یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ ارکان اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ زیرنظر موضوع ان حکمتوں سے متعلق ہے، جو فرضیت روزہ کے عمومی حکم میں کارفرما ہیں، جس کے تحت ہم روزے کے افادی پہلوؤں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں گے تاکہ ان اثرات کو جو روزہ انسان کی مادی اور روحانی زندگی پر مرتب کرتا ہے‘ اجاگرکیا جا سکے۔
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت روزے کی فرضیت کے باب میں بلا استثنائے مرد و زن تمام اہل ایمان سے ارشاد فرماتے ہیں:
یٰآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَّلَکُمْ تَتَّقُوْنَO
(البقرة‘ 2: 183)
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
اس آیہ کریمہ میں دو باتیں بصراحت بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزے صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی نہیں بلکہ اممِ سابقہ پر بھی فرض کئے گئے‘ دوسرا روزے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔
1- ثقہ روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعدماہِ شعبان میں نازل ہوا۔ آیت روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی، جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے باری تعالی نے اہل ایمان سے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ.
(البقرة‘ 2: 185)
پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اسکے روزے ضرور رکھے۔
اس آیہ مبارکہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہر اس صاحبِ ایمان کو دیا گیا ہے، جو اپنی زندگی میں اس ماہ مقدس کو پا لے۔
امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے یہود و نصاریٰ دس محرم الحرام (عاشورہ) کا روزہ باہتمام رکھتے تھے۔ اسی طرح ہر قمری مہینے کی تیرھویں‘ چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے تین دن جنہیں ایام بیض سے موسوم کیا جاتا ہے‘ کے روزے پہلی امتیں بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا کرتی تھیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد ان روزوں کی حیثیت بریں بنا سنت کا درجہ اختیار کر گئی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشورہ اور ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول مدت العمر قائم رہا۔ روزے کی فرضیت کا منکر کافر اور اسکا تارک گنہگار ہے۔
2- آیت مبارکہ میں دوسری چیز جو بیان کی گئی ہے وہ روزے کا مقصد ہے جو کہ تقویٰ ہے یعنی روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کرتا تو پھر انسان نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔
روزے کو عربی میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں جس کا لغوی معنی کسی ارادی فعل سے باز رہنے اور رک جانے کا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں روزے کی درج ذیل تعریف بیان کی گئی ہے۔
الامساک عن المفطرات مع اقتران النیة به من طلوع الفجر الی غروب الشمس.
(تفسیر القرطبی، 2: 273)
روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہر قسم کے مفطرات سے رک جانا۔
بعض علمائے فقہ نے الامساک عن المفطرات کا معنی الامساک عن الاکل والشرب والجماع کھانے پینے اور عمل زوجیت سے باز رہنا بیان کیا ہے۔ فقہی اعتبار سے پو پھٹنے سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے‘ پینے اور ازدواجی تعلق (مباشرت) سے باز رہنے کے عمل کو صوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر روزہ مندرجہ ذیل پانچ چیزوں کو ملحوظ رکھنے سے عبارت ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ متذکرہ بالا افعال کا صدور اس وقت روزے کی ہیئت اختیار کرتا ہے، جب یہ بہ نیت روزہ ہو، بغیر نیت کے محض بھوک اور پیاس کو اپنے اوپر طاری کر لینا روزہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے۔ اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہذا رمض کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا، جن میں و ہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا، اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔
(مرقاة المفاتیح‘ 4: 229 )
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رمضان کا لفظ رمض الصائم سے لیا گیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی۔ رمضان کو رمضان کا نام اس لئے دیا گیا کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔
(لسان العرب‘ 7: 162 )
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved