل مند‘ بچہ بالغ‘ بیمار صحتمند‘ مسافر مقیم اور حائضہ حالت پاکیزگی میں آ جائے۔
متذکرہ بالا صورتوں میں تین وجوہات ایسی ہیں جن کے رفع ہونے پر روزے کی قضا رمضان کے بعد واجب ہو گی۔ عدمِ ادائیگی کی صورت میں ساری زندگی اس پر روزہ واجب رہے گا۔
جب مجبوریوں کے باعث شریعت نے رخصت دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو روزہ رکھے‘ ورنہ مجبوری کے اختتام پر قضا روزوں کو ادا کرے۔ عام طور پر واقع ہونے والے وہ بڑے بڑے عذر یہ ہیں:
کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے کہ روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو یا پھر بھوک پیا س کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ ہو۔ ان صورتوں میں دیندار اور مسلمان ڈاکٹر کی رائے ہی زیادہ قابل ِ اعتبار ہو گی۔
اس عذر کے لئے سفر کی مقدار وہی معتبر ہو گی‘ جس میں نماز کی قضا لازم آتی ہے۔ دورانِ سفر اگر روزہ باعث تکلیف نہ بنے تو روزہ رکھ لینا ہی افضل ہے۔
کوئی شخص کسی وجہ سے اتنا کمزور یا بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو اور اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہو تو اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار میں فدیہ دیتا رہے یا کسی فقیر مسکین وغیرہ کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاتا رہے۔ معذور کو اس صورت میں یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فدیہ شروع رمضان میں دے دے‘ ہر روز دیتا رہے یا آخر میں اکٹھا ادا کر دے۔
رمضان المبارک میں کوئی عورت اگر حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے سے اسے یا بچے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو وہ بھی روزہ قضا کر سکتی ہے۔
دشمن کے مقابلے میں لڑنا پڑے اور لڑائی میں حالت روزہ‘ کمزورہ کی وجہ سے کسی رکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لئے بھی رخصت ہے۔
ان تمام صورتوں میں معذور عورت یا مرد کو چاہئے کہ وہ سرعام کھانے پینے سے پرہیز کریں ‘کیونکہ اس سے رمضان المبارک کا تقدس پامال ہوتا۔
روزے کی شرعی اور اصطلاحی تعریف سے ہی اس کے ارکان کا تعین ہو جاتا ہے یعنی:
نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ روزے کی صحت کے لئے نیت سب سے اولیت رکھتی ہے‘ ورنہ کھانے پینے سے محض رکے رہنے سے ہرگز روزہ نہیں ہو گا۔
کتبِ فقہ میں روزوں کی مختلف اقسام بیان ہوئی ہیں‘ جو حسب ذیل ہیں:
ان کی نیت رات سے کر لیں تو افضل ہے‘ ورنہ نصف النہار سے قبل نیت کر لینا بھی درست ہو گا‘ لیکن ان اقسام کے روزوں کے علاوہ نیت کا صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے‘ مثلاً کفارہ کے روزے‘ قضا کے روزے اور نذر غیر معین کے روزے۔
نیت روزہ کے مسنون اور مختصر الفاظ یہ ہیں:
نویت بصوم غد ﷲ تعالی من شهر رمضان.
ماہِ رمضان کے روزے کی میں نیت کرتا ہوں۔
اگر رات کو نیت نہ کر سکے اور دن کو کرے تو یوں کہے:
نویت ان اصوم هذا الیوم ﷲ تعالی من شهر رمضان.
میں ماہِ رمضان کے اس دن کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔
دن کو نیت کرنی پڑے تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو صبح صادق سے روزہ دار تصور کرے۔
مندرجہ ذیل امور روزہ کے مکروہات ہیں:
علاوہ ازیں غسل کرنا‘ ٹھنڈا پانی سر پر ڈالنا‘ کلی کرنا‘ سادہ مسواک کرنا‘ سرمہ لگانا‘ بدن پر تیل ملنا‘ خوشبو لگانا یا سونگھنا مکروہات روزہ میں شمار نہیں ہوتے۔
کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ یا کوئی دوسرا نفلی روزہ ٹوٹ گیا تو اس کی قضا لازم ہے‘ لیکن بلا عذر شرعی رمضان المبارک کا روزہ توڑنے پر قضا کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ رمضان المبارک کے ایک روزے کا بدل تو سال بھر کے روزے بھی نہیں بن سکتے‘ لیکن شریعت نے اس کی کم از کم مقدار یہ مقرر کی ہے کہ وہ شخص لگاتار دو ماہ یعنی ساٹھ ایام کے روزے رکھے۔ اس میں تسلسل شرط ہے یا پھر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مساکین کو دونوں وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved