حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.
(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ میں روزہ رکھنے اور رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ساتھ ایمان اور احتساب کی شرط لگا دی‘ یعنی اس حالت میں رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے کہ حضور سے ثابت شدہ سب چیزوں کی تصدیق کرے اور فرضیت ِ صوم کا اعتقاد بھی رکھے تو اس کو ایمان کا روزہ کہا جائے گا۔
احتساب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلبِ ثواب کے لئے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔
جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام صغائر معاف کردیے جاتے ہیں۔ اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا کبائر کا بوجھ ہلکا بھی ہوسکتا ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
حدثنی عبدالرحمن بن عوف عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم قال: من قام رمضان ایماناً و احتساباً خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.
(سنن النسائی‘ 1: 308‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث : 2208)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے‘ جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
للصائم فرحتان‘ یفر حهما: اذا افطر فرح‘ و اذا لقی ربه فرح بصومه.
(صحیح البخاری‘ 1: 255‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 1805)
روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔
ایک خوشی ہر روزے دار کو اس وقت میسر ہوتی ہے‘ جب وہ کڑے دن کی بھوک اور پیاس کے بعد لذتِ طعام سے آسودہ ہوتا ہے۔ دوسری خوشی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس وقت نصیب ہوگی جب عالمِ اخروی میں اسے دیدارِ الٰہی کی نعمت ِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔
متعدد احادیث مبارکہ اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں کہ شہد کی روح جب قفس عنصری سے پرواز کر رہی ہوتی ہے تو اس لمحہ اسے خدا کا دیدار نصیب ہوتاہے۔ روایات میں ہے کہ اہلِ جنت سے جب اللہ رب العزت پوچھیں گے کہ میری جنت میں کس چیز کی کمی ہے؟ تو وہ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ باری تعالیٰ تیری جنت میں ہر نعمت موجود ہے۔ ایک گوشے میں شہید سکوت برلب اس حال میں بیٹھے ہوں گے کہ ان کے چہروں سے قدرے اضطراب اور آشفتگی کے آثار مترشح ہوں گے۔ ان کی اداسی اور پژمردگی کا سبب پوچھا جائے گا تو وہ جواب دیں گے کہ اے باری تعالیٰ یوں تو تیری جنت میں کسی چیز کی کمی نہیں‘ لیکن اس میں ایک چیز کی کمی ہے جو بہت شاق گزر رہی ہے‘‘ یہ پوچھنے پر کہ وہ کیا ہے ان کا جواب ہوگا کہ مولا ہمیں تیری جنت میں وہ لذت و حلاوت میسر نہیں‘ جو تیری راہ میں جان دیتے ہوئے نصیب ہوئی تھی۔ کاش ہمیں دنیا میں پھر واپس بھیج دیا جائے کہ بارِ دیگر تیری راہ میں جہاد کریں اور جان کا نذرانہ پیش کر کے وہ لذتِ دیدارِ خداوندی دوبارہ حاصل کرسکیں۔
روزے دار کو آخرت میں اس نعمت ِ غیر مترقبہ سے نوازا جائے گا‘ جس کے حصول کے لئے شہید بار بار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی آرزو کرے گا۔
عن ابی هریرة رضی الله عنه قال‘ قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنة الی ماشاء ﷲ یقول ﷲ تعالیٰ: ألا الصوم‘ فانه لی‘ و أنا أجری به.
(سنن ابن ماجه: 119‘ کتاب الصیام‘ باب ما جاء فی فضل الصیام ‘ رقم حدیث: 1638)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدم کے بیٹے کا نیک عمل کا اجر جتنا اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستشنی ہے‘ کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔ اور میں بھی اس کی جزا دوں گا۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بعض اعمال کا ثواب صدق نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے‘ لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی مقدار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب بیان کئے گئے ہیں:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصوم جنة من النار کجنة احدکم من القتال.
(سنن النسائی‘ 1: 311‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 2230‘ 2231)
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔
جس طرح کہ میدانِ جنگ میں ڈھال غازی کے ہاتھ میں ہوتی ہے پس گویا کہ روزہ بطور تمثیل اس کی ڈھال بن جائے گا۔ اس حدیث کے مطابق نماز مومن کے ایمان کی برہان اور دلیل ہے ‘کیونکہ بریان دائیں طرف ہوتی ہے ۔ گویا کہ یہ مدعی کے لئے بطور شاہد ہے۔ اور غازی کے لئے بطور تلوار اور روزہ اس طرح ہے‘ جس طرح مدعی علیہ کے لئے حلف ہوتا ہے اور ڈھال نمازی کو دشمن کے وار سے بچاتی ہے اور خود غازی کو بری الذمہ کرتی ہے۔ پس اب واضح ہوگیا کہ نماز کا برہان ہونا اور روزے کا ڈھال ہونا محض بطور اندازہ اور مجاز و تخیل کی قسم سے نہیں بلکہ ان دونوں میں جو مخصوص معنی پایا جاتا ہے‘ اس کے باعث یہ نام رکھا جانا مناسب ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں جنۃ و حیص حصین من النار کے الفاظ ہیں جبکہ دوسری روایت میں الصیام جنۃ مالم یخرقھا کے الفاظ ہیں۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں بالغیبۃ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے۔ دارمی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس لفظ کو ترجمہ الباب میں بھی رکھا ہے۔ جنۃ کے لفظ کا معنی و قایۃ اور ستر ہے۔ اور ان روایت سے ستر کا متعلق واضح ہوگیا کہ وہ النار ہے۔ امام بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں اس کو بالجزم لکھا ہے۔ لیکن صاحبِ نہایہ لکھتے ہیں کہ روزہ کے ڈھال ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ روزہ دار کو موذی شہوات سے باز رکھتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزہ کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مشروعیت کے لحاظ سے سترہ اور حفاظت کا سامان ہے۔ پس روزہ دار کا فرض ہے کہ اسے ایسی چیزوں سے بچائے جو اسے فاسد کردیتی ہیں اور اس کے ثواب کو کم کردیتی ہیں۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ روزہ کو اس کے فائدہ کے لحاظ سے ڈھال قرار دیا جائے کہ وہ شہواتِ نفس کو ضعف کردیتا ہے۔
قاضی عیاض نے اکمال میں فرمایا ہے کہ جنۃ کا معنی ہے کہ روزہ گناہوں اور آگ سے حفاظت کا سبب ہے۔ امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزہ جہنم اس لئے بنایا گیا ہے کہ جہنم کو شہوات کے ساتھ گھیرا گیا ہے‘ پس جو آدمی شہوات سے بچے گا وہ جہنم سے محفوظ رہے گا اور روزہ شہوات سے چونکہ بچاتا ہے‘ اس لئے وہ جہنم کی آگ ڈھال بن جاتا ہے۔جنۃ کا معنی ڈھال‘ پردہ اور بچاؤ کا سامان روزہ گناہوں اور جہنم سے بچاؤ کا باعث ہے۔ الصیان جنۃ کی مراد ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح حدیث سے واضح ہوجاتی ہے کہ جس میں آتا ہے کہ میت کو جب اس کی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو نماز اس کے دائیں طرف سے آجاتی ہیں روزہ بائیں طرف سے‘ قرآن سر کی جانب سے ‘ اور صدقہ پاؤں کی طرف سے آجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ کی محافظت روزہ دار کے لئے فقط روزے سے ہی نہیں بلکہ دوسری عبادات سے بھی ہوگی۔ روزہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عذاب سے روزہ دار کو بچائے گاا ور اس کے دائیں طرف آجائے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن ابی هریرة قال‘ قال رسول ﷲ: والذی نفس محمد بیده لخلوف فم الصائم اطیب عند ﷲ یوم القیامة من ریح المسک.
(صحیح لمسلم‘ کتاب الصیام‘ باب فضل الصیام‘ رقم حدیث: 1151)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے قبضہ میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے۔ روزہ دار کے منہ کی ہوا اللہ کے نزدیک یوم قیامت مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کلام میں مجاز اور استعارہ ہے۔ کیونکہ بعض قسم کی خوشبوؤں کی طرف میلانِ طبع اور بعض سے نفرت‘ مخلوق کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے متقدس ہے اور چونکہ انسان اپنے محاورات میں خوشبوں کی تعریف کرنا اور اس کی اچھائی کو بیان کرنے کا عادی ہے‘ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی محاوراتی کلام کے رنگ میں اس کی رضا و خوشنودی کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزہ دار کو اس بو کے عوض جو خلوِّ معدہ کی وجہ سے منہ میں پیدا ہوجاتی ہے کہ قیامت میں بہترین خوشبو بطور جزا دیں گے۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ شہید کے خون کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملہ کی شرح میں فرمایا ہے کہ صحیح ترین اس کا معنی یہ ہے کہ خلوف ِ صائم کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں مشک سے بھی زیادہ ہے ۔
عیدین اور جمعہ کے موقع پر مشک کے استعمال کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلوف کا ثواب مشک کی اس محبوبیت سے بھی زیادہ ہے۔
عن ابی هریرة رضی الله عنه قال‘ قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: اذا دخل شهر رمضان فتحت ابواب الجنة وغلقت ابواب جهنم و سلسلت الشیاطین.
(صحیح البخاری‘ 1:255‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 1800)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رمضان داخل ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
آسمان کے دروازے کھلنا کنایہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ رحمت خداوندی پے در پے نازل ہوتی ہے اور نیک اعمال کسی رکاوٹ کے بغیر اوپر چڑھتے ہیں۔ اور دعا قبول ہوتی ہے اور جنت کے دروازوں کا کھولاجانا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان میں نیک اعمال کی توفیق ہوتی ہے جو حصولِ جنت کا باعث ہیں۔ اور دوزخ کے دروازوں کے بند کئے جانے سے مرادیہ ہے کہ روزہ دار کو ایسے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے کہ جو جہنم میں داخل ہونے کا باعث ہیں‘ کیونکہ وہ کبائر سے بچتا ہے اور روزے کی برکت سے اس کے صغیرہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
شیطانوں کا جکڑ دینا جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہل ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے‘ جاتی رہتی ہے اور غضب اور شہوت ہی بڑے بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اور قوت ِ عقلیہ جو طاعت اور نیکیوں کا باعث ہے‘ روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے‘ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ رمضان میں اور دنوں کی نسبت گنا کم ہوتے ہیں۔ اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر اس کو ظاہری معنی پر محمول کیا جائے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بعض نافرمان لوگ گناہ کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ اگر وہ ایک قسم کا گناہ ترک کریں گے تو دوسری قسم کو اختیار کرلیں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شیطانوں کے جکڑے جانے کی علامت یہ ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے‘ اب پڑھنے لگتے ہیں اس طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں‘ حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے‘ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ اور بعض جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کرچکے ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جیسا کہ دوسری حدیث کے الفاظ سے واضح ہے۔ سلسلت مردۃ الشیاطین۔ شیطانوں کے سردار کوجکڑ دیا جاتا ہے‘ ضروری نہیں کہ سب شیاطین کو جکڑ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شیطانوں کے سردار (ابلیس) کو جکڑ دیا جاتا ہے‘ لیکن اس کے چھوٹے چیلے چانٹے نہیں جکڑے جاتے‘ بلکہ وہ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گناہوں کا وقوع شیطانوں پر ہی منحصر نہیں‘ کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے‘ اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر اس کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے اس کی سرکشی اور طغیانی کی شوکت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہوجاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے ۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا بھی جانتا ہے کہ وہ کیا گل کھلاتا؟ کیونکہ وہ اپنے لاؤ لشکر اور وچیلے چانٹوں کی مرد اور تعداد پر مغرور ہے۔
اس کا یہ معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ رمضان المبارک کے روحانی ماحول میں چونکہ روزہ دار نیکیوں میں مشغول اور برائیوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ لہذا وہ شیطانی اغوا اور وساوس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔
حجۃ اللہ البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اہل ایمان کے لئے فضل ہے‘ ورنہ کفار و مشرکین تو ان دنوں میں گمراہی و ضلالت میں پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں‘ کیونکہ شعائر اللہ کی ہتک کرتے ہیں لیکن اہلِ ایمان چونکہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی کثرت کرتے ہیں اور برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔
(حجة اللہ البالغه: 374)
علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت کے دروازوں کا کھولا جانا اپنے حقیقی معنی پر اس شخص کے حق میں محمول ہے ‘جو رمضان میں وفات پائے اور اس کے اعمال فاسد نہ ہوں۔
محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت کے دروازوں کے کھولے جانے کا فائدہ یہ ہے کہ ملائکہ روزہ داروں کے عمل کو اچھا جان کر ان کے لئے جنت کو تیار کرتے ہیں۔اور یہ خدا کی طرف سے روزہ داروں کی بڑی عزت افزائی ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ شیاطین کے جکڑے جانے کا مطلب عیسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ لکھا ہے کہ شیاطین سے مراد اس حدیث میں ملا ء اعلی کی باتیں اڑا کرلے بھاگنے پلا لے اور چوری چھپے ملائکہ کی گفتگو سن کر اپنے سرداروں کو بتاتے ہیں اور رمضان میں انہیں اس لئے جکڑا جاتا ہے کہ انہیں نزول قرآن کے زمانے میں استراقِ سع (چوری چھپے سننے) سے روکا گیا اور رمضان میں مزید حفاظت کیلئے جکڑ دیا گیا۔
چونکہ رمضان میں شیاطین کو دوسرے دنوں کی مانند اہل ایمان کے اغوا کرنے اور فتنہ میں ڈالنے کے مواقع کم سے کم رہ جاتے ہیں۔
شیاطین کو اس لئے بھی جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ مکلف انسانوں کے عذر کو رفع کر دیا جائے دوسروں لفظوں میں انسان کو اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ اب شیاطین کو اغوا سے روک دیا گیا ہے۔ اب ترکِ اطاعت اور گناہ کے کرنے کے لئے تیرے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اگر تو اب بھی باز نہ آئے تو یہ تیری کم بختی اور بدنصیبی ہوگی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن سهل بن سعید قال‘ قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ان فی الجنة بابا یقال له الریان‘ یدخل منه الصائمون یوم القیامة‘ لا یدخل منه احد غیرهم.
(صحیح البخاری‘ 1: 254‘ کتاب الصوم‘ باب الریان للصائمین‘ رقم حدیث: 1797)
حضرت سہل بن سعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے‘ جس کا نام ریان ہے۔ روز قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے‘ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔
جنت میں انسانوں کے اعمال کے اعتبار سے کئی دروازے ہیں۔ پس جو شخص دنیا میںکوئی عمل کرے گا وہ جنت میں اس عمل کے دروازے داخل ہوگا۔
ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یا تو وہ بنفسہ ریان ہے‘ کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں۔ اس کے قریب تازہ اور سرسبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔ قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس زائل ہوگی اور ترو تازگی و نظامت ہمیشہ رہے گی۔ اس لئے صرف رمضان کے روزے رکھنے والا ہی نہیں بلکہ کثریت سے نفلی روزے رکھے والا بھی اس کا مستحق ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved