رمضان المبارک کے ماہِ سعید میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انہیں معمولات کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہم بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوئہ پر عمل کر کے اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں کو لوٹ سکیں۔
اجمالی طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات رمضان المبارک کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے۔ اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔
عن انس بن مالک قال: کان رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم اذا دخل رجب قال: اللهم بارک لنافی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے:
کان اذا رای هلال رمضان قال: هلال رشد و خیر‘ هلال رشد و خیر امنت بالذی خلقک.
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال کرتے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرام سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا۔
جب رمضان المبارک ک مہینہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے دریافت کرتے:
ما تستقیلون؟ ماذا یستقبلکم؟ (ثلاث مرات)
(الترغیب والترهیب‘2: 105)
تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔(یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الله یغفر فی اول لیلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.
(الترغیب والترهیب‘ 2: 105)
تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کردیا جاتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھ کر ماہ رمضان کی تیاری اور استقبال کیا کرتے تھے۔
عن عائشة رضی الله عنها قالت: کان أکثر صیامه سوی رمضان فی شعبان.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف ماہ شعبان میں ہی کثرت کے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے۔
اکثر اوقات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
عن عائشة وام سلمة قالتا: ما کان النبی صلی الله علیه وآله وسلم یصوم شهرا سوی رمضان الاشعبان فانه کان یصله برمضان۔.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے روزے رکھا کرتے تھا، اس لئے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔
(المعجم الکبیر‘ 23: 256‘ رقم حدیث: 529-527)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عن ام سلمة قالت: ما رایت رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم یصوم شهرین متتابعین الا انه کان یصل شعبان برمضان.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے روزے رکھا کرتے تھا اس لئے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن انس قال‘ قال: رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم تسحروا فان فی السحور برکة.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو‘ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
(صحیح البخاری‘1: 257‘ کتاب الصوم‘ باب برکة السحور من غیر ایجاب‘ رقم حدیث: 1823)
اس ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فصل ما بین صیامنا و صیام اهل الکتٰب اکللة السحر.
(صحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب فضل السحور‘ رقم حدیث: 1096)
حضرت ابوقیس نے حضرت عمرو بن العاص سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن ابی سعید الخدری قال‘ قال: رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم السحور کله برکة فلا تدعوه.
(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)
سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پراللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔
فان اللّٰه و ملائکته یصلون علی المستحرین.
(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں۔
روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو‘ خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
برکت سے مراد اجر عظیم ہے کیونکہ اس سے ایک تو سنت ادا ہوتی ہے اور دوسرا روزہ کے لئے قوت و طاقت مہیا ہوتی ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں برکت سے مراد دوسر ے دن کے روزے کی قوت حاصل کرنا ہے۔
حدیث مبارکہ میں بھی اس فائدے کا ذکر ملتا ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم :استعینوا بطعام السحر علی صیام النهار و بقیلولة النهار علی قیام اللیل.
دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔
(سنن ابن ماجه‘123‘ کتاب الصیام‘ باب ما جاء فی السحو‘ رقم حدیث: 1693)
برکت سے مراد ثواب و اجر کی زیادتی ہے‘ کیونکہ سحری کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
و اما البرکة التی فیه فظاهرة لانه یقوی علی الصیام و ینشط له و تحصل بسببه الرغبة فی الازدیاء من الصیام و قیل لانہ یتضمن الاسقیقاظ‘ والذکر و الدعاء فی ذالک الوقت الشریف و قت تنزل الرحمة و قبول الدعاء و الاستغفار۔.(شرح نووی)
سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں‘وہ فرماتے ہیں:
قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔
اسی طرح دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا سمع النداء احدکم والاناء علی یده فلا یضعه حتی یقضی حاجته منه.
(سنن ابی داؤد‘ 1: 328‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 2350)
جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔
حدیث قدسی ہے کہ:
قال اللّٰه تعالی احب عبادی الی اعجلهم فطراً.
(جامع الترمذی‘ 1: 88‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی تعجیل الافطار‘ رقم حدیث: 700)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال‘ قال: رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم امرنا ان تعجل افطارنا نوخر سحورنا.
(السنن الکبری‘ 4: 238)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن سهل بن سعد رضی الله عنه قال‘ قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم: لا تزال امتی علی سنتی ما لم تنتظر یفطرها النجوم.
حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میری سنت پراس وقت تک برابر قائم رہے گی‘ جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے گی۔
(مواردالضمان: 891)
آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا‘ جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔
حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے‘ مثلا اتباع سنت‘ یہود و نصاری کی مخالفت‘ عبادت پر قوت حاصل کرنا‘ آمادگی عمل کی زیادتی‘ بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے‘ اسکی مدافعت سحری میں کئی حقدارو اور محتاجوں کو شریک کرلینا‘ جو اس وقت میسر آجاتے ہیں۔
علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں‘ بلکہ ختم ہی ہو کر رہ جائیں۔ اور یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکلالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا افطر احکم فلیفطر علی تمر فانه برکة فان لم یجد فلیفطر علی ماءٍ فانه طهور.
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔
(جامع الترمذی‘ 1: 83‘ کتاب الزکوة‘ رقم حدیث: 658)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا:
عن ابی هریرة رضی الله عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم: نعم سحور المومن التمر.
(سنن ابی داؤد‘ 1: 327‘ کتاب الصوم‘ باب من سمی السحور الغداء‘ رقم حدیث: 2345)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی ہے۔ یہ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے‘ جو الا ماشاء اللہ افراتفری‘ بدنظمی اور ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ اس کی ایک جھلک افطاری کے وقت بھی نظر آتی ہے۔ ادھر مغرب کی اذان بلند ہوئی‘ اس کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور افطاری کے لئے بھاگم دوڑ مچ گئی۔ کوئی جلدی سے کھانے کی طرف لپک رہا ہے اور کلی کر کے مسجد کی طرف بھاگ رہا ہے۔ موذن کے اذان سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مغرب کی نماز کھڑی ہو گئی۔ اس افراتفری میں افطاری کرنے والوں میں سے کسی کو دوسری اور کسی کو آخری رکعت میں جماعت ملی۔ بدنظمی اور عدم توازن پر مبنی یہ صورت حال ہماری کج فہمی کی پیداوار ہے‘ ہم اپنی لاعلمی کی بنا پر نماز مغرب میں غیر ضروری عجلت کو روا گردانتے ہیں‘ حالانکہ نماز کا وقت اتنا تنگ بھی نہیں‘ جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دس پندرہ منٹ افطاری کے لئے دیں اور پھر اطمینان اور یکسوئی سے نماز مغرب باجماعت ادا کریں۔ اتنا وقفہ کرنے سے نماز مکروہ نہیں ہو گی۔ فقہی اعتبار سے نماز مغرب کا وقت گرما و سرما کے موسموں کے تفاوت کے پیش نظر سوا گھنٹے سے ڈیڑ ھ گھنٹے تک رہتا ہے۔ یہ اس کی آخری حد ہے اور اس کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ لہذا مناسب اور احسن بات یہی ہے کہ چند منٹوں کے توقف کے بعد نماز مغرب کی جماعت کا اہتمام کیا جائے‘تاکہ سب مسلمان آسانی سے شاملِ جماعت ہو سکیں۔
اسلام ایک سہل العمل دین ہے‘ جس میں ہر کس و ناکس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں‘ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی کم فہمی اور نادانی کے باعث شریعت کی عطا کردہ سہولتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور خواہ مخواہ مشقت اٹھاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو نماز کے معاملے میں یہاں تک آسانی مرحمت فرما دی کہ اگر ایک طرف بھوک لگی ہو اور کھانے کے لئے دسترخوان بچھ گیا ہو اور دوسری طرف نماز کا وقت آن پہنچا ہو تو ایسی صورت میں کھانا کھانے کو ترجیح دی جائے اور تناول ماحضر کے بعد نماز ادا کی جائے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ بھوک کی حالت میں نماز میں وہ یکسوئی‘ انہماک‘ خشوع و خضوع اور طمانیت قلب نصیب نہیں ہو سکتی‘جس کا حصول نماز کے باطنی آداب کا تقاضا ہے۔ ایسی نماز جس میں آپ بھوک کی شدت سے بے قرار ہوں اور دھیان بار بار دسترخوان کی طرف جا رہا ہو‘ ان کیفیات لذت و سرور سے کب آشنا ہو سکتی ہے‘ جو خدا کی بارگاهِ صمدیت میں محویت اور حضوریٔ قلب کا موجب ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ انسان پر شیطان ہمیشہ پیٹ کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ حصولِ رزق کی کوششوں میں پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اسے حرام کی طرف راغب کر دیتا ہے اور بھوک کے ہتھیار سے اسے شکار کر لیتا ہے۔ گویا رزق حرام کی راہ شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے‘ لہذا فکرِ معاش اور روزگار کی پریشانیوں سے نجات پا کر ہی عبادت کا حقیقی لطف اور کیف و سرور نصیب ہوتا ہے۔
اسلام اعتدال اور توازن کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور وہ معاملات و عبادات میں افراط و تفریط کی روش اختیار کرنے کو بنظر ِ استحسان نہیں دیکھتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسی راہ پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم فرمائی ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جن میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بھی تھے‘ صائم الدہر اور قائم الیل رہنے پر متفق ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمرو کو طلب فرمایا‘ جو مکالمہ ہوا وہ انہی صحابی سے مروی حدیث پاک میں ملاحظہ فرمایئے:
قال لی رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم یا عبداللّٰه ألم أخبر انک تصوم الدهر و تقوم اللیل فقلت بلی یا نبی اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم قال فلا تفعلن نم و قم و صم و افطرفان لجسدک علیک حقاً و ان لعینک علیک حقاً و لضیفک علیک حقاً و ان لزورک علیک حقا لاصام من صام الدهر‘ صوم ثلاثة ایام من کل شهر صوم الدهر کلہ‘ صم کل شہر ثلاثة ایام.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: اے عبداللہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو۔میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایسا ہی ہے)۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو (رات کو) قیام بھی کرو اور سوؤ بھی اس لئے کہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے‘ جس نے ہمیشہ کا روزہ رکھا اس نے (کوئی) روزہ نہیں رکھا‘ ہر ماہ کے تین روزے ہمیشہ کے روزوں کا ثواب رکھتے ہیں‘ اسلئے بہتر ہے کہ تم ہر ماہ میں تین روزے رکھو۔
(صحیح مسلم‘ 1: 365‘ کتاب الصیام‘ باب النهی عن صوم الدهر‘ رقم حدیث: 182)
ایک اور حدیث مبارکہ جسے حضرت ابن قیسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا‘ اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایامِ بیض یعنی چاند کی تیرھویں‘ چودھویں اور پندرھویں کے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا:
من صام من کل شهر ثلاثة ایام فذلک الدهر.
جس نے ہر ماہ تین روزے رکھے‘ ایسا ہی ہے‘ جیسے وہ زندگی بھر روزے رکھنے والا ہو۔
(جامع الترمذی‘ 1: 327‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 762)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ حکمت آموز ارشادات عبادت میں میانہ روی اور اعتدال کو ملحوظ رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کا لب لباب یہ ہے کہ سب سے بہتر اور افضل عمل وہ ہے‘ جو خواہ مقدار میں تھوڑا ہی ہو‘ لیکن اسے پابندی وقت اور محافظت و مداومت کے ساتھ جاری رکھا جا سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
احب الامر الی اللّٰه مادام علیه صاحبه‘ و ان اقل.
اللہ تعالی کی بارگاہ میں سب سے اچھا عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ قلیل ہو۔
(صحیح مسلم‘ 1: 365‘ کتاب الصیام‘ باب صیام النبی صلی الله علیه وآله وسلم فی غیر رمضان‘ رقم حدیث: 782)
اسلام دین فطرت ہونے کے ناطے زندگی کے ہر معاملے میں نظم و ضبط (Discipline) پابندی وقت‘ (Punctuality) اور باقاعدگی (Regularity) پر زور دیتا ہے‘ لیکن ہم نے اپنی کوتاہ نظری سے ان تصورات کو مغرب سے آئی ہوئی چیز سمجھ رکھا ہے‘ حالانکہ وہ اسلامی تعلیمات کا جزوِ لاینفک ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دنیاوی اور دینی معاملات کو انہی تصورات کے سانچے میں ڈھالیں اور افراط و تفریط سے نجات حاصل کر کے دنیوی و اخروی کامیابیوں اور کامرانیوں سے بہرہ ور ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا مبارک معمول رمضان کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ کھڑے رہنے اور نماز‘ تسبیح و تہلیل اور ذکر الہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے‘ اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا:
فمن صامه و قامه ایماناً و احتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.
(سنن نسائی‘ 1: 308‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 2208)
جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے‘ جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا۔
اس ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کے عفو و کرم سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں‘ گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو ا ہو۔ رات کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
نماز تراویح کا سنت مؤکدہ ہونا نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا سے۔ بصورت دیگر موجودہ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے‘ جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔
تراویح کا لفظ ’’ترویحہ‘‘ کی جمع ہے جس کا مادہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق راحت ہے۔ اگر تراویح کو راحت و آرام کے معنوں میں لیا جائے تو اس سے مراد وہ نماز ہو گی جسے آرام و اطمینان اور سکون سے ادا کیا جائے۔
لفظ تراویح کے ان لغوی معانی پر غور کر کے اگر ہم آج اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں تو ہماری نماز تراویح کی ادائیگی کی صورت کچھ اس طرح نظر آئے گی‘ گویا کوئی دشمن اپنی کمین گاہ سے ہم پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہو اور اہم انتہائی عجلت میں نماز تراویح سے فراغت حاصل کر کے اپنے گھروں کے عافیت کدوں کی طرف نیند کے دامن میں سب دوچار ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ وطیرہ نماز تراویح کے معنوں سے ہرگز موافقت نہیں رکھتا۔
عربی لغت میں تراویح منتہی المجموع ہے جس سے بڑھ کر کوئی جمع نہیں ہوتی اور اس کا واحد ترویحہ ہے‘ جس سے مراد وہ وقفہ ہے جو چار رکعت ادا کرنے کے بعد تسبیح اور ذکر کے لئے رکھا گیا ہے۔ اس طرح بیس رکعت تراویح میں چار ترویحے ہوتے ہیں۔ اگر بیس رکعت کے بعد وتر کی نماز سے پہلے توقف کیا جائے تو کل پانچ ترویحے بنتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار ترویحے نماز کے اندر اور پانچواں ترویحہ وتروں سے پہلے ادا فرمایا کرتے تھے۔ ترویحے خواہ چار ہوں یا پانچ ان کا مقصد یہ ہے کہ روزے دار اس طرح بالاہتمام زیادہ سے زیادہ قیام اور عبادت ذوق و شوق سے کر سکیں اور رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے متمتع ہوسکیں۔
رمضان المبارک میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جتنا قیام تنہا اس مہینے کیا جاتا ہے‘ وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اسی مناسبت سے اسے قیامِ رمضان سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ منشاء ایزدی اس سے یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک میں راتوں کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے‘ لیکن ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم مختلف مساجد میں حفاظ کی رفتار تلاوت جانچتے ہیں اور اس مسجد میں نماز تراویح ادا کرتے ہیں‘ جس میں نماز سے جلد فراغت ہو سکے۔ ہم اس حقیقت سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں کہ قیامِ رمضان کا تقاضا ذکر و استغفار کی کثرت اور ذوق و شوق سے عبادت اور یاد الہی میں انہماک و استغراق ہے۔ رمضان المبارک کی رات کی ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم تراویح کی چار رکعتیں ادا کرنے کے بعد ایک مختصر وقفے کے لئے حالتِ تشہد میں رکتے ہیں اور بسرعت تمام تسبیحہ کے چند کلمات پڑھتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دو رکعت تراویح کی نیت سے شاملِ نماز ہو جاتے ہیں‘ جس میں امام نے قرآت کو جہاں سے چھوڑا تھا‘ شروع کر کے ایک مخصوص و متعین حصہ قرآن کا ختم کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں قیام و سجود کے بعد ہم بمشکل آدھ منٹ تسبیح تراویح کے لئے نکالتے ہیں۔ نماز تراویح کا صحیح اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ چار رکعت ادا کرنے کے بعد تراویح میں کم از کم اتنا وقت ضرور تسبیح و ذکر میں گزاریں جتنا وقت چار رکعتوں کی ادائیگی میں صرف ہوا ہے۔ صرف ایک ہی تسبیح کا مخصوص کر لینا ضروری نہیں‘ بلکہ اگر کسی کو وہ یادنہ ہو تو وہ کوئی بھی تسبیح و استغفار‘ درود یا چند قرآنی آیات‘ جو یاد ہوں پڑھ سکتا ہے اگر کچھ بھی یاد نہ ہو تو محض خاموش بیٹھے رہنا بھی شامل عبادت متصور ہو گا۔
رمضان المبارک کی یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ ترویحہ میں خاموشی سے بیٹھنا بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے‘ لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ آرام و سکون سے بیٹھنے کے بغیر ترویحے کا عمل اپنی روح کے اعتبار سے نامکمل رہتا ہے۔ البتہ ہماری عجلت پسندی جو تیزی سے اٹھنے بیٹھنے سے عبارت ہے‘ تراویح کی روح کے منافی ہے۔
مقامِ تاسف ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دینی معاملات و عبادات میں ہمارا شغف اور جوش و ولولہ مضمحل اور کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ دور دراز سے بڑی جامع مسجد میں جوق در جوق نماز تراویح کے لئے چلے آتے تھے اور ان کا ذوق و شوق دیدنی ہوتا تھا‘ لیکن آج ہمارے قدم بادلِ نخواستہ مسجد کی طرف اٹھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ رجحان غالب ہوتا ہے کہ نماز تراویح سے فارغ ہوتے ہی جلد از جلد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ نماز تراویح محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا محاسبہ کریں اور تراویح کے دوران زیادہ سے زیادہ تسبیح‘ ذکر و استغفار اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر درور و سلام بھیجیں اور خشوع و خضوع سے بارگاہ خداوندی میں اپنی گردن جھکا کر صدقِ دل سے گناہوں کی معافی مانگیں۔
رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم روزانہ کتنی مقدار میں پڑھا جائے؟ اس بارے میں ائمہ و علمائے فقہ کے فتاویٰ موجود ہیں۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فی رکعت تراویح میں کم از کم دس آیات قرآنی کی تلاوت کی جائے۔ قرآن پاک کی کل آیات تقریباً چھ ہزار ہیں اور ایک ماہ کے دوران ادا کردہ تراویح کی رکعتوں کی تعداد چھ سو بنتی ہے۔ اس حساب سے اگر روزانہ دس سے بارہ آیتیں تلاوت کی جائیں تو بآسانی ماہ رمضان المبارک میں ایک قرآنختم ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کے حق میں تھے اور وہ روزانہ بیس سے پچیس آیات تک تلاوت کرنے کے قائل تھے۔ بہرحال اس سے مقصود یہ ہے کہ حفاظ و قرآ کرام قرآن کریم کو اتنی مقدار میں نہ پڑھیں کہ ترتیل کے ساتھ تلاوت ممکن نہ رہے۔ قرآت میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نماز تراویح کی جماعت میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس بناء پر قرآت کو اتنا طول دینا ہرگز مناسب نہیں‘ جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ صرف اتنی مقدار پر کفایت کی جائے کہ ہر شخص اطمینان و سکون کے ساتھ نماز تراویح کے دوران قرآت کو سن سکے۔
جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کل جہاں کے لئے پیکرِ رحمت ہیں‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین بھی سراپا رحمت ہے‘جس پر عمل کرنا امت کے ہر فرد کے لئے سہل اور آسان ہے۔ لیکن ہم نے اپنی کم نظری اور کوتاہ اندیشی کی بنا پر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے اور کم و بیش ہر معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہمارے اندر عرصہ سے ایک غلط رجحان جڑ پکڑ رہا ہے کہ ہم بزعمِ خویش زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کمانے کی غرض سے تراویح میں ایک سے زیادہ بار قرآن ختم کرنے کے رواج کو فروغ دے رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے طویل قرآت کے بوجھ کے کچھ مقتدی متحمل نہیں ہوتے اور نتیجتاً عبادت میں ذوق و شوق پیدا ہونے کی بجائے لوگوں میں قرآن حکیم سے بے رغبتی بڑھنے لگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ سے زیادہ قرآت کا سماعت کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے‘ لیکن اس شوق کو پورا کرنے کے لئے بجائے تراویح کے خواہشمند حضرات کے لئے نوافل کی نماز کا اہتمام علیحدہ کیا جائے اور نماز تراویح میں صرف ایک بار قرآن سنایا جائے اور اس کی مقدار اتنی ہو کہ ہر شخص بغیر کسی دشواری کے نماز تراویح میں بطیبِ خاطر شریک ہو سکے۔
رمضان و قرآن میں گہرا باہمی ربط و تعلق پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْآٰنُ.
(البقرة‘ 2:185)
رمضان کا مہینہ (وہ ہے)جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن کا معمول تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے اور تعلیماتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین میں تنگی پیدا نہ کرو۔ اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ صیام میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی بھر کاربند رہے‘ ورنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو رمضان المبارک میں ہزارہا قرآن ختم کر سکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کی یہ شان ہے کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقات المفاتیح میں رقمطراز ہیں۔
ان علیا کرم اللّٰه وجهه کان یبتدئی القرآن من ابتداء قصدر کوبه مع تحقق المبانی و تفهم المعانی و یختمه حین و ضع قدمه فی رکابه الثانی.
(مرقاة المفاتیح‘ 5: 344)
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کی شانِ تلاوت یہ تھی کہ وہ گھوڑے کی ایک رکاب پر پائوں رکھتے ہوئے تلاوت شروع کرتے تو دوسری رکاب تک پورا قران والناس تک ختم کر ڈالتے۔‘‘
جس کے غلام کی یہ شان ہو‘ اس آقا کی قدرت کی وسعت کا کیا عالم ہو گا لیکن ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے کمزور امتیوں کا خیال تھا‘ جنہیں پریشانی اور تکلیف میں دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہرگز گوارا نہ تھا۔
رمصان المبارک میں نماز تراویح کے دوران ایک سے زیادہ بار ختم کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعارض رکھتا ہے‘ جس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز تراویح میں صرف ایک بارقرآن ختم کیا جائے۔ شبینہ کرانے کی رسم جس کا رواج ان دنوں فروغ پکڑ رہا ہے‘ خلافِ سنت ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے اس سے لوگوں میں قرآن حکیم کے سننے سے گریز اور بے رغبتی کا رجحان تقویت پاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دورانِ ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسب ِ دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیشِ نظر زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن‘ پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی:
أقراه فی کل سبع.
(مسند احمد بن حنبل‘ 2:162)
سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔
اس سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک ایک دن میں قرآن مجید کے شبینے کرانے کا رواج صریحاً خلافِ سنت ہے۔
بہرحال اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے‘ لیکن اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کی نشست و برخاست اور مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں‘ نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔
شبینے میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال غلط‘ نامناسب اور بے جواز ہے اس لئے کہ قرآن مجید پڑھا جا رہا ہو تو اس کا سننا ہر ایک کے لئے فرض ہو جاتا ہے اور نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہذا مناسب اور دانشمندانہ بات یہ ہے کہ شبینے کے لئے اول تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے اندرونی نظام (Internal Arrangement) ہو‘ تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال غیر ضروری اور بلاجواز کیا جاتا ہے۔ یہ عمل دین میں تصنع‘ ریاکاری اور دکھلاوے کے ذیل میں آتا ہے۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ازبس ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو ہر معاملے میں جس کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیوی امور سے اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم ارزائی فرمائی ہے۔ افراط و تفریط سے پاک طرز عمل اختیار کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتا ہے‘ اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو انتہائی دھیمی آواز میں اپنے معمول کے مطابق قرآن حکیم کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک گئے اور ان سے اتنی دھیمی آواز میں قرآن پڑھنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ وہ عرض کرنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ذات جس کی رضا اور خوشنودی مقصود ہے‘ سینے کے اندر دل کی دھڑکن کی آواز بھی سن لیتی ہے‘ اس لئے میں قرآت آہستہ اور دھیمی آواز میں کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دیرینہ یار غمگسار سے ارشاد فرمایا ’’اے ابوبکر تم اپنی آواز کو ذرا بلند کر لو۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر ایسے مقام سے ہوا‘ جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انتہائی بلند آواز میں تلاوت کلام پاک فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اتنی بلند آواز میں تلاوت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ میں قرآن اس لئے بلند آواز سے پڑھتا ہوں تاکہ میری گونجدار آواز سے خوابِ غفلت میں مبتلا لوگ بیدار ہو جائیں اور ان کے کانوں میں دعوت حق کا آوازہ پڑ جائے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنی آواز ذرا پست کر لینے کی ہدایت فرمائی۔
(المستدرک للحاکم‘ 1: 310‘ رقم حدیث: 1168)
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام دینِ وسط ہے‘ جو ہر معاملے میں غلو سے پاک اور متوسط و متوازن طریق اور طرز عمل اختیار کرنے کا سبق دیتا ہے۔
صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے۔ جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی۔ یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا‘ یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں فرمایا۔ حفاظ و قرآء کرام کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرآت اور سماعت کا فریضہ ادا کر کے بیک وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کی ادائیگی کے بارے میں معمول مبارک یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے‘ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔
بعض بزرگان دین کی طرف تہجد کی بارہ رکعتیں منسوب کی جاتی ہیں اور ان کی ادائیگی کی صورت کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ بعض پہلی رکعت میں بارہ مرتبہ سورئہ اخلاص شروع کرتے اور بتدریج کم کرتے جاتے‘ یہاں تک کہ آخری رکعت میں ایک بار سورئہ اخلاص پر ختم کر دیتے۔ کوئی اس سے برعکس عمل شروع کر کے سورئہ اخلاص کی تعداد بڑھاتا چلا جاتا۔ بہرحال کسی بھی طریقہ کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ نماز ادا ہو جاتی ہے۔
ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ تہجد کے بارے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف طرز عمل کیوں اپنایا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے معاملے میں سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس جس عمل کی تعلیم امت کو عطا فرمائی‘ اس میں سہولت اور آسانی کا پہلو مدنظر رکھا گیا ہے۔ تہجد میں رکعتوں کی کمی و بیشی کو وقت کی فراغت پر منحصر رکھا گیا ہے‘اگر کسی کے پاس زیادہ وقت نہ ہو تودوگانہ ادا کرے۔ وقت زیادہ ہونے کی صورت میں رکعتوں کی تعداد کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ بہرحال تہجد کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
علیکم بقیام اللیل فانه داب الصالحین قبلکم.
(سنن الترمذی‘2: 194‘ کتاب الدعوات‘ رقم حدیث: 3549)
تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔
نماز تہجد تمام نفلی نمازوں میں افضلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شرف المومن صلاته باللیل و استغناؤه فی ایدن الناس.
(سلسله الاحادیث الصحیحة‘ 4: 526‘ رقم حدیث: 1903)
مومن کی بزرگی قیام اللیل میں ہے اور عزت لوگوں سے استغناء میں ہے۔
نماز تہجد میں مداومت اختیار کرنے سے بندہ اپنے رب کی نظر میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ اسے عزت و وقار اور شانِ استغناء نصیب ہوتی ہے‘ جس کے صلے میں اسے دنیا میں کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور اس کی جبینِ نیاز آستانہ خداوندی کے سوا اور کسی در پر نہیں جھکتی۔ بندہ جب اپنے رب سے تعلق آشنائی محکم و پختہ تر کر لیتا ہے تو اس کی زندگی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے :
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
راتوں کی تنہائی میں خدا سے راز و نیاز اور اس کے آگے گڑگڑا کر تضرع و زاری کے ساتھ دعائیں مانگنے سے بندہ دنیا سے مستغنی ہو جاتا ہے اور کسی فرعون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شب زندہ دار اور نماز تہجد کی خاطر قیام اللیل کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
عن ابن عباس رضی الله عنه‘ قال: قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم : اشراف امتی حملة القرآن و اصحاب اللیل.
(شعب الایمان‘ 2: 557‘ رقم حدیث: 2703)
میری امت کے برگزیدہ افراد وہ ہیں جو قرآن کو (اپنے سینوں میں) اٹھائے ہوئے ہیں اور شب بیداری کرنے والے ہیں۔
امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ پاک باز اور قدسی صفاتِ مردانِ باخدا ہیں‘ جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَ طَاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًاO
(المزمل‘ 73: 6)
بیشک رات کا اٹھنا نفس کو سختی سے روندتا ہے اور (وقتِ دعا دل و زبان کی یکسانیت کے ساتھ) سیدھی بات نکلتی ہے۔
ان نفوس قدسیہ کی راتیں یوں بسر ہوتی ہیں کہ ان کے پہلو شب کی خلوت میں بستروں سے الگ رہتے ہیں‘ جب دوسری خدائی خواب گراں کی لذتوں میں غلطاں ہوتی ہے‘ وہ اپنے رب کو منانے کے لئے اس کے حضور پیکر عجز و نیاز بنے گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔ موسم سرما کی ٹھنڈی راتوں میں نرم و گداز بستر کے آرام کو چھوڑ کر وہ اپنے نہانخانہ دل کو ذکرِ الٰہی کے نور سے منور کرتے ہیں اور اس میں ایسی لذت و حلاوت پاتے ہیں‘ جو دنیا کے عیش و آرام اور آسائش و راحت میں نصیب نہیں ہو سکتی۔
رمضان المبارک کی راتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عشاء و تراویح ادا کرنے کے بعد سونے کے لئے تشریف لے جاتے‘پھر رات کے کسی حصے میں نماز تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو بشمول وتر گیارہ رکعتیں نماز کی ادا فرماتے۔
نماز تہجد کے لئے نماز عشاء کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے‘ یہی عمل افضل و مستحب ہے‘ جو سنت ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سنتِ صالحین سلف سے ثابت ہے‘ بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔
’’تہجد‘‘ کا لفظ عربی لغت میں’’ ہجود‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی رات کو سونے کے آتے ہیں۔ گویا تہجد وہ نماز ہے جو رات کے کسی حصے میں سونے کے بعد ادا کی جائے۔ اس کے لئے نیند کرنا شرط ہے‘ خواہ اس کا وقت تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ پس نیند کے بغیر جو نماز ادا کی جائے گی‘ وہ نوافل کے زمرے میں آئے گی‘ جس کا اپنا ثواب اور اجر ہے‘ لیکن اس نماز کو تہجد ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نماز تہجد کے لئے رات کا کوئی حصہ مخصوص و متعین نہیں۔ نماز عشاء کے بعد نیند کے لئے بستر پر چلے جائیں‘ خواہ وہ پندرہ منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ پھر آپ اٹھ کر نماز تہجد ادا کر سکتے ہیں۔ یہ خیال کہ تہجد صرف رات کے پچھلے حصے میں ہی ادا ہو سکتی ہے‘ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں:
عن ابن عباس رضی الله عنه‘ قال قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم : من صلی رکعتین بعد عشاء الٓاخرة یقرآ بفاتحة الکتاب مرة (قُلْ هُوْ اللّٰهَ اَحَدٌ) بنی اللّٰه له قصرین فی الجنة اهل الجنة.
جو شخص آخر عشاء کے بعد دو رکعت اس طرح ادا کرے کہ ایک مرتبہ فاتحہ الکتاب اور بیس مرتبہ قل ھو اللّٰہ احد پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا‘ جن کا اہل جنت مشاہدہ کریں گے۔
(الدار المنثور‘6: 415)
یاد رہے کہ نماز تہجد کا وقت فجر تک رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور ان کے تتبع میں اکثر بزرگانِ دین کا یہ معمول تھا کہ وہ نماز عشاء کے بعد سوتے اور پھر نصف شب کے بعد آخری حصے میں اٹھتے تھے۔ بعض بزرگوں کا نصف شب کے پہلے حصے میں نماز تہجد کا معمول بھی رہا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکتے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
فاذا لقیه جبریل علیه السلام کان رسول اﷲ صلی الله علیہ وآله وسلم اجود بالخیر من الریح المرسلة.
جب جبریل امین آجاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی۔
(صحیح البخاری‘ 1: 255‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 1803)
حضرت جبریل علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام محبت لیکر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے۔ اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔
جس کا تذکرہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں:
و فی هذا الحدیث فوائد منها بیان عظیم جوده صلی الله علیه وآله وسلم و منها استحباب اکنار الجود فی رمضان و منها زیاده الجود والخیر عند ملاقاة الصالحین و عقب فراقهم للتآثر بلقائهم و منها استحباب مدارسة القرآن.
(شرح نووی‘ 15: 69)
اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں۔ مثلاً:
رمضان المبارک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے‘ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اور دوسرے عشرے میںبھی اعتکاف فرمایا۔ لیکن جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومطلع کر دیا گیاکہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
ان النبی کان یعتکف العشر الآواخر من رمضان حتی توفاه اللّٰه تعالیٰ.
(صحیح البخاری‘ 1: 271‘ کتاب الاعتکاف‘ رقم حدیث: 1922)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ آخری عشرہ کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔
عن ابی سعید الخدری قال ان رسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم اعتکف العشر الاول من رمضان ثم اعتکف العشر الاوسط فی قبة ترکیة علی سدتھا حصیر قال: فاخذ الحصیر بیده فنحاها فی ناحیة القبة ثم اطلع راسه فکلم الناس فدنوا منه فقال: انی اعتکف العشر الاول التمس هذه اللیلة ثم اعتکف العشر الاوسط ثم اتیت فقیل لی: انها فی العشر الآواخر فمن احب منکم ان یعتکف فلیعتکف.
(صحیح لمسلم‘ 1: 370‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1167)
حضرت ابو سعید الخدری ص سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اعتکاف فرمایا‘ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیانی عشرہ اعتکاف فرمایا اور یہ اعتکاف ایسے ترکی خیمہ میں تھا جس کے دروازے پر بطور پردہ چٹائی تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک ہاتھ سے پکڑ کر خیمہ کی طرف ہٹا یا اور پھر اپنا سر اقدس نکال کر صحابہ کرام کو اپنے قریب آنے کے لئے فرمایا جب وہ قریب آگئے تو فرمایا جب وہ قریب آگئے تو فرمایا میں نے لیلۃ القدرکی تلاش میں پہلاعشرہ اعتکاف کیا‘ پھر میں نے درمیانی عشرہ اعتکاف کیا‘ پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ آخری عشرہ میںہے۔ تم میں سے جو اعتکاف جاری رکھنا چاہتا ہے وہ اسے جاری رکھے۔
وصال مبارک کے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا:
عن ابی هریرة قال: کان النبی صلی الله علیه وآله وسلم یعتکف فی کل رمضان عشرة ایام‘ فلما کان العام الذی قبض فیه اعتکف عشرین یوماً.
(صحیح البخاری‘ 1: 272‘ کتاب اعتکاف‘ رقم حدیث: 1939)
حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن تک معتکف رہے۔
اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کرکے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشۂ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیاء کرام اور اولیاء کرام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کرسکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کرسکیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved