حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات جو قرآن و سنت پر مشتمل ہیں اور ان کی مزید عملی تفصیلات جو سیرت پر مشتمل ہیں آج تک لفظاً اور معناً دونوں صحت کے ساتھ محفوظ ہیں اور یہ تحریری حفاظت قیامت تک قائم رہے گی۔ اس طرح پہلے انبیاء کرام علیھم السلام میں سے کسی کی تعلیمات بھی اس طرح کاملاً محفوظ نہ رہ سکیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب ‘‘قرآن مجید‘‘ کی حفاظت کی ذمہ داری اس وعدے کے ساتھ خود باری تعالیٰ نے اٹھالی تھی۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَo
الحجر، 15 : 9
‘‘بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔’’
نتیجتاً قرآن مجید پوری روئے زمین پر ایک لفظ کے بھی اختلاف کے بغیر تحریراً اور مطبوعاً محفوظ ہے، شرق سے غرب تک قرآن مجید کے کروڑوں نسخے آج تک چھپے ہیں اور چھپ رہے ہیں مگر بخلاف بائیبل یا اناجیل کے کسی نسخے میں بھی کوئی فرق نہیں ہے جبکہ بائیبل یا اناجیل کا کوئی ایک نسخہ بھی دوسرے نسخے سے لفظاً مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔
مزید یہ کہ قران مجید آج تک اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے، اور اس کی زبان (عربی) کو بھی باری تعالیٰ نے زندہ زبان کے طور پر محفوظ فرما دیا ہے۔ بخلاف سنسکرت، عبرانی، سریانی، یونانی یا دیگر زبانوں کے، جن میں دوسرے انبیاء و رسل یا بانیان مذاہب کی اصل کتابیں مرتب کی گئیں۔ ان میں سے کوئی زبان بھی آج زندہ نہیں ہے اور نہ اس علاقے کے لوگ اور موجودہ نسلیں ہی ان زبانوں کو سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتابیں اب صرف تراجم کی صورت میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے اصل متن دنیا سے بالعموم ناپید ہوگئے ہیں۔ مگر قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا اور سنت و سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس زبان میں صادر اور مرتب ہوئی وہ زبان آج تک زندہ ہے، کروڑوں انسانوں میں بولی لکھی اور سمجھی جاتی ہے، ڈیڑھ ہزار سال بیت جانے کے باوجود وہ متروک یا ناقابل فہم نہیں ہوئی اور اس کی زندگی و تابندگی کی موجودہ صورت حال بتا رہی ہے کہ وہ قیامت تک مروج و متد اول رہے گی۔ لہذا تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت فقط تراجم ہی کے ذریعے نہیں بلکہ اصل زبان کی صورت میں بھی ہو رہی ہے پھر قرآن کے علاوہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاکھوں احادیث اور فرمودات کو سینکڑوں کتب کی صورت میں جمع اور مرتب کیا گیا، اور ان کی چھان بین کے لئے اصول و ضوابط پر مبنی کئی تفصیلی فنون معرض وجود میں آئے دنیا کی تاریخ میں کسی اور پیغمبر یا بانی مذہب کی تعلیمات کی حفاظت کے لئے یہ اہتمام نہ کیا جاسکا یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جملہ تعلیمات کو وہ دائمیت کی شان نصیب ہوگئی ہے کہ ان کے ذریعے صورت و سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپائے جمیل آج بھی اہل ایمان کی نگاہوں کے سامنے رہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے جس بھی گوشہ و پہلو کی زیارت و معرفت مطلوب ہو اوراقِ صحائف پلٹ کر آج بھی اس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
نزولِ قرآن کے ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم کی کتابت کا بھی خاص اہتمام فرمایا، کتابت کا طریق کار حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث میں یہ بیان فرمایا ہے :
کنت أکتب الوحی لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وکان إذ انزل عليه الوحی أخذته برحاء شديدة وعرق عرقا شديدا مثل الجُمان ثم سري عنه، فکنت ادخل عليه بقطعة الکتف او کسوة فاکتب وهو يُملی علیّ فما افرغ حتی تکاد رجلی تنکسر من نقل القرآن حتی أقول لا أمشی علی رجلی أبدا فإذا فرغت قال اقرأه فأقره فان کان فيه سقط اقامه ثم اخرج به الی الناس.
1. طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 257
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 257
‘‘میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کيفیت ختم ہو جاتی، تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی (یا کسی اور چیز کا) ٹکڑا لے کر خدمت میں حاضر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا، بہرحال! جب میں فارغ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : پڑھو میں پڑھ کر سناتا، اگر اس میں کوئی فرو گذاشت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اصلاح فرما دیتے، اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے۔’’
کتابتِ وحی کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسب ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں :
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ ابن الربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ارقم الزہری رضی اللہ عنہ، حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے، چنانچہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لکھ لیا جاتا تھا، قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، اور چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے گئے ہیں۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 18
اس طرح عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قران کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگرچہ وہ کتابی شکل میں نہ تھا بلکہ متفرق حصوں پر مشتمل تھا، اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی اپنی یاد داشت کے لئے قرآن کریم کی آیات اپنے پاس لکھ لیتے تھے، اور یہ سلسلہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور سے جاری تھا جس کی شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت الخطاب اور بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے، اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر غصہ میں بھرے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ رکھا ہوا تھا، جس میں سورہ طہٰ کی آیات درج تھیں، اور حضرت خباب بن حارث رضی اللہ عنہ انہیں پڑھا رہے تھے۔
1. دار قطنی، السنن، 1 : 123
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 61
اس کے علاوہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے انفرادی طور پر اپنے پاس قرآن کریم کے مکمل یا نا مکمل نسخے لکھ رکھے تھے، مثلاً صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم نهی أن يسافر بالقرآن إلی أرض العدوّ.
بخاری، الصحيح کتاب الجهاد، باب کراهية السفر بالمصاحف، 3 : 1090، رقم : 2828
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم کو لے کر دشمن کی زمین میں سفر کرنے سے منع فرمایا۔’’
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قرأة الرجل فی غير المصحف الف درجة وقرأءته فی المصحف تضاعف علی ذلک ألفي درجة.
1. طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 221
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 7 : 165
‘‘کوئی شخص قرآن کریم کے نسخہ کو دیکھے بغیر تلاوت کرے تو اس کا ثواب ایک ہزار درجہ ہے، اور اگر قرآن کے نسخہ کو دیکھ کر تلاوت کرے تو دوہزار درجے ہے۔’’
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حفاظت قرآن کا عمل نزول قرآن کے ساتھ ہی مختلف سطحات پر شروع ہو گیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے پاس عہدِ رسالت ہی میں قرآن کریم کے لکھے ہوئے صحیفے موجود تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے وہ متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے، کوئی آیۃ چمڑے پر، کوئی درخت کے پتے پر، کوئی ہڈی پر، زیادہ مکمل نسخے نہیں تھے، کسی صحابی کے پاس ایک سورت لکھی ہوئی تھی، کسی کے پاس دس پانچ سورتیں، اور کسی کے پاس صرف چند آیات لکھی ہوئی تھیں۔
اس بناء پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہ فیصلہ کیا کہ قرآن کریم کے ان منتشر حصوں کو یک جا کر کے محفوظ کر دیا جائے، جن اسباب کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا اس کی تفصیل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یوںبیان فرمائی کہ جنگ یمامہ کے فورا بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک روز مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، میں ان کے پاس پہنچا، تو وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابھی آ کر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی، اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہوجائے، لہذا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کر دیں میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہ جو کام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہوگیا، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کتابت وحی کا کام بھی کرتے رہے ہو، لہذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کر کے انہیں جمع کرو۔’’
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنا بوجھ نہ ہوتا، جتنا جمع قرآن کے کام کا ہوا، میں نے ان سے کہا کہ آپ وہ کام کیسے کر رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اسی رائے کے لئے کھول دیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی، چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا، اور کھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 8، 13
جمع قران کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بہت ہی محتاط طریق کار اختیار فرمایا۔ وہ خود حافظ قرآن تھے، لہذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے، ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے، ان کی ایک جماعت بنا کر بھی قرآن کریم لکھا جا سکتا تھا، نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں لکھ لئے گئے تھے، حضرت زید رضی اللہ عنہ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرما سکتے تھے، لیکن انہوں نے احتیاط کے پیش نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیا اور اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے انہیں یک جا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے، چنانچہ یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کوئی آیات لکھی ہوئی موجود ہوں وہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے، اور جب کوئی شخص ان کے پاس قرآن کریم کی کوئی لکھی ہوئی آیت لے کر آتا تو وہ مندرجہ ذیل چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے :
1۔ سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے تھے۔
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حافظ قرآن تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم کے تحت وہ بھی اس کام میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، لہذا جب کوئی شخص کوئی آیت لے کر آتا تھا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ دونوں مشترک طور پر اسے وصول کرتے تھے۔ لہذا حضرت زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی توثیق فرماتے تھے۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 8، 13
3۔ کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک دو قابل اعتبار گواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ آیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی، یہ گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ یہ لکھی ہوئی آیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی گئی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی تصدیق فرما دی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطابق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے۔
سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1 : 60
4۔ اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کر رکھے تھے، اس طریق کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفاء کرنے کے بجائے بعینہ ان آیات سے نقل کیا جائے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھیں۔
1 زرکشی، البرهان فی علوم القران، 1 : 238
2. سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1 : 60
جمع قرآن کا یہی طریق کار تھاکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جب سورہ براء ۃ کی آخری آیات لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ مجھے صرف حضرت ابو خزیمہ کے پاس ملیں، تو آپ نے انہیں اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک ان کی طرف سے انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذوالشھادتین کا منصب عطا کیے جانے کا ثبوت میسر نہیں آ گیا۔ مزید برآں گو جو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لکھوائی ہوئی قرآن کریم کی متفرق آیتیں لے لے کر آ رہے تھے ان میں سے یہ آیتیں سوائے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے کسی کے پاس نہیں ملیں، مگر جہاں تک ان آیات کے جزو قرآن ہونے کا تعلق ہے یہ بات تواتر کے ساتھ سب کو معلوم تھی، اول تو جن سینکڑوں حفاظ کو پورا قرآن کریم یاد تھا، انہیں یہ آیات بھی یاد تھیں، دوسرے آیات قرآنی کے جو مکمل مجموعے مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تیار کر رکھے تھے ان میں بھی یہ آیت لکھی ہوئی تھی، لیکن چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مزید احتیاط کے لئے مذکورہ بالا ذرائع پر اکتفاء کرنے کے بجائے متفرق طور سے لکھی ہوئی آیتوں کو جمع کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا تھا، اس لئے انہوں نے یہ آیت اس وقت تک اس نئے مجموعہ میں درج نہیں کی، جب تک اس تیسرے طریقہ سے بھی وہ آپ کو دستیاب نہیں ہوگئی، دوسری آیات کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یاد ہونے اور عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکمل مجموعوں میں محفوظ ہونے کے علاوہ کئی کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے پاس الگ سے لکھی ہوئی بھی تھیں، چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی صحابہ رضی اللہ عنہ لے کر آ رہے تھے، اس کے برعکس سورہ براء ت کی یہ آخری آیات سینکڑوں صحابہ کو یاد تو تھیں، اور جن حضرات کے پاس آیات قرآنی کے مکمل مجموعے تھے ان کے پاس لکھی ہوئی بھی تھیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی میں الگ لکھی ہوئی صرف حضرت ابو خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں، کسی اور کے پاس نہیں۔
زرکشی، البرهان فی علوم القرآن : 234، 235
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کمال احتیاط کے ساتھ آیاتِ قرآنی کو جمع کر کے انہیں کاغذ کے صحیفوں پر مرتب شکل میں تحریر فرمایا۔
سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1 : 60
اس طرح ہر سورۃ علیحدہ صحیفے میں لکھی گئی، اس لئے یہ نسخہ بہت سے صحیفوں میں مشتمل تھا، اصطلاح میں اس نسخہ کو ‘‘ام‘‘ کہا جاتا ہے، اور اس کی خصوصیات یہ تھیں :
1۔ اس نسخہ میں آیات قرآنی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں، لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں، ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی۔
سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1 : 60
2۔ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے۔
زرقانی، مناهل العرفان، 1 : 246، 247
3۔ یہ نسخہ خط حیری میں لکھا گیا تھا۔
4۔ اس میں صرف وہ آیتیں درج کی گئی تھیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔
5۔ اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی اجماعی تصدیق کے ساتھ تیار ہو جائے، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لکھوائے ہوئے یہ صحیفے آپ کی حیات میں آپ کے پاس رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق انہیں ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس منتقل کر دیا گیا۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 12، 13
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا، ہر نئے علاقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تو وہ ان مجاہدین اسلام یا ان تاجروں سے قران کریم سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی، چوں کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا تھا، اور مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف قراتوں کے مطابق سیکھا تھا، اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قرات کے مطابق قرآن پڑھایا، جس کے مطابق خود اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھا تھا، اس طرح قراتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا، جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، اس وقت تک اس اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، لیکن جب یہ اختلاف دور دراز ممالک میں پہنچا، اور یہ بات ان میں پوری طرح مشہور نہ ہو سکی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، تو اس وقت لوگوں میں یہ جھگڑے پیش آنے لگے، بعض لوگ اپنی قراء ت کو صحیح اور دوسرے کی قرات کو غلط قرار دینے لگے، ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قران کریم کی متواتر قراتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوں گے، دوسرے سوائے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے ایک نسخہ کے جو مدینہ طیبہ میں موجود تھا، پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لئے حجت بن سکے، کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، اس لئے ان جھگڑوں کے تصفيہ کی کوئی قابل اعتماد صورت یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دیئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر درست اور غلط قرات کا فیصلہ کیا جاسکے۔ یہ عظیم کارنامہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں انجام پایا۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آرمینیا اور آذر بائیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے، وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قراتوں کے بارے میں اختلاف ہو رہا ہے، چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ امیر المؤمنین! قبل اس کے کہ یہ امت اللہ کی کتاب کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کا شکار ہو آپ اس کا تدارک کیجئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا بات کیا ہے؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں شامل تھا، وہاں میں دیکھا کہ شام کے لوگ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرات پڑھتے ہیں جو اہل عراق نے نہیں سنی ہوتی، اور اہل عراق عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات پڑھتے ہیں جو اہل شام نے نہیں سنی ہوتی اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی اس ضرورت کو محسوس کر چکے تھے، انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ قرآن کریم کے ایک معلم نے اپنے شاگردوں کو ایک قرات کے مطابق قرآن پڑھایا اور دوسرے معلم نے دوسری قرات کے مطابق، اس طرح مختلف اساتذہ کے شاگرد جب باہم ملتے تو ان میں اختلاف ہوتا اور بعض مرتبہ یہ اختلاف اساتذہ تک پہنچ جاتا، اور وہ بھی ایک دوسرے کی قرات کو غلط قرار دیتے، جب حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس خطرے کی طرف توجہ دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں، تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق پیش نہ آئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس رائے کو پسند کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تائید فرمائی۔
چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ تم لوگ مدینہ طیبہ میں میرے قریب ہوتے ہوئے قرآن کریم کی قراتوں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو، اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکذیب اور اختلاف کرتے ہوں گے، لہذا تمام لوگ مل کر قرآن کریم کا ایسا نسخہ تیار کریں جو سب کے لئے واجب الاقتداء ہو۔
اس غرض کے لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضي اﷲ عنھا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کے) جو صحیفے موجود ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے، ہم ان کو مصاحف میں نقل کر کے آپ کو واپس کر دیں گے، حضرت حفصہ رضي اﷲ عنھا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار صحابہث کی ایک جماعت بنائی، جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پر مشتمل تھی، اس جماعت کو اس کام پر مامور کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحیفوں سے نقل کر کے کئی ایسی مصاحف تیار کرے جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں، ان صحابہ میں سے چار حضرت زید رضی اللہ عنہ انصاری تھے، اور باقی تینوں حضرات قریشی تھے، اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا اور زید رضی اللہ عنہ کا قرآن کے کسی حصہ کے طرز تحریر میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا، اس لئے کہ قرآن کریم انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
بنیادی طور پر یہ کام مذکورہ چار حضرات ہی کے سپرد کیا گیا تھا، لیکن پھر دوسرے صحابہ کو بھی ان کی مدد کے لئے ساتھ لگا دیا گیا، یہاں تک کہ ابن ابی داود کی روایت کے مطابق ان حضرات کی تعداد بارہ تک پہنچ گئی جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ، حضرت مالک بن ابی عامر رضی اللہ عنہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 13، 15
ان حضرات نے کتابت قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام انجام دیئے۔
1۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں سورتیں مرتب نہیں تھیں، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی، ان حضرات نے تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی مصحف میں لکھا۔
حاکم، المستدرک، 2 : 229
2۔ قرآن کریم کی آیات اس طرح لکھیں کہ ان کے رسم الخط میں تمام متواتر قراتیں سماجائیں، اسی لئے ان پر نہ نقطے لگائے گئے اور نہ حرکات (زیر، زبر، پیش) تاکہ اسے تمام متواتر قراتوں کے مطابق پڑھا جا سکے، مثلاً ننشزہا لکھا، تاکہ اسے
نَنْشُزُهَا اور نُنْشِزُهَا دونوں طرح پڑھا جا سکے، کیونکہ یہ دونوں قراتیں درست ہیں۔زرقانی، مناهل العرفان، 1 : 289
3۔ اب تک قرآن کریم کا مکمل معیاری نسخہ جو پوری امت کی اجتماعی تصدیق سے مرتب کیا گیا ہو صرف ایک تھا، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کی ایک سے زائد نقلیں تیار کیں۔ ابو حاتم سجستانی رحمۃ اﷲ عليہ کا ارشاد ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سات نسخے تیار کروائے، جن میں سے ایک مکہ مکرمہ، ایک شام، ایک یمن، ایک بحرین، ایک بصرہ اور ایک کوفہ بھیج دیا گیا، اور ایک مدینہ طیبہ میں محفوظ رکھا گیا۔
4۔ اس کے لئے ان حضرات نے بنیادی طور پر تو انہی صحیفوں کو سامنے رکھا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لئے وہی طریق کار اختیار فرمایا، جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں، انہیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سر نو مقابلہ کر کے یہ نئے نسخے تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورہ احزاب کی ایک آیت {مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاهَدُو اﷲَ عَلَيْهِ} علیحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فقدت آية من الاحزاب حين نسخنا المصحف کنت أسمع رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقرأبها، فالتمسناها فوجدناها مع خزيمة بن ثابت الانصاري.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب غزوة أحد، 4 : 1488، رقم : 3823
2. عسقلانی، فتح الباری، 9 : 15
‘‘مجھے مصحف لکھتے وقت سورہ احزاب کی آیت نہ ملی جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی۔’’
گویا یہ آیت حضرت زید رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اچھی طرح یاد تھی، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو صحیفے لکھے گئے ظاہر ہے کہ یہ آیت ان میں موجود تھی، نیز دوسرے صحابہ کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی طور پر لکھے ہوئے نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی، لیکن چونکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی طرح اس مرتبہ بھی ان تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس لکھی ہوئی تھیں، اس لئے کوئی آیت ان مصاحف میں اس وقت تک نہیں لکھی گئے جب تک وہ ان تحریروں میں بھی نہ مل گئی۔ اس طرح دوسری آیتیں تو متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس علیحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں، لیکن سورہ احزاب کی یہ آیت سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہیں ہوئی۔
5۔ قران کریم کے یہ متعدد معیاری نسخے تیار فرمانے کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش کردیئے جو مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس موجود تھے تاکہ رسم الخط، مسلمہ قراتوں کے اجتماع اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہو جائیں، اور ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے، اس کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ نے تائید اور حمایت فرمائی، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لا تقولوا فی عثمان رضی الله عنه إلّا خيراً فواﷲ ما فعل الذی فعل فی المصاحف الاّ عن ملامنا.
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 18
‘‘عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی بات ان کی بھلائی کے سوا نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں اور مشورے سے کیا۔’’
ارشادِ ربانی ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَo
الحجر، 15 : 9
‘‘بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔’’
قران کی حفاظت اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک حدیث کی حفاظت نہ ہو اس لیے جب قرآن یہ کہتا ہے کہ قرآن کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے تو فی الحقیقت اس سے مرادیہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت اللہ کے ذمے ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں الذکر سے مراد قرآن ہے قرآن صرف الفاظ کا نام نہیں بلکہ الفاظ اور معانی کے مجموعے کا نام قرآن ہے۔ فقہا جب فقہ کے ماخذ بیان کرتے ہوئے قرآن پر بطور ماخذ فقہ بحث کرتے ہیں تو قرآن کی تعریف بتلاتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ قرآن نظم اور معنی دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ مسائل فقہ کا استنباط کرنے کے لیے قران کے نظم اور معنی یعنی قرآن کے الفاظ اور ان کے معانی دونوں کا لحاظ رکھنا لازمی ہے اس کے بغیر مسائل کا استنباط ممکن ہی نہیں۔
حفاظت قرانی کو اپنی ذمہ داری میں لے کر اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ قرآن کے الفاظ اور اس کے معانی دونوں من جانب اللہ ہیں، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفاظ قرآنی کو بیان کرنے والے ہیں اسی طرح معانی قرانی کو بھی صرف آپ ہی بیان فرماتے ہیں۔ نہ قرآن کے الفاظ آپ کے اپنے ہیں نہ ان الفاظ کے معانی آپ نے اپنی طرف سے متعین کر لیے، الفاظ کا نزول بھی اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوا اور معانی و مطالب کا تعین بھی اللہ تعالیٰ ہی نے فرمائی۔ یہ سب کچھ وحی الٰہی کی مدد سے ہوا : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُوحیٰ (اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ ) سے تعبیر کرتا ہے۔
اگر یہ امر مسلمہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی شخص قرآنی آیات کا صحیح مفہوم متعین کرنے کا اہل نہیں تو پھر احادیث نبوی کی حفاظت کے بغیر قرآن کی حفاظت کا تصور بے معنی ہے اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کے ساتھ ساتھ قرآن کی شرح و تفسیر یعنی حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے۔ یہ آیات دوبارہ پڑھیے :
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُo فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo
القيامة، 75 : 17، 18
‘‘بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہےo پھر جب ہم اسے (زبانِ جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔’’
قرآن کے جمع و بیان کا اللہ کے ذمہ کرم پر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ جس طرح متن قرآنی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت میں لے کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اسی طرح اس کے بیان کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کے بیان اور توضیح کے واحد مستند سرچشمے یعنی حدیث نبوی کی حفاظت کی ضمانت بھی عطا فرما دی۔
احادیثِ نبوی کی حفاظت کا جو منہج محدثین کرام نے اختیار کیا اس کی کوئی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس باب میں نہ صرف متن حدیث کو مرکز توجہ بنایا گیا بلکہ متن حدیث تک رسائی کے ذرائع کو بھی کمال اہمیت دی گئی۔ حدیث کے متن روایت کرنے والے کے بارے میں یہ قرار دیا گیا کہ اس کی یادداشت اچھی ہو وہ قوی حافظہ رکھتا ہو۔ وہ دیانت دار ہو۔ مخلصانہ سچائی پر رہتا ہو یہ قوی حفظ اور مخلصانہ سچائی ہی وہ بنیادی اصول ہیں جنہیں فن حدیث میں تعدیل کا محور قرار دیاگیا۔ بقیہ اصول انہی اصولوں کی تفصیل ہیں۔ مثلاً یہ کہ :
(1) راوی حفظ و روایت کی اعلی ملکیت کا حامل ہو۔
(2) وہ معروف ہو۔
(3) راوی مقبولیت کا حامل ہو۔
(4) راوی کے کردار پر تنقید نہ کی گئی ہو۔
(5) راوی سماجی آداب و وقار کا حامل ہو۔
روایت کی یہی اہمیت ہے کہ ثقہ طرز روایت کو صرف متن حدیث کی قابل اعتماد روایت کے لیے ہی ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ محدثین نے اسے من حیث الکل انسانی شخصیت کی شعوری صحت و سلامتی کے لیے بھی ناگزیر قرار دیا :
عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍث، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : الإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالأَرْکَانِ. قَالَ أَبُو الصَّلْتِ : لَوْ قُرِء هَذَا الإِسْنَادُ عَلَی مَجْنُوْنٍ لَبَرَأ.
1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فی الإيمان، 1 : 25، رقم : 65
2. طبرانی، العمجم الأوسط، 6 : 226، رقم : 6254
3. بيهقی، شعب الإيمان، 1 : 47، رقم : 16
‘‘حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان نام ہے دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان پر عمل کرنے کا۔ (راوی) ابو صلت ہروی فرماتے ہیں : اگر یہ سند پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے۔’’
روایت کے باب میں اختیار کردہ اُصولوں کی مختصر تفصیل یوں ہے :
راوی میں بات سننے، یاد رکھنے اور درستگی کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ کئی روایت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جو خود بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے۔ لیکن جن کے پاس روایت کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ اس بات کو پا لیتے ہیں۔ سو راوی کمزور ہونے سے مراد سننے، یاد رکھنے اور روایت کرنے میں کمزور ہونا ہے۔ اس کے لیے سمجھنے میں فقیہ ہونا ضروری نہیں۔
حدیث کا راوی جن سے روایت لے رہا ہے اور جو اس سے روایت لے رہے ہیں ان میں جانا پہچانا ہو اور راویوں میں قابل اعتماد سمجھا جائے۔ اپنے شیخ کی مجلس میں کم موجود رہنے والے سے اس شخص کی روایت کہیں زیادہ لائق اعتماد ہو گی جس نے ان سے روایت سنی اور اسے اپنے شیخ روایت کے ہاں کبھی اٹھنے بیٹھنے کا اور زیادہ موقع ملا۔ وہ راوی زیادہ قابل اعتماد سمجھا جائے جو سچا بھی ہو اور اپنے شیخ کی مجلس میں اچھی جگہ پائے ہوئے ہو۔
راوی کی ثقاہت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے وہ بات سنی، ا ن کا اس سے اتفاق رہا ہو۔ کسی نے اس کی بات سے انکار نہ کیا ہو۔ ایک شخص سے چار آدمی ایک بات سن کر گئے۔ ان میں سے ایک اس بات کو اسی طرح روایت کرتا ہے کہ باقی تین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ تو وہ شخص شاذ کا راوی یا منکر الروایۃ سمجھا جائے گا۔ کہ اس کی روایت کا انکار ثابت ہو چکا قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی روایت کا کہیں انکار نہ کیا گیا ہو وہ ہمیشہ کے لیے اپنی بات میں مطاع اور قابل قبول رہے۔
راوی غلط کار اور فسق فی العمل نہ ہو بلکہ امین ہو۔ فاسق کی روایت کمزور ہوگی اور مزید تبیین کی محتاج ہوگی۔ اسی طرح فسق فی القول اورکذاب راوی بھی نہ ہی لائق تذکرہ ہے اور نہ اس کی روایت کسی درجہ میں لائق قبول ہو گی۔
راوی روایت کے باب میں بھی سماجی آداب و وقار کو ملحوظ رکھتا ہو۔ وہ ہرکس و ناکس سے روایت کرنے کی بجائے انہی سے روایت کرے جو حفظ و ضبط میں پختہ ہوں اور امانت و دیانت کے اہل ہوں اور انہی کو روایت کرے جو اس کی بات میں کمی بیشی کرنے والے نہ ہوں۔ ایسا شخص اگر کبھی کسی غیر معروف شخص سے بھی روایت لے لے تو اس کی عام عادت کے سبب اس غیر معروف راوی کی بھی جہالۃ العین اٹھ جائے گی۔
روایت حدیث کے اصولوں کا یہ مختصر تذکرہ تاریخ علوم میں حدیث کی تدوین و روایت کے منھج کی عدیم المثلیت کو بیان کرتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved