Falsafa-e-Sawm

باب 8 :روزہ کے احکام و مسائل

روزے کے متعلق چند ضروری اور اہم مسائل و احکامات قارئین کے استفادے کے لئے درج ذیل ہیں۔

شرائط و جوب

روزہ جن شرائط کے ساتھ فرض ہوتا ہے وہ یہ ہیں:

  1. مسلمان ہونا
  2. عاقل ہونا
  3. بالغ ہونا
  4. تندرست ہونا
  5. مقیم ہونا
  6. عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا

دوسرے لفظوں میں کافر‘ پاگل یا مجنون‘ بچے‘ بیمار‘ مسافر اور حائضہ پر روزہ فرض نہیں‘ تاآنکہ پاگل عقل مند‘ بچہ بالغ‘ بیمار صحتمند‘ مسافر مقیم اور حائضہ حالت پاکیزگی میں آ جائے۔

شرائطِ وجوبِ ادا

متذکرہ بالا صورتوں میں تین وجوہات ایسی ہیں جن کے رفع ہونے پر روزے کی قضا رمضان کے بعد واجب ہو گی۔ عدمِ ادائیگی کی صورت میں ساری زندگی اس پر روزہ واجب رہے گا۔

  1. بیمار جب مکمل طور پر تندرست ہو جائے اور روزہ رکھنے کی استطاعت کا مالک ہو جائے۔
  2. مسافر جب سفر سے واپس آ جائے یا سفر کے بعد مقیم ہو جائے۔
  3. عورت جب حیض و نفاس سے حالت طہر میں آ جائے۔

روزہ نہ رکھنے کے شرعی عذر

جب مجبوریوں کے باعث شریعت نے رخصت دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو روزہ رکھے‘ ورنہ مجبوری کے اختتام پر قضا روزوں کو ادا کرے۔ عام طور پر واقع ہونے والے وہ بڑے بڑے عذر یہ ہیں:

1۔ مرض یا بھوک و پیاس کی شدت

کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے کہ روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو یا پھر بھوک پیا س کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ ہو۔ ان صورتوں میں دیندار اور مسلمان ڈاکٹر کی رائے ہی زیادہ قابل ِ اعتبار ہو گی۔

2۔ سفر

اس عذر کے لئے سفر کی مقدار وہی معتبر ہو گی‘ جس میں نماز کی قضا لازم آتی ہے۔ دورانِ سفر اگر روزہ باعث تکلیف نہ بنے تو روزہ رکھ لینا ہی افضل ہے۔

3۔ کمزور‘ لاغر اور بوڑھا ہونا

کوئی شخص کسی وجہ سے اتنا کمزور یا بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو اور اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہو تو اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار میں فدیہ دیتا رہے یا کسی فقیر مسکین وغیرہ کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاتا رہے۔ معذور کو اس صورت میں یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فدیہ شروع رمضان میں دے دے‘ ہر روز دیتا رہے یا آخر میں اکٹھا ادا کر دے۔

4۔ عورت کا حاملہ ہونا یا دودھ پلانا

رمضان المبارک میں کوئی عورت اگر حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے سے اسے یا بچے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو وہ بھی روزہ قضا کر سکتی ہے۔

5۔ جہاد میں شرکت

دشمن کے مقابلے میں لڑنا پڑے اور لڑائی میں حالت روزہ‘ کمزورہ کی وجہ سے کسی رکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لئے بھی رخصت ہے۔

ان تمام صورتوں میں معذور عورت یا مرد کو چاہئے کہ وہ سرعام کھانے پینے سے پرہیز کریں ‘کیونکہ اس سے رمضان المبارک کا تقدس پامال ہوتا۔

روزے کے ارکان

روزے کی شرعی اور اصطلاحی تعریف سے ہی اس کے ارکان کا تعین ہو جاتا ہے یعنی:

  1. نیت ِ روزہ
  2. امساک یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرنا اور مباشرت سے رکے رہنا
  3. سحری سے غروبِ آفتاب تک کے معین وقت کی پابندی

روزے کی نیت کے احکام

نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ روزے کی صحت کے لئے نیت سب سے اولیت رکھتی ہے‘ ورنہ کھانے پینے سے محض رکے رہنے سے ہرگز روزہ نہیں ہو گا۔

کتبِ فقہ میں روزوں کی مختلف اقسام بیان ہوئی ہیں‘ جو حسب ذیل ہیں:

  • رمضان کا روزہ
  • نذر معین کا روزہ
  • نفلی روزہ

ان کی نیت رات سے کر لیں تو افضل ہے‘ ورنہ نصف النہار سے قبل نیت کر لینا بھی درست ہو گا‘ لیکن ان اقسام کے روزوں کے علاوہ نیت کا صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے‘ مثلاً کفارہ کے روزے‘ قضا کے روزے اور نذر غیر معین کے روزے۔

  • اگر نیت کے مسنون الفاظ دہرا لئے جائیں تو افضل ہے ورنہ اگر کوئی سحر کے وقت روزہ رکھنے کے لئے اٹھا اور کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیا تو یہی اس کی نیت ہے۔
  • جمہور ائمہ کے نزدیک ہر روزے کی الگ نیت ضروری ہے۔ البتہ امام اعظم کے نزدیک پورے رمضان المبارک میں پہلے روزے کو نیت کر لینا ہی کافی ہے بشرطیکہ پورے ماہ میں روزوں کا تسلسل قائم رہے۔
  • روزہ کی حالت میں محض روزہ توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹتا ‘جب تک کہ کچھ کھایا پیا نہ جائے۔
  • اگر کوئی شخص رات کو روزہ کی نیت کر کے بعد میں اس نیت سے رجوع بھی کر لے اور اگلے دن صبح سے شام تک کھائے پیئے بغیر رہا تو یہ اس کا روزہ نہیں ہے۔

نیت روزہ کے مسنون اور مختصر الفاظ یہ ہیں:

نویت بصوم غد ﷲ تعالی من شهر رمضان.

ماہِ رمضان کے روزے کی میں نیت کرتا ہوں۔

اگر رات کو نیت نہ کر سکے اور دن کو کرے تو یوں کہے:

نویت ان اصوم هذا الیوم ﷲ تعالی من شهر رمضان.

میں ماہِ رمضان کے اس دن کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔

دن کو نیت کرنی پڑے تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو صبح صادق سے روزہ دار تصور کرے۔

سحری و افطاری کے احکام

  1. سحری کرنا یعنی صبح صادق سے قبل کچھ کھا پی لینا سنت ہے۔
  2. سحری کا وقت تو نصف شب کے بعد شروع ہو جاتا ہے مگر افضل ترین سحری آخری حصہ شب کی ہے۔
  3. سحری میں تاخیر افضل ہے تو افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے:
  4. افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
  5. افطاری میں عجلت سے مراد یہ نہیں کہ وقت سے پہلے ہی افطار کر لیا جائے اس پر احادیث میں سخت سزا کا ذکر آیا ہے۔
  6. روزہ کھجور‘ چھوہارے یا پانی سے افطار کرنا سنت ہے اور مستحب یہ ہے کہ تین‘ پانچ یا نو دانے کھائے۔

روزہ توڑنے والی چیزیں

  • عمداً کھانے پینے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ اگر بھول کر کھا پی لیا‘ جماع کر لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • ہر قسم کی تمباکو نوشی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • دانتوں میں رکی ہوئی چنے کے برابر یا اس سے کم چیز نکال کر کھا لی تو بھی روزہ جاتا رہا۔
  • نتھنوں میں دوا چڑھائی یا کان میں تیل ڈالا یا دوائی‘ تیل وغیرہ حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ گیا‘ لیکن سادہ پانی اگر کان میں چلا گیا‘ اس سے کلی وغیرہ چاہے جتنی کثرت سے کر لیں‘ بشرطیکہ حلق کے اندر نہ جائے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • بلاقصد بھی اگر کلی کرتے ہوئے پانی حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ نہ رہا۔
  • قصداً منہ بھر کر قے کی تو روزہ ٹوٹ گیا‘ بلااختیار اور بلا قصد قے ہو گئی تو (ا) اگر منہ بھر کر ہوئی اور کوئی قطرہ واپس حلق سے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا (ب) اگر منہ بھر کر نہیں ہوئی اور اس کے چند قطرے واپس چلے گئے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
  • خون تھوک کے ساتھ پیٹ میں چلا گیا اور خون تھوک پر غالب تھا تو روزہ ٹوٹ گیا‘ ورنہ نہیں۔
  • کنکری‘ لوہے کا ٹکڑا یا کسی ایسی چیز کا کھا لینا جو عام طور پر نہیں کھائی جاتی تو بھی روزہ ٹوٹ گیا۔
  • منہ میں کوئی ایسی رنگین چیز رکھی جس سے تھوک پر اس چیز کا رنگ غالب آ گیا اور وہ تھوک اس نے نگل لی تو روزہ جاتا رہا۔
  • ماہ رمضان میں اگر اتفاق سے کسی کا روزہ ٹوٹ گیا تو روزہ ٹوٹنے کے بعد بھی کچھ کھائے پیئے نہیں ‘بلکہ سارا دن روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہے۔

روزہ کے مکروہات

مندرجہ ذیل امور روزہ کے مکروہات ہیں:

  1. جھوٹ‘ غیبت‘ چغلی‘ گالی گلوچ کرنا یا کسی کو تکلیف دینا۔
  2. روزہ دار کا کوئی چیز بلاوجہ زبان پر رکھ کر چبانا یا چبا کر اگل دینا وغیرہ۔
  3. قولاً یا عملاً جنسی رغبت اور شہوانی جذبات برانگیختہ کرنے والے امور۔
  4. روزہ کی حالت میں پانی چڑھانے یا کلی کرنے میں مبالغہ کرنا۔
  5. پیاس کی حالت میں پانی کے غرغرے کرنا ‘کیونکہ اس صورت سے روزہ ضائع ہونے کا قوی امکان ہے۔

علاوہ ازیں غسل کرنا‘ ٹھنڈا پانی سر پر ڈالنا‘ کلی کرنا‘ سادہ مسواک کرنا‘ سرمہ لگانا‘ بدن پر تیل ملنا‘ خوشبو لگانا یا سونگھنا مکروہات روزہ میں شمار نہیں ہوتے۔

روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ

کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ یا کوئی دوسرا نفلی روزہ ٹوٹ گیا تو اس کی قضا لازم ہے‘ لیکن بلا عذر شرعی رمضان المبارک کا روزہ توڑنے پر قضا کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ رمضان المبارک کے ایک روزے کا بدل تو سال بھر کے روزے بھی نہیں بن سکتے‘ لیکن شریعت نے اس کی کم از کم مقدار یہ مقرر کی ہے کہ وہ شخص لگاتار دو ماہ یعنی ساٹھ ایام کے روزے رکھے۔ اس میں تسلسل شرط ہے یا پھر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مساکین کو دونوں وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved